رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

خلفاء راشدین الْمَهْدِيِّينَ کی سنت کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث



’’سنّت‘‘ کے معنی طریقہ وعادت کے ہیں اور ہم جب سنّت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ہوتا ہے ’’آنحضرت ا کا طریقۂ زندگی‘‘ - رسول   صلی الله علیہ وسلم  نے اپنی سنت اور الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کی سنت پر عمل کا حکم دیا  - امام مہدی کے منتظر ہیں مگر جو" مہدین" آ چکے ان کو سنت پر تو عمل کریں --

سیدنا صدیق اکبر کے بعد امت کی راہنمائی کا فریضہ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔

” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)

” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)

رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧، صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥)

سنت خلفا سے مراد ان کے اسی طرح کے اجماعی فیصلے ہیں، نہ کہ ان کی انفرادی رائیں۔ اب میں بتاؤں گا کہ میں خلفاے راشدین کے اسی طرح کے طے کردہ مسائل کو کیوں سنت کا درجہ دیتا ہوں۔ میرے نزدیک اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:

1.اس کی پہلی وجہ تو وہ حدیث ہے جو اوپر گزر چکی ہے (ابو داوود ٤٦٠٧، ترمزی ٢٦٦ ) جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خلفاے راشدین کی سنت کو سنت کا درجہ بخشا ہے اور اسی حیثیت سے مسلمانوں کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت اور وصیت فرمائی ہے۔

2.دوسری وجہ یہ ہے کہ اجماع ہمارے ہاں ایک شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اجماع کی سب سے اعلیٰ قسم اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے جس کی مثالیں خلفاے راشدین کے عہد میں ملتی ہیں۔ اول تو یہ خیرالقرون کے لوگوں کا اجماع ہے جن کی حق طلبی و حق کوشی ہر شبہ سے بالاتر ہے۔ ثانیاً، اسی مبارک دور میں عملاً یہ شکل اختیار کی جا سکی کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آیا تواس میں وقت کے اہل علم اور صالحین کی رائیں معلوم کی گئیں اور پھر ایک متفق علیہ بات طے کر کے ایک خلیفہ راشد نے اس کو جاری و نافذ کیا اور سب نے اس پر بغیر کسی اختلاف و اعتراض کے عمل کیا۔

3.تیسری وجہ یہ ہے کہ ابتدا سے خلفاے راشدین کے تعامل کو ملت میں ایک مستقل شرعی حجت کی حیثیت دی گئی ہے۔ سعید ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو ایک اصولی چیز کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو ایک مستقل جگہ حاصل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو فقہ مالکی ہو یا فقہ حنفی، ہر ایک کے اندر خلفاے راشدین کے تعامل کو سنت ہی کی حیثیت سے جگہ دی گئی ہے۔

4. چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کی تکمیل اگرچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی ہے، لیکن امت کی اجتماعی زندگی میں اس کے مضمرات کا پورا پورا مظاہرہ حضرات خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوا۔ انھی کے مبارک دور میں اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کا قرآنی وعدہ پورا ہوا اور اسلامی شریعت کے بہت سے احکام کا انطباق زندگی کے معاملات میں عملاً متعین ہوا۔ اس پہلو سے خلفاے راشدین کا دور گویا عہد رسالت ہی کا ایک ضمیمہ ہے اور ہمارے لیے وہ پورا نظام ایک مثالی نظام ہے جو ان کے مبارک ہاتھوں سے قائم ہوا۔ پس اس دور میں جو نظائر قائم ہو چکے ہیں، وہ ہمارے لیے دینی حجت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے لیے ان سے انحراف جائز نہیں ہے۔ اس کلیہ سے اگر کوئی چیز مستثنیٰ ہو سکتی ہے تو صرف وہ چیز ہو سکتی ہے جو مجرد کسی وقتی مصلحت کے تحت انھوں نے اختیار فرمائی ہو۔ [ ماخوز امین احسن اصلاحی]

ایک سوال ہے کہ : "علیکم بسنتی وسنۃ الخلاء الراشدین من بعدی "۔۔۔۔۔۔۔کیا اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلفاء راشدین کے افعال بھی حجت ہیں؟ [فتاویٰ الامارات: ٧١]

بلا شبہ اگر خلفاء راشدین کا عمل ایک چیز پہ متفق ہو جاتا ہے اور سنت کے مخالف نہ ہو تو بلا شبہ ان کا یہ عمل حجت ہے لیکن بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث چاروں خلفاء میں سے کسی ایک کے قول کی حجیت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔تو آپ علیہ السلام کے فرمان "فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین ۔" پہلا معنی اگر کر لیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ خلفاء راشدین میں سے ایک اگر منفرد ہو جائے تو اس کی بات حجت ہوگی اور دوسرے معنیٰ سے یہ مراد ہے کہ چاروں خلفاء راشدین کا ایک رائے پر جمع ہونا حجت ہوگا اور صحیح بھی یہی معنیٰ ہے۔ نبی علیہ السلام نے اس حدیث میں جن الفاظ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔یہ اقتباس گویا کہ قرآن کریم سے اخذ کردہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا [٤:١١٥]

"جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا،مومنوں کے راستہ کے علاوہ کسی راستہ کی تابعداری کرے گا تو ہم اسے پھیر دیں گے جس طرف بھی وہ پھرتا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔"

"يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ" ان الفاظ پر اگر کوئی شخص اعتراض کرسکتا ہےکہ مؤمنین سے پہلے احد کو مقدر مانو کسی ایک مومن کی مخالفت ہوگی،اس آیت میں دوسرا مطلب یہ بھی بن سکتا ہے کہ جو تمام مومنوں کے راستہ کی مخالفت کرے گا اور اصل مقصود بھی یہ ہے۔اس لیے متقدمین میں سے امام شافعی رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت سے مسلمانوں کے اجماع کی حجیت کی دلیل ملتی ہے۔ [فتاویٰ البانیہ : 119-120]

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (قرآن 9:100)

وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے "احسن طریق" پر ان کی پیروی (اتباع ) کی ، اللہ ان سب سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ا للہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے(قرآن 9:100)

یعنی وہ مہاجرین و انصار جو ایمان لانے میں مقدم اور سابق (سسبقت) ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نما ز پڑھی ہو خواہ وہ ہوں جو جنگِ بدر سے پہلے مسلمان ہوئے ہوں تمام امت میں یہی لوگ سابق اور قدیم ہیں اس کے بعد خواہ وہ صحابہ (رض) ہوں یعنی غیرمہاجرین و انصار یا تابعین اور تبع تابعین ہوں یا ان کے بعد کے لوگ ہوں علی فرقِ مراتب سب ہی کم و بیش اس بشارت میں شریک ہیں اگرچہ مراتب اور درجات کی نوعیت میں فرق ہوگا۔ جنگِ بدرتک جو مسلمان ہوئے وہ قدیم ہیں اور باقی ان کے تابع (Kashf ur Rahman,by Ahmed Saeed Dehlvi) 

"السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ"  کا اتباع مشروط "احسان" 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ۔- ترجمہ :’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘(بخاری ، مسلم / بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان و وجوب الايمان، مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة)

"السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ"  میں خلفاء راشدین کا مقام بلند ہے اور ان کے اتباع کا پر اللہ راضی ہوتا ہے - یہ بھی حجت ہے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کی-

ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی کرنا در حقیقت دین اسلام ہی سے نکل جانا ہے، جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام (رض) ہیں جو دین اسلام کے سب سے پہلے پیرو کار اور اس کی تعلیم کا مکمل نمونہ تھے اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی اور گروہ مومنین کا موجود نہ تھا، جو یہاں مراد ہو سکے۔ اور خلفاء راشدین کا مقام صحابہ میں افضل ترین ہے لهذا ان کی سنت اہم ہے

اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء و فقہاء کا اتفاق، یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رض) کا اتفاق ہو، یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں۔ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام (رض) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے، یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے لیکن اجماع صحابہ کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت مسائل میں کیے گئے ہیں، لیکن ایسے اجماعی مسائل بہت کم ہیں جن میں فی الواقع امت کے تمام علماء و فقہاء میں اتفاق ہو، پھر ایسے مسائل پر سب علماء و فقہاء کے اتفاق کا پتا چلانا اور بھی مشکل ہے۔ پھر امت میں بہت سے فرقوں کے بن جانے نے یہ نتیجہ دکھایا ہے کہ ہر گروہ اپنی بات کو مضبوط بنانے کے لیے اجماع کا دعویٰ کردیتا ہے، خواہ وہ صریحاً قرآن و حدیث کے خلاف ہو-


اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کی پیروی دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجات پانے والے گروہ کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا : ( مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ ) ” یہ وہ لوگ ہیں جو اس راستے پر چلیں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔ “ [ ترمذی، الایمان، باب ما جاء فی افتراق۔۔ : ٢٦٤٠ ] اس لیے صحابہ کرام (رض) کے راستے سے ہٹنا بھی کفر اور گمراہی ہے


اسی حدیث "فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین" کی شرح میں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں :​

امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری السنی رحمہ اللہ نے فرمایا :

اور اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے افضل ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہیں،پھر عمر الفاروق ہیں،پھر ذوالنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں،پھر امیر المؤمنین اور امام المتقین علی بن ابی طالب ہیں،اللہ ان سب سے راضی ہو۔(صریح السنہ،ص ٢٤،فقرہ:٢٤)

اس کے متصل بعد ابن جریر سنی نے اپنی اس کتاب صریح السنہ میں خلفائے راشدین کے بارے میں سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ 

خلفائے راشدین کی سنت سے کیامراد ہے؟اس کے تین حصے ہیں:

اول : جس بات پر خلفائے راشدین کا اتفاق ہے یا کسی ایک خلیفہ راشد سے ثابت ہے اور دوسرے خلفاء سے اس کی مخالفت ثابت نہیں۔

دوم : جس بات پر خلفائے راشدین کا آپس میں اختلاف ہے۔

سوم : خلفائے راشدین میں سے کسی ایک خلیفہ سے ایک بات ثابت ہے،لیکن دوسرے صحابہ کرام کا اس سے اختلاف ہے۔حدیث مذکور میں صرف اول الذکر مراد ہے۔

یاد رہے کہ قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہر شخص کی بات مردود ہے چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو،لیکن ہر ایرے غیرے کو خلاف قرار دینے کا حق نہیں بلکہ اس کے لیے سلف صالحین کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔ [اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوٰۃ المصابیح،ص 222-223] (محدث فورم)

 

زیر مطالعہ روایت کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے چوتھی وصیت یہ فرمائی: وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ ’’اور دین میں نئی نئی باتیں نکالنے سے بچنا‘‘.بدعت کے موضوع اربعین نووی کی حدیث۵کے ضمن میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں‘لہٰذا یہاں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.بس یہ سمجھ لیجیے کہ ایک ہے قرآن اور سنت سے استنباط کر کے کوئی حکم نکالنا‘ اجتہاد کرنا‘ قیاس کرنا‘تو یہ سب جائز ہیں‘ لیکن اگر آپ نے دین میں بالکل نئی بات نکال لی جس کی تائید میںنہ قرآن سے کوئی دلیل ملی اور نہ سنت سے تو وہ بدعت ہے. خاص طور پر عبادات کے اندر ثواب کمانے کے لیے کیے جانے والے کام ‘جس کی سند ہمارے پاس نہ قرآن میں ہے ‘نہ حدیث میں‘ نہ خلفائے راشدین کے عمل میں اور نہ صحابہؓ کے عمل میں تو وہ بدعت شمار ہوں گے اور رسول اللہ ﷺ نے بدعت کے حوالے سے واضح فرمادیا کہ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ’’پس (دین میں) ہر نئی بات یقینا بدعت ہے‘‘. وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’’(اورجان لو کہ)ہر بدعت یقینی طور پر گمراہی ہے‘‘ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں: وَکُلَّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ ’’اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ آگ ہے!‘‘ یا ’’ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے!‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس حدیث کے مندرجات پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس حدیث میں موجود حضور اکرمﷺ کی وصیتوں کو اپنانے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی ہمت عطا فرمائے. (ڈاکٹر اسرار احمد )

 بدعت 

جب آنحضرت ا کے بعد انبیاء گذشتہ کی سنتوں اور طریقوں کو اختیار کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو بعد کے کسی انسان کی خود تراشیدہ خواہشات وبدعات کو اپنانے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر خود تراشیدہ رسوم وبدعات کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ضلالت وگمراہی فرمایا گیاہے-

 اکابر امت فرماتے ہیں کہ دین میں کسی نئی بدعت کی ایجاد در پردہ رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیمات) کی تنقیص ہے، کیونکہ بدعت کے ایجاد کرنے والا گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ایجاد کردہ بدعت کے بغیر دین نامکمل ہے اور یہ کہ نعوذ باﷲ !خدا ورسول ا کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، جہاں اس بدعت پرست کی پہنچی ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعت کے ایجاد کرنے کو دین اسلام کے منہدم کردینے سے تعبیر فرمایا، حدیث میں ہے: ’’مَنْ وَقَّرَ صاحبَ بدعۃٍ فقد أعان علی ہدم الإسلام‘‘۔           (مشکوٰۃ،ص:۳۱) ترجمہ:۔’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم وتوقیر کی، اس نے اسلام کے منہدم کرنے پر مدد کی‘‘۔

” ان الله یکره فوق سمائه ان یخطا ابوبکر۔” 

” اللہ تعالیٰ آسمان پر اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ ابوبکر سے خطا ہو۔” [ تاریخ الخلفاء میں یہ روایت طبرانی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔ ( 1/42)]

ایک روایت کے مطابق نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا :

” لو کان بعدی نبیا لکان عمر۔”  اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔”

( یہ حدیث مسند احمد ، ترمذی اور حاکم میں روایت ہوئی ہے۔ حاکم کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے لیکن ان کے تساہلِ حدیث سے حدیث کے طالب علم بخوبی واقف ہیں۔ ترمذی کے مطابق حسن غریب ہے ، البانی حسن قرار دیتے ہیں ، بعض نے حسن لذاتہ قرار دیا ہے اور بعض اہل علم نے اس حدیث کے بعض راویوں کو منکر اور سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی ضعیف حدیث ہے جس کے شواہد و متابعات موجود ہیں جس کی وجہ سے ترمذی کی اصطلاح کے مطابق یہ حدیث حسن غریب اور عام اصطلاح کے مطابق حسن لذاتہ کے درجے تک پہنچتی ہے۔ مناقب میں اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔)

گو یہ روایت استنادی اعتبار سے بعض کے نزدیک ضعیف ہے تاہم اسے فضائل و مناقب کے باب میں روایت کیا جاتا ہے۔ ایک صحیح روایت میں نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے :

” لقد کان فیمن كان قبلکم من بني اسرائيل رجال ، یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن من امتی منهم احد فعمر۔”

” تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن سے ( پردہ غیب سے ) کلام ہوا کرتا تھا ، اگرچہ وہ نبی نہیں تھے اگر میری امت ایسا کوئی ہوا تو وہ عمر  ہوں گے۔ ( صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی  صلی الله علیہ وسلم  ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ)

سیدنا حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور  صلی الله علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا اے(عمرؓ) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تم کو شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے کو اختیار کرلیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

ایک موقع پر حضور  صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔ (ترمذی)

ایک روز رحمت دو عالم  صلی الله علیہ وسلم  گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ  صلی الله علیہ وسلم  کے ہم راہ دائیں بائیں ابو بکر ؓ و عمرؓ بھی تھے۔ آپ  صلی الله علیہ وسلم  ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اسی حالت میں آپ  صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)

ایک اور موقع پر حضور  صلی الله علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور زمین والوں میں سے ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)

حضور  صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتدا کرنا۔ (مشکوٰۃ)

صحیحین کی روایت کے مطابق حضرت عمر کو تعین کے ساتھ اس امت کا محدث و ملہم قرار دیا گیا ہے اس لیے اس امت میں جتنے بھی مجتہدین ہیں خود ان پر اور ان کے اجتہادات پر ما سوائے ابوبکر کے ، حضرت عمر کو فوقیت حاصل ہے۔ خود صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعینِ عظام بھی اس درجہ بندی کو سمجھتے تھے  اور حضرت ابو بکر و حضرت عمر کے طرزِ عمل کو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے بعد ایک نظیر کے طور پر دیکھتے تھے۔ ایک بار حضرت عثمان غنی نے حضرت عمر سے مخاطب ہو کر فرمایا :

” اگر ہم آپ کی اتباع کریں تب بھی ہمارے لیے صحیح ہے اور اگر آپ کے پیش رو ( حضرت ابوبکر ) کی اتباع کریں تو زیادہ بہتر ہے۔”   (فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر : 169)

حضرت عمر کے اسلوب اجتہاد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اس مکتوب گرامی کی طرف رجوع کیا جائے ، جو انہوں نے بصرہ کے گورنر صحابی رسول ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا، اس خط میں لکھتے ہیں :

” الفهم الفهم فیما یختلج فی صدرک مما لم یبلغک فی الکتاب او السنة ، اعرف الامثال و الاشباه ثم قس الامور عند ذٰلک ، فاعمد الی احبها عند الله ، و اشبهها بالحق فی ما تریَ”

” جن معاملات میں تم تک کتاب و سنت سے کوئی ہدایت نہیں پہنچی اور وہ تمہارے سینے میں کھٹکتے ہیں تو ان کو اچھی طرح سمجھو ، امثال و اشباہ ( ملتے جلتے مسائل ) سے واقفیت حاصل کرو پھر جو امور درپیش ہیں انہیں ان پر قیاس کرو اور جو تمہارے نزدیک اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہو اور تمہیں حق سے قریب تر نظر آئے اسے اختیار کر لو۔”

(سنن الدارقطنی، کتاب الاقضیة و الاحکام ، کتاب عمر رضی الله عنه الی ابی موسیٰ الاشعری۔ گو یہ روایت اسناداً ضعیف ہے مگر اس کے متابعات مل جاتے ہیں۔)

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں : ” شاہ صاحب (شاہ ولی اللہ ) نے جن لوگوں کا نام لیا، ان میں عبد اللہ بن عباس کی عمر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم  کی وفات کے وقت 13 برس کی تھی۔ حضرت علی کا سِن  جناب رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  کی بعثت کے وقت دس گیارہ برس سے زیادہ نہ تھا۔ زید بن ثابت کا سِن آنحضرت کی ہجرت کے وقت 11 برس کا تھا۔ حضرت عائشہ آنحضرت  صلی الله علیہ وسلم  کی وفات کے وقت کل 18 برس کی تھیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گو یہ سب بزرگ اس علم کے ترقی دینے والے ہوں گے۔ لیکن اولیت کا منصب حضرت عمر ہی کو حاصل ہوگا۔”   (الفاروق ، حصہ دوم : 210)

حضرت عمر کے مجتہدانہ ذوق کی اہمیت تو اسی وقت واضح ہو گئی تھی جب رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  کی موجودگی میں حضرت عمر اپنی رائے دیتے تھے اور اللہ رب العزت اسی رائے کے مطابق وحی  کا نزول فرماتا۔ اسی سے حضرت عمر کے مقام اجتہاد کی رفعت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : 

” واقفت ربی فی ثلاث : فی مقام ابراهیم، و فی الحجاب و فی اساری بدر۔” 

” میں اپنے رب کے ساتھ تین باتوں میں موافق ہوا۔ ایک مقام ابراہیم ( میں نماز کی جگہ مقرر کرنے سے متعلق ) ، دوسرا ( عورتوں کے ) حجاب ( سے متعلق ) اور تیسرا اسیران بدر ( سے متعلق )۔” (صحیح مسلم ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب فضائل عمر بن الخطاب رضي الله عنه)

اس پر چوتھے کا اضافہ کر لیجیے کہ منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھنے سے متعلق بھی حضرت عمر کی رائے کے مطابق ہی وحی الٰہی کا نزول ہوا۔

اذان کی ابتداء: نماز کے لیے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے اذان کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے ہی قائم ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں : ” مسلمان جب مدینہ میں آئے تو وقت کا اندازہ کرکے جمع ہوکر نماز پڑ ھ لیا کرتے تھے اور کوئی شخص اس پر ندا نہیں کرتا تھا۔ ایک دن لوگ اس پر بات کرنے لگے۔ بعض نے کہا کہ عیسائیوں کی طرح ناقوس بجا لیا کریں اور بعض نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا بجا لیا کریں تو سیدنا عمر نے کہا کیوں نہ ہم لوگ کوئی آدمی مقرر کر دیں جو لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کر دیا کرے ؟ اس پر رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  نے کہا کہ اے بلال ! اٹھو اور نماز کے لیے اعلان کرو۔  (صحیح مسلم ، کتاب الصلوٰة ، باب بدء الاذان)

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ وَ مَنۡ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ﴿ؕ۸۰﴾

"اس رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ۔"

ظاہر وباطن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطیع بنا لو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تابعدار صحیح معنی میں میرا ہی اطاعت گزار ہے آپ کا نافرمان میرا نافرمان ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری ماننے والا اللہ تعالیٰ کی ماننے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی بات نہ مانی جس نے امیر کی اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی یہ حدیث بخاری و مسلم میں ثابت ہے ، پھر فرماتا ہے جو بھی منہ موڑ کر بیٹھ جائے تو اس کا گناہ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نہیں آپ کا ذمہ تو طرف پہنچا دینا ہے ، جو نیک نصیب ہوں گے مان لیں گے نجات اور اجر حاصل کرلیں گے ہاں ان کی نیکیوں کا ثواب آپ کو بھی ہو گا کیونکہ دراصل اس راہ کا راہبر اس نیکی کے معلم آپ ہی ہیں ۔ اور جو نہ مانے نہ عمل کرے تو نقصان اٹھائے گا بدنصیب ہو گا اپنے بوجھ سے آپ مرے گا اس کا گناہ آپ پر نہیں اس لئے کہ آپ نے سمجھانے بجھانے اور راہ حق دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ حدیث میں ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنے ولا رشد وہدایت والا ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نافرمان اپنے ہی نفس کو ضرور نقصان پہنچانے والا ہے -

عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]

یہ بات قابل  غور ہے کہ ایک طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی احدیث کی کتابت  ہیں کہ یہ بہت اہم ہیں ، وحی ہے اور دوسری طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے خاص قریبی ساتھی جن کی سنت پر عمل کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم  حکم بھی دے رہے ہیں ان چاروں کے فیصلہ کا انکار کرکہ کتابت حدیث کی …جو کہ خلفاء راشدین بھی تھے، امیر المومنین بھی  .. یہ اللہ ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی صریح نافرمانی ہے- 

اگراحادیث تین سو سال بعد مدون ہویں مگر ہمشہ سے لکھی جا رہی تھیں اور زبانی بھی حفظ تھیں-خلفاء راشدین کے حکم کی جس نے حکم عدولی کی اس نے اللہ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی حکم  کا انکار کیا ، وہ جو کوئی بھی ہو ..

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٤:٥٩﴾

اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے (4:59)

یہ آیت مکمل طور پرتین طریقہ سے  احادیث کی کتابت کرنے لکھنے والوں پر لاگو ہوتا ہے- فتوی بازی کی ضرورت نہیں ان کا معامله اللہ کے سپرد -  

مہشور  فقہ کے بانی ابوحنیفہ نعمان بن ثابت جو  بہت مقبول  ہیں انہوں  نے  کوئی حدیث کی کتاب نہیں لکھی، وہ پہلی صدی حجرہ میں پیدا ہوے جب حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدہ کے فیصلوں کا احترام  کیا جاتا تھا-  ظاہرہے انہوں قرآن سنت اور احادیث سے استفادہ کیا ہوگا-  

صحابہ اکرام حکم عدولی نہیں کر سکتے - کسی کی اپنی  کوتاہی سے بچنے کے لیے دوسروں پر الزام تراشی کرنا عام وطیرہ ہے-  پہلی صدی میں جب تک صحابہ زندہ رہے احادیث کی کتب لکھنے کا کوئی خاص ثبوت نہیں ملتا .. اب  کوئی جرمنی یا یورپ سے نسخے نکا لے تو ہم یقین کر لیتے ہیں کہ یہ ہمارے نفس کی خواہش اور غلط اقدام کو جواز مہیا کر سکے - کافروں کو ہم سے کیا ہمدردی ہے وہ کل کلاں قرآن کا بھی نسخہ نکال کر کہیں کہ دیکھو یہ مختلف قرآن ہے تو ہم یقین کر لیں گے؟   بحث لا حاصل ہے ، جب قرآن ،  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی اتھارٹی سے خلفاء راشدین نے   احادیث کی کتابت سے  منع کر دیا تو تاویلوں کی گنجائش نہیں-

خلیفہ عمر بن خطاب قرآن مجید کے محافظ و سرپرست اور حدیث لکھنے پر پابندی کی پالیسی کا کردار (ترجمہ ) .....


فرقہ واریت 

"جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے"ا۔(قرآن 6:159)

حدیث اور فرقہ واریت 

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حج الوداع میں فرمایا : 

1.قرآن:

 وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ ‏ 

"میں نےتمہارے پاس اللہ کی کتاب چھوڑی ہے، اور اگر تم اس پر قائم رہو گے تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے" [صحیح مسلم 1218 , ابن ماجہ 25/84 , ابو داوود  11/56] 

2.قرآن اور سنت 

ایک دوسری حدیث میں قرآن  سنت کا ذکر ہے :

"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ"۔(مشکوٰۃ شریف:29)

” :میں تمہارے درمیان میں دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “

3.تیسری حدیث میں قرآن اور اہل بیت کا ذکر ہے 

قرآن  اوراہل بیت

عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُم مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهٖ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ : کِتَابُ ﷲِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِّنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي : أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِيْهِمَا.[ رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.]

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اﷲتعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘ [ رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَا أَيُّهَاالنَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا : کِتَابُ ﷲِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي. [رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِیُّ]

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔‘‘  [رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِیُّ]

تجزیہ :

تینوں احادیث میں "قرآن" کا تذکرہ  شامل ہے، مگر فرقے اپنی  پسندیدہ حدیث کو قبول کرکہ دوسری احادیث پر اعتراضات لگا کر  مسترد کرتے ہیں. 

قابل  غور بات ہے کہ حج الوداع آخری خطبہ ہزاروں صحابہ  نے توجہ سےسنا مگر ایک اہم ترین حکم پراختلاف،  تین مختلف احادیث سے بخوبی  اندازہ لگایا جا سکتا  ہے کہ: 

1. قرآن نے احادیث کاانکار کیوں کیا؟

2. رسول اللهﷺ نے احادیث  لکھنے سےکیوں منع فرمایا ؟

3. خلفاء راشدین  نے احادیث کواکٹھا کرکہ کتابت کابندوبست کیوں نہ  کیا بلکہ اس کو منع فرمایا ؟

4.اور ایک صدی تک اس  فیصلہ پرعمل ہوا جب صحابہ اکرام بھی دنیا  سے چلے  گے  تو  الله تعالی رسول اللهﷺ خلفاء راشدین اورصحابہ اکرام کے احکام کو مسترد کرکہ اسلام  کو مسخ کرنے ابتدا ہوئی جو اب تک جاری ہے قرآن کو چھوڑدیا

خلفائے راشدین کا احادیث کی کتابت نہ رنے کا فیصلہ , حکم ,  قرآن  اورسنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق تھا ، جس پر پہلی صدی ہجری کے اختتام تک سختی سے  عملدرآمد ہوتا رہا- جب تمام صحابہ اکرام وفات چکے توخلفاء راشدین  , قرآن ، اور سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ، احادیث کی مشہور کتابیں تیسری صدی میں مرتب کی گئیں ، تاریخی اہمیت کےعلاوہ لہذا ان کی شرعی , قانونی حیثیت پرسوالیہ نشان ہے۔  


ریفرنس

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

~~~~~~~~~

🌹🌹🌹
 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

پوسٹ لسٹ