متن حدیث
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَخْلَدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمُعَدِّلُ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي ، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ يَعْنِي الْمُحَارِبِيَّ ، ثنا صَالِحُ بْنُ مُوسَى , عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي
لا توجد ألفاظ غريبة بهذا الحديث (اس حدیث میں کوئی عجیب و غریب الفاظ نہیں ہیں۔)
https://islamarchive.cc/H_646521
عقل و شعور سے مطابقت
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل شناسا ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم ہوجائے اور تم اس سے قرب محسوس کرو تو میں اس بات کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور اگر کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل نامانوس ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم نہ ہو اور تم اس سے دوری محسوس کرو تو میں تمہاری نسبت اس سے بہت زیادہ دور ہوں۔ [مسند احمد حدیث نمبر: 22505]
"یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے" (الفرقان 25:1)
"حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے" (تفہیم القرآن, نوٹ1، 22:1)
شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں؛ "میں نے صحاح میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر دیتی ہیں۔ ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام خدا کو منسوخ کر سکتا ہے (نظام القرآن)
پس واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معیار حدیث : قرآن، سنت اور عقل کے مطابق ہونا ہے، اس بہترین میعار کو چھوڑ کر صرف اسناد کا طریقہ اختیار کیوں کیا ؟ جو اہم ہے لیکن بنیادی طریقہ وہ ہے جن میں سارے نقاط جن رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا شامل ہوں - بدعات نے اسلام کی روح کو مسخ کر دیا ہے-
مزید >>> بدعة، گمراہی (ضَلَالَۃٌ)
اب ایک دوسری مثال حدیثوں کی جو قرآن و سنت و عقل کے خلاف ہیں مگر علماء ان کو منسوخ کہنے کی جرات نہیں کرتے ... جبکہ ناسخ موجود ہیں ... اس کا مختصر جائزہ ...
کلمہ "لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ " پر جنت, احادیث اور قرآن و سنت
مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ، ان کی بربادی، تنزلی، معاشرتی بدعنوانی ، کریپشن، بےراہروی، فحاشی، ظلم اور انحطاط کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی معاشرہ میں قانون کی حکمرانی نہ ہو، سزا، جزا، انصاف کا نظام نہ ہو، سفارش، اقربا پروری، کسی خاص طاقتور سیاسی، مذہبی، مالدار شخصیت سے تعلقات کی بنا پر احتساب (accountability) کا خوف نہ ہو توپھرمعاشرہ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے-
دین اسلام میں ایمان ، نیک اعمال . حساب کتاب ، سزا جزا بینیادی عقائد ہیں مگر اس کے برخلاف مسلمانوں کی اکثریت میں یہ عقیدہ پھیلا دیا گیا ہے کہ جس کسی نے بھی کلمہ "لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ " کا اقرار کر لیا تو دوزخ اس پر حرام وہ سیدھا جنت میں چلا جائے گا- اس سلسلہ میں قرآن سے تو کچھ نہیں ملتا مگر کچھ احادیث, اس عقیدہ کو مدد فراہم کرتی ہیں، جبکہ بہت سی احادیث اس نظریہ کی تردید بھی کرتی ہیں-
اس اختلاف اور تمام اختلافات کا حل الفرقان (قرآن) دیتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی حل دیا جو سب سے پہلے بیان کر دیا ہے- مگر اس طرف جانے سے نفس و شیطان روکتا ہے- مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی بہت گناہگار مسلمان دوزخ میں چلا بھی جاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ یا کوئی شیخ، پیر. مرشد، بزرگ، ولی اللہ، عارف باللہ وغیرہ یوم حشر کو، اللہ کے عذاب سے شفاعت (سفارش) کرکہ چھڑوا لیں گے کیونکہ اللہ اپنے نیک بندوں کی بات مانتا ہے-
(تفصیل : https://bit.ly/Shfaat)
کلمہ گو پر دوزخ حرام ، جنت لازم اور اسی کے متضاد دوزخ سے شفاعت کے زریعہ سے نجات - یہ دونوں نظریات و عقائد آپس میں ایک دوسرے کے متضاد (mutually contradictory) ہیں- اگر کلمہ گو پر دوزخ حرام ہے تو پھر شفاعت کس کی؟ مزید یہ نظریات و عقائد اسلام کی بنیادی تعلیمات، "ایمان و عمل صالح" جس پر قران تسلسل سے زور دیتا ہے متضاد ہیں- "ایمان و عمل صالح"(قرآن کی 88) لازم و ملزوم میں- یہ ایک اہم بنیادی نظریہ ہے جو اسلام کو مسیحیت اور دوسرےانسانی مذاھب سے الگ کرتا ہے جو صرف ایمان کو نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں- اسلام میں یہ تضادات (contradictions) الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے نہیں پیدا کیں بلکہ یہ قرآن کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کے فرامین کو نظراندازکرنے کی وجہ سے خود ساختہ (self created) ہیں جیسا کہ اس تحقیق کے مکمل مطالعہ سے واضح ہو جا یے گا-
رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا احادیث میں تذکرہ ہے قرآن واحادیث کی روشنی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شفاعت "اذن الله تعالی" یعنی اللہ کی مرضی سے مشروط ہے- تو گویا حقیقۃ، اللہ تعالیٰ ہی شفیع ہوگا- شفاعت رسول اللہﷺ کا ایک اعزاز ہے- الله تعالی کے قانون کے مطابق یوم حساب کے دن ہرمومن کی نیکی اور گناہوں کو پلڑے میں تولا جائے گا جس کے گناہ کے پلڑے بھاری ہوئے، اپنی سزا بھگتیں گے-
قرآن کی 88 آیات میں 194مرتبہ " وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" کا ذکر ہے اور "الَّذِينَ آمَنُو" 232 آیات میں 540 مرتبہ ہے- یہ آیات بغیر "وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" کے جنت کے وعدوں کی احاددیث کو منسوخ کرتی ہیں- اور درج ذیل احادیث بھی شامل کر لیں:
شفاعت شروع ہو گی جب گناہگار مسلمان جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے پھر رسول اللہ ﷺ کو الله تعالی جن گناہگار مومنین کی شفاعت کرنے کی اجازت دیں گے ( مسلم حدیث: 459) [یہ ناسخ ہے ، وعدوں کی احادیث پر ]
پھر ان کو جنت کی طرف بھیج دے گا- لیکن رسول اللہ ﷺ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کر سکیں گے جس کی الله تعالی اجازت دیں اور وہ اس کے اہل ہوں- یہ نہیں کہ کوئی اپنی مرضی سے کسی کی شفاعت کرے جیسا کہ دنیا میں لوگ جائز و نا جائز کاموں کے لیے سفارش کرواتے ایسا الله تعالی کے روبرو نہیں ہوگا-
رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ بددیانت، خیانت کے مجرم جنہوں نے دوسروں کا حق مارا یعنی کسی پر سونے چاندی ، مال ، مویشی کا بوجھ ہو گا (حقوق العباد میں زیادتی کی) تو رسول اللہ ﷺ اس کی شفاعت کرنے سے انکار کر دیں گے (البخاری، 3073) [یہ حدیث بھی ناسخ ہے ، وعدوں کی احادیث پر]
کفار اور مشرک ابدی طور پر جہنم میں رہیں گے، جب تک الله تعالی چاہے- دنیا میں موت تک توبہ و استغفار(معافی) کا راستہ کھلا ہے ، الله تعالی شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کرتا ہے- معافی کا مطلب گناہوں کا اقرار، توبہ اور آیندہ گناہ نہ کرنے کا عہد ہے-
ایسی احادیث جو قرآن ، سنت اور عقل کے خلاف ہیں اوردوسری احادیث کی بھی ان کی تردید کرتی، اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں اور کنفیوژن و گمراہی پیدا کرتی ہیں، ان کورسول الله کے فرمان کی اتھارٹی سے مسنوخ قرار دینے میں یہ کی رکاوٹ نہیں ماسوا یہ کہ جس چیز کو وحی خفی بنا رکھا ہے، اس کے زریعہ دین کے احکام و نظریات میں ردو بدل (manipulation) کی جاتی ہے اس کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے جو خواہشات نفس کے غلاموں کو قبول نہیں-
شفاعت: مزید تفصیل : [ https://bit.ly/Shfaat]
جو لوگ قرآن کو نظر انداز کرتے ہیں وہ بروز قیامت پچھتائیں گے:
"ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا، اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت (قرآن) نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا" - اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کومتروک العمل ، نشانہ تضحیک بنا لیا تھا" [الفرقان (25) آیت 28 - 30)]
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں" (قرآن 10:15)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: ، 189) ( (سنن دارقطنی:۱؍۱۱۷)
"کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اورعقل سے کام لیتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے" (قرآن 25:43,44)
خواہش نفس کا خدا بنا لینے سے مراد اس کی بندگی کرنا ہے، اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بت کو پوجنا یا کسی مخلوق کو معبود بنانا۔
حضرت ابو امامہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ماتحت ظل السمآء من الٰہ یعبد من دون اللہ تعالیٰ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع، "
اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بد ترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہو "۔ (طبرانی)۔
جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہو کہ اس کے لیے صحیح راہ کون سی ہے اور غلط کونسی، وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا بھی ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جاسکتا ہے، اور یہ اعتماد بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کرلے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا۔
لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بےمہار ہے۔ اسے تو اس کی خواہشات جدھر جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔ اس کو سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے۔
پھر بھلا کون اسے سمجھا کر راستی کا قائل کرسکتا ہے۔ اور بالفرض اگر وہ بات مان بھی لے تو اسے کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنادینا تو کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جب "احادیث کتب" کی ممانعت کا حکم دیا :
"کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں"۔ [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم ]
مگر کچھ صحابہ اکرام کو کمزوری حفظ پر ذاتی نوٹس لکھنے کی انفرادی اجازت دی اور بہت کو انکار، البتہ حفظ و بیان کی اجازت عام تھی- اس حکم پر خلفاء راشدین سمیت سب صحابہ اور مسلمانوں نے صدیوں تک عمل کیا ، بدعات بعد کی پیداوار ہی- [تفصیل : https://bit.ly/Tejddeed ]
کتب حدیث پر پابندی کے حکم کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے عطا کردہ علم، حکمت و فراست سے معلوم ہوگیا ہو گا کہ احادیث میں تحریف ہو گی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا آسان حل بھی دے دیا جس سے عام مسلمان کے لیے بھی بآسانی، اصل اور نقل، مستند اور ضعیف، تحریف شدہ، موضوع احادیث میں فرق اور پہچان کرنا ممکن ہے اس سے آج بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت محمدﷺ سچے رسول اللهﷺ ہیں:
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
مگر اس طرح سے دین کے ٹھیکیداروں کی دکانیں بند ، فرقہ واریت ختم ہو جاتی لہذا انہوں نے أَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ کی بجائیے اپنا نیا سلسلہ ایجاد کیا جس سے ان کی قرآن اور دین کی اپنی مرضی کی احادیث کے ذریعہ تشریح کرنے سے گرفت مضبوط رہے-
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔"(رواہ البیہقی فی شعب الایمان) (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
دین میں کسی بھی فتنہ و بدعة کا تدارک صرف" أطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ" کے زریعہ ممکن ہے-مسلم صدیوں سے عقل پر پڑے پردے چاک کریں اور اللہ، رسول اللہ ﷺ کی بات مانتے ہوئے شیطانی خواہشات نفس کے پجاریوں کی پیروی ختم کرنا ہو گی-
اُولٰۤئِكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ وَلِقَآئِهٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فَلَا نُقِيۡمُ لَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَزۡنًـا ۞
"یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا۔ بس ان کے اعمال اکارت گئے اور قیامت کے دن ہم ان کو ذرا بھی وزن نہ دیں گے"(القرآن - سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 105)
وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوۡهُ وَاتَّقُوۡا لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَۙ ۞
اور یہ کتاب ( قرآن) ہم نے نازل کی ہے بڑی بابرکت تو تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (القرآن - سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 155)
اللہ نے ہماری ہدائیت کے لئیے صرف ایک کتاب، القرآن ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی، حس کی آیات محکم ہیں کوئی ضعیف نہیں ۔۔ کوئی شک نہیں ۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خطبہ حج میں فرمایا:
"اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب (قرآن) " (صحیح مسلم 2950)
حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم نے ارشاد فرمایا: ’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)
1۔ تجدیدالایمان : https://bit.ly/Aymaan 2۔ رسول اللہ ﷺ کا میعار حدیث : https://bit.ly/Hdees 3۔ تجدیدالاسلام : https://bit.ly/Tejddeed 4. شفاعت یا شریعت : https://bit.ly/Shafaat
5. تجدیدالاسلام-انڈکس : https://bit.ly/Tejdeed-Islam
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ کا تقاضا ہے کہ جو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار(قرآن، سنت ، عقل) کے مطابق ہوں ان کو قبول کریں اور باقی مسترد ، منسوِخ ، کیونکہ دین، شریعت کے معامله میں کسی شک، شبہ ، ملاوٹ کی قطعی طور پر گنجائش نہیں، یہ گنجائش تاریخ اور دوسری کتب میں ممکن ہوتی ہے-
رسول اللہ ﷺ نے اس فتنہ کے تدارک کا آسان بندوبست فرمایا مگر ہماری عقل پر پردے پڑ چکے ہیں ہم نہ اللہ نہ رسول اللہ ﷺ کی بات مانتتے ہیں، صرف خواہشات نفس شیطانی کے پیروکار بن چکے ہیں:
"کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اورعقل سے کام لیتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے" (قرآن 25:43,44)
اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں" (قرآن:(2:269)
"یقیناً الله کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے" (قرآن:8:22)
"اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر (گمراہی) گندگی ڈال دیتا ہے" (قرآن 100:10)
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ میں ہی نجات اور بخشش ہے، اپنے آپ کو بچاو اور دوسروں کو بھی کیونکہ:
"اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (القرآن; 8:25)[96]
"تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے- (قرآن: 3:104)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاوٴ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں."(القرآن 66:6)[97]
اپنے عزیزوں ، دوستوں احباب اور تمام مسلمانوں کے ایمان کی تجدید ہم سب کی زمہ داری پے اور اس نیک کام اجر اتنا زیادہ ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جتنے لوگوں کی "تجدید الایمان"] ہو گی ان کے نیک اعمال کا ثواب اپ کو بھی ملے گا لیکن ان کے آجر میں کمی نہ ہوگی۔ یہ تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہو سکتی ہے جب نسل در نسل "تجدید الایمان" منتقل ہوتی جائے گی تا قیامت ۔ اللہ کا فرمان ہے:
"جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا" (قرآن 4:85)
1۔ تجدیدالایمان : https://bit.ly/Aymaan 2۔ رسول اللہ ﷺ کا میعار حدیث : https://bit.ly/Hdees 3۔ تجدیدالاسلام : https://bit.ly/Tejddeed 4. شفاعت یا شریعت : https://bit.ly/Shafaat
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَکْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَکْذِبْ عَلَيَّ يَلِجْ النَّارَ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)
ترجمہ:
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ اس نے سنا حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگاحدیث کے راویوں کا جھوٹ بولنا
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَفَّانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ فَقَالَ عَنْ أَبِيهِ لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ مُسْلِم يَقُولُ يَجْرِي الْکَذِبُ عَلَی لِسَانِهِمْ وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْکَذِبَ (صحیح مسلم, حدیث نمبر: 40)
ترجمہ:
محمد بن ابی عتاب، عفان، حضرت سعید بن قطان اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ابن ابی عتاب نے کہا کہ میری ملاقات سعید بن قطان کے بیٹے سے ہوئی میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ کہتے تھے کہ ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے۔ [صحیح مسلم, حدیث نمبر: 40]
حدیث میں جھوٹ کی آمیزش
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ سَيَکُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي أُنَاسٌ يُحَدِّثُونَکُمْ مَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُکُمْ فَإِيَّاکُمْ وَإِيَّاهُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 15)
ترجمہ:
محمد بن عبداللہ بن نمیر، زہیر بن حرب، عبداللہ بن یزید، سعید بن ابی ایوب، ابوہانی، ابوعثمان مسلم بن یسار، حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت کے اخیر زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم سے ایسی احادیث بیان کیا کریں گے جن کو نہ تم اور نہ ہی تمہارے آباؤ اجداد نے اس سے پہلے سنا ہوگا لہذا ان لوگوں سے جس قدر ہو سکے دور رہنا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 15)
حدیث کی روایت میں تحمل احتیاط
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَسَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ سَعِيدٌ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ جَائَ هَذَا إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ يَعْنِي بُشَيْرَ بْنَ کَعْبٍ فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ عُدْ لِحَدِيثِ کَذَا وَکَذَا فَعَادَ لَهُ ثُمَّ حَدَّثَهُ فَقَالَ لَهُ عُدْ لِحَدِيثِ کَذَا وَکَذَا فَعَادَ لَهُ فَقَالَ لَهُ مَا أَدْرِي أَعَرَفْتَ حَدِيثِي کُلَّهُ وَأَنْکَرْتَ هَذَا أَمْ أَنْکَرْتَ حَدِيثِي کُلَّهُ وَعَرَفْتَ هَذَا فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّا کُنَّا نُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ لَمْ يَکُنْ يُکْذَبُ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَکِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ تَرَکْنَا الْحَدِيثَ عَنْهُ (صحیح مسلم حدیث نمبر: 19)
ترجمہ:
محمد بن عباد، سعید بن عمر، اشعثی، ابن عیینہ، سعید، سفیان، ہشام، حجیر، حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ بشیر بن کعب عبداللہ بن عباس کے پاس آئے اور ان سے احادیث بیان کیں ابن عباس نے بشیر کو کہا کہ فلاں فلاں حدیث دہراؤ بشیر نے ان احادیث کو دہرایا پھر کچھ اور احادیث بیان کیں ابن عباس نے اس کو کہا کہ فلاں فلاں حدیث کو دوبارہ دہراؤ بشیر نے وہ احادیث پھر دہرا دین اور عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے میری بیان کردہ سب احادیث کی تصدیق کی ہے یا تکذیب کی ہے جن کو آپ نے دہرایا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ہم اس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کیا کرتے تھے جب آپ ﷺ پر جھوٹ نہیں باندھا جاتا تھا پھر جب لوگ اچھی اور بری راہ پر چلنے لگے تو ہم نے احادیث بیان کرنا چھوڑ دیں۔
جھوٹی احادیث گمراہی اور فتنہ
وعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَکُوْنُ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ ےَاْتُوْنَکُمْ مِنَ الْاَحَادِےْثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوْا اَنْتُمْ وَلَا اَبَآؤُکُمْ فَاِےَّاکُمْ وَاِےَّاھُمْ لَا ےُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا ےَفْتِنُوْنَکُمْ (مسلم) [مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 151]
ترجمہ:
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ آخری زمانہ میں ایسے فریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے باپوں نے سنا ہوگا لہٰذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔ (صحیح مسلم) [مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 151]
وَعَنْہ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا اَنْ ےُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ۔ (مسلم) [مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 153]
ترجمہ:
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا انسان کے جھوٹ بولنے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جس بات کو سنے (بغیر تحقیق کے) اسے نقل کر دے۔ (صحیح مسلم) [مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 153]
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ نَحْوًا مِنْ أَلْفِ حَدِيثٍ قَالَ عَلِيٌّ فَلَقِيتُ حَمْزَةَ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ فَعَرَضَ عَلَيْهِ مَا سَمِعَ مِنْ أَبَانَ فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا شَيْئًا يَسِيرًا خَمْسَةً أَوْ سِتَّةً (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 79)
ترجمہ:
سوید بن سعید، علی بن مسہر سے روایت ہے کہ میں اور حمزہ زیات نے ابن ابی عیاش سے تقریبا ایک ہزار احادیث کا سماع (حدیث لکھتے نہیں حفظ کرتے اور سماع کرتے) کیا ہے علی نے کہا کہ میں حمزہ سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ اس نے نبی ﷺ کی خواب میں زیارت کی اور آپ ﷺ کے سامنے ابان سے سنی ہوئی احادیث پیش کیں آپ ﷺ نے ان احادیث کو نہیں پہچانا مگر تھوڑی تقریبا پانچ یا چھ احادیث کی تصدیق کی۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 79)
حادیث گھڑنا
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ رَقَبَةَ أَنَّ أَبَا جَعْفَرٍ الْهَاشِمِيَّ الْمَدَنِيَّ کَانَ يَضَعُ أَحَادِيثَ کَلَامَ حَقٍّ وَلَيْسَتْ مِنْ أَحَادِيثِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ يَرْوِيهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: 65)
عثمان بن ابی شیبہ، جریر، حضرت رقبہ بن مستعلہ کوفی سے روایت ہے کہ ابوجعفر ہاشمی حق اور حکمت آمیز کلام کو حدیث بنا کر نقل کرتا تھا حالانکہ وہ نبی کریم ﷺ کی احادیث نہ ہوتیں اور وہ روایت کرتا ان کو نبی کریم ﷺ سے۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: 65)
حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا مُوسَی يَقُولُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ قَبْلَ أَنْ يُحْدِثَ (صحیح مسلم:حدیث نمبر: 71)
سلمہ بن شبیب، حمیدی، سفیان، حضرت ابوموسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عمرو بن عبید سے سماع حدیث اس وقت کیا تھا جب اس نے احادیث گھڑنا شروع نہیں کی تھیں۔ (صحیح مسلم:حدیث نمبر: 71)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ قَالَ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ يَقُولُ لَمْ يَکُنْ يَصْدُقُ عَلَی عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْحَدِيثِ عَنْهُ إِلَّا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ (صحیح مسلم : حدیث نمبر: 25)
علی بن خشرم، حضرت ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں کہ میں نے مغیرہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ لوگ حضرت علی ؓ سے جو روایت کرتے ہیں اس کی تصدیق نہ کی جائے سوائے عبداللہ بن مسعود کے ساتھیوں کے۔ (صحیح مسلم : حدیث نمبر: 25)
رسول اللہ ﷺ کی الوداعی اہم وصیت، کتب حدیث اور تضاد Paradox
یہ بہت اہم حدیث ہے جو حدیث کے بظاهر پرجوش حامیوں کو "منکر حدیث" کے طور پر بے نقاب کر دیتی ہے- کیونکہ اگر وہ اس حدیث کو قبول کرتے ہیں تو، وہ حدیث کی کتب کی تحریرو تالیف پر پابندی کے بارے میں خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کے پابند ہیں، مگر وہ ایسا نہیں کرتے-
لہذا مباحثے میں اس حدیث پر خاموش ہوجاتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ حدیث کتب کی پابندی کو عملی طور پر قبول نہیں کرتے۔ اس حدیث کے مسترد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نافرمان ہیں، اور جو رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ ایک بدعت کو قبول کرنے سے انحراف، انکار (کفر لغوی) اور گمراہی کے سیلاب کے دروازے کھل جاتے ہیں- برادران اسلام سے درخواست ہے کہ عقل و دانش کا استعمال کرتے ہوے اسلام میں مکمل داخل ہو جائیں الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی مکمل اطاعت سے-
ترجمہ : 4607 اَلتِّرْمِذِيُّ 266 سنن ابی داود
عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ «ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه» ۱؎ نازل ہوئی ، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا : ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے ، آپ کی عیادت کرنے ، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں ، اس پر عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا : ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھرہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے پھر ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار (سنت ) کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے[سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 42 , سنن ابی داود 4607]
قرآن کا علم اورعمل راہ ھدائیت
مم وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: مَنْ تَعَلَّمَ کِتَابَ اﷲِ ثُمَّ اتَّبَعَ مَافِیْہِ ھَدَاہُ اﷲُ مِنَ الضَّلَالَۃِ فِی الدُّنْیَا وَوَقَاہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سُوْ ۤءَ الْحِسَابِ وَفِیْ رِوَایَۃِ ، قَالَ : مَنِ اقْتَدَی بِکِتَابِ اﷲِ لَایَضِلُّ فِی الدُّنْیَا وَلَا یَشْقٰی فِی الْاٰخِرَۃِ ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ (فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی)) (رواہ رزین)
(مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 185)
اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا اور پھر اس چیز کی پیروی کی جو اس (کتاب اللہ) کے اندر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں گمراہی سے ہٹا کر راہ ہدایت پر لگائے (یعنی اس کو ہدایت کے راستہ پر ثابت قدم رکھے گا اور گمراہی سے بچالے گا) اور قیامت کے دن اس کو برے حساب سے بچالے گا ( یعنی اس سے مواخذہ نہیں ہوگا) اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي) 20۔ طہ 123)
ترجمہ جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔ (رزین) (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 185)
رسول اللہ ﷺ کا کردار قرآن تھا
عن قتادة قُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ (عائشة) أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ میں نے کہا: ام المومنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کے بارے میں بتاینے۔
انہوں نے فرمایا:
کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟میں نے کہا ہاں. اس پر انہوں نے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کردار قرآن تھا۔
مزید تفصیل، اہم احادیث:
https://www.facebook.com/IslamiRevival
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
🔰 تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-
****************
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-
****************
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کلام الله، قرآن کو اس کی اصل حیثیت کے مطابق ترجیح کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کی اہمیت نہیں- “تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) سے بھی محبت رکھتا ہے لیکن حقیقی محبت کا اظہار اطاعت رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی! قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث” کی ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیارکے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُو) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر) وضع موجود (statues-que) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیارکے مطابق علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ درست احادیث کی ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں- جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے-
https://Quran1book.blogspot.com