رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

قرآن سے ہدایت اور گمراہی

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ‎﴿٣٩﴾

ہم نے کہا کہ، "تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا (38) اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے" (2:39)

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ معراج کی رات میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میں نے کہا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے خطیب حضرات ہیں، جن کے قول و فعل میں تضاد تھا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 4801) جب کوئی مسلمان حدیث یا قرآن شیر کرتا ہےتو خطیب ہی بن جاتا ہے۔ اگر کسی خاص موضوع پر صرف ایک ہی آیت یا حدیث مطلب واضح کرتی ہے تو شیئر کریں لیکن اگر کسی خاص موضوع (SUBJECT) پر اور مختلف آیات و احکام بھی ہوں تو سب کا جامعہ خلاصہ یا ساری آیات و احادیث شئیر کریں ورنہ آپ "کتمان حق" کے گناہ کبیرہ پر جہنم کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ (واللہ اعلم)

 قرآن خود متنبہ کرتا ہے کہ قرآن کا غلط پڑھنا گمراہی ہو سکتا ہے :

(2:26, 3:7, 17:41, 17:45-46, 17:82, 39:23, 56:79, 71:5-7).
یہ اپنے غلط پڑھنے والوں کو کم از کم تین طریقوں سے گمراہ کر سکتا ہے۔
سب سے پہلے، یہ گمراہ ہو سکتا ہے جب ہم قرآن کے بعض پیغامات کو ان کی تاریخی ترتیبت سے باہر لے جاتے ہیں۔ جیسے تلوار کی آیات ( 9:5 sword verse) اور قرآن میں قانونی ضابطہ اس کی ممکنہ مثالیں ہیں۔ قرآن کا پڑھنا اس وقت گمراہ ہو سکتا ہے جب ہم اس کے پیغامات کو مکمل طور پر پڑھنے میں ناکام رہتے ہیں اور اس لیے ان کو باہمی ربط کے ایک جھرمٹ میں سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب ہم جلد بازی میں پڑھتے ہیں یا کسی متن کو اس کے مقامی اور کل سیاق و سباق سے الگ کرتے ہوئے اپنی سمجھ کے بارے میں سختی سے محسوس کرتے ہیں اور اس طرح تمام ارتباطات اور دیگر تمام ممکنہ تشریحات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ تیسرا، جب ہم غیر لفظی پیغامات کو لفظی طور پر پڑھتے ہیں تو قرآن کا پڑھنا گمراہ ہو سکتا ہے۔ مابعد الطبیعاتی مضامین جیسے جنت اور جہنم کی قرآنی وضاحتیں اور اسلاف کی دوبارہ بیان کردہ تمثیلیں اس سلسلے میں اہم مثالیں ہیں۔ قرآنی پیغامات کو پڑھنا جہاں آسان عام فہم ہے وہیں گہرائی ، فکر سے پڑھنا، کسی تجریدی آرٹ کے پیچیدہ فن پاروں کو سمجھنے کی کوشش کے مترادف ہے جیسے کہ "موریتس کورنیلیس ایسچر" ایک ڈچ گرافک آرٹسٹ تھا جس نے ریاضی سے متاثر لکڑی کے کٹے، لتھوگراف اور میزوٹینٹس بنائے لامحدودیت کی عکاسی کے جنون میں، وہ اوورلیپنگ (overlapping)، متعدد امیجز پر مشتمل ہوتے ہیں، اکثر ٹیسلیشن اور دہرائے جانے والے پیٹرن کے ساتھ، ایک دوسرے کے اندر جڑے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی آپ ایک تصویر دیکھتے ہیں، کبھی دوسری، اور پھر دوسری، اور پھر آپ یہ دیکھ کر پوری طرح مسحور ہو جاتے ہیں کہ کس طرح وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعامل کرتے ہوئے، کسی بڑی، بڑی اور اس سے بھی بڑی چیز کی شکل اختیار کر کے حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ سادہ ٹکڑوں سے بنا، ہاں، قرآن کے بنیادی پیغامات سادہ، لیکن ماورائی، طاقتور اور شاندار خوبصورت ہیں، بشرطیکہ انہیں صاف ذہن اور صحیح فہم کے ساتھ پڑھا جائے۔ قرآن نے نشانیاں، علامات، اشارے اور نشانیاں دی ہیں، انہیں قاری کے ذاتی غور و فکر اور تجزیہ پر چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح، کافی حد تک، قرآن قاری کے اپنے چہرے کا آئینہ دار ہے۔ لوگوں کو کسی نہ کسی طرح اس میں وہ چیز مل سکتی ہے جو وہ ڈھونڈتے ہیں، جو ان کے ذاتی میک اپ، نقطہ نظر اور ارادے کے لحاظ سے انہیں اعلیٰ سطح پر لے جا سکتے ہیں یا گمراہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ان لوگوں کے لیے غلط فہمی میں کیوں چھوڑا ہے جو اسے غلط پڑھتے ہیں، اور کیوں "وہ اس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، اور اس کے ذریعے بہتوں کو ہدایت دیتا ہے"، یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس سلسلے میں، قرآن کا اپنا جواب معلوم ہوتا ہے: "لیکن وہ اس سے بدکاروں کے علاوہ کبھی گمراہ نہیں کرتا۔
قرآن کی آیات کو اپنے بیانیہ ، سیاسی مقاصد کے لے توڑ مروڑ کرپیش کرنا جہالت نہیں تحریف قرآن ہے جس کی سزا جہنم میں ٹھکانہ ہی ہے
جہالت آلودگی کی سطح جیسی بے مثال سطح پر پہنچ چکی ہے۔ AQI (ایئر کوالٹی انڈیکس) 100 یا اس سے نیچے کی قدروں کو عام طور پر تسلی بخش سمجھا جاتا ہے۔ جب AQI کی قدریں 100 سے اوپر ہوتی ہیں تو ہوا کا معیار غیر صحت بخش ہوتا ہے۔ اسی طرح IQI (جہالت کوالٹی انڈیکس، میری اصطلاحات) ہمارے درمیان 1000 سے زیادہ ہے اور عروج پر ہے۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ ہمارے حالات میں تعلیمی ڈگریوں کا جہالت پر کوئی اثر نہیں ہے، کیونکہ جہالت کی خوراک ہمارے ذہنوں میں مذہب کی سرنج کے ذریعے منظم طریقے سے داخل کی جاتی ہے جس کا عقل کے استعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یقیناً اللہ کے نزدیک جانوروں میں سب سے بدتررین بہرے، گونگے، عقل سے کام نہ لینے والے لوگ ہیں۔ (قرآن 7:22)
Ignorance has reached unprecedented level like pollution level. AQI (Air Quality Index) values at or below 100 are generally thought of as satisfactory. When AQI values are above 100, air quality is unhealthy. Similarly the The IQI ( Ignorance Quality Index, my terminology) is over 1000 among us and on the rise... Please note that education Degrees have no bearing on ignorance ,in our situation, because the dose of ignorance is injected in our minds through syringe of Religion systematically which has nothing to do with use of intellect. Though Allah says: Surely the vilest of animals, in Allah's sight, are the deaf, the dumb, people who do not use intellect (reason). (Quran 7:22)
The Most Misinterpreted Verses of Quran

سوشل میڈیا پر بھر مار ہے کہ قرآن کا حکم ہے کہ :"یہود ونصاری سے دوستی نہ کرو، جو کرے گا وہ ان جیسا ہی ہے "

پس یہ الله کا حکم ہے . حکومت (جو بھی ہو) پاکستان سب امریکہ کے پٹھو ہیں غلام ہیں ، جبکہ اللہ نے ان کے شر سے محفوظ رہنے کے کسی مناسب طریقہ کی اجازت دی ہے- تو یہ قرآن کے خلاف کیسے ہو گیا؟

اس طرح ایک آیت سے کیا مسلمانوں اور کفر ، یہود و نصاری سے تعلقات کی پالیسی بیان ہوئی ہے؟

جی نہیں اس موضوع پر بہت آیات ہیں ان کا مجمووعی طور پر مطلب حاصل کرنا ہو گا اور سنت رسول پر بھی نذر ڈالنا ہو گی - مفتی تقی عثمانی صاحب نے قرآن 3:28 کی مختصر مدلل تفسیر میں سب کچھ بیان فرما دیا ، لیکن یہ تکفیری اور گمراہ شدت پسند کے نفسانی خواہشات کے خلاف ہے وہ کتمان حق کرکہ آدھ سچ بیان کرکہ اپنا نظریات کو قرآن سے درست ثابت کرنے کی باطل کوشش کرتے ہیں اور افسوس پڑھا لکھا طبقہ بھی ان سے پیچھے لگ جاتا ہے بغیر سوچے سمجھے-

لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ فَلَيۡسَ مِنَ اللّٰهِ فِىۡ شَىۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡهُمۡ تُقٰٮةً  ؕ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفۡسَهٗ‌ ؕوَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ ۞ ترجمہ: مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی (تقیہ) طریقہ اختیار کرو، (9) اور اللہ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔( سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 28)

تفسیر: ”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (۶۰: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (۶۰: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اوراقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ (آسان قرآن، مفسر: مفتی محمد تقی عثمانی)

دو نقط بہت اہم ہیں 

1. الله تعالی کا فرمان کیا ہے یہود و نصاری اور کفار کے ساتھ تعلقات کی کیا نوعیت ہو؟ 

2.موجودہ دور میں مسلمان حکمرانوں کا کیا رویہ ہوں چاہییے ؟


جب نطقہ نمبر 1 پر غور کریں تو یہ قرآن کی تعلیمات سے متعلق ہے جس کی مزید تفصیل سنت  رسول اللہ ﷺ  سے ملتی ہے- تکفیری اور گمراہ لوگ قرآن کی آیات چن چن کر جو صرف ان کے شدت پسند نظریات کو سپورٹ مل سکے  ان کو پیشہ کرتے ہیں تو وہ باقی آیات چھوڑ دیتے ہیں یہ دھوکہ ہے کتمان حق ہے - جب دین کی تعلمیات یا پالیسی بیان کریں تو مکمل کرنا ہو گی طور مروڑ  کر پیش کرنا گمراہی ہے- یہی تکفیری طالبان اور اسلام دشمن اسلامو فوبز کا رویہ طریقہ ہے وہ آیات سورہ توبہ نبر ٩ . جسے تلوار آیت کہ جاتا ہے پیش کرتے ہیں کہ " 

فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ

جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ (التوبہ آیت ٤)

یہ نامکمل آیت سیاق و سبا ق سے ہت کر ہے جوکہ جنگ کے متلعق ہے نہ کہ یہ کہ ہر وقت تلوار پکڑ کر کفار کو قتل کرو - جیسا کہ اسلامو فوب کہتے ہیں-

مگر ہمارے تکفیری  نام نہاد جہادی دہشت گرد اور ان کے  سہولت کار بھی یہی کہتے ہیں٠ پنڈی سے اببٹ آباد جاتے ٢٠٠٢ میں نے  *خود یہ آیت نعرہ کی شکل میں راستہ میں مساجد اور دیواروں پر پڑھی* --- جو کہ میرے اسلام اور قرآن کے گہرے سٹڈی  اور تحقیق کا سبب بنی- 

آج اکیس سال بعد الحمد الله تعالی دین کی کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہو چکی ہے کہ حق اور باطل ، سچ اور جھوٹ ، قرآن اور تحریف ، کتمان حق میں فرق محسوس کر سکتا ہوں- 

لیکن اب بھی سورہ المائدہ کی جو آیات ریفر کی گین وہ آج  بھی سوشل میڈیا پر خوب مزے لے کر سیاسی مخالفین یا حکومت (کوئی بھی حکومت) کے خلاف بیان کی جا سکتی ہیں- کتمان حق . جھوٹ سچ مکس - کیا کوئی بھی حکومت ہو وہ قرآن کی آیات نبر ٢٨ سورہ ال عمران کی روشنی میں نصاری یا امریکہ کے شرعی  سے بچنے کے لیے (ءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ) عام تعلقات قائم نہیں کر سکتی؟ جبکہ قرآن ان سکے شرعی  سے بچنے کی یہ گنجائش ، سہولت دیتا ہے! تو یہ تکفیری اور کون لوگ ہیں جو قرآن کی سہولت کو چھپا تے ہیں . کتمان حق کرتے ہیں؟ 

کسی بھی حکومت کی پا لیسیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے یہ سیاسی اختلاف ہے  مگراس میں جھوٹ، غلط بیانی سے یہ ثابت کرنا کہ یہ لوگ قرآن کے خلاف جا رہے ہیں جبکہ دسری آیت (٣:٢٨) حکمرانوں کو سہپولت . اجازت دے رہی ہو؟

مفتی تقی عثمانی صاحب نے مختصر مگر مفصل بیان فرمادیا- امید ہے کہ کتمان حق نہیں ہو گا بلکہ سوشل مڈیا پر اس جھوٹ کو بے نقاب کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے- الله تعالی ہم کو توفیق دے 


.2. موجودہ دور میں مسلمان حکمرانوں کا کیا رویہ ہوں چاہییے ؟

پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ( Geostrategic policy ) کیا سڑکوں پر بنے گی یا حکومت کے اداروں میں ؟ 

اس پر سیاسی ، معاشی گفتگو ہو سکتی ہے اور ہونا چاہیے- لیکن موجودہ حالات کے مطابق - اگر کسس کو علم نہیں یا معلومات نہیں تو حاصل کی جاسکتی ہیں - اور ڈسکس کیا جا سکتا ہے- 

قرآن اور احادیث کی سلیکشن ، کچھ چھپاؤ کچھ بتا وو -- دین کے ساتھ کھلواڑ ہے جس کا حصہ کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا - یہ احقر اپنی زندگی قرآن اور  دین اسلام کی خدمت میں وقف کر چکا ہے اور حق کی  آواز بلند کرتا رہے گا اگرچہ دوستوں کو نہ گوار گزرے - امید ہے کہ وہ اس کو مثبت انداز میں لیں گے اورحق کی آواز بلند کرنے میں  ساتھ کھڑے ہوں گے- ان شاء الله تعالی 



قرآن سے ہدایت اور گمراہی  https://bit.ly/Gumrahi


☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly