رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

شیعہ اصلاحی تحاریک

اہل تشیع میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کہ بدعات سے سخت نالاں ہیں- بدعات نے ان کے دین کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے- پڑھے لکھے مہذب شیعہ افراد کا فرض ہے کہ اپنے فقہ کو جاہل مولویوں اور ذاکرین جنہوں نے دین کو کمائی کا ذریعہ معاش بنا رکھ ہے، بدعات اور خرافات سے پاک کریں- اس طرح سے وہ الله ،  رسول اللہ ﷺ ، ائمہ اکرام اور اہل بیت کی قربت کے امیدوار ہو سکتے ہیں اور مسلمانوں کے اتحاد میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں- کچھ اقدامات درہ ذیل ہیں، مگر ان کو خود کوشش کرنا ہو گی -
اہلسنت کے مقدسات کی توہین پر  سید علی خامنائی کا فتوی :
اہلسنت برادران کے مقدسات کی توہین اور اہانت حرام ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ پر الزام اس سےکہیں زیادہ سخت و سنگین ہے اور یہ امر تمام انبیاء (ع) کی ازواج بالخصوص پیغمبر اسلام (ص) کی ازواج کے لئے ممنوع اور ممتنع ہے۔
وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين
إِنِّي أَكْرَه لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ - ولَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ - كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وأَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ - وقُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ - اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا ودِمَاءَهُمْ - وأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وبَيْنِهِمْ واهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ - حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَه - ويَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ والْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِه ۔ [نہج البلاغہ ٢٠٦]
فرمان امام علی (علیہ السلام) : "میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔ بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ یا اللہ! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کیراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگ حق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں"  [نہج البلاغہ خطبہ : ٢٠٦]
حضرت علی (رضى الله عنها) کا تفرقہ سے بچنے اور اکثریت کے ساتھ ہونے کا حکم :
"نہج البلاغہ" حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها) کے خطبات اور اقوال کی مستند شیعہ کتاب سمجھی جاتی ہے، اس میں خطبہ نمبر 126 میں لکھا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها) نیں فرمایا : " میرے بارے میں گمان کرنے والوں کی دو اقسام برباد ہو جائیں گے ،جو لوگ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور محبت کی شدت ان کو سیدھے راستے سے سے دور لے جاتی ہے، اور وہ لوگ جو مجھ سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہیں اور نفرت کی شدت ان کو سیدھے راستے سے دور لے جاتی ہے . میرے حوالے سے سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو درمیان کا راستہ اختیار کریں لہٰذا ان لوگوں کے ساتھ ہو جائیں اور مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے ساتھ ہوجاؤ کیونکہ الله کے حفاظت اتحاد میں ہے . تم لوگ تفرقے سے بچو.جو گروپ سے الگ تھلگ ہوتا ہے وہ شیطان کا آسان شکار ہوتا ہے. جیسے جو بھیڑ گلے سے علیحدہ ہوتی ہے بھیڑے کے لے آسان شکار ہوتی ہے . ہوشیار! جو بھی اس راستے [فرقہ واریت کے] پر بلاتا ہے چاہے وہ میرے نام کے گروپ سے ہو اس کو قتل کرو. [ خطبہ نمبر 126 /127 "نہج البلاغہ" حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها) کے خطبات اور اقوال کی مستند کتاب ترجمہ و مفہوم] نوٹ : خبردار : قتل کا اختیار صرف قانون کے مطابق اسلامی حکومت کے قاضی اور عدلیہ کو ہے . فساد فی الارض ممنوع ہے .
امام خمینی کا خونی ماتم کی ممانعت کے بارے میں فتوی
امام خمینی نے خونی ماتم کی ممانعت کے بارے میں ایک فتویہ جاری کیا اور کربلا کے تعزیہ کی اجازت کو مشروط بناتے ہوئے اسلام کو نقصان نہ پہنچانے کا مشورہ دیا - اس کے بعد آیت اللہ شاہد سید محمد باقر صدر اور آیت اللہ شاہد مرتضی مطہری ، نیز دور اندیشی کے حامل علماء کے ایک گروپ نے اس فیصلے کی حمایت کی اور خونی ماتم کی مذمت کی۔
شاہد آیت اللہ مطہری نے اپنی کتاب ہوزہ و روحانیات میں اس بحث کا ذکر کیا ہے: خونی ماتم اپنی موجودہ شکل میں عقلی یا مذہبی پشت پناہی نہیں رکھتا۔ یہ بدعت کی واضح مثال ہے۔ کم از کم ، موجودہ دور میں یہ شیعہ ازم پر سوال اٹھانے کا سبب بنتا ہے۔ وہ پروگرام ، عمل جن کا امام حسین علیہ السلام کے مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ استرا ، بلیڈ اور تالے ہیں۔ بلیڈ سے سر پر ضرب لگانا وہی ہے۔ یہ ایک غلطی ہے۔ کچھ لوگ بلیڈ لیتے ہیں اور اپنے سروں پر خون بہاتے ہیں - کس کے لیے؟ یہ عمل ماتم نہیں ہے۔ شاہد سید عبدالکریم ہاشمی-نجاد نے شیعہ عقیدے پر خون ماتم کے برے اثرات کے بارے میں لکھا ہے: آیت اللہ مکارم شیرازی نے کہا: ہمارے پیارے سوگواروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے کاموں سے پرہیز کریں جس سے مذہب خراب نظر آئے گا ان کے جسم پر چوٹ لگی ہے۔ یہ بدعت کی واضح مثال ہے۔ خونی ماتم کے حوالے سے امام خامنہ ای کے فتوی پر عمل کرنے پر علماء کی تلقین ابنا فارسی نے پیش لفظ یوں(یہ اسکا ترجمہ ہے) لکھا تھا:  عزاداری اور ماتم کے مراسم میں قمہ زنی کرنا ، تالوں اور زنجیروں سے جکڑنا، سر اور سینے کو خون آلود کرنا ، زیارت میں سینہ خیز چلنا اور اس قسم کے طریقوں پر مبنی عزاداری کرنا بے شک اسلام اور بالخصوص اپنے مذہب کی اہانت کا سبب بن جاتے ہیں خاص کر موجودہ دور میں جس میں مسلمانوں کے کردار اور رفتار کا باریک بینی کے ساتھ تحقیق کیا جاتا ہے اور اس پر اسلام کے بارے میں قضاوت کی جاتی ہے ۔ اسلئے مقام معظم رھبری دامت برکاتہ نے امت اسلامی کو ارشاد کرتے ہوئے اس قسم کے مسائل کے بارے میں حکم فرمایا کہ ایسا کام مذھب کی توہین ہے اسے ترک کیا جانا چاہئے اور کئ بار قمہ زنی ترک کرنے اور حسینی مجلس میں خرافات کو ترک کرنے کی تاکید کرتے رہے اور سال ۱۳۸۸ ہجری شمسی(مطابق۲۰۰۹م)مبلغوں کے ملاقات کے دوران آپ نے اس موضوع پر ایک بار پھر تاکید فرمائی ہے ۔ اب چونکہ تاسوعا اور عاشورا نزدیک ہے جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے معظم فقہا کی نظر کا بھی دورہ کرتے ہیں ۔ حوزہ علمیہ قم کے چند فاضل طالبعلموں نے مقام معظم رھبری کے بیانات کے سلسلے میں خط کے ذریعہ بعض علما اور جامعہ مدرسین کے ارکان سے استفتا کیا ہوا تھا ، انہوں نے اپنی نظرات کو بشرح ذیل اعلان کیا ۔ آج یاد دہانی کے لئے اور ہر قسم کے خرافات سے پرہیز کرنے کے لئے اور مخالف کے ہاتھوں بہانہ نہ دینے کے غرض سے اسکا گرداں کرتے ہیں۔ حضرت آیت اﷲسیستانی کا فتوی: حضرت آیت اﷲ العظمی سیستانی مدظلہ العالی کی خدمت میں امام خامنہ ای کی طرف سے عزاداری کے حوالے سے صادر کئے گئے مذکورہ احکامات کے دائرہ کار سے متعلق سوال کیا اور وہاں سے جواب آیا کہ <<حضرت آیت اللہ سیستانی کے مطابق معاشرے کے نظم کے حوالے سے فقیہ عادل مقبول کا حکم تمام مؤمنین کے ساتھ ساتھ باقی مجتہدین پر بھی نافذ العمل ہے

شہید سید عبد الکریم ہاشمی نژاد نے بھی شیعت کے چہرے کو مسخ کرنے میں قمہ زنی کے برے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
انتہائی افسوس کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت ظاہر کرنے کے لیے کچھ ایسے کام انجام دئے جاتے ہیں جو آج کی دنیا کے سامنے شرمندگی اور حقارت کا باعث بنتے ہیں۔
امام خمینی (رح) کی رحلت کے بعد جب قمہ زنی نے پھر غیر معمولی طور پر زور پکڑ لیا اور دشمن کے میڈیا اور خبری اداروں کے لئے ان مناظر سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا راستہ ہموار ہو گیا تاکہ وہ اس طریقہ سے شیعت پر کاری ضرب لگا سکیں تو رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ  سید علی خامنہ ای نے محرم الحرام کی آمد کے موقع  پرکہ کیلویہ و بویراحمد(یاسوج) کے علماء کے مجمع میں اپنی ایک تقریر میں مراسم عزاداری کو پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد کرنے اور قمہ زنی کے واقعہ کے گمراہ کن اور انحرافی ہونے پر زوردیا اور مطالبہ کیا کہ اس طرح کی توہین آمیز حرکات سے عزاداری کے مقدس پلیٹ فارم کو پاک کیا جائے۔
اس تقریر کے منتشر ہونے اور قمہ زنی کی حرمت پر مبنی آپ کی طرف سے حکم کے صادر ہو جانے کے بعد حوزہ علمیہ کے بعض مراجع اور فقہی شخصیتوں نے جدید فتوے صادر فرمائے اور بعض نے اپنے گذشتہ فتوے سے عدول کرتے ہوئے کہ جو قمہ زنی کے جواز یا استحباب پر تھا نیا فتوی دیا اور فرمایا کہ رہبر معظم انقلاب کے موجودہ حکم کی پیروی اور اس کا اتباع واجب و لازم ہے اور قمہ زنی حرام ہے ۔
شیخ الفقہاء و المجتہدین آیت اللہ العظمیٰ اراکی قدس سرہ جو آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی کی رحلت کے بعد عالم تشیع کے مرجع تقلید جانے جاتے تھے نے اس کے باوجود کہ اپنے پہلے فتوے میں قمہ زنی کو عزاداری حسینی کا مصداق قرار دیا ہوا تھا سے عدول کرتے ہوئے نیا فتویٰ صادر کیا اور ولی امر مسلمین کے حکم جو عزاداری محرم میں خرافات پر مبنی اعمال سے پرہیز کرنے کے لئے ہے، کی اطاعت کو لازمی قرار دے دیا۔
 حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی نے بھی اپنے فتوے میں فرمایا: ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دنیا کے اکثر علاقوں میں اسلام اور شیعت کی طرف جو رجحان پیدا ہوا ہے اور اسلامی ایران کو عالم اسلام کا ام القریٰ پہچانا جانے لگا ہے اور ایرانی قوم کے اعمال و افعال اسلام کے حاکی اور نمونہ کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں ان چیزوں کے پیش نظر ضروری ہے سید الشہداء ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری کے حوالے سے اس طرح عمل کیا جائے کہ آپ کے تئیں اور آپ کے مقصد کی نسبت زیادہ رجحان اور جھکاؤ پیدا ہو۔ واضح ہے کہ ایسے ماحول میں، قمہ زنی کا مسئلہ نہ صرف کوئی مثبت تاثیر نہیں رکھتا، بلکہ مخالفین کے نزدیک مورد قبول نہ ہونے اور ان کی سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے اس کے برے اثرات رونما ہوں گے۔ لہذا ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے دین کے پیروکار اس سے اجتناب کریں۔
آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی فرماتے ہیں: امام حسین(ع) کی عزاداری کا قیام بہترین شعائر میں سے ہے۔ لیکن وہ چیزیں جو بدن کو ضرر پہنچاتی ہیں یا مذہب کی توہین کا باعث بنتی ہیں ان سے پرہیز کیا جائے۔
آیت اللہ  العظمیٰ مکارم شیرازی کی تقریر کا اقتباس :
’’وہ چیزیں جو دین کا حصہ نہیں ہیں انہیں دین کا جزء بناتے ہیں عزاداری میں مداخلت کرتے ہیں عزاداری کی شکل و صورت کو بدل دے رہے ہیں قمہ زنی کا مسئلہ جو کسی زمانے میں حتیٰ معصومین کے زمانے میں نہیں تھا اس کو لا کر رائج کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو غیروں کی نظروں میں بیہودہ ظاہر کریں قمہ زنی کے مناظر، جو بچے کے سر پر مارتا ہے، اپنے سر پر مارتا ہے، سفید لباس پورا خون سے لپ پت، کو دکھایا جا رہا ہے یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ غیروں کا ہاتھ اس میں ہے ایک موثق آدمی نے نقل کیا ہے۔ اس نے کہا کہ مشہد میں ایک سال ہم نے دیکھا کہ ایک بیرونی سفارتخانے کی طرف سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے بعض عزاداروں کے درمیان نئے قمہ تقسیم کئے سب بہترین چمکدار، کیا اس غیر ملکی سفارتخانے کا دل ہمارے لیے جلا کہ ہم عزاداری کریں یا یہ دکھانا چاہ رہا ہے کہ یہ لوگ درندہ ہیں؟ سید الشہداء کی عزاداری تقرب الہی کے بہترین عمل میں سے ہے، کیمیا ہے، مشکلات کے حل ہونے کا ذریعہ ہے، لیکن اس کام سے پرہیز کریں جو لوگوں کو اسلام سے دور کرے‘‘۔
علمائے اعلام اور مراجع تقلید کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ ہر وہ عمل جو اسلام کی توہین کا باعث بنے حرام ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔  بطور مثال اس استفتاء کے بارے میں فقہاء کے جواب کہ جس میں عزاداری کے دوران بعض توہین آمیز حرکتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کی طرف توجہ کریں:
حضرت آیت اللہ بہجت نے اس استفتاء کے جواب میں جو عزاداری کے انعقاد کے طریقے اور ان کاموں کے بارے میں جو خونریزی کا باعث بنتے ہیں آپ سے پوچھا،  توفرمایا:
اگر مقدسات کی توہین کا باعث بنیں تو جائز نہیں ہے۔
آیت اللہ سیستانی نے بھی ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا:
ایسے کاموں سے اجتناب کیا جائے جو عزاداری کو خدشہ دار کرتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ صافی گلپائیگانی بھی فرماتے ہیں:
وہ کام جو مذہب کی توہین کا سبب بنے اس سے پرہیز کیا جائے۔
وہ استفتاء جو آیت اللہ العظمیٰ خوئی سے شائع ہوا ہے اس میں اس طرح کے اعمال کے جواز کو عزاداری امام حسین علیہ السلام میں اس بات سے مشروط کیا ہے کہ وہ توہین اور ہتک حرمت کا باعث نہ بنیں۔ آپ ایک اور استفتاء میں ’’عزاداری میں توہین‘‘ جو اکثر مراجع کے فتووں میں بیان ہوا ہے کی تشریح میں فرماتے ہیں: توہین اور ہتک سے مراد وہ چیز ہے جو عرف میں مذہب کے ہلکا ہونے کا سبب بنے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے عزاداری میں اس طرح کے اعمال کے ارتکاب کے حوالے سے فرمایا:
وہ چیز جو اسلام کی توہین اور عزاداری کی حرمت کو پامال کرنے کا سبب بنے جائز نہیں ہے امید کی جاتی ہے کہ قمہ زنی اور اس طرح کی چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ نوری ہمدانی نے بھی مقدمۃً عزاداری کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے تحریر کیا: ضروری ہے عزاداری کی رسومات میں زینبی کردار پیش کیا جائے یعنی عزاداری کو اسلامی منطق کے ساتھ جڑا ہونا چاہیے اور ہر وہ عمل جو دین مقدس کو غیر منطقی ظاہر کرے اس سے پرہیز کیا جانا چاہیے، محترم اور قابل قدر عزادار بجائے اس کے کہ چھوری کو اپنے سروں پر ماریں اس فکر میں رہیں کہ چھوری اسلام کے ان دشمنوں کے سروں پر ماریں جنہوں نے ان کی زمینوں کو غصب کیا اور انہیں کمزور بنایا ان کے مال و منال کو لوٹا اور آخر کار ہر روز ایک نئے حربے کے ساتھ ان کی اسلامی زندگی کو خطرے سے دوچار کر دیا۔
بعض مراجع تقلید جیسے آیت اللہ شیخ جواد تبریزی نے بھی عزاداری کی شرط کو اہل بیت(ع) پر ڈھائے گئے مصائب پر غم و اندوہ کا اظہار،نام دیتے ہوئے کہا: سید الشہداء اور اہل بیت(ع) و اصحاب اہل بیت (ع) کے غم میں قمہ زنی کا داخل ہونا یقینی نہیں ہے۔ لہذا سزاوار ہے مومنین ایسے امور انجام دیں جن کا عزاداری میں شامل ہونا یقینی ہے۔ جیسے گریہ کرنا، ماتم کرنا، جلوس عزا نکالنا، وغیرہ
بدعت 
بدعت دین سے کسی چیز کو کم کرنے یا اس میں کوئی چیز اضافہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ سُنّت ان تعلیمات کو کہا جاتا ہے جو قرآن اور اہل بیتؑ کی روایات میں ذکر ہوئی ہیں۔ لہذا بدعت سنت کے متضاد ہے۔ تمام شیعہ اور سنی فقہا بدعت کو حرام سمجھتے ہیں۔ 
روایات میں بدعت کو کفر اور شرک کے مصادیق میں سے شمار کیا ہے۔ دعت گناہِ کبیرہ ہے جس کا حرام ہونا مذہب کی ضرورت ہے اور جو اس لیے کبیرہ ہے کہ مسلسل روایتوں میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ ملتا ہے اور چونکہ اصل بات مانی ہوئی اور ظاہر ہے اس لیے صرف چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے:
پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ "ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم میں لے جاتی ہے"۔
(وسائل الشیعہ کتاب امر بالمعروف باب ۴۰)
امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں "جو بدعت کرنے والے کے نزدیک گیا اور جس نے اس کا احترام کیا اس نے بلاشبہ دین اسلام کو بگاڑنے کی کوشش کی۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) بدعت کو گناہِ کبیرہ شمار کرتے ہیں کیونکہ رسول خدا نے فرمایا: "جو بدعت کرنے والے سے خوش ہو کر اور ہنس کر ملا اس نے بلاشبہ اپنا دین بگاڑا۔" (سفینة البحار جلد ۱ ص ۶۳)
حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "میرے بعد جب تم کسی شکی اور بدعتی کو دیکھو تو اس سے دُور رہو۔ اسے بہت زیادہ بُرا بھلا کہو، اسے گالیاں سناؤ، طعنہ دو، اسے تھکا دو، عاجز کر دو تاکہ تمہیں جواب نہ دے پائے، لوگ اس سے اسلام میں بگاڑ کے سوا اور کوئی امید نہ رکھیں، اس سے چوکنا رہیں، اس کی بدعتیں نہ سیکھیں تاکہ خدا تمہارے لیے اس کام کے عوض نیکیاں لکھے اور آخرت میں تمہارے درجے بلند کرے۔" (وسائل الشیعہ باب ۳۹)
علّامہ مجلسی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"شکیوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے دین میں شک کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی اس غلطی کی بدولت شک میں ڈالتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ شکیوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا دین فاسد گمان اور وہم پر قائم ہے جیسے اہل خلاف کے علماء اور ممکن ہے کہ ان سے مراد بدکار، کھلم کھلا گناہ کرنے والے اور دین کے بارے میں منہ پھٹ لوگ ہوں کیونکہ یہی بات اس کا سبب ہے کہ لوگ ان کے دیندار ہونے میں شک کرتے ہیں اور ان کے عقیدے کی کمزوری کی علامت ہے۔
بدعت کیا ہے؟
علّامہ مجلسی فرماتے ہیں: "امت میں جو باتیں حضرت رسولِ خدا کے بعد شروع کی گئی ہوں وہ بدعت (ایجاد) ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی خاص یا عام نص موجود نہیں ہے۔ اور نہ خصوصیت یا عمومیت کے ساتھ اس سے منع کیا گیا ہے جو کچھ عام طور پر ہوتا ہے وہ بدعت نہیں ہے جیسے مدرسہ بنانا وغیرہ کیونکہ مومن کو سکونت اور مدد دینا عام باتوں میں شامل ہے اور جیسے علمی کتابیں تصنیف اور تالیف کرنا جو شرعی علوم کی مدد ہے یا جیسے وہ لباس جو پیغمبر خدا کے زمانے میں رائج نہیں تھے یا نئی غذائیں جو عام لوگوں میں پسندیدہ اور مرغوب ہیں اور ان سے منع نہیں کیا گیا ہے۔
ہاں جو عام لباس یا غذا کے طور پر ہوا اگر اسے خصوصیت دیں اور کہیں کہ اس خاص طریقے سے خدا نے اس کا حکم دیا ہے تو یہ بدعت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ نماز جو سب سے اچھا عمل ہے اور جس کا ادا کرنا ہر حال میں مستحب ہے اگر چند رکعتوں کو کسی خاص وجہ سے مخصوص کر دیا جائے یا کسی مخصوص وقت سے وابستہ کر دیا جائے تو بدعت ہو گی۔
بدعت یعنی خدا کا حکم تبدیل کر د ینا
اس لحاظ سے بدعت کے معنی خدا کے دین کو بدلنا اور اپنا ناقص رائے اور عقل سے اس میں کچھ بڑھانا یا اس سے کچھ گھٹانا ہے چاہے اصول میں ہو چاہے فروع میں۔ (اصول کافی فضل العلم باب ۲۰)
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) یہ بھی فرماتے ہیں: "محمد کا حلال قیامت تک ہمیشہ حلال رہے گا اور ان کا حرام روزِ قیامت تک برابر حرام رہے گا۔ ان کے سوا کوئی اور پیغمبر نہیں ہے اور ان کے علاوہ (قیامت تک) اور کوئی نہیں آئے گا اور حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جو بدعت کرتا ہے وہ اس کی بدولت سنت کو ختم کر دیتا ہے۔" (اصول کافی کتاب فضل العلم باب ۲۰)
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) یہ بھی فرماتے ہیں: "جو شخص لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے حالانکہ ان کے درمیان اس سے زیادہ عقلمند شخص موجود ہوتا ہے وہ شخص بدعتی اور بہکانے والا ہے۔" (سفینة البحار جلد ۲ ص۲۲۰)۔

Why do some Catholics Christians self-flagellate?
بعض کیتھولک عیسائی کیوں خونی ماتم اور سینہ کوبی کرتے ہیں؟
The late Pope John Paul II would whip himself, according to a nun who helped to look after him. So how common is this practice in the Catholic faith?
"We would hear the sound of the blows," says Sister Tobiana Sobodka, who was in the next room to Pope John Paul II at his summer residence in Castel Gandolfo, near Rome.
ترجمہ:
مرحوم پوپ جان پال II خود کو پیٹتا تھا ،ایک نن کے مطابق جو اس کی دیکھ بھال کرنے میں مدد کرتی تھی کہ کیتھولک ایمان میں یہ عمل  اپنے آپ کو ازیت دینا یا کوڑون سے پیٹنا کتنا عام ہے؟
روم شہر کے قریب کاسٹل گاندولو میں اپنے موسم گرما میں رہائش پذیر پوپ جان پال II کے اگلے کمرے میں تھا جو بہن ٹوبانا سووبدوکا کہتے ہیں، "ہم نے پیٹنےکی آوازیں سنیں"
جسمانی طور پر گناہ کے لئے افسوس ظاہر کرنے کے لئے ایک جسمانی تناسب کے طور پر، جسم پرجلد پر مارنا یا  چوٹ لگانا ہے، زیادہ تر اکثرخون نکلتا ہے.
کیتھولک مؤرخ پروفیسر مائیکل والش کہتے ہیں کہ کیتھولک وزارت کے بعض حصوں میں یہ 1960 کی دہائی تک وسیع پیمانے پر عمل تھا لیکن آج غیر معمولی ہے.
انہوں نے کہا کہ بحیرہ روم کے ممالک میں لین کے مقدس ہفتہ کے دوران عارضی مقاصد کے دوران علامتی مقاصد کے لئے علامتی طور پر عمل کیا جاتا ہے، وہ ایک یاد دہانی کے طور پر کہ یسوع مسیح مصیبت سے پہلے پیٹا گیا تھا.
لیکن فلپائن جیسے کچھ ممالک میں، یسوع مسیح کے مصیبت کی یہ دوبارہ منسوب جذبہ کے کھیل کو بلایا جاتا ہے - زیادہ انتہائی شکل لے سکتا ہے اور خون کو روک سکتا ہے.
ابتدائی عیسائیوں کو یہ خیال تھا کہ جسم خراب تھا اور اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت تھی یہ کافی آسان طریقہ ہے، اب ہم اس سے زیادہ سمجھتے ہیں کہ ایسی طرز عمل صحت مند نہیں ہیں. "

شیعہ اصلاحی تحاریک

سید جمال الدین اسد آبادی وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اصل دین کی طرف واپسی کی تحریک چلائی اور فرماتے تھے : "ملت اسلامی کی بیماریوں کا واحد علاج یہ ہے کہ وہ خود کو صدر اول کے مسلمانوں کی طرح دین کے اصل قواعد کی طرف لوٹائیں۔
اصلاح شیعیت 
اصلاح شیعیت دراصل اہل تشیع مذہب میں پیدا ہونے والی وہ تحریک ہے جس کا آغاز آقای شیخ ابراہیم زنجانی کے دور سے شروع ہوا۔ آقای ابراہیم زنجانی کی 1895 عیسوی میں وفات ہوئی۔ آپ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے مکتب تشیع میں موجود خرافات و بدعات کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنی کتاب "خاطرات زنجانی" میں بہت سی رسومات اور اعمال کو جو اس زمانے کے اہل تشیع میں مروج تھیں غیر اسلامی قرار دیا۔ ان کے بعد آیت اللہ ھادی نجم آبادی نے اصلاح شیعت کی خاطر بہت سی کتب لکھیں جن میں سے "تحریر العقلاء" ان کی مشہور کتاب ہے۔ ان کے بعد آیت اللہ اسد اللہ خارقانی نے جو آیت اللہ ھادی نجم آبادی کے شاگرد تھے اصلاح تشیع میں نمایاں خدمات انجام دیں اور "محو الموھوم" نامی اعلی کتاب تصنیف کی جس کو بعد میں آیت اللہ طالقانی نے بھی شائع کیا۔ ان کے بعد ان کے شاگرد آیت اللہ شریعت سنگلجی نے اپنے استاد آیت اللہ خارقانی کی مشن کو آگے بڑھایا اور اصلاح تشیع کو پرزور اور ببانگ دھل آگے پھیلایا۔ آپ نے اہل تشیع عوام کو توحید کی طرف راغب کرنے کیلے "توحید عبادت یا یکتا پرستی" نامی کتاب لکھی۔ جلد ہی آپ نے قرآن فھمی کو عام کرنے کیلے "مفتاح القرآن" اور"براہین قرآن " نامی کتب لکھیں۔ اس کے بعد آپ نے شیعہ عقیدہ "رجعت" کے باطل ہونے کے متعلق"اسلام ع رجعت" نامی کتاب لکھی جو آپ نے اپنے شاگرد عبدالوہاب فرید تنکابنی کے نام سے شائع کیا۔ انہوں نے ایک اور کتاب "محوالموھوم" لکھی اور اس کو اپنے شاگرد "حسینعلی مستعان" کے نام سے شائع کیا۔ جس میں آپ نے یہ بات ثابت کیا کہ حضرت عیسی ع کی وفات ہو چکی اور ان کے علاوہ حضرت خضر اور الیاس بھی زندہ نہیں ہین۔ آیت اللہ شریعت سنگلجی کی شاگردوں میں احمد کسروی،علی اکبر حکمی زادہ ،سید جلال جلالی ،حیدر علی قلمداران اور ڈاکٹر صادق تقوی شامل ہیں جنھوں نے بعد میں اصلاح شیعت کے موضوع پر بہت سی کتب لکھیں،کاص طور پر علی اکبر حکمی زادہ کی کتاب "اسرار ہزار سالہ" تو بہت مشہور کتاب کے طور پر سامنے آئی جس کے جواب میں امام خمینی نے "کشف الاسرار" اور آیت اللہ خالصی زادہ نے بھی اس کتاب کے رد میں کتاب لکھی۔

اس کے بعد حیدر علی قلمداران، آیت اللہ برقعی اور ڈاکٹر مصطفی حسینی طباطبائی اور ڈاکتر علی شریعتی کا دور آتا ہے۔ پھر آیت اللہ صالحی نجف آبادی نے اصلاح تشیع میں نمایاں کتب لکیھں۔ جس کے بعد ڈاکٹر موسی الموسوی نے "الشیعہ والتصحیح" نامی کتاب لکھی،اور شیعہ نوجوانون کی بیداری کیلے "اے دنیا کے شیعو بیدار ہوجاؤ" نام کی کتاب بھی لکھی اور ولایت فقیہ کے رد میں "امام خمینی فی المیزان" لکھی۔ دوسری طرف عراق میں احمد الکاتب نے اہل تشیع کو خرافات اور بنیادی عقائد میں موجود غلط نظریات کو ختم کرانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے " تشیع سیاسی و تشیع دینی" ،"شیعہ سیاسی فکر کی ارتقا اور ولایت فقیہ" اور امام مھدی کے وجود کے انکار پر تین کتابیں لکھیں جن میں سے سب سے مشہور کتاب "امام مھدی حقیقت یا ایک افسانہ" نامی کتاب مقبول ہے۔
 پاکستان میں اصلاح شیعت کا آغاز آیت اللہ محمد حسین نجفی ڈھکو نے کیا،انہوں نے "اصلاح رسوم" نامی کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ شیعہ مکتب میں موجود خرافات کے رد میں کتب شائع کیں۔ دوسری طرف علامہ محمد حسین زیدی برستی نے شیعوں کے عقائد میں غلو کے حامل عناصر کے رد میں چالیس کے قریب کتابیں لکھیں۔ آج کے دور میں پاکستان میں سب سے مقبول اصلاح شیعت پر کتب لکھنے والے عالم علامہ آغا سید علی شرف الدین بلتستانی ہیں،جنھوں نے پینسٹھ کے قریب کتابیں لکھیں جن میں سے " شیعہ اہل بیت"،"باطنیہ و اخوتھا"،"عقائدورسومات شیعہ" اور "اٹھو اور قرآن کا دفاع کرو" مشہور کتابیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلاح شیعت کا آغاز جو انیسویں صدی میں شروع ہوا آج اکیسویں صدی میں بھی اس کے دور رس نتائج برامد ہوئے اور یہ تحریک آج بھی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ اور لبنان و عرق میں خصوصا اور ایران و دیگر ممالک میں عموما اس تحریک سے متاثر علما اصلاح شیعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ [ref]

"اہل تشیع میں اصلاح یا روشنفکری اور تجدد دینی کا آغاز بدعات اور خرافات کے مقابلہ سے شروع ہوا اور یہ مشروطہ ایران کے ساتھ نشو و نما ہوتی گئی۔ چنانچہ رئج عقائد میں تجدد گرائی یا نظرثانی کرنے والے علما سید جمال الدین افغانی،اسد اللہ خرقانی ، آیت اللہ محمد حسن شریعت سنگلچی،شیخ محمد خالصی زادہ،حیدر علی قلمداران، ابوالفضل برقعی، سید صادق تقوی، یوسف شعار، سید محمد جواد غروی،سید علی اصغر غروی،محسن کدیور،علی اکبر حکمی زادہ،سید جلال جلالی قوچانی، انجینر حسین برازندہ، خسروبشارتی، عبدالوہاب فرید تنکابنی، مہدی بازرگان عبد العلی بازرگان شامل ہیں۔ 
آیت اللہ شریعت سنگلجی کے مایہ ناز شاگرد علی اکبر حکمی زادہ  [-1987-1897] کی طوفان برپا کرنے والی کتاب "اسرار ہزارسالہ" [1943] سے میں شیعہ کے نظریہ کو ہی بیان کیا گیا ہے۔ "اسرار ہزار سالہ" جس کا جواب آیت اللہ خمینی نے " کشف الاسرار" کے نام سے اور آیت اللہ خالصی زادہ نے بھی جواب لکھا، علی اکبر حکمی زادہ جو آیت اللہ طالقانی کے بھانجے ہیں لکھتے ہیں : "آج ہمارے(شیعہ اثناعشری کے ) پاس جو دین ہے وہ 95 فیصد گمراہی اور ضلالت پر مشتمل ہے۔"
آیت اللہ شریعت سنگلجی اور خمینی صاحب
خمینی صاحب نے "کشف الاسرار" نامی کتاب دراصل آیت اللہ شریعت سنگلجی کے خلاف ہی لکھی تھی،اگرچہ یہ کتاب دیکھنے میں ایک عالم دین علی اکبر حکمی زادہ (جنہوں نے عمامہ و قباء کو ترک کر دیا تھا) کی کتاب “اسرار ہزار سالہ”کے رد میں لکھی گئی ،لیکن اس کتاب میں اصل مقصد نوجوانوں میں ابھرتے ہوئے موحد عالم آیت اللہ شریعت سنگلجی کا رد کرنا تھا،کیونکہ شریعت سنگلجی کی مسجد وا داراہ جو “دارالتبليغ اسلامي” محلہ سنگلج کے نام سے قائم کیا گیا تھا 20 ہزار نوجوان قرآنی جلسات میں شریک ہوتے تھے اور 20 سال تک سنگلج کے اس تبلیغی ادارے سے ایسے نامور علماء مصلحین پیدا ہوئے جس نے قرآن و توحید کا علم بلند رکھا۔
خمینی نے 4 مرتبہ اپنی کتاب میں نام لے کر آیت اللہ سنگلجی کے افکار کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔چنانچہ بقول جان ریچارڈ فرانسی اسکالر کے آیت اللہ خمینی کے سب سے بڑے دشمن سنگلجی تھے۔
چونکہ حکمی زادہ،سید احمد کسروی اور ہزاروں ایسے نوجوان جن عقائد و نظریات کا پرچار کرتے تھے دراصل وہ سب ان کے استاذ آیت اللہ شریعت سنگلچی کے ہی نظریات یا عقائد تھے۔
کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ شریعت حسن سنگلجی مرحوم نے اپنی کتب میں دراصل اس مکتب یعنی “مجلسی کا مکتب” یا صفوی شیعت کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
مثلا حلیۃ المتقین میں علامہ باقر مجلسی نے انگوٹھیوں کے اثرات یعنی عقیق وغیرہ کے اثرات کو جو بیان کیا ہی اسے رد کیا سنگلجی نے اپنی کتاب توحید عبادت میں اور اس کو توہمات میں سے قرار دیا۔
علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب میں دنوں کے منھوس ہونے یا اچھا ہونے یعنی سعد و نحس ایام کے متعلق جو روایات لائیں ان کو بھی سنگلجی مرحوم نے توحید عبادت میں رد کرنے کے لیے اھادیث پیش کیں۔
علامہ باقر مجلسی نے چونکہ وہ روایات شامل کی تھین کہ اصل قرآن امام کے پاس ہے یا قرآن میں تحریف ہوئی ہے،ان تمام باتوں کا جواب دینے اور اس نظریہ کا رد کرنے کے لیے کہ قرآن کو صرف امام سمجھ سکتا ہے،آیت اللہ سنگلجی نے کلید فہم قرآن لکھی،جس مین یہ تاکید کی کہ قرآن کو ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے جو کوشش کرے سمجھنے کی۔

علامہ باقر مجلسی نے چونکہ عقیدہ رجعت کے حوالے سے بھار میں جو روایات جمع کی تھیں کہ آئمہ ع ،امام حسین ع یا رسول ص واپس آئنگے ،اس کا رد پیش کرنے کے لیے علم رجال کا سہارا لیا آیت اللہ شریعت نے اور واضح کیا کہ صحیح و ضعیف اور مجعول احادیث کو الگ کرنا ضروری ہے=
پہلی مرتبہ "بحار الانوار" سے من گھڑت ،ضعیف اور خلاف قرآن روایات کو سامنے لانے کا کام آپ کو جاتا ہے-
علامہ باقر مجلسی کی کتاب میں یہ وہمی بات کہ جانوروں میں سے کچھ مومن اور کچھ غیر مومن ہوتے ہین ،اس توہم کا رد بھی سنگلجی مرحوم نے کیا۔
زیارت قبور اور قبرون پر تعمیر کرنا، قبرون کا طواف اور قبروں پر چڑھاوے چڑھانے کے عمل کے سد باب کے لیے آیت اللہ سنگلجی نے کتاب توحید عبادت مین ان کامون کو شرک سے تعبیر کیا،اور زیارت قبور کو مشروع زیارت اور غیر شرعی زیارت میں تقسیم کیا۔
علامہ باقر مجلسی کی" بھار الانوار" میں عقیدہ شفاعت کے حوالے سے روایات نے آیت اللہ سنگلجی کے مطابق لوگوں کو شرک و بدعات کرنے کی جرات پیدا کی تھی،اسی لیے آیت اللہ سنگلجی نے واضح کیا کہ رایج عقیدہ شفاعت عیسائیوں سے امپورٹڈ ہے۔
علامہ باقر مجلسی کی ذار المعاد میں موجود بہت ساری باتوں کو آیت اللہ سنگلجی غالیون کا عقیدہ سمجھتا تھا اس لیے ان عقائد کو رد کر دیا۔
کچھ مقامات پر اپنی کتب میں مجلسی کا نام لے کر آیت اللہ سنگلجی نے رد کیا اور بعض جگہ اس کے نظریات کی طرف اشارہ کر کے ان کو رد کیا ہے۔قرآن کی تاویلات کے ھوالے سے مجلسی کے نظریات کو آپ نے کلید فہم اور دیگر تفاسیر میں رد کیا ہے۔
آیت اللہ سنگلجی نے قرآن اور عقل پر زور دیا ،اور روایات کو قرآن و سے پرکھنے کو ہی معیار قرار دیا
اس طرح بحار الانوار اور دیگر کتب میں لکھی روایات کی اہمیت کو کم کرنا تھا،تاکہ لوگ روایات کو قرآن پر حاکم بنانے کی بجائے قرآن کی حاکمیت کی طرف آئیں اور احادیث کے ذریعے خرافات و تاویلات کا شکار نہ ہو جائیں۔
یہ غلط فہمی کہ بعض لوگوں کی طینت دوسروں سے پیدائشی طور پر مختلف ہے،اور روحانیت کا مقام ہر طور بلند ہے،آیت اللہ سنگلجی نے اس کا ازالہ کیا اور فرمایا کہ تقوی اور ایمان ہی معیار ہے اور روحانیت نے ہی لوگوں کو تقلید پر لگایا ہے۔
آیت اللہ سنگلجی نے نقش تعویزات ،اور دیگر ادعیہ و اذکار غیر معتبر کو بھی توہمات و خرافات کی سیڑھی قرار دیا۔
وضاحت و تشکر: ہم نے جناب علی راہنما کی کتاب “ایران مین شیعت کی اصلاح:شریعت سنگلجی کی زندگی اور فقاہت” سے بھی استفادہ کیا ہے۔[ref]


کتاب کا نام اسرار ہزار رکھنے کی وجہ یہی ہے کہ کہتے ہیں یہ راز کی باتیں ہیں ہر جگہ پبلک میں یا عوام میں یا مجلسوں میں نہیں کہنا۔۔۔ نیز کتاب میں انہوں نے جیسا کہ لکھا ہے کہ ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرا ہے کہ ہمارے پیشواؤں اور زمام داروں نے اپنے ذاتی اغراض و سیاسی مقاصد کی خاطر دین کو ایک کھلونا یا کھچڑی بنا دیا ہے۔۔۔۔ 
می‌گویید هر که را اسرار حق آموختند، مهر کردند و زبانش دوختند! می‌گویم این چگونه اسراری است که تنها به مردمان زودباور و بیسواد حق دارید بگویید و نشان دهید ولی پای مردمان دقیق و کنجکاو که به میان می‌آید، انگار جزء اسرار می‌شود. اگر سِر است به هیچکس نباید گفت و اگر نیست، باری یکبار آن را در چنین مجلسی آشکار کنید! 
یہ کتاب یا کتابچہ کل 42 صفحات پر مشتمل تھا جس میں بالکل کھلے زبان اور عام انداز میں شیعہ عقیدہ امامت، مجتہدین کا دائرہ کار،اور اختیارات ،نیز مذھب میں جو غیراللہ کو اختیارات دئے گئے تھے،اور زیارت قبور و عزاداری کے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے،اور کچھ احادیث پر بھی سوالات اٹھائے گئے کہ عقل و منطق کے برخلاف یہ احادیث ہیں۔
کتاب کے شروع میں ایک صفحہ کا مقدمہ ہے۔جس میں کہا ہے کہ جس چیز کو تم یعنی علماء مجتہدین نے دین کا نام دے رکھا ہے وہ 95 فیصد گمراہی ہے۔
مقدمہ کتاب اسرار ہزار سالہ
آیت الله شیخ مهدی قمی پایین شهری کے فرزند اور آیت اللہ طالقانی کے بھانجے "علی اکبر حکمی زادہ " کی لکھی گئی تاریخ ایران میں ہنگامہ برپا کرنے والی کتاب "ہزار سالہ اسرار(راز) "کا مقدمہ
مقدمہ
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دینی پیشواؤں نے اب تک جو کچھ کہا ہے یا جو کچھ لکھا ہے اس میں انہوں نے بس وہ اکیلے قاضی کے پاس گئے ہیں (یعنی خود دوڑ کر پہلے نمبر پر آنا یا مخالف موجود نہیں خود قاضی بن کر اپنے حق میں فیصلہ کرنا)، اور دوسروں میں بھی یا تو جرات نہیں تھی کہ ان(دینی پیشواؤں) کے سامنے کوئی بات منہ سے نکال سکیں یا آگاہی(علم یا دلیل) رکھنے والا ہوایسا کوئی نہ تھا،اگر کسی ایک خیرخواہ شخص نے یا آگاہ (باعلم) شخص نے ایسی جرات کی یا پھر اس نے کوئی بات کی تو ایسے شخص کو ہر طریقے سے(فتوے یا الزامات یا طاقت کے بل بوتے پر) خاموش یا منہ بند کرانے کی کوشش کی گئی۔
حالانکہ اگر کسی شخص کو یہ اطمینان ہو کہ وہ حق پر ہے تو اسے کسی حریف یا مقابل شخص کے پیدا ہونے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔بلکہ خود اسے چاہیے کہ ایسے شخص کو خوش آمدید کہیں۔ کیونکہ اگر کوئی پہلوان اگر کئی صدیوں بھی ایک خالی میدان میں للکارتا رہے، یا کوئی کئی ملین کتاب بھی لکھ دین تب بھی اگر کوئی مخالف شخس یا فریق موجود نہ ہو تو تب تک دوسرے لوگ نہیں سمجھ سکتے کہ اس کی برتری ہے بھی یا نہیں۔
میں یہ کہتا ہوں کہ جس چیز کو آپ(ہمارے مذہبی پیشوا) دین کا نام دیتے ہیں، وہ 95 فیصد گمراہی پر مشتمل چیز ہے۔اور یہ ثابت کرنے کے لیے میں تیار ہوں لیکن جیسے میں نے کہا کہ جب تک کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی سچ بول رہا ہو، اپنے دعوے کو مخالف کے سامنے جب تک پیش نہ کرے(یا مکمل مقابلہ نہ ہو)، تو دقیق ترین قاضی کے لیے بھی  عدل پر مبنی فیصلہ کرنا مشکل ہے چہ جائیکہ جب قاضی عوام ہو ؟؟
 اب اگر تم اپنی گفتگو پر اطمینان ہے تو آو، ایک کتاب میں مکمل اپنی بات کو یکجا کرو،پھر سب کے سامنے پیش کرو،شاید تم کہو کہ ہم تصرف رکھتے(حق پر ہیں یا ہمارے علماء کتب اس موضوع پر لکھ گئے ہیں ) ہیں،اور جو شخص بھی(اس کے برعکس) دعوی کرے وہ خود جائے ثابت کریں۔ لیکن  جاننا چاہیے کہ یہی عوام کے سامنے سد راہ ہے جس کے ذریعے ان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کی جاتی ہے،اور تم جس چیز کے سائے میں تھے اب وہ ٹوٹ چکا، اب دلیل و منطق ہی کسی کو روک سکتا ہے(نہ جبر و قوت)،اگر دلیل و منطق ہے تو بہتر لیکن اگر نہیں تو (ڈرا دھمکا کر)خاموش کرنا،  کافر کہنا،فاسد العقیدہ قرار دینا،(یا نجس قرار دینا) اب ان کاموں سے عوام کے احساسات(فکر) کے سیل(خلیہ) کو ختم نہیں کیا جاسکتا یا جواب دے یا استعفی دو(اپنے دعوے سے) ۔ ....... (حکمی زادہ)
اس کے بعد 6 سوالات کیے گئے ہیں۔
اس کے بعد کتاب میں 6 اہم موضوعات ذکر کیے گئے ہیں جن کا بعد کے ابواب میں مفصل ذکر ہے۔
1- انسان اور خدا کے تعلقات
2- امامت
3-روحانیت یا مذہبی پیشوا
4- مملکت یا ملک
5- قانون اور شریعت
6-حدیث
 کتاب کے آخر میں 13 سوالات اٹھائے گئے ہیں،جو کہ اصل میں ان 15 سوالات پر مشتمل ہیں جو انہوں نے علمائے ایران کے لیے مجلہ پرچم میں شائع کیا تھا۔ یہ 13 سوالات درج ذیل ہیں:
سوال نمبر 1: 
پیغمبر و اماموں سے حاجات طلب کرنا، تربت(خاک کربلا) سے شفا مانگنا اور اس پر سجدہ کرنا،اور قبروں پر یہ گنبد تعمیر کرنا اور بارگاہ بنانا کیا یہ شرک ہے یا نہیں؟ ا
گر یہ شرک ہے تو بتائیں اور اگر یہ شرک نہیں ہے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ پہلے یہ بتائیں کہ شرک کا معنی کیا ہے؟
 تاکہ ہم دیکھ لیں کہ جس شرک کو کہ جس سے اسلام و قرآن نے اعلان جنگ کیا وہ سب اور ان کاموں میں فرق کیا ہے پتہ چل سکے؟؟
سوال نمبر 2: 
کیا ہم استخارہ کے ذریعے یا اس جیسے دیگر عمل کے ذریعے اللہ تعالی ٰ سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں؟
اور مستقبل کے نیک اور بد کے متعلق خبر مل سکتا ہے اس طریقے سے؟
اگر اس طریقہ سے ہمیں خبر مل سکتا ہے تو پھر ہمیں اس طرح بہت سارے فوائد مالی،سیاسی، اور جنگی حاصل ہونے چاہیں۔اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ موثر یا طاقت والا ہونا چاہیے؟پس پھر کیوں اللہ تعالی نے اس کے بالکل برعکس فرمایا:
 قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (188) ۞ 
اگر اس عمل سے کوئی فائدہ ایسا نہیں ملتا پھر کیوں اللہ کے نام سے،لوگوں کے مال و جان سے دھوکہ بازی کرتے ہو؟؟
سوال نمبر 3:
اگر امامت کا عقیدہ مذھب کے اصول میں چوتھے نمبر پر ہے،اور جیسا کہ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ امامت کے متعلق بہت ساری آیات موجود ہیں،پھر اللہ تعالی نے آخر کیوں ایک ہی بار صرٰیح واضح طور پر نہیں فرمایا تاکہ ہمیشہ کے لیے وہ خونریزی اور جھگڑا جو اس موضوع کی وجہ سے پیدا ہوا،واقع ہی نہ ہوتا؟؟
سوال نمر 4:
ہر کام کا اتنا ہی اجرت ملتا ہے جتنا اس نے عمل کیا،پس جو اھادیث ایک زیارت،یا عزاداری یا اس کے ہم مثل کاموں کے متعلق ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایک زیارت یا ایک عزاداری برپا کرنا ایسا ہے کہ اس شخص کو ہزار پیغمبروں یا (بدر )شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا؟
 کیا ایسی احادیث درست ہیں؟
سوال نمبر 5:
یہ جو کہا جاتا ہے کہ مجتہد امام زمانہ کی غیبت میں نائب امام ہے؟
کیا یہ بات درست ہے؟ 
اگر درست ہے پھر اس کے حدود کیا ہیں؟
 کیا ولایت اور حکومت بھی اس کے حدود میں داخل ہیں؟
سوال نمبر 6:
اگر مجتہد اپنی تنخواہ کام کرکے ،یا ایک واضح و معین راستہ سے لیں تو وہ حقائق بتانے میں آزاد ہوگا، کیا ایسا بہتر ہے یا جیسے آج کل رائج ہے کہ عوام(مقلدین) سے اپنے لیے پیسے(خمس) لیتا ہے اور مجبورا اپنی کمائی کی خاطر عوام کے موافق ہی بات کرتا ہے(یعنی مرجع تقلید خود عوام کا مقلد بن گیا ہے)؟
سوال نمر 7:
 یہ جو کہا جاتا ہے کہ حوکمت ظالم(طاغوت) ہے؟اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ جب کوئی حکومت اپنے فرائض صحیح طور پر انجام نہ دیں تب وہ ظالم ہے؟
 یا اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت صرف مجتہد کے ہاتھ میں ہو تب ہی درست ہے؟؟
سوال نمبر 8:
 یہ جو کہا جاتا ہے کہ ٹیکس لگانا حرام ہے تواس کا مطلب کیا یہ ہے کہ ٹیکس بالکل بھی نہیں لینا چاہیے؟
 یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس کے بدلے زکواۃ لینا چاہیے؟
 اگر مطلب دوم درست ہے یعنی زکواۃ لینا چاہیے تو ہمارے سامنے آج کل تہران کی مثال ہے،یا مازنداران کی یا دیگر شہروں کی جو کہ صنعتی شہر ہیں تو ہم کیسے ان سے زکواۃ لے سکتے ہیں(جب کہ شیعہ فقہ میں زکواۃ صرف 9 چیزوں پر ہی ہے)؟
سوال نمبر 9:
 کیا انسانوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے (ملکی) قانون وضع کر سکتے ہیں؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا کسی ایسے قانون کی اطاعت واجب ہے یا نہیں؟
اگر واجب ہے تو ایسے شخص کی سزا کیا ہوگی جو اس قانون کی خلاف ورزی کرے؟
سوال نمبر 10:
یہ مسلم ہے کہ قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی بہت جگہ ناسخ و منسوک موجود ہیں۔اور اس کی علت بھی تغیر زمانہ ہے۔جب ایک زمانہ میں ایک قانون رہا تو بعد میں منسوخ ہوا،۔۔۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ تمام قوانین اسلام ہر زمانے کے لیے ہے؟
ہماری خواہش ہے کہ آپ اس کے مسلم حوالے اور اس پر روشنی ڈالیں اور اس کو بیان کریں؟
سوال نمبر 11:
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آج ہمارے پاس جو احادیث ہیں وہ ظنی ہیں،اور انسانی عقل بھی یہ نہیں مان سکتا کہ اللہ تعالی قادر و عادل اشرف المخلوقات پر وہ چیز فرض کریں جس کے وہ مکلف نہیں؟
اللہ نے انسانوں کو عقل کے استعمال پر زور دیا(جیسے کتب اھادیث میں عقل کو انسانوں کا نبی کیا گیا ہے ہدایت پانے کے لیے)۔۔
سوال نمبر 12:
بہت ساری احدیث موجود ہیں جو عقل و علم اور زندگی اور بلکہ بعض تو بالکل خلاف حس ہے،حالانکہ ایسی روایات کی سند بھی صحیح ہے،جیسے حدیث گائے کی سینگ پر دنیا ہونا،مچھلی(جس کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے)، 
جابلق و جابلس کے متعلق روایات
یا زکواۃ (کہ صرف 9 چیزوں پر زکواۃ ہے جب کہ اس سے مالدار جو جانور نہیں رکھتے ارب پتی بھی پیسوں پر زکواۃ نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں بیچارے کسان جن کے پاس چند بکریاں ہو بس وہ زکواۃ دیتے ہیں)
جہاد کے متعلق بعض روایات (جیسے یمانی،سفیانی،اور خراسانی وغیرہ مزید باب علائم الظہور بحار النوار میں ہیں)،ان کا کیا کرنا چاہیے؟؟
سوال نمبر 13:
آپ کے خیال میں لوگ آج دین سے دور ہیں اس کی اصل وجہ کیا ہے؟؟
یہ کل سوالات کتاب کے آخر میں شائع کے اور یہ سوالات دراصل ان 6 موضوعات کا نچوڑ ہے جو کتاب میں موجود ہیں۔
1934 عیسوی میں انہوں نے ایک رسالہ ہمایوں کے نام سے جاری کیا جس کا مقصد معاشرے میں موجود توہمات اور روایات پسندی کو ختم کرنا نیز اسلام میں اصلاح کرنا تھا۔ [wki]
کتاب اسرار ہزار سالہ(مولف علی اکبر حکمی زادہ) سے نقل شدہ ایک  اقتباس
پہلا موضوع: خدا
آج ہمارا دین یہی کہتا ہے کہ خدا ایک ہے لیکن عملی لحاظ سے ہم ایک ایسے مقام پر پہنچے ہیں کہ جو شرک سے بھی بدتر ہے! ہم اس ذات کو خدا کا نام تو دیتے ہیں لیکن اس کے اختیارات  اور قدرت کو ہم نے اماموں اور امام زادوں میں تقسیم کیا ہوا ہے جن میں سے ہر ایک اپنے حصہ کا کام کرتا ہے۔کوئی اگر اللہ کے بارے میں کتنی ہی بدگوئی کرے تو ہم نہیں دیکھتے کہ کوئی آکر اس کو روک لے۔خیام اور دوسروں نے سب نے اللہ کی شان میں بے ادبی کی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی ہم ان کو فلاسفر تھے ۔اور بزرگ قرار دیتے ہیں اس کو،اور ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کی کتاب کہاں سے ملتی ہے۔لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ گنبد پرستی بالکل وہی بت پرستی ہی ہے کہ جن  تمام چیزوں سے اسلام نے جنگ کی،تو کہتے ہیں کہ ایسا کہنے والے کا عقیدہ فاسد ہے اور اس کے افکار زہریلے ہیں۔
  زیارت جامعہ کبیرہ جو مجلسی کے مطابق بہترین زیارات میں سے ہیں ،سند متن فصاحت اور معجزات کے حوالے سے(اس جیسی دوسری زیارت نہیں)،اس میں کہتے ہیں:
مَنْ أَرَادَ اللَّهَ بَدَأَ بِكُمْ،... وَمَنْ قَصَدَهُ تَوَجَّهَ بِكُمْ... بِكُمْ فَتَحَ اللَّهُ وَبِكُمْ يَخْتِمُ الله... بِكُمْ يُنَزِّلُ اللهُ الْغَيْثَ من السماء...آخر تک
اگر یہ کلمات شرک نہیں ہے تو دنیا میں کوئی چیز موجود ہی نہیں جسے ہم شرک کا نام دیں۔
کتاب الکافی جو 4 معتبر کتب میں سے ہیں(کتب اربعہ)،اس میں لکھا ہے
اللہ تعالی نے دنیا کو پیدا کیا اور اس دنیا کے امور محمد ص،علی،فاطمہؑ ۔۔۔ کے حوالے کر دیے۔خلق الله الدنيا وفوّض أمرها إلى محمد وعلي وفاطمة...
 اور اس کے بعد جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کے علاوہ افراد کا اضافہ ہوگیا(نہپ کہ صرف یہ اشخاص)،کہ آج شاید ہی کوئی شہر یا دیہات ہو جس میں کوئی بت خانہ نہ بنا ہو۔
 شاید یہ کہیں کہ یہ چیز بت پرستی نہیں ہے۔ہم کہتے ہیں کہ پھر پہلے بت پرستی کے معنی تو بتا دو،تاکہ بات ہی ختم ہو جائے،قرآن مجید کہتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے سوا کارساز بنائے ہوئے تھے وہ بھی بس یہی کہتے تھے کہ ہم ان کی پرستش نہیں کرتے مگر صرف اس لیے کہ یہ ہمیں خدا کے نزدیک کرتے ہیں۔
﴿ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى...﴾ [الزمر:3].
اس آیت اور دیگر آیات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے کام(حاجات طلب کرنا) غیر اللہ سے طلب کرنا اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنا یہی شرک تھا۔
اگر تم اس معنی کو مانتے ہو تو ٹھیک نہیں تو خود معنی بیان کرو شرک کے،تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ جس شرک سے اسلام نے 23 سال جنگ کی وہ شرک پھر کیا ہے،تم تو وہ لوگ ہو جو بعض مسائل میں بہت زیادہ تحقیق و دقت سے کام لیتے ہو،لیکن اتنے اہم موضوع پر تھقیق کیوں نہیں کرتے ہو؟؟قرآن مجید اور اسلام کی تاریخ میں 100 میں سے 90 فیصد کا تعلق شرک سے جنگ ہے، لیکن تم نے شرک کے معنی کو بھلا دیا ہے اور لوگوں کو ایسے کاموں میں مشغول کر رکھا ہے کہ جس میں نہ ان کا دنیوی فائدہ ہے اور نہ آخرت میں کوئی فائدہ۔ؔ
 مجھے واقعی ہنسنا آتا ہے کہ جب میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ جو اسلام کے دعویدار ہیں،یا اس کی حمایت کا دعوی کرتے ہیں،اسلام کی اساس اور رکن اول توحید ہی ہے،تم نے توحید سے کیا فائدہ حاصل کیا؟اگر کوئی مادی شخص  مکمل توحید کا دعوی کرے تو وہ اس سے قریب تر ہے،لیکن اس کے مقابلے میں تم لوگوں نے ہزاروں پتھروں،قبروں کی لکڑیوں،اور صاحب قبر کو موثر اور اختیارات والا سمجھ رکھا ہے!!
قرآن میں چند جگہ کہا گیا ہے کہ خود پیغمبر اکرم ص غیب نہیں جانتے ہیں،اور چند جگہ یہ کہا گیا ہے کہ آپ بھی دیگر بشر کی طرح بشر ہے فرق یہ ہے کہ آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی اکرم ص اپنے لیے کسی فائدہ یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔
﴿ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسي‏ نَفْعاً وَلا ضَرًّا﴾ [الأعراف:188] 
لیکن تم لوگوں کے لیے تو امام زادہ داود کے متعلق بھی یہ عقیدہ رکھنا قبول نہیں(کہ وہ نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں)،چہ جائیکہ یہ مانیں کہ محمد ص اپنا فائدہ یا نقصان کا ختیار نہیں رکھتا اس کو مانیں!!
رسول اللہ ص کے ایک خاص صحابی ابن مکتوم اندھے تھے،نہ تو خود انہوں نے رسول اللہ ص سے بینائی مانگی اور نہ رسول اللہ ص نے ان کے لیے ایسا کیا،علی ؑ کے بھائی عقیل اندھے ہو گئے تھے نہ تو انہوں نے اپنے بھائی علی کی نذر مانی کی بینائی واپس آجائے اور نہ علی ؑ  عقیل کو اندھے پن سے شفا دے سکے!لیکن تم کہتے ہو کہ تربت امام (خاک کربلا) ہر بیماری سے شفا ہے اور ہر مشکلات و آفات سے یہ تربت بچاتا ہے۔
تمہاری یہ بات درست نہیں ،اگر تم اللہ کے دین سے مذاق کرنا چاہتے ہو یا لوگوں کا جانی نقصان چاہتے ہو،اگر مذاق نہیں کر رہے لوگوں سے کھیل نہیں رہے  اور اپنی بات میں سنجیدہ ہو تو بیٹھے کیوں ہو؟ کھڑے ہو جاؤ اور ان تمام ہسپتالوں کو بند کرو، تمام دوا خانوں کو بند کر دو،اور میڈیکل کالجوں کو بھی ختم کرو،اور فارمیسی دواسازی کو بھی روک دو۔کیونکہ ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔لیکن اگر تم یہ کہتے ہو کہ عقیدہ و ایمان کا تقاضا ہے کہ خاک شفا کو لازم جانیں،تو اس کا آسان حل ہے،کیا تم خود عقیدہ و ایمان کے حامل نہیں ہو(جب بیمار ہوتے ہیں تو ایران سے باہر ممالک جا کر اپنا علاج کرتے ہیں جیسے آیت اللہ نجومی وغیرہ ہر مجتہد باہر ممالک جاتا ہے بیچاری عوام کو خاک کربلا کا چونا لگاتے ہیں)؟ تو پہلے اس خاک شفا کو خود پر آزماؤ کہ بیماریوں سے شفا ملتی ہے یا نہیں؟ لوگ جس وقت دیکھیں گے اپنی آنکھوں سے تو عقیدہ بن جائے گا ان کا بھی۔اور اس کے نتیجے میں سب لوگ ایمان لائیں گے اور لوگ دنیا میں بیماریوں اور ادویات پر پسہ خرچ کرنے سے بے چارے بچ جائیں گے۔
تم خود ہی تو کہتے ہو کہ کسی کے لیے (پختہ)قبر بنانا درست نہیں، جیسا کہ اسی کتاب الکافی میں چند احادیث  پیغمبر اور آئمہ سے نقل کی گئی ہے جس میں انہوں نے یہ وصیت کی ہے کہ ہماری قبر کو زمین سے 4 انگلیوں کے برابر اونچا رکھنا،اور کچھ جگہ کہا ہے کہ ہماری قبر صرف چار انگلیوں کے برابر بلند رکھیں۔
 اور اس پر پانی چھڑکیں(ڈالیں)۔اس سے معلوم ہوا کہ زمین سے 4 انگشت اونچا اسی لیے رکھا جائے تاکہ پانی ڈالنے کے بعد اور وقت گزرنے کے بعد یہ قبر زمین کے برابر ہو جائے،جیسا کہ دوسری جگہ لکھا ہوا ہے ایک روایت میں کہ نبی کریم ص اور صحابہ کے قبور زمین کے برابر یا ہموار تھے۔اور یہ حدیث کافی جگہ آیا ہے کہ علی ؑ فرماتے تھے کہ میں کیا تمہیں اس کام پر روانہ نہ کروں جس کا حکم دے کر رسول ص نے مجھے بھیجا تھا کہ جو قبر زمین سے اونچا ہو اس کو ہموار کریں اور تمثال جو نظر آئیں ان کو مٹا دیں أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ، لا تَرَى قَبْراً مُشْرِفاً إِلا سَوَّيْتَهُ وَلا تِمْثَالاً إِلا طَمَسْتَه ۔اب پوچھنا چاہیے کہ جب تمہارے پاس یہ احکامات موجود ہیں(جن میں سے کچھ کا یہاں ذکر ہوا)،پھر کیسے تم اجازت دے سکتے ہو کہ قبروں پر گنبد اور بارگاہوں کو بنائیں؟؟
   کہتے ہیں کہ کہ کیا بزرگان دین سرباز گمنام اور فردوسی سے ان کا مرتبہ کچھ کم نہیں،پھر کیوں ان کے قبروں پر تعمیرات ہو اور بزرگان دین کے قبروں پر ہم تعمیرات نہ کریں؟ ہم کہتے ہیں کہ تم دوسروں کے مقلد نہیں ہو(خود مجتہد ہو)۔وہ کیا کرتے ہیں اس سے تہمیں کیا لینا دینا،تمہیں تو روایات و احادیث میں منع کیا گیا ہے کہ قبروں پر کچھ تعمیر کریں ان مناہی کا کیا کرو گے۔اور اس کے علاوہ غیر کا اھترام عبادت ہے ،تم قبر کو باب الھوائج کہتے ہو،اور ان قبروں پر زیارت جامعہ پڑھتے ہو جو مکمل شرک ہے،تم خاک قبر پر سجدہ بھی کرتے ہو،کیا ان کا کام اور تمہارے کام ایک جیسے ہیں؟
   یہ کہتے ہیں کہ جب کسی حاکم شہر(یا بادشاہ) سے کوئی کام ہوتا ہے تو اس کے دربان کو پہلے تلاش کیا جاتا ہے،کیا خدا تعالی کسی حاکم کے بقدر نہیں ؟ ہم کہتے ہیں تم نے غلطی کی ہے ،تم نے خدا تعالی کو جو ہر جگہ حاضر ہے اس کو ایک حاکم سے تشبیہ دی ہے جو اپنا کام اپنے وزیر یا دربان کے ب غیر نہیں کر سکتا؟ 
وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا
ہمارے آج کے دین میں ہم کہتے ہیں کہ اصول دین میں سے دوسرا عدل ہے،لیکن گندم نما جو فروشوں کی طرح ہم نے خدا سے ایسے اعمال منسوب کیے ہیں جس کے کام (نعوذ باللہ) ظالمانہ(عدل کے برخلاف) اور اس کے کام بچگانہ ہیں۔کیونکہ یہ خدا زیادہ کام کرنے والے(مزدور کو) کم اجرت دیتا ہے اور کم کام کرنے والوں کو زیادہ(خلاف عدل ہے)،یہ خدا ہے کہ آج کچھ اٹل ارادہ کیا تو کل اپنے ارادے سے پھر گئے۔الکافی میں صحیح سند سے روایت ہے کہ خدا نے امام قائم کے قیام کو سنہ 70 ہجری معین کیا تھا،لیکن جب لوگوں نے امام حسین ع کو شہید کیا تو خدا( نے اپنا ارداہ بدل دیا) زمین والوں سے ناراض ہو گیا،اور سال 140 متعین کیا۔
إِنَّ اللهَ تَعَالَى كَانَ وَقَّتَ هَذَا الأمْرَ [أي قيام القائم] فِي السَّبْعِينَ [أي سنة 70 هـ] فَلَمَّا قُتِلَ
الحُسَيْنُ اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى أَهْلِ الأرْضِ فَأَخَّرَهُ إِلَى أَرْبَعِينَ وَمِائَةِ سَنَةٍ، فَحَدَّثْنَاكُمْ فَأَذَعْتُمُ الحَدِيثَ وَكَشَفْتُمْ قِنَاعَ السِّتْرِ فَأَخَّرَهُ اللهُ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ وَقْتاً عِنْدَنَا
ایک اور روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق ع نے اسماعیل کو اپنا جانشین (اگلا امام)بنایا،لیکن اسماعیل فرزند جعفر صادق سے ایسے اعمال سرزد ہوئے کہ ان کو پسند نہ آیا،اور موسی کو اپنا جانشین بنایا۔جب پوچھا کہ ایسا کیوں ہوا تو فرمایا کہ خدا کو "بدا" ہو گیا۔بدا لِـلَّهِ في إسماعيل!
اگر خدا ایسا ہی ہے جیسے ان اھادیث میں بیان ہوا تو ہر بے سر و پا کو حق ہے کہ وہ (نعوذ باللہ ) خدائی کا دعوی کرے۔
یہ خدا ایک زیارت یا ایک عزاداری کا ثواب ہزار شہیدوں کے ثواب کے برابر،بلکہ ایک روایت میں 1 لاکھ شہیدوں کے برابر،اور ایک روایت میں 10 لاکھ شہیدوں کے برابر ثواب کہا ہے۔درست ،اگر واقعی خدا ایسا ہی ہے جیسے ان روایات میں بتایا گیا ہے کہ اس قدر ثواب دیتا ہے، تو ہم یہ کہیں گے کہ شہدائے بدر و شہدائے احد کتنے بدقسمت  تھے کہ ان کو یہ راز معلوم نہ ہو سکا کہ خڈا کے ہاں اس طرح کا ثواب حاصل کرنا کتنا آسان ہے(تم تو صرف ایک شہید کا ثواب مل گیا یہاں تو 10 لاکھ شہدا کا ثواب وہ بھی جان کی بازی لگائے بغیر)،بلا وجہ ان بیچاروں نے اپنی جان کو قربان کر دیا،اور ہم لوگ (ہمارے زمانہ کے لوگ) کتنے خوش قمست ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسا خدا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم آرام و سکھ میں ہے(جان کی بازی نہیں لگا رہے)،کھاتے بھی ہیں،پیتے بھی ہیں،اور ایک زیارت کر کے بدر کے ہزار شہدا کے برابر ثواب بھی کما لیتے ہیں۔[FB]

جب کہ سید احمد کسروی اپنی کتاب "شیعہ گری" میں لکھتے ہیں : "اسلام دو ہیں; ایک حقیقی اسلام جو محمد مصطفی ﷺ  لے کر آئے اور آپ کی وفات تک جو اسلام رائج رہا وہی حقیقی اسلام ہے۔ جب کہ دوسرا اسلام وہ ہے جو  رسول اللہ ﷺ  کی وفات کے بعد سے آج تک جو رائج(فرقوں کا) اسلام ہے وہ خرافاتی اسلام ہے "

امام علی ع  صرف قرآن (نہ کہ قرآن و سنت یا قرآن وعترت) کو نہج البلاغہ میں گمراہی کے زمانہ میں ہدایت کا امام "کانھم ائمۃ الکتاب ولیس الکتاب امامھم" قرار دے رہے ہیں اور حضرت فاطمہ ع اپنی مناجات میں قرآن کو کافی قرار دے کر "اور خدا نے جو کتاب نازل کی وہ جملہ کافی ہے ہدایت کیلے " مہر ثبت و تصدیق کی۔ اور خود قرآن میں "کیا ان لوگوں کیلے کافی نہیں جو کتاب ہم نے آپ پر نازل کی"؟ فرمایا گیا ہے۔  بہرحال ڈاکٹر مصطفی حسینی طباطبائی اور کچھ دیگر اہل قرآن شیعہ کسی حد تک "اہل قرآن" ہیں-
لعن اور شتم کو خلاف تعلیمات اہل بیت ع
 جدید شیعہ سب ولعن اور شتم کو خلاف تعلیمات اہل بیت ع قرار دیتے ہیں۔ اور اس طرز عمل کو شیعان معاویہ کا کرار قرار دیتے ہیں کہ کسی کو سب وشتم اور لعنت کیا جائے . اس کو نہج البلاغہ میں علی ع کے حکم کہ جب آپ کے شیعہ معاویہ اور اس کے شیعہ پر سب و شتم کر رہے تھے فرمایا کہ تم سب کرنے والے مت بنو اور امام جعفر صادق ع کا قول "جس نے کسی انسان کوکہا اے خنزیر، تو وہ ہمارا شیعہ نہیں" .اور دیگر حکم ائمہ ہدی ع کے خلاف سمجھتے ہیں۔اور تبراء کے نام پر دوسروں کے مقدسات کی توہیں کو برا خیال کرتے ہیں۔اور دعائے صنمی قریش اور زیارات عاشوراء جہاں خلفائے ثلاثہ پر لعنت وارد ہے، اہل بیت ع کے خلاف ایک جعل کردہ سازش سمجھ کر ان کو رد کرتے ہیں .
جمع صلاتین  بدعت 
ہل قرآن شیعہ نمازوں کے الگ الگ پڑھنے کے قایل ہیں اور علی ع نے نہج البلاغہ اور وقعہ صفین اور الغارات میں جو اوقات الگ الگ بتائے ہیں۔اسی کو درست قرار دیتے ہیں اور علی اصغر بنابی اور آیت اللہ برقعی کی مساجد میں پانچ وقت الگ الگ وقت میں اذان و نماز باجماعت کا اہتمام ہوتا تھا۔ اہل قرآن شیعہ اذان میں علی ع کی ولایت کی گواہی جس نیت سے خواہ قصد رجا بھی ہو بدعت سمجھتے ہیں البتہ یہ باقی الفاظ اذان اثناعشری کے مطابق ہی دیتے ہیں۔آغا سید مصطفی حسینی طباطبایی دو نمازوں کو اکھٹا کر کے پڑھنے کو بدعت قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک رسول ص نے غدیر خم کے روز باوجود سفر کی حالت میں ہونے کے نمازوں کو الگ الگ ان کے اوقات میں پڑھی،جب کہ ان کا کہنا ہے کہ امام حسین ع نے بھی کربلا میں روز عاشور(باوجود سفر میں ہونے کے ) نماز ظہر کو اس کے افضل وقت میں الگ کر کے پڑھی جمع کر کے عصر کی نماز کو ساتھ ظہر کے نہیں پڑھی۔ پس آغا مصطفی اور دیگر اہل قرآن شیعہ فکر کے حامل علما جمع صلاتین کو بدعت سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ جمع بین صلاتین خلاف قرآن ہے۔
سنیوں کے پیچھے نماز ترميم
اہل قرآن شیعہ چونکہ تقیہ کو رد کرتے ہیں اور علی ع کا خلفاء کے پیچھے ان کی اقتدا میں 25 سال نماز پڑھنا بطور تقیہ نہیں تھا کہ علی ع 25 سال منفرد اور بغیر جماعت کے نماز پڑہیں .بلکہ مسلمانوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہوئے اور خلفا کے پیچھے نماز پڑھی بغیر تقیہ و انفرادی نیت کے .اس لیے اہل قرآن شیعہ سنیوں کے پیچھے بغیر تقیہ اور انفرادی نیت کے بغیر نماز پڑھنے کو درست سمجھتے ہیں . [wiki]
شیعہ اصلاحات 

ایران میں عاشورہ
ایرانی حکومت عاشورہ کے ظلم کے خلاف مزاحمت اور شہادت کے نظریے کو اجاگر کرتی ہے۔ لیکن صدر روحانی گذشتہ ہفتے شاید اس نظریے سے ایک قدم آگے چلے گئے، جس میں انہوں نے کہہ دیا کہ ’عاشورہ کا ایک سبق مذاکرات اور منطقی استدلال ہے۔‘ عاشورہ کی متبادل روایات کو ایسی بعض روایات میں باغی ایرانی علما برداشت اور امن کا درس کا پیغام عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ متبادل عاشورہ عاشورہ کے روز پیش آنے والے نسبتاً کم ہیبت ناک واقعات کو اداکاری کے ذریعے دہرانے کے عمل کو کوئی فنڈنگ نہیں ملتی اور مقامی افراد یہ تقریبات خود منعقد کرتے ہیں۔ تعزیہ یونیسکو کے پاس ثقافتی ورثے کے طور پر درج ہے۔ ایران کے حکمراں علما تعزیے کے بارے میں منقسم آرا رکھتے ہیں اور چھوٹے قصبوں اور دیہات میں روایات پر بھی اختلافات ہیں۔ کچھ علما انہیں قابلِ قبول سمجھتے ہیں جبکہ بعض انہیں بدعت قرار دیتے ہیں۔ بوشہر جیسی ساحلی علاقوں میں رہنے والی بعض برادریوں میں عاشورہ کے دن تقریب کے لیے بنائے گئے ساز و سامان کو سمندر کے پانی سے دھویا جاتا ہے، جبکہ شہر کرد جیسے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے عقیدت مند مشعلیں لے کر نصف شب پہاڑوں اور میدانوں میں گشت کرتے ہیں۔ بجر اور خورم آباد میں مقامی لوگ عرقِ گلاب ملے کیچڑ کو سر تا پا ملتے ہیں اور اردیبل نامی قصبے میں لوگ امام حسین کے جنگجوؤں کی یاد میں پانی کے مشکیزے لے کر چلتے ہیں۔ بعض دیہات میں مشکیزوں کی جگہ کجھور کے تنے اور ہاتھ سے بنی مصنوعات لے کر چلتے ہیں۔ بعض دوسرے شہروں میں جن میں خامنہ ای شہر شامل ہیں، عاشورے کے دن کو سوگ کا دن تو تصور کیا جاتا ہے لیکن لوگ رنگین لباس پہنتے ہیں۔ ریاست ایسی تقریبات کو ناپسند کرتی ہے کیونکہ نہ صرف انہیں باہر سے آنے والے اور غیر شیعہ افراد عجیب نگاہوں سے دیکھتے ہیں بلکہ عام ایرانی بھی جن میں اکثریت اس سے لاعلم ہے۔ زنجیر زنی تاریخی طور پر عاشورے کے دن زنجیر زنی اور خنجر زنی کی روایت پر علما اسٹیبلشمنٹ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس دن پارسا شیعہ خود پر تشدد کرتے ہوئے اپنے جسم سے خون بہاتے ہیں تاکہ یہ سرخی امام حسین کے خون کی یاد تازہ کی جا سکے۔ تاہم جب اس عمل پر سوال اٹھنا شروع ہوئے تو لوگوں نے اسے ریاستی نظریات میں پوشیدہ شدت پسندی کی مثال کے طور پر ظاہر کیا جس کے بعد مقتدر علما اس کی حوصلہ شکنی کرنے لگے۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے عبادت گزاروں کے اپنے سروں سے چاقوں کی مدد سے خون نکالنے کے ’قمہ زنی‘ نامی عمل کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ اس کے بعد قمہ زنی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیے گئے۔ پولیس کی ان کارروائیوں کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اس طرح کی عزاداری سے شیعہ اسلام کی رسوائی ہوتی ہے اور باہر کے لوگوں میں شیعہ عقیدے کے بارے میں منفی تاثر جاتا ہے۔ اسی طرح کی منطق دیگر روایتوں پر بھی لاگو ہوتی ہے اور علما اس پر عمل کرتے اور ان کی ترویج کرتے چلے آئے ہیں، لیکن جب انھوں نے اقتدار حاصل کر لیا تو خود کو اس سے دور رکھنے کی کوششیں کرنے لگے۔ مثال کے طور پر عاشورہ کی کہانیوں اور آنسو بہانے والی روایات عقیدہ نہ رکھنے والوں کو بے معنی لگتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کہانیاں ذاکر خود گھڑتے ہیں تاکہ اس بات کا کریڈٹ لیں سکیں کہ وہ کس طرح لوگوں کو رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک بار ایران کے رہبر اعلیٰ نے مداخلت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس طرح کی کہانیوں کو علما کی جانب سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ روایتی طور پر اپنی ناپسندگی بھی ان کہانیوں میں شامل ہوتی ہے اور حسین اور ان پیروکاروں کی جسمانی خوبصورتی بیان کے کرنے کے لیے ناموزوں زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ شیعہ مسلک کے بہت سارے پیروں کاروں نے اپنے گھروں میں دوکانوں میں امام حسین کی خیالی تصاویر لگا رکھی ہیں۔ ریاست کو ابھی جنگ جیتنی ہے۔
اللہ کی رسی قرآن کو پکڑو اور تفرقہ میں نہ پڑو
واعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص۔
اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو 
(سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 103)
(بیان القرآن، مفسر: ڈاکٹر اسرار احمد)
 پہلے آیت 101 ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے : وَمَنْ یَّعْتَصِمْ باللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے چمٹ جائے اللہ کی حفاظت میں آجائے اس کو تو ہدایت ہوگئی صراط مستقیم کی طرف۔ سورة الحج کی آخری آیت میں بھی یہ لفظ آیا ہے : وَاعْتَصِمُوْا باللّٰہِ اور اللہ سے چمٹ جاؤ ! اب اللہ کی حفاظت میں کیسے آیا جائے ؟ اللہ سے کیسے چمٹیں ؟ اس کے لیے فرمایا :
 وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ کہ اللہ کی رسی سے چمٹ جاؤ ‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔
 اور یہ اللہ کی رسّی کونسی ہے ؟ 
متعدد احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآن ہے۔
 ایک طرف انسان میں تقویٰ پیدا ہو ‘ 
اور دوسری طرف اس میں علم آنا چاہیے ‘
 قرآن کا فہم پیدا ہونا چاہیے 
 قرآن کے نظریات کو سمجھنا چاہیے ‘
قرآن کی حکمت کو سمجھنا چاہیے۔ 
انسانوں میں اجتماعیت جانوروں کے گلوں کی طرح نہیں ہوسکتی کہ بھیڑبکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے اور ایک چرواہا ایک لکڑی لے کر سب کو ہانک رہا ہے۔ 
انسانوں کو جمع کرنا ہے تو ان کے ذہن ایک جیسے بنانے ہوں گے ‘ ان کی سوچ ایک بنانی ہوگی۔ یہ حیوان عاقل ہیں ‘ باشعور لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ایک ہو ‘ نظریات ایک ہوں ‘ مقاصد ایک ہوں ‘ ہم آہنگی ہو ‘ نقطۂ ‘ نظر ایک ہو تبھی تو یہ جمع ہوں گے۔ اس کے لیے وہ چیز چاہیے جو ان میں یک رنگئ خیال ‘ یک رنگئ نظر ‘ یک جہتی اور مقاصد کی ہم آہنگی پیدا کر دے ‘ اور وہ قرآن ہے ‘ جو حبل اللہ ہے۔ 
حضرت علی رض سے مروی طویل حدیث میں قرآن حکیم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں : وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ
 حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا : کِتَاب اللّٰہِ ‘ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ اللہ کی کتاب کو تھامے رکھنا ‘
 یہی وہ مضبوط رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا :
 اَبْشِرُوْا اَبْشِرُوْا۔۔ فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ‘ طَرْفُہٗ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرْفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ  خوش ہوجاؤ ‘ خوشیاں مناؤ۔۔ یہ قرآن ایک واسطہ ہے ‘ جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ 
چناچہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ بھی قرآن ہے ‘ اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے کا ذریعہ بھی قرآن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعوت و تحریک کا منبع و سرچشمہ اور مبنیٰ و مدار قرآن ہے
 اس کا عنوان ہی دعوت رجوع الی القرآن ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی الحمد للہ اسی کام میں کھپائی ہے اور اسی کے ذریعہ سے انجمن ہائے خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان اکیڈمیز میں ایک سالہ رجوع الی القرآن کو رس برسہا برس سے جاری ہے۔ اس کو رس میں جدید تعلیم یافتہ لوگ داخلہ لیتے ہیں ‘ جو ایم اے؍ایم ایس سی ہوتے ہیں ‘ بعض پی ایچ ڈی کرچکے ہوتے ہیں ‘ ڈاکٹر اور انجینئر بھی آتے ہیں۔ وہ ایک سال لگا کر عربی سیکھتے ہیں تاکہ قرآن کو سمجھ سکیں۔ ظاہر ہے جب قرآن مجید کے ساتھ آپ کی وابستگی ہوگی تو پھر آپ دین کے اس رخ پر آگے چلیں گے۔ تو یہ دوسرا نکتہ ہوا کہ اللہ کی رسی کو مل جل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ 
یہ واضح ہے کہ " تجديد الإسلام" ؛ پہلی صدی کے اسلام دین کامل کا احیاء  ہی واحد راستہ ہے جو مسلم امہ کو اکٹھا کرکہ جدید چلنجز سے کا مقابلہ کرکہ دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے 
🌹🌹🌹
 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور کتاب حدیث پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ )( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ ، رسول اور جبرایل کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے کو کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-



پوسٹ لسٹ