رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

اختتامیہ



اختتامیہ 


وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)

یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ 

قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔

مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔

اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)

افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:

”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” 

دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)

اس کا حل قرآن میں موجود ہے اس پر عملدرآمد کی کوشش ہم سب نے کرنی ہے:

یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾

اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]

اگر احادیث کی کتب لکھنے والے , اطاعت الله تعالی , اطاعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم و خلفاء راشدین کرتے تو منتخب متواتر اہم احادیث حفظ کرتے اور باقی مواد سے تاریخ ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر کتب تحریر کرتے جیسے طبری وغیرہ نے کیں- ان کی تاریخ زیادہ مستند ہوتی-  قرآن کے مقابلہ میں کتب اور اطاعت الله تعالی و اطاعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم و خلفاء رشدین سے گریز کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا ہے - یہ کام اب کریں بجایے بحث مباحث اور تاویلیں کرنے کے , تاکہ تاریخی غلط کو درست کیا جاسکے - احادیث رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سر آنکھوں پر مگر مستند اور جائز طریقہ سے , قرآن کی تدوین و کتابت کا طریقہ کار بنیادی اصول فراہم کرتا ہے- 

دین اسلام کوپہلی صدی حجرہ کی کامل ،خالص حالت میں بحالی کے لئے قرآن , سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم,سنت خلفاء راشدین و صحابہ کرام کےذریعہ  پر امن نظریاتی ، فکری جدوجہد کریں, جو کچھ ان کے برخلاف ہو منسوخ, مسترد ہے- 

\تحقیقی گروپوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی اسکالرز اور اسکالرز پر مشتمل مختلف ٹیموں کے ذریعے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر وسیع پیمانے پر جامع  مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ بہت اہم اور سنگین معاملہ ہےجسے  صرف مذہبی لوگوں تک محدود نہیں رکھا جا سکتا ۔

تاہم جب تک کچھ اتفاق رائے حاصل نہیں ہوتا تب تک اتحاد و یگانگت  برقرار رکھنے کے لئے اور کسی بھی فکری ، مذہبی انتشار / الجھن سے بچنے کے لئے موجودہ  (status quo) برقرار رکھنا چاہئے۔

الله تعالی ہماری مدد  فرمایے - آمین

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30

اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا" ﴿سورة الفرقان25:30﴾

تو ہم  ان لوگوں میں شامل نہ ہوں  جنہوں نےقرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا-

………………… ,

لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢٨٦﴾

اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر (2:286)

~~~~~~~~~~~

أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾

نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو, اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے (5:2)


مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾

جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (4:85)

References:

https://Quran1book.blogspot.com/2020/06/References.html

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

------------------


A GENERAL POST  - A WORD OF CAUTION AND CLARIFICATION

ضروری  وضاحت 

مکالمہ کا تھیم ایسا ہے کے طویل مکالمہ ...سوال .. جوابات … جوابات در جوابات … ممکن ہے کہ قاری کو غلط فہمی ہو کہ سارا زور احادیث کی مخالفت پر  ہے …  ایسا تاثر اگر ہو تو اس  غلط فہمی  کو دور کرنا  negate کرنا ضروری ہے…

ایک مسلمان کے لیے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  سے محبت  اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. اس کو الله نے "حدیث"  بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے کلام کو بھی مقدس اور عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں …

فرق تب اتا ہے جب کلام اللہ کو خاص طور پر لکھوا کر محفوظ ترین طریقہ سے تواتر سے نسل در نسل منتقل کروایا گیا … کہ کچھ عرصۂ قبل جب برطانیہ میں قدیم ترین قرآن کا نسخہ ملا تو وہ آج کے قرآن کی طرح ہے … 

رسول الله صلی الله علیہ وسلم  قرآن کا عملی نمونہ تھے جس کو ہزاروں ،لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور عمل کیا .. جسے سنت کہتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی آ رہی ہے …  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا کلام ، جو قرآن نہیں وہ احادیث  کہلاتا ہے .. ایک ، دو یا چند لوگوں کے زریعہ منتقل ہوا .. اس کی کتابت ، یعنی محفوظ مستند کتابت جس طرح قرآن کی کی گی نہ ہو سکی .. اس وجہ سے احادیث کی درجہ بندیاں ہیں بہت بڑی تعداد میں … کیونکہ جو مشکوک ہیں .. کسی علمی مکلمه میں کوئی حدیث قبول کرتا ہے کسی کو رد کرتے ہیں تو وہ کیا منکر حدیث ہوے ؟ ان کو منکر حدیث نہیں کہتے … اسی طرح جب احادیث کو مستند طریقہ سے خلفاء راشدہ کی طرف سے کتابت نہ ہوئی تو اس معامله کو ڈیکس کرنا حدیث یا کلام   رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا انکار  یا توہین نہیں بلکہ  غیر مستند کتابت پر بحث ہے .. اس طرح کوئی فتنہ پسند اپنی طرف سے من گھڑت حدیث پیش کرے تو اس کو بلا تحقیق کیسے قبول کر سکتے ہیں ..اگر ایسا کرتے ہیں تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے کلام کی خلاف \ورزی ہو گی ، آپ نے فرمایا :

مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے

[صحیح مسند احمد 497/3, شیخ البانی صحیح السلسلہ الصحیحہ 732/2 تفسیرکثیر١١:٨٨].

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔

[سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠5) الكامل في ضعفاء الرجال  » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]

ایک مسلمان کے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے محبت اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. اس کو الله نے "حدیث" بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مستند ، اصل کلام کو بھی جو تواتر سے منتقل ہوا، مقدس اور اس پر عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں … احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو- الله ہم کو قرآن اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم پر عمل کی توفیق عطا ا فرمایے - آمین , جزاک اللہ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾ در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (33:21)

-------------------


~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
قرآن آخری کتاب یا کتب؟ تحقیق و تجزیہ 🔰
 🔰 ?The Last Book Quran or Books

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی, "قرآن" کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ... احادیث کی کتب  کے زریعہ قرآن کو پس پشت ڈال کر کہ مشرکوں کی طرح فرقہ واریت سے دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بزریعہ قرآن بحالی میں ہے  ..تفصیل  >>>>>>

پوسٹ لسٹ