رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

رسول اللہ ﷺ کی الوداعی وصیت، حکم (ابی داوود 4607, ترمزی 2676، ماجہ 42، 43) کا انکار

 

ایک بہت اہم حدیث جوکہ "منکر حدیث" کو بے نقاب کر دیتی ہے-  کیونکہ اگر وہ اس حدیث کو قبول کرتے ہیں تو، وہ حدیث کی کتب کی تحریرو تالیف پر پابندی کے بارے میں سنت رسول اللہ ﷺ اورسنت خلفاء راشدین پر عمل کرنے کے  پابند ہیں، مگر وہ ایسا نہیں کرتے یا اس  حدیث پر خاموش ہوجاتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ "کتب حدیث" کی پابندی کو عملی طور پر قبول نہیں کرتے (حدیث کا حفظ، بیان و سماع مستحب ہے) اس حدیث کے مسترد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نافرمان ہیں، اور جو  رسول اللہ ﷺ  کی نافرمانی کرتے ہیں وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ ایک بدعت کو قبول کرنے سے انحراف، انکار اور گمراہی میں داخل جاتے ہیں- مسلمانوں کو عقل و دانش کا استعمال کرتے ہوے مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونا لازم ہے جس کے لیے الله تعالی  اور رسول اللہ ﷺ کی مکمل اطاعت لازم ہے پھر ہم اللہ سے رحمت کی امید رکھ سکتے ہیں:

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (قرآن:3:132)
 الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ، قَالاَ أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ ‏{‏ وَلاَ عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ‏}‏ فَسَلَّمْنَا وَقُلْنَا أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ ‏.‏ فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ ‏”‏ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا , عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‏”‏

[رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ4607 ، الأربعون النووية وَاَلتِّرْمِذِيُّ 2676] وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)

مفھوم/ خلاصہ : 4607 اَلتِّرْمِذِيُّ 2676 سنن ابی داود، ابن ماجہ 42، 43

---- عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا :

ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے ، پھر ایک شخص نے عرض کیا :

اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ ٤٣)

” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے [ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)]

الله تعالی کا فرمان ہے :

لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ(قرآن:‎(8:42

تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً اللہ  سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن : ‎(8:42

تجزیہ 

" کتاب حدیث کی ممانعت" ہے ، حدیث لکھنے کو نجی نوٹس کی حیثیت سے ممنوع قرار نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو ضعیف حافظے کی وجہ  انفرادی طور پر لکھنے کی  اجازت دی۔ تاہم یہ اجازت اس مخصوص شخص کے لیے ہی مخصوص تھی عام اجازت نہیں تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ابوہریرہ ، عبد اللہ بن مسعود ، عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن عمر، ابی سعد خدری اور بہت سارے دوسرے صحابہ کو اجازت نہیں دی۔ ان متقی صحابہ نے کبھی بھی  رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی یہاں تک کہ ان کی موت تک ، انہوں نے حدیث نہیں لکھی بلکہ حفظ کرنے کے بعد ہزاروں احادیث کو زبانی بیان کیا۔ اگر بعد میں لکھنے کی عام اجازت ہوتی تو یہ متقی صحابہ اس تبدیل شدہ پالیسی سے واقف ہوتے اور ہزاروں احادیث کو حفظ کرنے کے تردد اور تکلیف نہ اٹھاتے۔

 رسول اللہ ﷺ  کے بعد ، ان کے خلفاء کے تسلسل میں اگلے چارخلفاء راشدین ہیں۔  رسول اللہ ﷺ  نے قرآن کو دو کوروں (جلد) کے درمیان جکڑی ہوئی کتاب کے طور پر نہیں چھوڑا۔ یہ خلفاء راشدین کی سنت ہے کہ قرآن کی کتابٹ کا احتمام کیا اگرچہ ابتدا میں خلیفہ اول کہتے کہ جو کام  رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا، ایک نئی چیز ہونے کی وجہ سے قرآن کو جمع کرنے سے بھی گریزاں تھنے ۔ ان میں سے کسی خلیفه راشد نے حدیث کی کتابیں لکھنے کا انتظام نہ کیا ، حتی کہ تیسرے خلیفہ کے ذریعہ قرآن مجید کی تدوین کے بعد بھی ، حدیث کی کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ یہ  ہے خلفاء راشدین کی اجماع کی سنت جس کی طرف  رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی -

"حدیث کتابت ممنوع" کے بارے میں واضح احادیث موجود ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی وجہ صرف یہی تھی کہ: 

"کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔" [@]

یہ ایک مستقل واحد وجہ ہے جو رسول اللہ ﷺ  نے  بیان فرمائی دوسری تمام وجوہات جیسے کہ کتب میں بیان کیا جاتا ہے:

"شروع میں لوگ قرآن اور حدیث کے فرق کو محسوس نہ کر سکتے تھے تو حدیث لکھنے پر پابندی لگائی گیی بعد میں یہ ختم کر دی گیی".

یہ   من گھڑت جھوٹ ہے تہمت ہے جو کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے ایسا کوئی فرمان جاری کیا ہو- یہ جھوٹ  نہ جانے کب اور کس نے گھڑ کر پھیلا دیا اور علماء اور محدثین صدیوں سے اس کو لکھے جاتے ہیں-  رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ پر دوزخ کی آگ  ہے- 

خلیفہ عمر بن خطاب نے تفصیلی غور و فکر کے بعد استغفار، استخارہ  کر کہ اللہ سے رہنمائی حاصل کی ، اور حدیث کی کتابیں نہ لکھنے کا فیصلہ کیا، تاکہ پچھلی امتوں کی طرح مسلمان بھی قرآن کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جائیں- تمام خلفاء راشدین نے اس پر عمل کیا- اور یہ کئی صدیوں تک جاری رہا- احدیث حفظ کرکہ بیان و سماء سے نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں - پھر تیسری صدی میں مشور کتب احدیث لکھی گیئں جو کو عوام نے قبول نہ کیا اور دو صدی کے بعد 464 حجرہ  / 1047 عیسوی میں نیشا پور کے تعلیمی ادارہ میں البخاری کوسر عام  پڑھا گیا - اب حدیث کی   75 کتب ہیں اور قرآن طاق میں محفوظ ہے تلاوت اور ثواب کے لیے-


تضاد  Paradox

یہ بہت عجیب بات ہے کہ ایک طرف ان کا ایمان  ہے کہ  احادیث  وحی (غیرمتلو) ہے (اس کا قرآن و حدیث میں ذکر نہیں قرانی آیت کو سیاق و سبق سے الگ کرکہ مطلب نکالا گیا ہے ، تفصیل ویب سائٹ پر ) اور دوسری طرف اس حدیث کا  عملی انکار بھی کرتے ہیں، تو کیا وحی (غیرمتلو) کا انکار ہوا - [اسلام میں جو بھی وحی  کا انکار کرتا ہے وہ اسلام کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔]

اگر حدیث وحی (غیرمتلو) نہیں بھی تب بھی یہ رسول (ﷺ) کا حکم ہے اس کا انکار کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا -اگر وہ اس حدیث (ابی داؤد 4607) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ایمان لاتے ہیں اوررسولﷺ  کی اطاعت کرتے ہیں تو انہیں حدیث کی کتاب لکھنے کے خلاف  خلفاء راشدین کے متفقہ فیصلے/ سنت کو قبول کرنا ہوگا۔ یہ ان کا خود ساختہ تضاد ہے ، وہ صرف اس حدیث (داؤد 4607) کو قبول کر کے اس تضاد سے نکل سکتے ہیں ، بغیر کسی اگر ، مگر کے ، اس طرح رسول اللہ(ﷺ) ، خلفا راشدین  (رضی اللہ عنہ) کی اطاعت کرتے ہوئے اور بدعة  کو ترک کر سکتے ہیں۔

لیکن وہ دوسرا انکار بھی کے رہے ہیں کہ  دین میں  نئی  بدعة ایجاد کر رہے ہیں- رسول  (ﷺ) نے  کوئی مجلد کتاب نہ چھو ڑی اور خلفا راشدین نے صرف قرآن مدون کیا - تو اس کے بعد دین میں کوئی کتاب یا کتب شامل کرنا کھلم کھلا  بدعة ہے- جو کچھ لوگوں کو کمزور حافظہ پر لکھنے کی اجازت تھی وہ ذاتی نوٹس تھے کسی صحابی نے ممانعت کے بعد کتاب نہ لکھی، پہلی کتاب دوسری صدی حجرہ میں لکھی گیی- ان کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں انکار رسول (ﷺ)  یا انکار بدعة!

--------------

 نبی کریم  ﷺ  نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی۔(بخاری: حدیث 5022)

 رسول اللہ ﷺ  نے قرآن کے سوا  کوئی وحی نہیں چھوڑی [ صحیح بخاری حدیث: 5019] 

نوٹ : ویب لنک وزٹ کریں تو مترجم نے بریکٹ میں (وحی متلو) لکھا ہے پھر بعد میں بغیر بریکٹ کے "وحی متلو" لکھا ہے جبکہ اصل عربی متن میں لفظ  "تَرَكَ"  استعمال ہوا ہے جو کہ اوپر عربی متن میں نمایاں کیا گیا ہے- "تَرَكَ"  کا مطلب "چھوڑنا" ہے - اردو میں "ترکہ" وفات کے بعد چھوڑے گیی اشیا کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کہ عربی سے ماخوز ہے- ترجمہ میں "وحی" کا استعمال تو مناسب ہو سکتا ہے مگر "وحی متلو" ایک بدعت  ہے، یہ لفظ نہ تو قرآن میں نہ ہی کسی حدیث میں استعمال ہوا ، صدیوں بعد کی ایجاد، بدعت ہے- کیا یہ تحریف نہیں ہے؟

  • قرآن: واحد وحی- فرمان علی ؓ 
  • حضرت علی ؓ  کے پاس قرآن ، حدیث کی کتاب نہیں 
  • قران :  نبی ﷺ کا معجزہ 
  • ہدایت کے لئے قرآن پر قائم رہو: ابوبکر(رضی الله )
  • قرآن کے علاوہ ھدایات نہیں گمراہی 

ابوجحیفہ ؓ نے بیان کیا کہ  میں نے علی ؓ سے پوچھا ‘ آپ حضرات  (اہل بیت)  کے پاس کتاب اللہ کے سوا اور بھی کوئی وحی ہے؟ آپ نے اس کا جواب دیا۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو  (زمین)  چیر کر  (نکالا)  اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں  (جو قرآن میں نہ ہو)  البتہ سمجھ ایک دوسری چیز ہے ‘ جو اللہ کسی بندے کو قرآن میں عطا فرمائے  (قرآن سے طرح طرح کے مطالب نکالے)  یا جو اس ورق میں ہے۔ میں نے پوچھا ‘ اس ورق میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ دیت کے احکام اور قیدی کا چھڑانا اور مسلمان کا کافر کے بدلے میں نہ مارا جانا  (یہ مسائل اس ورق میں لکھے ہوئے ہیں اور بس) ۔ [صحیح بخاری, حدیث نمبر: 3047]

ابوحجیفہ کہتے ہیں کہ  میں نے علی ؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی  (اور بھی  )  کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔(بخاری: 111)

قرآن کا علم اورعمل راہ ھدائیت 

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا اور پھر اس چیز کی پیروی کی جو اس (کتاب اللہ) کے اندر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں گمراہی سے ہٹا کر راہ ہدایت پر لگائے (یعنی اس کو ہدایت کے راستہ پر ثابت قدم رکھے گا اور گمراہی سے بچالے گا) اور قیامت کے دن اس کو برے حساب سے بچالے گا ( یعنی اس سے مواخذہ نہیں ہوگا)

ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي) 20۔ طہ  123) ترجمہ  جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔  (رزین)  (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 185)     


ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا   انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں  (یعنی معجزات)  نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا  (آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ)  انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمارمیں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔  [ بخاری: 7274]


انس بن مالک ؓ نے خبر دی کہ  انہوں نے عمر ؓ سے وہ خطبہ سنا جو انہوں نے وفات نبوی کے دوسرے دن پڑھا تھا، جس دن مسلمانوں نے ابوبکر ؓ سے بیعت کی تھی۔ عمر ؓ رسول اللہ  ﷺ  کے منبر پر چڑھے اور ابوبکر ؓ سے پہلے خطبہ پڑھا پھر کہا: امابعد! اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے وہ چیز  (آخرت)  پسند کی جو اس کے پاس تھی اس کے بجائے جو تمہارے پاس تھی یعنی دنیا اور یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین و سیدھا راستہ بتلایا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا۔ [ بخاری: 7269]

حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: 

’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)


اختلافات میں سنت  رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا حکم  

رسول اللہ ﷺ کی الوداعی اہم وصیت 

مندرجہ بالا احادیث سے قرآن کی اہمیت اور راہ ھدایت واضح ہو جاتی ہے-اس حقیقت کو خلفاء راشدین سے زیادہ کون  جانتا ہو گا؟ جو کہ رسول ﷺ کے قریب ترین عزیز، دوست اورخاص ساتھی تھے- رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد اختلافات میں ان کو فیصلوں کا اختیار دیا، جن سے انکاررسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی ہے جو کہ الله کی حکم عدولی ہے-

مزید مطالعہ کریں :

  1. احادیث لکھنے کی ممانعت
  2. وحی متلو اور غیر متلو کی حقیقت
  3. خلفاء راشدین نے  کتابت  حدیث کیوں نہ کی؟ 
  4. Caliph Umer & Hadith
  5. مسلمان بھی یہود و نصاری کے نقش قدم پر
  6. قرآن و حدیث اور" توریت و تلمود" موازنہ

     أَطِيعُوا اللَّهَ والرَّسُولَ ﷺ

     🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


    الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

    آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

    [1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

    [2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

    [3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

    [4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

    یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

    [5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

    لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

    حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

    کلام الله، قرآن کو اس کی اصل حیثیت کے مطابق ترجیح کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کی اہمیت نہیں- “تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) سے بھی محبت رکھتا ہے لیکن حقیقی محبت کا اظہار اطاعت  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث” کی ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیارکے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُو) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر) وضع موجود  (statues-que) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیارکے مطابق علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ درست احادیث کی ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں- جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے-

    https://bit.ly/Tejdeed-Islam

    http://SalaamOne.com/Revival

    https://Quran1book.blogspot.com

    https://Quran1book.wordpress.com

    https://twitter.com/SalaamOne

پوسٹ لسٹ