قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٨﴾ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٣٩﴾
ہم نے کہا کہ، "تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا (38) اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے" (2:39)
قرآن خود متنبہ کرتا ہے کہ قرآن کا غلط پڑھنا گمراہی ہو سکتا ہے :
(2:26, 3:7, 17:41, 17:45-46, 17:82, 39:23, 56:79, 71:5-7).سوشل میڈیا پر بھر مار ہے کہ قرآن کا حکم ہے کہ :"یہود ونصاری سے دوستی نہ کرو، جو کرے گا وہ ان جیسا ہی ہے "
پس یہ الله کا حکم ہے . حکومت (جو بھی ہو) پاکستان سب امریکہ کے پٹھو ہیں غلام ہیں ، جبکہ اللہ نے ان کے شر سے محفوظ رہنے کے کسی مناسب طریقہ کی اجازت دی ہے- تو یہ قرآن کے خلاف کیسے ہو گیا؟
اس طرح ایک آیت سے کیا مسلمانوں اور کفر ، یہود و نصاری سے تعلقات کی پالیسی بیان ہوئی ہے؟
جی نہیں اس موضوع پر بہت آیات ہیں ان کا مجمووعی طور پر مطلب حاصل کرنا ہو گا اور سنت رسول پر بھی نذر ڈالنا ہو گی - مفتی تقی عثمانی صاحب نے قرآن 3:28 کی مختصر مدلل تفسیر میں سب کچھ بیان فرما دیا ، لیکن یہ تکفیری اور گمراہ شدت پسند کے نفسانی خواہشات کے خلاف ہے وہ کتمان حق کرکہ آدھ سچ بیان کرکہ اپنا نظریات کو قرآن سے درست ثابت کرنے کی باطل کوشش کرتے ہیں اور افسوس پڑھا لکھا طبقہ بھی ان سے پیچھے لگ جاتا ہے بغیر سوچے سمجھے-
لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ فَلَيۡسَ مِنَ اللّٰهِ فِىۡ شَىۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡهُمۡ تُقٰٮةً ؕ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفۡسَهٗ ؕوَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ ۞ ترجمہ: مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی (تقیہ) طریقہ اختیار کرو، (9) اور اللہ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔( سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 28)
تفسیر:
”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (۶۰: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (۶۰: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اوراقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ (آسان قرآن، مفسر: مفتی محمد تقی عثمانی)
دو نقط بہت اہم ہیں
1. الله تعالی کا فرمان کیا ہے یہود و نصاری اور کفار کے ساتھ تعلقات کی کیا نوعیت ہو؟
2.موجودہ دور میں مسلمان حکمرانوں کا کیا رویہ ہوں چاہییے ؟
جب نطقہ نمبر 1 پر غور کریں تو یہ قرآن کی تعلیمات سے متعلق ہے جس کی مزید تفصیل سنت رسول اللہ ﷺ سے ملتی ہے- تکفیری اور گمراہ لوگ قرآن کی آیات چن چن کر جو صرف ان کے شدت پسند نظریات کو سپورٹ مل سکے ان کو پیشہ کرتے ہیں تو وہ باقی آیات چھوڑ دیتے ہیں یہ دھوکہ ہے کتمان حق ہے - جب دین کی تعلمیات یا پالیسی بیان کریں تو مکمل کرنا ہو گی طور مروڑ کر پیش کرنا گمراہی ہے- یہی تکفیری طالبان اور اسلام دشمن اسلامو فوبز کا رویہ طریقہ ہے وہ آیات سورہ توبہ نبر ٩ . جسے تلوار آیت کہ جاتا ہے پیش کرتے ہیں کہ "
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ
جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ (التوبہ آیت ٤)
یہ نامکمل آیت سیاق و سبا ق سے ہت کر ہے جوکہ جنگ کے متلعق ہے نہ کہ یہ کہ ہر وقت تلوار پکڑ کر کفار کو قتل کرو - جیسا کہ اسلامو فوب کہتے ہیں-
مگر ہمارے تکفیری نام نہاد جہادی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار بھی یہی کہتے ہیں٠ پنڈی سے اببٹ آباد جاتے ٢٠٠٢ میں نے *خود یہ آیت نعرہ کی شکل میں راستہ میں مساجد اور دیواروں پر پڑھی* --- جو کہ میرے اسلام اور قرآن کے گہرے سٹڈی اور تحقیق کا سبب بنی-
آج اکیس سال بعد الحمد الله تعالی دین کی کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہو چکی ہے کہ حق اور باطل ، سچ اور جھوٹ ، قرآن اور تحریف ، کتمان حق میں فرق محسوس کر سکتا ہوں-
لیکن اب بھی سورہ المائدہ کی جو آیات ریفر کی گین وہ آج بھی سوشل میڈیا پر خوب مزے لے کر سیاسی مخالفین یا حکومت (کوئی بھی حکومت) کے خلاف بیان کی جا سکتی ہیں- کتمان حق . جھوٹ سچ مکس - کیا کوئی بھی حکومت ہو وہ قرآن کی آیات نبر ٢٨ سورہ ال عمران کی روشنی میں نصاری یا امریکہ کے شرعی سے بچنے کے لیے (ءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ) عام تعلقات قائم نہیں کر سکتی؟ جبکہ قرآن ان سکے شرعی سے بچنے کی یہ گنجائش ، سہولت دیتا ہے! تو یہ تکفیری اور کون لوگ ہیں جو قرآن کی سہولت کو چھپا تے ہیں . کتمان حق کرتے ہیں؟
کسی بھی حکومت کی پا لیسیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے یہ سیاسی اختلاف ہے مگراس میں جھوٹ، غلط بیانی سے یہ ثابت کرنا کہ یہ لوگ قرآن کے خلاف جا رہے ہیں جبکہ دسری آیت (٣:٢٨) حکمرانوں کو سہپولت . اجازت دے رہی ہو؟
مفتی تقی عثمانی صاحب نے مختصر مگر مفصل بیان فرمادیا- امید ہے کہ کتمان حق نہیں ہو گا بلکہ سوشل مڈیا پر اس جھوٹ کو بے نقاب کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے- الله تعالی ہم کو توفیق دے
.2. موجودہ دور میں مسلمان حکمرانوں کا کیا رویہ ہوں چاہییے ؟
پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ( Geostrategic policy ) کیا سڑکوں پر بنے گی یا حکومت کے اداروں میں ؟
اس پر سیاسی ، معاشی گفتگو ہو سکتی ہے اور ہونا چاہیے- لیکن موجودہ حالات کے مطابق - اگر کسس کو علم نہیں یا معلومات نہیں تو حاصل کی جاسکتی ہیں - اور ڈسکس کیا جا سکتا ہے-
قرآن اور احادیث کی سلیکشن ، کچھ چھپاؤ کچھ بتا وو -- دین کے ساتھ کھلواڑ ہے جس کا حصہ کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا - یہ احقر اپنی زندگی قرآن اور دین اسلام کی خدمت میں وقف کر چکا ہے اور حق کی آواز بلند کرتا رہے گا اگرچہ دوستوں کو نہ گوار گزرے - امید ہے کہ وہ اس کو مثبت انداز میں لیں گے اورحق کی آواز بلند کرنے میں ساتھ کھڑے ہوں گے- ان شاء الله تعالی