ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے رہن ہے (كُلُّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِینَةٌ)
Every soul is held in pledge for its deeds
https://bit.ly/Haqoq-ul-Ibaad
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
شفاعت اور شریعت
Download Pdf: https://bit.ly/Shafaat
انڈکس
حصہ اول : شفاعت اور شریعت
- تعارف
- .قرآن سے لا تعلقی :
- ضعیف و موضوع احادیث، قصے، داستانیں:
- دین اسلام کی بنیاد
- شفاعت مگر کب؟
- قابل غور سوالات
- قرآن اور نظریہ شفاعت
- دوسروں کی سفارش کی اہمیت
- سفارش کرنے والے کا اعزاز
- شفاعت رسول اللہ ﷺ کا اعزاز
- شفاعت اور احادیث
- گردن پر سونا ‘ چاندی، مال و اسباب اور شفاعت؟
- "لا الہ الا اللہ" پر جنت کی خوشخبری اورشریعت؟
- منسوخ احادیث
- "لا الہ الا اللہ"
- "لا الہ الا اللہ" جنت کی چابی اور تاویل شریعت
- شفاعت یا ایمان، عمل صالح
- حرف آخر
- Endnotes / Links/ References
- ڈاؤن ؛وڈ کریں ای بک : Pdf: https://bit.ly/Shafaat
- حصہ دوئم: شفاعت ، مسیحیت، شریعت اور احادیث ... [......]
حصہ اول
شفاعت اور شریعت
تعارف
مشرکین عرب الله پر ایمان رکھتے تھے لیکن ان کا پورا مذہب، شفاعت کے عقیدے پر قائم تھا۔ ان کے نزدیک ان کے دیوی دیوتا اللہ کے حضور ان کے حمایتی اور سفارشی تھے پھر یہی شفاعت شرک میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن جاتی ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کا بیٹا بنا دیا اور مشرکین عرب معاذ اللہ اپنے دیوی دیوتاؤں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے کر ان کی پرستش اور عبادت کیا کرتے تھے۔ مسیحی اور یہودی اپنے اپنے نبیوں کو اللہ کی اولاد اور اس کا چہیتا کہتے ہیں اور اسی بنیاد پر نجات کے امیدوارہیں۔ قرآن نے شفاعت اور نسلی وابستگی کی بنیاد پر نجات کی نفی کی اور یہ کہ ہر مجرم کو اپنے جرائم کی سزا بہرحال بھگتنی ہوگی:
’’نہ تمھاری آرزووں سے کچھ ہونے کا ہے نہ اہل کتاب کی۔ جو کوئی برائی کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی کارساز اور مددگار نہیں پائے گا۔‘‘(النسا 4:123 )[1]
شفاعت کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنی ایک چیز کو دوسری سے جوڑنے کے ہیں اور اسی مفہوم سے یہ ترقی کرکے کسی بات کی تائید و حمایت یا کسی کے حق میں سفارش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ (تدبر 2/349) لغوی معنی سے قطع نظر اس کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن حساب کتاب کے وقت کسی فرد کا کسی خاص مذہب یا شخصیت سے وابستہ ہونا اور اس شخصیت کی سفارش کا مل جانا، اس کی نجات کا سبب بن جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال اس وقت مسیحیت ہے جو دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق ایک شخص جب سیدنا مسیح پر ایمان لے آتا ہے تو مسیحی عقائد پر اس کا یقین اور مسیح سے اس کی وابستگی اس کی نجات کے لیے کافی ہے-[2] قرآن نہ صرف جگہ جگہ ان کے شرک کی مذمت کرتا ہے بلکہ ان کے اس عقیدہ شفاعت کی بھی بھرپور تردید کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے اندراس مسئلے میں بہت ابہام پایا جاتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں:
قرآن سے لا تعلقی :
مسلمانوں میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا رواج نہیں اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا کچھ فرمایا ہے کیونکہ مسلمان قرآن کو مھجور(متروک العمل ) کرچکے ہیں (الفرقان 25:30)[3]
ضعیف و موضوع احادیث، قصے، داستانیں:
اگرچہ قرآن نے مختلف طریقوں سے قیامت کے دن ہر طرح کی شفاعت کی نفی کی ہے مگر بعض مقامات پر کچھ استثنا بھی دیا ہے۔ اسی استثنا کی وضاحت مختلف احادیث میں ملتی ہے۔ مگر جب ان احادیث کو قرآن پاک کی روشنی میں نہیں سمجھا جاتا اور پھر ان کے ساتھ ضعیف و موضوع روایات میں گھڑے ہوئے قصے، واعظوں کی داستانیں اور لوگوں کی خواہشات شامل ہوتی ہیں تو عوام الناس کی سطح پر معاملہ کی نوعیت وہی کچھ ہوجاتی ہے جس کی تردید پورے قرآن کا موضوع ہے-
بروز قیامت جب حقیقت سامنے ہو گی حساب کتاب ہوگا، سزا و جزا کے فیصلے ہوں گے، تو کہیں گے:
ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا (28) اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت (قرآن) نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا" (29) اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کومتروک العمل اور نشانہ تضحیک بنا لیا تھا" (قرآن 25:30[4])
اس لیے ضرور ی ہے کہ شفاعت کے حوالے سے دین کا موقف عام فہم انداز میں پوری طرح واضح کردیا جائے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ چند بنیادی باتوں کو سمجھ لیا جائے:
اور ڈرو اس دن سے جب کوئی آدمی کسی دوسرے کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے کوئی بدلہ قبول کیا جائے گا نہ اس کے حق میں کسی کی سفارش کام آئے گی اور نہ ہی اسے کہیں سے مدد مل سکے گی۔‘‘(البقرہ 2:123 )[5]
(اس دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور انسان کو وہی ملے گا جس کے لیے اس نے محنت کی ہوگی۔ اور اس کی یہ محنت بہت جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (النجم38-41 )
قرآن پاک اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ شفاعت کی اگر کچھ حقیقت ہے بھی، تب بھی اس پر تکیہ کرنے کی کوئی گنجائش کسی معقول انسان کے پاس نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیا اس لیے نہیں آئے تھے کہ لوگوں کو شفاعت کی بنیاد پر نجات کی امید دلائیں بلکہ وہ ایمان و عمل صالح [6]کی بنیاد پر نجات کی دعوت دیتے تھے اور جہاں تک شفاعت کے اس مروجہ تصور کا سوال ہے جس میں انسان ساری زندگی رب کی نافرمانی کرتا ہے اور پھر کسی ’’بزرگ‘‘ کے بھروسے پر یہ امید بھی رکھتا ہے کہ شفاعت کے ذریعے سے اسے نجات مل جائے گی تو یہ تصور دین کی بنیادی دعوت ہی سے متصادم ہے۔
دین اسلام کی بنیاد
ہر ایک باشعورمسلمان کو سوچنا چایے کہ: ہم اس دنیا میں کیوں ہیں؟ ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟ الله تعالی ہم سے کیا چاہتا ہے؟ قرآن کی تعلیمات کا خلاصہ کیا ہے؟ نجات اور بخشش کے لیے اہم ترین کام کیا ہیں؟ شفاعت کی حقیقت کیا ہے؟ کیا صرف "لا الہٰ اللہ" کا اقرار جنت کی چابی ہے؟ رسول اللہ ﷺ کا قائم کردہ میعار حدیث کیا ہے؟ کیا حدیث قرآن کے احکام کو مسنوخ کر سکتی ہے؟ کیا شریعت منسوخ ہو چکی ہے یا شریعت پر عمل بھی ضروری ہے؟
الله تعالی نے ان اہم ترین سوالات کا جواب قرآن میں مکمل تفصیل سے دیا اور مزید ہماری آسانی کے لیے ان کا خلاصہ صرف تین آیات میں دے دیا:
(ترجمہ) زمانے کی قسم ۞ انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے ۞ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۞ (قرآن,سورة العصر: 103) [تفصیل لنک[7]⟲پر]
بخشش یعنی جہنم کی آگ سے صرف وہی لوگ نجات پا سکتے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں:
(1) ایمان
(2) عمل صالح
(3) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا
(4) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔
دین و دنیا میں کامیابی کے لیے اول شرط "ایمان" ہے -
شرعی معنوں میں: (1) دل سے یقین (2) زبان سے اظہار(3) جسمانی طور پر عمل ، کا نام ایمان ہے-
جبکہ اطاعت سے ایمان میں اضافہ اور نافرفانی سے کمی واقع ہوتی ہے لیکن اگر ایمان کے اجزا میں قولی، فعلی طور پر تبدلی کریں تو ایمان کی اصل ، نوعیت ہی تبدیل جاتی ہے، ایمان کا الٹ کفر ہے۔
شریعت کیا ہے؟
عام طور پر اسلامی قوانین و حدود کے نفاذ کو شریعت سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ صرف شریعت کا ایک جزو ہے جس پر اسلامی حکومت عمل کرتی ہے- شریعت کا دوسرا اہم حصہ وہ ہے جو ہر ایک مسلمان مرد وعورت اپنے آپ پرخود نافذ کرتے ہیں جس میں عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں اخلاقی اقداراور عمل صالح پر عمل کرنا، حق کی تبلیغ کرنا اوربہت کچھ شامل ہے- شریعت دراصل قرآن و سنت پر مبنی اوامر و نواہی کا وہ نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے عمل کو منظم اور منضبط کرتا ہے۔
’’بندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ طریقہ جسے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا اور بندوں کو اس پر چلنے کا حکم دیا(جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰہ اور جملہ اعمال صالحہ)۔‘‘[ابن منظور، لسان العرب، 8 : 175]
’’شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بطور ضابطہ حیات جاری فرمائے ہیں۔‘‘[عبدالقادر الرازی، مختار الصحاح : 473]
نفاذ شریعت ایک سیاسی نعرہ بن چکا ہے جو دینی سیاسی رہنما گاہے بگاہے بلند کرتے رہتے ہیں- مگر شریعت کا دوسری حصہ جس پر مسلمانوں نے عمل کرکہ ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہے اس کا ذکر ناپید ہے جبکہ اس کے بغیر ریاست کے لیے قانوں شریعت کے نفاذ کی عملی صورت مشکل ہے-
پیو ریسرچ سنٹر(Pew Research Center) نے 39 مسلمان ممالک کے کے سروے میں مسلمانوں سے پوچھا کہ کیا وہ شرعی قانون ، قرآن اور دیگر اسلامی کتب پر مبنی قانونی ضابطہ چاہتے ہیں ، تاکہ ان کے ملک کا سرکاری قانون ہو۔ افغانستان میں تقریبا تمام مسلمان (%99) اور عراق میں زیادہ تر (%91) اور پاکستان ( %84) سرکاری قانون کے طور پر شریعت کے قانون کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر جب کرپشن انڈکس پر نظر ڈالتے ہیں تو مسلم ممالک آگے نظر آتے ہیں- افغانستان کرپشن میں دنیا میں (سکور 16) ساتویں نمبر پر ہے اور پاکستان (سکور32) جبکہ ٹاپ دس کرپشن فری ممالک میں مغربی ممالک ہیں کوئی مسلمان ملک نہیں- یہ ہے مسلمانوں کا شریعت (حصہ دوئم) پر عمل نہ کرنے کی وجہ سےاخلاقی میعار!
شرع اور شریعت سے مراد دین کے وہ معاملات و احکامات ہیں جو اللہ نے بندوں کے لئے بیان فرما دیے اور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ضابطہ حیات سے ثابت ہیں۔ شریعت سے اوامر و نواہی، حلال و حرام، فرض، واجب، مستحب، مکروہ، جائز و ناجائز اور سزا و جزا کا ایک جامع نظام استوار ہوتا ہے۔ شریعت ثواب و عذاب، حساب و کتاب کا علم ہے۔ شریعت کے اعمال دین کے اندر ظاہری ڈھانچے اور جسم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شفاعت مگر کب؟
ایک طرف قرآن کے احکام اور واضح تعلیمات ہیں جو ایمان اور عمل صالح پر زور دیتی ہیں اور دوسری طرف شفاعت! قرآن میں واضح ہے کہ شفاعت [8]کوئی نہیں کر سکتا جب تک کہ الله تعالی اجازت عطا فرماۓ- احادیث میں الله تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو شفاعت کی اجازت کا تذکرہ ہے مگر یہ جہنم سے نکلا نے کے متعلق ہے جس کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کی شفاعت کرکہ ان کو جہنم کی سزا سے بچا لیں گے، سزا تو بھگتی ہو گی مگر کب الله تعالی رسول اللہ ﷺ کو شفاعت کی اجازت دیتے ہیں؟ کوئی کتنی سزا بھگت چکے گا یہ صرف اللہ کو معلوم ہے:
لیکن کچھ لوگ جو اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے آگ انہیں جلا کر کوئلہ بنادے گی اس کے بعد شفاعت کی اجازت دی جائے گی ( مسلم حدیث: 459)
یہ مسئلہ بہت اہم ہے، جس کو بہت علماء گمراہ کن ظرئقہ سے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ عام مسلمان کو یہ تاثر ملتا ہے کہ بس جس نے کلمہ پڑھ لیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے وہ سیدها جنت میں ۔۔۔ مزے ہہی مزے ۔۔۔
لوگ ایک دو احادیث بیان کرکہ لوگوں کو خوش کرتے ہیں وہ گمراہ کرتے ہیں ۔ کسی موضوع پر ساری احادیث اور قرآن کئ آیات پڑھیں اور پھر اس سے قرآن کی روشنی میں نتیجہ (conclusion) اخذ کریں- ایسا عقیدہ، نظریہ جو قرآن کے خلاف ہو وہ نظر یہ درست کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسی حدیث مشکوک ہے، حدیث کا رسول اللہ ﷺ کے معیار[9] کے مطابق درست ہونا ضروری ہے نہ کہ کسی کے ایجاد کردہ طریقہ سے۔ حساب ، کتاب ، کے بعد گناہگار مسلمان جہنم میں سزا بھگتیں گے، پھر جب الله تعالی کا اذن (مرضی) ہو گی تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کی اجازت، اور سزا کے بعد ( نہ معلوم کتنا عرصہ، صرف قیامت کا دن 50000 سال کے برابر)-
قابل غور سوالات
عام دنیاوی معاملات میں شفاعت یا سفارش کرنے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، جیسے منصف پر اختیار اور اثر رسوخ، منصف کی حقائق سے لاعلمی، غصہ، منصف پر جائز ناجائزدباؤ جو کہ الله تعالی کے معامله میں لاگو نہیں ہو سکتیں تو الله تعالی کیوں اپنے قوانین اور اصولوں پر سمجھوتہ کرکہ کسی کی سفارش قبول فرمایے گا؟ اس لیے شفاعت کا مروجہ نظریہ صرف دین اور پروردگار کی صفات ہی کے خلاف نہیں بلکہ اس پر بہت سے عقلی سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم ہمیں صرف اس بنیاد پر خدا کے عذاب سے بچا لیں گے کہ ہم ا ن کے امتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ حضور ﷺ کا امتی ہونے میں ہماری کیا خوبی ہے۔ ہماری غالب ترین اکثریت صرف اس وجہ سے مسلمان ہے کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوگئی ہے۔ دین کبھی ہماری معرفت نہیں بنتا، ذاتی دریافت نہیں بنتا بلکہ تاعمر ہمارا تعصب بنا رہتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اگر کسی یہودی یا ہندو کے ہاں پیدا ہوجاتے تو ساری زندگی ہندو اور یہودی بنے رہتے۔
ہماری خوبی سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پھر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کا جرم کیا ہے؟ انہوں نے اپنے آپ کو ہندو یا عیسائی نہیں پیدا کیا۔ غور کیجیے کہ یہ اللہ کا کون سا عدل ہے کہ قیامت میں مسلمان تو صرف اس لیے بخشے جائیں کہ وہ مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوئے اور غیر مسلم اس لیے پکڑے جائیں کہ انہوں نے غیر مسلم گھرانوں میں جنم لیا ۔ کسی غیر مسلم نے اگر اللہ سے یہ سوال کر لیا کہ میں تو اپنی مرضی سے کسی غیر مسلم کے ہاں پیدا نہیں ہوا تھا، تونے پیدا کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ مجھے کیوں پکڑا جارہا ہے اور مسلمانوں کو کیوں چھوڑا جارہا ہے، تو اندازہ کرلیجیے کہ یہ اللہ کے عدل پر کتنا شدید حملہ ہوگا۔
یہودی اسی طرح کے غلط تصورات کا شکار تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اول تو انہیں عذاب دیں گے نہیں اور اگر اپنے عدل کی لاج رکھنے اور مخلوق خدا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اگر آگ میں ڈالا گیا تو چند دن بعد انہیں باہر نکال لیا جائے گا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنادیا۔ فرمایا:
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَعْدُودَةً قُلْ أَاتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ۔ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ (البقرہ 80،82)
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔[10]
قرآن اور نظریہ شفاعت
قرآن کا نظریہ شفاعت واضح ہے:
يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفّاً لا يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَاباً
جس دن جبرئیل اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔کوئی بات نہیں کرے گا مگر جس کو رحمن اجازت دے اور وہ بالکل ٹھیک بات کہے۔ (النبا 78:38)[11]
يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً
اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔ (طہ 20:109)[12]
ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ:
- روزِ قیامت اللہ کے حضور کسی کے بارے میں کسی قسم کی سفارش کی کوئی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ رحمن اس بات کی اجازت دے، ( اذن اللہ )
- بات کہنے والا بھی وہ بات کہے جو خلافِ عدل نہ ہو۔
- ہر کسی کے حق میں سفارش نہیں ہوسکتی بلکہ جس کے حق میں اجازت ہو گی صرف اسی کے بارے میں بات ہوگی۔
وہ کیا بنیاد ہے جس پر اللہ تعا لیٰ کسی کے حق میں سفارش کی اجازت دیں گے؟
قرآن نے اس بنیاد کو خود ہی واضح کردیا ہے۔ یہ بنیاد کسی مذہب، نسل یا شخصیت سے وابستگی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف توحید سے وابستگی ہے۔ اس قانون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں دو مقامات پر بالکل کھول کر بیان کردیا ہے۔ فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ۔ (النساء 4:48)
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ (النساء 4:48)[13]
اس قانون میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں۔
- ایک یہ کہ شرک کسی صورت میں نہیں بخشا جائے گا۔
- دوسرے یہ کہ شرک سے ہلکے جرائم چاہے ان کی نوعیت کچھ بھی ہو معاف کیے جاسکتے ہیں۔
- تیسری بات اللہ تعالیٰ نے خالص انسانی نفسیات کے پس منظر میں کی ہے ۔ وہ یہ کہ یہ معافی ہر شخص کے لیے نہیں ہوگی۔
اس تیسری بات کا مطلب سمجھنا اہم ہے۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جیسے ہی رعایت کا سنتا ہے فوراً گناہوں پر جری ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک عام شخص اس آیت سے یہ مطلب لے سکتا ہے کہ اگر میں شرک نہیں کرتا تو کوئی حرج نہیں، قتل اور زنا تو کر سکتا ہوں کیوں کہ اس کی معافی ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے تیسری بات سے یہ امید بھی توڑدی۔
یعنی کس کو معاف کرنا ہے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کریں گے۔ ہر شخص معافی کی یہ امید نہ رکھے۔ اوپر سورہ بقرہ میں یہود کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا، اس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ معافی کن کے لیے ہے اور کن کے لیے نہیں۔
اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں،جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرہ 2:80-81)[14]
ان آیات کو سورہ نساء کی آیت کے ساتھ ملاکر جیسے ہی پڑھا جاتا ہے اصل بات واضح ہوجاتی ہے کہ:
یہ معافی توحید پر قائم رہنے والے ان لوگوں کے لیے ہوگی جن کے گناہوں نے ان کا احاطہ نہیں کرلیا ہوگا، یعنی ان کے نامہ اعمال میں بالفرض بڑے بڑے جرائم ہوے بھی مگر یہ گناہ ان کے دن رات کا شغل اور زندگی کا معمول نہیں ہوں گے، تواس کی شفاعت کی امید کی جا سکے گی-
.گناہوں کی معافی کا قانون (قرآن :71:4 ﴾
حقوق الله تعالی اور حقوق العباد
یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرۡکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ ۘ لَوۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (قرآن :71:4 ﴾
"للہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معین تک۔ اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے موخر نہیں کیا جاسکے گا۔ کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا (قرآن :71:4 ﴾ (ترجمہ: ڈاکٹر اسرار احمد )
یعنی سب کے سب گناہ معاف ہونے کی ضمانت نہیں ‘ البتہ کچھ گناہ ضرور معاف ہوجائیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس کے لیے روز محشر متعلقہ فریقوں کے درمیان باقاعدہ لین دین کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اگر کسی کا حق غصب کیا ہوگا ‘ ظلم کیا ہوگا تو ایسے ظالم کی نیکیوں کے ذریعے سے متعلقہ مظلوم کی تلافی کی جائے گی۔ اس لین دین میں اگر کسی ظالم کی نیکیاں کم پڑجائیں گی تو حساب برابر کرنے کے لیے اس کے ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔ گناہوں کی بخسش، معافی پر تمام آیات و احادیث کو اس آیت (قرآن :71:4 ﴾ اور احادیث (بخاری، 3073..مسلم حدیث: 459) کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے-
عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اللهم إني اتخذت عندك عهدا لن تخلفنيه فإنما أنا بشر فأي المؤمنين آذيته شتمته لعنته جلدته فاجعلها له صلاة وزكاة وقربة تقربه بها إليك يوم القيامة
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ روای ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بارگاہ حق میں یوں دعا کی کہ اے میرے پروردگار! میں نے تیری خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے تو مجھے اس کی قبولیت سے نواز اور مجھے ناامید نہ کر۔ یعنی میں امیدوار کرم ہوں کہ میری درخواست ضرور ہی منظور ہوگی اور وہ درخواست یہ ہے کہ میں ایک انسان ہوں لہٰذا جس مومن کو میں نے کوئی ایذاء پہنچائی ہو بایں طور کہ میں نے اسے برا بھلا کہا ہو میں نے اس پر لعنت کی ہو میں نے اسے مارا ہو تو ان سب چیزوں کو تو اس مومن کے حق میں رحمت کا سبب گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور اپنے قرب کا باعث بنا دے کہ تو ان چیزوں کے سبب اس کو قیامت کے دن اپنا قرب بخشے۔ (بخاری ومسلم) [مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 2245]
دوسروں کی سفارش کی اہمیت
اللہ تعالیٰ اگر لوگوں کو اپنے ایک قانون کے تحت معاف کریں گے تو پھر اس میں دوسروں کی سفارش کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اصل میں سمجھ لینی چاہیے اور جسے نہ سمجھنے کی بنا پر ساری غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔
سفارش کرنے والے کا اعزاز
شفاعت میں دراصل اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک اس کا عدل جس کے تحت جب ایک شخص معافی کا مستحق ہوجاتا ہے تو اسے معاف کرنے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ دوسری صفت جس کا شفاعت میں ظہور ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ رحمت دو طرفہ ہوگی ایک طرف مجرم کے ذرہ برابر ایمان کو بھی قبول کرکے جنت میں داخل کردیا جائے گا اور دوسری طرف اللہ چاہے گا کہ اس موقع پر عزت کا تاج وہ اپنے کسی نیک بندے کے سر پررکھے۔ چنانچہ اس مجرم کے حق میں لوگوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔اور اس میں بھی شرط وہی ہوگی کہ پہلے اللہ تعالیٰ اجازت دیں گے اور پھر کہنے والا اللہ تعالیٰ کے قانون عدل کے مطابق ہی معافی کی درخواست کرے گا۔ معافی کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ پہلے ہی کرچکے ہوں گے اس لیے اس شفاعت کو قبول کرلیا جائے گا۔ یوں اس مجرم کو جنت میں دا[15]خل کردیا جائے گا اور اس سفارش کرنے والے کی ہر جگہ تعریف ہوگی۔
خبر دار! شفاعت قرآن کے بیان کردہ حدود و قیود کے ساتھ ہے، جس میں ہر مجرم کو اپنے کیے کی بدترین سزا بھگتنی ہوگی۔ جس میں کسی مشرک، سرکش اور گناہوں میں غرق مجرم کی معافی کا امکان نہیں۔ [وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ]
شفاعت رسول اللہ ﷺ کا اعزاز
شفاعت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی دعوت نہیں تھی۔ یہ اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور کی خدمات کا ایک بدلہ ہے۔ شفاعت حضور کا اعزاز ہے اس کا کسی مجرم کے گناہوں کی معافی سے کوئی تعلق نہیں۔ معافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے جو قرآن نے خود بیان کردیا ہے- شفاعت حضور کا اعزاز جس میں آپ کو دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے۔ اسی لیے حضور نے ہر اذان کے بعد مسلمانوں کو اپنے لیے دعا کے لیے کہا ہے۔ اذان نماز کا اعلان ہے اور نماز چونکہ توحید کا سب سے بڑا اظہار ہے، اس لیے یہ ایک مناسب موقع ہے کہ اس وقت حضور کے لیے مقام محمود کی دعا کی جائے (بنی اسرائیل 17:79)[16] مگرلوگوں کا یہ کمال ہے کہ اس دعا میں لوگوں نے زبردستی اپنے لیے شفاعت کی دعا کا اضافہ کردیا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی۔
شفاعت اور احادیث
شفاعت کے موضوع پر قرآن اوراحادیث کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ:
- جب قرآن پاک لوگوں کے علم و عمل کا محور نہیں رہتا تو دینی علم میں کتنے سنگین مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔
- شفاعت کے حوالے سے زیادہ تر غلط فہمی ضعیف روایات، گھڑی ہوئی داستانوں اور سب سے بڑھ اس انسانی خواہش سے پھیلی ہے کہ ہم دنیا میں گناہ کرتے رہیں اور قیامت کے دن ہمیں بغیر سزا کے چھوڑ دیا جائے۔ (کچھ ایسی احادیث بطورمثال علیحدہ حصہ دوئم میں)
- لیکن قرآن پاک ایک بالکل دوسری جگہ کھڑا ہوا ہے۔ شفاعت کے حوالے سے جو احادیث ہیں، انہیں رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ میعار[17] اور قرآن کے ضابطہ شفاعت کی روشنی میں ہی سمجھنا چاہیے۔
قرآن پاک کی طرح درست احادیث[18] میں بھی یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ کسی مجرم کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے آسرے پر نہیں رہنا چاہیے- قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ اس کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔
گنہگار مسلمان دوزخ میں کوئلہ، پھر شفاعت
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (جیسے کافر اور مشرک) وہ نہ تو مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے، آگ ان کو مار کر کوئلہ بنا دے گی۔ پھر اجازت ہو گی شفاعت ہو گی اور یہ لوگ لائے جائیں گے گروہ گروہ اور پھیلائے جائیں گے جنت کی نہروں پر اور حکم ہو گا اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو تب وہ اس طرح سے جمیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں جمتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔“( مسلم حدیث: 459)[19]
گردن پر سونا ‘ چاندی، مال و اسباب اور شفاعت؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول (خیانت) کا ذکر فرمایا ‘ اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔
لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں تو (اللہ کا پیغام) تم تک پہنچا چکا تھا۔
اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ :
میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ‘
یا (وہ اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ:
میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا۔
یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہوں جو اسے حرکت دے رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ
میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں تو (اللہ کا پیغام) پہلے ہی پہنچا چکا تھا۔
اور ایوب سختیانی نے بھی ابوحیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو۔ (بخاری، 3073)[20]
اللہ کا پیغام، قرآن بلکل واضح ہے !
صرف "لا الہ الا اللہ" پر جنت کی خوشخبری اورکیا شریعت منسوخ ؟
حضرت ابو ہریرہؓ رسول اکرم صلعم کے ہاں تشریف لے گئے۔ حضور نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ جا اور ہر اس شخص کو جنت کی بشارت لے دے ، جس نے زبان سے لآ الٰہ کہہ دیا ہو۔ ابو ہریرہ باہر نکلے تو سب سے پہلے حضرت عمر بن خطاب (رضی الله) سے ملاقات ہوئی اور یہ بشارت سنائی۔ حضرت عمرؓ نے ابو ہریرہ کی چھاتی پر گھونسا کھینچ مارا۔ جس سے وہ زمین پر گر پڑے۔ اور رونی صورت بنائے واپس دربار رسالت میں پہنچے۔ پیچھے پیچھے عمر بھی پہنچ گئے۔ حضورؐ نے پوچھا کہ اسے کیوں پیٹا ؟ کہا کیا آپ نے صرف "لآ الٰہ" کہنے پہ جنت کی بشارت دی ہے-
فرمایا ہاں ۔ عمر نے کہا ۔ از راہ نوازش ایسا نہ کیجئے ،ورنہ لوگ اعمال کو ترک کر دیں گے۔ فخلھم یعلمون (آپ لوگوں کو کام کرنے دیں) ۔ حضور نے فرمایا ، بہت اچھا۔ لوگوں کو کہہ دو کہ کام کریں (ملخص)
(صحیح مسلم ۔ کتاب الایمان۔ طبع مجتبائی ص 405 مع فتح الملہم، مشکوٰۃ المصابیح: 35[21])
ملاحظہ کیا آپ نے کتنی دلچسپ حدیث ہے۔ صرف دو لفظ (لآ الٰہ) منہ سے نکالو، اور جنت لے لو۔ نہ صوم نہ صلوۃ کی ضرورت ، نہ میدان جہاد میں لہو بہانے کی حاجت، نہ صدقہ و زکوٰۃ کے جھمیلے اور نہ جہاد اکبر و اصغر کے جھگڑے۔( شریعت منسوخ ؟)
دوسری دلچسپی یہ کہ حضرت فاروق بارگاہ رسالت کو حکم دیتے ہیں "ولا تفعل فخلھم یعملون" آپ لوگوں کو ایسی احادیث نہ سنایا کیجئے۔ مطلب یہ کہ ایسی احادیث سنا کر انھیں خراب نہ کیجئے۔ اور لوگوں کو کام کرنے دیجئے۔ یعنی مذہب کے معاملے میں حضرت فاروق سرور کائنات کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ اور لطف یہ کہ حضور اس حکم سے سرتابی کی جرات نہیں کر سکتے اور فرماتے ہیں فخلھم (بہت اچھا لوگوں کو کام کرنے دو)۔ بدیگر الفاظ رسول اکرم صلعم نے اعتراف فرما لیا کہ ان کی حدیث (من قال لا الہ) سے لوگ "بےعمل" ہو سکتے ہیں۔ غور فرمائیے کہ اس حدیث نے حضور پر نورﷺ کی منزلت کو کتنا کم کر دیا کہ ان کا ایک طفل مکتب انھیں سیدھا راستہ دکھا رہا ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابو ہریرہؓ اس قسم کی احادیث تراشا کرتے تھے۔ بلکہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ گھڑ کر ان کا نام جڑ دیتے تھے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ خود ابو ہریرہؓ بھی روایت میں قدرے غیر محتاط ہوں۔(واللہ اعلم)
شرک علامہ ذہبی نے ان کا یہ فقرہ نقل کیا ہے: قال ابو ھریرۃ لمقد حدثنکم باحادیث لوحدثت بھا فی زمن عمر بن الخطاب لضر بنی بالدرۃ (ترجمہ) حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسی ایسی احادیث بیان کی ہیں کہ اگر عمر بن الخطاب (رضی الله) کے زمانے میں روایت کرتا تو وہ مجھے دُرے سے پیٹ ڈالتے۔ (تذکرۃ الحفاظ ص 8)
ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں؛ حاشا وکلہ مجھے حدیث سے بغض نہيں۔ بلکہ انسانی اقوال سے ضد ہے۔ جنھيں یہودیوں ، زندیقوں اور ہمارے فرقہ باز رہنماؤں نے تراش کر مہبط الوحی صلعم کی طرف اس لئے منسوب کر دیا تھا کہ خدا ، رسول اور قرآن کا کوئی وقار دنيا ميں باقی نہ رہے (ماخوز از؛ دو اسلام ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق )[22]
کیا یہ حدیث سنت سے ثابت ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ اکرام نے اس کے بعد شریعت پر عمل ختم کردیا؟ نہیں ختم کیا، تو پھر اس حدیث اور اس طرح کی احادیث کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جو کہ قرآن و سنت کو منسوخ کرتی ہیں!
منسوخ احادیث
یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث جو کہ قرآن کی تعلیمات، سنت رسول اللہ ﷺ اور دوسری احادیث سے متصادم ہیں، رسول اللہ ﷺ کے[23] میعار حدیث پربھی پوری نہیں اترتیں اور لوگوں میں گمراہ کن عقائد کے پھیلانے، شریعت کی منسوخی اور بے عملی پھیلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں ان ضعیف[24] احادیث کو منسوخ ہونا چاہیے نہ کہ تاویلات کے زور پران کو شریعت کے مطابق درست ثابت کرنے کی کوشش کی جایے، ایسی تشریحات و تاویلات کو اکثریت قبول نہیں کرتی اپنی گمراہی، گناہوں اور بداعمالیوں کے باوجود فائدہ اور آسانی سے جنت کے حصول کے لیے-
بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامرو نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہوگئی ہیں، اور واجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی )[25]
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو مرضی کرو، کرپشن، زخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، دوسروں کا حق مارنا، رشوت خوری، زنا، قتل، بےحیائی، ناانصافی، ظلم ۔۔۔۔ شریعت پر عمل نہ کرو تو پھر جنت بھی مل جائیے گی، شدید غلط فہمی کا شکار ہیں- بروز قیامت جب حقیقت سامنے ہو گی حساب کتاب ہوگا، سزا و جزا کے فیصلے ہوں گے، تویہی لوگ کہیں گے:
"ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا (28) اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت (قرآن) نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا" (29) اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کومتروک العمل ، نشانہ تضحیک بنا لیا تھا" (قرآن 25:30[26])
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ اگر حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے۔[27]
شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں: "میں نے صحاح (ستہ)[28] میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر دیتی ہیں۔ ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام اللہ کو منسوخ کر سکتا ہے" (نظام القرآن)
"لا الہ الا اللہ": عقیدہ توحید
بہت سے دوسرے مذاہب میں بھی ہے لیکن وہ مسلمان نہیں، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام موحد بلآخر سزا کے بعد جنت میں جا سکیں گے؟ قرآن بھی شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی کا علان کرتا ہے- جو جزا و سزا کے بعد ممکن ہے یا جیسا الله تعالی چاہے-
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ (النساء 4:48)[29]
"لا الہ الا اللہ" جنت کی چابی اور تاویل شریعت
اور حضرت وہب بن منبہ ( وہب بن منبہ تابعی ہیں کنیت ابوعبداللہ ہے ١١٤ ھ میں آپ کی وفات ہوئی) سے مروی ہے کہ کسی نے ان سے سوال کیا، کیا لا الہ الا اللہ جنت کی چابی (کنجی) نہیں ہے؟ وہب نے کہا بےشک، لیکن کنجی میں دندانے بھی ضروری ہیں پس اگر تم ایسی کنجی لے کر آئے جس میں دندانے موجود ہیں تو (یقینا) اس سے جنت کے دروازے کھل جائیں گے ورنہ تمہارے جنت کے دروازے نہیں کھلیں گے۔ (بخاری ترجمۃ الباب) (مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 39)
حضرت وہب بن منبہ اپنی مجلس و عظ و نصیحت میں لوگوں کو عمل کی اہمیت بتا رہے تھے اور اس کے ترک پر تنبیہ کر رہے تھے کسی نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک (مشکوٰۃ المصابیح: 35) کا سہارا لے کر کہا کہ آپ تو عمل کے بارے میں اس شدومد کے ساتھ متنبہ فرما رہے ہیں حالانکہ لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی ہے یعنی جس نے صدق دل سے اللہ کی وحانیت کا اقرار کرلیا وہ جنت کا حقدار ہوگیا خواہ اس کی علمی زندگی دوسری نیکیوں اور صالح اعمال سے بھر پور ہو یا نہ ہو۔ اس پر وہب بن منبہ نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی ہے، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کنجی اس وقت کام کرتی ہے جب کہ اس میں دندانے بھی ہوں۔ اگر کسی کنجی میں دندانے نہیں ہیں تو ظاہر ہے اس سے قفل نہیں کھل سکتا، اسی طرح لاالہ الا اللہ اگر جنت کی کنجی ہے تو اس کنجی کے دندانے شریعت کے احکام و فرائض ہیں۔ پس جو آدمی شریعت کے احکام و قوانین پر عمل نہیں کرے گا تو گویا وہ آخرت میں ایسی کنجی لے کر آئے گا جس میں دندانے نہیں ہوں گے اور جب اس کی کنجی میں دندانے نہیں ہوں گے تو وہ جنت کا دروازہ کھول نہیں پائے گا۔ جنت کا دروازہ اسی صورت میں کھلے گا جب کلمہ توحید کی صداقت کا ایمان موجود ہو، زبان سے اس ایمان کا اقرار ہو اور عملی زندگی اس ایمان کی مظہر ہو بایں طور کہ دین و شریعت کی اتباع اور فرمانبرداری ایک ایک عمل سے ظاہر ہو۔ یا پھر دندانوں سے مراد نیک اعمال ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب تک اعمال نیک نہ ہوں گے، جنت کے دروزے ابتدا میں نہیں کھل سکتے، ہاں بعد میں جب بد اعمالیوں کی سزا مل جائے گی اور گناہ و معصیت کے دھبے دھل جائیں گے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔
شفاعت یا ایمان، عمل صالح
شفاعت قرآن کی دعوت نہیں ہے یہ نیک لوگوں کا ایک اعزاز ہے نہ کہ گناہ گاروں کی بخشش کا ذریعہ, ان کی بخشش تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون اور ضابطہ کے مطابق کریں گے۔
شفاعت کے اس پورے تصور پر جو قرآن پاک کی روشنی میں سامنے آتا ہے قابل غور یہ بات ہے کہ:
- اس میں مجرموں کے لیے کون سی امید اور خوشی کی بات ہے؟
- کون سا معقول آدمی چاہے گا کہ اس شفاعت پر وہ بھروسہ کرے جس میں بہت سی خواری جھیلنے اور بدترین سزا بھگتنے کے بعد (جل کہ کوئلہ بن کرپھر) آدمی جنت میں جائے گا؟
- کیا بہتر نہیں ہے کہ انسان قرآن کی تعلیمات[30] کے مطابق ایمان، اخلاق اور عمل صالح کے میدان میں ترقی کی کوشش کرے۔ اپنے گناہوں پر معافی مانگتا رہے اور اللہ سے صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کرے۔ تاکہ قیامت کے دن انسان پہلے مرحلے پر ہی نجات حاصل کر لے۔
- اگر کوئی اور سزا نہ ملے تب بھی صرف میدان حشر کے پچاس ہزار برس کی خواری بھی دنیا کی صرف پچاس، ساٹھ یا ستر سالہ زندگی کے ہر مزے کو خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔
"اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے" (طہ 20:109)[31]
کیا اس سے یہ بالکل واضح نہیں ہوتی کہ شفاعت کی اجازت دینے یا نہ دینے کا سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ کسی کے حق میں اجازت نہ دے تو کس کی مجال ہوگی کہ وہ کچھ کہہ سکے۔
یہ اجازت اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بنیاد پر دیں گے نہ کہ کسی انسان کی عظمت کی بنا پر۔ سورہ نبا اور سورہ طہٰ کی جو آیات ہم نے نقل کی ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نام ’الرحمن‘ استعمال کرکے اسے بالکل واضح کردیا۔ پھر سورہ نساء کی آیت 48 اور 116 جو اوپر نقل کی گئی ہیں یہ صاف بتاتی ہیں کہ اس شفاعت کا سبب توحید پر ایمان ہوگا۔اس لیے اس قسم کی شفاعت کو یقینی بھی بنانا ہے تو شرک کے شائبے سے بھی آدمی کو بھاگنا چاہیے۔ کیونکہ شرک کے بعد ہر قسم کی شفاعت کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔
حرف آخر:
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ شفاعت دین کی دعوت ہے اور اسی لیے اس کا ہمارے ہاں اتنا چرچا ہے۔ اصل میں یہ تصور عام لوگوں کو عمل صالح کی محنت سے بے نیاز کردیتا ہے۔ لوگ ساری زندگی اپنی خواہش نفسانی کی پیروی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی ’’ نیک، پاک بزرگ،‘‘ قیامت کے دن سینہ تان کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوجائے گا کہ جناب یہ میرا آدمی ہے آپ اس کو چھوڑ دیں۔ روز حشر اس چیز کا کوئی امکان نہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دین کی دعوت شفاعت کا تصور نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح[32] ہے۔روزِ قیامت جس شخص کے پاس یہ سرمایہ نہیں، اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ اسے کوئی نجات نہیں دلا سکتا۔[33]
[وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ]
حصہ دوئم: شفاعت ، مسیحیت، شریعت اور احادیث
- شفاعت ، مسیحیت، شریعت اور احادیث
- یہود و نصاری کی اندھی تقلید
- مسیحی عقیدہ نجات و شفاعت
- مسیحیت اور اسلامی شریعت منسوخ کرنے کی کوشش
- انجیل میں شریعت اور حضرت عیسی علیہ السلام
- پال کا گیارہ طرح سے قانون شریعت منسوخ کرنا
- قرآن: سزا و جزا،قانون شفاعت ، متضاد احادیث اورسینٹ پا
- رسول اللہ ﷺ کو قرآن میں کسی ترمیم یا نسخ کی اجازت نہیں
- غیر قرآن میں ہدایت نہیں گمراہی
- رسول اللہ ﷺ کا میعار حدیث
- قرآن کی شفاع
- قرآن کے منکرین کی شفاعت نہیں ہو سکتی
- ابن ماجہ، 3796
- وضاحت/ تاویلات
- خاتمہ بالا یمان جنت کی ضمانت
- رائی کے دانہ کے برابر ایمان جہنم میں نہیں داخل ہوگا
- شفاعت : (بخاری 7410)
- شفاعت : (بخاری، 7510)
- عقیدہ توحید پر جنت کی خوشخبری
- آنحضرت ﷺ کی شفاعت ( لاالہ الا اللہ )
- گناہ کبیرہ کی شفاعت صرف امت کے لئے مخصوص
- لا الہ الا اللہ کا اقرار
- بد دیانت شخص اور شفاعت؟
- سزا کے بعد دوزخ سے نکالنے کی شفاعت
- "لا الہ الا اللہ" جنت کی چابی اور تاویل شریعت
- شفاعت پر بھروسہ
- نتیجہ
Endnotes / Links/ References
[7] https://quran1book.blogspot.com/2021/10/Najaat.html
[8] https://tanzil.net/#search/quran/الشفاعة
https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html
[19] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=2&hadith_number=459
[20] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=3073
[25] http://www.equranlibrary.com/hadith/ibnemajah/1328/3796;jsessionid=MsPjiEytomE3qmiSduSLuqXO4HPEMruVBPiOkW4Y.vps217591
[26] https://tanzil.net/#trans/ur.kanzuliman/25:28
[27]تفہیم القرآن تفسیر. سورۃ نمبر 22 الحج, آیت نمبر 1 :نوٹ http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/022/1.html
[33] [بشکریہ "مسئلہ شفاعت قرآن و سنّت کی روشنی میں"(ریحان احمد یوسفی)]
رسول اللہ ﷺ پر استغفار کروانا آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ؕ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اِذْ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ جَآءُوۡكَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰهَ وَاسۡتَغۡفَرَ لَـهُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا ۞
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش مانگتا تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔(سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 64)
تفسیر:
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ؕ : اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے۔ یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ تمام معاملات میں اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کی جائے۔ ”باذن اللہ“ کا معنی اللہ کی توفیق و اعانت بھی کیا گیا ہے، وہ بھی درست ہے، معلوم ہوا ہر رسول واجب الاطاعت ہوتا ہے۔
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا : اپنی جان پر ظلم کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا اور آپ سے استغفار کروانا آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا، آپ کی وفات کے بعد کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر آیا ہو اور آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی ہو۔
حافظ ابن کثیر ؓ نے یہاں ایک بدوی کی حکایت نقل کی ہے، جس نے رسول اللہ ﷺ کی قبر کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کچھ شعر پڑھے اور کہا کہ میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ کو سفارشی بناتا ہوں، اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا، خواب میں آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ہے : ”اس بدوی کو بخش دیا گیا ہے۔“ لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے ذکر کردی گئی ہے، یہ نہ آیت کی تفسیر ہے نہ حدیث ہے۔
الصارم المنکی (ص : 238)“ میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے۔ اور نبی کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب دین میں دلیل بھی نہیں بنتا۔ آیت سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ سے دعائے مغفرت کروائی جاسکتی تھی، مگر آپ کی وفات کے بعد اس آیت کی رو سے قبر پر جا کر سفارش اور دعا کی درخواست کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔
جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ : اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ و استغفار ضروری اور کافی ہے، لیکن یہاں جو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور تو بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتا، تو یہ اس لیے کہ چونکہ انھوں نے جھگڑے کے فیصلے کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کر کے آپ کی شان کے نا مناسب حرکت کی تھی، اس لیے اس کے ازالے کے لیے انھیں آپ ﷺ کے پاس آنے کی تاکید فرمائی۔
(تفسیر القرآن الکریم، مفسر: حافظ عبدالسلام بھٹوی)
تفسیر ابنِ کثیر
اطاعت رسول ﷺ ہی ضامن نجات ہے
مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے-
پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا-
ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں حضور ﷺ کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیکم یا رسول اللہﷺ میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھی
باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ
فطاب من طیبھن القاع والا کم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم
[ترجمہ : جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان تمام میں سے بہترین ہستی، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے]
پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور ﷺ مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے
[ نوٹ:یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور ﷺ کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ جاءوک کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے [ رواه مسلم 5/73, الادب المفرد ,ابو داؤد و نسائى احمد بيهقى ) واللہ اعلم۔]
ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد رسول اللهﷺ میں آئے آپ نے فیصلہ کردیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا حضور ﷺ آپ ہمیں حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے ساراہی واقعہ کہہ سنایا حضرت عمر ؓ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے ؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کردیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے آگئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا اور کہا حضور ﷺ میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی، آپ نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کو بری کردیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہوجائے اس لئے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری( 4۔ النسآء :66)(ابن ابی حاتم) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے واللہ اعلم۔ دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے ؟ کہا یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب صدیق ؓ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو حضور ﷺ نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر ؓ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا (تفسیر حافظ ابو اسحاق)
تو اس آیت کا سیاق و ثبات (context), نزول سے بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سےاستغفار کروانا صرف آپ کی زندگی تک محدود تھا- ایک قصہ کی بنیاد پر نظریہ و عقائد کھڑے نہیں ہوتے صرف قرآن کی محکم آیات ، ام الکتاب (ال عمران آیات 7) عقائد کی بنیاد ہوتی ہے-
(واللہ اعلم)
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-