السلام علیکم ! اسلامی فکر صدیوں سے جمود کا شکار ہے جبکہ علامہ اقبال کے ویژن میں بنیادی طور پر اسلامی فکر کو متحرکت اورارتقاء پزیر ہونا چاہیے- اسلام میں قران کی مرکزیت پر قرآن اور رسول اللہ ﷺ نے بہت زور دیا مگر افسوس کہ قرآن کو متروک العمل کردیا گیا- اقبال اورڈاکٹر برق کے مجربات و محسوسات بھی قرآن پر فوکس اور (inspire) کرتے ہیں- بیس سال قرآن کے مطالعہ و تحقیق، علماء اور اہل علم لوگوں سے کئی کئی دن پر محیط طویل تبادلہ خیالات و ای ایکسچینجز کے بعد اہم موضوعات پر حاصل نتائج کا خلاصہ مرتب کردیا ہے- رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ احادیث کی درستگی کے معیاراور اصول احادیث سے ہی مل جاتے ہیں، آپﷺ سے بہتراصول کون بنا سکتا ہے؟ مکمل تحقیق اردو اور انگریزی ویب سائٹس اور eBooks میں مہیا کر دی گئی ہے جو کہ 17 سال سے (Defence Journal)میں بھی پرنٹ ہو چکی ہے - دوران مطالعہ اپنے موجودہ نظریات کو ایک طرف رکھنا بہتر ہو گا، فٹ نوٹس پرریفرنس لنکس کو پڑھیں توذہن میں اٹھنے والےاکثرسوالات کے جوابات مل جائیں گےپھررابطہ بھی کیا جا سکتا ہے- الله تعالی کے پیغام کو درست طور پرسمجھ کر پیش کرنے کی یہ ایک کوشش ہے، بشری محدودات سے کسی نادانستہ غلطی پراللہ تعالی سےمعافی اوربخشش کا طلبگار-
بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر)
[September 29 2023 | ١٢ ربیع الاول ١٤٤٨ ھ]
The Retrieval of Last Book
آخری کتاب بازیافت
عظیم فکری مطالعہ و تحقیقی جائزہ
اسلام کی تعلیمات میں اتحاد اور اجتماعیت پربہت زور ہے اور فرقہ واریت سخت نا پسندیدہ عمل ہے جو کہ مشرکوں کا طریقہ ہے- چھوٹی چھوٹی باتوں پرمعمولی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں میں فرقے بن چکے ہیں جو کہ قابل افسوس ہے- اپنے مخالفین پراپنی من پسند کتب سے دلائل کی بنیاد پر گمراهی کے الزامات لگایے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کے بیس سالہ گہرے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صرف ایک کتاب قرآن، اللہ کی رسی ہے جو فرقہ واریت کا خاتمہ کر کہ مسلمانوں کو متحد رکھ سکتی ہے-
رسول اللہﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے احادیث کی کتب مرتب نہ کرنے کی وجوہات جانچنے کے لیے کئی سال قبل ایک تحقیقی منصوبہ شروع کیا- یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد قابل احترام شخصیات خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام (رضی الله عنھم) میں سے کسی کی طرف سے یہ کام کیا جاتا تو مسلمانوں میں اختلافات، تنازعات کم ہوتے اور فرقہ واریت بھی کم ہوتی- مگر کیا ایسا نہ کرنا کسی خاص منصوبہ، مصلحت کی وجہ سے تھا یا محض ایک بھول یا غلطی (استغفر الله) جسے تیسری اور چوتھی صدی میں درست کیا گیا ؟
اگر اسے بھول یا غلطی سمجھا جایے تو یہ غلط ہو گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن مکمل کر لیا تھا اور آخری حج میں بہت بڑے ہجوم نے اس کی گواہی دی اور قرآن (5:3) نے بھی تکمیل اسلام کا اعلان کیا- رسول اللہﷺ نے اپنے بعد اختلافات کےحل کی ذمہ داری اور طریقه بھی وصیت کر دیا تھا- اتنی تفصیل کے بعد تو کوئی بچہ بھی گمراہی کے راستہ پر نہیں چل سکتا، اور ایسا ہی ہوا پہلی صدی میں مکمل طور پر، لیکن پھر بعد میں رسول اللہ ﷺ کی وصیت کو نظر انداز کرنے سے بدعة کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ فقہ اربعیں بغیر کتب احادیث کے، قرآن و سنت اور زبانی روایات کی بنیاد پر تشکیل پا چکے تھے - نئے سلسلہ کو روکنا مشکل ہو گیا >>>
اسلام میں ایمان کے بنیادی اصولوں میں بھی کتاب اللہ کے علاوہ کسی اور کتاب یا کتب پر ایمان لانا شامل نہیں-
بہت سی کتابوں کے مطالعہ سے بھی شبہات کا ازالہ نہ ہو سکا- ایک مذہبی لوگوں کے واٹس ایپ گروپ کا رکن تھا جو احادیث سے گہرا تعلق رکھتے ہیں- وہاں پر کچھ دنوں تک ""اسلام ، مسلم" ، فرقہ واریت اور احادیث" پر طویل بحث مباحثے کیے۔ ایک جید محترم" علامہ صاحب" بھی ساتھیوں کے ساتھ شریک بحث ہوئے جو ہفتہ بھر جاری رہی- اس ڈسکشن سیشن کو ویب سائٹ پراپلوڈ کر دیا ہے۔
ایک اور مولانا صاحب ، جو اسلامی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ مکمل کر رہے تھے، رابطے میں آئے۔ ہم نے ایک علیحدہ واٹس ایپ گروپ بنایا جس میں مذہبی ذہن و علم رکھنے والے سات ممبرز تھے جن میں: پروفیسرز، ڈاکٹرز ، اعلیٰ پولیس اور فوجی افسران اور ایک مدرسے کے اعلی تعلیم یافتہ سربراہ (پی ایچ ڈی) شامل تھے۔ یہ مباحثہ بھی کئی دنوں تک جاری رہا، جسے اپ لوڈ کر دیا گیا ہے۔
یہ مباحث بہت مفید تھے، بہت سے متعلقہ اہم سوالات اٹھائے گئے، مزید مطالعہ اور ریسرچ سے تحقیقی مقالہ کو بہتر اور مظبوط بنانے میں مدد ملی-
اس تحقیق کے نتائج اتنے حیران کن ہیں کہ وہ ناقابل یقین دکھائی دیتے ہیں لیکن سچائی سے بچا نہیں جا سکتا۔ قرآن ، پیغمبرﷺ اور اسلامی علم حق کو چھپانے (کتمان حق) کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے۔ لہذا خاموش رہنے کے بجائے، تحقیق کو "ڈیفنس جنرل" میں ستمبر2020 کو شائع کردیا اور ساتھ ساتھ نیٹ اور سوشل میڈیا پربھی شیرکیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے تمام انتباہات اور کے باوجود، دوسری، تیسری صدی حجرہ میں کچھ علماء نے یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، احکام کو نظر انداز کرکہ دوسرا راستہ اختیار کیا- اگرچہ قرآن اور اسلام کے بنیادی اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی- لیکن ان اقدام سے قرآن کے اثرات میں کمی اوربتدریج ترک کرنے میں مدد ملی- قرآن (25:30) نے یہ واضح کیا ہے۔ اس صورت حآل کا تقاضہ، "تجدیدالاسلام"، پہلی صدی ہجری کے دین کامل اسلام کا احیاء ہے۔
ریسرچ پیپر کا سائزبہت بڑھ چکا تھا، اس لیے انگلش اور اردو میں خصوصی ویب سائٹس قائم کیں جن میں ای کتاب، مضامین ، خلاصے، ویڈیوز اور متعلقه پوسٹس شامل ہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے- وزیٹرز کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے جو بتدریج بڑھ رہی ہے۔
اس غیر معمولی کام میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی شمولیت سے پہلی صدی ہجری کے کامل اسلام کے احیاء کے لیے مسلمانوں میں اتفاق رائے (إجماع) پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ قرآن ، سنت ، احادیث اور تاریخ سے واضح دلائل کی وجہ سے "اجماع" شرعی کی ضرورت نہیں ہے مگر مسلم اتحاد، ہموار موافقت اور بتدریج عمل درآمد کے لیے اتفاق رائے (اجماع) کی حکمت عملی کو ترجیح دی گئی ہے، تفرقہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
پچھلے سال کوویڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے بعد یقین پختہ ہوا کہ اللہ تعالی نے اس مطالعے کو مزید جامع بنانے کے لیے مزید کوششوں اور نظر ثانی کے لیے کچھ اضافی وقت دیا ہے۔
تحقیقی مقالہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں ، معروف دارالعلوم ، پاکستان ، بھارت کے علماء (اسلامی اسکالرز) ، اسلامی ممالک کے سفارت خانوں ، مدینہ ، الازہر یونیورسٹی اور کئی نامور صحافیوں کو بھیجا گیا۔ تاہم ردعمل سرد مہری ہے - ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس دوران ایک عجیب بات ہوئی ، ایک انتہائی اہم اسلامی ملک نے احادیث کو اس کی مناسب جگہ پر رکھ کر قرآن کو قانون کا اعلیٰ ماخذ بنانے کا اعلان کیا۔ اصلاحاتی پیکج میں کچھ اہم نکات بھی شامل ہیں جو اس تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔ [یہ کیسے ممکن ہوا؟ واللہ اعلم]۔ وجہ کچھ بھی ہو، یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ یہ تحقیق صحیح راستے پر ہے! اب ہم دنیا میں اکیلے نہیں اس پر عمل کرنے والے بھی موجود ہیں.
سعودی عرب اسلام اور مسلم دنیا کا مرکز ہے۔ کوئی بھی طاقتور فرد اپنے علماء کی مکمل تحقیق اور تعاون کے بغیر دینی معاملات میں اپنی مرضی زیادہ دیر تک مسلط نہیں کر سکتا۔ بین الاقوامی سیاست اور پالیسیوں کو الگ رکھتے ہوے، قرآن و سنت کے مطابق کسی بھی حقیقی کوشش کو نظر انداز کرنا درست نہ ہوگا -
یہ تحقیق قرآن اور نبی (ﷺ) کے کچھ زندہ معجزات بھی ظاہر کرتی ہے جو پہلے معلوم نہیں تھے، وہ سکرپٹ کا حصہ ہیں۔ " مذہبی تجربہ" Religious Experience) جس کا مشاہدہ اللہ کی طرف سے قرآن اور دیگر ذرائع سے رہنمائی سے ہوا، ایمان کی تجدید اور تقویت میں مددگارہے۔
پاکستان میں اوسط عمر 67 سال ہے ، اللہ کے اس بندے نے تین سال پہلے یہ لائن عبور کی۔ اس وقت کسی بھی قسم کی مذہبی ، علمی ، فکری مہم جوئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم ہرنماز میں بار بار دعا کرتے رہتے ہیں کہ :
(یا اللہ ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں (قرآن 1:6,7)
اس کوشش کا مقصد مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کے درمیان فکر و عمل میں "التجديد" کے لیےاتفاق رائے (إجماع) پیدا ہو سکے اور فرقہ واریت کی لعنت کو ختم کرنے، ماضی کی غلطیوں اور بدعات کا خاتمہ کرنے کے لیے مناسب اصلاحی اقدامات کیے جا سکیں- احادیث سے صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ میعار کے مطابق ہی درست طریقہ سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے- رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کو ترک کرنا بدعة و ضلالہ، گمراہی کا راستہ ہے-
قرآن ہدایت کی بلا شک آخری مکمل محفوظ کتاب ہے قرآن، کلام الله تعالی کسی اور کتاب سے بندھا ہوا (مھجور) نہیں، قیامت کے دن جب:
"پیغمبر کہیں گے ،" پروردگار ، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔ " (سورة الفرقان،25:30﴾[13]
ہمیں قرآن چھوڑنے والوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔
آئیے اس تحقیق کوسمجھ (comprehend) کر اسے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک پہنچائیں تاکہ ہم سب "تجدید الاسلام"[پہلی صدی ہجری کے کامل اسلام کے احیاء] کے لیے مسلمانوں میں بیداری ، شعوراور اتفاق را نے (consensus) پیدا کرنے کی کوشش میں شامل ہوں:
"جو شخص کسی اچھے مقصد کی سفارش کرتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا..." (قرآن 4:85) . . . Keep reading » » »
انڈکس
افتتاحیہ
بدعة ( كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ) اور تجدید
بدعة دین کامل اسلام میں( كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ)
اہل بدعة ( كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ) کا تضاد (Paradox)
قرآن ، حدیث اور بدعة ( كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ)
قرآن سے حدیث کی ممانعت کے ثبوت کا انکار
تجديد الإسلام
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بحالی
بسم الله الرحمن الرحيم
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا- ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا -
افتتاحیہ
اسلام دین کامل ہے - دین کو مکمل کر دینے سے مُراد، اس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواباُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔[7] حج الوداع کو یہ آیت نازل ہوئی:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (Perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)[8]
اس عہد میں اسلام ہر لحاظ سے کامل و مکمل اور خالص و مُخلَص تھا، پھر اس میں کچھ نقائص اور بدعات داخل ہونے لگیں- تجدید سے مراد یہ ہے کہ دین کو اس حالت میں لوٹا دینا جس حالت میں وہ عہد نبوی ﷺ میں تھا۔ تجدید ایک ایسا فکری عمل ہے جس سے اسلام کو ان تمام بدعات سے پاک کرکے اسے حقیقی(Perfect) شکل میں لایا جایے-[9]
دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ گویا اِن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ حالانکہ حقیقت بہر حال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور کسی امرِ حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھلا کریں اور ہرآن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے خیالات ، خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے، اور اس غرض کے لیےہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے ۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے ، اُس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے۔[84] اس تحقیق سے کما حقہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے فکر روشن اور ذہن کو تمام تعصبات سے پاک رکھنا ضروری ہے-
قرآن اور عقل و شعور
اللہ نے عقل و شعور کے استعمال پر بہت زور دیا ہے- لفظ "عقل" کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ، اور مخلتف انداز میں 49 مرتبہ استعمال ہوا ہے.الفاظ تعقلون، أَلْبَٰب، يَتَدَبَّرُ،يَتَفَكَّرُ، حِكْمَة, بُرْهَانٌ،عِلْم, رَشِيدٌ, ءَايَة, جَاهِل(لاعلم) پر مشتمل آیات انسانی عقل و ذہانت Intellect کو دعوت دیتی ہیں
"یقیناً الله کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے" ( قرآن:8:22 )
"وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں" (قرآن:(2:269)
"کیا آپ نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنے نفسانی خواہش ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہو ؟ کیا آپ اس کو ہدایت پر لانے کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں ؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا عقل سے کام لیتے ہیں وہ تو محض چوپائے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گذرے" (قرآن 25:43,44)
اس تحقیق سے کما حقہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے فکر روشن اور ذہن کو تمام تعصبات، خواہشات نفس، بزرگوں کے نظریات سے پاک رکھتے ہوۓ الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو مرکز بنانا ضروری ہے-
قرآن آخری کتاب
1.رسول اللہ ﷺ نےخطبہ حجج الوداع میں فرمایا : " تمہارے درمیان میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب (قرآن) " (ابی داوود: :1905، مسلم 2950)[8]
2.مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے [رواہ ابوہریرہ ؓ، البخاری: 7274][9]
3.نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی[10]۔(البخاری: 5022)
4.’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے[11] …‘‘(رواہ حضرت علیؓ ،ترمذی 2906)
5."یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین و سیدھا راستہ بتلایا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا۔[12](فرمان حضرت عمر (رضی الله) [البخاری: 7269]
مسلمانوں کا انحطاط اللہ کی رسی، قرآن کو نظر انداز کرنے سے ہوا:
"ااور رسول اللہ ﷺ کہیے گا کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (سورة الفرقان،25:30﴾[13]
اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن کی واضح ترین آیات کو نظر انداز کرکہ دوسری کتب کو ترجیح دی جارتی ہے - اس بحث اور تحقیق کی ضرورت نہیں اگر صرف قرآن کی چند آیات[14][39:23) (45:6) 77:50) 7:185] کو قبول کرلیا جاینے ، مگر ایسا نہیں اس لیے یھاں احادیث سے دلائل اور ریفرنسز دیے جارہے ہیں تاکہ جن کتب کو وہ عملی طور پر مانتے ہیں انہی سے قائل کیا جایے- رسول اللہ ﷺ تو قرآن کا عملی نمونہ تھے ، ان سے منسوب جو قول و عمل قرآن کے خلاف ہو گی وہ ان کی طرف سے کیسے ہو سکتی ہے؟ؕ[15]
بدعة اور تجدید
رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی:
" ---- جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے[16] [ابن ماجہ:42، ابی داوود 4607, ترمزی 266[
اسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ’’اور دین میں نئی نئی باتیں نکالنے سے بچنا‘‘-
قرآن اور سنت سے استنباط کر کے کوئی حکم نکالنا‘ اجتہاد کرنا‘ قیاس کرنا‘تو یہ سب جائز ہیں‘ لیکن اگر کسی نے دین میں بالکل نئی بات نکال لی جس کی تائید میں نہ قرآن سے کوئی دلیل ملی اور نہ سنت سے تو وہ بدعت ہے. اس میں دین کے بنیادی احکام اور عبادات کے اندر ثواب کمانے کے لیے کیے جانے والے کام ‘جس کی سند ہمارے پاس نہ قرآن میں ہے ‘نہ حدیث میں‘ نہ خلفائے راشدین کے عمل میں اور نہ صحابہؓ کے عمل میں تو وہ بدعت شمار ہوں گے اور رسول اللہ ﷺ نے بدعت کے حوالے سے واضح فرمادیا کہ:
فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ’’پس (دین میں) ہر نئی بات یقینا بدعت ہے‘‘.
وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’’(اورجان لو کہ) ہر بدعت یقینی طور پر گمراہی ہے‘‘ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں: وَکُلَّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ ’’اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ آگ ہے!‘‘ یا ’’ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے!‘‘ [17]
جب رسول اللہ ﷺ ا کے بعد انبیاء گذشتہ کی سنتوں اور طریقوں کو اختیار کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو بعد کے کسی انسان کی خود تراشیدہ خواہشات وبدعات کو اپنانے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر خود تراشیدہ عقائد ،نظریات، اعمال رسوم وبدعات کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ضلالت وگمراہی فرمایا گیاہے-
دین میں کسی نئی بدعت کی ایجاد در پردہ رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیمات)پر تنقید ہے، کیونکہ بدعت کے ایجاد کرنے والا گویا یہ دعویٰ کرتا
ہے کہ اس کی ایجاد کردہ بدعت کے بغیر دین نامکمل ہے اور یہ کہ نعوذ باﷲ! اللہ ورسول ﷺ کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، جہاں اس بدعت پرست کی پہنچی ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعت کے ایجاد کرنے کو دین اسلام کے منہدم کردینے سے تعبیر فرمایا، حدیث میں ہے:
’’مَنْ وَقَّرَ صاحبَ بدعۃٍ فقد أعان علی ہدم الإسلام‘‘۔ (مشکوٰۃ،ص:۳۱)[18].[19]
ترجمہ:۔’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم وتوقیر کی، اس نے اسلام کے منہدم کرنے پر مدد کی‘‘۔
اسلام کے بنیادی اصول
تجدید اسلام لے لئے پہلا قدم دین اسلام کی بنیاد کا درست اور مضبوط ہونا لازم ہے،اگردین کی بنیاد میں مشکوک میٹریل بھی شامل ہو گیا تو گمراہی اور بدعة کا خاتمہ ممکن نہیں اورتجدید اسلام کی بجایے زوال کا سلسلہ جاری رہے گا-
اسلام کے چھ بنیادی عقائد:اور پانچ ارکان ہیں-ان کا ماخذ ا[20] قرآن ہے:اللہ تعالیٰ پر ایمان، .فرشتوں پر ایمان، تمام رسولوں اور پیغمبران پرنازل کتب اللہ اور آخری کتاب قرآن پر ایمان، یوم آخرت پر ایمان اور تقدیر پر ایمان- ارکان اسلام[21] پانچ ہیں:شہادہ: ایمان، صلوٰۃ: نماز، زکوٰۃ، صوم: روزہ، حج.-
قرآن اور کتب پر ایمان
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پرآور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا (قرآن 4:136)[22]
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے- جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں[23] (قرآن : 6:162,163)
اسلام میں ایمان کے بنیادی عقائد میں تیسرا عقیده، اللہ کی تمام کتابوں پر ایمان لانا ہے- قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ، دوسری کتب ں جن کا نام سے قرآن میں ذکر کیا گیا ہے وہ ہیں انجیل (حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی) ، تورات (حضرت موسیٰ عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی) ، اور زبور (حضرت داؤد عیسیٰ علیہ السلام پر) اورحضرت ابراہیم کےصحیفہ کا بھی ذکر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مقدس کتابیں ہیں، یہودیوں نے تلمود (38 جلدوں) میں زبانی تورات اور مسیحیوں نے انجیلوں کے علاوہ 23 کتابوں کے ساتھ نیا عہد نامہ لکھا - لیکن مسلمانوں کو ان اضافی کتابوں پر ایمان کی ضرورت نہیں ہے۔
کیا بھول یا غلطی ہوئی؟
ایمان کے بنیادی عقائد کے بیان میں قرآن اور فرشتہ جبرائیل علیہ السلام جب وہ اسلام اور ایمان کی وضاحت کے لیے انسانی شکل میں نبی (ﷺ) کے پاس تشریف لائے تھے سب سے موزوں موقعہ تھا کہ مستقبل میں حدیث کی تدین کردہ کتابیں (جسے اب وحی خفی اور وحی غیر متلو کے بدعة کے عنوانوں سے صحیفہ سمجھا جاتا ہے) پر ایمان کا ذکر بھی فرماتے۔ مگر نہ یہ کام قرآن نے کیا اور نہ ہی جبرائیل علیہ السلام نے کیا الله تعالی اس اہم بات کو بھول گیا؟ (استغفرالله) کیا جبرائیل علیہ السلام بھول گۓ جس غلطی کو دو صدی بعد والوں نے درست کیا (استغفرالله)- اللہ ، جبرئیل علیہ السلام اور آخری رسول(ﷺ) کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چھ یا پچھتر حدیثوں کی کتابوں کا ذکر کرنا بھول جائیں جو کہ اب اسلام، قرآن کو کنٹرول کرتی ہیں۔ تاہم صرف ایک ہی امکان باقی ہے کہ علماء اور حدیث کتاب لکھنے والوں نے "حدیث کتب کی پابندی"[24] کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا اور بدعة کے مرتکب ہوے-
ایمان کے اسلامی بنیادی ارکان میں مسلمانوں سے صرف صرف انبیاء اور رسولوں پر اللہ کی نازل کردہ کتب پر ایمان لازم ہے- اسلام کے ابتدائی دور میں ایسا ہی تھا، کیا ان کا ایمان نا مکمل تھا؟ دوسری ، تیسری صدی کے بعد احادیث کی کتب کی تدوین ہوئی اور ان کو اگر قرآن کے برابر نہیں تو نزدیک ترین درجہ دیا گیا بلکہ کچھ لوگ تو برابر اور اعلیٰ درجہ بھی دیتے ہیں جب وہ عملی طور پر احادیث کی بنیاد پر قرآن کی آیات کو بےاثریعنی مسوخ کرتے ہیں- یہ یہود و نصاری کے نقش قدم پر چلنا ہے جو گمراہ ہوے-
بدعة دین کامل اسلام میں
اگر کوئی جماعت یا افرد قرآن و سنت و احادیث سے اولین دور کے "دین کامل اسلام" پر کاربند ہونے کی دعوت دے تو اس کا تجزیه کرکہ عمل پیرا ہونا کسی خاص جماعت ، فرقہ یا افراد کی تذلیل و تحقیر یا پیروی نہیں بلکہ کسی بھی فقہ پر کاربند رہتے ہوے بدعات کو مسترد کرکہ قرآن و سنت رسول اللہ ﷺ اوراحادیث پر عمل کرنا ہے یہی "تجدید اسلام" دین کامل کا راستہ ہے-انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے خیالات ، خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے، اور اس غرض کے لیےہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے ۔
اسلام کامل دین ہے تا قیامت ، اب کوئی او نبی نہ آیے گا نہ ہی وحی نہ کتاب- اب قرآن و سنت رسول اللہ ﷺ ہی تا قیامت ھدایت کا ذریعہ ہیں- اس لئے ان کی حفاظت، کتابت، تدوین اوراستفادہ کا طریقہ بہت اہم ہے، اختلاف کی صورت میں رسول اللہ ﷺ نے خلفاء راشدین کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے کا حکم دیا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )- رسول اللہ ﷺ اپنا مشن، ذمہ داری مکمل کر گۓ، الله تعالی کی طرف سے قرآن کی صورت میں جو ہدایت ملی ایسے لوگوں تک پہنچا دیا، جسے صحابہ اکرام نے لکھ کراور حفظ سے محفوظ کیا- دن میں پانچ مرتبہ صَلَاة میں قرآن کی تلاوت کی جاتی- لیکن جب رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے تو قرآن دو جلد میں کتاب کی طرح مدون نہ تھا-
رسول اللہ ﷺ کی سنت اور تدوین کتاب
صحابہ اکرام کے پاس ذاتی نوٹس صحیفے موجود تھے یا حفظ میں محفوظ - سب سے اہم کام قرآن کو محفوظ کرنا تھا ، جو حضرت عمر (رضی الله) کے اصرار پر اکٹھا ہوا- بعد میں حضرت عثمان (رضی الله) نے اس کی تدوین کی- قرآن کی تدوین و کتابت سنت خلفا راشدین ہے- اور حدیث کی کتابت نہ کرنا بھی سنت خلفاء راشدین ہے- رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں تدوین قرآن کیوں نہ کی؟ اس کا علم نہیں، شاید کوئی مصلحت یا ہماری آزمائش یا خلفاء راشدین کو ذمہ داری ، اہمیت، عزت و مرتبہ عطا فرمانا تھا (واللہ اعلم ) یہ بات یقینی ہے کہ ایسا نہ کرنا رسول اللہ ﷺ کی بھول یا غلطی نہ تھا، ایسی سوچ ضلالہ و گمراہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مشن کو نامکمل چھوڑ دیں (استغفر الله)- خلفاء راشدین نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی پورا کیا، قرآن کی تدوین کی اور احادیث کی تدوین نہ کی، بلکہ منع فرما دیا کہ یہود و نصاری دوسری کتب لکھ کر کتاب اللہ کو پس پشت دال کر گمراہ ہو گئے، اور مسلمانوں کو یہ غلطی نہیں دہرانا - یہ دونوں کام رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے عین مطابق تھے-
یہود و نصاری کی تقلید کی سختی سے ممانعت
مسلمان ہر صَلَاة میں اللّہ سے دعا کرتے ہیں: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
" ہمیں سیدھا راستہ دکھا - اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو گمراہ نہیں ہوئے[27] (قرآن : 1:6،7)
رسول اللہ ﷺ سے منسوب روایت ہے کہ ، "مغضوب علیھم" سے مراد یہود ہیں اور "الضالین" سے مراد نصاریٰ ہیں-[28]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :-
تم لوگ ٹھیک پہلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلو گے یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس کر رہو گے ( البخاری ، 3456)[29]
ان تمام تاکیدات کے باوجود امت کا ایک طبقہ شیطان کی پیروی اور نفسانی خواہشات کی غلامی میں صراط مستقیم سے ہٹ کر اللہ و رسول کے دشمنوں کی راہوں پر چل چکا ہے جن سے دور رہنے کی اللہ اور اس کے رسول نے تاکید فرمائی تھی:
"اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو اور جو کچھ یہ افتراء کرتے ہیں اسے چھوڑ دو (6:112)[30]
حتی کہ اللہ کے وہ دشمن صرف اپنی ہی نہیں بلکہ اخلاقی پستی کے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جس کا تصور ایک صاحب عقل و خرد آدمی نہیں کرسکتا جیسا کہ زیر بحث حدیث میں پیشین گوئی کے طور پراور ساتھ ہی ساتھ امت کو اس پستی میں گرنے سے روکنے کے لئے نبیﷺ نے منع فرمایا تھا- مسلمان اپنی عقل و فہم سے کام نہ لیں گے یعنی اگر یہود و نصاری کوئی کام کریں گے جو عقل و اخلاق کے معیار پر کسی بھی طرح پورا نہیں اترے گا پھر بھی مسلمان امت کے بعض افراد ان کی پیروی ضرور کریں گے. اب مسلمانوں نے بھی یہود و نصاری کی تقلید[31] میں کتاب الله تعالی، قرآن کے ساتھ 75 کتب احادیث لکھ لی ہیں- اسلام میں ایمان کے بنیادی عقائد میں ان کتب کا ذکر نہیں توسوال پیدا ہوتا ہے کہ ، کیا بنیادی ارکان ایمان [32]اسلام جو کہ 6 ہیں ان میں خاموشی سے ساتویں رکن کا اضافہ ہو چکا ہے؟ یہ اضافہ کس نے اور کیوں کیا؟ اگر کوئی ان کتب کا انکار کرے تو وہ کدھرکھڑا ہوتا ہے؟ اور جو ان پر ایمان پر اصرار کرے اس کی پوزیشن کیا ہے؟
تاریخ ، تفسیر، فقہ، سیرہ النبیﷺ اور دوسری علمی کتب پر کسی اعتراض نہیں کیونکہ ان پر قرآن کی طرح ایمان لازم نہیں- کسی کی آراء سےاتفاق و اختلاف ممکن ہے- نہ اس قسم کی کتب مدون کرننے پر کوئی اختلاف ہوا نہ ان کو خاص طور پر منع کیا گیا-
مزید تفصیل : یہود و نصاری کے نقش قدم پر[25]
کتابت حدیث کی ممانعت کی واحد اہم ترین وجہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
"کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و نصاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
یہی وجہ دائمی ہے، جو کہ یہود و نصاری اور مسلمانوں کی تاریخ اور حقائق سے آج بھی ثابت ہے، یہ رسول اللہ ﷺ کا ایک اور زندہ معجزہ ہے- یہودیوں نے تورات کو چھوڑ کر تلمود (38 جلد) لکھی، مسیحیوں نے انجیل کے علاوہ 23 کتابوں کے ساتھ نیا عہد نامہ لکھا اور مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کرکہ آج 75 کتب احادیث سے ان کو پیچھے چھوڑ دیا- حضرت عمر (رضی الله) نے پیش کی جب انہوں نے غورو فکر اوراستخآرہ کے بعد کتابت حدیث پر پابندی لگا دی جس پر بعد کے خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا- خلیفه اول پہلے ہی اپنے ذخیرہ کو تلف کر چکے تھے- دوسری وجوہات من گھڑت بغیرکسی ثبوت کے ہیں-[26]
تفصیل : احادیث کتابت کی ممانعت ( فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ )[27]
اہم ، علماء صحابہ اکرام نے مرتے دم تک احادیث نہ لکھیں
رسول اللہ ﷺ کے حکم پر جید صحابہ ، مفسرین قرآن ، عالم دین اور ہزاروں احادیث کے حافظ، راویان ومحدثین جنہوں نے مرتے دم تک عمل کیا، نہ حدیث لکھی نہ کتاب لکھی اور منع فرماتے رہے کہ وہ حکم رسول اللہ ﷺ کے پابند تھے- حضرت ابو ھریرہ( 5374 احادیث)[28] ، عبدللہ بن عبّاس (2660) ، عبدللہ بن مسعود[29]( 800)[30]، عبداللہ بن عمر(2630) ، زيد بن ثابت، کاتب وحی (92)، ابو سعید خضری[31] (1170) (رضی الله تعالی عنہم ) اگریہ صحابہ حدیث کی کتب لکھتے تو وہ مصدقہ ہوتیں جبکہ دوسرے راوی بھی زندہ تھے، اس طرح سے وہ ہزاروں احادیث حفظ کرنے کی مشکل سے بچ جاتے - اگر ان صحابہ اکرام کو حدیث کی کتب لکھنے پر پابندی کا علم نہ تھا تو ان کی احادیث کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟ ان کی احادیث نکال دیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ اور زید بن ثابت (رضی الله) تو کاتب وحی اور قرآن مدون کرنے والے ہیں ، پھران کا مدون قرآن کیسے قبول کریں گے؟ بہت صحابہ تو حدیث لکھنا بھی مکروہ سمجھتے تھے، کچھ کو حافظہ کمزوری پر اجازت ملی کچھ کو انکار۔ ان عظیم صحابہ اکرام کی سنت و عمل شہادت دیتے ہیں کہ کتاب حدیث مدون کرنا ممنوع ہے-
رسول اللہ ﷺ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا اپر پھرکچھ کو حافظہ کمزوری پر اجازت دی، کچھ کو اجازت نہ دی (اہم نقطہ، ان کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے، یہ علماء کتب لکھ سکتے تھے )[32] اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے-[33] کیا بعد کے لوگ رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام (رضی الله) سے زیادہ علم رکھتے ہیں کہ ان کے حکم کو رد کرنے کے لیے دلیلیں تلاش کرتے پھرتے ہیں؟ خطیب البغدادی[34]،[35] نے اس موضوع پر احادیث کو اکٹھا کیا ہے لیکن وہ بھی رسول اللہ ﷺ کی وصیت[36] اور اس پر خلفاء راشدین[37] کے "اجماع" کا ذکر بھی نہیں کرتے ، کیونکہ اس طرح تو بدعة کے جواز میں سب دلائل ختم ہو جاتے ہیں
احادیث پر احادیث - تقييد العلم للخطيب البغدادي [https://quran1book.blogspot.com/2020/10/hadith-ban.html]
[ https://wp.me/scyQCZ-forbid] Prohibition of Hadith Book Writing ]
امام ابوحنیفہ (رح) نے حدیث کی کتاب مدون کیوں نہ کی؟
امام ابوحنیفہ (رح) (پیدائئش 80 ھ) کی لاکھوں احادیث تک پہنچ تھئ شاگردوں اور ساتھیوں سے مشاورت سے فقہ مرتب کیا. ان کے 97 طالب علم[38] حدیث کے مشہور عالم تھے ، اور ان کی بیان کردہ احادیث صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور حدیث کی دیگر مشہور کتابوں میں مرتب کی گئیں۔ امام بدرالدین العینی[39] نے 260 طالب علموں کو شامل کیا جنہوں نے امام ابو حنیفہ (رح) سے حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ مگر انہوں نے حدیث کی کتاب نہیں لکھی- وہ سنت رسول اللہ ﷺ، سنت خلفا راشدین و صحابہ پر سختی سے کاربند تھے۔
دوسری صدی حجرہ میں بدعة کا آغاز ہوا اور احادیث کی کتب لکھی جانے لگیں ، آج 75 کتب احادیث ہیں ، یہود و نصاری کو پیچھے چھوڑ دیا اور فرمان و سنت رسول اللہ ﷺ ، سنت خلفاء راشدین کو دانتوں سے پکڑنے کی بجایے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا- یہ لوگ دین اسلام پر قابض ہو گۓ، فرقہ بازی، اور بدعة سے اسلام کا چیرہ مسخ کر دیا اور آج کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہوا تھا؟ یہ دھوکہ مسیحیت میں سینٹ پال کے دھوکے کی یاد تازہ کرتا ہے- اکثر مسلمانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سینٹ پال کا دھوکہ[40]،[41] کیا تھا؟ 1400 سال گزرگئے کسی نے کوشش نہ کی کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و نصاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں"[42] رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو چھپانے کی کوشش کی، حدیث کی مشہور کتب میں شامل نہ کیا، تجزیہ تو دور کی بات ہے- جو لوگ مسئلے کا حصہ ہیں وہ کیسے حل دے سکتے ہیں؟
How can those who are part of the problem give a solution?
یہ من گھڑت کہانی صدیوں سے پھیلا دی کہ پہلے قرآن اور حدیث مکس ہونے کا خدشہ تھا تو پابندی تھی بعد میں پابندی ختم ہو گی- یہ کھلم کھلا جھوٹ جس کوئی سند نہیں،حضرت ابو ھریرہ (رضی الله) 7 یا 8 حجرہ کو مسلمانوں میں شامل ہوے اور صرف دو(2) ، سوا دوسال رسول اللہ ﷺ (وفات 10ھ) کے نزدیک رہے، ان کو رسول اللہ ﷺ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا یہ اسلام کا آخری دور تھا جب قرآن کو نازل ہوتے ہوے 20 سال ہو چکے تھے- نیک لوگوں کا جھوٹ بولنا عام ہے (مسلم 40)[43]- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“[44]- بہت جھوٹ پکڑے ہیں تفصیل موجود ہے:
1. من گھڑت داستانوں سے حقائق مسخ ، رسول اللہﷺ کی حکم عدولی[45]
2 سینٹ پال ، سینٹ پطرس اور امام بخاری (رح ) کے خواب[46]
3. .آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم[47]
تدوین قرآن مجید
تدوین قرآن مجید[48] کی مختصر تفصیل کا ذکر ضروری ہے- حضرت عمر (رضی الله) نے جب دیکھا کہ حفاظِ قرآن ناپاک مدعی نبوت کے پیروکاروں، مرتدین کے ہاتھوں شہید ہونے لگے تو حضرت عمر (رضی الله) ، حضرت صدیق اکبر (رضی الله) کے پاس آئے اور کہا کہ حفاظ انتہائی تیزی سے شہید ہو رہے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ قرآن ان کے سینوں میں ہے۔ کہیں ہم اس سے محروم نہ ہو جائیں۔ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیں۔ ادھر جنگ ہو رہی ہے اور ادھر حضرت عمر حضرت صدیق اکبر سے عرض کر رہے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا: "یا عمر کیف افعل شیئا لم یفعلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم" - ترجمہ : ’’اے عمر! میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں، جو حضور نے نہیں کیا۔‘‘
حضرت عمر (رضی الله) نے عرض کیا، اگر ہم نہ کریں گے تو قرآن کے بہت بڑے حصے سے محروم ہو جائیں گے۔ حضرت عمر (رضی الله) کے اصرار پر حضرت صدیق اکبر فرماتے ہیں کہ: حتی شرح اللّٰہ صدری کما شرح
اللّٰہ صدر عمر (’’حتیٰ کہ خدا نے میرے سینے کو اس چیز کے لئے کھول دیا، جس طرح حضرت عمر کے سینے کو کھولا تھا۔‘‘) . حضرت عمر کا شرح صدر اس معاملہ پر پہلے ہوا اور صدیق اکبر (رضی الله) کا شرح صدر بعد میں ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو قرآن جمع کرنے کا حکم دیا تو زید بن ثابت انصاری نے وہی بات کہی جو حضرت ابو بکر نے حضرت عمر سے کہی تھی: کیف تفعلون شیئا ولم یفعلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ہو واللّٰہ خیر فلم یزل ابو بکر یراجعنی (’’اے ابو بکر و عمر تم وہ کام کیسے کرتے ہو جو حضور نے نہیں کیا۔‘‘)
اب صدیق اکبر نے وہی بات فرمائی جو حضرت عمر نے کھا تھا، مراجعت کلام کے بعد حضرت زید بن ثابت انصاری فرماتے ہیں کہ: حتی شرح اللّٰہ صدری للذی شرح لہٗ صدر ابی بکر و عمر (’’حتیٰ کہ خدا نے میرا سینہ کھول دیا جس طرح حضرت عمر اور ابو بکر کے سینے کو کھولا تھا۔‘‘) - قرآن اکٹھا کرکہ حضرت حفصہ (رضی الله) ام المومنین کے پاس رکھا گیا-
خلیفہ عمر بن الخطاب (رض) کا اہم کردار
حضرت عمر بن خطاب (ر ض) نے قرآن کی تالیف میں اہم کردار ادا کیا مگر احادیث کی کتابوں کی تالیف سے منع فرما دیا ۔ وہ کوئی عام شخص نہیں تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قریبی ساتھی تھا ، جسے نبی (ﷺ) کو دیے گئے علم الٰہی کا حصہ دیا گیا تھا [بخاری ، 7006 ، مسلم 6190] - روایت کے مطابق، کہ اگر کوئی اور نبی ہوتا تو بعد میں عمر ہوتا اور یہ کہ عمر جہاں سے گزرتا ہے وہاں سے شیطان منہ موڑ لیتا ہے۔ قرآن کی کچھ آیات اس کی خواہش کی تکمیل کے طور پر نازل ہوئیں ، یہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ تاریخ دان مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی مشہور کتاب میں عمر کو تاریخ کے 52 ویں بااثر ترین شخص کے طور پر شامل کیا ہے۔ اشوکا کے اوپر (53) ، سینٹ اگسٹائن (54) ، تھامس جیفرسن (64) ، جولیس سیزر (67) ، والٹیئر (74) ، جین جیکس روسو (78) ، مانی (83) ، سائرس دی گریٹ (87) ، ماؤ زی تنگ (89) ، فرانسس بیکن (90) ، زوراسٹر (93) ، شارلمین (97) اور مہاویر (100) ان سب سے بلند درجہ پر رکھا - وہ لکھتے ہیں: "خود محمد (ص) کے بعد ، وہ اسلام کے پھیلاؤ میں اہم شخصیت تھے۔ اس کی تیز فتوحات کے بغیر ، یہ مشکوک ہے کہ اسلام آج اتنا ہی وسیع ہوگا جتنا کہ حقیقت میں ہے۔"
وہ ایک عظیم مجتہد تھے ، ان کی خوبیوں اور اجتہادات پر کتابیں ہیں ، مشنا اور تلمود کی طرح حدیث کی کتب سے قرآن سے دوری پیدا ہو جاتی۔ آخر اس نے احادیث کو جلانے کا فیصلہ کیا اور حدیث کی کتابوں پر پابندی لگا دی۔ اس معاملے میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے اور اسے مکمل تجزیے کی ضرورت ہے جو تحقیق میں شامل ہے- خلیفہ عثمان اور علی (رض) نے ان کی پالیسی پر عمل کیا جو طویل عرصے تک جاری رہی ، یہاں تک کہ بدعات نے غلبہ پا لیا- مزید تفصیل درج لنکس پر :-
1)حضرت عمر (رضی الله) کا اہم ترین کارنامہ
2)حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اجتہاد
3)حضرت عمر بن خطاب ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ (سیرہ)
4)عظیم فاتح: اﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ یا ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ؟
حضرت عمر (رضی الله) کی شہادت (6 نومبر، 644ء) کے بعد حضرت عثمان (رضی الله) نے مسند خلافت سنبھالا- حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں میں دور دراز علاقوں میں قرآن مجید کی قرآت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ امیرالمؤمنین اس سے پہلے کہ یہ امت (امت مسلمہ) بھی یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے، آپ اس کی خبر لیجئے۔ چنانچه عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں کہلایا کہ صحیفے (جنہیں زید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں (کتابی شکل میں) نقل کروا لیں۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے- حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور آپ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کر لیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں زید رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھیجوا دیا اور حکم دیا کے اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔[49] یہ قرآن آج ہم مسلمانوں کے پاس اصل حالت میں موجود ہے-
اس سے بہت سے واضح ہوتا ہے کہ صدیق اکبر، زید بن ثابت ، فاروقِ اعظم، حضرت زید بن ثابت (رضی الله)، حضرت عثمان (رضی الله) سنت نبوی ﷺ کے پیکر تھے اور گوارہ نہیں کر سکتے تھے کہ سنت نبوی ﷺ کے خلاف کوئی کام کریں۔ جب شرح صدر ہوا کہ یہ بہت اشد ضروری ہے کہ امت مسلمہ بھی یہود ود نصاری کی طرح کتاب الله پر اختلافات کا شکار ہو جایے تو پھر مجبورا یہ اہم فریضہ ادا کیا-
قرآن اور اسلام ہم تک خلفاء راشدین کے توسط سے پہنچا ہے، ان چاروں کو نظر انداز (Minus Four) کر کہ کون سا نیا اسلام ہو گا؟
کتابت سنن و حدیث
اسی طرح دوسرا معاملہ کتابت حدیث کا تھا ، جسے حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله) نے اہمیت نہ دی بلکہ اپنا زخیرہ حدیث بھی تلف کر دیا- حضرت عمر (رضی الله) جب خلیفه بنے تو آپ نے صحابہ سے مشاورت کی کہ سنن کی کتابت کی جایے ، جنہوں نے کرنے کا مشورہ دیا- لیکن آپ نے ایک ماہ تک غورو فکر کیا پھر استغفار، استخارہ کر کہ اللہ سے رہنمائی حاصل کی، او عزم اللہ سے سنن کی کتابت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، وجہ وہی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے حادیث لکھنے کی ممانعت کرتے ہوے فرمائی تھی کہ، پچھلی امتوں (یہود و نصاری) کی طرح مسلمان بھی کتاب الله ( قرآن) کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جائیں-[50]
دوسری تیسری صدی میں لکھی گی مشہور کتب احادیث لکھنے والوں نے ان کتب کا نام سننن رکھا [حدیث و سنت کو مترادف سمجھا جاتا اہے جو کہ درست نہیں, رسول اللہ ﷺ نے ان میں فرق رکھا[51]] کتب میں ہرحدیث شروع ہوتی ہے لفظ "حدثنا" سے- ان کتب میں احادیث کی بھر مار ہے کچھ سنن بھی شامل کر دی گیئں تاکہ نام کا بھرم قائم رہے- اس کے علاوہ صحابہ اکرام کے اقوال اور تاریخی واقعات، بھی شامل ہیں- احادیث کی اکثریت "واحد" ہیں، لغوی اعتبار سے "واحد" کا مطلب ہے ایک۔ خبر واحد وہ خبر ہے جو ایک شخص نے روایت کی ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں خبر واحد وہ خبر ہے جس میں تواتر کی شروط جمع نہ ہوں (خواہ اس کے روایت کرنے والے ایک سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔) (نزہۃ النظر ص 26) خبر واحد سے غیر یقینی (ظنی) علم حاصل ہوتا ہے۔[52] روایت کئی نسلوں بعد کسی ایک صاحب (کتاب حدیث لکھنے والے) نے اپنی صوابدید پرمسترد یا قبول کیا اور کتاب میں ریکارڈ کیا- جبکہ قرآن کی تدوین کمیٹی میں تین صحابہ اورکاتب وحی حضرت زید بن ثابت (رضی الله) تھے، تمام عینی شاهدین موجود تھے، خلیفه سوم حضرت عثمان (رضی الله) خود نگرانی فرما رہے تھے- جو احادیث سنن کنے درجہ پر ہیں یعنی حدیث متواتر ، امام سیوطی نے صرف 113 شمار کیں ہر درجہ می دس راوی[53]
تدوین کتاب - اجماع خلفاء راشدین و صحابہ
اہم بات یہ ہے کہ جب خلیفه عمر بن خطاب (رضی الله) نے تمام احادیث اکٹھا کیں اوران کو جلا دیا ، اور حکم جاری کیا کہ احادیث مت لکھی جائیں تو کسی نے خاص اعتراض نہ کیا- صحابہ اکرام بزدل نہ تھے، کھلم کھلا تنقید کرتے تھے وہ دین اسلام کے معامله میں وہ کسی کی بھی پروا نہ کرتے تھے- ایک دفعہ حضرت عمر ؓ مہر کی مقدار کے متعلق تقریر فرما رہے تھے،ایک عورت نے اثنا ئے تقریر ٹوک دیا اورکہا"اتق اللہ یاعمر!"یعنی اے عمر ؓ !خدا سے ڈر!اس کا اعتراض صحیح تھا حضرت عمر ؓ نے اعتراف کے طورپر کہا کہ ایک عورت بھی عمر ؓ سے زیادہ جانتی ہے- اگر حضرت عمر (رضی الله) کا احادیث کو جلانے اور پابندی کا حکم خلاف احکام رسول اللہ ﷺ ہوتا تو صحابہ اکرام ان کو روکتے لیکن ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا اس حکم کو بلا چوں چرا قبول کرنا، باقی خلفاء راشدین کا بھی اس پر عمل کرنا اور دوسری صدی حجرہ تک اس "اجماع کبیرہ" پر عمل درآمد ہوںا اس بات کی مزید دلیل ہے کہ حضرت عمر (رضی الله) کا یہ اقدام درست تھا- کیونکہ یہ کوئی عام اجتہادی معامله نہ تھا بلکہ یہ قرآن ، سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق تھا اس لیے اس میں تبدیلی, نظرثانی کی گنجائش نہیں- اختلافات کی صورت میں رسول اللہ ﷺ نے خلفاء راشدین کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے کا حکم دیا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) اور بدعات سے بچنے کا بھی-[54]
انفرادی اور مشترکہ کوشش میں فرق
کتب احادیث لکھنے والے افراد نے انفرادی طور پر کتب مدون کیں، قرآن کی تدوین ایک فرد نے نہیں افراد نے کی جس کی نگرانی خلیفه راشد نے بذات خود فرمائی- یہود و نصاری کے راستہ پر چلنے والوں نے ان سے مثبت مثال نہ حاصل کی:
سیپٹوجینٹ (Septuagint) (سترکا ترجمہ) عبرانی تورات کا ترجمہ یونانی زبان میں بطلیموس II فلاڈیلفس (285–247 ق م ) کی درخواست پر 70 یہودی اسکالرز یا بعد کی روایت کے مطابق 72 یہودی اسکالرز( اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ہر ایک سے چھ علماء ) جنہوں نے آزادانہ طور پر یکساں تراجم تیار کیے۔
انفرادی طور پر احادیث کی کتاب لکھنے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ ہر ایک محدث نے اپنی اپنی صوابدید پر احادیث کو اکٹھا کیا ، فطری طور پر جو احادیث ان کے نظریات کے مطابق تھیں ان کو شامل کیا اور مخالفین کے نظریات ، فقہ کی سپورٹ کرنے والی احادیث کو شامل نہ کیا. یا کچھ کو شامل ، کچھ کو نہ شامل- ان افرد پر کسی طرح سے کوئی آزادانہ نگرانی کا بندوبست نہ تھا نہ کوئی جانچ پڑتال (scrutinize) کرنے والا- اور ان کو قبول کرنے والے علماء نے بھی کوشش نہ کی کہ جو حضرات ایک وقت میں موجود تھے ایک دوسرے سے رابطہ کر کہ مشترکہ طور پر یہ کام کرنے- اس تمہید کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اگر ایسا کرتے تو بدعة قابل قبول ہوتی بلکہ ان لوگوں کا انفرادی طریقہ (solo flight) ان کی سوچ ، سمت، نیت اور مقصد پر روشنی ڈالتی ہے. دلوں کے بھید صرف اللہ کو معلوم ہیں (واللہ اعلم )-
اس کی ایک مثال، آج بھی فقہ حنفی، دوسری حدیث کی کتب سے رفع یدین منسوخ[55] / یا رفع یدین نہ کرنے والی عبدللہ بن مسعود (رضی الله) کی حدیث سے دلیل دیتے ہیں کیونکہ ایک بزرگ نے اپنی مشہور کتاب میں یہ اہم حدیث شامل نہ فرمائی اس طرح کی اور بھی مثالیں ممکن ہیں-- قرآن ، سنت اور احادیث کے معاملہ میں کسی غلطی کی قطعا گنجائش نہیں- مل جل کر مشترکہ کام سے غلطی کا امکان کم اور ذمہ داری بھی تقسیم ہو جاتی ہے اگرکام کی شرعی طور پر ممانعت نہ ہو-
جو احادیث کتابت حدیث کی ممانعت بیان کرتی ہیں وہ حدیث کی مشہور ترین کتاب البخاری سے کیوں غائب ہیں؟
کہاں قرآن اوراس کی تدوین کا معیار اور کہاں انفرادی طور پر لکھی گیئی کتب جو دو تین صدی بعد مدون ہوئیں بغیر کسی اتھارٹی کے بلکہ اتھارٹی کے حکم کے برخلاف بدعة - قرآن کی تدوین کی کتنی احتیاط سے ہوئی خلفاء کی زیر نگرانی ایک کمیٹی کے زریعہ جبکہ کاتب وحی زید بن ثا بت بھی تدوین قرآن میں شامل تھے- خبر واحد قبول، جبکہ قرآن کے لیے کم از کم دوشہادت لازم تھیں حالانکہ ہزاروں حفاظ اور صحابہ زندہ تھے- یہ سب کچھ یہود و نصاری کی پیروی میں کتاب الله کے علاوہ کتب لکھنے کے لئے کیا گیا، جس سے سختی سے منع فرمایا گیا تھا اور اگر کوئی شک و شبہ راہ گیا تو اسے خلفاء راشدین نے دور کر دیا-
صرف قرآن محفوظ اور مکمل کتاب ھدایت ہے ، کوئی اور کتاب ، کتاب حدیث مکمل ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی ، اگر احادیث کی ساری کتب کو اکٹھا کرکہ ایک کتاب بنا لیں تو بھی وہ مکمل کتاب نہیں ہو سکتی- لاکھوں ایسی احادیث ہیں جن کا شمار نہ ہوسکا نہ ہو سکتا ہے- دین کی بنیادی کتاب یا کتب میں ایک لفظ کم یا زیادہ ہو تو معنی تبدیل ہو جاتے ہیں چہ جائیکہ ہزاروں لاکھوں کا فرق ہو!
جو چند ایک ممانعت کی احادیث دوسری کتب (مسلم ایک ، ابو داود، مسند احمد)[56] میں ہیں وہ بھی مکمل نہیں ، اصل اہم ترین بات ان کے متن میں شامل نہیں؟ مسند احمد نے کچھ کوشش کی مگر اہم نقطۂ یہ ہے :
"کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔ [رقم ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
بدعة - وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ
احادیث حفظ کرکہ بیان و سماء سے نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں تھیں - افسوس جب دوسری ، تیسری صدی میں بداعات نے زور پکڑا تو نئی نی تاویلیں گھڑی گیئں- پھر تیسری صدی میں مشہور کتب احدیث لکھی گیئں جن کو عوام نے فوری طور پر قبول نہ کیا اور دو صدی کے بعد 464 حجرہ / 1047 عیسوی میں نیشا پور کے ادارہ میں البخاری کوسرعام پڑھا گیا - اب حدیث کی 75 کتب ہیں اور قرآن طاق میں محفوظ ہے تلاوت اور ثواب کے لیے- یہود و نصاری کی کتب کی تعداد بہت پیچھے رہ چکی ہے-
اسلام میں زوال کی وجہ بنیادی طور پر بدعات اور فرقہ واریت ہیں اور یہ سب کچھ قرآن کو چھوڑ کر دوسری کتب میں مشغول ہونے سے ہوا- علماء اپنے اپنے فرقہ کی ترقی اور ترویج میں دوسروں سے جھگڑا کرنے میں اپنی توانا ئیاں ضائع کرتے ہیں - قرآن کو ترک کر چکے ہیں، جیسا فرمان ہے:
"ااور رسول اللہ ﷺ کہیے گا کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (سورة الفرقان،25:30﴾[57]
اہل بدعة کا تضاد (Paradox)
یہ بہت عجیب بات ہے کہ احادیث کو الہامی، وحی خفی / غیر متلو کہنے والے خلفاء راشدین کی سنت اجماع کا انکارکرتے ہیں- جب وہ (ابی داؤد 4607)، اور ترمزی 266 ) کے مطابق حدیث کتب کی تدوین نہ کرنے کی سنت خلفاء راشدین کو مسترد کرکہ بدعة اختیار کرتے ہیں ، یہ دوہرا انکار ہے - اور اس طرح سے وہ (ان کے اپنے عقیدے کے مطابق) وحی کے انکار میں ملوث ہو جاتے ہیں [اسلام میں جو بھی وحی کا انکار کرتا ہے وہ اسلام کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔] اگر وہ اس حدیث (ابی داؤد 4607) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی اطاعت کرتے ہیں تو انہیں حدیث کی کتاب لکھنے کے خلاف هدایت یافتہ خلفاء کے متفقہ فیصلے/ سنت کو قبول کرنا ہوگا۔ یہ ان کا خود ساختہ تضاد ہے ، وہ اس حدیث (ابی داؤد 4607)، اور ترمزی 266 ) کودل سے قبول کر کہ بغیر کسی اگر، مگر کے مکمل طور پر اس تضاد (Paradox) سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ، اس طرح وہ رسول اللہ، ، خلفاء راشدین اور قرآن کی اطاعت کرنے والوں میں شامل ہو کر بدعة کو ترک کرسکتے ہیں۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب وہ شیطان کی پیروی اور نفسانی خواہشات کی غلامی سے نکل کر اللہ و رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کی راہوں کو ترک کر دیں جن سے دور رہنے کی اللہ اور اس کے رسول نے تاکید فرمائی تھی - مسلمان اپنی عقل و فہم سے کام لیں، یعنی جو کام یہود و نصاری نے کتاب الله تعالی کے ساتھ مزید کتب لکھ کر گمراہی کا راستہ اختیار کیا، اپور مسلمانوں نے بھی یہود و نصاری کی تقلید میں کتاب الله ، قرآن کے ساتھ 75 کتب احادیث لکھ لی ہیں اس کا تدارک کریں- اسلام میں بدعة کی کوئی گنجائش نہیں-
تجدید اسلام کے لیے پہلے اسلام کی بنیادوں کو بدعة سے پاک کرکہ درست کرنا ہو گا تاکہ اسلام کی مضبوط عمارت کو انسانی خود ساختہ فکری تضادات کے لا حاصل دفاع کی بجاے دعوه و تبلیغ پرمکمل توجہ مرکوز کر سکیں-
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، یہ سب کو معلوم ہے- در اصل اسلام کی بنیاد کتاب الله ، قرآن پر ہے جو کہ محفوظ ترین کتاب ہے- قرآن ہی اللہ اوررسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ اب الله کے پاس ہیں،ان کا کردار قرآن کا عملی نمونہ تھا ، ان کا اسوہ حسنہ مسلمانوں کے لیے قابل تقلید مثال، رول ماڈل ہے جو کہ سنت (عمل، نسل در نسل تواتر سے منتقل ہورہا ہے) اور کلام، ارشادات (حدیث) کی شکل میں ملتے ہیں، یہ اخذ کردہ، منسوب ہیں۔ سنت اور حدیث مختلف اصطلاحات ہیں ان کو ایک یا ہم معنی سمجھنا بھی بدعت ہے جو ارشاد رسول اللہ ﷺ کے خلاف[58] ہے- رسول اللہ ﷺ سے کچھ روایات میں قرآن و سنت پر عمل کا زکر ہے قرآن و حدیث کا نہیں۔ سنت اور حدیث ذو معنی نہیں جیسا کہ عام طور پر مشہور کر دیا گیا ہے- رسول اللہ ﷺ کے فرمان[59] میں قرآن ، سنت اور حدیث [60]کا الگ الگ ذکر ہے-
حدیث متواتر
قرآن کی حفاظت کا ذمہ الله نے خود لے لیا، خلفاء راشدین نے اکٹھا کر کہ جلد میں مستند کتاب کی شکل میں بھی محفوظ کر دیا، سنت جس میں زیادہ اہم عبادات (مثلا صَلَاة کی تفصیلات ، روزه ، زکات ، حج اور مزید تفصیلات ) ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کے عملی مشاہدہ اور عمل سے متواتر نسل د نسل منتقل ہوتی آ رہی ہے، قرآن کہ بعد سنت محفوظ ترین ہے- تمام احادیث کے ساتھ یہ سلسلہ نہ ہو سکا، صرف "متواتر احادیث" جن کوایک یا دو افراد نے نہیں بلکہ بہت زیادہ افراد نے سنا اور نسل در نسل تواتر سے منتقل کیا اور متواتر احادیث، سنت کے درجہ تک پہنچ سکیں- "متواتر احادیث" کی تعداد بہت کم ہے ، امام سیوطی (رح) نے ہر سٹیج پر دس راویوں والی ایسی 113 متواتر [61]احادیث کو اکٹھا کیا ہے- سعودی ویب سائٹ [62]پران کی تعداد 324 ہے - دوسری قسم کی احادیث "احد" کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں ، جو کہ احادیث کے کثیرمجموعہ پرمشتمل ہے- ان سے استفادہ کرتے ہوے بہت تحقیق اوریہت احتیاط کی ضرورت ہے- رسول اللہ ﷺ نے حدیث کے میعار کو جانچنے کی پالیسی (criteria) بیان فرما دی کہ جو حدیث پہنچے اور وہ قرآن و سنت اور عقل کے خلاف نہ ہو وہی قابل قبول ہے- اس لیے تحقیق ضروری ہے، الله کا فرمان ہے:
مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ (قرآن 49:6)
رسول اللہ ﷺ کا معیارحدیث
اس سے بڑی بدعة کیا ہو سکتی ہے کہ ہر حدیث کو رسول اللہ ﷺ کے مقررر کرده معیار کسوٹی پر پرکھنے کی بجایے کہ: قرآن و سنت اور عقل کے مطابق ہوں[63]- محدثین کی کسوٹی جس میں راویوں کی اسناد زیادہ اہم ہیں نہ کہا متن (مسلم حدیث:40) جو کہ بدعة ہے- پھر اس پر اصرار کیا جایے کہ فلاں کتاب صحیح ہے، فتوے لگانے جائیں، فرقےبنایے جائیں جو مشرکین کا طریقہ ہے- یہ رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہے اور یہود ونصاری کے علماء کی طرح علماء کو "رب" بنانا[64] ہے، شرک کی قرآن نے مما نعتت فرمائی ،اس جہالت کو ختم کرنا ضروری ہے- دین کے معامله میں اس طرح کی لاپرواہی کیسے قبول کی جا سکتی ہے جبکہ ہم اپنے ذاتی ، معاشی معاملات میں کس پراس طرح اندھا اعتبار نہیں کر تے۔
الله نے قرآن میں اپنے احکامات اور ضروری هدایت واضح ترین طریقه سے بیان فرما دیے ہیں (3:7) لیکن جن کے دل میں کجی ہے وہ واضح احکام کو چھوڑ کر متشابھات کی طرف جاتے ہیں تاویلوں سے نئی نئی باتیں ، بدعات ایجاد کر تے ہیں تاکہ اپنے نظریات کو عوام کے لیے قابل قبول بنا سکیں - قرآن میں تحریف ممکن نہیں ، لہذا ممکنه طور پر ہزاروں احد احدیث کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ حدیث چیک کرنے کے میعار کی بجایے اپنا میعار بنایا جو کہ راوی اور اسناد پر مشتمل ہے (اور وجوہ بھی ممکن)، متن کی اہمیت کم ہے- حدیث میں جھوٹ کے بےدریغ استعمال کا اقرار محدثین نے بھی کیا ہے (مسلم حدیث:40-)
حدیث کے 7 گمشدہ اصول : یہ اصولتحقیق کے بعد قرآن ، سنت اور احادیث کی بنیاد پر احقر نے مرتب کیے ہیں اب ان کے مطابق احادیث کو مرتب کرنے کی ضرورت ہے [تفصیل : حدیث کے 7 گمشدہ اصول ]
قرآن ، حدیث اور بدعة (كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ )
پہلی صدی کے بعد کے ارباب / علماء نے حدیث کو وحی غیر متلو ("وحی غیر متلو" کی نئی اصطلاح جو کہ نہ قرآن و سنت اور نہ ہی کسی حدیث میں موجود، نہ ہی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کو معلوم تھی) کے درجہ پر بڑھا دیا یعنی قرآن کے برابر، بلکہ کچھ نے تو قرآن سے بھی اوپر کے درجہ پر کر دیا کہ، احادیث قرآنی آیات ، احکام کو بھی منسوخ کر سکتی ہیں (استغفراللہ)- اس طرح قرآنی احکام میں رد و بدل کرنا بھی ممکن کر دیا، جبکہ قرآن کہتا ہے:
1. قرن کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا رسول اللہ ﷺ بھی نہیں، رب کی نافرمانی پر سخت عذاب (قرآن 10:15)[65]
2. قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60)
3. یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے (قرآن 2:2)
4.قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
5. یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
6.اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية 45:6)
احادیث کا حفظ و بیان مستحب
احادیث کا حفظ و بیان مستحب ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی مگر احادیث کی کتب" مدون کرنا بدعة ہے جس کی قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ممانعت ہے، جو ترخمہ یا لفظی تحریف سے ختم نہیں کی جاسکتی- کتب احادیث کو بدعة کے طور پر قبول کرنے میں مسلمانوں میں تردد پایا جاتا ہے کہ صدیوں کے پراپیگنڈہ نے دماغ جامد کر دیے ہیں، یہ معاملہ افلاطون کی تمثیلِ غار[66] کی طرح ہے- احادیث لکھنے پررسول اللہ ﷺ نے پابندی لگائی کہ پہلی اقوام (یہود و نصاری ) کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب لکھ کر گمراہ ہو گۓ تھے[67]، اس پالیسی پر حضرت عمر (رضی الله)[68] اور خلفاء راشدین[69] نے بھی عمل کیا، تیسری صدی حجرہ میں حدیث کی مشہور کتب لکھی گیئں مگر ان کو علمی قبولیت میں دو صدی اور لگ گئیں، جب 467 حجرہ ( 1072عیسوی) کو نیشاپور کے دارالعلوم میں پہلی مرتبہ البخاری کو پڑھا گیا تھا –
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے( اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
اہم سوالات
کچھ اہم سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے :
1. کتاب حدیث کی ممانعت کی جو وجہ رسول اللہ ﷺ نے فرمائی یہی وجہ حضرت عمر (رضی الله) اور حضرت علی (رضی الله) نے بیان فرمائی- یہ مماثلت بہت اہم ہے جس کو بڑے بڑے علماء، محدثین نے کیوں نظر انداز کیا؟
2. دو تین صدی کے بعد کسی بھی حدیث کی کتاب لکھنے والے کو سب سے پہلے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ صدیوں بعد یہ کام کیوں اور کس اتھارٹی سے کر رہا ہے؟
3.جو کام نہ رسول اللہ ﷺ نے کیا نہ خلفاء راشدین نے نہ ہی صحابہ اکرم نے کیا اور پہلی صدی گزر گیی جب سب وفات پا گۓ یہ کیوں کر رہے ہیں؟
4. کسی بھی عالم فقیہ، محدث جس میں ایام شافعی اور بعد والے حضرات سے خطیب البغدادی (متوفی 463 ھ) تک کسی نے بھی (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) اور کتابت حدیث نہ کرنے کی سنت خلفاء راشدین کا ذکر کیوں نہ کیا؟
5. یہ اہم ترین وصیت رسول اللہ ﷺ (ابی داود 4607) حدیث البخاری میں موجود کیوں نہیں ؟
6. تمام محدثین (حدیث کی کتب لکھنے والے اور علماء حدیث ) کی طرف سے سنت رسول اللہ ﷺ ، حکم و وصیت رسول اللہ ﷺ اورسنت خلفاء راشدین کا مکمل مقاطعة (بائیکاٹ) کیا ثابت کرتا ہے؟
7.امام ابوحنیفہ (رح) (پیدائئش 80 ھ) کی لاکھوں احادیث تک پہنچ تھئ شاگردوں اور ساتھیوں سے مشاورت سے فقہ مرتب کیا، مگر نہ حدیث کی کتب نہ لکھی- وہ سنت رسول اللہ ﷺ، سنت خلفا راشدین و صحابہ پر سختی سے کاربند تھے۔
8.کتب حدئث کی تدوین کے بعد میں آج تک (بارہ سو سال) تمام علماء، سکالرز کی خاموشی پراسرار نہیں تو کیا ہے؟
9. آب ایک قرآن اور 75 کتب احادیث موجود ہیں جن میں نہ ختم ہونے والے سلسلہ سےاضافہ مسلسل جاری ہے۔
یہ سب کچھ سنت رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفا راشدین کو مسترد کرنے کے نتیجہ میں بدعات کے طوفان کو کھلا راستہ مہیا کرتا ہے۔
وحی خفی یا وحی غیر متلو اور علم (كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ )
یہود نےتورات (کتاب الله ) کو زبانی تورات (Oral Torah) جو اصل میں علماء یہود کی لکھی تفاسیروتحریریں ہیں ان سے غیر موثر کیا اس میں (Mishnah Gemara ) کو لکھ کر تلمود کا نام دیا اور خدا کی طرف سے نازل ( وحی) بنا دیا- اسی وجہ سے حضرت رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر (رضی الله) نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا- علماء اسلام نے یہود کی تقلید میں بدعة ایجاد کی گئی کہ احادیث در اصل وحی خفی یا وحی غیر متلو[70] ہے (کیا یہ بات نہ رسول اللہ ﷺ کی معلوم تھی نہ حضرت ابوھریرہ (رضی الله) کو بھی نہ حضرت عمر (رضی الله) کو بھی نہ معلوم تھی جب وہ احادیث کو آگ اگا رہے تھے) اس طرح سے ان کتب کو قران کے برابربلکہ کچھ نے مزید بلند مرتبہ دے دیا کہ حدیث قرآن کی آیت کو منسوخ کر سکتی ہے- الله تعالی نے اپنے آخری رسول اللہ ﷺ کووحی کے علاوہ (خاص) علم[71] بھی عطا فرمایا جس کا ایک حصہ حضرت عمر (رضی الله) کو بھی ملا، اس لیے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دین کی ہربات حق اور من جانب الله ہے (جو رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ میعار سے ثابت ہو[72]) اور اس میں حضرت عمر (رضی الله) کا خصوصی مقام نظر انداز کرنا گمراہی ہے- اس لیے جب رسول اللہ ﷺ اختلافات میں خلفاء راشدین کی سنت کو دانتوں سے پکرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس کی بنیاد یقینی طور پر وہ خاص علم و بصیرت ہے جو الله تعالی نے آپ ﷺ کو عطا فرمائی جس کا ایک حصہ حضرت عمر (رضی الله) کو بھی ملا جنہوں نے غور و فکر اور استخارہ کے بعد حدیث کی کتاب نہ لکھنے کا اہم فیصلہ کیا جو عزم اللہ سے ہی ممکن ہے [73]- رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین نے وحی (قرآن) کی کتابت کا خاص اہتمام کیا مگر احادیث کے لیے اس اہتمام کی ضرورت نہیں تھی، یہ سوچا سمجھا فیصلہ تھا نہ کہ بھول یا غلطی[74] (استغفر الله )-
تفصیل ملاحضہ :وحی متلو اور غیر متلو تحقیقی جائزہ[75
رسول اللہ ﷺ نے ذمہ داری مکمل کی
ھدایت ، وحی ، قرآن ، علم جو کچھ بھی رسول اللہ ﷺ کو ملا اسے عوام الناس تک پہچا نا رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری تھی جو انھوں نے بخوبی ادا فرما دی-
آخری خطبہ حج میں فرمیا کہ لوگو! قیامت کے دن خدا میری نسبت پوچھے گا تو کیا جواب دو گے؟ صحابہ نے عرض کی کہ ہم کہیں گے کہ آپ نے الله کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا‘‘۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا۔’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘۔ ’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘ اے خدا تو گواہ رہنا اور اس کے بعد آپ نے ہدایت فرمائی کہ جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔[76]
نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی۔ ( بخاری : 5022) کوئی حدیث نہیں ملے گی جس میں حدیث پر عمل یا پکڑنے کا ذکر ہو - سنت اور حدیث مختلف[77] ہیں-
جب رسول اللہ ﷺ نے اختلافات میں فیصلہ کا اختیار خلفاء راشدین کو دیا اور انہوں نے فیصلے کر دیے، تو پھر یہ دو تین صدیوں بعد کون لوگ پیدا ہوے جن کو یہ معلوم ہوا کہ دین اسلام میں کچھ کمی رہ گیی جس کو مکمل کرنا اب ان کی ذمہ داری ہے؟
قرآن کیا کہتا ہے:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ [آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)]
کس نے ان کو ذمہ داری دی کہ وہ یہ بدعة کریں؟ خواب کسی کے لیے حجت نہیں، مسیحیت میں سینٹ پال اور سینٹ پیٹر کے خوابوں سے شریعت موسوی منسوخ ہوئی اور خنزیر حلال ہو گیا - (مزید پڑہیں :سینٹ پال ، سینٹ پطرس اور امام بخاری (رح ) کے خواب) [78
قرآن کے علاوہ سنت اور حدیث ہم تک جتنا ضروری تھا اسے پہنچانے کا بنوبست رسول اللہ ﷺ کر گۓ تھے اور سلسلہ جاری تھا- وہ اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی اگاہ تھے کچھ نہیں بھولے تھے-ان لوگوں جہالت اور کم عقلی ہے جو سمجھتے ہیں کہ کچھ بھول یا غلطی ہو گیی جسے بدعة سے مکمل کرنا تھا؟
قرآن سے حدیث کی ممانعت کا ثبوت
ایک مومن کے لیے قرآن کی واضح آیات[79][39:23) (45:6) 77:50) 7:185]] بہت بڑی دلیل ہیں- لیکن جب وہ ان کو قبول نہیں کرتے تو پھر جن کتب پر ان کو زیادہ اعتماد ہے، کتب حدیث سے دلائل دینا پڑتے ہیں- پھل کی ٹوکری درست نہیں پھل تو حلال ہے۔ اگر کتب حدیث نہ ہوتیں تو یہ بحث بھی نہ ہوتی، ہم قرآن کی آیات پر تدبر اور غور و فکر کر رہے ہوتے۔ اور رسول اللہ ﷺ یہ نہ کہنا پڑتا:
اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" ﴿سورة الفرقان 25:30﴾
بدعة کو قابل قبول بنانے کے لیے وہ آیات[80] آیات قرآن کے ترجمہ میں تحریف کرتے ہیں کہ؛ "قرآن میں 'حدیث' لفظ کے تمام دوسرے معنی ہیں ما سوا یہ کہ "حدیث کلام رسول ﷺ کو بھی کھا جاتا ہے"- یہ دلیل کوئی فاترالعقل ہو قبول کر سکتا ہے لیکن صدیوں سے یہ ہو رہا ہے- حدیث کا موجودہ معنی جب قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت بھی یہی تھا جو کہ حدیث[81] سے ہی ثابت ہے-
تفصیل : قرآن میں لفظ "حدیث" کے معنی میں تحریف کی کوشش [82]
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا (اللہ نے بہترین حدیث اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے (قرآن 39:23)[83]
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)
صرف ایک کتاب ہے کتاب حدیث ، کتاب اللہ ۔ اور مزید سنت رسول اللہ ﷺ میں کوئی کتاب دوجلد میں نہ تھی قرآن بھی خلفا راشدین نے مدون کیا، اور حدیث کو نہ کیا سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق۔ یہ قران وست کی دلیل کافی ہونا چاہئیے ۔
وَالَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاسۡتَكۡبَرُوۡا عَنۡهَاۤ اُولٰۤئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ (القرآن 7:36)
*اور جو لوگ ہماری آیات کو جھُٹلائیں گےاور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گےوہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔* (القرآن 7:36)
تجدید ایمان و دین اسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ)
نبی ﷺ نے فرمایا اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم اپنے ایمان کی تجدید کیسے کرسکتے ہیں؟ لا الہ الا اللہ کی کثرت کیا کرو[84]. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ؛ میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی (مفھوم، متفق علیہ ) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس دین کی خاطر قیامت تک (باطل کے خلاف) برسرِپیکار رہے گی۔ [رواہ مسلم ،احمد ]
" إن الله يبعث لهذه الامة على راس كل مائة سنة من يجدد لها دينها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر سو سال کے بعد دین کی تجدید کرنے کے لئے بعض افراد کو بھیجتا رہے گا۔“
[ سلسله احاديث صحيحه, البانی حدیث: 144[85], وأبو عمرو الداني في " الفتن " (45 / 1) والحاكم، (4 / 522) والبيهقي في " معرفة السنن والآثار " (ص 52) والخطيب في، " التاريخ " (2 / 61) والهروي في " ذم الكلام " (ق 111 / 2) من طرق عن] ( ابوداؤد: 4291)
اسلام میں مسیحیت کی طرح پاپایت (Pope) یا یہود کی طرح "الحاخام"(Rabbi) کا کوئی تصور نہیں- حکمران، علماء، مسلمان سب اپنی اپنی حیثیت میں دین اسلام کی ترویج، تبلیغ، دعوه کرتےہیں. "امربالمعروف ؤںہی عن المنکر" سب مسلمانوں کا فریضہ ہے- عمومی طور پراس سے ہر وہ جماعت ، طبقہ، فرد یا افراد مراد ہیں جو اللہ کے سچے دین پر قائم ہوں اور دین کامل، اسلام کی خدمت و اشاعت میں اورسربلندی کے لئے کسی بھی صورت سے مصروف عمل ہوں۔
تجديد ایمان :
مسلمان تماز روزہ اور دوسری عبادات ادا کرکہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ کر لیا اب تو جنت ہماری ہے- لیکن ایمان کا شاید ہی کبھی جائزہ لیا ہو کہ کیا ہمارے ایمان کی جڑیں اصل اور مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہیں یا کسی رہزن شیطان نے نقب لگا دی؟ ہر نفس کے ساتھ شیطان ہے- ایمان میں ذرا سا بھی ضعف بربادی کا باعث بن سکتا ہے- ایمان میں کسی شک شبہ کی قطعی طور پرکوئی گنجائش نہیں- ایمان کی مضبوطی میں کمی بیشی ایک فطری عمل ہے لیکن اراکین ایمان کا اصل اور درست ہونا لازم ہے-
مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ایمان کا بھی جائزہ لیں کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں؟ اگر غلطی محسوس ہو تو اس کی فوری اصلاح کریں:
"کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا (38) اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی" (قرآن 52:39)
تجدید ایمان ، مزید تفصیل اس لنک پر :
https://quran1book.blogspot.com/2021/09/Faith-Revival.html
اہم بدعات (كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ )
فرقہ پرست علماء نے معمولی فروعی، فقہی اختلافات کو بدعة قرار دے کر بدعة کے اصل معنی ہی تبدل کر دیے ہیں- اگر کوئی رفع یدین ایک مرتبہ کرتا ہے اور دورسرا بار بار تو اس پر بدعة کا لیبل لگاتے ہیں- جس کے پاس جو سنت پہنچی وہ اپنی تحقیق کے بعد اس پر عمل کر رہا ہے اس میں بدعة کدھر ہے؟ دونوں سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل پیرا ہیں، اگر کسی کو منسوخی کا علم ہوا اور کسی کو نہ ہوا تو دونوں سنت پر عمل کر رہے ہیں- "عصر کی صَلَاة اور بنو قریظہ" والا واقعہ ایسے معاملات کو واضح کرتے ہیں [البخاري 4119].
علماء یہود کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: " تم لوگوں کی ر ہنما ئی کر تے ہو، لیکن تم ہی اندھے ہو. تم تو پینے کے مشروبات میں سے چھوٹے مچھر کو نکا ل کر بعد میں خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو"(انجیل متی23:24)
اصل بڑی بدعات اصول دین یعنی دین اسلام کی بنیادوں پر حملہ اور تبدیلی (كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ) جس کومسلمان علماء نے علماء یہود کی طرح مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے:
1) قرآن اور پہلے رسولوں ، نبیوں پر نازل کتب کے علاوہ کسی اور کتاب پر ایمان.[86]
2) اسلام / مسلم کے علاوہ دوسرے ناموں کا استعمال-[87]
3) فرقہ واریت میں ملوث ہونا [88 ]،[89]
4) دین میں یہود و نصاری کی پیروی کرنا[90]
5) احادیث کی رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ معیار کی بجاینے خود ساختہ میعار پر درجہ بندی کرنا[91]
6) سنت رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین (رضی الله) پرسختی سے عمل اور اس کو دانتوں سے پکڑنے کی بجایے علماء کی تعلیمات اور نظریات کو ترجیح دینا[92]
7) یہ نظریہ رکھنا کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین سے حدیث کی کتب نہ مدون کرنے میں بھول یا غلطی ہوئی جس کا ازالہ دوسری تیسری صدی اور بعد کے علماء اور محدثین نے احادیث کی کتب لکھ کر کر دیا[93]
8) کتب احادیث کو وحی یا قرآن کے برابر سمجھنا یا قرآن سے بھی برتر اور قرانی آیات کو منسوخ کرنے کا درجہ دینا[94]
9) قرآن، سنت اور احادیث میں واضح احکامات کو تاویلوں اور اخذ کردہ (Deduced) دلائل سے رد یا تبدیل کرنا, اس طرح کی مختلف (deductions) سے انتشار، نفاق اور فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔[95]
10) قرآن میں "حدیث" یا کسی آیت، الفاظ کی معنوی تحریف کرنا۔[96]
یاد رہے کہ دین میں کسی نئی بدعت کی ایجاد در پردہ رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیمات) کی تنقیص ہے، کیونکہ بدعت کے ایجاد کرنے والا گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ایجاد کردہ بدعت کے بغیر دین نامکمل ہے اور یہ کہ نعوذ باﷲ! اللہ ورسول ﷺ کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، جہاں اس بدعت پرست کی پہنچی ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعت کے ایجاد کرنے کو دین اسلام کے منہدم کردینے سے تعبیر فرمایا، حدیث میں ہے: ’’مَنْ وَقَّرَ صاحبَ بدعۃٍ فقد أعان علی ہدم الإسلام‘‘۔ (مشکوٰۃ،ص:۳۱)[97].[98]ترجمہ:۔’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم وتوقیر کی، اس نے اسلام کے منہدم کرنے پر مدد کی‘‘۔
شیعہ اصلاحات
اہل تشیع میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کہ بدعات سے سخت نالاں ہیں- بدعات نے ان کے مذہب کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے- پڑھے لکھے مہذب شیعہ افراد کا فرض ہے کہ اپنے فقہ کو جاہل مولویوں اور ذاکرین جنہوں نے مذھب کو کمائی کا ذریعہ معاش بنا رکھ ہے، بدعات اور خرافات سے پاک کریں- اس طرح سے وہ الله ، رسول اللہ ﷺ ، ائمہ اکرام اور اہل بیت کی قربت کے امیدوار ہو سکتے ہیں اور مسلمانوں کے اتحاد میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں – مزید تفصیل >>> [107]
آغاز تجدید الاسلام
احقر جب تحقیق کے نتائج پر پہنچا تو "ایک ہزار سالہ بیانیہ" [99](Millennium Narrative) تشکیل دیا کہ مذہبی معاملات میں تحقیق اور نظریات کی علمی اور عوامی قبولیت میں صدیاں لگ جاتی ہیں- لیکن الله کے اپنے پلان ہیں 27 اپریل 2021 کو سعودی ولی عہد شہزاده محمد بن سلمان نے اپنے انٹرویو میں اس حقیقت کو سعودی حکومت کے آیین کی بنیاد میں شامل کرنے کا اعلان کرد یا، یہ تجدیدالاسلام کا ایک طرح سے آغازہے جس میں بتدریج اصلاحات سے مستقبل قریب میں "پہلی صدی کے کامل اسلام کا احیاء" ([100]Revival of 1st Century Perfected Islam) ممکن ہو سکے گا، ان شاء الله
اختتامیہ
اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ بِہٖ جِنَّۃٌ ؕ بَلۡ جَآءَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ اَکۡثَرُہُمۡ لِلۡحَقِّ کٰرِہُوۡنَ
یا یہ کہتے ہیں کہ اسے (رسول اللہ ﷺ کو) جنون ہے؟ بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔ (قرآن: 23:70)[101]
اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ گویا اِن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ حالانکہ حقیقت بہر حال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور کسی امرِ حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی ،کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھیلا کریں اور ہرآن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے خیالات ، خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے، اور اس غرض کے لیےہر وقت دلیل،علم اور تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے:
"اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں" (قرآن 2:170, 43:22)
صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے ، اُس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے۔[102] عقل کے استعمال سے الله تعالی کی طرف سے ابدی ہلاکت یا ابدی حیات ممکن ہے :
"جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً الله سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن: 8:42)
"اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر (ضلالہ ، گمراہی کی ) گندگی ڈال دیتا ہے" (قرآن 100:10)
قرآن آخری کتاب الله، کتاب ہدایت ہے جس پر تمام مسلمان متفق ہیں، صرف اسی سے تجدید اسلام ممکن ہے- لہٰذا پہلی صدی کے اسلام، دین کامل کی بحالی کی جدوجہد بزریعہ اجماع میں شامل ہونا سب مسلمانوں کے لیے ضروری ہے-
This “Islamic Revival”is a virtual intellectual movement on cyberspace and social media now.
"تجديد الإسلام" غیر سیاسی، دینی ورچوئل (virtual) فکری تحریک ہے جو سائبراسپیس اورسوشل میڈیا پر ہے۔ اس تحریک میں ہر مسلمان جب وہ دعوه و مکالمہ کا آغاز کرتا ہے تو خود بخود شامل ہو جاتا ہے- دعوه اور مکالمہ کے لیے تحقیقی مواد ویب سائٹس پر انگریزی[103] اوراردو[104] میں مہیا کر دیا گیا ہے- فوری حوالہ کے لیے "نوٹس[105]" سے بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے-
انتباہ / وارننگ
1. تجديد الإسلام (Islamic Revival ) کی بنیاد پر کوئی نیا فرقہ قائم کرنے کی کوشش مت کرے یہ ایک اور بدعت ہو گی- مسلمان اپنی تحقیق سے جس فقہ پرمطمئن ہیں اسی پر قائم رہیں، کسی کے فقہ کو زبردستی تبدیل کرنے کی کوشش مت کریں-
2."مسلم" [106] الله کا عطا کردہ مکمل بہترین نام ہے، اتحاد مسلمین اہم ہے، مسلم اکثریت کے ساتھ شامل رہیں- "السلام" الله تعالی کا ایک صفاتی نام ہے، اس سے نسبت ایک اعزاز ہے- ["جماعت مسلمین" فرقہ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، فرقہ واریت کو مسترد کرتے ہیں]
3.کسی قدیم یا جدید عالم ، امام ، فقیہ، محدث پر ذاتی تنقید مت کریں جو متفق نہ ہوان کا معاملہ الله کے سپرد ہے- ہر کوئی اپنے اپنے عمل پر جوابدہ ہے-
4. تجديد الإسلام کی تحریک کے حوالہ سے جو بھی تبدیلی آیے گی وہ دعوه اور مکالمہ کے زریعہ بتریج پرامن ارتقائی عمل اور اجماع (consensus) سے وقوع پذیر ہوگی، ہمارا کام کوشش کرنا ہے-
یہ تعارفی کتابچہ (booklet) مکمل تحقیق کا نعم البدل نہیں- مکمل تحقیقی مقالہ ویب سائٹ / لنک پر موجود ہے:
بتریج پرامن ارتقائی عمل سے وقوع پذیر ہوگی، ہمارا کام کوشش کرنا ہے:
یہ موضوع کا تعارف ہے جو کہ مکمل تحقیق کا نعم البدل نہیں- مکمل تحقیقی مقالہ اس ویب سائٹ/ لنک پر موجود ہے:
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (4:85)
: تجدید الایمان: pdf: https://bit.ly/3mcqnD9
- مقدمہ تجدیدالاسلام pdf http://bit.ly/2uI2213
- - مکمل تحقیقی مقالہ: http://bit.ly/31lYQV3
- ویب سائٹ-1 https://Quran1book.blogspot.com
- ویب سائٹ-2 https://QuranSubjects.blogspot.com
- Abstract- Web link: https://wp.me/scyQCZ-tajdid
- Download/ Share Abstract (eBooklet) pdf: http://bit.ly/3s6eEse
- Full Research (Web): https://wp.me/scyQCZ-index
- Full Research (Google Doc): https://bit.ly/3fM75jH
- Author: Brig Aftab Ahmad Khan (r)
- Facebook: https://www.facebook.com/IslamiRevival
- E Mail: Tejdeed@gmail.com
- Website-1: https://Quran1book.wordpress.com
- Website-2: https://QuranSubjects.wordpress.com
- Revised : 14-9-21
لنکس / ریفرنسز Endnotes
[7] (تفہیم القرآن)
[8] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?hadith_number=2950&bookid=2&tarqeem=1
[9] https://islamicurdubooks.com/hadith/mukarrat-.php?hadith_number=7274&bookid=1
[10] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=5022
[12] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=7269
[16] [ابن ماجہ:42، ابی داوود 4607, ترمزی 266]
[17] Dr. Israr Ahmad
[18] https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&ID=387&bk_no=79&flag=1
[21] https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/pillars-of-islam.html
[25] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/jews-christian-footsteps.html
[26] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-talmud.htm
[30] https://quran1book.blogspot.com/2021/02/Abdullah-masood.html
[34] https://quran1book.blogspot.com/2020/10/hadith-ban.html
[38] Tāhzibul Kamal by Yusuf ibn Abd al-Rahman al-Mizzi / https://en.wikipedia.org/wiki/Abu_Hanifa#cite_note-23
[39] Māganīl Akhīar by Imām Aini/ https://en.wikipedia.org/wiki/Abu_Hanifa#cite_note-24
[40] http://bible-christianity.blogspot.com/2013/08/paul-refutes-jesus-chrsit-to-invent.html
[41] http://bible-christianity.blogspot.com/2013/08/true-message-of-jesus-christ-and.html
[43] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=2&hadith_number=40
[44] [ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی]
[45] https://quran1book.blogspot.com/2021/07/Distortion.html
[46] https://quran1book.blogspot.com/2021/07/St-Paul-Imam-Bukhari-Dreams.html
[47] https://quransubjects.blogspot.com/2020/08/hiding-verses.html
[48] https://quransubjects.blogspot.com/2021/07/compilation.html
[49] (ماخوز ازالبخاری4987): https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=4987
[50] https://wp.me/scyQCZ-omar3 ، Analysis of Caliph Umer’s Role in Hadith Writing: https://wp.me/pcyQCZ-4h
[51] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html
[52] http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0203-Hadith.htm
[58] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html
[59] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html
[60] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html
[62] http://web.archive.org/web/20061031015411/http://hadith.al-islam.com/bayan/Index.asp?Lang=ENG&Type=3
[63] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html
[64] https://quransubjects.blogspot.com/2020/02/blog-post.html
[70] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/wahi-ghair-matloo.html
[71] (بخاری 7006# ومسلم 6190 ) (مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 5988): https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=7006
[72] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html
[77] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html
[78] https://quran1book.blogspot.com/2021/07/St-Paul-Imam-Bukhari-Dreams.html
[81] https://islamarchive.cc/H_646521 [أحاديث أخري متعلقة من كتاب الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي]
[82] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-distortion-exposed.html
[84] رواہ ابوہریرہ ؓ ، صحیفہ ہمام بن منبہ، حدیث نمبر: 8353
[85] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=10&hadith_number=144
[86] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/asool-deen.html
[87] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/IslamMuslim.html
[90] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/jews-christian-footsteps.html
[91] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html
[94] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/wahi-ghair-matloo.html
[95] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/wahi-ghair-matloo.html
[96] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-distortion-exposed.html
[97] https://islamweb.net/ar/library/index.php?page=bookcontents&ID=387&bk_no=79&flag=1
[100]The Perfected Faith: Islam: https://wp.me/pcyQCZ-ji
[102] تفسیر تفہیم القرآن : http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/023/68.html
[105] https://quran1book.blogspot.com/2021/06/Hadith-Set.html
[107] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/Shia-Reforms.html
یہ تحقیق بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ریٹائرڈ) (عمر70 سال) نے کیا ہے جو ایک فری لانس مصنف ، محقق اور بلاگر ہیں۔ اس نے پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ماسٹرزکررکھا ہے اور قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب، تعلیمات اور پیروکاروں کے بغور مطالعہ میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت صرف کیا ہے - وہ 2006 سے "دی ڈیفنس جنرنل"[4] کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ان کی کچھ تحریریں پچاس سے زائد کتب[5] میں مرتب کی گئی ہیں۔ اسکے کام کو 4.5 ملین[6] سے افراد زیادہ تک رسائی حاصل ہو چکی ہے۔
FB: @IslamiRevival
Email: Tejdeed@gmail.com
تجديد الإسلام: پہلی صدی کے اسلام دین کامل کا احیاء- تحقیقی جائزہ[مکمل تحقیقی مقالہ ]
https://Quran1book.blogspot.com
https://Quran1book.wordpress.com
Google Doc : http://bit.ly/31lYQV3
More Books and Article by By same writer:
~~~~~~~~~~~
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴿ البقرة ٢٨٦﴾
اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے
(ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو)
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر ﴿ البقرة ٢٨٦﴾
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-