اہل علم میں اپنی اپنی تاویلات اور توجیہات ،طرز فکر، سمجھ بوجھ کے مطابق اختلاف اور اتفاق ایک عام روٹین ہے جس سے ایسے طالبعلم جو کسی شخصیت یا طرز فکر کے اسیر نہیں نہ کسی فلسفی انقلاب یا نئے طرز فکر کے شوقین ہوں ، جو قرآن و سنت کی روشنی سے احادیث اور دوسرے علوم پر غور و فکر سے سادہ کامیاب معاشرہ قائیم کرتے ہوئے دنیا و آخرت کی بھلائی کے طلبگار ہوں فائئدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اکثر علماء/ سکالزز، اسلام کی نئی نئی توجیہات پیش کرتے ہیں دلائل کے ساتھ مگر]شاید ہی کوئی اصل سادہ اسلام کی بات کرے جو کہ حج الودع کے وقت اس آئیت کے نزول کے وقت تھا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
"۔۔۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل( perfect )کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔۔۔۔ (قرآن 5:3)
اکثر ترجمہ تکمیل completed ہے مگر کامل perfected ہونا چاہئیے، جو کہ کچھ نے ترجمہ کیا ہے۔ کامل perfection کے بعد زوال decline شروع ہوتا ہے ، یہی وجہ حضرت عمر ( رضی اللہ) کے رونے کی تھی، جس پر فرمایا کہ، اسلام غریب آیا تھا اور پھر غریب ہو جائیے گا۔
اسلام غریب کر دیا گیا ہے۔
ہم نے تو "اسلام" اور "مسلم" میں بھی سابقے ، لاحقے ، انسانوں، شہروں، کتب، کے نام لگا کر تکمیل دین کی کوششیں کر ڈالیں جس کو اللہ نے "کمال" تک پہنچانے کا اعلان فرمایا تھا۔ دین اسلام ، اس وقت کے سادہ "دین کامل" تک واپسی میں ہی فلاح ہے۔ جب ملاوٹ بہت زیادہ ہو جایے تو پھر اصول ہے کہ : اصل بنیاد کی طرف واپسی ... اسلام کی بنیاد اللہ کی کتاب قرآن ہے ، اسی پر عمل سے فلاح ہے .
اس سلسلہ میں کوشش کا آغاز کیا تو خیال تھا کہ اسلام کی اصل میں تبدیلی میں ہزار، بارہ سو سال لگے تو واپسی میں بھی شاید ہزار سال لگ جائیں- پھر "ہزار سالہ بیانیہ" (Malinnium Narrative) وجود میں آیا- الله سے دعا ہی کر سکتے ہیں- پھر اچانک 27 اپریل 2021 کو سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے ایک تی وی انٹرویو میں قرآن اور سنت/ حدیث متواتر کی بنیاد پر نفاذ شریعت کی بات کی ... معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں کا کام اب شاید دہایوں میں ممکن ہو! [واللہ اعلم] دین میں کسی تحریک یا نظریہ کنے فروغ پانے میں صدیاں لگ جاتی ہیں اورکوشش کرنے والے اپنی جدوجہد کنے نتیجہ سے لاعلم رہتے ہیں، مگر الله کا خاص کرم ہے کہ الله نے احقرکی کوشش کو شرف قبولیت بخشا، اور عملی اقدامات کا آغاز ہو چکا ہے- (الحمد لللہ) When there is much adulteration and confusion it is said: "Go back to the basics".
The basic book is The Holy Quran.
The first step: https://salaamone.com/muslim-only ~~~~~~~~~~~~~~
اسلام کی بنیاد الله کی نازل کردہ آخری کتاب ھدایت، قرآن پر ہے۔ قرآن پر عمل، دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راستہ ہے- قرآن کو چھوڑ کر کثیر تعداد کے باوجود مسلمان ذلت کا شکار ہیں- قرآن کی طرف واپسی کی سخت ضررت ہے- نبی اکرم نے قرآن مجید کے نفاذ کا عملی نمونہ پیش کیا ان کی سنت رول ماڈل ہنے جوتسلسل سے نسل در نسل تواتر سے منتقل چلی آ رہی ہے-
حدیث کے نام سےمعروف ان کے اقوال کو ریکارڈ کرنے پر رسول اللہ ﷺ نے پابندی لگائی کیونکہ پہلی اقوام تلمود اور جدید عہد نامہ کی 23 اضافی کتابوں سے بالترتیب تورات اور انجیل (الله کی نازل کردہ ) پر عمل ادرآمد نہ کرکہ گمراہ ہو گیئں تھیں- کمزور حافظے کے حامل کچھ صحابہ کو نجی نوٹس (صحیفہ ) بنانے کی اجازت تھی ، حفظ کے بعد حذف کردیئے ، کچھ نے انہیں رکھا۔ تاہم ، قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب کی پالیسی جاری نہیں رہی ، جس کا نفاذ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام نے کیا۔ تیسری صدی ہجرہ میں احدیث کی مشہور حدیث کی کتابیں اس پالیسی کے بر خلاف لکھی گئیں جن کو بدعت کی وجہ سے مسلمانوں نے قبول کرنے سے پس و پیش کیا یہ سلسلہ دو صدی چلتا رہا بلآخر پانچویں صدی ہجری [464 ہجری / 1072 C.E] کے وسط میں پہلی مرتبہ البخاری کو نشا پور کے ایک دینی تعلیمی ادارہ میں پہلی بار پڑھا گیا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت سے انحراف کے نتائج بہت خوفناک نکلے۔ اس کام کے کچھ فوائد تھے لیکن نقصانات بہت زیادہ- کتاب اللّہ قرآن پس منظر میں چلی گی،علماء نے انحرافات ، اختلافات اور فرقوں کو پیدا کرنے کے لئے حدیث کی کتابیں کو بھی استعمال کیا جو کہ یہود و نصاری نے کیا تھا - قرآن مجید کو صرف ایک مقدس کتاب قرار دیا گیا تاکہ برکتوں اور ثواب کے لئے تلاوت کی جائے ، 75 احادیث کی کتابیں اسلام پر حاوی ہیں۔ یہ عمل پچھلے ایک ہزار سالوں سے جاری ہے۔ پچھلی دو صدیوں کے دوران تجدید نو کی کچھ کوششیں کی گئیں لیکن ان کی سخت مزاحمت ہوئی اور روایتی علماء غالب رہے۔ فلسفی ، شاعر اور اسکالر محمد اقبال کے لیکچرز کی کتاب "اسلام میں مذہبی فکر کی تعمیر نو" عمل کی بجایے ، کتب خانوں میں دھول چاٹ رہی ہے ، ان کی شاعری خون میں حرارت اور ولولہ کے لئے موسیقی کے ساتھ گائی جاتی ہے-
اس اہم موضوع پرگہرائی سے تحقیق کی گئی، جو اب ویب سائٹ پر موجود ہے۔ قرآن کی اصل حیثیت کے احیاء کے لئے ایک "ملینیم بیانیہ " تشکیل دیا گیا تھ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی اسی طرح کا نظریہ لے کر آئے۔ اب دنیا اوراسلامک ورلڈ میں سعودی عرب کی مرکزی حثیت او اہمیت کے پیش نظر اور جدید میڈیا کی وجہ سے یہ کام صدیوں نہیں دہایوں میں ممکن ہے. قرآن پہلی صدی ہجری کی طرح پھر اسلام میں مرکزی حثیت حاصل کرکہ مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں مددگار ہو گا - ولی عہد شہزمحمد بن سلمان کے نقطہ نظر کنے نمایاں پہلو:
1. ولی عہد شہزمحمد بن سلمان نے بھی اس انٹرویو کو اسلامی فقہ سے متعلق امور پر آرا کے لئے استعمال کیا تھا۔
.2. نے کہا کہ "ہمارا آئین قرآن ہے ، اب بھی ہے اور آیندہ بھی ہمیشہ رہے گا۔"
3. کوئی بھی سزا جو شریعت (اسلامی قانون) سے متعلق ہو اس کو صرف قرآن کی واضح صراحت یا سنت کی طرف سے واضح صراحت کے ساتھ ن ہی افذ کیا جاسکتا ہے۔
4. رسول اللہ صلعم نے بالغ زنا کار لڑکی کو سزا دینے سے گریز کیا، تاخیر کی حالانکہ اس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔ بعض گناہوں اور جرائم کی سزا اللہ تعالٰی کی طرف سے آخرت میں ملے گی . وہ چاہے تو بخش دے-
5. مختلف اقسام کی حدیثوں کے مابین ان کی سچائی کی بنیاد پر تمیزکرنا ضروری ہے۔ متواتر (مسلسل) احادیث (جس کو بہت زیادہ لوگوں نے روایت کیا ہو ) بہت زیادہ مستند ہیں لیکن تعداد میں بہت کم ہیں-
6.جب حدیث کو سب سے پہلے درج (لکھا ) کیا گیا تو پیغمبر اکرم نے ان ریکارڈوں کو جلا دینے اور حدیث لکھنے پر پابندی کا حکم دیا ، اور اس (حکم ) کو "خبر" احادیث پر زیادہ لاگو ہونا چاہئے۔[ یعنی "خبر" احادیث کو جلا دینا چاہیے ]
7. ابن عبدالوہاب جدید سعودی عرب میں "غیر متعلق" ہو چکا ہے
8. جب ہم کسی مخصوص مکتبہ فکر یا اسکالر کی پیروی کرنے کا عزم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم انسانوں کی پرستش کر رہے ہیں۔
9. الله نے اپنے اور لوگوں کے درمیان کوئی رکاوٹ، پردہ نہیں ڈالا
10. الله نے قرآن مجید کو نازل کیا اور پیغمبر صلعم نے اس پر عمل درآمد کیا ، اورقرآن کی تفسیروتشریح کرنے کس میدان جگہ مستقل طور پر کھلا ہے۔
11. اگر وہاب اب زندہ ہوتے ، تو وہ سب سے پہلے ان لوگوں پر اعتراض کریں گے جو "اس کی تحریروں پر آنکھیں بند کرکے عمل مرتکب ہوئے، اور اپنی عقل اور دلوں کو تعبیرنو اور فقہی دلائل پر بند کیا ہو ۔ "
12. ہمیں قرآنی متن کی مستقل تفسیر کرنے میں مشغول رہنا چاہئے۔
13. تمام فتووں کو وقت ، جگہ اورمروجہ طرزفکر کی بنیاد پر مبنی ہونا چاہئے جس وقت اور حالات میں انہیں جاری کیا جاتا ہے۔
14. ہمیں قرآن کی حدود میں بین الاقوامی کنونشنوں ، معاہدات اور طریقوں پر عمل کرنا ہے۔
نوجوان سعودی ولی عہد شہزمحمد بن سلمان غیرمتوقع مگر سخت مزاج شخصیت سمجھی جاتی ہے، مگر ان معاملات میں وہ درست سمت پرنظر اتا ہے، اگر اس کی نیت درست ہے (واللہ اعلم) تو صدیوں کے بگاڑ کی درستی شاید دہایوں میں ممکن ہو سکنے !
~~~~~~~
اقتباسات : شہزاده محمد بن سلمان کا انٹرویو ، 27 اپریل 2021
سوال 1 : دین اسلام اور اعتدال
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ اس خصوصی انٹرویو میں خوش آمدید آ آپ نے اعتدال کے بارے میں پہلے بات کی تھی، آپ کی رائے میں اعتدال پسندی کا تصور کیا ہے؟
شہزاده محمد بن سلمان
بے شک ، یہ ایک وسیع اصطلاح ہے۔ تمام مسلم فقہا اور اسکالر ایک ہزار سالوں سے اعتدال پسندی کے تصور کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ لہذا ، مجھے نہیں لگتا کہ میں اس تصور کو واضح کرنے کی پوزیشن میں ہوں ، جتنا میں کرسکتا ہوں ... سعودی آئین کی پاسداری کروں ، جو قرآن ، سنت ، اور ہمارے بنیادی حکمرانی کے نظام کی ہے اور اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کروں گا۔ وسیع معنوں میں اس میں سب کچھ شامل ہے
سوال -2 ریاست میں شریعت
عام آدمی: یہ مجھے ایک اور سوال کی طرف لے جاتا ہے ، یعنی ریاست میں شریعت کی جگہ, مطلب ، آئین کی سطح ، عدلیہ ، عوامی جگہ ، اور افراد کی آزادی کی سطح پر۔
شہزاده محمد بن سلمان:
جیسا کہ میں نے پہلے کہا ، ہمارا آئین قرآن ہے ، اب بھی ہے ، اور اب بھی جاری رہے گا۔ اور ہمارے بنیادی نظام حکمرانی نے اسے واضح طور پر واضح کردیا ہے۔ ہم ، حکومت کی حیثیت سے ، یا شوریٰ کونسل کے بطور قانون ساز ، یا بادشاہ تینوں حکام کے لئے ایک حوالہ کے طور پر ، ہم کسی نہ کسی شکل میں قرآن کو نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن معاشرتی اور ذاتی معاملات میں ہم صرف ان شرائط پر عملدرآمد کے پابند ہیں جو قرآن مجید میں واضح طور پر بیان ہوئے ہیں۔
لہذا ، میں بغیر کسی واضح قرآنی شرط یا سنت کی صریح شرع کے شرعی سزا نافذ نہیں کرسکتا ۔ جب میں سنت سے صریح ضوابط کے بارے میں بات کرتا ہوں تو زیادہ تر حدیث مصنفین بخاری ، مسلم اور دوسروں کی طرح اپنے میعار کی بنیاد پر حدیث کو صحیح حدیث یا ضعیف حدیث میں درجہ دیتے ہیں۔ لیکن ایک اور درجہ بندی بھی ہے جو زیادہ اہم ہے ، یعنی روایت یا حدیث کو بہت سارے لوگوں نے یا ایک راوی نے بیان کیا ہے ، اور یہ شرعی طور پر ضوابط اخذ کرنے کے لئے فقہ کا بنیادی حوالہ ہے۔
چنانچہ ، جب ہم کسی متواتر حدیث کے بارے میں بات کرتے ہیں ، یعنی پیغمبر اکرم (ص) سے شروع ہونے والی ایک گروہ سے دوسرے گروہ کے پاس روایت اور تفویض کرتے ہیں، یہ احادیث تعداد میں بہت کم ہیں ، لیکن وہ اعتماد اور درستگی کے لحاظ سے مضبوط ہیں ، اور ان کی تعبیرات انکشاف کردہ وقت اور مقام کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہیں اور یہ کہ حدیث کو اس وقت کس طرح سمجھا جاتا تھا۔
لیکن جب ہم احد احادیث کے بارے میں بات کرتے ہیں ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہونے والے ایک فرد سے دوسرے شخص کے حوالے کردیئ جاتی ہیں ، یا ایک گروہ سے کسی گروہ یا ایک فرد سے ایک اور گروہ وغیرہ تک پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتے ہوے ، کیونکہ اس لڑی (چین ) کے تسلسل میں ایک فرد بھی آ جاتا ہے اسے "احد" حدیث کہتے ہیں۔
اور اس کو بہت سی طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، جیسے صحیح ، ضعیف یا حسن حدیث اور اس قسم کی احد احادیث "متواتر" احادیث کی طرح مظبوط نہیں ہیں۔ جن کو بہت افراد یا گروپوں کے ایک سلسلہ نے بیان کیا ہے جب تک کہ واضح قرآنی احکامات اور واضح دنیاوی یا دنیاوی بھلائی کے ساتھ جوڑ نہ بنایا جائے ، خاص طور پر اگر یہ صحیح احد احادیث ہے۔ اور یہ بھی حدیث کے ذخیرہ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
[ اضافی نوٹ: امام سیوطی نے ہر مرحلہ پر دس دس راویوں سے صرف 113متواتر احادیث اور سعودی حکومت کی ویب سائٹ پر 324 متواتر حدیث ہیں کی نشاندھی کی] اور ان کی تفسیر اس وقت اور جگہ کے مطابق تبدیل (مختلف ) ہوتی ہے جب اظھار ہوا اور اس وقت حدیث کو کیسے سمجھا جاتا تھا۔
جب کہ "خبر" ایک ایسی حدیث ہے جو کسی ایک فرد سے دوسرے واحد فرد وغیرہ کو کسی نامعلوم مصدر کے حوالے کیا جاتا ہے ، نبی اکرم سے شروع ہوتا ہے ، یا کسی گروہ سے دوسرے گروہ تک ، پھر ایک شخص سے دوسرے شخص کو اور اسی طرح سلسہ چلتا ہے جو پیغمبر اکرم کے ساتھ شروع ہو رہا ہے اس سلسلہ میں ایک گمشدہ ربط ہے۔ حدیث کی اکثریت اسی طرح کی ہیں اور اس قسم کی حدیث غیر معتبر ہے کیونکہ اس کی صداقت قائم نہیں ہے (مشکوک ) اوراس پر عمل کی پابندی نہیں ہے۔
اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حدیث کو سب سے پہلے درج کیا گیا تو پیغمبر اکرم نے ان ریکارڈوں کو جلا دینے اور حدیث لکھنے سے منع کرنے کا حکم دیا ، اور اس حکم کا اطلاق "خبر" احادیث پر زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے تاکہ لوگ شریعت کے نقطہ نظر سے اس نفاذ کے پابند نہ ہوں، کیوں کہ ان کو الله تعالی کی طاقت اور قدرت جوکہ ایسی تعلیمات پیش کرتا ہے جو ہر وقت اور مقام کے لئے موزوں ہو، کی مخالفت کرنے کے لئے گولہ بارود کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
لہذا ، جہاں تک شریعت کا تعلق ہے ، حکومت کو قرآن کے ضوابط اور متواتراحادیث کی تعلیمات پر عمل درآمد کرنا ہے ، اوراحد (خبر واحد ) احادیث کی سچائی اور توثیق پر غور کرنا ہے اور مکمل طور پر "خبر" احادیث کو نظرانداز کرنا ہے، چہ جائیکہ اس سے انسانیت کی بھلائی کے لیے کوئی واضح فائدہ کا حصول ممکن ہو ۔
لہذا ، مذہبی معاملہ سے متعلق کوئی سزا نہیں ہونی چاہئے سوائے اس کے کہ جب واضح قرآنی شرط موجود ہو ، اور اس سزا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے نافذ کیا ہے اس کی بنیاد پر اس کا اطلاق ہوگا۔
میں آپ کو ایک مثال پیش کرتا ہوں: زنا۔ غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے مارے جاتے ہیں ، شادی شدہ زانی کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اور یہ ایک واضح شرط ہے ، لیکن جب ایک زناکار عورت پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آئی اور اس نے پیغمبر اکرم (ص) سے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار فیصلے میں تاخیر کی۔ آخر کار اس نے اصرار کیا اور پھرپیغمبر اکرم (ص) نے اسے کہا کہ وہ جاکر چیک کریں کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں ، اور پھر وہ اس کے پاس واپس آئیں اور اسی منظر کو دہرایا گیا۔ وہ اس کے پاس واپس آئی اور اس نے اسے کہا کہ وہ بچے کو دودھ چھڑانے کے بعد واپس آجائے۔ وہ واپس نہیں آسکتی تھی ، لیکن اس نے اس کے نام کے بارے میں یا وہ کون ہے کے بارے میں نہیں پوچھا۔
لہذا ، ایک قرآنی حکم کو اپنانا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروی کردہ طریقہ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس پر عمل درآمد کرنا اور اس شخص کو تلاش کرنا کہ وہ ان کے خلاف کوئی خاص الزام ثابت کرے ، جب کہ پیغمبر اکرم (ص) سے مجرمہ نے خود رابطہ کیا اوراپنے جرم کا اعتراف کیا لیکن پھر پھر بھی اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا، پھر کیا یہ وہی نہیں جو خدا نے چاہا۔
اور اس بہانے سے کسی سزا کو نافذ کرنا کہ یہ شرعی جرم ہے جبکہ قرآن یا متوافق حدیث میں اس طرح کے جرمانے کی کوئی شرط نہیں ہے ، پھر یہ بھی شریعت پر جھوٹا عمل درآمد ہے-
جب الله تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم کسی خاص جرم کی مذہبی سزا دیں، تو اس نے واضح طور پر اس کی شرط رکھی ، اور جب اس نے کسی کام کو ممنوع قرار دیا اور آخرت میں سزا دینے کا وعدہ کیا۔
اس نے ہم سے انسانوں کی حیثیت سے اس عمل پر سزا دینے کے لئے نہیں کہا ، اور اس نے فرد کو یہ جان کر انتخاب چھوڑ دیا کہ حساب کا دن ہوگا اور آخر کار خدا رحیم بخشنے والا ہے ، لیکن شرک کی باتوں کے علاوہ
لہذا ، قرآن اور سنت کے نفاذ کے لئے ہمارا یہ صحیح طریقہ کار ہے جو ہمارے آئین اور نظام حکمرانی پر مبنی ہے۔
سوال-3 مکتب فکر محمد بن عبدالوہاب
کیا آپ ، آپ کسی خاص مکتب فکر کی پیروی کرتے ہیں ، جیسے محمد بن عبدالوہاب کے مکتب؟
کیا وہ کلام مقدس کی تشریح ترجمانی کرنے والا ہوگا؟
شہزاده محمد بن سلمان:
جب ہم اپنے آپ کو کسی خاص اسکول یا اسکالر کی پیروی کرنے کا پابند کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم انسانوں کو الہہ (دیوتا) بنا رہے ہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنے اور لوگوں کے مابین کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ الله نے قرآن مجید کا نزول کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل درآمد کیا اور تشریح کا میدان (space) مستقل طور پر کھلا ہے۔
اگر آج شیخ محمد بن عبدالوہاب ہمارے ساتھ ہوتے اور وہ ہمیں ان کی تحریروں پر آنکھیں بند کرکے عمل پیرا پاتے اور یہ دیکھتے کہ ہمارے دماغ تفسیراور فقہ پر بند ہیں اور ان کو مقدس اله سمجھتے ہیں، تو وہ اس پر اعتراض کرنے والا پہلا شخص ہوتا
کوئی طے شدہ مکاتب فکر نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی معصوم من الخطأ انسان ہے
ہمیں قرآنی متن کی تفسیر پر مستقل طور پر کام کرتے رہنا چاہئے اور اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بارے میں بھی - اور تمام فتووں کی بنیاد، وقت ، جگہ اور طرز فکر (مائینڈ سیٹ) پر ہونی چاہیے جہاں ان کو جاری کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر سوسال قبل جب کوئی عالم کوئی ایسا فتویٰ جاری کرتا جس کو یہ معلوم نہ تھا کہ زمین گول ہے اوروہ براعظموں یا ٹکنالوجی کے بارے میں بھی نہیں جانتا ، وغیرہ۔ وہ فتویٰ اس وقت کے حالات ، معلومات اور ان کی قرآن و سنت کی تفہیم پر مبنی ہوتا۔ ، لیکن یہ چیزیں وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں اور اب مختلف ہیں۔
تو ، آخر کار ہمارا حوالہ قرآن مجید اور سنت نبوی ہے ، جیسا کہ میں نے کہا ہے۔
سوال -4 قوانین
ذاتی حیثیت کے قانون کے حوالے سے ... آپ نے فیصلہ کیا کہ عدالتی ضابطہ ہمارے لئے مناسب نہیں ہے۔ آپ نے اس عدالتی ضابطہ کو کیوں مسترد کیا اور ذاتی قانون سمیت چاروں نظاموں کو اپنایا؟
شہزاده محمد بن سلمان:
کوئی بھی پہیے کو دوبارہ سے ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ دنیا ایسے واضح قوانین پر عمل کرتی ہے جو لوگوں کی زندگیوں کو باقاعدہ بناتی ہے۔ ہمارا کردار یہ یقینی بنانا ہے کہ سعودی عرب میں منظور شدہ تمام قوانین درج ذیل کی عکاسی کریں:
ایک ، یہ کہ وہ قرآن و سنت کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں۔ قرآن ہمارا دستور ہے ،
کہ وہ ہمارے مفادات سے متصادم نہیں ہیں ،
کہ وہ شہریوں کی سلامتی اور مفادات کا تحفظ کریں ،
اور یہ کہ وہ ملک کی ترقی اور خوشحالی میں معاون ہیں۔
لہذا ، بین الاقوامی کنونشنوں کے مطابق اس طریقہ کار کی بنیاد پر قوانین منظور کیے جاتے ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ سیاح یہاں آئیں ... اگر آپ سو ملین سیاحوں سے تیس لاکھ روزگار پیدا کرنے کے لئے راغب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، اور آپ کہتے ہیں کہ آپ عام قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے علاوہ کسی اور نئی چیز کی پیروی کررہے ہیں تو وہ سیاح آپ کے پاس نہیں آئیں گے۔
اگر آپ غیر ملکی سرمایہ کاری کو دوگنا کرنا چاہتے ہیں ، جیسے کہ ہم نے پانچ ملین سے لے کر سترہ ملین تک کی ہے ، اور آپ سرمایہ کاروں سے کہتے ہیں کہ آپ اس ملک میں سرمایہ کاری کریں جو کسی نامعلوم نظام پر چل رہا ہے کہ ان کے وکیل نھیں جانتے ہیں کہ وہ کس طرح کام چلائیں گے؟ نہ ہی ان کو معلوم ہے کہ قواعد و ضوابط کوکیسے لاگو اور نافذ کیا جاتا ہے ، پھر وہ سرمایہ کار صرف اپنے نقصانات کم کردیں گے اور ساتھ میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔
جب آپ مملکت سعودی عرب میں کام کرنے کے لئے کچھ صلاحیتوں اور انسانی وسائل کو راغب کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو قوانین کے نفاذ کے لئے ایک نئی ایجاد ہے ، تو کوئی آپ کے پاس نہیں آئے گا۔
لہذا ، آپ کو ان قوانین کو اپنانا ہوگا جو آپ کے آئین ، قرآن ، اور اپنے مفادات اور مقاصد کی بنیاد پر اور شہری کی حفاظت اور مفادات کے تحفظ اور ملک کی ترقی و خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ .
سوال -5 عالمگیریت ، سیاحت ، تفریح تشویش ، خدشات ، مزاحمت ، اور شناخت
آپ کا وژن سعودی عرب کو دنیا کے لئے کھولنے کے لیے ہے۔ آپ اس طرح کی عالمگیریت ، سیاحت ، تفریح وغیرہ کے حوالے سے معاشرے کے کچھ طبقات میں تشویش ، خدشات ، مزاحمت ، اور شناخت کے بارے میں خوف کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
شہزاده محمد بن سلمان:
اگر آپ کی شناخت دنیا کے تنوع کو برداشت نہیں کرسکتی ہے ، اس کا مطلب ہے کہ آپ کی شناخت کمزور ہے اور آپ کو اس کے بغیر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اور اگر آپ کی شناخت مضبوط اور مستند ہے اور آپ اس کی نشوونما کرسکتے ہیں اوراس کے مثبت پہلوؤں کو فروغ دے سکتے ہیں تو آپ اپنی شناخت کو محفوظ اور مضبوط بنائیں گے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم جس طرح سے لباس پہنتے ہیں ، اپنی روایات اور اپنی ثقافت اور ورثہ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارا اسلامی ورثہ ، یہ سب ہماری شناخت کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں جو ہم وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہیں اور اسے دنیا میں تبدیل کرنے کے لئے فروغ دیتے رہتے ہیں اور دنیا میں تشکیل دینے والی طاقت بن جاتے ہیں
مجھے یقین ہے کہ ہماری شناخت بہت مضبوط ہے ، اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ یہ بنیادی طور پر آپ ، میں اور سعودی عرب میں ہر شہری اور سعودی عرب میں ہونے والی تحریک اور ہماری سعودی شناخت پر مبنی ہے ، جو ہماری اسلامی ، عربی ، اور تاریخی ثقافت اور ورثے سے ماخوذ ہے۔
~~~~~~
دنیا اوراسلامک ورلڈ میں سعودی عرب کی مرکزی حثیت او اہمیت کے پیش نظر اور جدید میڈیا کی وجہ سے قرآن کی بنیاد پراحیائے اسلام کا کام صدیوں نہیں دہایوں میں ممکن ہے. پہلی صدی ہجری کی طرح جب قرآن پھر اسلام میں مرکزی حثیت حاصل کرنے گا تو جمود ٹوٹ جایے گا ، مسلمان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکیں گے- ان شاالله
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
🌹🌹🌹
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور کتاب حدیث پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ )( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ ، رسول اور جبرایل کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے کو کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-