رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَﷺ


اس آخری کتاب کو محفوظ کیا اورنبی صلی اللہ و علیہ وسلم کو حکم دیا کہ قرآن کا پیغام ہدایت پہنچا دیں :

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ  مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ  مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ  اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ  لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۶۷﴾

اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔  اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی  اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا  بے شک  اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (5:67)

سنت رسول کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسے پورے اہتمام پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ انسانوں تک  الله کا پیغام زبانی عملی طور پر پہنچانے کے مکلف تھے:

فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۹۴﴾

پس آپ  اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے ۔  (15:94)

سنت نبوی  صلی الله علیہ وسلم  اور اسوہ حسنہ

آپ  صلی الله علیہ وسلم  نے کچھ نہ چھپایا ، قرآن پرعمل کرکہ سنت اور اسوہ حسنہ کا عملی نمونہ کھلےعام  ہزاروں صحابہ کے سامنے پیش کیا:

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾

در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (33:21)

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (قرآن:3:132)

 الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے

اطاعت رسول  صلی اللہ و علیہ وسلم

رسول کی اطاعت کا حکم قرآن میں  کم از کم  9 آیات میں براہ راست  ہے، اور مزید بھی :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو (47:33)

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)

جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾  إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾

 اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22) 

لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾

جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)

  کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں جو حدیث لکھنے کی ممانعت ظاہر کرتی ہیں ، اصل وجہ یہ ہے کہ یہود ع نصاری کی طرح کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں ہو گی ----

رسول اللہ ﷺ نے جب "احادیث کتب" کی ممانعت کا حکم دیا :

"کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں"۔ [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم ]


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو وہ اسے مٹادے-“ (صحیح مسلم،الزھد، باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابہ العلم، حدیث:3004)


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ ایک اور کتاب بھی لکھی جارہی ہے اللہ کی کتاب کوعلحیدہ کرلو اور اسے خالص رکھو-“  (مسند احمد: 3/12، حدیث:11092)


احادیث لکھنے کی ممانعت کی گئی۔ "امحضوا کتاب اللہ واخلصوہ۔" ….  اللہ تعالیٰ کی کتاب کو ہر قسم کے شائبۂ التباس سے پاک رکھو ۔

مگر کچھ صحابہ اکرام کو کمزوری حفظ پر ذاتی نوٹس لکھنے کی انفرادی اجازت دی اور بہت کو انکار، البتہ حفظ و بیان کی اجازت عام تھی- اس حکم  پر خلفاء راشدین سمیت سب صحابہ اور مسلمانوں نے صدیوں تک عمل کیا ، بدعات بعد کی پیداوار ہی- [تفصیل : https://bit.ly/Tejddeed ]

کتب حدیث پر پابندی کے حکم کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے عطا کردہ علم، حکمت و فراست  سے معلوم ہوگیا ہو گا کہ احادیث میں تحریف ہو گی، کیونکہ  رسول اللہ ﷺ نے اس کا آسان حل بھی دے دیا جس سے عام مسلمان کے لیے بھی بآسانی، اصل اور نقل، مستند اور ضعیف، تحریف شدہ، موضوع احادیث میں فرق اور پہچان کرنا ممکن ہے اس سے آج بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت محمدﷺ سچے رسول اللهﷺ  ہیں-


رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور سنت پر صحابہ اکرام نے بھی عمل کیا- سنت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے اہتمام سے امت میں جاری کیا ہے اور یہ اجماع و تواتر کے ذریعے سے ہم تک منتقل ہوئی ہے، اس لیے ثبوت کے اعتبار سے یہ قرآن ہی کی طرح قطعی ہے- سنت رسول کے متعلق دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں کہ آیا وہ سنت رسول   صلی الله علیہ وسلم  ہے یا نہیں۔ صحیح ، حسن ، ضعیف وغیرہ کی درجہ بندی نہیں-

رسول صلی الله علیہ وسلم  کی نافرمانی کا انجام -  رُسوا کُن عذاب جہنّم  :

 وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿4:14﴾       

  اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا  ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿4:14﴾ 

 یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)

 اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواور سن کر اس سے منہ نہ پھیرو ۔ (الانفال : ۲۰)

:"جس دن ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں۔تو وہ کہیں گے کاش! ہم نے اللہ کی اور رسول  صلی الله علیہ وسلم  کی اطاعت کی ہوتی۔"(الاحزاب:66) 

اس دن کافر اور وہ لوگ کہ جنہوں نے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  کی مخالفت کی،چاہیں گے کہ کاش ان کے ساتھ زمین کو برابر کر دیا جائے وہ تو اللہ سے کوئی بات بھی نہیں چھپا پا رہے۔" (النساء: 42)

اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کو (شرمندگی اور ندامت سے) کاٹتے ہوئے کہے گا،ہائے کاش! میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  کے طریقہ کو ہی اپناتا۔"(الفرقان: 27)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33) 

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول صلی الله علیہ وسلم  کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔

مرزا قادیانی نے ایک آیت قرآن کے مطلب میں اپنی طرف سے تحریف کر کہ مطلب نکالا اور گمراہ ٹھہر :
ا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
(حضرت ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبین ہیں ( سب نبیوں پر مہر۔ آخری نبی) اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ (٣٣:٤٠)
خاتم ، یعنی "ختم کرنے والا" .. دوسرا مطلب خاتم کا "مہر" بھی ہے آیا ، دونوں مطلب ہیں نبویت پر آخری مہر یعنی ختم ہو گیا نبوت کا سلسہ ... جیسے کسی خط لو مہر لگا کر بند کرکہ سیل کر دیتے ہیں ..
اطاعت  رسول اللہ ﷺ 
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِمَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يُطِعِ الْأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي وَإِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ قَالَ بِغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ عَلَيْهِ مِنْهُ. 
ترجمہ:
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ  جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور *جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ امام کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر اس کی آڑ میں  (یعنی اس کے ساتھ ہو کر)  جنگ کی جاتی ہے۔* اور اسی کے ذریعہ  (دشمن کے حملہ سے)  بچا جاتا ہے، پس اگر امام تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دے اور انصاف کرے اس کا ثواب اسے ملے گا، لیکن اگر بےانصافی کرے گا تو اس کا وبال اس پر ہوگا۔  [ بخاری،2957]


جو کوئی فرد یا گروہ اس کو تسلیم نہیں کرتا وہ باغی ہے ، فتنہ و فسادی ہے جس کی سزا قرآن نے رکھی ہے:

رسول   صلی الله علیہ وسلم  نے الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کی سنت پر عمل کا حکم دیا

سیدنا صدیق اکبر کے بعد امت کی راہنمائی کا فریضہ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔

” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)

” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)

رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧، صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥)

مزید پڑھیں  .... سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق ....[.....]


. تدوین,  احادیث اور  خلفاء راشدین 

قرآن کی کتابت کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله نے احادیث کی کتابت کا بندوبست نہیں کیا کیونکہ وہ فوائد سے زیادہ نقصان کو سمجھتے تھے- حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے  500 احادیث کے ذخیرہ کو تلف کر دیا-

حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے ایسا کرنے سے اتفاق کیا لیکن حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) ہچکچاہٹ میں رہے اور پورا ایک مہینہ الله سے رہنمائی اور روشنی کی دعا کرتے رہے بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام نہیں کیا جایے گا اور فرمایا کہ: “سابق لوگوں نے اللہ کی کتابوں کو نظر انداز کیا اور صرف نبیوں کی سنت پرپر توجہ مرکوز کی، میں اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے درمیان الجھن کا امکان قائم نہیں کرنا چاہتا- اس کے بعد انہوں نے تمام صوبوں کے مسلمانوں کو ہدایت کی: “جس کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے متعلق تحریری دستاویز ہے وہ اسے تتلف کردے”.

امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔

حضرت عمر رضی الله کا مشہور ارشاد  : ’حسبنا کتاب اللہ‘ [یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے] 

عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]

حضرت عمررضی الله کا فیصلہ کتنا درست تھا  یہ پہلی امتوں کے مذکورہ بالا تجزیہ اور امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال سے مکمل طور پرثابت ہے، امت قرآن کوصرف تلاوت تک محدود کر چکی ہے - حضرت عمر رضی الله کی بصیرت اورمرتبہ رسول اللہ صلعم کے اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ، اگر ان کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا تو عمر ہوتا- اسی لیے آپ   صلی الله علیہ وسلم  نے حضرت ابوبکر اوران کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے اور خلفاء راشدین کی سنت کے  اتباع کا حکم دیا تھا (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)

حضرت عمر رضی الله کے اس اہم ترین فیصلہ پر دوسرے خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور بعد کے حکمرانوں نے بھی    پہلی صدی حجرہ کے آخر تک اکثر صحابہ وفات پا چکے تھے-

جو حضرات حدیث کو بھی وحی کا درجہ دیتے ہیں تو وہ اس درج بالا حدیث کا عملی طور پر انکار بھی کرتے ہیں، کتابت حدیث کو درست اور جائز سمجھتے ہیں .. یہ تو کھلا تضاد ہے - 

سنت رسول ﷺ، عملی طور پر تواتر سے مسلمانوں سے اجتماعی طور پر نسل در نسل متقل ہوتی رہی ہیر یں کیونکہ یہ کسی ایک فرد یا چند افراد نہیں مسلمانوں نے اجتماعی طور پررسول  صلی الله علیہ وسلم  سے براہ راست حاصل کی جس میں کسی ابہام یا شک کی گنجائش نہیں - اسی لیے سنت  رسول  صلی الله علیہ وسلم  کا درجہ قطعی ہے، صحیح، حسن یا ضعیف نہیں ، سنت  متواتر کا درجہ قرآن کے قریب ترین ہے اس کا انکار کفر ہے- 

تیسری صدی حجرہ میں حضرت عمر کے حکم اورخلفاء راشدین کی سنت،  جس کوسختی سے پکڑنے کا حکم رسول  صلی الله علیہ وسلم  نے دیا تھا اس کے برخلاف احادیث کی مشہور کتب مدون ہوئیں جو قرآن کے ساتھ اہمیت اختیار کر گیئں، جیسا کہ پہلی امتوں نے کیا-

یہ بات  بہت اہم ہے کیونکہ یہ اقدام قرآن ، رسول الله  صلی الله علیہ وسلم   اور سنت خلفاء رشدین کے برعکس ہوا- اس کی شرعی حثیت کا بھی جائزہ لینا ہو گا  -

ایک مشہور روایت کا مفھوم ہے کہ ، شیطان عمر کو دیکھ کر راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلنے لگتا ہے۔ کچھ فرقے حضرت عمر رضی الله سے سخت نفرت کرتے ہیں اور کچھ بظاھر محبت دکھلاتے ہیں اور تنقید کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے- یہ حضرت عمر رضی الله کیرسول الله ﷺ، قرآن اور دین اسلام سے محبت کا کھلا ثبوت ہے-

مزید پڑھیں ، حضرت عمر (رضی الله ).....[...]

اگرچہ تیسری صدی حجرہ میں حدیث کی مشور کتب تحقیق اور محنت سے مرتب کی گیئں- لیکن کیونکہ دو سو سال سے زیادہ کا عرصۂ گزر چکا تھا اور اکثر احادیث خبر واحد ، یعنی کسی ایک راوی سے نسل در نسل منتقل ہوئیں- احادیث کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے-  کوئی انفرادی ، انسانی کوشش کتابت قرآن کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتی-

قرآن کی پہلی کتابت حضرت ابوبکر صدیق رضی الله کے دور میں ہوئی، زید بن ثابت کاتب وحی، حافظ قرآن کی نگرانی میں ہرآیت پررسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لیتے، مقصد یہ تھا کہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عین سامنے لکھی گئی آیتوں کو ہی لکھا جائے، محض حافظہ سے نہ لکھا جائے۔ ورنہ وہ خود بھی حافظ تھے، لکھ سکتے تھے-  حضرت عثمان (رضی الله)  نے بارہ افراد کی کمیٹی بنائی، اس طرح کتابت قرآن میں ایک فرد نہیں کم از کم بارہ نامزد صحابہ جن میں کاتب وحی اور حافظ قرآن زید بن ثابت سربراہ تھے- اس احتیاط  اور اعلی میعار تدوین قرآن کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا - [مزید تفصیل پڑھیں . ...] 

قرآن سے اختلاف ممکن نہیں مگراحادیث کی مختلف توجیہات سے بہت اختلافات اور فرقے بن چکے ہیں- اکثراختلافات فروعی نوعیت کےہیں مگر تکفیرکے فتوے لگتے ہیں، شدت پسندی سے فتنہ و فساد ہوتا ہے جبکہ الله کا حکم ہے :وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ( آل عمران،3 :103)

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)

اس حکم کے برعکس الله کی آخری کتاب ، قرآن پرتوجہ نہیں دی جاتی جو مسلمانوں کے زوال کی وجہ ہے، قرآن پر سمجھ کر عمل کرنے کی بجایے اسے صرف تلاوت تک محدود کردیا گیا ہے-

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

~~~~~~~~~

🌹🌹🌹
 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

پوسٹ لسٹ