وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)
علم الحدیث کے سات مجوزہ سنہری اصول
علم الحدیث کے سات مجوزہ سنہری اصول
علم الحدیث کے سات مجوزہ سنہری اصول
القواعد الذهبية السبع المقترحة في علم الحديث
Seven Proposed Golden Rules of Science of Hadith
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
تعارف
قرآن الله تعالی کی آخری کتاب ھدایت ہے، اس پر ایمان چھ بنیادی اراکین کا اہم جزو ہے- کسی اور کتاب پر ایمان دائرہ اسلام سے باہر کر دیتا ہے[1]- کتاب کے ساتھ الله نے رسول ﷺ کو قرآن کا عملی نمونہ بنایا، اللہ کا فرمان ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (33:21)
رسول اللہ ﷺ کے أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ پر عمل کے دو طریقے ہیں، ایک سنت رسول اللہ ﷺ (عمل) جس کو ہزاروں صحابہ نے دیکھا اور اس پر عمل کیا، جیسے صَلَاة ، روزہ ، زکاۃ ، حج، نکاح وغیرہ-
دوسرا آپ کے اقوال، ارشادات اور فرامین (احادیث) جوکہ کبھی زیادہ کبھی تھوڑے یا ایک دو صحابہ نے سنے- قرآن[2] اور رسول اللہ ﷺ نے کسی بھی "کتاب حدیث" کی سختی سے ممانعت[3] کر دی (اس حقیقت کو چھپانے، متنازعہ بنانے کی تمام ناکام کوششیں قرآن،[4] سنت، احادیث اور تاریخ سے ثابت ہیں[5]،[6])- رسول اللہ ﷺ نے اپنے اقوال، مقالے (احادیث) کا طریقہ بتلایا:
’’اللہ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے میرا مقالہ (مَقَالَتِي/ قول یا ترجمہ: حدیث) کو سنا، اسےحفظ کیا، اور پھر اسے آگے بیان کیا....(نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا)‘‘(مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 228)[7]
صحابہ اکرام نے احادیث کوسنا حفظ کیا اور آگے منتقل کیا [کچھ کو حفظ کی کمزوری پر نوٹس لکھنے کی اجازت ملی مگر حضرت ابوهریره (رضی الله) اور بہت کو انکار ہوا[8]]
خلفاء راشدین نے بھی قرآن کی کتابت و تدوین[9] نہیں کی مگر احادیث کو حفظ و بیان و سماع تک محدود رکھا جس پر صدیوں عمل ہوا، دوسری تیسری صدی ھ میں کتب حدیث لکھنے کے باوجود آج بھی یہ سلسلہ کسی حد تک موجود ہے-
قرآن اور سنت رسول اللہ ﷺ متواتر نسل در نسل منتقل ہونے کی وجہ سے مکمل محفوظ ہیں- سنت اور حدیث میں فرق[10] ہے-
شیطانی مداخلت سے صرف قرآن محفوظ
وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَلاَنَبِیٍّ إِلاَّ إِذَا تَمَنَّی اٴَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی اٴُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اللهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللهُ آیَاتِہِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ۔(قرآن ، الحج 22:52)
”اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھراللہ نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنا دیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحب حکمت ہے“، اور پیغمبر اور دوسرے مومنین کو تاکید کی گئی ہے ۔(قرآن ، الحج 22:52)
قرآن ”مُھَیْمِنْ“
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہ (5:48)
یہ کتاب (قرآن) تورات اور انجیل کی مصداق بھی ہے اور مصدق بھیّ۔ اور اس کی حیثیت کسوٹی (فرقان) کی ہے۔ پہلی کتابوں کے اندر جو تحریفات ہوگئی تھیں اب ان کی تصحیح اس کے ذریعے سے ہوگی۔ (بیان القرآن، مفسر: ڈاکٹر اسرار احمد)
عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت، نگرانی، شہادت، امانت، تائد اور حمایت کے ہیں۔ قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کتب آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کرلیا ہے۔ وہ ان پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات برحق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤید ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندرالله کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہوگئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جاسکتا ہے، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے۔( تفہیم القرآن )
نزول قرآن کے وقت کتب حدیث موجود نہ تھیں، صدیوں بعد جب ان کو مدون کیا گیا تو کسی غلطی یا شیطانی آمیزش ۔(قرآن ، الحج 22:52) سے حفاظت صرف قرآن کی شہادت اور تصدیق سے ممکن ہے جو الفرقان (حق و باطل کی کسوٹی) بھی ہے۔ جو کچھ احادیث میں قرآن کے مطابق ہے وہ رسول اللہ ﷺ کا کلام ہے ( رسول اللہ ﷺ قرآن زندہ نمونہ تھے) اور جو قرآن کےمطابق نہیں ہے وہ لوگوں کا کلام ہے یا شیطانی مداخلت جسے قرآن منسوح کر دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا :
"میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث 189) (سنن دارقطنی: ۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190) [الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303] شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں: "میں نے صحاح میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر
دیتی ہیں۔ ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام خدا کو منسوخ کر سکتا ہے" (نظام القرآن)
- شاه کلید قرآن: آیات محکمہ Master Key Quran (3:7)
- اسنت , حدیث اور متواتر حدیث
- فریضہ عادلہ (فرائض منصفانہ): منصفانہ وراثت، فرائض کا علم جس سے ترکے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے‘‘
احادیث کی بہت قلیل تعداد تواتر سے منتقل ہوئی، متواتر کی ایک رپورٹ تقریبا اتنی ہی یقینی بات ہے جتنا کہ سنت ، لہذا متواتر حدیث کے رد کو کفر سمجھا جاتا ہے۔ امام جلال الدین سیوطی[11] (1445–1505 CE) نے 113 متواتر[12] احادیث کو ایک کتاب میں عنوان کیا ہے زیادہ ترعبادات پر ہیں- انہوں نے ہر ایک ایسی حدیث کو متواتر شمار کیا جس کے هر رابطه پر 10 راوی تھے۔ متواتر احادیث کے علاوہ باقی ذخیرہ احد حدیث ہیں جن کا درجہ یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے- [ ظن= خیال، شک، اٹکل، اندازہ]- لیکن اگر یہ رسول اللہ ﷺ کے میعار کے مطابق ہوں تو ان کا درجہ تحقیق سے بلند ہو سکتا ہے نہ کہ ضرورت یا سہولت کی بنیاد پر-
اس لیے احادیث کے بیان (سوشل میڈیا پر شئیرکرنے) یا عمل سے پہلے یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ بنیادی اصولوں اور میعار کے مطابق ہوں- بدقسمتی سے صدیوں سے ایسا نہیں ہو رہا جو کہ فتنہ، فساد، فرقہ واریت آور امت مسلمہ میں نفاق، فکری، روحانی و دنیاوی انحطاط کی بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے- [ اہم سوال: بارہ صدیوں سے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟]
اسلامی تاریخ میں یہ شاید پہلی کوشش ہے کہ تمام مجموعہ حديث کوکسی فرد یا گروہ کی اجارہ داری، صوابدید، اختیار کے دائرۂ سے نکال کر الله تعالی اور رسول اللہﷺ کے احکام کے دائرہ میں لایا جائے تاکہ ان سے مفید طریقہ سے استفادہ ممکن ہو- دین اسلام کے متعلق کوئی بھی عنصراگر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے واضح احکام کی موجودگی میں ان سے ماورا رکھا جاۓ تو وہ مسلمانوں کے لیے فائدہ مند نہیں نقصان دہ ثابت ہو گا، اگرچہ ہم عقل کو استعمال کریں، تفکر کریں تو سمجھ سکتے ہیں- جیسے شراب میں کچھ فوائد ہیں مگرنقصانات زیادہ، مگر شرابی کو صرف فائدے ہیں نظر آتے ہیں، جب تقصان ظاہر ہوتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے-
الله اور رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کے نتیجہ میں قرآن کو متروک العمل کر دیا گیا، جس کی بحالی کی سخت ضرورت ہے:
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔ (قرآن 25:30)
الله[13] اور رسول (ﷺ) کی ہدایت کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی پیروی کرنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے:-
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)
وہ اصول جو اللہ تعالٰی اور اس کےرسول ﷺ کی طرف سے حاصل ہوۓ:
سات سنہری اصول، سنہری اس لیے ہیں کہ ان کی بنیاد آیات قرآن اور احادیث ہیں،یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طورپر قبول کرکہ احادیث کو از سر نو مرتب کرکہ الله اور رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے-
اصول#1. قرآن حدیث کو منسوخ کرتا ہے حدیث قرآن کو نہیں
"---- آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی[14] کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں" (قرآن 10:15)[15]
وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴿٢٧﴾
"اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے" (18:27)
وَعَنْہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضُہ، بِعْضًا (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 189)
اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا؛ میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث 189) (سنن دارقطنی: ۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190)
قرآن کی آیات کو منسوخ سمجھنا درست نہیں
جو اکیلے اللہ چاہتا ہے (وہی ہوتا ہے)
عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن رجلا قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: ما شاء الله وشِئْتَ، فقال: «أجعلتني لله نِدًّا؟ ما شاء الله وَحْدَه». [إسناده حسن.] - [رواه أحمد.]
وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾
اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا (قرآن :18:26)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم نے مجھے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا دیا؟!“ (ایسا نہیں بلکہ یوں کہا کرو کہ) جو اکیلے اللہ چاہتا ہے (وہی ہوتا ہے)۔ [ا حَسَنْ، رواه امام احمد]
عندالله بن بسیار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رضی الله) کو خطبہ دیتے ہوے سنا : "جس کے پاس (قرآن کے علاوہ) تحریر ہے میں اسے قسم دیتا ہوں کہ وہ گھر لوٹ جایے اور اسے مٹا دے، پہلی قومیں اس وقت ہلاک ہوئیں جب وہ اپنے رب کی کتاب چھوڑکر اپنےعلماء کی قیل قال میں پھنس گیئں (رواہ عبدللہ بن بسیار)[16]
قرآن کا علم اورعمل راہ ھدائیت
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: مَنْ تَعَلَّمَ کِتَابَ اﷲِ ثُمَّ اتَّبَعَ مَافِیْہِ ھَدَاہُ اﷲُ مِنَ الضَّلَالَۃِ فِی الدُّنْیَا وَوَقَاہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سُوْ ۤءَ الْحِسَابِ وَفِیْ رِوَایَۃِ ، قَالَ : مَنِ اقْتَدَی بِکِتَابِ اﷲِ لَایَضِلُّ فِی الدُّنْیَا وَلَا یَشْقٰی فِی الْاٰخِرَۃِ ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ(فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی)) (رواہ رزین)
(مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 185)
اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا اور پھر اس چیز کی پیروی کی جو اس (کتاب اللہ) کے اندر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں گمراہی سے ہٹا کر راہ ہدایت پر لگائے (یعنی اس کو ہدایت کے راستہ پر ثابت قدم رکھے گا اور گمراہی سے بچالے گا) اور قیامت کے دن اس کو برے حساب سے بچالے گا ( یعنی اس سے مواخذہ نہیں ہوگا) اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي) 20۔ طہ 123) ترجمہ جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔ (رزین) (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث:185)[17]
مزید پڑھیں:
فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿٧:۱۵۷﴾
سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور (قرآن) کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل گیا ہے ، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں (قرآن 7:157)
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ( 20۔ طہ 123)
ترجمہ جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا ( 20۔ طہ 123)۔
قرآن کے بغیر گمراہی
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي حَيَّانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ وَزَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ کِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَی وَالنُّورُ مَنْ اسْتَمْسَکَ بِهِ وَأَخَذَ بِهِ کَانَ عَلَی الْهُدَی وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ
ترجمہ: "اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6227)
نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی(قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ.)[18]۔ (البخاری: حدیث نمبر: 5022)
خطبہ حج الوداع ہزاروں مومنین ۓ سنا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"... اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب اور تم سے سوال ہو گا (قیامت میں) اور میرا حال پوچھا جائے گا پھر تم کیا کہو گے؟“ تو ان سب نے عرض کی کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اپنی انگشت شہادت (کلمہ کی انگلی) سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے: ”یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو۔“ تین بار یہی فرمایا" [ صحیح مسلم 2950، [ابی داوود 1905][19]
[ایک دوسری حدیث میں قرآن و سنت کا ذکر ہے ، کہیں حدیث کا ذکر نہیں]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی وحی چھوڑی وہ سب دو دفتیوں کے درمیان (قرآن مجید کی شکل میں ) محفوظ ہے ۔[ماخوزالبخاری، حدیث: 5019]
حضرت علی ؓ ۓ فرمایا : اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو (زمین) چیر کر (نکالا) اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں (جو قرآن میں نہ ہو) [ماخوز البخاری, حدیث: 3047][20]
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَإِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ. (البخاری، حدیث 7277)
ترجمہ: عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات (بدعة ) پیدا کرنا ہے (دین میں) اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ (البخاری، حدیث:7277)[21]
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ماخوز، ترمذی 2906)
جب حضرت ابو بکرصدیقؓ (رضی الله) مسند خلافت پر جلوہ آرا ہوئے تو آپ نے ایک دن ایک مجمع عام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"تم لوگ آج حدیث میں اختلاف رکھتے ہو آئندہ یہ اختلاف بڑھتا چلا جائے گا اس لئے تم آنحضرت سے کوئی حدیث روایت نہ کرو۔ اگر کوئی پوچھے تو کہو کہ ہمارے پاس قرآن موجود ہے۔ جو اس نے جائز قرار دیا اسے جائز سمجھو" (تذکرۃ الحفاظ ذہبی ص 3)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ الْغَدَ حِينَ بَايَعَ الْمُسْلِمُونَ أَبَا بَكْرٍ وَاسْتَوَى عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَهَّدَ قَبْلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَاخْتَارَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عِنْدَهُ عَلَى الَّذِي عِنْدَكُمْ وَهَذَا الْكِتَابُ الَّذِي هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَكُمْ، فَخُذُوا بِهِ تَهْتَدُوا وَإِنَّمَا هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ. [صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7269]
ترجمہ. تلخیص: ا" --- احضرت عمر (رضی الله) ۓ فرمایا : " -- اور یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین و سیدھا راستہ بتلایا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا۔[23] [ البخاری: 7269]
قران : نبی ﷺ کا معجزہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ، أُومِنَ أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
[صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7274]
ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔ [صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7274][24]
رسول اللہ ﷺ کا کردار قرآن تھا
عن قتادة قُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ (عائشة) أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ
میں نے کہا: ام المومنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کے بارے میں بتاینے۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا ہاں. اس پر انہوں نے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کردار قرآن تھا۔ [746 صحيح مسلم[25] كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب جامع صلاة الليل ومن نام عنه أو مرض]
یعنی جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نہیں ہو سکتی-
حلال و حرام قرآن میں بیان ہیں
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، قَالَ: الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ.(سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)
ترجمہ: سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:" حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے (سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)[26]
١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ٦ (١٧٢٦)، (تحفة الأشراف: ٤٤٩٦) (حسن) (شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: ٤٢٨)
نوٹ : یہ حدیث اور دوسری احدیث جن کا حوالہ یہں دیا گیا ہے وہ سب ابو داود 4604 اور اس موضوع پر احادیث کے کی واضح تردید ہے جس سے حدیث کو قرآن پر برترپیش کیا جاتا ہے[ تفصیل ملاحضہ لنک[27]،[28]]
مچھلی مردار حلال
یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ مردار حرام ہے قرآن کے مطابق مگر مچھلی حلال ہے حدیث کے مطابق- یہ ان لوگوں کی کم علمی اور قرآن کو مھجور (متروک العمل)[29] کرنا ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے اور حدیث لکھنے پر پابندی کی احادیث اور خلفاء راشدین ، خاص طور پر حضرت عمر اور علی (رضی الله) کے فرامین نے کیا تھا کہ پچھلے امتوں کی طرح کتاب اللہ (قرآن) کو ترک کر دیا گیا کتب حدیث لکھ کر- یہ اس کا عملی زندہ ثبوت ہے- حدیث میں اتنے مشغول ہیں کہ قرآن صرف تلاوت کر تے ہیں سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے- قرآن میں یہ آیت موجود ہے :
اُحِلَّ لَکُمۡ صَیۡدُ الۡبَحۡرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِلسَّیَّارَۃِ ۚ (سورة المائدة، آیت 96)،[30]
ترجمہ : تمہارے لئے سمندر (دریا) کا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے تمہارے فائدے کے واسطے اور مسافروں کے واسطے ۚ (سورة المائدة، آیت 96)[31]
اتنی جامع کہ تمام بحری ، پانی کے شکار حلال ہیں- اب مچھلی کو کون کیسے ذبح کر سکتا ہے بکرہ یا ا اونٹ کی طرح ، عقل بھی کوئی چیز ہے.
حدیث قرآن و سنت کے مطابق
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَخْلَدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمُعَدِّلُ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي ، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ يَعْنِي الْمُحَارِبِيَّ ، ثنا صَالِحُ بْنُ مُوسَى , عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ,عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:
سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي [الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
ترجمہ : میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی [الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303][32]
اس اصول / حدیث کی سپورٹ قرآن اور دوسری احادیث اصول#1 سے #7 تک بھی ہوتی ہے- تمام آیات قرآن اور احادیث و اصول ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طور پر قبول اور سمجھا جاۓ-
قرآن نے عقل شعور[33] کے استعمال پر بہت زور دیا ہے(49 مرتبہ)-'
عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ (قرآن 2:269)
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
"بے شک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے بدتر جانور وہ (انسان) ہیں جو بہرے گونگے ہیں جو عقل سے ذرا کام نہیں لیتے" (قرآن8:22)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"جب تم میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل شناسا ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم ہوجائے اور تم اس سے قرب محسوس کرو تو میں اس بات کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور اگر کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل نامانوس ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم نہ ہو اور تم اس سے دوری محسوس کرو تو میں تمہاری نسبت اس سے بہت زیادہ دور ہوں۔" " [ مسند احمد- حدیث: 22505][34]،[35]
نتیجہ
حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے ( تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1 نوٹ1[36] )
2.شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں:
"میں نے صحاح میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر دیتی ہیں۔ ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام خدا کو منسوخ کر سکتا ہے" (نظام القرآن)
3۔ جن احادیث کے متن (text/ contents) کا معیار رسول اللہ ﷺ پر پورا نہیں اترتا تو ان کی تشہیر(سوشل میڈیا یا کسی بھی زریعہ سے) یا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح نافرمانی ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے﴿قرآن؛ 4:14 ﴾ (یہی سزا کفر کی بھی ہے)
4۔ جو احادیث قرآن کے مخالف نہیں مگر کوئی تفصیل نہیں ملتی اور سنت میں بھی ایک دوسرے سے کچھ اختلاف ہو جیسے "رفع یدین" ، صَلَاة میں "آمین بلند یا آہستہ" اور دوسرے فروعی مسائل وغیرہ ان پر بحث مباحث سے فتنہ ، فساد اور فرقہ واریت کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا جس کی قرآن میں اجازت نہیں حرام ہے۔ جس تک جو کچھ پہنچا ہے توتحقیق کے بعد اس پر عمل کریں اللہ غفور الرحیم ہے دونوں کو نیت پر اجر ملے گا (ان شاءاللہ) ۔ ) [37] ۔ یہ ہمارا امتحان ہے ورنہ اگر تیمم قرآن[38] میں بیان ہے تو نماز بھی بیان ہو سکتی تھی۔
مزید پڑھیں : قرآن اور عقل و شعور
محکم اور متشابھات احادیث
کسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے الله تعالی نے جس طرح قرآن کی آیات کو محکمات اور متشابھات میں تقسیم کیا اسی طرح احادیث میں بھی اس اصول کو لاگو کرنے سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں- "وہی الله ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دُوسری متشابہات۔ *جن لوگوں کو دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی (تاویلیں) پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلا ف اِ س کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ”ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔“ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں(القرآن 3:7)
تفصیل : شاه کلید قرآن: (Master Key Quran (3:7)
ایسی احادیث جو بہت منفرد ہوں ، قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتیں یا رسول اللہ ﷺ نے راوی کو انہیں بیان کرنے سے منع فرمایا لیکن راوی ںے حکم عدولی کرکہ بیان کر دیا لیکن ان کا درجہ بہت مستند و اعلی ہے تو ان کو متشابھات میں شامل کرکہ معامله اللہ کے حوالہ کر دیں- یا کسی صحابی کا عمل ، اجتہاد قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتا معلوم ہو تو ان کو بھی متشابھات میں رکھا جاسکتا ہے- قرآن کی طرح صرف واضح "محکم" احادیث قبول کرکہ اختلافات ، فرقہ واریت سے محفوظ رہا جا سکتا ہے
علمائے حدیث کے پاس رپورٹس کے لیے کئی قسمیں مروج ہیں، جو ان کے معیار کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک صورت حدیث کی اقسام میں تقسیم ہے اس بنیاد پر کہ حدیث کس کی طرف منسوب ہے۔ چار قسمیں ہیں. پہلی دو یہ ہیں[55]:
1۔حدیث قدسی: یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ اپنے رب کی طرف منسوب کیے ہیں، اور جس میں راوی کہتا ہے: اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی طرف سے بیان کرتے ہوئے فرمایا، وہ پاک اور بلند ہو، وغیرہ۔
2. مرفوع حدیث (حدیث نبوی) یہ وہ حدیث ہے جس میں قول، فعل، منظوری یا کوئی تفصیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے۔
3. حدیث قدسی اور حدیث نبوی واضح ہیں مگر حدیث کو وحی غیر متلو/ وحی خفی اور قرآن کو وحی متلو کی خود ساختہ اصطلاحات بہت بعد کی ایجاد ہیں-[56]
مزید پڑھیں: وحی متلو اور غیر متلو تحقیقی جائزہ (1) ، (2)
اصول # 5: سلسلہ اسناد
یہ اصول گمشدہ نہیں مگر علماء نے علم الحدیث کی بنیاد اسی اصول پر رکھی پہلے 6 اصول نظر انداز کرکہ- سلسلہ اسناد حدیث کو بیان کرنے والے راویوں کا سلسلہ ہوتا ہے جو ہر حدیث کے شروع میں موجود ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بات نبی ﷺ سے کس نے سنی ، پھر اس سے کس نے سنی اور آخر میں کاتب حدیث تک کس کے ذریعے پہنچی۔ اگر حدیث کا متن منطقی اور مناسب ہو پھر بھی حدیث کی اسناد کو چیک کرنا ضروری ہے- "اگر اسناد کوبلکل اہمیت نہ دی جائے تو جس کا جو جی چاہے گا اللہ کے نبی ﷺ کے نام پر کہتا پھرے گا"۔ [57]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
کہو: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ البقرۃ/111
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو [الحجرات: 6][58]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ان کو اس کا کوئی علم نہیں ہے اگر وہ گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی کریں، اور اٹکل حق کے لیے بالکل بھی کافی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے (قرآن 17:36)[60]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آخری عشرے میں جھوٹ بولنے والے جھوٹے، آتنکم گفتگو جن میں نہ آپ کو سنا، نہ آپ کے باپ دادا، ان کے ساتھ ویاکم، نہ عدلونکم، نہ اعتکاف۔ ) اسے مسلم نے اپنی صحیح کے تعارف میں روایت کیا ہے-
اسناد کا سلسلہ ایک انسانی کوشش ہے جس میں غلطی ، شرارت ، دھوکہ کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ دو ، چار لوگ مل کراسناد کے زور پر قرآن کی بنیادی ہدایت یا کسی حکم / احکام کو تبدیل کریں-
اس لیے تمام اصل میعار اور اصول جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایے ان کی ترجیج قائم رکھنا ضروری ہے :
حاکم نے ثابت بن قیس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا:
’آپ (صحابہ کرام) مجھ سے سن رہے ہیں اور وصول کر رہے ہیں اور لوگ (تبعون یعنی جانشین) آپ سے سنیں گے اور قبول کریں گے۔ پھر لوگ (عتبہ التبیعون) ان (جانشینوں) سے سنیں گے اور قبول کریں گے جنہوں نے آپ سے سنا اور قبول کیا۔ پھر لوگ (چوتھی نسل) ان لوگوں (عتبہ التبیعون) سے سنیں گے اور وصول کریں گے جو آپ کے جانشینوں کے سامعین اور وصول کنندہ تھے، جنہوں نے آپ سے سنا اور وصول کیا تھا۔ [متعلق الحاکم معرفۃ العلوم الحدیث، ص:60]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس کو خوش رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی، اسے حفظ کیا اور اسے اپنے ذہن میں رکھا اور پھر دوسروں کو سنایا۔‘‘(@)
[نوٹ : اس طرح کی روایات میں حدیث کو سن کر آگے بیان کرنے کی تاکید ہے ، لکھنے کا تذکرہ نہیں]
حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے (تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1 نوٹ1 )
کسی بھی حدیث (کتاب) کی قرآن نے ممانعت کر دی (فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ) ترجمہ: "اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟". [39] لیکن آیات قرآن کی تراجم میں معنوی تحریف[40] سے قرآن جو کہ عربی میں ہے بدلا نہیں جا سکتا- ایمان کے چھ اراکین میں بھی اب صرف آخری کتاب الله تعالی قرآن پر ایمان[41] اور عمل لازم ہے (قرآن:177, 2:285، 39:23، 45:6، 77:50،7:185، 4:87)- کہاں کہاں تحریف کریں گے؟ اس لیے جو لوگ قرآن کی ان آیات کا معنوی انکار کرتے ہیں، ان کے لئے احادیث سے ثبوت مہیا ہیں جو قرآن کی مذکوره آیات کی عملی تفسیر ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّرَّاجُ، بِنَيْسَابُورَ,حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ , حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَنَحْنُ نَكْتُبُ الْأَحَادِيثَ , فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي تَكْتُبُونَ؟» , قُلْنَا: أَحَادِيثَ سَمِعْنَاهَا مِنْكَ. قَالَ: «أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟ مَا أَضَلَّ الْأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَّا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ» . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ , تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . كَذَا رَوَى لَنَا السَّرَّاجُ هَذَا الْحَدِيثَ , وَرَوَاهُ غَيْرُ الْأَصَمِّ , عَنِ الْعَبَّاسِ الدُّورِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ , فَاللَّهُ أَعْلَمُ
مفھوم :
ابوہریرہ (رضی الله) نے فرمایا کہ:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ ﷺ نے فرمایاا:
"یہ کیا لکھ رہے ہو؟"
ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں لکھ رہے ہیں-
(وہ صرف احادیث لکھ رہے تھے، قرآن کا ذکر نہیں)
انہوں نے فرمایا:
کیا تم کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہو؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔
{یہ جواز قطعی حتمی اور ابدی ہے جو آج یہودیت اور مسیحیت کی ہزاروں سالہ تاریخ سے ثابت ہے، احقر کی تحقیق کے مطابق اس جواز کی آج بھی تصدیق ہوتی ہے، تفصیل اس لنک پر[42] - یہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا زندہ معجزہ ہے- مقام حیرت اور افسوس ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس حکم اوراس پر سنت خلفاء راشدین کو بھی نظرانداز کیا گیا، بڑے بڑے علماء و محدثین ںے اس پر عمل اور تحقیق کی بجانے اسے مخفی رکھنے کی مذموم کوشش کی جو اب بھی جاری ہے- ان کا معاملہ الله تعالی کے سپرد}
ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا:
یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا:
"ہاں ، میرے بارے میں بات کرو (حفظ و بیان) ، کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔" فَاللَّهُ أَعْلَمُ
["تقييد العلم للخطيب 33], [الفاظ میں فرق کے ساتھ ، مسند احمد، حدیث: 10670.مزید ملاحضہ، ابی داوود 4607, ترمزی 2676، ماجہ 42، صحیح مسلم، حدیث: 7510، تقييد العلم ، الخطيب البغدادي : 49)[43]
(لمكتبة الشاملة , فتح الباري ١ / ٢٠٨) [,2,3,4,5,6,1]
الراوي : أبو سعيد الخدري | المحدث : شعيب الأرناؤوط | المصدر : تخريج المسند لشعيب | الصفحة أو الرقم : 11092 | خلاصة حكم المحدث : صحيح | التخريج : أخرجه مسلم (2004) بعضه في أثناء حديث، وابن ماجه (37) مختصراً، وأحمد (11092) واللفظ له
مزید پڑھیں :
مسلمان ، یہود و نصاری کے نقش قدم پر
"ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا"- امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے" [مسلم، حدیث 40][44]
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث کو سنا، اسےحفظ کیا، اور پھر اسے آگے بیان کیا....(نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا)‘‘
[(مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 228, صحیح، رواہ الشافعی (فی الرسالۃ ص ۴۰۱ فقرہ: ۱۱۰۲ ص ۴۲۳) و البیھقی فی شعب الایمان (۱۷۳۸) و الترمذی (۲۶۵۸) و احمد (۱/ ۴۳۶) تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 10 (3660)، سنن ابن ماجہ/المقدمة: 18 (230) (تحفة الأشراف: 3694)، و مسند احمد (1/437)، و (5/183)، وسنن الدارمی/المقدمة 24 (235) (صحیح)[45]
اس حدیث میں لکھنے یا حدیث پڑھنے کا کوئی تزکرہ نہیں، مگر باوجود اس سے سے یہ تاثر نکلانا کہ حدیث کا حفظ و بیان مستحب طریقہ ہے اور کتاب حدیث بھی جائز ہے صرف ہٹ دھرمی ہے، جبکہ دوسری احادیث، سنت رسول اللہ ﷺ ، سنت خلفاء راشدین میں ممانعت کتابت حدیث، صحابہ کا اس پر عمل اور بعد میں بھی صدیوں تک مکمل پھر جزوی عمل ہوتا چلا آ رہا ہے-
وارننگ: اصول حدیث کی سپورٹ قرآن اور دوسری احادیث اصول#1 سے #7 تک سے ہوتی ہے- تمام مذکورہ آیات قرآن اور احادیث و اصول ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طور پرسمجھا جاۓ-
نوٹ:
1.حدیث کا معروف طریقہ سماع، حفظ و بیان ہے مگر رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو کمزوری حفظ پر زاتی نوٹس بنانے کی اجازت دی (کتاب نہیں) بہت کو انکار[46] جن میں ابوحریرہ (رض) بھی شامل تھے۔ اس سے مندرجہ بالا معیار رسول اللہ ﷺ پر پورا اترنے والی آحادیث کے نوٹس یا ڈیجیٹل ٹیکنولوجی [46a] کا جواز شائید ممکن ہو (واللہ اعلم)- اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے -
2۔ رسول اللہ ﷺ نے خلفاء راشدین کے فیصلوں پر وصیت میں پہلے ہی تصدیق کرکہ مہر رسالت ثبت کرکہ؛ قرآن کی تدوین کرنے اور احادیث کی کتابت نہ کرنے کے خلفاء راشدین کے فیصلہ[47] (سنت) کو اپنا فیصلہ (سنت) بنا دیا[48] جس پر صدیوں عمل ہوتا رہا۔
فَقَالَ الْعِرْبَاضُصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا ؟ فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ.( ابی داود 4607، ابن ماجہ42)-
عرباض ؓ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہوگئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ "جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت[49] اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعة ہے، اور ہر بدعة گمراہی ہے[50] [23] ( ابی داود 4607[24]، ابن ماجہ42) تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٣، ٤٤)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦)، سنن ال[51]دارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح )
کیا صرف ایک حدیث؟
یہ صرف ایک حدیث نہیں بلکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ قرآن کی تدوین[52] کس نے کب کی اور احادیث کی کتب کس کس نے کب لکھیں[53]- اورچھ اراکین ایمان میں پہلی کتب کے بعد اب صرف آخری کتاب اللہ، قرآن پرعمل اور ایمان لازم ہے[54]-
تمام اصول حدیث کی سپورٹ قرآن اور دوسری احادیث اصول#1 سے #7 تک سے ہوتی ہے- تمام مذکورہ آیات قرآن اور احادیث و اصول ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طور پرسمجھا جاۓ-
3. دوسری تیسری صدی ھ میں کتب احادیث لکھنے والوں نے اپنی صوابدید، عقیدہ، نظریات اور مسلک کے مطابق احادیث اپنی کتب میں شامل کیں، مخالف کو مسترد ، شامل نہ کیا یا بھول گۓ- کچھ مذکوراحادیث مثال ہیں۔
4۔ رسول اللہ ﷺ کے علم الحدیث کے اہم اصولوں کونظر انداز کرکہ صرف اسناد پرزور دیا۔
5. بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’): https://bit.ly/Bidaah
اختتامیہ
تمام اصول حدیث کی سپورٹ قرآن اور دوسری احادیث اصول#1 سے #7 تک سے ہوتی ہے- تمام مذکورہ آیات قرآن اور احادیث و اصول ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طور پرسمجھا جاۓ-"
علم الحديث کے سات سنہری اصول" قرآن اور اطاعت رسول اللہ ﷺ میں مرتب کیے گئے ہیں جو صدیوں سے نظر انداز ہوئے- یھاں اہم اصول مختصر طور پر بیان کیے گۓ ہیں. اگر مزید تحقیق کی جایے تو ہر اصول پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں- حدیث رسول اللہ ﷺ کو رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ بنیادی اصولوں اور میعار کے مطابق نہ رکھنا فتنہ، فساد، فرقہ واریت اورامت مسلمہ میں نفاق اور فکری، روحانی و دنیاوی انحطاط کی بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے- اسلام کے اہم جزو (علم حدیث) کوکسی فرد یا گروہ کی اجارہ داری, صوابدید, اختیار کے دائرۂ سے نکال کر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کے طابع کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دین کا کوئی جزو اگر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے احکام سے باہرہو تو وہ گمراہی کا باعث ہو سکتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی موجودگی میں ان کو نظر انداز کرنا گناہ کبیرہ ہے-
رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا : "جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔ [جامع ترمذی، مشکوٰۃ المصابیح - حدیث نمبر 165]
احادیث کی تدوین نو کیوں؟
پھر اے محمد ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبَان ہے (قرآن 5:48)
وحی میں شیطانی مداخلت کا فتنہ (آزمائیش) سے قرآن محفوظ
وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَلاَنَبِیٍّ إِلاَّ إِذَا تَمَنَّی اٴَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی اٴُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اللهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللهُ آیَاتِہِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ۔ لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡقَاسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ(قرآن53، 22:52) شیطان ہر نبی یا رسول جسے ہم نے بھیجا ہے ان کی خواہشات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تب اللہ شیطان کے فتنوں کو دور کرتا ہے اپنی آیات کوپختہ کرتا ہے۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ وہ شیطان کے فتنوں کو ان لوگوں کے لئے آزمائش بناتا ہے جن کے دلوں میں نفاق ہے اور روگ ہے۔ اور بے شک ظالم لوگ البتہ دور کی گمراہی میں ہیں ۔اللہ ںے اپنی آیات کو تو محفوظ کر دیا مگر وہ شیطان کے فتنوں کو ان لوگوں کے لئے آزمائش بناتا ہے جن کے دلوں میں نفاق ہے اور روگ ہے۔ شیطان کا تو کام ہی فتنہ اور وسوسے ڈالنا ہے اسے قیامت تک الله تعالی کی طرف سے چھوٹ دی گئی ہے اور یہی ہماری آزمائش ہے اس دنیا می
ںشیطان قرآن سے مایوس ہو کر احادیث پر حملہ آور ہوا ، کتابت احادیث سے رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین نے منع فرمایا کیونکہ پہلی اقوام (یہود و نصاری) نے دوسری کتب ( جدید تلمود اورعہد نامہ) لکھیں اور کتاب اللہ (تورات و انجیل) کو نظر انداز کرکہ گمراہ ہو گین-
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ 43)
نئی نئی اصطلاحات بدعة ایجاد ہوئیں قرآن کو 'وحی متلو' اور احادیث کو 'وحی غیر متلو' قرار دیا گیا
(یہ اصطلاحات نہ قرآن میں نہ کسی حدیث میں) اور احادیث کا مرتبہ قرآن کے قریب یا برابر بلکہ کہیں
بلند کر دیا گیا- احادیث سے قرآن کی آیات اور اہم احکامات کو عملی طور پر منسوخ، ناقبل عمل کر دیا گیا.
قرآن کو قرآن میں رسول اللہ ﷺ سے قیامت کو ادا کردہ الفاظ میں مہجور (تارک العمل) کر دیا گیا
(قرآن 25:30). اس طرح سے فرقہ واریت. نفاق اور گمراہی پھیل گئی اور اب قرآن صرف تلاوت تک
محدود ہو چکا ہے. نتیجہ جو کچھ احادیث میں قرآن کے مطابق ہے وہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان، کلام ہے
(رسول اللہ ﷺ قرآن کا عملی نمونہ تھے) اور جو قرآن کےمطابق نہیں ہے وہ لوگوں کا کلام ہے یا شیطانی
مداخلت جسے قرآن منسوح کر دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا : "میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا
بعض کومنسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث 189) (سنن دارقطنی: ۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190)
.شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں:
"میں نے صحاح میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر دیتی ہیں۔
ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام خدا کو منسوخ کر سکتا ہے" (نظام القرآن)
حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔
اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے ( تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1 نوٹ1[36] )
شیطان کے حملہ کا جواب اور آزمائش می کامیابی کی ضرورت
قرآن سب کتب پر مھیمن . نگران، مصدیق، فرقان (کسوٹی) ہے اس کی اصل برتر حیثیت کو بحال کرکہ
احادیث میں تحقیق کے بعد شیطانی مداخلت کو منسوخ کرنے کی فوری ضرورت ہے- یہ کم ہنگامی بنیادوں پر
اہل علم مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر کرنا ہو گا- امت مسلمہ ، مسلم ممالک کی حکومتوں، دینی
دارالعلوم، یونیورسٹی لیول پر اعلی تحقیق اور تجزیہ کی ضرورت ہے- کمپیوٹر کے دور میں یہ مشکل کام
نہیں- [ واللہ اعلم بالصواب ]
یہ اہم کام صرف وہی کر سکتا ہے جس کا دل (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ) سے معمورہو, صرف زبانی دعوے نہیں- انفرادی کوششوں کے ساتھ ساتھ اس کار خیر میں جتنے زیادہ لوگ حصہ لیں گے اس میں زیادہ درستی اور برکت ہو گی- ہم سب کو ذاتی مفادات اور تشہیر سے بلند ہو کر اس اہم ذمہ داری کو نبھانا ہے، جس کا اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے- بہتر ہے دو تین ہم خیال علماء / محدثین/ مسلمان اپنے گروپ بنائیں اور یہ نیک کام شروع کر دیں.**گائیڈ لائنز سے استفادہ کر سکتے ہیں- جو لوگ یہ کام نہیں کر سکتے وہ کم از کم یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں- (جزاک الله)
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)
*****
@ احادیث کی تدوین و ترتیب نو - گائیڈ لائنز
کسی مسلمان کے لیے یہ کام مشکل نہیں- عقل ، علم ، خواہش ، جذبہ اور جوش درکار ہے-
دو رکعت نفل حاجت ادا کرکہ اللہ سے شیطان رجیم کے شر سے پناہ، بخشس، الله کی مدد و ھدایت حاصل کرنے ، گمرآہی سے بچنے ، علم کے حصول اور اس نیک کام میں خلوص نیت اور تکمیل کی دعا کریں اور یہ کام اکثر کرتے رہیں-
قرآن کریم کواچھے ترجمہ / مفسر / عالم کی تفسیر/ تفاسیر سے سمجھ کر پڑھیں/ ویڈیو بیان بھی مہیا ہیں-
علم الحدیث کی مستند کتب پڑھیں اور حدیث کے متعلق بنیادی معلومات سے آگاہی حاصل کریں-
اہم آیات و نقاط کو مضمون کا انڈکس / فہرست بنا کر ریفرنس نوٹ کرتے جائیں-
مضامین کی لست خود بھی بنا سکتے ہیں یا مشہور حدیث کی کتب سے مل جائیں گی-
قرآن اور احادیث کی مشور ایپ گوگل store سے انسٹال کریں یا لیپ ٹاپ پر ویب سائٹس کو بک مارک کریں-
ہر حدیث سے اہم الفاظ (key word/ words) کو قرآن کے انڈکس یا سرچ میں تلاش کریں -
کسی خاص موضوع پر قرانی آیات اور احادیث کا تقابل کریں-
جو احادیث قرآن کی کسی آیت سے ملتی جلتی ہیں ان کو علیحدہ نوٹ کرتے جائیں . حدیث کا ریفرنس اور آیات کا ریفرنس-
جو احادیث قرآن سے سپورٹ نہیں ہوتیں ان کو علیحدہ لسٹ میں نوٹ کرتے جائیں-
ایک تیسری لسٹ "متفرق" بنائیں جس میں ایسی احادیث جو پہلے والی دو لسٹ / فہرست میں شامل نہیں ہو سکتیں ان کو نوٹ کریں- بعد میں مزید تحقیق کے لیے.
جد بازی مت کریں غلطی مت کریں جہاں شک ہو سوالیہ نشان ؟ لگا کر ساتھیوں / علماء / محدثین سے ڈسکس کریں- یہ لسٹ /کام جب مکمل ہو جایے تو بھی حتمی (final) نہیں، ایک دوسرے سے کراس چیک کریں اور پھر جب تک کوئی اچھا عالم دین اس کی تصدیق نہ کرے اس کو شیر نہ کریں- اپنی طرف سے کچھ شامل نہ کریں ھر کام کی سند / ریفرنس / لنک ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی تصدیق کر سکے-
تمام اصولوں کے مطابق لسٹس کی جانچ پڑتال کریں عقل کا استعمال بہت اہم ہے- جو احادیث عقل کے خلاف ہیں ان کی علیحدہ لسٹ بنایئں اگر علماء سے ڈسکشن سے مطمئن ہیں تو ریمارکس میں وجہ لکھیں ورنہ علیحدہ رکھیں-
سلسلہ اسناد کی موجودہ حثیت کی پڑتال کریں جو ہر ایک حدیث کے ساتھ لکھی ہوتی ہے اگر کہیں صحیح سے کم درجہ ، ضعیف وغیرہ ہو تو اسے مارک کریں-
اس بات کا خیال رکھیں کہ: اگر حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے (تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1 نوٹ1 )
یہ صرف گائیڈ لائنز ہیں ، کوئی بھی بہتر طریقہ اپنی سہولت کے مطابق اختیار کر سکتے ہیں - انٹرنیٹ پر معلومات اور ویڈیو بھی موجود ہیں- ڈیجیٹل ٹیکنولوجی کے استعمال سے پابندی میں آسانی اور کمزور حافظہ پرسہولت ہے- گوگل ڈوک (Google Doc) بہت سادہ ہے - ایک موضوع پرمجموعہ کی ایک مثال دیکھ سکتے ہیں-
"رساله تجديد الاسلام" کی اردو اور انگریزی ویب سائٹس پر اہم معلومات/ لنکس موجود ہیں :
- مزید :
- بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’): https://bit.ly/Bidaah
- مصادر الإسلام https://bit.ly/Islamic-Sources
- حدیث کے گمشدہ بنیادی اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
- موجودہ اصول حدیث
- علم أصول الحديث قواعد عقلية وأصول شرعية
- حدیث اور علم اصولِ حدیث
- علم حدیث:مصطلحات اور اصول
- https://bit.ly/Islamic-Sources
- علم أصول الحديث قواعد عقلية وأصول شرعية[61]
- https://islamqa.info/ar/answers/239540/
- حدیث اور علم اصولِ حدیث
- https://www.urduweb.org/mehfil/threads/105273/
- علم حدیث:مصطلحات اور اصول
- https://forum.mohaddis.com/threads/23649/
ضمیمہ1
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے احکام، نافرمانی کی سزا جہنم
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "--- جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی....[رواہ ابو ہریرہ، البخاری،2957][62]
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14 ﴾
تمام احکام مذکورہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں اور اس کے مقرر کردہ ضابطے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ و رسول کا کہنا نہ مانے گا اور اس کی باندھی ہوئی حدوں کو توڑ کر بڑھ جائے گا اور اس کے مقررہ ضابطوں سے تجاوز کرنے پر اصرار کرے گا اور اس کے قوانین کی بالکل خلاف ورزی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کردے گا۔ اور اس کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس آگ میں ہمیشہ ہمیش پڑا رہے گا اور اس کو ذلت و اہانت آمیز اور رسوا کن عذاب ہوگا-[63]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو (قرآن 47:33)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن؛ 8:22)
ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا[64]
جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔(قران 59:7)[65]
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواور سن کر اس سے منہ نہ پھیرو ۔ (الانفال : ۲)
یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا ﴿۶۶﴾
"جس دن ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں۔تو وہ کہیں گے کاش! ہم نے اللہ کی اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی۔"(الاحزاب:66)
یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا ﴿٪۴۲﴾ 3
"جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالٰی سے کوئی بات نہ چھُپا سکیں گے ۔۔" (النساء: 42)
وَ یَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیۡہِ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا ﴿۲۷﴾
اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کو (شرمندگی اور ندامت سے) کاٹتے ہوئے کہے گا،ہائے کاش! میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو ہی اپناتا۔"(الفرقان: 27)
وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ {ترجمہ: ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:256قرآن)}
https://www.facebook.com/IslamiRevival
Endnotes/ References
[1*]رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل ارشاد فرماتے تھے: (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889) /
[12] : “قطف الازہر متناتھرہ فی الخبار المتواتر” [Qatf al-Azhar al-Mutanathara fi al-Akhbar al-Mutawatirah https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html
[16] کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی : https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-compilation-history.html
[22] http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1705/6227
[23] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=7269
[25] ibid-
[31] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/fish.html
[32] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html
[34] Ibid
[46] https://quran1book.blogspot.com/2021/11/HadithBan-Sahabh.htm
[46a] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Digital-Hadith.html
[50] ابن ماجہ42 , سنن ابی داود 4607، انگریزی ترجمہ: کتاب41حدیث, 4590] [سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان] وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني): https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html
[53] 1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)، 2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)، 3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)، 4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی 275ھ/9-888ء ، 5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء ، 6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء
[63] [ماخوز ازتفسیر،کشف الرحمان، احمد سید دہلوی] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/14
رسول اللہ ﷺ سے منسوب بات بغیر تحقیق بیان کرنا جہنم کا ٹھکانہ ہے- صرف وہ حدیث درست ، قابل قبول ہو سکتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ معیار ( https://t.co/I3F2kwJbIb ) کے مطابق ہوں:https://t.co/sKYFXmzJns#Hadith #Quran #FakeHadiths #Islam
— Ahkam Al Quran احکام القرآن (@QoranGuides) July 29, 2023