رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا ممنوع Hiding Truth


 کسی بھی شخص کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرنا ہر اعتبار سے ایک ناجائز اور غیر اخلاقی فعل ہے لیکن اگر یہ جرم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا جائے تو اس کی سنگینی انسان کو کفر تک لے جاتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرتے وقت انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اور جب تک انسان کو یقینی علم حاصل نہ ہو، ایسی نسبت کا اقدام ہرگز نہیں کرنا چاہئے، عرب کے بت پرستوں نے اپنی طرف سے باتیں گھڑ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رکھی تھیں جن کی بنیاد کسی علم پر نہیں تھی بلکہ اپنے بے بنیاد اندازوں پر تھی جن کی حقیقت کا خود انہیں بھی علم حاصل نہیں تھا۔ اسی  طرح کچھ علماء، شیخ ، امام بھی  اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کو مستند قرار دینے کے لیے کلام الله کی ایسی تشریحات و تاویلات کرتے ہیں جو الله کا مقصد نہیں ہے- بغیر علم کے فتویٰ دینا  گمراہی کا راستہ ہے-

That mixing truth with falsehood and hiding the truth had become common practice among the People of the Book, this practice was for the purpose of misleading others.  They were warned about this religious evils:

“Why do you mix truth with falsehood and knowingly hide the truth?"[Quran 3:71]

It is a lesson that the Muslim sectarian scholars and modernists of our time are treating the Qur'an in the same way as their predecessors, the Torah and the Gospel, for worldly and material purposes. The Messenger of Allah (ﷺ) said:

"You will follow the wrong ways, of your predecessors so completely and literally that if they should go into the hole of a mastigure, you too will go there." We said, "O Allah's Apostle! Do you mean the Jews and the Christians?" He replied, "Whom else?" (Meaning, of course, the Jews and the Christians.) ](Muslim: 3456, Bukhari:6781)

Narrated by Abu Huraira: The Messenger of Allah came to us while we were writing Hadiths. And he said, "What is this that you are writing?" I said, ``Whatever Hadith we hear from you. He said:

 The previous nations (Jews and Charisitians) were only deviated (from the right way) when they wrote books with the Book of Allah.

" Abu Hurra said, "Can we talk about you, O’ Messenger of Allah." He said: "Yes, you can  talk about me and there is nothing wrong with that, but whosoever deliberately lied about me, let him take his seat in the fire." [Tqyad Ilm, Al-Bghdadi, 33, ]

However this practice of ‘hiding truth, mixing truth with falsehood’ in not new among Muslim scholars, immediately after 1st century Hijraj, they adopted this practice to support their deviations, concoted doctrines and theories. Allah has re[eatedly  warned:

“Do not mix truth with falsehood and do not deliberately hide the truth” (Quran;2:42)

Since they wanted to write down the books of Hadiths, prohibited by Prophet (ﷺ) they invented new theories and terminologies. Prophet (ﷺ) in his mercy had granted exemptions to make notes, to those with weak memory but declined to many including Abu Huraira, there Abdullah's and others. 

The terminology “Recited (Manifest) Revelations & Non Recited (Hidden revelations) or Wahi Jili (Matloo) & Wahi Khiffi (Ghair Matloo) (وحی متلو و غیر متلو) are not found in Quan or in any Hadith.  These are invention of religious elite  of second century Hijrah and later, to justify writing of Hadith books against commandments of  Quran, Sunnah of the Prophet , Rightly Guided Caliphs and pious Companions.

See more: Non Recited Revelations[ Ghair Matloo]: https://wp.me/scyQCZ-wahi2

اللہ پر ایسی باتیں کہنے کو حرام قرار دیا ہے جس کو وہ جانتے نہیں (وَّ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ) حرام ہے کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اس نے فرمائی ہے ۔ (قرآن 7:33)

 یاد رہے کہ اللہ کے ذمے بات لگانے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے بات لگانا بھی شامل ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کی بات ہے، اسی لیے جو جان بوجھ کر ان پر جھوٹ لگائے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
اس طرح  دین میں غلو اور نو ایجاد بدعات کا یہ لازمی خاصہ ہے کہ جو شخص ان چیزوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دین کی اصل اور اہم ضروریات سے عادة غافل ہوجاتے ہیں، اس لئے غلو فی الدین اور بدعت کا نقصان دوہرا ہوتا ہے، ایک خود غلو اور بدعت میں مبتلا ہونا گناہ ہے، دوسرے اس کے بالمقابل صحیح دین اورالله  ، رسول کی سنت کے طریقوں سے محروم ہونا۔( نعوذ باللہ منہ )
وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ( اور اللہ نے یہ بھی حرام کیا کہ تم اللہ کے ذمہ وہ باتیں لگاؤ جو تم نہیں جانتے) چونکہ اپنے برے کاموں کے بارے میں یوں بھی کہہ دیتے تھے کہ اللہ نے ہمیں ان کا حکم دیا اس لیے تنبیہ فرمائی کہ تم اپنی جہالت سے جو باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہو یہ بھی اللہ نے حرام قرار دیا۔  من گھڑت مسائل بیان کرنا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے-
بغیر کسی علم اور واقفیت کے اللہ تعالیٰ پر کوئی بہتان باندھنا یا تہمت لگانا یا اس کے دین میں الحاد اور کج روی اختیار کرنا اور اس کی ذات وصفات میں عیب لگانا وغیرہ یہ سب باتیں میرے رب نے بیشک حرام فرمائی ہیں۔

................
حضرت عمر (رضی الله) کا اہم ترین کارنامہ جس کا ذکر کرنا گناہ بنا دیا گیا 》》
https://quran1book.blogspot.com/2020/08/narrative.html

آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم

 الله  کے احکام  اور ہدایت کو چھپانا ممنوع  ہے- (قرآن 2:159), (2:174),  (3:187)

اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ ۞ 
(القرآن الکریم - سورۃ نمبر 2 البقرة ، آیت نمبر159))
ترجمہ:
بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (2:159)
 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾ 
 حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے (2:174)

واذا اخذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتب لتبینۃ للناس ولا تکتمونہ   (3:187)
ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلائو جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا  (3:187)

علماء  یہود و نصاری کا شیوہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام میں جو بات ان کے نظریات کے برخلاف ہو اس کو چھپاتے ہیں،   جیسے کہ تورات و انجیل میں رسول اللہ ﷺ کی واضح خوش خبری اور صفات بیان ہیں مگر وہ اسے چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں اس لئیے ان پر لعنت ہے۔ اب بہت سے مسلمان علماء بھی ان کی روش پر چل پڑے ہیں- 
اس  آیت  (2:159)  کے الفاظ عام ہیں، اس میں وہ مسلم علماء بھی شامل ہیں جو قرآن و سنت کی بات جانتے ہوئے اسے چھپا جاتے ہیں اور اپنے فرقے کی بات کو دین ظاہر کرکے بیان کردیتے ہیں۔ 

 جن لوگوں کا دینی لحاظ سے معاشرہ میں کچھ مقام ہوتا ہے اور ان کی اتباع کی جاتی ہے۔ مثلاً علماء، پیرو مشائخ، واعظ اور مصنفین وغیرہ ایسے حضرات اگر اللہ تعالیٰ کے واضح احکام اور ہدایات کو چھپائیں تو اس کا نتیجہ چونکہ عام گمراہی اور فساد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لہذا یہ لوگ بدترین قسم کے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے گناہ کے بار کے علاوہ اپنے بیشمار متبعین کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر اٹھاتے ہیں۔ لہذا ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے۔

جو لوگ آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات چھپاتے ہیں ان پر ان آیات میں شدید ترین تنقید کی گئی ہے۔ کون لوگ تھے وہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کو چھپاتے تھے ؟ سب سے پہلے ان سے مراد اہل کتاب ہیں ۔ لیکن قرآن مجید کی اس آیت  (2:174) کے مفہوم میں ہر مذہب وملت کے وہ لوگ شامل ہیں جو سوچنے سمجھنے کے باوجود حق کو چھپاتے ہیں ۔ کیوں چند ٹکوں کی خاطر ان مفادات کی خاطر جو وہ کتمان حق کے نتیجے میں حاصل کرتے ہیں یا اس لئے کہ انہوں نے کچھ مفادات پیش نظر رکھے ہوتے ہیں اور اگر وہ حق بیان کریں تو یہ مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں ۔ یا ثمن قلیل سے مراد پوری دنیا ہے ۔ کتمان حق سے یہ لوگ ثواب آخرت اور رضائے الٰہی سے محروم ہوجاتے ہیں اور یہ ایک عظیم خسارہ ہے ۔ اس کے مقابلے میں بیشک پوری دنیا ثمن قلیل ہے۔ 
 مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلا النَّار ” وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں ۔ “ حلال و حرام کے بیان کی مناسبت سے ان کے لئے یہ فقرہ استعمال کیا گیا ۔ یعنی حق چھپا کر وہ جو قلیل اجرت لیتے ہیں اور اسے کھاتے ہیں ، یہ دراصل ان کے پیٹ میں آگ ہوگی اور ان کا کھانا بھی آگ ہی ہوگی۔ انہوں نے حق کو چھپایا ۔ اس کے تحت سزا ملے گی انہیں ۔ انہیں قیامت کے دن ذلت اور اہانت کی حالت میں چھوڑدیاجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی توجہ اور نظر کرم سے وہ محروم رہیں گے اور اس حالت زار ، بےقدری اور ذلت کی تعبیر اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا يُزَكِّيهِمْ 
” قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا اور نہ ہی انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا۔ “
 ان کے ساتھ کوئی بات نہ ہوگی ، ان کا کوئی اہتمام نہ ہوگا ، انہیں پاک نہ کیا جائے گا اور ان کی مغفرت بھی نہ ہوگی ۔ اور انہیں مکمل طور پر نطر انداز کردیا جائے گا۔ یہ اس لئے کہ اہل ایمان کی نظر میں ان کی سزا خوفناک ہوجائے اور صورت حال عام لوگوں کے حس و شعور کے قریب ہوجائے وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ” اور ان کے لئے دردناک سزا ہے۔
آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم ....[....]

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
قرآن آخری کتاب یا کتب؟ تحقیق و تجزیہ 🔰
 🔰 ?The Last Book Quran or Books

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی, "قرآن" کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ... احادیث کی کتب  کے زریعہ قرآن کو پس پشت ڈال کر کہ مشرکوں کی طرح فرقہ واریت سے دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بزریعہ قرآن بحالی میں ہے  ..تفصیل  >>>>>>

پوسٹ لسٹ