رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

مقصد حیات: کامیاب اور ناکام کون؟

  1. ہم اس دنیا میں کیوں ہیں؟
  2. ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟
  3. کامیاب انسان کون ہے؟
  4. الله تعالی ہم سے کیا چاہتا ہے؟
  5. حقوق العباد - الله تعالی کی رحمت، انصاف آور بخشش
  6. قرآن کی تعلیمات کا خلاصہ کیا ہے؟
  7. نجات اور بخشش کے لیے کیا اہم ترین ہے؟

انسان کے ذہن میں اکثر یہ سوالات اٹھتے ہیں- الله تعالی نے ان اہم ترین سوالات کا جواب قرآن میں مکمل تفصیل سے دیا اور مزید ہماری آسانی کے لیےان کا خلاصہ صرف تین آیات میں دے دیا کہ دنیا و آخرت میں کامیابی اور خسارہ (ناکامی) کی بنیاد, کون سے اہم ستونوں پر کھڑی ہے:

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالۡعَصۡرِۙ ۞ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِىۡ خُسۡرٍۙ ۞ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ۞

(ترجمہ) زمانے کی قسم ۞ انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے ۞ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۞ رآن,سورة العصر: 103)

بخشش یعنی جہنم کی آگ سے صرف وہی لوگ نجات پا سکتے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں:

(1) ایمان
(2) عمل صالح
(3) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا
(4) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔
اس سورة میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے (جہنم کی آگ ) میں ہے، اور اس خسارے (جہنم کی آگ ) سے صرف وہی لوگ نجات یافتہ ہیں جن کے اندر مندرجہ بلا چار صفتیں پائی جاتی ہیں-
ان چارستونوں کے بغیر کامیابی کی کنجی یا وعدے صرف مغالطے اور غلط فہمی ہیں- کمی بیشی پر توبہ و استغفار کے دروازے اللہ نے کھلے رکھے ہیں، لیکن انسان کو کوشش کرنا ضروری ہے-  
اب جہنم کی آگ سے نجات کے لیے چار اہم باتوں کے ایک ایک جزو کو الگ لے کر اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشاد کا پورا مطلب واضح ہوجائے۔
ان چار صفات سے خالی ہو کر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر کو صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں۔
نفع میں صرف وہ لوگ (نجات یافتہ ، جنتی) ہیں جو ان چاروں صفات سے متصف ہو کر دنیا میں کام کریں۔
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم اس طالب علم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں گزار رہا ہو، کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کے کہیں کہ یہ گزرتا ہوا وقت بتارہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کررہا ہے۔
انسان کا لفظ اگرچہ واح ہے، لیکن بعد کے فقرے میں اس سے ان لوگوں کو مستثنی کیا گیا ہے جو چار صفات سے متصف ہوں، اس لیے لا محالہ یہ مانا پڑے گا کہ یہاں لفظ انسان اسم جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق افراد، گروہوں، اقوام، اور پوری نوع انسانی پر یکساں ہوتا ہے۔ پس یہ حکم کہ مذکورہ چار صفات سے جو بھی خالی ہو وہ خسارے میں ہے، ہر حالت میں ثابت ہوگا، خواہ ان سے خالی کوئی شخص ہو، یا کوئی قوم، یا دنیا بھر کے انسان۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم اگر یہ حکم لگائیں کہ زہر انسان کے لیے مہلک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زہر بہرحال مہلک ہے خواہ ایک فرد اس کو کھائے، یا ایک پوری قوم، یا ساری دنیا کے انسان مل کر اسے کھا جائیں۔ زہر کی مہلک خاصیت اپنی جگہ اٹل ہے، اس میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص نے اس کو کھایا ہے، یا ایک قوم نے اسے کھانے کا فیصلہ کیا ہے، یا دنیا بھر کے انسانوں کا اجماع اس پر ہوگیا ہے کہ زہر کھانا چاہیے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ چار مذکورہ بالا صفات سے خالی ہونا انسان کے لیے خسارے کا موجب ہے۔ اس قاعدہ کلیہ میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ایک شخص ان سے خالی ہو، یا کسی قوم نے، یا دنیا بھر کے انسانوں نے کفر، بد عملی، اور ایک دوسرے کو باطل کی ترغیب دینے اور بندگی نفس کی تلقین کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اب یہ دیکھیے کہ خسارے کا لفظ قرآن مجید کس معنی میں استعمال کرتا ہے۔ لغت کے اعتبار سے خسارہ نفع کی ضد ہے، اور تجارت میں اس لفظ کا استعمال اس حالت میں بھی ہوتا ہے جب کسی ایک سودے میں گھاٹا آئے اور اس حالت میں بھی جب سارا کاروبار گھاٹے میں جارہا ہو، اور اس حالت میں بھی جب اپنا سارا سرمایہ کھو کر آدمی دیوالیہ ہوجائے۔ قرآن مجید اسی لفظ کو اپنی خاص اصطلاح بنا کر فلاح کے مقابلے میں استعمال کرتا ہے، اور جس طرح اس کا تصور فلاح محض دنیوی خوشحالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی کامیابی پر حاوی ہے، اسی طرح اس کا تصور خسران بھی محض دنیوی ناکامی یا خستہ حالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی ناکامی و نامرادی پر حاوی ہے۔ فلاح اور خسران دونوں کے قرآنی تصور کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر کرچکے ہیں اس لیے ان کے اعادے کی حاجت نہیں ہے :
"ن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گےاور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے(7:8)
اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ انسان کا کارنامہ زندگی دو پہلووں میں تقسیم ہوگا۔ ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو۔ مثبت پہلو میں صرف حق کو جاننا اور ماننا اور حق کی پیروی میں حق ہی کی خاطر کام کرنا شمار ہو گا اورآخرت میں اگر کوئی چیز وزنی اور قیمتی ہوگی تو وہ بس یہی ہوگی۔ بخلاف اس کے حق سے غافل ہو کر یا حق سے منحرف ہو کر انسان جو کچھ بھی اپنی خواہشِ نفس یا دوسرے انسانوں اور شیطانوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر حق کی راہ میں کرتا ہے وہ سب منفی پہلو میں جگہ پائے گا اور صرف یہی نہیں کہ یہ منفی پہلو بجائے خود بے قدر ہو گا یہ آدمی کے مثبت پہلووں کی قدر بھی گھٹا دے گا۔
زوال پذیرمعاشرہ میں ہمارا کردار: https://bit.ly/Zowal پس آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ اس کے کارنامہ زندگی کا مثبت پہلو اس کےمنفی پہلو پر غالب ہو اور نقصانات میں بہت کچھ دے دلا کر بھی اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے۔ رہا وہ شخص جس کی زندگی کا منفی پہلو اُس کے تمام مثبت پہلووں کو دبالے تو اُس کاحال بالکل اُس دیوالیہ تاجر کا سا ہوگا جس کی ساری پونجی خساروں کا بھگتان بھگتنے اور مطالبات ادا کرنے ہی میں کھپ جائے اور پھر بھی کچھ نہ کچھ مطالبات اس کے ذمہ باقی رہ جائیں۔ ( تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف حاشیہ 9 ) (الانفال حاشیہ 30, یونس حاشیہ 23)
ہم اِس قرآن کے سلسلہٴ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کےلیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا (17:82)
یعنی جو لوگ اس قرآن کو اپنا رہنما اور اپنے لیے کتاب آئین مان لیں ان کے لیے تو یہ خدا کی رحمت اور ان کے تمامذہنی، نفسانی، اخلاقی اور تمدنی امراض کا علاج ہے۔ مگر جو ظالم اسے رد کر کے اور اس کی رہنمائی سے منہ موڑ کر اپنے اوپر آپ ظلم کریں ان کو یہ قرآن اُس حالت پر بھی نہیں رہنے دیتا جس پر وہ اس کے نزول سے، یا اس کے جاننے سے پہلے تھے،بلکہ یہ انہیں اُلٹا اس سے زیادہ خسارے میں ڈال دیتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قرآن آیا نہ تھا، یا جب تک وہ اس سے واقف نہ ہوئے تھے، ان کا خسارہ محض جہالت کا خسارہ تھا۔ مگر جب قرآن ان کے سامنے آگیا او ر اس نے حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا تو ان پر خدا کی حجت تمام ہوگئی۔ اب اگر وہ اسے رد کر کے گمراہی پر اصرار کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جاہل نہیں بلکہ ظالم اور باطل پرست اور حق سے نفور ہیں۔ اب ان کی حیثیت وہ ہے جو زہر اور تریاق، دونوں کو دیکھ کر زہر انتخاب کرنے والے کی ہوتی ہے۔ اب اپنی گمراہی کے وہ پورے ذمہ دار، اور ہر گناہ جو اس کے بعد وہ کریں اس کی پوری سزا کے مستحق ہیں۔ یہ خسارہ جہالت کا نہیں بلکہ شرارت کا خسارہ ہے جسے جہالت کے خسارے سے بڑھ کر ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت مختصر سے بلیغ جملے میں بیان فرمائی ہے کہ القراٰن حجة لک او علیک یعنی قرآن یا تو تیرے حق میں حجت ہے یا پھر تیرے خلاف حجت۔ (بنی اسرائیل حاشیہ 102 ) ( جلد سوم، الحج حاشیہ 17, المومنون حواشی، 1۔ 2۔ 11۔ 50۔ جلد چہارم، لقمان حاشیہ 4۔ الزمر حاشیہ 34)
اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ قرآن کہ نزدیک حقیقی فلاح آخرت میں انسان کی کامیابی، اور حقیقی خسارہ وہاں اس کی ناکامی ہے، لیکن اس دنیا میں بھی جس چیز کا نام لوگوں نے فلاح رکھ چھوڑا ہے وہ دراصل فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا انجام خود اسی دنیا میں خسارہ ہے، اور جس چیز کو لوگ خسارہ سمجھتے ہیں وہ دراصل خسارہ نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہی فلاح کا ذریعہ ہے۔ اس حقیقیت کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور ہر جگہ ہم نے اس کی تشریح کردی ہے
(ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل حاشیہ 99۔ جلد سوم، مریم حاشیہ 53۔ طہ حاشیہ 105۔ جلد ششم، اللیل، حواشی 3۔ 5)
پس جب قرآن پورے زور اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہے کہ " درحقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے " تو اس کا مطلب دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے، اور جب وہ کہتا ہے کہ اس خسارے سے صرف وہ لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر حسب ذیل چار صفات پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب دونوں جہانوں میں خسارے سے بچنا اور فلاح پانا ہے۔
اب ہمیں ان چاروں صفات کو دیکھنا چاہیے جن کے پائے جانے پر اس سورة کی رو سے انسان کا خسارے سے محفوظ رہنا موقوف ہے۔
ان میں پہلی صفت ایمان ہے:
یہ لفظ اگرچہ بعض مقامات پر قرآن مجید میں محض زبانی اقرار ایمان کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ (مثلا النساء، آیت 137۔ المائدہ، آیت 54۔ الانفال، آیت 20۔ 27۔ التوبہ آیت 38۔ الصف آیت 2 میں) لیکن اس کا اصل استعمال سچے دل سے ماننے اور یقین کرنے کے معنی ہی میں کیا گیا ہے، اور عربی زبان میں بھی اس لفظ کے یہی معنی ہیں۔ لغت میں امن لہ کے معنی ہیں صدقہ واعتمد علیہ (اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا) اور امن بہ کے معنی ہیں ایقن بہ (اس پر یقین کیا) قرآن دراصل جس ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیتا ہے، اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا (الحجرات۔ 15)
" مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے "۔
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا (حم السجدہ۔ فصلت۔ آیت 30)
" جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے "۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ (الانفال 2)
جائے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں "۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ (البقرہ، 165)
" اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں "۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا (النساء، 65)
" پس نہیں (اے نبی) تمہارے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔
ان میں بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرار ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ
اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ (النساء، آیت 136)
" اے لوگ جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر "۔
اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے، تو قرآن مجید میں پوری طرح اس بات کو بھی کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ اس سے مراد:
(1) اللہ کو ماننا ہے۔ محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے ماننا ہے کہ:
  1. وہی ایک اللہ ہے
  2. خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے
  3. وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت، بندگی اور اطاعت بجا لائے۔
  4. وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے
  5. بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔
  6. وہی حکم دینے اور منع کرنے والا ہے۔
  7. بندے کا فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک جائے۔
  8. وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے،
  9. اس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار، وہ مقصد اور نیت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے کوئی فعل کیا ہے۔
(2) رسول کو ماننا
اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مامور کیا ہوا ھادی اور رہنما ہے،
اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے برحق ہے، اور واجب التسلیم ہے۔
اسی ایمان بالرسالت میں ملائکہ, انبیاء اور کتب الہیہ پر، اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے، کیونکہ یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں۔ آخرت کو ماننا، اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے، بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ہے، اپنے ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی اس زندگی میں کیے ہیں، خدا کو حساب دینا ہے، اور اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزاء، اور جو بد قرار پائیں ان کو سزا ملنی ہے۔
یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہوسکتی ہے۔ ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو، اس کا حال ایک بےلنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا۔
ایمان کے بعد دوسری صفت جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ صالحات (نیک کاموں) پر عمل کرنا ہے۔
صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے جس سے نیکی اور بھلائی کو کوئی قسم چھوٹی نہیں رہ جاتی۔ لیکن قرآن کی رو سے کوئی عمل بھی اس وقت تک عمل صالح نہیں ہوسکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان موجود نہ ہو، اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہر جگہ عمل صالح سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سورة میں بھی اس کا ذکر ایمان کے بعد ہی آیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی قرآن میں ایمان کے بغیر کسی عمل کو صالح نہیں کہا گیا ہے اور نہ عمل بلا ایمان پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعوی ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کردیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے۔ جب تک بیج زمین میں نہ ہو، کوئی درخت پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہورہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا۔ اسی بنا پر قرآن پاک میں جتنی بشارتیں بھی دی گئی ہیں انہی لوگوں کو دی گئی ہیں جو ایمان لاکر عمل صالح کریں، اور یہی بات اس سورة میں بھی کہی گئی ہے کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے جو دوسری صفت ضروری ہے وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل کرنا ہے۔ بالفاظ دیگر عمل صالح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا۔
"جس نے موت اور زندگی کوپیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی (67:2)
مذکورہ بالا دو صفتیں تو وہ ہیں جو ایک ایک فرد میں ہونی چاہیں۔ اس کے بعد یہ سورة دو مزید صفتیں بیان کرتی ہے جو خسارے سے بچنے کے لیے ضروری ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ:

3۔، 4۔ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کریں۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں رہنا چاہیے بلکہ ان کے اجتماع سے ایک مومن و صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے۔ دوسرے اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی یہ ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کو بگڑنے نہ دے، اس لیے اس کے تمام افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔
حق کا لفظ باطل کی ضد ہے اور بالعموم یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک صحیح اور سچی اور مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات، خواہ وہ عقیدہ ایمان سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا کے معاملات سے۔ دوسرے وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو، خواہ وہ خدا کا حق ہو یا بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا حق۔ پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کا یہ معاشرہ ایسا بےحس نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام کیے جارہے ہوں، مگر لوگ خاموشی کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتے رہیں، بلکہ اس معاشرے میں یہ روح جاری وساری رہے کہ جب اور جہاں بھی باطل سر اٹھائے کلمہ حق کہنے والے اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں، اور معاشرے کا ہر فرد صرف خود ہی حق پرستی اور راستبازی اور عدل و انصاف پر قائم رہنے اور حق داروں کے حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی نصیحت کرے۔ یہ وہ چیز ہے جو معاشرے کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچانے کی ضامن ہے۔ اگر یہ روح کسی معاشرے میں موجود نہ رہے تو وہ خسران سے نہیں بچ سکتا اور اس خسران میں وہ لوگ بھی آخر کار مبتلا ہو کر رہتے ہیں جو اپنی جگہ حق پر قائم ہوں مگر اپنے معاشرے میں حق کو پامال ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں۔ یہی بات ہے جو سورة مائدہ میں فرمائی گئی ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی کہ ان کے معاشرے میں گناہوں اور زیادتیوں کا ارتکاب عام ہو رہا تھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا (آیات، 78۔ 79) پھر اسی بات کو سورة اعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب کھلم کھلا سبت کے احکام کی خلاف ورزی کر کے مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں تو ان پر عذاب نازل کردیا گیا اور اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچائے گئے جو اس گناہ سے روکنے کی کوشش کرتے تھے (آیات، 163 تا 166) اور
اسی بات کو سورة انفال میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ؛
بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو (آیت 25)
اسی لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت مسلمہ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے (آل عمران۔ 104)
اور اس امت کو بہترین امت کہا گیا ہے جو یہ فریضہ انجام دے (آل عمران 110)
حق کی نصیحت کے ساتھ دوسری چیز جو اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے بچانے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاشرہ کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔
یعنی حق کی پیروی اور اس کی حمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، اور اس راہ میں جن تکالیف سے، جن مشقتوں سے، جن مصائب سے اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہیں۔ ان کا ہر فرد دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے کہ وہ ان حالات کو صبر کے ساتھ برداشت کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد ششم، الدھر، حاشیہ 16۔ البلد حاشیہ 14) (ماخوز تفہیم القرآن)
خلاصہ کلام:۔۔۔۔۔۔ کہ ایک موحد جو صحیح طور پر توحید پر مستقیم ہے وہ اگر صالح ہوتوبغیر کسی سزاوعذاب کے بھگتنے کے اوراگرگنہگارتوبالآخر مقررہ مدت کے عذاب بھگتنے کے بعد  جنت میں داخل ہوگا- دونوں صورتوں میں الله کا فضل اور کرم شامل ہو گا تو-
لیکن یہ بات ہرسچے مومن کو ذہن میں رکھنی چاہیئےکہ جہنم کی آگ کی حرارت وتپش اس دنیا وی  آگ سے کئی گنا زیادہ ہے ارشادربانی ہے:
‘‘یعنی آپ کہہ دیں کہ جہنم کی آگ سخت گرم ہے۔’’
اس کی تشریح صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ تمہاری یہ دنیا والی آگ جہنم کی آگ کا ستروں حصہ ہے۔ صحيحبخاري:كتاب بدءالخلق’باب صفة الناروانهامخلوقة’رقم الحديث٢٣٦٥.
یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے اونہتر درجے زیادہ گرم ہے پھر جب اس دنیا کی آگ میں آدمی ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتا توپھر اس آگ میں جواونہترمرتبہ زیادہ گرم ہے کس طرح رہ سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے سبب اس میں داخل ہوگا اگرچہ اس میں رہنے کی مدت کتنی کم کیوں نہ ہو؟
اس لیے نفس کو دھوکے میں رہنے نہ دیا جائے بلکہ اس زندگی میں اللہ سبحانہ وتعالی کی بارگاہ میں اپنے گناہوں پر پشیمان ہوکر پکی وسچی توبہ کرکے اعمال صالحہ کے ذریعےاپنی اصلاح کی جائے تاکہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے فضل وکرم سے اسے نواز دے اوراپنی مغفرت میں اسے داخل کردے اوربغیر کسی عذاب کے اسے جنت میں داخل کردے۔ 
 ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ’’(اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘(سورۃ الذاریات (آیت: 56) 
بندگی و اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے، خواہ اس کی علت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، بے چُوں چرا سر جھکا دینے کا نام عبادت ہے۔ امام رازی ؒ نے ’’ تفسیر کبیر ‘‘ میں فرمایا ہے: ’’ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں۔ ایک امرالٰہی کی تعظیم ، دوسرے خلق اللہ پر شفقت، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ۔‘‘(#)
لِیَعْبُدُوْنِ-  عبادت، بندگی کا لفظ اس آیت میں محض نماز روزے اور اسی نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کا مطلب یہ لے لے کہ جن اور انسان صرف نماز پڑھنے اور روزے رکھنے اور تسبیح و تہلیل کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ مفہوم بھی اگر چہ اس میں شامل ہے، مگر یہ اس کا پورا مفہوم نہیں ہے۔ اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جن اور انسان اللہ سوا کسی اور کی پرستش،اطاعت، فرمانبرداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں۔ ان کا کام کسی اور کے سامنے جھکنا، کسی اور کے احکام بجا لانا، کسی اور سے تقویٰ کرنا، کسی اور کے بنائے ہوئے دین کی پیروی کرنا، کسی اور کو اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھنا، اور کسی دوسری ہوتی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلانا نہیں ہے۔ ( تفہیم القرآن)(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 63۔ الزمر، حاشیہ 2۔ الجاثیہ، حاشیہ 30)
مزید تفصیل :
زوال پذیرمعاشرہ میں ہمارا کردارhttps://bit.ly/Zowal
ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے رہن ہے (كُلُّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِینَةٌ) 
Every soul is held in pledge  for its deeds
شفاعت اور شریعت: https://bit.ly/Shfaat
لاالہ الا اللہ پر جنت؟ بخشش ، مغالطے: https://bit.ly/KalmahPerJannat
مقصد حیات: کامیاب اور ناکام کون؟ https://bit.ly/DunyaKaMaqsid
***********
شفاعت
شفاعت کا مسئلہ بہت اہم ہے ، جس کو گمراہ کن ظرئقہ سے اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ عام مسلمان کو یہ تاثر ملتا ہے کہ بس تم نے کلمہ پڑھ لیا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تم کو لازم ملے گی ۔۔۔ مزے ہہی مزے ۔۔۔ ملے گی، مگر شفاعت کب ملے گی اذن اللہ سے؟ جب جہنم میں سزا بھگت رہے ہو گے،  (ایک دن اگر 50000 سال)
سمجھتے ہیں جو مرضی کرو، کرپشن، زخیرہ اندوزی، ناجائئز منافع خوری، دوسروں کا حق مارنا ، رشوت خوری، زنا ، قتل، بے حیائی، ناانصافی، ظلم ۔۔۔۔ پھر جنت بھی مل جائیے گی، تو جہنم کس لیئے؟
یہ نظریہ قرآن کے برخلاف ہے اور سنت و آحادئث کے بھی خلاف ہے۔ 
شفاعت اللہ کے حکم اور اس کے اِذْن سے ہوگی
آیت الکرسی؛ 
 مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ
کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بغیر اس کے حکم کے (2:255)
 نیز
 يومئذ لا تنفع الشفاعة إلا من أذن له الرحمن ورضي له قولا (سورۃ طہ: ١٠٩) 
کسی مشرک کو شفاعت نصیب نہ ہوگی
 اس لئے ہر آدمی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ شرک و بدعت کو سمجھے، اور اس بات کی پوری کوشش کرے کہ وہ ان سب سے دور رہے، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے بچائے، تاکہ رسول اکرم  ﷺ  کی شفاعت کا مستحق ہو۔
لعنت کرنے کی ممانعت اور شفاعت
ابوبکر بن ابی شیبہ، معاویہ بن ہشام ہشام بن سعد زید بن اسلم ابی حازم ام دردا حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ بہت زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن گواہی دینے والے نہیں ہوں گے اور نہ ہی شفاعت کرنے والے ہوں گے۔(صحیح مسلم،  حدیث نمبر: 6612)
لوگ ایک دو احادیث بیان کرکہ لوگوں کو خوش کرتے ہیں وہ دھوکہ باز گمراہ کرتے ہیں ۔  کسی موضوع پر ساری احادیث اور قرآن کئ آیات پڑھیں اور پھر اس سے conclusion نکالیں ۔۔۔ جو قرآن وسنت  کے خلاف ہو وہ نظر یہ درست کیسے ہو سکتا ہے۔۔ درج زیل حدیث ہے ملاحظہ کریں، حساب ، کتاب ، کے بعد گناہگار مسلمان جہنم میں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اللہ کی مرضی ، اذن سے مشروط ہے، اور سزا کے بعد ( نہ معلوم کتنا عرصہ، ایک دن اگر 50000 سال کے برابر ) شفاعت کی اجازت پر ۔۔۔ جہنم سے چھٹکارا ۔۔۔ 
صحیح مسلم
شفاعت کے ثبوت اور موحدوں کو دوزخ سے نکالنے کے بیان میں
حدیث نمبر: 459
حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا فَإِنَّهُمْ لَا يَمُوتُونَ فِيهَا وَلَا يَحْيَوْنَ وَلَکِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمْ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ أَوْ قَالَ بِخَطَايَاهُمْ فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً حَتَّی إِذَا کَانُوا فَحْمًا أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ فَجِيئَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ فَبُثُّوا عَلَی أَنْهَارِ الْجَنَّةِ ثُمَّ قِيلَ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَکُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ کَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ کَانَ بِالْبَادِيَةِ
ترجمہ:
نصر بن علی جہضمی، بشر ابن مفضل، ابومسلمہ، ابونضرہ ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو دوزخ والے ہیں (کافر) وہ اس میں نہ تو مریں گے اور نہ زندہ رہیں گے لیکن کچھ لوگ جو اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے آگ انہیں جلا کر کوئلہ بنادے گی اس کے بعد شفاعت کی اجازت دی جائے گی تو یہ لوگ گروہ در گروہ لائے جائیں گے پھر انہیں جنت کی نہروں میں ڈالا جائے گا
 پھر جنت والوں سے کہا جائے گا کہ اے جنت والو ان پر پانی ڈالو جس سے وہ تر تازہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے جس طرح پانی کے بہاؤ سے آنے والی مٹی میں سے دانہ سرسبز و شاداب ہو کر نکل آتا ہے یہ سن کر صحابہ ؓ میں سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ دیہات میں رہے ہوں۔ (مطلب یہ کہ آپ ﷺ دانہ اگنے کی جو اتنی درست تمثیل دے رہے ہیں) (صحیح مسلم حدیث نمبر: 459)
قرآن کی شفاعت 
”حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ قرآن شفاعت کرنے والا ہے، اور اس کی شفاعت مقبول ہے۔ جو اس کی اتباع کرتا ہے یہ اسے سیدھا جنت میں لے جاتا ہے اور جو اس کو چھوڑ دیتا ہے یا اس سے نظریں پھیر لیتا ہے تو یہ اسے اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر (دوزخ کی) آگ میں پھینک دیتا ہے۔ (رواه البزار هذا موقوفا علی ابن مسعود، رواه مرفوعا من حديث جابر، وإسناده المرفوع جيد کما قال المنذري والهيثمي.)

”حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت کے درجات قرآن کی آیات کی تعداد کے برابر ہیں۔ پس جب اہل قرآن میں سے کوئی جنت میں داخل ہوگا تو اس کے اوپر کسی اور کا درجہ نہیں ہوگا۔“ (رواه ابن أبي شيبة والبيهقي واللفظ له والديلمي.)
قرآن کے منکرین کی شفاعت نہیں ہو سکتی
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَهْتَمُّونَ بِذَلِکَ أَوْ يُلْهَمُونَ ذَلِکَ بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ ثُمَّ آتِيهِ الرَّابِعَةَ أَوْ أَعُودُ الرَّابِعَةَ فَأَقُولُ يَا رَبِّ مَا بَقِيَ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ
ترجمہ:
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حشر کے دن سارے مومن جمع کئے جائیں گے وہ اس دن سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے یا ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی یہ حدیث مذکورہ حدیث کی طرح ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ چوتھی بار میں ان کی شفاعت کروں گا اور یہ عرض کروں گا اے پروردگار اب دوزخ میں صرف وہ لوگ باقی وہ گئے ہیں جن کو قرآن نے روکا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب: ایمان کا بیان، حدیث نمبر: 476)
ایک گمراہ کن نظریہ پھیلا دیا گیا ہے کہ بس کلمہ گو پرجہنم کی آگ حرام ہے- ایسے صورت تبھی ہو سکتی ہے کہ قرآن کی مکمل تعلیمات اور سزا جزا ، حساب کتاب، انصاف کو منسوخ کر دیں جو کوئی انسان نہیں کر سکتا- اس لیے ایمان کے ساتھ نیک اعمال بھی ضروری ہیں اس کے بعد اللہ سے معافی اور بخشش کی امید رکھنا چاہیئے، نہ کہ نافرمانی کے بعد-
رَّسُولَ الله ﷺ کے فرمان کے مطابق کوئی حدیث قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی ، حدیث کی درستی کا معیار اس کا قرآن و سنت اور عقل کے مطابق ہونا ضروی ہے=( ملاحضہ ہو : رسول اللہ ﷺ کا حدیث کی درستگی اور پہچان کا میعار)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجديد ایمان: ہماری نمازیں ، روزے ، تمام عبادات اور نیکیاں بیکار ہیں اگر ایمان خالص نہیں- ایمان میں کوئی ملاوٹ الله کو قبول نہیں - الله کو ہر نفس خود جوابدہ ہے اوربروز قیامت  اکیلے پیش ہوں گے.
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ کی روشنی میں تجديد الايمان میں دیر مت کریں: [https://bit.ly/Aymaan]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے. صدیوں بعد کتب حدیث لکھ کر ان کو ترجیح  دینے کی وجہ سے  قرآن کو ترک العمل (مہجور) بنا دیا گیا ہے، جس طرح یہود و نصاری نےکتاب اللہ کے ساتھ کیا اور اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا ، قیامت کے دن :

 "پیغمبر کہیں گے ،" پروردگار ، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔ "  (سورة الفرقان،25:30﴾

تو ہمارے پاس کوئی جواب  نہ ہوگا- اس لیے قرآن کی اصل حیثیت کی بحالی اور ترجیح  اول [84a] کا مطلب احادیث کی  اہمیت کا انکار نہیں۔ مسلمانوں کو اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) سے بھی پیار ہے۔ مگر حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]-

ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

🌹🌹🌹
 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

پوسٹ لسٹ