أعوذ بالله من الشيطن الرجيم o بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (قرآن:3:132)
الله اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا- ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا -
انڈیکس - إجماع ممنوعہ
کتاب الله تعالی اور سنت رسول اللہ ﷺ کو پکڑو اور بدعات سے بچو
خلفاء راشدین کو اختلاف میں منصف اور ان کی سنت پر سختی سے عمل کا حکم
قرآن ، رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام (رضی الله) کے خلاف "اجماع شیطانی"
رسول اللہ ﷺ کی سنت کو منسوخ کرنے کا بزریعہ اجماع کا کسی فرد یا گروه کا اختیار نہیں
الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت / مخالفت اور مومنین کا راستہ
خلفاء راشدین اختلاف میں منصف،ان کی سنت پر سختی سے عمل کا حکم رسول اللہ ﷺ
~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~
رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل ارشاد فرماتے تھے
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
اما بعد، بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے (وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ )تعارف
شیطان ابتدا سے مسلسل انسانوں کو بہکانے میں لگا ہوا ہے اوروہ ہر طرف سے انسانوں پر حملے کرتا رہتا ہے۔ الله تعالی کا فرمان ہے؛"مگر اہل ایمان پریہ ناکام رہتا ہے- "اس کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کا بس تو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اللہ کے شریک بناتے ہیں". شیطان کا داؤ کیسے لوگوں پر چلتا ہے؟
شیطان کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ اپنی بات بزور کسی سے منوا سکے۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے جس کی بنا پر وہ کسی کو اپنی بات کا قائل کرسکے۔ وہ صرف وسوسے ڈال سکتا ہے۔ دل میں گمراہ کن خیالات پیدا کرسکتا ہے۔ اب جو لوگ پہلے ہی ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں وہ فوراً اس کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور شیطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شرک اور اللہ و رسول کی نافرمانی کی راہوں پر ڈال دے اور اس طرح بنی آدم سے انتقام لے سکے۔
لیکن وہ لوگ جو صرف اللہ پر توکل کرنے والے اور اپنے ایمان و عقیدہ میں مضبوط ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں پر شیطان کا کوئی داؤ کارگر نہیں ہوتا اور ایسے لوگ قرآن سے یقینا ہدایت ہی حاصل کرتے ہیں۔ اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے الله تعالی اس پر شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے.اسی لئےاللہ تعالی نے قرآن کریم میں شیطان سے بار بار پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی ہے- حتی کہ تلاوت قرآن سے قبل بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی تاکیدکی گئی ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شیطان کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگنے﴿یعنی: أعوذ باالله من الشيطن الرجيم﴾ پڑھنے کی تاکید کی ہے۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے بعد ان کو اکٹھا کرتا ہے تاکہ ان گمراہ لوگوں کی عددی اکثریت دیکھ کر لوگوں کو مغالطه ہوکہ اکثریت کا عقیدہ ، نظریہ ہی درست ہوگا، عوام کے پاس نہ وقت ہوتا ہے نہ علم کہ ہر کوئی تحقیق کر سکے اس لینے وہ علماء اورمذہبی پیشواؤں پر اعتماد اور تقلید کرتے ہیں- شیطان اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اس کا استحصال (exploit) کرتا ہے اور علماء اورمذہبی پیشواؤں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے. صرف مظبوط ایمان والے اہل علم شیطان کے نرغے سے بچ جاتے ہیں جبکہ اکثریت دھوکہ کھا جاتی ہے- اور ان کے مقلد بھی-
کتاب الله تعالی اور سنت رسول اللہ ﷺ کو پکڑو اور بدعات سے بچو
رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل ارشاد فرماتے تھے: ( وَيَقُولُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ )
ترجمہ:
اما بعد کہ بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے (وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ) (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889)
مزید : بدعة، گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ......
پہلا إجماع ممنوع
سب سے پہلے اجماع کا چیلنج حضرت نوح علیہ السلام ںے اپنی نا فرمان قوم کو دیا اور اس قوم ںے اسے قبول کر لیا- قوم نوح علیہ السلام کے "اجماع شیطانی" کا انجام سب کو اچھی طرح معلوم ہے:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ ﴿٧١﴾[59] فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٧٢﴾
اِن کو نوحؑ کا قصہ سناؤ، اُس وقت کا قصہ جب اُس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ “اے برادران قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر اجماع (متفقہ فیصلہ کرو) کر لو اور جو منصوبہ تمہارے پیش نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو- تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا (تو میرا کیا نقصان کیا) میں تم سے کسی اجر کا طلب گار نہ تھا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم ( اطاعت کرنے والا، فرمانبردار) بن کر رہوں" (قران: 10:71,72)[60]
جو قوم اللہ اور رسول کی نا فرمانی کرتی ہے اور ان کی اطاعت کے خلاف مذہبی پیشواؤں کی ملی بھگت حیل و حجت اور بہانوں سے گمراہی کا راستہ اختیار کرتی ہے، تاریخ ان کے عبرت ناک انجام سے بھری پڑی ہے، جن میں سے کچھ کل تذکرہ قرآن میں موجود ہے- مگرکمزور ایمان والے لوگ خواہشات نفس اور شیطان کے پھیلاۓ پرفریب جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر تاریخ دہرائی جاتی ہے-
إجماع ممنوع جديد
نبی آخرالزمان محمد رسول اللهﷺ ںے اپنا مشن مکمل کیا اور ہر طرح کے خطرات سے اگاہ کیا یھاں تک کہ اپنے بعد اختلافات کے حل کے لئے خلفاء راشدین مھدین کی سنت (فیصلوں) پر سختی سے عمل کرنے، جبڑوں سے پکڑنے کا حکم دیا اور بدعات سے بچنے کا بھی فرمایا- صحابہ اکرام (رضی الله) ںے رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہونے کا حق ادا کیا اور کسی ںے بھی خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرتے ہونے (جس کا حکم رسول اللہ ﷺ ںے دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کا حکم اللہ کا حکم ہوتا ہے) کوئی "کتاب حدیث" نہ لکھی بلکہ منع کرتے کرتے فوت ہو گئے-
دوسری ، تیسری صدی حجرہ میں الله، رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ (رضی الله) کے اجماع کے خلاف " اجماع انحرافی" کی کوششوں کا آغاز ہوا- منع گھڑت جھوٹی داستانیں ، قصے گھڑے گئے (معلومات مضللة) غلط معلومات کی مہم (disinformation campaign) چلائی گئی اور تیسری صدی حجرہ میں مشہور "کتب حدیث" مدون کی گیئں- مگر ان کو فوری قبولیت حاصل نہ ہو سکی مزید دو صدی کی مہم کے بعد البخاری کو پہلی بار 464 ھ / 1072ع میں نیشا پور دارالعلوم میں عوامی طور پر پڑھا گیا۔ لیکن اس کے باوجود حکم رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین و صحابہ اکرام کے طریقہ پر حادیث کا سماع ، حفظ و بیان ہے مقبول رہا یہ سلسلہ آج بھی کسی حد تک قائم ہے-
بندہ ناچیز کے دل میں ہمیشہ یہ سوال کھٹکتا کہ جب قرآن کی تدوین ہو چکی تو پھر احادیث کی کتاب یا کتابیں کیوں نہ لکھی گیئں جبکہ صحابہ اکرام بھی حیات تھے- علماء کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا- یہ بات کہ قرآن اور احدیث مکس نہ ہوں ختم ہو جاتا ہے جب تدین قرآن ہو چکی تھی- جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ قرآن ، حدیث مکس ہونے والی بات ایک جھوٹی منع گھڑت داستان ہے- پھر مزید جهوٹ در جھوٹ ملتے گۓ- اور تحقیق کا دائرۂ بہت بڑا ہو گیا- اب تمام حقائق ویب سائٹس پر پوسٹ کر دینے ہیں تاکہ محققین اور طالب حق کو کوئی مشکل درپیش نہ ہو-
قرآن ، رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام (رضی الله تعالی عنھم) کے خلاف " اجماع انحرافی"
بہت علماء اور دین سے محبت اور علم کا شوق رکھنے والے مسلمانوں سے ڈسکشنز ہوتی رہتی ہیں- جب ان کے تمام سوالات ، اشکال کے مدلل جواب قرآن ، سنت ، حدیث اور تاریخی حقائق سے دے دینے تو اخیر میں فرماتے ہیں کہ "کتب حدیث" لکھنا اشد ضروری تھا اور اس پر علماء کا اجماع ہو گیا- عرض کیا کہ اجماع الله تعالی ، رسول اللہ ﷺ کے احکام کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ ان کی اطاعت کا حکم قرآن میں بار بار ہے- لیکن وہ حضرات مصر ہیں اور اپنے عقیده و نظریات پر قائم ہیں-
رسول اللہ ﷺ کی سنت (حکم) کو منسوخ کرنے کا بزریعہ اجماع کا کسی فرد یا گروه کا اختیار نہیں
امام شافعی اپنی کتاب "الرساله" میں سائل سے مکالمہ کی صورت لکھتے ہیں :
"جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ چونکہ کسی مخلوق کا کوئی قول سنت سے مشابہ نہیں ہے اس لئے اس کا نسخ صرف اسی کے مماثل کسی چیز سے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کے علاوہ کوئی چیز اس کے مماثل نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالی نے کسی شخص کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرح کا نہیں بنایا۔ بلکہ اس نے اپنے بندوں پر تو آپ کی اطاعت کو لازم کیا ہے اور آپ کا حکم ماننا ضروری قرار دیا ہے۔ تمام مخلوق آپ کی پیروکار ہے۔ ایک پیروکار کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ آپ کے حکم سے اختلاف کرے۔ جب سنت رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا اتباع لازم ہے تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی اس میں سے کسی چیز کو منسوخ کر سکے۔"
سائل: کیا اس بات کا امکان ہے کہ کوئی منسوخ سنت تو ہم تک منتقل ہو گئی جبکہ اس کو منسوخ کرنے والی ناسخ سنت منتقل نہ ہو سکی؟
شافعی: اس بات کو کوئی امکان نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز فرض نہیں ہے وہ تو منتقل ہو جائے جبکہ جو چیز فرض کر دی گئی ہے وہ ترک کر دی جائے؟ کیا یہ درست ہے کہ ایک ایسی سنت جس پر عام لوگوں کا عمل ہے، وہ ان کے عمل سے نکل جائے اور وہ کہہ سکیں، "شاید یہ منسوخ ہو گی؟" کوئی حکم اس وقت تک منسوخ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی جگہ دوسرا حکم نہ دے دیا جائے جیسا کہ بیت المقدس کے قبلے کی منسوخی کی صورت میں ہوا۔ اس کی جگہ پر کعبہ کو قبلہ مقرر کیا گیا۔ اسی طرح اللہ کی کتاب اور سنت رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم دونوں کے ہر منسوخ حکم کا معاملہ ہے (کہ منسوخ ہونے کے بعد ناسخ حکم کو جاری بھی کیا جائے گا۔)
"کتاب الرساله" کا حصہ سوم، سنت اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ثابت شدہ سنت اور حدیث سے متعلق اصولوں پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں امام شافعی نے یہ اصول بیان کیے ہیں:
(1).للہ کے دین کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات ہے۔ رسول کی حیثیت سے جو احکام آپ نے دیے انہیں قبول کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔
(2).رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جن کاموں سے منع فرمایا، ان سے رکنا ضروری ہے۔
لہذا یہ دعوی کرنا کہ رسول اللہ ﷺ ںے کتب حدیث لکھنے کی جو ممانعت کی وہ کچھ صحابہ اکرام کی حفظ کی کمزوری پر ذاتی نوٹس لکھنے کی اجازت سے منسوخ ہو گئی درست نہیں کہ یہ عزر پر اجازت تھی جیسے بیمار کا پیٹھ کر صَلَاة پڑھنا یا پانی کی آدم دستیابی پر تیمم کرنا وغیرہ- اس کے علاوہ بہت صحابہ اکرام کو رسول اللہ ﷺ ںے اجازت دینے سے انکار کر دیا ایس کا مطلب ہے کہ پہلا حکم لاگو ہے منسوخ نہ ہوا-
اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ ںے اپنے بعد اختلاف میں فیصلہ کا منصف خلفاء راشدین کو مقرر فرمایا اور ان کی سنت (فیصلوں) کو دانتوں سے پکڑنے کا حکم دیا-
چاروں خلفاء راشدین کی سنت میں کتابت حدیث شامل نہیں- حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله) ںے اپنا ذخیرہ حدیث مٹا دیا (جو یقینی طور پر رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے لکھا ہو گا)، حضرت عمر (رضی الله) ںے تو ایک ماہ تک بہت تفکر . تدبر ، غورو فکر، استخارہ کے بعد وہی فیصلہ کیا جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق تھا کہ کوئی کتاب نہیں صرف کتاب الله تعالی کہ پہلی اقوام کتب لکھ کر کتاب الله کو ترک کرکہ گمراہ ہو- بعد کے خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام ںے اسے قبول کیا اور عمل کیا ، بلکہ جوحدیث لکھنے کی کوشش کرتا اسے منع فرماتے حتی کہ تمام صحابہ اکرام دنیا سے کتاب حدیث لکھے بغیر رخصت ہو گۓ-
الله تعالی کا فرمان ہے :
تمہارے رب کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔ (النساء 4:65)[61]
"کسی مومن مرد یا عورت کو یہ روا نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ تو جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔ (الاحزاب 33:36)[62]
أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَﷺ قرآن اور احادیث سے مزید ریفرنسز اس لنک[63] پر ...
دوسری تیسری صدی حجرہ یا بعد میں قرآن ، رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کی سنت کو کسی اجماع کی بنیاد پر منسوخ یا تبدیل کرنا ایک "اجماع شیطانی" کے علاوہ کچھ نہیں جس نہ فرمانی کا انجام قرآن کے مطابق ابدی جہنم ہے-
الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت / مخالفت اور مومنین کا راستہ
وَمَنۡ يُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الۡهُدٰى وَ يَـتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصۡلِهٖ جَهَـنَّمَ ؕ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا ۞
"مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور (سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ) اہل ایمان کے راستے کے سوا کسی اور راستہ پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو ، تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے ۔ (القرآن، 4:115)[64]
اللہ کی آیات کی تکزیب کرنے والوں کا انجام
تمام امتوں کے اہل علم میں یہ عام بات ہے کہ وہ اپنے قائیم کردہ نظریات و عقائید کی کتاب اللہ سے مدد حاصل کرنے یا عقائید و نظریات کتاب اللہ کی واضح آیات کے برخلاف ہونے کی وجہ سے آیات کے معنی اپنی پسند کے نکالتے ہیں (معنوی تحریف) ان کے متعلق اللہ کا فرمان ہے:
وَ يَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ فَوۡجًا مِّمَّنۡ يُّكَذِّبُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمۡ يُوۡزَعُوۡنَ ۞ حَتّٰٓى اِذَا جَآءُوۡ قَالَ اَكَذَّبۡتُمۡ بِاٰيٰتِىۡ وَلَمۡ تُحِيۡطُوۡا بِهَا عِلۡمًا اَمَّاذَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ۞ وَوَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَيۡهِمۡ بِمَا ظَلَمُوۡا فَهُمۡ لَا يَنۡطِقُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور جس روز ہم ہر اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو اُن کی جماعت بندی کی جائے گی ۞ یہاں تک کہ جب (سب) آجائیں گے تو اللہ فرمائے گا کہ کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلا دیا تھا اور تم نے ان پرعلمی احاطہ تو کیا ہی نہ تھا۔ بھلا تم کیا کرتے تھے ۞ اور اُن کے اپنی جانوں پرظلم کے سبب اُن کے حق میں وعدہ (عذاب) پورا ہوکر رہے گا تو وہ بول بھی نہ سکیں گے۞ (القرآن - سورۃ نمبر 27 النمل, آیت نمبر 83-85)
اہل ایمان / مومن کون؟
مذکور آیت میں، الله تعالی نے (غَيۡرَ سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ) ترجمہ: {'مومنین کے راستہ کے علاوہ کسی اور راستہ} کا ذکر فرمایا:
ہم عام طورپرہرکلمہ گو، ظاہری مسلمان کو مومن سمجھتے ہیں، مگر اصل مسلمان، مومن وہ ہے جس کا ایمان کامل ہو- الله تعالی کا فرمان ہے:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٤﴾ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿١٥﴾
اعراب ( صحرائی عرب ) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ان سے کہئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہوا ہی نہیں ہے اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا ۔ بےشک اللہ بڑا بخشنے والا ، بڑا رحم کرنے والا ہے- حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ۔ وہی لوگ سچے ایماندار ہیں (قرآن : 49:14,15)[65]
اس آیت میں جو نکتہ بیان ہوا ہے وہ اسلامی معاشرے کی رکنیت اور اسلامی ریاست کی شہریت کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ {اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا} “ ایمان" دراصل ایک نظرنے کا نام ہے جو دل کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی طریقے یا ذریعے سے کسی شخص کے ایمان کی تصدیق یا تردید نہیں ہوسکتی۔ لیکن استثنا بھی موجود ہے، جس کی بہترین مثال خلفاء راشدین (رضی الله تعالی عنهم) کی ہے- جو کہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں جن کو دنیا میں جنت کی بشارت رسول اللہ ﷺ ںے دے کر ان کے ایمان پر مہر نبوت سے تصدیق کر دی-
اگرچہ دنیا میں اسلامی معاشرے کے افراد یا اسلامی ریاست کے شہریوں کی قانونی حیثیت کا تعین ”اسلام“ (ظاہری دعوی ایمان) کی بنیاد، پر ہوگا نہ کہ اصل ” ایمان “ جوکہ دل میں ہے۔ البتہ آخرت میں اللہ کے ہاں ہر شخص کے معاملات کا فیصلہ ایمان کی بنیاد پر کیا جائے گا- اس میں شک نہیں کہ اس جگہ ایمان کا لفظ قلبی تصدیق کے لیے اور اسلام کا لفظ محض ظاہر اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے ( یہاں اسلام سے مراد اسلام لغوی بھی ممکن ہے)-
مگر قرآن کی جن آیات میں اسلام اور مسلم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان تتبعُّ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام اس دین حق کا نام ہے جو اللہ نے نوع انسانی کے لیے نازل کیا ہے ، اس کے مفہوم میں ایمان اور اطاعت امر دونوں شامل ہیں ، اور مسلم وہ ہے جو سچے دل سے مانے اور عملاً اطاعت کرے ۔
اہم قانونی اور اصولی نکتہ ضرور مدنظر رہنا چاہیے کہ یہاں جس اطاعت کا ذکر ہے اس سے مراد کلی اطاعت ہے۔ کیونکہ { اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص } ( البقرۃ : ٢٠٨) کے واضح حکم کے بعداسلام میں جزوی داخلہ اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی جزوی اطاعت قابل قبول ہی نہیں۔
رسمی اور حقیقی ایمان کے درمیان فرق یہ ہے کہ رسمی طور پر ایمان لانے والے رسماً اسلام پر عمل کرتے ہیں اور حقیقی طور پر ایمان لانے والے صرف اپنے رب کی رضا کے لیے عمل کرتے ہیں یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں جو مکمل طور پر بغیر حجت، بحث کے الله تعالی اپر رسول اللہ ﷺ کی مکمل اطاعت کرتے، صرف خالی دعوی نہیں بلکہ عمل سے ثابت کرتے ہیں-
ان کی بہترین مثال خلفاء راشدین (رضی الله تعالی عنهم) کی ہے- جو کہ عشرہ مبشرہ[66] میں شامل ہیں جن کو دنیا میں جنت کی بشارت رسول اللہ ﷺ ںے دی-
مزید: سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث[67]
اہل ایمان کے راستے (سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ) کی ترجیحات
اگر دنیا میں کسی معامله میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی اختلاف پر مومنین کی سنت کی تقلید یا پیروی کرنا ہو تو بہترین (سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ) اہل ایمان کا راستہ سنت خلفاء راشدین (رضی الله تعالی عنهم) اور جید علماء صحابہ اکرام[68] (رضی الله) کا ہے، جن کے ایمان کی گواہی رسول اللہ ﷺ ںے جنت کی بشارت دے کر دی اور ساتھ ہی ان کو اختلافات میں منصف کا درجہ بھی عطا فرمادیا، خلفاء راشدین کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے، سختی سے عمل کرنے کی وصیت فرمائی[69]- یہ عظیم منصب و مرتبہ کسی اور شخصیات کو حاصل نہیں- اگر کوئی بات ان کی سنت میں نہیں ملتی تو پھر ان کے بعد صحابہ کرم (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ[70]) کا اجماع قابل قبول ہو سکتا ہے جن سے الله تعالی راضی ہوا اور ان کی بڑی فضیلت[71] ہے- لیکن کوئی اجماع ،احکام الله تعالی (قرآن) ، سنت رسول اللہ ﷺ[72] اور سنت خلفاء راشدین[73] (رضی الله تعالی عنهم) اور فیصلوں کے خلاف نہیں ہوسکتا اس پر کسی مومن کو دلیل یا بحث کی ضرورت نہیں، الله تعالی کا فرمان ہے:
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ (قران :4:14)
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا (4:69 )
ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی کرنا در حقیقت دین اسلام ہی سے نکل جانا ہے، جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام (رضی الله) جن میں سب سے مقدم خلفاء راشدین (رضی الله) تھے، جو دین اسلام کے سب سے پہلے پیرو کار اور اس کی تعلیم کا مکمل نمونہ تھے اور ان آیات کے نزول کے وقت ان کے سوا کوئی اور گروہ مومنین کا موجود نہ تھا، جو یہاں مراد ہو سکے۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور "غیر سبیل المومنین" کی پیروی دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجات پانے والے گروہ کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا : ( مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ ) ” یہ وہ لوگ ہیں جو اس راستے پر چلیں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔ “ [ترمذی، الایمان، باب ما جاء فی افتراق۔۔ : ٢٦٤٠ ] اس لیے صحابہ کرام (رض) جن کے راہنما خلفاء راشدین (رضی الله) تھے، اور ان کی سنت [74]کو دانتوں سے پکڑنے کی رسول اللہ ﷺ ںے وصیت کی، ان کے راستے سے ہٹنا کفر اور گمراہی ہے-
بعض علماء نے "سبیل المومنین" سے مراد اجماع امت لیا ہے، یعنی پوری امت کے اجماع سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق، یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رض) کا اتفاق ہو، یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں۔ صحابہ کرام (رضی الله) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے، یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے لیکن اجماع صحابہ[75] کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت مسائل میں کیے گئے ہیں، لیکن ایسے اجماعی مسائل بہت کم ہیں جن میں فی الواقع امت کے تمام علماء و فقہاء میں اتفاق ہو، پھر ایسے مسائل پر سب علماء و فقہاء کے اتفاق کا پتا چلانا اور بھی مشکل ہے۔ پھر امت میں بہت سے فرقوں کے بن جانے نے یہ نتیجہ دکھایا ہے کہ ہر گروہ اپنی بات کو مضبوط بنانے کے لیے اجماع کا دعویٰ کردیتا ہے، خواہ وہ صریحاً قرآن، سنت اور حدیث کے خلاف ہو- الغرض صریح شرک و بدعت کے کاموں کو اجماع کا نام دے دیا گیا ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے اجماع کی دلیل قرآن سے تلاش کرنے کی کوشش کی اور قرآن کو شروع سے آخر تک تین سو مرتبہ پڑھا مگر مجھے اجماع کی کوئی دلیل نہیں ملی۔ پھر بالآخر تین سو ایک مرتبہ پڑھنے پر میری نظر جا کر اس آیت پر جم گئی : (وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ ) ۔ گویا اہل ایمان کا جو راستہ ہے ‘ جس پر اجماع ہوگیا ہو اہل ایمان کا ‘- اہل ایمان کا راستہ خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام (رضی الله) کا ہے- اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اِنَّ اُمَّتِیْ لاَ تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ )[76]میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ میں بے شمار گمراہ کن فرقے اور عقائد و نظریات پھیل چکے ہیں مگر حق پسند لوگ موجود ہیں جو گمراہی کی مخالفت کرتے چلے آنے ہیں ان کی تعداد کم یا زیادہ ہو سکتی ہے مگر ان حق پرست مومنین ںے حق کے نور سے گمراہی کے اندھیروں کو روک رکھا ہے-اس آیت میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو آئے دن نئی بدعات ایجاد کرتے رہتے ہیں-
اجماع صحابہ حجت ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجماع امت یا صحابہ کرام کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا منجملہ ادلہ شرعیہ ایک قابل حجت امر ہے اور اس اجماع کی مخالفت کرنے والا اور اجماع کو تسلیم نہ کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے تاہم اس سلسلہ میں دو باتوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ صحابہ کرام کے اجماع کے حجت ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں لیکن مابعد کے ادوار کا حجت ہونا بذات خود مختلف فیہ مسئلہ ہے اور راجح قول یہی ہے کہ مابعد کا اجماع امت کے لیے قابل حجت نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ صحابہ کا اجماع تو ثابت کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کا زمانہ بھی محدود اور علاقہ بھی محدود تھا۔ لیکن مابعد کے ادوار میں اجماع امت کا ثابت کرنا ہی بہت مشکل ہے جبکہ امت اقصائے عالم میں پھیل چکی ہے اور علماء بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ دور صحابہ کے بعد جتنے مسائل کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان پر امت کا اجماع ہے، ان میں سے زیادہ ایسے ہیں کہ ان کو فی الواقع ثابت نہیں کیا جاسکتا
[تیسر القرآن ، مولانا عبدالرحمن کیلانی 1995-1923 ][77]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ؛ میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی (مفھوم، متفق علیہ )
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس دین کی خاطر قیامت تک (باطل کے خلاف) برسرِپیکار رہے گی۔ [رواہ مسلم ،احمد ]
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید[78] کرے گا ۔[ ابوداؤد: 4291)
"جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا٫ اور صدیقین اور شہدا٫ اور صالحین کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں (قرآن:4:69)
رسول اللہ ﷺ کی اہم وصیت
خلفاء راشدین کو اختلاف میں منصف اور ان کی سنت پر سختی سے عمل کا حکم
یہ رسول اللہ ﷺ کی بہت اہم مستند وصیت دوبارہ پڑھیں، جس پر صحابہ ںے عمل کیا ، اس کے خلاف دوسری، تیسری صدی حجرہ میں اجماع کرنا، الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور خلفاء راشدین و صحابہ اکرام کے راستہ سے کھلم کھلا انکار اور نافرمانی ہے جس کی سزا قرآن کے مطابق ابدی جہنم ہے( کفر کی سزا):
"اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول(ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ (قران :4:14 )[79]
"اور جو رسول (ﷺ) کی مخالفت پر تل گیا (ایمان کا خاتمہ) اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی اور وہ اہل ایمان کے راستے (صحابہ اکرام*) کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کرلیا ہو اور ہم اسے پہنچائیں گے جہنم میں اور وہ بہت بری جگہ ہے لوٹنے کی"(قرآن 4:115)[80]
[ *خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کا ایمان واضح ہے باقی لوگوں کا، واللہ اعلم]
عرباض بن ساریہ ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
(1) میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا،
(2) امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے-
(3) تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا،
(4) اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے (خلاصہ احادیث: ابن ماجہ 43[81] و ابی داوود 4607)[82])
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٧)، سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦، ١٢٧)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح ) وضاحت: ١ ؎: ہدایت یافتہ خلفاء سے مراد خلفاء راشدین ہیں، یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ؓ، حدیث میں وارد ہے: (الخلافة ثلاثون عامًا ) یعنی خلافت راشدہ تیس سال تک رہے گی۔
مزید: سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث[83]
رسول اللہ ﷺ کا حکم
"حدیث کتابت ممنوع" کے بارے میں واضح احادیث[84] موجود ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابوہریرہ کے اختیار پر، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ (ص ) نے کہا: یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:
کیا تم کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتےہو؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔
ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: "ہاں ، میرے بارے میں بات کرو ، کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔" اسی طرح ، سراج نے ہم سے یہ حدیث بیان کی ، اور اسےالْأَصَمِّ کے علاوہ کسی اور نے عباس الدوری، عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ کے ذریعہ ، عبد اللہ ابن الرحمٰن کے اختیار سے روایت کیا۔ فَاللَّهُ أَعْلَمُ ["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33]
"[85]
یہ ایک مستقل واحد وجہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی دوسری تمام وجوہات من گھڑت، جھوٹ، دھوکہ ہے[86]-
إجماع سنت خلفاء راشدين : تدوین قرآن مگر کتاب حدیث ممنوع
رسول اللہ ﷺ کے بعد ، ان کے خلفاء کے تسلسل میں اگلے چارخلفاء راشدین ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو "مجلد کتاب" کے طور پر نہیں چھوڑا اگرچہ قرآن خود کو کتاب کہتا ہے- یہ خلفاء راشدین کی سنت ہے کہ قرآن کی کتابت کا اہتمام کیا اگرچہ ابتدا میں خلیفہ اول کہتے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا، ہم کیوں کریں ایک نئی چیز ہونے کی وجہ سے قرآن کو جمع کرنے سے بھی گریزاں تھے ۔ ان میں سے کسی خلیفه راشد نے حدیث کی کتابیں لکھنے کا انتظام نہ کیا ، حتی کہ تیسرے خلیفہ کے ذریعہ قرآن مجید کی تدوین کے بعد بھی ، حدیث کی کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ یہ ہے خلفاء راشدین کی اجماع کی سنت جس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی - اس اجماع کو رسول اللہ ﷺ کی منظوری حاصل ہے جبکہ "اجماع امت " ایک متنازعہ اخذ کردہ اصطلاح ہے جو علماء ںے بنائی-
مزید: سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث[87]
إجماع سنة صحابہ (رضی الله)
رسول اللہ ﷺ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا، پھرکچھ صحابہ کو حافظہ کمزوری پرذاتی نوٹس کی اجازت دی، کچھ کو اجازت نہ دی (جو علماء کتب لکھ سکتے تھے) لیکن کتاب حدیث نہ لکھنے کے حکم پر صحابہ اکرام (رضی الله) نے عمل کیا، کسی صحابی ںے کوئی کتاب حدیث نہیں[88] لکھی- کتب لکھنے کا سلسلہ دوسری صدی حجرہ سے شروع[89] ہوا جب تمام صحابہ وفات پا چکے تھے- رسول اللہ ﷺ کے حکم پر جید صحابہ ، مفسرین قرآن ، عالم دین اور ہزاروں احادیث کے حافظ، راویان ومحدثین جنہوں نے مرتے دم تک عمل کیا، نہ حدیث لکھی نہ کتاب لکھی اور منع فرماتے رہے کہ وہ حکم رسول اللہ ﷺ کے پابند تھے- حضرت ابو ھریرہ( 5374 احادیث) ، عبدللہ بن عبّاس (2660) ، عبدللہ بن مسعود( 800)، عبداللہ بن عمر(2630) ، زيد بن ثابت، کاتب وحی (92)، ابو سعید خضری (1170) (رضی الله تعالی عنہم ) اگریہ صحابہ حدیث کی کتب لکھتے تو وہ مصدقہ ہوتیں جبکہ دوسرے راوی بھی زندہ تھے، اس طرح سے وہ ہزاروں احادیث حفظ کرنے کی مشکل سے بچ جاتے - اگر ان صحابہ اکرام کو حدیث کی کتب لکھنے پر پابندی کا علم نہ تھا تو ان کی احادیث کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟ ان کی احادیث نکال دیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ اور زید بن ثابت (رضی الله) تو کاتب وحی اور قرآن مدون کرنے والے ہیں ، پھران کا مدون قرآن کیسے قبول کریں گے؟ بہت صحابہ تو حدیث لکھنا بھی مکروہ سمجھتے تھے، کچھ کو حافظہ کمزوری پر اجازت ملی کچھ کو انکار۔ ان عظیم صحابہ کرام کی سنت و عمل شہادت دیتے ہیں کہ کتاب حدیث مدون کرنا ممنوع ہے-
خلیفہ عمر بن خطاب (رضی الله) ۓ کتب حدیث لکھنے پر تفصیلی غور و فکر کے بعد استغفار، استخارہ کر کہ اللہ سے رہنمائی حاصل کی ، اور حدیث کی کتابیں نہ لکھنے کا فیصلہ کیا، تاکہ پچھلی امتوں کی طرح مسلمان بھی قرآن کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جائیں- تمام خلفاء راشدین نے اس پر عمل کیا- اور یہ کئی صدیوں تک جاری رہا- احادیث حفظ کرکہ بیان و سماء سے نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں - پھر تیسری صدی میں مشور کتب احدیث لکھی گیئں جن کو عوام نے قبول نہ کیا اورمزید دو صدی کے بعد 464 حجرہ / 1072ع میں نیشا پور کے تعلیمی ادارہ میں البخاری کوسرعام پڑھا گیا - اب حدیث کی 100سے زائد کتب ہیں اور قرآن طاق میں محفوظ ہے تلاوت اور ثواب کے لیے-
نتیجہ / پیغام
"تم لوگوں کی ر ہنما ئی کرتے ہو، لیکن تم ہی اندھے ہو. تم تو شربت میں مچھر پکڑتے ہو اور خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو" یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کودو ہزار سال قبل کہی- لیکن آج یہی، حال ہمارے اکثر علما ء اور دینی دانشوروں کا ہے- ہم کو یاد رکھنا ہے کہ:
"الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے" (قرآن: 3:132)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
" مجھے تم لوگوں (حاضرین ) پر دجال کے علاوہ دیگر (جہنم کی طرف بلانے والوں ) کا زیادہ خوف ہے اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے ) دلائل دینے والا میں ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجود نہ ہوا تو؛
ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والا خود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان ) ہوگا ۔ (مسلم 7373)
ہر مسلمان کو اپنا کردار ادا کرنا ہے
مزید اسٹڈی کے لئے:
1.اصول علم الحديث https://bit.ly/Hadith-Basics
2 جہنم کی آگ سے نجات کا راستہ: https://bit.ly/Najaat
3.اجماع شیطانی : https://bit.ly/Shytani-Ijmaa
4.ایمان https://bit.ly/Aymaan
5. شفاعت https://bit.ly/Shfaat
6. https://bit.ly/Tehreef-Quran معجزہ قرآن
7 https://bit.ly/Islamic-Sources مصادر السلام
8 https://SalaamOne.com/Riba/ | Riba Resolved ربا کا آسان قرآنی حل
9. رسالہ تجدید الاسلام https://bit.ly/Tejdeed-Islam
10.گمراہی کے اسباب اور اندھی تقلید: https://bit.ly/Gumrah
******************
حصہ اول : اہم فقهی اصطلاحات
اجماع
فقہاء کی اصطلاح میں اجماع کسی معاملہ پر امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ کے اتفاق کرنے کو کہتے ہیں:”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی بھی زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر اتفاقِ رائے کرلینے کو اجماع کہتے ہیں۔“[2] کتاب وسنت کی کسی بنیاد پر ہی اجماع ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اجتہاد پر بھی اجماع ہوسکتا ہے۔ لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) نے اپنی کتاب "معارج الوصول إلى أن أصول الدين وفروعه قد بينها الرسولﷺ" اس بات کو ممنوع قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ملتا جس پر اجماع ہو اور وہ نص سے ثابت نہ ہو۔
امام شافعی (رح) اپنی مشہور کتاب "الرساله" میں لکھتے ہیں: جو شخص رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات قبول کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالی سے کی بات کو قبول کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اللہ نے اپنے رسول کی اطاعت کو فرض کیا ہے اس سے اس بات تو حجت قائم ہو گئی کہ کسی ایسے مسلمان جو کہ کتاب و سنت کا علم رکھتا ہو، کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان دونوں (قرآن اور سنت) میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کوئی بات کرے یہ اللہ کی جانب سے عائد کردہ فرض ہے[3]۔ لیکن ایسے معاملات جن میں اللہ تعالی یا اس کے نبی ﷺ نے کوئی واضح حکم نہیں دیا ہے اہل علم کی راۓ یہ ہے کہ: "اجماع صرف اور صرف کسی ثابت شدہ سنت کی بنیاد پر ہی ہو گا اگرچہ اس کو روایت نہ کیا گیا ہو" - جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کیا جائے اور اس پر لوگوں کا اجماع ہو جائے تو جیسا کہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں (کہ یہ حجت ہے)[4]
رہی بات ایسے اجماع کی جس کے بارے میں یہ شک پایا جاتا ہو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے یا نہیں کیا گیا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بات کو صرف اسی صورت میں آپ سے منسوب کیا جا سکتا ہے جب وہ آپ سے سنی گئی ہو۔ کسی بات کو محض وہم کی بنیاد پر آپ سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ (پہلے معاملے میں) ہم اجماع عام کی پیروی کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت سے عام لوگ ناواقف نہیں ہو سکتے اگرچہ بعض سنتوں سے بعض لوگوں سے ناواقف ہوں۔ لوگ عام طور خلاف سنت[5] امور پر اتفاق رائے نہیں کر سکتے اور نہ ہی غلط امور پر۔
اجماع صحابہ کے زمانے کے ساتھ خاص:
اجماع کے زمانہ پرکچھ علماء ۓ اسے صحابہ کے زمانے کے ساتھ خاص کیا ہے اس دلیل پر کہ: صحابہ کی قلت تعداد اور ان کا ایک جگہ پر اکٹھے ہونا، اور ان کے اندر خواہش نفس کی پیروی پر ابھارنے والے اسباب کی کمی کی وجہ سے ان کا اجماع ہوسکتا ہے، اس پر اطلاع بھی مل سکتی ہے ، اور اس اجماع سے حجت بھی پکڑی جاسکتی ہے۔ بخلاف ان لوگوں کے جو بعد میں آئے کیونکہ ان کی کثرت تعداد، خواہشات نفس کا مختلف ہونا اور حکام کا مقابلہ کرنے میں ضعیف ہونا ان کے اجماع کو اور اس پر اطلاع کو عادتاً بعید قراردیتا ہے -
دوسرا گروپ یہ سمجھتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد کسی بھی زمانہ میں اجماع ہوسکتا ہے، اس میں صحابہ اور ان کے بعد والے زمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے[6]
لیکن اہم نقطۂ ہے کہ: اجماع کے درجات میں اجماع خلفاء راشدین / صحابہ اکرام حدیث متواتر، دلیل قطعی کا اولین درجہ رکھتا ہے جس کو بعد کسی زمانہ کے اجماع سے منسوخ نہیں کیا جاسکتا-
[نوٹ : اس زمانہ میں بدعات پربڑی اکثریت کا اجماع ہو چکا ہے جو کہ قرآن و سنت کے خلاف ہے، اس کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟ ان کی مخالفت میں بھی لوگ موجود ہیں مگر توحید کے دعووں کے ساتھ ساتھ فرقوں کی اپنی بدعات ہیں، اس لیے ان حضرات[7] کے کسی اجتہاد کو مجموعی طور پر درست قرار[8] دینا مشکل ہے-
فرقان ، معیار . پیمانہ (Standard measurement scale)
تبدیل پذیر( changing situation) میں کوئی معیار . پیمانہ (standard measurement scale) ضروری ہے، جو کہ صرف صحابہ اکرام جن کے لیڈرز خلفاء راشدین تھے ایک قابل قبول میعار . پیمانہ (standard measurement scale) مہیا کرتے ہیں جس کی بنیاد قرآن و سنت رسول اللہ ﷺ ہے-
ایک مثال ہے میٹر لمبائی کی جو کہ ایک معیاری پیمانہ ہے لمبائی ناپنے کا:
The metre is currently defined as the length of the path travelled by light in a vacuum in 1/299792458 of a second.
"میٹر": اس وقت ایک سیکنڈ کے [1/299792458] میں خلا میں روشنی کے ذریعے سفر کرنے والے راستے کی لمبائی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔اگر کوئی میعار . پیمانہ (standard measurement scale) نہ ہو ہر علاقہ ، ملک کے لوگ اپنا اپنا میٹر کا پیمانہ بنائیں گے جس کی لمبائی میں کمی بیشی ہو گی- دین کے معاملہ میں اس طرح کی کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں- اس لیے قرآن و سنت کی بنیاد پر صحابہ اکرام جن کے لیڈرز خلفاء راشدین تھے ایک قابل قبول میعار. پیمانہ (standard measurement scale) مہیا کرتے- اصل بنیاد قرآن, فرقان ہے:
تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾
"بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالٰی جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا بن جائے" (25:1)[9]
فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، کسوٹی ، فیصلہ کن چیز ، اور معیار فیصلہ ( Criterion ).قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کردی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا-[10] فرقان ، دلیل وحجت کے لئے (کہ یہ اصل کو لغو سے ممیز کرتی ہے ) کے لئے استعمال ہوا ہے-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طریقہ اجماع
صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سب سے پہلے اس ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچه اس مقصد کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ[11]،[12]،[13]،[14] کے زمانہٴ خلافت میں کبار صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو باہر جانے سے روک دیاگیاتھا؛ تاکہ پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور جس پر یہ تمام متفق ہوجائیں اسے اجماعِ امت سمجھا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہم امور میں صحابہٴ کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ جب تمام لوگ ایک بات پر متفق ہوجاتے تو اس کو قانون کا حصہ بناتے اور اگر اختلاف رونما ہوتا تو اکثریت کا ساتھ دیتے۔
چنانچہ عہدِ صحابہ میں اجماع کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے:
(۱) تدوین قرآن
واقعہ یمامہ میں قرّاء کی بڑی تعداد کی شہادت کے بعد اس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ اگر قراء یونہی شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن ضائع نہ ہوجائے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قرآن کو مصحف کی صورت میں جمع[15] کرنے پر اصرار کیا اور تمام صحابہٴ کرام نے اس رائے سے اتفاق کیا اور اس طرح صحابہٴ کرام کے اس اجماع کی صورت میں قرآنِ کریم کی تدوین عمل میں آئی۔ بعد میں حضرت عثمان (رضی الله) کو مجلد قرآن کرنے کا اعزاز حاصل ہوا-
(۲) کتاب حدیث کی ممانعت :
جب حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) خلیفه تھے تو انہوں نے سنن رسول اللہ ﷺ کو تحریری شکل (کتاب) لکھنے کا ارادہ کیا اور ایک ماہ تک استخارہ کیا اور الله تعالی سے رہنمائی طلب کی۔ پھر اس کا فیصلہ ہوا؛ اور اس کے بعد فرمایا: ’’ کتاب (سنسن /حدیث ) لکھنے سے پہلے کی اقوام کے بارے میں سوچا، جنہوں ںے کتاب اللہ لے علاوہ کتب لکھ کر ان میں مشغول ہو گیئں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کو نظر انداز کر کہ گمراہ ہو گیئں (مفھوم)[16]
احکام رسول اللہ ﷺ
یہی بات رسول اللہ ﷺ ںے فرمائی تھی جب احادیث لکھنے سے صحابہ اکرام کو منع فرمایا، صرف کمزور حفظ کے عذر پر کچھ کو ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور بہت کو انکار، ابوہریرہ سے مروی ہے کہ:
(ا) اللہ کے رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ (ص ) نے کہا:
یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:
"کیا تم کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہو؟ تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں"
چناچہ صحابہ نے اس وقت تک جتنا لکھا تھا، اس تمام کو ایک ٹیلے پر جمع کرکے اسے آگ لگادی[17]
(ب) رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا ” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔[18]”
(ج)جید علماء صحابہ ہزاروں احدیث کے راوی صحابہ
حضرت ابو ھریرہ( 5374 احادیث)[28] ، عبدللہ بن عبّاس (2660) ، عبدللہ بن مسعود[29]( 800)[30]، عبداللہ بن عمر(2630) ، زيد بن ثابت، کاتب وحی (92)، ابو سعید خضری[31] (1170) (رضی الله تعالی عنہم ) ںے پابندی کتابت احادیث پر مرتے دم تک عمل کیا، کوئی حدیث کی کتاب نہ لکھی[19]، بلکہ منع فرماتے فرماتے فوت ہو گۓ- کسی صحابی کی کتاب حدیث نہیں یہ اہم ترین اجماع خلفا راشدین[20] اور صحابہ ہے جس کی دلیل و حجت قران،[21]،[22] سنت[23]،[24] رسول اللہ ﷺ کے مطابق اوراحادیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور عمل و اجماع کی عمدہ مثال ہے جس پرپہلی صدی حجرہ میں مکمل اور بعد میں جزوی طور پر عمل ہوتا چلا آ رہا ہے آج تک-
قرآن کی کتابت کا اعزاز سنت خلفاء راشدین ہے اور حدیث کی کتابت نہ کرنا بھی سنت خلفاء راشدین ہے جس کو اختلاف میں فیصلہ کا حق رسول اللہ ﷺ ںے دیا اور ان کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے کا حکم بھی رسول اللہ ﷺ[25] ںے دیا- اس کا انکار ، اس کے خلاف اجماع شیطانی ہی ہو سکتی اجماع شرعی نہیں-
(د) قرآن متروک العمل / مهجور[26]
نوٹ : اس حقیقیت کا ذکر فقہ کی کتب میں نہیں ملتا کیونکہ اس کو نظر انداز کرنا ایک خاموش ، خفیہ کاروائی ہے جس کی بنیاد پر غیر محسوس طریقہ سے دین کا راستہ تبدیل کیا گیا اور قرآن جو کہ دین کی اصل بنیاد ہے اسے متروک العمل (قرآن کی زبان میں مهجور[27]، ineffective) کر دیا گیا تاکہ ایک معیار (standard) کی بجایے کوئی بھی اپنے دلائل کی بنیاد پراپنا معیار ایجاد (بدعة ، ضلاله[28]) کر لے جسے کوئی چیلنج (challenge) نہ کر سکے اور دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر کہ فرقہ واریت کا بازار گرم ہو-
(۳) مفتوحه زمینیں
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام اور عراق کی مفتوحہ زمینوں کوفوج میں تقسیم کرنے کی بجائے وقف قرار دیا اور اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا-
(٤) صَلَاة تراویح
حضرت عمر نے ۲۰ تراویح کے حوالے سے کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع اور باقاعدہ ان کی مشاورت سے اس کا حکم جاری فرمایا۔ یہ بھی صحابہٴ کرام کے اجماع کی ایک واضح مثال ہے۔
(۵) چوری
تیسری مرتبہ چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول پر تمام صحابہٴ کرام کا اجماع ہوا۔
حجیت اجماع کی درجہ بندی
اجماع کی حجیت کے حوالہ سے فقہاء نے اس کی درجہ بندی کی ہے کہ کونسا اجماع کس نوعیت کا ہوگا؛ چنانچہ اسے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔
(۱) سب سے اعلیٰ درجہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع کا ہے۔ جو "حدیثِ متواتر" اور "دلیل قطعی" کا درجہ رکھتا ہے۔
(۲) دوسرے نمبر پر تابعین کا اجماع ہے جو کسی غیر اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہو۔ یہ "حدیث مشہور" کا درجہ رکھتا ہے۔
(۳) تیسرے درجہ کا اجماع وہ ہے جو کسی اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہوا ہو یہ خبرِ واحد کی طرح ظنی ہے۔
اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجماع (۱) کو (۲) یا (۳) منسوخ نہیں کر سکتے-
کیا "حدیث متواتر"[29] کو "حدیث مشہور" یا "خبر واحد" منسوخ کر سکتی ہے؟
جو ایسا سمجھتا ہے اسے کسی جید عالم یا دماغی ڈاکٹر سے فوری رابطہ کرنا چاھینے -
"جماعت" سے مراد "حکومت"
عہد رسالت کی عربی زبان سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اس دور میں لفظ "جماعت" سے مراد "حکومت" لیا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بہت سے احادیث میں حکومت کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔ بخاری، کتاب الامارۃ کی دو احادیث کچھ اس طرح سے ہیں:
فانه من فارق الجماعة شبرا فمات الامات ميتة جاهلية.
جو ایک بالشت کے برابر بھی جماعت سے الگ ہوا، اور وہ فوت ہو گیا تو وہ جاہلیت کی موت ہی مرا۔
فانه من خرج من السلطان شبرا مات ميتة جاهلية.
جو ایک بالشت کے برابر بھی حکومت کی اطاعت سے نکلا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔
ان دونوں احادیث سے یہ بالکل متعین ہو جاتا ہے کہ دین اسلام میں حکومت کی اطاعت کی کتنی اہمیت ہے اگر حکومت اللہ تعالی کے احکامات کے خلاف کوئی حکم نہ دے رہی ہو۔ عجیب بات ہے کہ موجودہ دور میں بعض لوگوں نے ان احادیث میں "جماعت" سے "حکومت" کی بجائے "تنظیم" مراد لے کر ان احادیث کو حکومت کی بجائے اپنی تنظیموں سے متعلق کر لیا ہے اور وہ لوگوں سے ان احادیث کی بنیاد پر اپنی اطاعت اور حکومت کی نافرمانی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
جماعت کا صرف ایک ہی معنی ہے- اگر مسلمانوں کی جماعت (کمیونٹی) مختلف ممالک میں بکھری ہوئی ہو تو اس بکھری ہوئی جماعت کی پیروی کرنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بکھری ہوئی جماعت میں تو مسلمان، کافر، نیک اور بد سبھی شامل ہوں گے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کی بکھری ہوئی کمیونٹی کی پیروی کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ جماعت کی پیروی کا اس کے سوا اور کوئی مطلب نہیں ہو سکتا کہ جس چیز کو پوری جماعت حلال یا حرام قرار دے، اس کی پیروی کی جائے (اگر یہ قرآن و سنت کی خلاف نہ ہو)
جو شخص مسلمانوں کی جماعت "(حکومت) کے نقطہ نظر کے مطابق رائے رکھتا ہے اس نے جماعت کی پیروی کر لی ہے اور جو اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو وہ جماعت کی مخالفت کر رہا ہے۔ گروہ بندی سے ہی (دین کے احکام میں) غفلت پیدا ہوتی ہے۔ پوری مسلمان کمیونٹی میں (بحیثیت مجموعی) کتاب، سنت اور قیاس کے بارے میں غلطی نہیں پائی جائے گی۔[ بدعات کی اکثریت[30] میں کی قبولیت کے باوجود مخالفت[31] کرنے والے بھی موجود ہیں اگرچہ ان کی اپنی بدعات ہیں جن کو مخالفین ایکسپوز[32]،[33]،[34] کرتے رہتے ہیں، اس لیے میعار قرآن و سنت ، خلفاء راشدین ، صحابہ رض ]
قیاس
ایک مسلمان فقیہ جب کسی معاملے میں غور کرتا ہے تو یا تو وہ (قرآن و سنت کے) کسی لازمی حکم پر پہنچتا ہے اور یا پھر کسی دلیل کی بنیاد پر درست بات تک پہنچتا ہے۔ اگر اس معاملے میں (قرآن و سنت کا) کوئی واضح حکم موجود ہے تو اس کی پیروی کی جائے گی اور اگر ایسا واضح حکم نہ ملے تو پھر اجتہاد کے ذریعے درست بات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اجتہاد قیاس ہی کو کہتے ہیں۔
قیاس ایک حکم کی وجہ کی بنیاد پر دوسرے حکم کو اخذ کرنے کو کہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ دین نے "نشے" کے باعث شراب کو حرام کیا گیا ہے۔ "نشہ" شراب کے حرام ہونے کی علت یعنی وجہ ہے۔ اگر یہ نشہ کسی اور چیز میں بھی پایا جائے گا تو وہ بھی حرام قرار پائے گی۔ اسی بنیاد پر اہل علم چرس، ہیروئن، افیون اور دیگر نشہ آور اشیاء کو حرام قرار دیتے ہیں۔
اختلاف
جو بات بھی اللہ تعالی نے واضح دلیل سے اپنی کتاب[35] میں یا اپنے نبی ﷺ کی زبان [36]،[37] سے واضح طور پر بیان فرما دی اس میں کسی بھی شخص کے لئے اختلاف کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جس میں (کسی آیت یا حدیث کی) مختلف توجیہات ممکن ہوں، اس میں قیاس کیا جا سکتا ہو اور ایک توجیہ یا قیاس کرنے والا عالم ایک معنی کو اختیار کر لے اور دوسرا دوسرے معنی کو، تو اس کے بارے میں میں اتنا سخت موقف نہیں رکھتا جیسا کہ پہلے معاملے میں رکھتا ہوں۔(امام شافعی)[38]
تفرقے کی برائی کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
وما تَفَرَّق الذين أوتوا الكتابَ إلا من بعد ما جاءتهم البينةُ۔
اہل کتاب نے اس کے بعد تفرقہ کیا جب ان کے پاس روشن دلیل آ گئی۔ (البینہ 98:4)
ولا تكونوا كالذين تَفَرقوا واختلفوا من بعد ما جاءهم البينات۔
ان کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے روشن دلائل آنے کے بعد تفرقہ اور اختلاف کیا۔ (اٰل عمران 3:105)
اللہ تعالی نے ایسے اختلاف کی مذمت فرمائی جس کے بارے میں روشن اور واضح دلائل آ چکے ہوں۔
ایسے معاملات بہت کم ہیں جن میں اللہ کی کتاب یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت میں کوئی حکم بیان ہوا یا ان دونوں یا ان میں سی کسی ایک کے کسی حکم پر قیاس کیا گیا ہو اور اس میں اسلاف نے اختلاف کیا ہو۔
اختلاف رائے کی مثال
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
والمطلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بأنفسِهِنَّ ثلاثةَ قُرُوْء۔
طلاق یافتہ خواتین اپنے آپ کو (دوسری شادی سے) تین دورانیے تک روکے رکھیں۔ (البقرہ 2:228)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ یہاں لفظ "قروء" سے مراد طہر (خاتون کی پاکیزگی کے دورانیے) ہے۔ اس کے مثل رائے سیدنا زید بن ثابت، سیدنا ابن عمر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہاں "قروء" کا مطلب خاتون کے حیض کے پیریڈ ہیں۔ اس طلاق یافتہ خاتون کے لئے اس وقت تک (دوسری شادی کرنا) جائز نہ ہو گا جب تک کہ وہ تیسرے حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل نہ کر لے۔
صحابہ کرام کے نقطہ ہائے نظر میں کوئی اختلاف
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے صحابہ کرام کے نقطہ ہائے نظر میں کوئی اختلاف پایا جائے تو پھر ہم اس نقطہ نظر کو اختیار کریں گے جو کتاب اللہ، یا سنت، یا اجماع کے زیادہ قریب ہے یا قیاس کی بنیاد پر جو زیادہ صحیح ہے۔
نسخ و منسوخ ۔[39]
فقہ کی اصطلاح میں "منسوخ" ایسے حکم کو کہتے ہیں جس پر عمل کرنے سے منع کر دیا گیا ہو۔ اس کی جگہ جو نیا حکم نافذ کیا گیا ہو، اسے "ناسخ" یعنی منسوخ کرنے والا کہا جاتا ہے۔(امام شافعی )۔[40]
کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی
اللہ تعالی نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ اللہ کی کتاب میں دیے گئے حکم کو یہ کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے۔ کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ کتاب اللہ کے تابع ہے۔ سنت کا دائرہ تو کتاب اللہ کے احکامات کی وضاحت ہی ہے۔[41]
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ. قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي؛ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ. إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ۔
جب انہیں ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں، "اس کی بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اسی میں کوئی ترمیم کر لو۔" اے پیغمبر! آپ کہیے، "میرا یہ کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کر لوں۔ میں تو بس اسی وحی کا پیروکار ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔" (یونس 10:15 )
یہاں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو بتایا ہے کہ آپ کے ذمے وحی الہی کی صرف اتباع ہے اور آپ اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس ارشاد میں کہ " مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي " یعنی " میرا یہ کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کر لوں " وہ بات بیان ہوئی ہے جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں کہ اللہ کی کتاب کے کسی قانون کو اس کے سوا کوئی اور چیز منسوخ نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ صرف اللہ تعالی ہی اپنا حکم جاری کر سکتا ہے اسی طرح یہ بات بھی صرف اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے حکم کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھے (یا منسوخ کر دے)۔ اس کے سوا کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے" يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ، وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ " یعنی "اللہ تعالی اپنے احکام میں سے جسے چاہے لے جاتا ہے اور جسے چاہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے" اس معاملے میں بعض اہل علم کا یہ موقف ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ، اللہ تعالی کی اجازت سے اس معاملے میں کوئی قانون سازی کر سکتے ہیں جس میں اللہ تعالی نے کوئی حکم نازل نہیں کیا۔ اس کے اس ارشاد میں کہ "وہ جو چاہے لے جاتا ہے" میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی جس حکم کو چاہے باقی رکھتا ہے اور جسے چاہے منسوخ کر دیتا ہے۔ اللہ کی کتاب میں اس بات کی دلیل یہ ہے:
مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا. أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔
اگر ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیں یا اسے بھلا دیں تو ہم اس سے بہتر یا ویسی ہی آیت لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرہ2: 106)
اللہ تعالی نے یہ بات بتا دی ہے کہ قرآن کے کسی حکم کا نسخ یا اس کے کسی حکم کو موخر کرنا صرف قرآن مجید ہی سے ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ: قَالُوا: إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ۔
جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری نازل کرتے ہیں اور اللہ ہی یہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے تویہ لوگ کہتے ہیں کہ تم خود قرآن گھڑتے ہو ۔ (النحل 16:101)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کا معاملہ ہے۔ سنت کا نسخ سنت رسول ہی سے ہو سکتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کوئی سنت جاری فرما چکے ہوں اور اللہ تعالی اس معاملے میں کوئی اور حکم جاری کرنا چاہے تو آپ اس میں اللہ تعالی کے حکم ہی کی پیروی میں نئی سنت جاری فرمائیں گے یہاں تک کہ لوگوں پر واضح ہو جائے گا کہ اس سنت نے اس سے پہلے والی سنت کو منسوخ کر دیا ہے۔ اسی بات کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث میں ہے۔
نوٹ:
اگر رسول اللہ ﷺ کی سنت پہلی سنت کی منسوخی کی ہم تک نہ پہنچ سکی تو قرآن پر عمل کیا جایے-
وَعَنْہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضُہ، بِعْضًا (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 189)
اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا؛ میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث 189) (سنن دارقطنی: ۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190)
"---- آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی[14] کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں" (قرآن 10:15)[15]
امام شافعی (رح) لکھتے ہیں کہ : جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے احکام کی اتباع لوگوں پر اللہ نے لازم کی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سنت رسول کو اللہ کے حکم کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا۔ جو اس کی پیروی کرتا ہے وہ کتاب اللہ کے حکم کے تحت ہی ایسا کرتا ہے۔ ہمیں سوائے اللہ کی کتاب اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کے اور تو ایسی کوئی بات نہیں ملتی جسے اللہ تعالی نے لازم کیا ہو۔
جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ چونکہ کسی مخلوق کا کوئی قول سنت سے مشابہ نہیں ہے اس لئے اس کا نسخ صرف اسی کے مماثل کسی چیز سے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کے علاوہ کوئی چیز اس کے مماثل نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالی نے کسی شخص کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرح کا نہیں بنایا۔ بلکہ اس نے اپنے بندوں پر تو آپ کی اطاعت کو لازم کیا ہے اور آپ کا حکم ماننا ضروری قرار دیا ہے۔ تمام مخلوق آپ کی پیروکار ہے۔ ایک پیروکار کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ آپ کے حکم سے اختلاف کرے۔ جب سنت رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا اتباع لازم ہے تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی اس میں سے کسی چیز کو منسوخ کر سکے۔
کیا سنت کے کسی حکم کو قرآن کے کسی حکم کے ذریعے منسوخ کی جا سکتی ہے؟
شافعی: اگر سنت کو قرآن سے منسوخ کیا جائے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ایک اور سنت جاری ہو گی جو یہ واضح کر دے گی کہ پہلی سنت دوسری سے منسوخ ہے یہاں تک کہ انسانوں پر حجت پوری ہو جائے کیونکہ ہر چیز اس کے مماثل سے ہی منسوخ ہو سکتی ہے۔
اگر یہ کہنا درست ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک سنت قائم کی اور پھر قرآن نے اسے منسوخ کر دیا اور اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کوئی ناسخ سنت ہمیں نہیں مل سکی تو کہنا بھی درست ہو جائے گا کہ:
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بعض اقسام کی تجارت کو ناجائز قرار دے رکھا تھا جسے اللہ تعالی نے اس آیت سے منسوخ کیا " وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا " یعنی "اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔" (اب اس بنیاد پر لین دین سے متعلق آپ کے احکام اس آیت سے منسوخ ہو گئے۔)
١.رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بدکاروں کو رجم کیا اور اس رجم کو اللہ تعالی نے اس آیت سے منسوخ قرار دیا " الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ " یعنی "زانی اور زانیہ میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔"
٢.موزوں پر مسح کی سنت کو آیت وضو نے منسوخ کر دیا۔
٣.غیر محفوظ مقام اور ربع دینار سے کم کی چوری کرنے کی صورت میں بھی چوری کی سزا دی جائے گی کیونکہ یہ سنت قرآن کی آیت " السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا " یعنی "چور مرد و عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔" سے منسوخ سمجھی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چوری خواہ کم ہو یا زیادہ، محفوظ مقام سے کی جائے یا غیر محفوظ مقام سے، ہر حالت میں چوری ہی کہلاتی ہے۔
اس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی ہر حدیث کو، اگر وہ ہمیں بظاہر قرآن کے مطابق نہ لگے، یہ کہہ رد کیا جا سکتا ہے کہ "آپ نے ایسا نہیں فرمایا ہو گا۔"
اس طرح سے ان دو بنیادوں پر حدیث کو رد کرنے کو درست سمجھ لیا جائے گا:
١. ایک تو یہ کہ اگر حدیث کے الفاظ قرآن کے الفاظ سے کچھ مختلف ہوں اگرچہ اس کا معنی کتاب اللہ سے موافقت رکھتا ہو (تو اسے رد کر دیا جائے) یا پھر
٢ اس کے الفاظ اگر آیت کے الفاظ سے کچھ زیادہ ہوں (تب بھی اسے کر دیا جائے) اگرچہ ان میں معمولی نوعیت کا فرق پایا جائے۔[42][کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی : باب 6: ناسخ و منسوخ احکامات]
حصہ دوئم : علم اور علماء
اطاعت الله تعالی و رسول اللہ ﷺ
قرآن، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے، اطاعت رسول ﷺ کی بجانے ان کہ احکام کے خلاف کسی قسم کا "اجماع شیطانی" ہی ہو سکتا ہے. الله کا فرمان ہے:
درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو- وه تو اپنے گروه کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وه سب جہنم واصل ہو جائیں- جو لوگ کفر کریں گے اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اُن کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے - بھلا وہ شخص جس کا برا عمل (اس کی نگاہ میں) خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگے (کیا وہ ایک مؤمنِ صالح کی مانند ہو سکتا ہے؟ یا کیا اس کی اصلاح کی کوئی امید ہو سکتی ہے؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (قرآن:8-35:6)
شیطان ابتدا سے مسلسل انسانوں کو بہکانے میں لگا ہوا ہے اوروہ ہر طرف سے انسانوں پر حملے کرتا رہتا ہے۔ الله تعالی کا فرمان ہےمگر اہل ایمان پریہ ناکام رہتا ہے- "اس کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کا بس تو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اللہ کے شریک بناتے ہیں".[43] شیطان کا داؤ کیسے لوگوں پر چلتا ہے؟ شیطان کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ اپنی بات بزور کسی سے منوا سکے۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے جس کی بنا پر وہ کسی کو اپنی بات کا قائل کرسکے۔ وہ صرف وسوسے ڈال سکتا ہے۔ دل میں گمراہ کن خیالات پیدا کرسکتا ہے۔ اب جو لوگ پہلے ہی ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں وہ فوراً اس کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور شیطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شرک اور اللہ و رسول کی نافرمانی کی راہوں پر ڈال دے اور اس طرح بنی آدم سے انتقام لے سکے۔ لیکن وہ لوگ جو صرف اللہ پر توکل کرنے والے اور اپنے ایمان و عقیدہ میں مضبوط ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں پر شیطان کا کوئی داؤ کارگر نہیں ہوتا اور ایسے لوگ قرآن سے یقینا ہدایت ہی حاصل کرتے ہیں[44]۔ اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے الله تعالی اس پر شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے.[45]اسی لئےاللہ تعالی نے قرآن کریم میں شیطان سے بار بار پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی ہے[46]- حتی کہ تلاوت قرآن سے قبل بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی تاکیدکی گئی ہے- [47] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شیطان کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگنے﴿ یعنی أعوذ باالله من الشيطن الرجيم﴾ پڑھنے کی تاکید کی ہے۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے بعد ان کو اکٹھا کرتا ہے تاکہ ان گمراہ لوگوں کی عددی اکثریت دیکھ کر لوگوں کو مغالطه ہوکہ اکثریت کا عقیدہ ، نظریہ ہی درست ہوگا، عوام کے پاس نہ وقت ہوتا ہے نہ علم کہ ہر کوئی تحقیق کر سکے اس لینے وہ علماء اورمذہبی پیشواؤں پر اعتماد اور تقلید کرتے ہیں- شیطان اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اس کا استحصال (exploit) کرتا ہے اور علماء اورمذہبی پیشواؤں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے. صرف مظبوط ایمان والے اہل علم شیطان کے نرغے سے بچ جاتے ہیں جبکہ اکثریت دھوکہ کھا جاتی ہے- اور ان کے مقلد بھی-
کتاب الله تعالی اور سنت رسول اللہ ﷺ کو پکڑو اور بدعات سے بچو
رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل ارشاد فرماتے تھے: ( وَيَقُولُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ) ترجمہ: اما بعد کہ بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے (وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ) (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889)[48]
رسول اللہ ﷺ کی اہم وصیت کے خلاف اجماع؟
خلفاء راشدین کو اختلاف میں منصف اور ان کی سنت پر سختی سے عمل کا حکم
رسول اللہ ﷺ کی بہت اہم مستند وصیت جس پر صحابہ ںے عمل کیا ، اس کے خلاف دوسری، تیسری صدی حجرہ میں اجماع کرنا، الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور خلفاء راشدین و صحابہ اکرام کے راستہ سے کھلم کھلا انکار اور نافرمانی ہے جس کی سزا قرآن کے مطابق ابدی جہنم ہے( کفر کی سزا):
"اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول(ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ (قران :4:14 )[49]
"اور جو رسول (ﷺ) کی مخالفت پر تل گیا (ایمان کا خاتمہ) اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی اور وہ اہل ایمان کے راستے (صحابہ اکرام*) کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے تو ہم بھی اس کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس طرف اس نے خود رخ اختیار کرلیا ہو اور ہم اسے پہنچائیں گے جہنم میں اور وہ بہت بری جگہ ہے لوٹنے کی"(قرآن 4:115)[50]
[ *خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کا ایمان واضح ہے باقی لوگوں کا، واللہ اعلم]
عرباض بن ساریہ ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
(1) میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا،
(2) امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے-
(3) تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا،
(4) اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے (خلاصہ احادیث: ابن ماجہ 43[51] و ابی داوود 4607)[52])
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٧)، سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦، ١٢٧)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح ) وضاحت: ١ ؎: ہدایت یافتہ خلفاء سے مراد خلفاء راشدین ہیں، یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ؓ، حدیث میں وارد ہے: (الخلافة ثلاثون عامًا ) یعنی خلافت راشدہ تیس سال تک رہے گی۔
شیطانی دل والے گمراہ امام و علماء
رسول اللہ ﷺ ۓ فرمایا: "میرے بعد ایسے امام ہونگے جو میری راہ پر نہیں چلیں گے اور نہ میری سنتوں پر چلیں گے بلکہ ان مین ایسے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسم ضرور انسانوں کے ہوں گے لیکن ان کے دل شیاطین کے ہوں گے" ۔۔ ( مسلم )[53]
(یہی لوگ ہیں جو وصیت رسول اللہ ﷺ کے خلاف اجماع شیطانی کرنے میں ملوث ہیں، اور جنہوں ںے صدیوں تک تحقیق نہ کی یا "کتمان حق"[54] کیا وہ بھی اس گمراہی میں برابرحصہ دار ہیں کیونکہ:
"انہوں نے اپنے علماء اور پیروں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا" (9:31قرآن )[55]
ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ ایک جوان اسکے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائےگا، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اس بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دینگے، تو کہا جائے گا: " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟ انہوں (صحابہ) نے پوچھا: " ایسا کب ہوگا؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہونگے ، قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہونگے، تمہارے سردار کثرت میں ہونگے، ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کرینگے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجائے کچھ اور ہوگا-" [دارمی (٦٤/١) صحیح، حسن، حاکم ( ٥١٤/4)]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "مجھے اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ ایک چیز کا ڈر ہے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی بات ارشاد فرمائی- سیدنا ابور ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسل آپ کو اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ کس چیز کا خوف ہے- فرمایا : گمراہ اماموں کا[56] [البانی صحیح '' سلسلة الأحاديث الصحيحة " (1582) ، (1989)، (مسند احمد:123/4:صحیح)]
گمراہ آئمہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر لوگوں کی قیادت کرتے ہیں، اس میں فاسد حکام اور گمراہ علماء شامل ہیں- ان کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ وہ شریعت کی طرف بلارہے ہیں، حقیقت میں شریعت کے سب سے زیادہ مخالف ہوتے ہیں- '' القول المفيد على كتاب التوحيد " (1/365)
یہ حدیث رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہے، کیوں کہ اسکا ایک ایک جزو موجودہ دور میں وقوع پذیر ہو چکا ہے- اہل بدعت سے بدعات کے پھیلاؤ جاری ہیں ، اور لوگوں کے لئے یہ ایک امتحان ہے جس سے ان کو آزمایا جا رہا ہے- ان بدعات کو لوگوں نے بطور سنّت اپنا لیا اور دین کا حصہ بنا دیا ہے- پس جب اہل سنہ ان بدعات سے اس سنّت جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، تو کہا جائے گا: کیا سنّت کو رد کر دیا گیا ہے؟ [ قیام الرمضان :ص5-4، شیخ البانی رح ]
علماء کی جہالت اور گمراہی
ابن تیمیہ سے روایت ہے : عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بے شک اسلام کی بنیادیں ایک کے بعد ایک تباہ و برباد ہو جائےگیں۔ اگر اس میں ایسے لوگ پیدا ہو جائےجو نا واقف ہوں گے کہ جہالت کیا ہے ۔ (مجمو'الالفتاوى 10/301، القیم اپنی فوائد میں بھی اسے لائے ہیں)
ابن مسعود رضی الله عنہ " قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا – اس سے میری مراد دولت میں اضافہ یا بے کر معاملات نہیں ہیں- بلکہ میرا مطلب علم کی کمی ہے- جب علماء فوت ہو جایں گے اور لوگ برابر ہوجایں گے ، وہ نا برائی سے روکیں گے اور نہ نیکی کی طرف بلائیں گے اور یہی انکو تباہی کی طرف لے جائیگی – [سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المعرفه میں اسے روایت کیا ہے ؛ نسائی (٣٩٣/3)، الخطیب اسے فقیه ولمتفقیہ (٤٥٦/١) میںلایے ہیں؛ فتح الباری (٢٦/١٣)]
عمر بن الخطاب نے زیاد رضی اللہ عنہ سے کہا : "کیا آپ جانتے ہے اسلام کن چیزوں سے تباہ ہوگا؟ میں (زیاد) نے کہا نہیں- انہوں (عمر) نے کہا: اسلام تباہ ہوگا ،علماء کے غلطیوں سے ، الله کی کتاب کے بارے میں منافقین کے بحث و دلائل سے، اور گمراہ ائمہ کے رائے سے " [مشكوةألمصابیح89/1حدیث:269، محض الثواب 2/717، الدارمی1/295، مسند الفاروق 2/536، تلبيس الجاهمييا [4/191]
علم کا اٹھ جانا
قرآن کو چھوڑنے والے بدترین علماء
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)(مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس بھی توآسمانی کتابوں کے مصاحف موجود ہیں لیکن اب وہ کسی ایک حرف سے بھی نہیں چمٹے ہوئے جوان کے انبیاء علیہم السلام لے کر آئے تھے یادرکھو! علم اٹھ جانے سے مرادیہ ہے کہ حاملین علم اٹھ جائیں گے تین مرتبہ فرمایا۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 21264)
مال اور عہدہ کی حرص کرنے والے اور بھیڑینے
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔ (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
اسلام کی حق پرست جماعت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی ، ان کی مدد نہ کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے ''۔ [ ترمذی، حسن صحیح]
ہر فرقہ قرآن سنت کے خلاف بدعات کو قبول کرنے کے باوجود اپنے آپ کو فرقہ ناجی (نجات یافتہ ) اور حق پرست کا دعوی دار ہے- یہ فیصلہ الله تعالی کا اختیار ہے جو وہ قیامت کو کرے گا-
"---- بس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گا۔ ان باتوں سے جن میں تم اختلاف کرتے ہو" (5:48قرآن)[57]
گمراہی کے دور میں حجت قائم کرنے کی انفرادی ذمہ داری
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" مجھے تم لوگوں (حاضرین ) پر دجال کے علاوہ دیگر (جہنم کی طرف بلانے والوں ) کا زیادہ خوف ہے اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے ) دلائل دینے والا میں ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجود نہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والا خود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان ) ہوگا ۔ (مسلم 7373)[58]
شاید یہ وقت آ ن پہنچا ہے!
حصہ سوئم : إجماع ممنوع........[......]
https://www.facebook.com/IslamiRevival
[1] ((صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889)
[2] http://darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Fiqh%20Islami%20K%20Makhaz_MDU_11_Nov_15.htm
[3] https://www.mubashirnazir.org/ER/L0017-12-Risala.htm [کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی]
[4] https://www.mubashirnazir.org/ER/L0017-17-Risala.htm الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی]
[5] کتابت قرآن و حدیث ، سنت رسول اللہ ﷺ نہیں بلکہ سنت خلفاء راشدین میں کتابت قرآن کرنا اور کتابت حدیث نہ کرنا ہے، اور ان کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے کا حکم رسول اللہ ﷺ ںے دیا-
[7] https://urdufatwa.com/view/1/21263 ، https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2010/07/100702_brelvi_deobandi دو بندی بدعات، بریلوی دیوبندی تاریخ اور اختلافات
[8] https://www.banuri.edu.pk/readquestion/ahl-e-hadees-k-maslak-ki-haysiyat/-0001-11-30 [اہل حدیث کےمسلک کی حیثیت ]
[21] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/verses.html [قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (ا45:6، 77:50)، 7:185)]
[30] https://darulifta-deoband.com/home/ur/deviant-sects/42267 [کیا بریلوی بدعتی ہیں؟]
[31] https://urdufatwa.com/view/1/21263 ، https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2010/07/100702_brelvi_deobandi دو بندی بدعات، بریلوی دیوبندی تاریخ اور اختلافات
[32] https://www.banuri.edu.pk/readquestion/ahl-e-hadees-k-maslak-ki-haysiyat/-0001-11-30 [اہل حدیث کےمسلک کی حیثیت ]
[33] ہل حدیث اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اجماع کو حجت شرعی مانتے ہیں تووہ اہل سنت والجماعت کے اصطلاحی مفہوم کے مصداق بن سکتے ہیں ورنہ نہیں ،
[38] https://www.mubashirnazir.org/ER/L0017-20-Risala.htm [کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی]
[39] https://www.mubashirnazir.org/ER/L0017-10-Risala.htm [کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی : باب 6: ناسخ و منسوخ احکامات]
[40] https://www.mubashirnazir.org/ER/L0017-10-Risala.htm [کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی : باب 6: ناسخ و منسوخ احکامات]
[41] https://www.mubashirnazir.org/ER/L0017-10-Risala.htm [کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی : باب 6: ناسخ و منسوخ احکامات]
[42] https://www.mubashirnazir.org/ER/L0017-10-Risala.htm [کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی : باب 6: ناسخ و منسوخ احکامات]
[44] مولاناعبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ تیسیر القرآن
[45] سورة الزخرف43/36
[46] (سورة الاعراف7/200)
[47](سورة النحل 16/98)
[69]تخریج دارالدعوہ: ابی داوود (٤٦٠٧) سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٣، ٤٤)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح ) ، http://www.equranlibrary.com/hadith/abudawood/1620/4607
[71] https://forum.mohaddis.com/threads/27772/ فضیلت صحابہ کرام
[72] اصول علم الحديث https://bit.ly/Hadith-Basics
[76] [ ترمذی، الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ : ٢١٦٧ ]
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کلام الله، قرآن کو اس کی اصل حیثیت کے مطابق ترجیح کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کی اہمیت نہیں- “تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) سے بھی محبت رکھتا ہے لیکن حقیقی محبت کا اظہار اطاعت رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی! قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث” کی ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیارکے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُو) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر) وضع موجود (statues-que) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیارکے مطابق علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ درست احادیث کی ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں- جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے-
https://Quran1book.blogspot.com