رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :- تم لوگ ٹھیک پہلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلو گے یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس کر رہو گے۔کسی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! پہلی امتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاری ہیں ؟ ارشاد فرمایا تو اور کون؟ (صحیح بخاری ، 3456)
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یَشۡتَرُوۡنَ الضَّلٰلَۃَ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَضِلُّوا السَّبِیۡلَ ﴿ؕ4:44﴾
کیا تم نے نہیں دیکھا؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصّہ دیا گیا ہے وہ گُمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ ۔ ﴿ؕ4:44﴾
علماء اہل کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ” انہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو انہوں نے کتاب الہٰی کا ایک حصہ گم کر دیا تھا ۔ پھر جو کچھ کتاب الہٰی میں سے ان کے پاس موجود تھا اس کی روح اور اس کے مقصد و مدعا سے بھی وہ بیگانہ ہو چکے تھے ۔ ان کی تمام دلچسپیاں لفظی بحثوں اور احکام کے جزئیات اور عقائد کی فلسفیانہ پیچیدگیوں تک محدود تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دین کی حقیقت سے ناآشنا اور دینداری کے جوہر سے خالی تھے ، اگرچہ علماء دین اور پیشوایان ملت کہے جاتے تھے- (تفہیم القران) پھر یہود نے انہوں نے 38 جلد کی تلمود اور نصاری نے انجیل کے ساتھ 23 کتب لکھ کر رہی کسر بھی نکال اور کتاب اللہ کو پس پشت دال دیا- یہودیوں کے مولوی کتاب اللہ میں تحریف کرتے تھے ان کی اسی تحریف کو پہلے اَلضَّلٰلَۃ سے تعبیر فرمایا۔ علماء یہود اپنے ماننے والوں اور اپنے معتقدین سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرتے اور اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں لفظی اور معنوی تحریفیں کیا کر تھے-
باوجود اس کے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی تاکید سے یہ حکم دیا ہے کہ وہ اللہ و رسول کے دشمنوں کی پیروی نہ کریں ، وہ اسی صراط مستقیم پر قائم رہیں جو اللہ تعالی کا پسندیدہ راستہ اور اس تک پہنچنے کا آسان ذریعہ ہے جو اللہ تعالی کے محبوب بندوں کا راستہ ہے :
[وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ] {الأنعام:153}
” اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے ، سو اسی پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ تعالی کی راہ سے جدا کردیں گی ،
نیز فرمایا : [ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ] {الجاثية:18}
” پھر ہم نے آپ کو دین کی راہ پر قائم کردیا سو آپ اسی پر جمے رہیں اور نادانوں کی خواہش کی پیروی نہ کریں ”
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی اس شمار انہیں لوگوں میں ہوگا { سنن ابو داود }
اور فرمایا :
جہاں تک ہوسکے شیطان کے چیلوں کی مخالفت کرو { الطبرانی الاوسط }
ان تمام تاکیدات کے باوجود امت کا ایک طبقہ شیطان کی پیروی اور نفسانی خواہشات کی غلامی میں صراط مستقیم سے ہٹ کر اللہ ورسول کے دشمنوں کی راہوں پر چل چکا ہے جن سے دور رہنے کی اللہ اور اس کے رسول نے تاکید فرمائی تھی ، حتی کہ اللہ کے وہ دشمن صرف اپنی ہی نہیں بلکہ اخلاقی پستی کے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جس کا تصور ایک صاحب عقل و خرد آدمی نہیں کرسکتا جیسا کہ زیر بحث حدیث میں پیشین گوئی کے طور پر اور ساتھ ہی ساتھ امت کو اس پستی میں گرنے سے روکنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ قیامت قائم ہونے سے قبل ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ تم لوگ اپنے سے پہلی قومیں جن پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوچکا ہے اور جو گمراہی و ضلالت میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے لئے بیٹا ہونے کا عقیدہ رکھ لیا ہے ان کی پیروی میں ضرور پڑو گے اور حیرت تو یہ ہے اس وقت تم عقل سے اس قدر دور ہوچکے ہوگے اور تقلید کے نشے میں اس قدر مست ہوگے اور نفسانی خواہش تم کو اس قدر پاگل بنا چکی ہوگی کہ تم سوچ و فکر سے عاری ہوچکے ہوگے اسی کی وضاحت کے لئے حدیث میں گوہ[گھوڑپوڑ] کے سوراخ میں داخل ہونے کی مثال دی گئی ہے کیونکہ عادۃ و عقلا گوہ کے سوراخ میں کسی انسان کا داخل ہونا ایک ناممکن امر ہے ، پھر بھی اگر کوئی یہودی ونصرانی اس میں داخل ہونا چاہے گا تو امت محمد رسول اللهﷺ کے بعض افراد بھی اس کی پیروی کریں گے اور اپنی عقل و فہم سے کام نہ لیں گے یعنی اگر یہود و نصاری کوئی کام کریں گے جو عقل و اخلاق کے معیار پر کسی بھی طرح پورا نہیں اترے گا پھر بھی مسلمان امت کے بعض افراد ان کی پیروی ضرور کریں گے.
یہ حدیث بلکل واضح ہے :
کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔ [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
لیکن مسلمان علماء ، محدثین نے کس طرح رسول اللہ ﷺ کے اس واضح حکم کو تاویلات کے زور پر دوسری صدی حجرہ اور بعد میں پس پشت ڈال کر یہود و نصاری کا طریقہ اختیارکیا بلکہ ان سے بھی آگے نکل چکے ہیں- یہود نے ایک تورات کے مقابل تلمود کی 38 ضخیم کتب لکھیں اور نصاری نے انجیل کے ساتھ 23 کتب شامل کرکہ "عہد نامہ جدید" مرتب کی- رسول اللہ ﷺ کے حکم اور تنبیہ کے باوجود مسلمانوں نے ایک قرآن کے مقابل 75 کتب احادیث کا ڈھیر لگا دیا ہے-
اسلام دائمی دین ہے، ابراہیمی مذاہب کے مختصر جائزہ سےامت مسلمہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل تک پہنچنے میں آسانی ہو گی- الله کا فرمان ہے :
ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾
پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے(16:123)
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۱۹﴾
بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے (3:19)
براہ کرم جب آپ یہ مقالہ پڑھتے ہو تو اپنے ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے تعصبات fixations سے آزاد کریں… اگر آپ واقعتا کچھ سمجھنا چاہتے ہیں تو صرف اس مقالہ پر توجہ مرکوز کریں اور سمجھ کر تبصرہ ، مفید کمنٹس، تجاویزدے کر اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں ... بصورت دیگر اپنا وقت یہاں ضائع نہ کریں ...
قرآن اللہ نے رسول پیر نازل فرمایا جو قرآن کا عملی نمونہ تھے اور ان کا أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ہمرے لے رول ماڈل (قرآن ٣٣:٢١) ہے، جو سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کہلاتا ہے، سنت عملی طور پر تواتر سے نسل در نسل محفوظ طریقہ سے منتقل ہوتی ہے جس میں ردوبدل کا امکان نہیں۔ سن اور اقوال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کتابت کا اہتمام خلفاء راشدین نے بہت غور وفکر کے بعد ضروری نہ سمجھا، بلکہ سختی سے ممانعت بھی کردی ، پہلی امتیں کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتب میں مشغول ہو کر برباد ہو گئیں۔ اس حقیقت کا تحقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جس پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے، کیوں؟ جبکہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کا حکم رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیا تھا- وقت کے ساتھ، اسلام جو دین کامل تھا ، اس میں ردوبدل کا عمل شروع ہوا جس کے استدلال و توجیہات میں بعد میں مرتبہ کردہ کتب احادیث کا اہم کردار ہے۔ اب بہت لوگ قران کو احادیث کی روشنی میں سمجھتے ہیں جبکہ یہ برعکس ہونا چاہیئے۔ ایک سادہ، آسان ترین دین، مشکل بنا دیا گیا، تضادات کی بھر مار جس کو سمجھنے، حل کرنے، تبتیق کے لئیے بہت سی کتب اور مذہبی پیسواوون کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ گئ ، پہلی گمراہ اقوام کی طرح جنہوں نے اپنے مذہبی پیشواؤں کو " رب" بنا رکھا تھا جو علمی موشگافیوں اور تاویلات کے ذریعہ اپنی رائے سے اہم فتوے جاری کرتے تھے۔
آیات اللہ اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم ....[.....]
مقصد
یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر (سُنَنَ) ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]
- یہودیت ، مسیحیت اور الہامی کتب :
یہودیت اور مسیحیت ، امت محمدی سے پہلے کی امتیں ہیں جن کا قرآن میں بہت ذکر ہے جو گمراہ ہو گیئں، ان کے گمراہ کن اقدام سے سبق حاصل کرنا ہے تاکہ مسلمان وہ غلطیاں نہ دہرائیں - یہودیت اور مسیحیت اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیه السلام سے جوڑتے ہیں ، ان کے عقائد کا ان کی الہامی کتاب بائبل کے ساتھ جائزہ لیا جائیے تو واضح ہوتا ہے کہ ان کے مذاہب کا الہامی کتب سے واجبی سا تعلق ہے دعوی کی حد تک - ان کے مذاہب کی بنیاد عملی طور پر پیغمبروں کی تعلیمات اور الہامی کتب [تورات ، زبور ، انجیل] کے بجا یئے مذہبی رہنماوؤں کی تفاسیر، تشریحح اور نظریات پر ہے-
3- تورات اور تلمود
یہود اپنی الہامی کتب [بائبل عہدنامہ قدیم (تورات اوریہودی کتب) اور مسیحی "عہد نامہ جدید" کو مقدس سمجھ کر احترام کرتے ہیں تلاوت کرتے ہیں مگر عملی طور پرمذہبی رہنماوؤں کی خود ساختہ تعلیمات ، نظریات اور رسومات پر زور ہے جن کا تاویلات کے زریعہ زبردستی پیغمبرون سے تعلق قائیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حضرت نوح ،ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کی توحیدی تعلیمات کا ذکر ملتا ہے مگر ان کی اصل الہامی کتب مفقود ہیں-
Where Do Jewish Laws Come From? Intro to Torah, Talmud, Halacha
Video: https://youtu.be/dTiQb_3FGSE
موجودہ بائبل میں پرانے عہد نامے کی پہلی پانچ کتابوں کے مجموعے کو تورات کہتے ہیں جس میں شامل کتب کے نام : پیدائش، کتاب خروج، کتاب احبار، کتاب گنتی اور کتاب استثنا ہیں ۔ یہودی تورات کی بجایے تلمود پر زوردیتے ہیں. تلمود یہودیت کا مجموعہ قوانین ہے، جو یہوددیوں کی زندگی میں تقدس کا درجہ رکھتا ہے اور اسے یہودی تقنین میں دوسرا ماخذ قرار دیا گیا ہے۔ یہودی حاخامات کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے طورسینا پر موسی علیہ السلام پر دو شریعتیں نازل کی:
(1) مکتوب شریعت
(2) زبانی شریعت
یہودی علماء کے مطابق یہی "زبانی شریعت" اصل شریعت ہے، جو اللہ کی مراد اور مکتوب شریعت یعنی تورات کی حقیقی تفسیر ہے۔
چنانچہ یہود کے اندر دہری شریعت کا آغاز ہوا اور 40 نسلوں تک یہ سری شریعت زبانی منتقل ہوتی رہی اور یہودی حاخامات زبانی و سری شریعت کی آڑ میں تورات کی من مانی تفسیر کرتے رہے۔ زبانی شریعت کے مکتوب نہ ہونے کی وجہ سے یہودی قوم متعین عقائد پر متفق نہیں تھی۔ ہر یہودی ربی کی اپنی تشریح و تفسیر ہوتی، جس پر اس کے خاندان اور متبعین یقین رکھتے تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسیحی کتب پر ایمان نہیں رکھتے -
[ تورات اور تالمود>>> Torah and Talmud>>> https://salaamone.com/torah-talmud]
4. مسیحت اور "عہد نامہ جدید"
مسیحی لوگ ، بائبل کے عہدنامہ قدیم (تورات اوریہودی کتب) کومنسوخ مگر تاریخی اہمیت دیتے ہیں اور"عہد نامہ جدید" پر ایمان رکھتے ہیں - چار اناجیل کےساتھ سینٹ پال کے 13 اوردوسرے رہنماؤں سے 10 منسوب کتب اور مراسلات کو "عہد نامہ جدید" [New Testament] کہا جاتا ہے- چارانجیل اور حواریوں سے منسوب 23 دوسری کتب اور خطوط ملا کر عہد نامہ جدید میں ٹوٹل 27 کتب ہیں-
5. انجیل
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ارشادات اور تعلیمات ، پرمشتمل چار کتب ہیں، جن کے اصل لکھاری گمنام ہیں، مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار حواریوں (شاگردوں) کے نام سے انجیل متی، انجیل مرقس، انجیل لوقا اور انجیل یوحنا، جن کو "اناجیل اربعہ" یا "چارگانہ انجیل" [Four Gospels] کہا جاتا ہے، "نئیو ٹیسٹامنٹ" (عہد نامہ جدید) میں شامل ہیں- اکثر ماہرین متفق ہیں کہ چاروں اناجیل 60 عیسوی سے لے کر 100 عیسوی کے درمیان میں لکھی گئیں-
انکےعلاوہ بہت اور انجیل کتب بھی ہیں جن کو چرچ قبول نہیں کرتا- خود لوقا کی پہلی آیت میں ہی اس بات کا اقرار ہے کہ بہتوں نے ایسی تحاریر لکھی ہیں۔ غناسطی اناجیل اور دیگر کئی، جن میں سے کچھ کے مخطوطات جدید دور میں دریافت ہوئے ہیں اور وہ شائع کی جا چکی ہیں۔ جیسے توما کی انجیل، پطرس کی انجیل، مانی کی انجیل اور یہوداہ اسکریوتی، برناباس، مسیح، مریم مگدلینی اور دیگر کئی اہم ابتدائی مسیحی شخصیات سے منسوب اناجیل کے حوالے اور مخطوطات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ "برناباس کی انجیل" میں حضرت محمد صلی الله علیہ و صلم کی واضح پیشین گوئی موجود ہے اور یہ اسلامی نظریات سے قریب تر ہے۔ یہ ویٹیکن کی لائبریری سے برآمد ہوئی تھی۔
امریکی صدر تھامس جیفرسن نے 1820 میں چاروں ا نجیلوں سے حصرت عیسی علیہ السلام کے ارشادات کو اکٹھا کیا تو موجودہ مسیحی نظریات کے برخلاف خدائی دعوی نہ ملا نہ ہی دوسرے نظریات۔ اب بھی سرخ رنگ کے الفاظ والی انجیل دستیاب ہیں جن میں سرخ رنگ میں حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب آیات سے ان کی توحیدی تعلیمات واضح ہوتی ہیں۔
Overview: New Testament - Video : https://youtu.be/Q0BrP8bqj0c
aحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مذہبی قائدین پر تنقید اور آج مسلمان علماء میں مماثلت
"اور جب عیسیٰؑ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ "میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں، اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض اُن باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (قرآن 43:63)
موجودہ انجیل مقدس ( متّی 23) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہودی مذہبی علماء پر تنقید سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر (رضی الله) ، حضرت علی (رضی الله) کے خدشات بلکل درست تھے ، آج ہمارے علماء کا حال دیکھ لیں:
"تب یسوع نے وہاں موجود لوگوں سے اور پنے شاگردوں سے کہا۔ “معلمین شریعت اور فریسیوں کو حق ہے کہ تجھ سے کہے کہ شریعت موسیٰ کیا ہے ؟ اس وجہ سے تم کو ان کا اطا عت گذار ہو نا چا ہئے۔ اور ان کی کہی ہو ئی باتوں پر عمل کر نا چا ہئے۔ لیکن ان لوگوں کی زندگی پیروی کی جا نے کے لئے قابل عمل مثا ل نہیں ہے۔وہ تم سے جو باتیں کہتے ہیں اس پر وہ خود عمل نہیں کر تے۔ وہ تو دوسروں کو مشکل ترین احکا مات دے کر ان پر عمل کر نے کے لئے ان لوگوں پر زبر دستی کر تے ہیں۔ اور خود ان احکا مات میں سے کسی ایک پر بھی عمل کر نے کی کوشش نہیں کر تے۔ “وہ صرف ایک مقصد سے اچھے کام اس لئے کر تے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کو دیکھیں وہ خاص قسم کے چمڑے کی تھیلیاں جس میں صحیفے رکھے ہوتے ہیں جن کو وہ باندھ لیتے ہیں۔ اور وہ ان تھیلیو ں کے حجم کو بڑھا تے ہو ئے جا تے ہیں۔لوگو ں کو دکھا نے کے لئے وہ اپنے خاص قسم کی پو شاکوں کو اور زیا دہ لمبے سلوا تے ہیں۔ وہ فریسی اور معلمین شریعت کھا نے کی دعوتوں میں یہودی عبادت گاہوں میں بہت خاص اور مخصوص جگہوں پر بیٹھنے کی تمنا کر تے ہیں۔ با زاروں کی جگہ وہ لوگوں سے عزت و بڑا ئی پا نے کی آرزو کر تے ہیں۔ اور لوگوں سے معلم کہلوا نے کے متمنی ہو تے ہیں۔
ایک خا دم کی طرح تمہا ری خدمت کر نے وا لا شخص ہی تمہا رے درمیان بڑا آدمی ہے۔ خود کو دوسروں سے اعلیٰ وارفع تصور کر نے وا لا جھکا یا جا ئے گا۔ اور جو اپنے آپ کو کمتر اور حقیر جانے گا وہ با عزت (اونچاو ترقی یافتہ ) بنا دیا جا ئے گا۔
“اے معلمین شریعت اور اے فریسیو! یہ تمہا رے لئے برا ہے۔ تم منا فق ہو۔ تم لو گوں کے لئے آسمان کی بادشاہت میں داخل ہو نے کے راستے کو مسدود کر تے ہو۔ تم خود داخل نہیں ہو ئے اور تم نے ان لوگوں کو بھی روک دیا جو داخل ہو نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (اے معلمین شریعت اور فریسیو میں تمہارا کیا حشر بتاؤنگا۔ تم تو ریاکار ہو۔ “اس لئے تم بیواؤں کے گھروں کو چھین لیتے ہو اور تم لمبی دعا کرتے ہو تا کہ لوگ تمہیں دیکھیں – اس لئے تم کو سخت سزا ہوگی ۔”)
“اے معلمین شریعت اے فریسیو! میں تمہا را انجام کیا بتا ؤں تم تو ریا کار ہو تمہا ری (بتا ئی ہوئی ) راہوں کی پیر وی کرنے والوں کی ایک ایک کی تلا ش میں تم سمندروں کے پار مختلف شہروں کے دورے کر تے ہو۔ اور جب اس کو دیکھتے ہو تو تم اس کو اپنے سے بد تر بنا دیتے ہو اور تم نہا یت برے ہو جیسے تم جہنم سے وابستہ ہو۔
اے معلمین شریعت اور اے فریسیو!تمہا رے لئے برا ہو گا۔ تم تو لوگوں کو راستہ بتا تے ہو لیکن تم خود اندھے ہو۔ تم کہتے ہو کہ اگر کوئی شخص ہیکل کے نام کے استعمال پر وعدہ لیتا ہے تو اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں۔ اور اگر کوئی ہیکل میں پا ئے جا نے وا لے سونے پر وعدہ لے تو اس کو پورا کرنا چاہئے۔ تم اندھے بیوقوف ہو! کونسی چیز عظیم ہے، سونا یا ہیکل؟ وہ سونا صرف ہیکل کی وجہ سے مقدس ہوا اس لئے ہیکل ہی عظیم ہے-
اگر کو ئی قربان گاہ کی قسم کھائے تو کہتے ہو کہ اس کی کو ئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اگر کوئی قربان گاہ پر پا ئی جانے وا لی نذر کی چیز پر قسم کھا ئے تو کہتے ہو اس کو پوری کرنی چاہئے۔ تم اندھے ہو تم کچھ نہیں سمجھ تے۔کونسی چیز اہم ہے ؟ نذر یا قربان گاہ؟ نذر میں قربا ن گاہ کی وجہ سے پا کی پیدا ہو تی ہے۔ اس وجہ سے قربان گا ہ ہی عظیم ہے۔ اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھا تا ہے تو گویا قربا ن گاہ اور اس پر جو کچھ نذر کے لئے رکھا ہے اس کی قسم لینے کے برا بر ہے۔ اگر کو ئی ہیکل کی قسم کھا تا ہے تو حقیقت میں وہ ہیکل کی اور اس میں رہنے وا لے کی قسم کھا تا ہے۔ جو آسمان کی قسم کھا تا ہے تو یہ خدا کے عرش اور اس عرش پر بیٹھنے وا لے کی قسم کھا نے کے برا بر ہوگا۔
“اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہارے لئے برا ہے! تم ریا کار ہو۔تم اپنی ہر چیز کا یہاں تک کہ پو دینہ، سونف اور زیرے کے پودوں میں بھی قریب قریب دسواں حصہ خدا کو دیتے ہو۔ لیکن تم نے شریعت کی تعلیم میں اہم ترین تعلیمات کو یعنی عدل و انصاف ،رحم وکرم اور اصلیت کو ترک کر دیا ہے۔تمہیں خود ان احکا مات کے تا بع ہو نا ہو گا۔اب جن کاموں کو کر رہے ہو انہیں پہلے ہی کرنا چاہئے تھا۔ تم لوگوں کی ر ہنما ئی کر تے ہو۔لیکن تم ہی اندھے ہو۔تم تو پینے کے مشروبات میں سے چھوٹے مچھر کو نکا ل کر بعد میں خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو۔
“اے معلمین شریعت ،اے فریسیو! یہ تمہا رے لئے براہے۔تم ریا کا ر ہو۔ تم اپنے بر تن و کٹوروں کے با ہری حصے کو دھو کر صاف ستھرا تو کر تے ہو لیکن انکا اندرونی حصہ لا لچ سے اور تم کو مطمئن کر نے کی چیزوں سے بھرا ہے۔ اے فریسیو تم اندھے ہو پہلے کٹو رے کے اندرونی حصہ کو اچھی طرح صاف کر لو۔ تب کہیں جا کر کٹو رے کے با ہری حصہ حقیقت میں صاف ستھرا ہوگا۔
“اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہا رے لئے بہت برا ہے! تم ریا کا ر ہو۔تم سفیدی پھرائی ہو ئی قبروں کی ما نند ہو۔ ان قبروں کا بیرونی حصہ تو بڑا خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔لیکن اندرونی حصہ مردوں کی ہڈیوں اور ہر قسم کی غلاظتوں سے بھرا ہو تا ہے۔ تم اسی قسم کے ہو۔ تم کو دیکھنے والے لوگ تمہیں اچھا اور نیک تصور کرتے ہیں۔ لیکن تمہارا باطن ریا کاری اور بد اعمالی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔
“اے معلمیں شریعت ،اے فریسیو! یہ تمہارے لئے بہت برا ہے! کہ تم ریا کار ہو۔ تم نبیوں کے مقبرے تعمیر کرتے ہو۔ اور تم قبروں کے لوگوں کے لئے تکریم ظاہر کرتے ہو۔ جنہوں نے نفیس زند گی گزاری ہے۔ اور تم کہتے ہو کہ اگر ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں ہو تے تو نبیوں کے قتل و خون میں انکے مدد گار نہ ہو تے۔ اس لئے تم قبول کرتے ہو کہ ان نبیوں کے قاتلوں کی اولاد تم ہی ہو۔ تمہارے باپ دادا ؤں سے شروع کیا ہوا وہ گناہ کا کام تم تکمیل کو پہنچاؤگے۔
“تم سانپوں کی طرح ہو۔ اور تم زہریلے سانپوں کے نسل سے ہو! لیکن تم خدا کے غضب سے نہ بچ سکو گے۔ تم سبھوں پر ملزم ہو نے کی مہر لگے گی اور سب جہنم میں گھسیٹے جاؤگے۔ میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے پاس نبیوں عالموں اور معلمین کو بھیجو نگا اور تم ان میں سے بعض کو قتل کرو گے۔ اور بعض کو صلیب پر چڑھا ؤ گے۔ اور چند دوسروں کو تمہارے یہودی عبادت گاہوں میں کوڑے ماروگے۔ اور انکو ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو بھگاؤ گے۔
اس وجہ سے سطح زمین پر تمام راستبازوں کے کئے گئے قتل کے الزام میں تم قصور وار ٹھہرو گے۔ ہابل جو ایمان دار تھا اس سے لیکر برکیاہ کے بیٹے زکریاہ تک کے قتل کا الزام تمہارے سر آئیگا اسے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا گیا تھا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس دور میں تم سبھوں پر جو کہ اب رہ رہے ہو یہ سب الزامات عائد ہو تے ہیں
[متّی 23 Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR ]
@ سینٹ پال ، سینٹ پطرس اور امام بخاری (رح ) کے خواب >>>
b. قرآن کو چھوڑنے والےعلماء بدترمخلوق :
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔
قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ”
دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔ (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
6- الہامی کتب میں تحریف ، غلو اور مذہبی پیشواؤں کی تحریر کردہ کتب کا اضافہ
تحقیقی مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہودیت اور مسیحیت میں انبیا کی اصل تعلیمات جو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہوئیں تھیں مکمل طور پر محفوظ نہیں رہیں اور جو کچھ موجود ہے اس میں تحریفات اور تاویلیں کر کہ مذہبی پیشواؤں کی گمراہ کن تعلیمات و نظریات کو دین کا حصہ بنا لیا اور گمراہی کا شکار ہو گئے- اللہ نے قرآن میں فرمایا:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٩:٣١﴾
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-
چار اناجیل کےساتھ سینٹ پال کے 13 اوردوسرے رہنماؤں سے 10 منسوب کتب اور خطوط کو "عہد نامہ جدید" [New Testament] کہا جاتا ہے- چارانجیل اور حواریوں سے منسوب 23 دوسری کتب اور خطوط ملا کر عہد نامہ جدید میں ٹوٹل 27 کتب ہیں-
ایک تحقیق کے مطابق "عہد نامہ جدید" میں 7،959 آیات ہیں ، جن میں سے صرف 1،599 مسیح علیہ السلام کے اقوال ہیں, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد ہے
نئے عہد نامے میں الفاظ کی تعداد 181،253 ہے۔ ان میں سے صرف 36،450 الفاظ مسیح کے الفاظ ہیں - بمشکل 20 فیصد سے زیادہ۔
a.تحریری کلام اللہ میں زبانی روایت کا اضافہ :
یسوع مسیح اور نئے عہد نامہ کے دور میں صدوقی اشرافیہ تھے۔ بشمول کاہنوں اور سردار کاہنوں کے وہ مالدار اور طاقتور عہدوں پر مشتمل تھے، اور وہ حکمران کونسل سنہیڈرن کی 70 نشستوں میں اکثریت رکھتے تھے۔ وہ روم (اُس وقت اسرائیل رومیوں کے ماتحت تھا) کے فیصلوں کے ساتھ متفق ہوتے ہوئے امن کو قائم کرنے کے لئے سخت محنت کرتے تھے، اور وہ مذہب سے زیادہ سیاست کے ساتھ تعلق رکھتے نظر آتے تھے۔ کیونکہ وہ روم کے ساتھ مصلحت آمیز تھے اور دولتمند اعلی طبقے سے تعلق رکھتے تھے، اِس لئے وہ عام آدمی سے اچھے تعلق نہیں رکھتے تھے، اور نہ ہی عام آدمی اُنہیں اعلیٰ رائے میں رکھتا تھا۔ عام آدمی فریسیوں کی جماعت سے بہتر تعلق رکھتا تھا۔ اگرچہ صدوقی سنہیڈرن کی نشستوں کی اکثریت رکھتے تھے، تاریخ اشارہ دیتی ہے کہ وہ زیادہ تر وقت اقلیتی فریسیوں کے خیالات کے ساتھ گزارتے تھے، کیونکہ فریسی عوام میں مقبول تھے۔ مذہبی طور پر، صدوقی عقائد کے ایک خاص ایریا میں زیادہ راسخ العقیدہ تھے۔ فریسی زُبانی روایات کو خُدا کے تحریری کلام کے برابر اختیار دیتے تھے، جبکہ صدوقی صرف تحریری کلام کو ہی خُدا کی طرف سے سمجھتے تھے۔ صدوقی خُدا کے تحریری کلام کے اختیار کو برقرار رکھتے تھے، خاص طور پر موسیٰ کی کتابوں کو (پیدایش سے اِستثناء)۔ اگرچہ اُن کی اِس کام کے لئے تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن وہ یقینی طور پر اپنے باقی تعلیمی نظریات میں کامل نہ تھے۔ مذہبی طور پر، وہ تحریری کلام کو خُدا کی طرف سے الہامی مانتے تھے۔ لیکن وہ زُبانی روایات کو بھی برابر کا درجہ دیتے تھے اور اِس خیال کا دفاع یہ کہتے ہوئے کرتے تھے کہ زُبانی روایات کا تعلق موسیٰ تک جاتا ہے۔ صدیاں گزرنے کے بعد، اِن روایات کو خُدا کے کلام میں شامل کر دیا گیا جِس سے منع کیا گیا تھا (جو میں حکم دیتا ہوں اس میں نہ کچھ بڑھانا اور نہ ہی اس میں کچھ گھٹا نا۔ تمہیں خداوند اپنے خدا کے اُن احکاما ت کی تعمیل کرنی چا ہئے جن کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں۔ استثناء باب 4 آیت 2)، یہ حکم مزید دہرایا گیا ، جس میں عہد نامہ جدید بھی شامل ہے :
Deuteronomy 4:2 : You must not add to or subtract from what I command you, so that you may keep the commandments of the LORD your God that I am giving you.
Deuteronomy 12:32: See that you do everything I command you; do not add to it or subtract from it.
Revelation 22:18 : I testify to everyone who hears the words of prophecy in this book: If anyone adds to them, God will add to him the plagues described in this book.
Revelation 22:19: And if anyone takes away from the words of this book of prophecy, God will take away his share in the tree of life and in the holy city, which are described in this book.
Proverbs 30:6: Do not add to His words, lest He rebuke you and prove you a liar.
خدا کے کلام میں آپ اپنی ایجادات کو شامل نہ کریں ، گویا خدائی ادارہ عیب دار تھا۔ خدا نے جو کچھ مقرر کیا ہے اس کے علاوہ کسی بھی مذہبی عبادت کا کوئی تعارف پیش نہ کریں۔ اور نہ ہی آپ کم کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو جو خدا کے کام کو بے بنیاد یا ضرورت سے زیادہ مقرر کرتے ہیں کامل ہے۔ اس میں کچھ بھی نہیں ڈالا جاسکتا ہے ، یا اس سے نہیں لیا جاسکتا ہے ، لیکن اس سے یہ اور بھی خراب ہوتا ہے-
آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم ....[.....]
@ سینٹ پال ، سینٹ پطرس اور امام بخاری (رح ) کے خواب >>>
[نوٹ کریں کہ زبانی روایات کی کتب احادیث اور اسے وحی خفی ، غیر متلو بنا کر قرآن کے برابر درجہ دینا ؟]
اور فریسی پُرانے عہد نامہ کے ساتھ ساتھ سختی کے ساتھ اِن روایات کی بھی فرمانبرداری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اِن روایات کو خُدا کے کلام کے برابر سمجھنے کے لئے فریسیوں کی مثالیں اناجیل میں کثرت سے پائی جاتی ہیں (متی باب 9 آیت 14؛ باب 15 آیات 1 تا 9؛ باب 23 آیت 5؛ باب 23 آیت 16 اور 23؛ مرقس باب 7 آیات 1 تا 23؛ لوقا باب 11 آیت 42)۔ ت]
6 یسوع نے کہا، “تم سب ریا کار ہو۔تمہارے بارے میں یسعیا ہ نے بہت خوب کہا ہے: میری تعظیم کر تے ہو ئے یہ لوگ کہتے ہیں, لیکن ان کے دل مجھ سے دور ہیں۔ 7 اور میری عبا دت کر تے ہیں کوئی فائدہ نہیں ہے بیکار ہے, کیونکہ وہ انسانی اصول ہی کی یہ تعلیم دیتے ہیں۔ (یسعیاہ ۲۹:۱۳)
8 اس نے کہا تم نے خدا کے حکم کو رد کیا۔ لیکن لو گوں کی تعلیمات کی پیر وی کر رہے ہو۔” 9 تب یسوع نے ان سے کہا، “بڑی چالا کی سے خداوند کے احکامات کا انکار کرتے ہو اور اپنی تعلیمات کی تعمیل کر تے ہو۔ 10 موسیٰ نے کہا تھا تمہیں چاہئے کہ اپنے ماں باپ کی تعظیم کریں [a] کو ئی بھی شخص اپنے ما ں باپ کو برا بھلا کہا تو اس کو موت کی سزا ہو نی چاہئے۔ [b] 11 لیکن تم کہتے ہو کو ئی بھی اپنے ماں باپ سے یہ کہہ سکتا ہے “میرے پاس کچھ تھا جس سے میں تمہا ری مدد کر سکتا ہوں مگر میں یہ تحفہ خدا کے لئے رکھ چکا ہوں۔ 12 اس طرح اس کو اجا زت نہیں کہ اپنے ماں باپ کے لئے کچھ کر سکے۔ 13 اس لئے تم تعلیم دیتے ہو کہ خدا کے احکامات کی تعمیل اہم نہیں ہے تم سوچتے ہو کہ تم جن روحوں کی تعلیم لوگوں کو دیتے ہو اس کا بجا لا ناضروری ہے۔” (مرقس 7)
آخری نبی صلی الله علیہ وسلم اور آخری کتاب - قرآن
ان حالات کے بعد الله نے آخری نبی محمد صلی اللہ و علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا،جس کی تدوین خلفاء راشدین کے دور میں بہت احتیاط سے مکمل ہوئی - قرآن کا مختصر تعارف قرآن سے :
قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60),
اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
۔قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2),
۔اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر15:9)
قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2),
۔قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف18:1,2),
باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42)
یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17)
یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48), قرآن کریم لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213),
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے(الجاثية45:6)
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویاکہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو (الجاثية45:7,8)
“یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11)
۔یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
اس آخری کتاب کو محفوظ کیا اورنبی صلی اللہ و علیہ وسلم کو حکم دیا کہ قرآن کا پیغام ہدایت پہنچا دیں :
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۶۷﴾
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا بے شک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (5:67)
سنت رسول کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسے پورے اہتمام پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ انسانوں تک الله کا پیغام زبانی عملی طور پر پہنچانے کے مکلف تھے:
فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۹۴﴾
پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے ۔ (15:94)
قرآن کے مقابل کسی کتاب کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش ... سنت متواتر عملی طور پر منتقل ہوتی ہے ، کتابت سے نہیں .
مزید :
حادیث لکھنے کی ممانعت ( فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ )
رسول اللہ ﷺ وصیت (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) کا انکار اور بدعت
https://en.wikipedia.org/wiki/Judaism#Jewish_religious_texts , https://www.britannica.com/topic/Oral-law
https://www.biblegateway.com/passage/?search=%D9%85%D8%AA%D9%91%DB%8C+15&version=ERV-UR
23 https://www.biblegateway.com/passage/?search=%D9%85%D8%AA%D9%91%DB%8C+23&version=ERV-UR
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-