رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

ایگزیکٹو خلاصہ (Executive Summary) رسالة التجديد تحقیقی مقالہ



بسم الله الرحمن الرحيم 

رسالة التجديد تحقیقی مقالہ - ایگزیکٹو خلاصہ

تحقیق و تحریر-  بریگیڈیئر آفتاب  خان (ر)

1 - تعارف :

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3)

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

"کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]


یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع کو نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- ایک سچنے مسلم کی خواہش اور کوشش ہونا چاہیے  کہ وہ اصل "دین کامل- اسلام"  کی بحالی کی عملی جدوجہد کرے جو کہ ان خرابیوں سے پاک ہو- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺب ہترین نمونہ  کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی متواتر سنت (عمل)  اوراحادیث (اقوال ) موجود ہیں - حدیث کا میعاررسول الله  ﷺ نے مقرر فرمایا اور محدثین نے بھی[1] لیکن جو احادیث اس میعار پر پورا نہ بھی اتریں، ان کا احترم کرنا چاہیے، فضائل، سیره اور تاریخی اہمیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے- قرآن مجید آخری رسول محمد صلی الله علیہ وسلم  پر تئیس سالوں میں نازل ہوا ، جو حفظ و تحریر کے ذریعہ محفوظ  کیاگیا- پہلے دوخلفاء راشدین مہدیین کی کوششوں کے نتیجہ میں  ،. کتاب کی شکل میں قرآن مجید کو اکٹھا کرکہ بعد میں دوبارہ جانچ پڑتال کے بعد ، تیسرے خلیفہ حضرت عثمان (رضی الله) نے قرآن کی مستند مجلد کاپیاں تیار کرواکہ امت میں قسیم کردیں ۔ قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله، راہ هدایت ہے-مسلمانوں کو  دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے "دین کامل: اسلام" کو بحال کرنے کی  پرامن انداز میں  کوشش کرنی ضروری ہے۔
اسلام دائمی دین ہے، ابراہیمی مذاہب کے مختصر جائزہ سےامت مسلمہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل تک پہنچنے میں آسانی ہو گی- الله کا فرمان ہے :
ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ  اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ  اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾
 پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے(16:123)

اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ  الۡحِسَابِ ﴿۱۹﴾
 بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے  اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے  اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے  اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے (3:19)

براہ کرم جب آپ یہ مقالہ پڑھتے ہو تو اپنے ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے تعصبات fixations  سے آزاد کریں… اگر آپ واقعتا  کچھ سمجھنا چاہتے ہیں تو صرف اس مقالہ پر توجہ مرکوز کریں اور سمجھ کر تبصرہ ، مفید کمنٹس، تجاویزدے کر اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں ...  بصورت دیگر اپنا وقت یہاں ضائع نہ کریں ...

 قرآن اللہ نے رسول پیر نازل فرمایا جو قرآن کا عملی نمونہ تھے اور ان کا أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ  ہمرے لے رول ماڈل (قرآن ٣٣:٢١) ہے- قرآن مکمل . محفوظ ترین کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا، جبکہ  سنت رسول الله ﷺ، عمل تواتر کی وجہ سے بھی محفوظ رہی-  احادیث کی کتابت کا اہتمام خلفاء راشدین نےکیوں ضروری نہ سمجھا، اس حقیقت کا تحقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جس پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے، کیوں؟ جبکہ  خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کا حکم رسول الله ﷺ نے دیا تھا-
2 - یہودیت ، مسیحیت اور الہامی کتب :
یہودیت اور مسیحیت ، امت محمدی سے پہلے کی امتیں ہیں جن کا قرآن میں بہت ذکر ہے جو گمراہ ہو گیئں، ان کے گمراہ کن اقدام سے سبق  حاصل کرنا ہے تاکہ مسلمان وہ غلطیاں نہ دہرائیں - یہودیت اور مسیحیت اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیه السلام سے جوڑتے ہیں ، ان کے عقائد کا ان کی الہامی کتاب بائبل کے ساتھ  جائزہ لیا جائیے تو واضح ہوتا ہے کہ ان کے مذاہب کا الہامی کتب سے واجبی سا تعلق ہے دعوی کی حد تک - ان کے مذاہب کی بنیاد عملی طور پر پیغمبروں کی تعلیمات اور الہامی کتب [تورات ، زبور ، انجیل] کے بجا یئے مذہبی رہنماوؤں کی تفاسیر، تشریحح اور نظریات پر ہے- 
3 - تورات اور تلمود 
یہود اپنی الہامی کتب [بائبل عہدنامہ قدیم (تورات اوریہودی کتب) اور مسیحی "عہد نامہ جدید"  کو مقدس سمجھ کر احترام کرہتے ہیں تلاوت کرتے ہیں مگر عملی طور پرمذہبی رہنماوؤں کی خود ساختہ تعلیمات ، نظریات اور رسومات پر زور ہے جن کا تاویلات کے زریعہ زبردستی پیغمبرون سے تعلق قائیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حضرت نوح ،ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کی توحیدی تعلیمات کا ذکر ملتا ہے مگر ان کی اصل الہامی کتب مفقود ہیں-
موجودہ بائبل میں پرانے عہد نامے کی پہلی پانچ کتابوں کے مجموعے کو تورات کہتے ہیں جس میں شامل کتب کے نام :  پیدائش، کتاب خروج، کتاب احبار، کتاب گنتی اور کتاب استثنا ہیں ۔ یہودی تورات کی بجایے تلمود پر زوردیتے ہیں. تلمود یہودیت کا مجموعہ قوانین ہے، جو یہوددیوں کی زندگی میں تقدس کا درجہ رکھتا ہے اور اسے یہودی تقنین میں دوسرا ماخذ قرار دیا گیا ہے۔ یہودی حاخامات کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے طورسینا پر موسی علیہ السلام پر دو شریعتیں نازل کی:
 (1) مکتوب شریعت 
(2)  زبانی شریعت 
یہودی علماء کے مطابق یہی "زبانی شریعت" اصل شریعت ہے، جو اللہ کی مراد اور مکتوب شریعت یعنی تورات کی حقیقی تفسیر ہے۔ 
 چنانچہ یہود کے اندر دہری شریعت کا آغاز ہوا اور 40 نسلوں تک یہ سری شریعت زبانی منتقل ہوتی رہی اور یہودی حاخامات زبانی و سری شریعت کی آڑ میں تورات کی من مانی تفسیر کرتے رہے۔ زبانی شریعت کے مکتوب نہ ہونے کی وجہ سے یہودی قوم متعین عقائد پر متفق نہیں تھی۔ ہر یہودی ربی کی اپنی تشریح و تفسیر ہوتی، جس پر اس کے خاندان اور متبعین یقین رکھتے تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسیحی کتب پر ایمان نہیں رکھتے -
[ تورات اور تالمود Torah and Talmud : https://salaamone.com/torah-talmud]
4 - مسیحت اور "عہد نامہ جدید" 
مسیحی لوگ ، بائبل کے عہدنامہ قدیم (تورات اوریہودی کتب) کومنسوخ مگر تاریخی اہمیت دیتے ہیں اور"عہد نامہ جدید"  پر ایمان رکھتے ہیں - چار اناجیل کےساتھ سینٹ پال کے 13 اوردوسرے رہنماؤں سے 10 منسوب کتب اور مراسلات کو "عہد نامہ جدید" [New Testament] کہا جاتا ہے- چارانجیل اور حواریوں  سے منسوب 23 دوسری کتب اور خطوط ملا کر عہد نامہ جدید میں ٹوٹل 27 کتب ہیں- 

5-  انجیل 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام  سے منسوب ارشادات اور تعلیمات ، پرمشتمل چار کتب ہیں، جن کے اصل لکھاری گمنام ہیں، مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے  چار حواریوں (شاگردوں) کے نام سے انجیل متی، انجیل مرقس، انجیل لوقا اور انجیل یوحنا، جن کو "اناجیل اربعہ" یا "چارگانہ انجیل" [Four Gospels] کہا جاتا ہے، "نئیو ٹیسٹامنٹ" (عہد نامہ جدید) میں شامل ہیں- اکثر ماہرین متفق ہیں کہ چاروں اناجیل 60 عیسوی سے لے کر 100 عیسوی کے درمیان میں لکھی گئیں-
 انکےعلاوہ بہت اور انجیل کتب بھی ہیں جن کو چرچ قبول نہیں کرتا- خود لوقا کی پہلی آیت میں ہی اس بات کا اقرار ہے کہ بہتوں نے ایسی تحاریر لکھی ہیں۔ غناسطی اناجیل اور دیگر کئی، جن میں سے کچھ کے مخطوطات جدید دور میں دریافت ہوئے ہیں اور وہ شائع کی جا چکی ہیں۔ جیسے توما کی انجیل، پطرس کی انجیل، مانی کی انجیل اور یہوداہ اسکریوتی، برناباس، مسیح، مریم مگدلینی اور دیگر کئی اہم ابتدائی مسیحی شخصیات سے منسوب اناجیل کے حوالے اور مخطوطات تاریخ میں محفوظ ہیں۔  "برناباس کی انجیل" میں حضرت محمد صلی الله علیہ و صلم کی واضح پیشین گوئی موجود ہے اور یہ اسلامی نظریات سے قریب تر ہے۔ یہ ویٹیکن کی لائبریری سے برآمد ہوئی تھی۔ 
امریکی صدر تھامس جیفرسن نے 1820 میں چاروں ا نجیلوں سے حصرت عیسی علیہ السلام کے ارشادات کو اکٹھا کیا تو موجودہ مسیحی نظریات کے برخلاف خدائی دعوی نہ ملا نہ ہی دوسرے نظریات۔ اب بھی سرخ رنگ کے الفاظ والی انجیل دستیاب ہیں جن میں سرخ رنگ میں حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب آیات سے ان کی توحیدی تعلیمات واضح ہوتی ہیں۔ 

6 - الہامی کتب میں تحریف ، غلو اور مذہبی پیشواؤں کی تحریر کردہ کتب کا اضافہ  

تحقیقی مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہودیت  اور مسیحیت میں انبیا کی اصل تعلیمات جو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہوئیں تھیں مکمل طور پر محفوظ نہیں رہیں اور جو کچھ موجود ہے اس میں تحریفات اور تاویلیں کر کہ مذہبی پیشواؤں کی گمراہ کن تعلیمات و نظریات کو دین کا حصہ بنا لیا اور گمراہی کا شکار ہو گئے- اللہ نے قرآن میں فرمایا:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٩:٣١﴾
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-
چار اناجیل کےساتھ  سینٹ پال کے 13 اوردوسرے رہنماؤں سے 10 منسوب کتب اور خطوط کو "عہد نامہ جدید" [New Testament] کہا جاتا ہے- چارانجیل اور حواریوں  سے منسوب 23 دوسری کتب اور خطوط ملا کر عہد نامہ جدید میں ٹوٹل 27 کتب ہیں-
ایک تحقیق کے مطابق  "عہد نامہ جدید" میں  7،959 آیات ہیں ، جن میں سے صرف  1،599 مسیح علیہ السلام کے اقوال ہیں, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد ہے 
نئے عہد نامے میں الفاظ کی تعداد 181،253 ہے۔ ان میں سے صرف 36،450 الفاظ مسیح کے الفاظ ہیں - بمشکل 20 فیصد سے زیادہ۔
7 - آخری نبیﷺ اور آخری کتاب - قرآن 
ان حالات کے بعد الله نے آخری نبی محمد صلی اللہ و علیہ وسلم پر  قرآن نازل فرمایا، اس آخری کتاب کو محفوظ کیا اورنبی صلی اللہ و علیہ وسلم کو حکم دیا کہ قرآن کا پیغام ہدایت پہنچا دیں :
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ  مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ  اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ  لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۶۷﴾
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔  اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا  بے شک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (5:67)
سنت رسول کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسے پورے اہتمام پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ انسانوں تک  الله کا پیغام زبانی عملی طور پر پہنچانے کے مکلف تھے:
فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۹۴﴾
پس آپ  اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے ۔  (15:94)

8 - سنت نبوی ﷺ اور اسوہ حسنہ

آپ ﷺ نے کچھ نہ چھپایا ، قرآن پرعمل کرکہ سنت اور اسوہ حسنہ کا عملی نمونہ کھلےعام  ہزاروں صحابہ کے سامنے پیش کیا:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (33:21)

9.

]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

"کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں"

[رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

اطاعت رسول  ﷺ

رسول کی اطاعت کا حکم قرآن میں  کم از کم 9 آیات میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو (47:33)
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾  إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
 اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22) 
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور سنت پر صحابہ اکرام نے بھی عمل کیا- سنت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے اہتمام سے امت میں جاری کیا ہے اور یہ اجماع و تواتر کے ذریعے سے ہم تک منتقل ہوئی ہے، اس لیے ثبوت کے اعتبار سے یہ قرآن ہی کی طرح قطعی ہے- سنت رسول کے متعلق دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں کہ آیا وہ سنت رسول  ﷺ ہے یا نہیں۔ صحیح ، حسن ، ضعیف وغیرہ کی درجہ بندی نہیں-
10.
رسول  ﷺ کی نافرمانی کا انجام -  رُسوا کُن عذاب جہنّم :
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿4:14﴾   
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا  ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿4:14﴾ 
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواور سن کر اس سے منہ نہ پھیرو ۔ (الانفال : ۲۰)
:"جس دن ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں۔تو وہ کہیں گے کاش! ہم نے اللہ کی اور رسول ﷺ کی اطاعت کی ہوتی۔"(الاحزاب:66) 
اس دن کافر اور وہ لوگ کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی،چاہیں گے کہ کاش ان کے ساتھ زمین کو برابر کر دیا جائے وہ تو اللہ سے کوئی بات بھی نہیں چھپا پا رہے۔" (النساء: 42)
اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کو (شرمندگی اور ندامت سے) کاٹتے ہوئے کہے گا،ہائے کاش! میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کو ہی اپناتا۔"(الفرقان: 27)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33) 
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔
مرزا قادیانی نے ایک آیت قرآن کے مطلب میں اپنی طرف سے تحریف کر کہ مطلب نکالا اور گمراہ ٹھہر :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
(حضرت ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبین ہیں ( سب نبیوں پر مہر۔ آخری نبی) اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ (٣٣:٤٠)
خاتم ، یعنی "ختم کرنے والا" .. دوسرا مطلب خاتم کا "مہر" بھی ہے آیا ، دونوں مطلب ہیں نبویت پر آخری مہر یعنی ختم ہو گیا نبوت کا سلسہ ... جیسے کسی خط لو مہر لگا کر بند کرکہ سیل کر دیتے ہیں .. 10-A

رسول  ﷺ نے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا حکم دیا  :

سیدنا صدیق اکبر کے بعد امت کی راہنمائی کا فریضہ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔
” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧، صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥)
مزید پڑھیں .... سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق ....[.....]
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
11
تدوین احادیث اور  خلفاء راشدین 
قرآن کی کتابت کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله نے احادیث کی کتابت کا بندوبست نہیں کیا کیونکہ وہ فوائد سے زیادہ نقصان کو سمجھتے تھے- حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے  500 احادیث کے ذخیرہ کو تلف کر دیا-
حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے ایسا کرنے سے اتفاق کیا لیکن حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) ہچکچاہٹ میں رہے اور پورا ایک مہینہ الله سے رہنمائی اور روشنی کی دعا کرتے رہے بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام نہیں کیا جایے گا اور فرمایا کہ: “سابق لوگوں نے اللہ کی کتابوں کو نظر انداز کیا اور صرف نبیوں کی سنت پرپر توجہ مرکوز کی، میں اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے درمیان الجھن کا امکان قائم نہیں کرنا چاہتا- اس کے بعد انہوں نے تمام صوبوں کے مسلمانوں کو ہدایت کی: “جس کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے متعلق تحریری دستاویز ہے وہ اسے تتلف کردے”.
امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔
حضرت عمر رضی الله کا مشہور ارشاد  : ’حسبنا کتاب اللہ‘ [یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے] 
حضرت عمررضی الله کا فیصلہ کتنا درست تھا  یہ پہلی امتوں کے مذکورہ بالا تجزیہ اور امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال سے مکمل طور پرثابت ہے، امت قرآن کوصرف تلاوت تک محدود کر چکی ہے - حضرت عمر رضی الله کی بصیرت اورمرتبہ رسول اللہ صلعم کے اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ، اگر ان کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا تو عمر ہوتا- اسی لیے آپ  ﷺ نے حضرت ابوبکر اوران کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے اور خلفاء راشدین کی سنت کے اتباع کا حکم دیا تھا (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
حضرت عمر رضی الله کے اس اہم ترین فیصلہ پر دوسرے خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور بعد کے حکمرانوں نے بھی پہلی صدی حجرہ کے آخر تک اکثر صحابہ وفات پا چکے تھے -  سنت رسول ﷺ، عملی طور پر تواتر سے مسلمانوں سے اجتماعی طور پر نسل در نسل متقل ہوتی رہی ہیر یں کیونکہ یہ کسی ایک فرد یا چند افراد نہیں مسلمانوں نے اجتماعی طور پررسول ﷺ سے براہ راست حاصل کی جس میں کسی ابہام یا شک کی گنجائش نہیں - اسی لیے سنت  رسول ﷺ کا درجہ قطعی ہے، صحیح، حسن یا ضعیف نہیں ، سنت متواتر کا درجہ قرآن کے قریب ترین ہے اس کا انکار کفر ہے- 
تیسری صدی حجرہ میں حضرت عمر کے حکم اورخلفاء راشدین کی سنت،  جس کوسختی سے پکڑنے کا حکم رسول ﷺ نے دیا تھا اس کے برخلاف احادیث کی مشہور کتب مدون ہوئیں جو قرآن کے ساتھ اہمیت اختیار کر گیئں، جیسا کہ پہلی امتوں نے کیا-
یہ بات  بہت اہم ہے کیونکہ یہ اقدام قرآن ، رسول الله ﷺ  اور سنت خلفاء رشدین کے برعکس ہوا- اس کی شرعی حثیت کا بھی علماء جائزہ لیں - ایک مشہور روایت کا مفھوم ہے کہ ، شیطان عمر کو دیکھ کر راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلنے لگتا ہے۔ کچھ فرقے حضرت عمر رضی الله سے سخت نفرت کرتے ہیں اور کچھ بظاھر محبت دکھلاتے ہیں اور تنقید کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے- یہ حضرت عمر رضی الله کیرسول الله ﷺ، قرآن اور دین اسلام سے محبت کا کھلا ثبوت ہے-
مزید پڑھیں ، حضرت عمر (رضی الله ).....[...] اگرچہ تیسری صدی حجرہ میں حدیث کی مشور کتب تحقیق اور محنت سے مرتب کی گیئں- لیکن کیونکہ دو سو سال سے زیادہ کا عرصۂ گزر چکا تھا اور اکثر احادیث خبر واحد ، یعنی کسی ایک راوی سے نسل در نسل منتقل ہوئیں- احادیث کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے-  کوئی انفرادی ، انسانی کوشش کتابت قرآن کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتی-
قرآن کی پہلی کتابت حضرت ابوبکر صدیق رضی الله کے دور میں ہوئی، زید بن ثابت کاتب وحی، حافظ قرآن کی نگرانی میں ہرآیت پررسول اللہ ﷺ کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لیتے، مقصد یہ تھا کہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عین سامنے لکھی گئی آیتوں کو ہی لکھا جائے، محض حافظہ سے نہ لکھا جائے۔ ورنہ وہ خود بھی حافظ تھے، لکھ سکتے تھے- [مزید تفصیل پڑھیں . ...]
قرآن سے اختلاف ممکن نہیں مگراحادیث کی مختلف توجیہات سے بہت اختلافات اور فرقے بن چکے ہیں- اکثراختلافات فروعی نوعیت کےہیں مگر تکفیرکے فتوے لگتے ہیں، شدت پسندی سے فتنہ و فساد ہوتا ہے جبکہ الله کا حکم ہے :
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ( آل عمران،3 :103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
اس حکم کے برعکس الله کی آخری کتاب ، قرآن پرتوجہ نہیں دی جاتی جو مسلمانوں کے زوال کی وجہ ہے، قرآن پر سمجھ کر عمل کرنے کی بجایے اسے صرف تلاوت تک محدود کردیا گیا ہے- 

12.

سنت تواتر

تیسری صدی ہجرہ میں اگرمشہور کتب احادیث مدون نہ بھی ہوتیں تودین پر عمل ہو رہا تھا - دین اسلام کے اہم رکن، تماز (صلاه ) کا قرآن میں بہت ذکرہے مگر ادا کرنے کا طریقہ نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کی سنت سے معلوم ہوتا ہے، اسی طرح دوسرے اہم احکام جن کی تفصیل قرآن میں نہیں وہ نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کی "سنت تواتر" سے معلوم ہوئے اوردین اسلام پر عمل مکمل ہوتا چلا آ رہا ہے- "متواتراحادیث" کی تعداد بہت کم ہے۔ شیخ رشید ردہ - محمد عبدو کے طالب علم اور جامعہ الازہر (مصر) کے ڈائریکٹر نے تقریبا سوسال قبل احادیث کے ذخیرے پر تحقیق کی اور صرف 50 احادیث کو سامنے لایا جس نے متواتر ہونے کی شرائط کو مطمئن کیا- مشہور اسلامی اسکالر جلال الدین سیوطی نے "قطب الازہر الموتنا فی فی الاخبار المتوترا" کے عنوان سے ایک کتاب میں 113 متواتر احادیث کو جمع کیا۔ انہوں نے ایک حدیث کو متواتر کی طرح سمجھا اگر اس کے ہر لنک میں کم از کم 10 راوی ہوتے۔ ان متواتر احادیث کی اکثریت صلوات ، حج اور دیگر اسلامی رسومات سے متعلق ہے۔ ..... [تواتر پر مزید تفصیل پڑھیں .....]


13.

اب ایک نظر دوبارہ یہود ونصاری پر… 

حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی  مگر تلمود یہودیوں کی مقدس کتاب بن چکی ہے جو کہ توریت کی تفسیر ہے اور یہودیوں کی من پسند بہت ساری بحثیں اس میں موجود ہیں جو توریت میں نہیں ہیں یہودیوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے حتیٰ کہ یہودی تلمود کے مطالعہ کو توریت کی تلاوت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ تلمود ، میسورہ پبلی کیشنز (73 جلدوں) کا اسکاٹسٹن ایڈیشن۔ 
مسیحی بائبل کے"عہد نامہ جدید" میں چارانجیل اور 23 دوسری ، ٹوٹل 27 کتب ، 7،959 آیات ہیں ، جن میں سے صرف  1،599 مسیح علیہ السلام سے منسوب اقوال ہیں , یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد ہے -
قرآن کریم کی کل آیت = 6236 ایک پارہ تقریبا = 208
یہودیوں سے متعلق آیات = 401 تقریبا 2 پارہ
عیسائیوں سے متعلق = 169 تقریبا 0.8 پارہ
یہودی ، عیسائی مشترکہ = [401 + 169] -29 = 541 = 2.6 پارہ

14.

قرآن و حدیث کے تحریری مواد کا تقابلی جائزہ :

قرآن میں 6,236 آیات ہیں, احادیث کی 51 کتب،  (75 اگر شیعہ کتب شامل کریں ) اکثریت  تیسری صدی حجرہ میں مدون ہوئیں  …. اگر صرف ایک مثال لیں تو امام بخاری نے پوری محنت  کے ساتھ 600،000 سے زیادہ حفظ شدہ احادیث سے 7،397 روایات شامل کیں۔ تکرارکے بعد ، مجموعی طور پر 2،762  احادیث ان کی کتاب میں جمع ہیں- یہ خیال رہے کہ قرآن کی زیادہ تر آیات ایک سے دویا تین لائن میں ہوتی ہیں مگرحدیث اکثر طویل ہوتی ہے- اندازہ کےلیےاوسط ایک حدیث کےالفاظ  یا تحریری مواد کو (5) پانچ آیات کے تحریری مواد کے برابر تصور کرسکتے ہیں- احادیث کی کل تعداد کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہے، اور محدثین کے اس میں مختلف اقوال بھی ہیں، ایک اندازہ کے مطابق احادیث کی تعداد پچیس ہزار سے بھی زائد ہوسکتی ہے [تفصیل لنک پر]- اگر  25000 ہزار احادیث کےاتحریری مواد  125000 آیات کے تحریری مواد کے قریب برابرہے، توقرآن و احادیث کے مجموعہ کو[ 6236 +125000] 131000 آیات کے قریب  تحریری مواد سمجھ سکتے ہیں-
نتیجہ,  قرآن و حدیث کے مجموعی تحریری مواد کےمشمولات میں  قرآن صرف 5%, اور احادیث 95% ہیں, یہ ایک اندازہ کی حد تک حساب کتاب ہے- 
اسی طرح قرآن کی آیات کا تناسب اگر متواتر احدیث / سنت متواتر (113) سے کریں تو ٹوٹل تحریری مواد کا 8%, اور قرآن 92% بنتا ہے جو کہ حقیقت پسندانہ تناسب ہے -
ایک طرف کتاب الله ، قرآن اور اس کے ساتھ 51/75 کتب احادیث، اس کی تفصیل بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے- یہ تناسب بائبل میں مسیح علیہ السلام  سے منسوب اقوال, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد سے بھی کم ہے- اگرچہ احادیث میں اکثریت رسول رسول  ﷺ سے منسوب ہیں ان کی صداقت کے معیار کا قرآن سے کوئی تقابل نہیں- 
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں :
" اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟"  (54:17,22,32,40)
" ہم نے اس (قرآن) کو تمہاری زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں" ( 44:58)
14 A
 کیا قرآن آسان ہے یا مشکل ترین؟
اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن ہمارے فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنادیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بےبہرہ ہی رکھنا چاہئے؟


پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنادیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔

قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذھن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ [تفسیر عبدالرحمان کیلانی ]

الله کا فرمان مت بھولیں :
"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31) بہت لوگوں نے  احادیث کے زریعہ فروعی اختلافات ، بحث مباحث ، فرقہ بازی، فساد  میں مشغول ہو کر قرآن کو پس پشت ڈال دیا- 

15.

مقام قرآن :

قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
( اے رسول ) وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں ، حالانکہ ان آیتوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور جن لوگوں کا علم پختہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس ( مطلب ) پر ایمان لاتے ہیں ( جو اللہ کو معلوم ہے ) سب کچھ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے ، اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں (قرآن 3:7)
مزید پڑھیں.. قرآن کا تعارف قرآن سے .....[.....]

16.

حدیث کی اہمیت :

A..مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے [صحیح مسند احمد 497/3, شیخ البانی صحیح السلسلہ الصحیحہ 732/2 تفسیرکثیر١١:٨٨]
اس حدیث کی بنیاد پر کوئی مسلمان کسی حدیث کو قبول یا نہ قبول کرنے کا اختیار رکھتا ہے ، تو بحث اور جھگڑا کیسا ؟
" بیشک بدترین خلائق اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں جو کہ  ( ذرا ) نہیں سمجھتے " (قرآن :8:22)
  
B. سنت و حدیث مختلف ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔
[سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠5) الكامل في ضعفاء الرجال  » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]
کتاب الله (قرآن ) بھی موجود ہے اور سنت بھی .... تحقیق کر لیں ...[.....]
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( ١٥٩ سورة الأنعام)
“جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
 ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ  (قرآن) وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے (البقرہ 2:2)
[قرآن ، سنت ، حدیث : https://quransubjects.blogspot.com/2019/12/hadith-sunnah.html]

17.

قرآن کے  مطابق کسی اور کتاب، حدیث کی کوئی گنجائش نہیں :

ایک الله ، ایک کتاب ایک رسول اللهﷺ ...
١.اللہ کا کوئی شریک نہیں
٢ الله کی صرف ایک کتاب ہے ، تمام ہدایت جس کو تحریر کرنے کی ضرورت تھی قرآن میں موجود ہے -
٣ .رسول اللهﷺ آخری رسول اور ان کا کوئی شریک نہیںں، رسول اللهﷺ کا اسوۂ حسنہ کا عملی سنت، تواتر سے منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے جو کسی تحریر کا محتاج نہیں
یہ ان آیات سے کلیئر ہو جاتا ہے
(1) .اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ سورة الزمر 39 آیت: 23 (قرآن 39:23)
اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے (قرآن 39:23)
(2.) .تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
(3) .فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)
(4). فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
اہم نقطۂ :

ترجمہ کسی ببھی زبان میں ہو ،  قرآن نہیں ہوتا ، قرآن اصل عربی میں ہے … اور عربی سے واقف شخص   "حدیث " کو " حدیث " ہی پڑھے گا .، اس کو سیاق و سباق بھی سمجھ اتا ہے ، اور عربی زبان والے کو علم ہے کہ رسول اللهﷺ کے اقوال ، فرمان والی کتاب کو  "حدیث" کہتے ہیں، جو اصطلاح کی حثیت رکھتا ہے نزول قرآن کے وقت بھی اور آج بھی  [اب تمام دنیا، انگلش اور کئی زبانوں میں شامل ہو چکا ہے ]-
قرآن کے مقابل "حدیث" کی کتاب ہی ہو سکتی ہے "بات" یا قصہ ، کہانی ، خوابوں کی تعبیر ، نشان عبرت وغیرہ نہیں ہے -
حدیث کی کتابوں میں اکثریت   رسول اللهﷺ کے اقوال ، فرمان اور عملی اقدام ہیں جسے سنت کہتے ہیں-
حدیث کتب لکھنے والوں نے کتابوں کے نام "حدیث" نہیں رکھے بلکہ "سنن" رکھے ، جبکہ وہ "حدیث" کی کتب ہیں …
یہ اس لیے کیا کہ قرآن میں کسی اور "حدیث" یعنی "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع فرمایا گیا ہے ،
 یھاں حدیث کے دونوں معنی  ،(١) کتاب حدیث  اور (٢) بات ، قول … لاگو ہوتے ہیں - جیسا کہ  [ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ]  [سورة النساء 4  آیت: 29]  میں ایک ہی جگہ ، ایک لفظ کے تین مطلب لاگو ہوتے ہیں -
اور آج بھی پوری دنیا میں حدیث کی کتب کو " سنن " کوئی نہیں کہتا ان کو حدیث کی کتب ہی کہا جاتا ہے ، جیسا کہ نزول قرآن کے وقت بھی جب حدیث کو لکھنے کی اجازت دی اورمنسوخ بھی ہوئی ..  الله العلیم اور الخبیر ہے …  سنن لکھی بات نہیں عمل کو کہتے ہیں  اور یہ عمل ایک نہیں بہت زیادہ لوگوں نے دیکھا اکو خود پریکٹس کیا ہوتا ہے - جبکہ حدیث کتب میں زیادہ حدیث ، اقوال ، باتیں ، ہیں -
تمام اہم ہدایت جنکو لکھنے کی ضرورت تھی الله نے قرآن میں شامل کر دیا ... قرآن  سند یافتہ ایک مکمل کتاب ہدایت ہے-
سنت عمل کا نام ہے -
یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب پر مشتمل  ہے-
قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے  ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟
 صرف رسول الله ﷺ کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جو کہ مزید وجہ احادیث کی کتابت سے منع کر نےکی ہو سوسکتی ہے-
اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات   (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
حادیث کی کتابت میں رکاوٹ  ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله ﷺ کے فرامین ور ارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں تھا  یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے کہ دوسری صدی حجرہ تک سماع احادیث ہوا کرتا تھا ، امام احمدد بن حنبل جگہ جگہ سفر کرتے تھے سماع حدیث کے لیے- بعد میں وہ بھی ٣٠٠٠٠ احدادیث کی مسند لکھ گیے-
ان ٤ آیات میں عربی  لفظ "حدیث " استعمال ہوا ہے، ان آیات کا اردو ترجمہ کرتے ہوے مترجمین  نے  لفظ "حدیث " کو غائب کر دیا اوراردو  لفظ  "بات " استعمال کیا  [ملاحضہ فرمائیں ... یھاں ...].  قابل غور بات ہے کہ پہلے قرآن کو  ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) "بہترین حدیث " کتاب  کہا (٣٩:٢٣) ترجمہ "کلام " کیا ، مگر بعد کی آیات میں "حدیث " کا ترجمہ "بات " کر دیا .. قاری کو سمجھ نہ لگے کہ الله فرما رہا ہے کہ صرف قرآن حدیث ہے اور کوئی اور "حدیث " نہیں- اکثر مترجم قرآن بریکٹ میں  کسی لفظ کی مختصر تشریح بھی کر دیتے ہیں ، مگر ان آیات کے ترجمہ میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟ [واللہ اعلم ]
جب پچاس انگریزی تراجم دیکھے تو وہاں چار مترجموں نے لفظ HADITH کا انگریزی ترجمہ نہیں کیا اور اس کو HADITH ہی لکھا ، یہ انگریزی زبان کا ایک لفظ بن چکا ہے  ...
جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا ، حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ رسول الله ﷺ کی باتیں ، اقوال لکھتے تھے،  جن کو "حدیث" کھا جاتا تھا ،پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله ﷺ نے "حدیث " لکھنے سے منع فرمادیا ..ممکنہ طور پر   ایسا حکم رسول الله ﷺ نے ان آیات کے نازل ہونے کے بعد فرمایا ہو گا -
اس بات کو حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله کے اس فیصلہ سے بھی سپورٹ ملتی ہے کہ انہوں نے احادیث کی کتابت سے منع فرمادیا -
 اگر یہ سب کچھ تاریخ احادیث سے نہ بھی ااخذ (quote) کریں تونا قابل تردید تاریخی حقیقت موجود ہے کہ باقی خلفاء راشدین نے بھی کتابت احادیث کا اہتمام نہ کیا -
 وہ سلرے حالات اور حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ تھے- جب وہ قرآن کی کتابت کا فیصلہ کر سکتے تھے تو اس کے بعد احادیث کی کتابت میں کیا رکاوٹ تھی؟
جو صحابہ احادیث لکھنے کے شوقین تھے انہوں نے جب یہ چار آیات مختلف اوقات میں نازل ہوئیں تو کامن سینس کہتی ہے کہ ؛ انہوں نے رسول الله ﷺ سے پوچھا ہوگا کہ ان آیات کے باوجود وہ احادیث لکھتے رہیں؟ اور اگر انہوں نے پوچھا تو رسول الله ﷺ نے کیا جواب دیا؟
یہ بات ان آیات کی تفسیر میں نہیں ملتی- یہ بات ملتی ہے کہ کبھی کسی کو اجازت دی اور پھر منع فرما دیا (واللہ اعلم )
عبدلرحمان کیلانی نے تفسیر میں لکھا ہے کہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اس آیت (المرسلات 77:50 ) پر پہنچے تو یوں کہے : امنا باللّٰہ (مستدرک حاکم)-
یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب (لغوی اور اسطلاحی )پر مشتمل ہو سکتا ہے-
قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟ صرف رسول الله ﷺ کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جس کی وجہ سے احادیث کی کتابت سے منع کر دیا گیا ہو؟ اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
حادیث کی کتابت میں رکاوٹ معلوم ہوتی ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله ﷺ کے فرامین ور ارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں ہو سکتا یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے-
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ [پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے]
"… اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا- اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے" (قرآن :20:123,124)
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
قرآن موجود ہے ، اس کو سمجھنے اور تفکر کے لے الله کی عطا کردہ عقل و دانش اور علم کے استعمال پر پابندی نہیں :
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡئَلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۱﴾
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کی کمائی ان کے لیے ہے۔ اور تمہاری تمہارے لیے۔ اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے بازپرس نہ ہوگی (2:141)
[پڑھیں >> کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی – ایک علمی جایزہ:]  
یاد رکھیں کہ قرآن انسانی نہیں الله کا کلام ہے ، جو "عالم الغیب و شهاده" ہے - الله کو علم ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، قرآن ابدی ہدایت ہے ، اس لیے اس کے الفاظ کو کسی طرح بھی محدود کرنے کی کوشش کرتے ہوے ، الله  کے "عالم الغیب و شهاده" کو مد نظر رکھنا ہو گا -
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]

Over 50 English translation … the word HADITH has been mostly translated as: Message , discourse, revelation, announcement , report, narrations, speech, announcement, words etc.  [Reference link...]. Only Four translators used original word HADITH, they did  not translate it because word HADITH is well known not only to Muslims but non Muslims as well. Word Hadith is part of English language, explained in English dictionaries like, Merriam-Webster , Oxford etc.

18.

کتابت حدیث کی ممانعت کی نسبت بلا واسطہ اور  بالواسطہ الله کی طرف جاتی ہے:

(1).الله اور رسول ﷺ کی اطاعت …. (2).رسول ﷺ کی اطاعت الله کی اطاعت … (3).رسول ﷺ کا ابوبکرصدیق حضرت عمر اور خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کی اطاعت کاحکم … (4).حضرت عمر (رضی الله ) کا احادیث کی کتابت نہ کرنے کا حکم ایسا ہے کہ …..یعنی اللہ اور رسول الله ﷺ کا حکم .(1,2,3)..کے مطابق. (5).خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کا حضرت عمر (رضی الله ) کے حکم و سنت کو برقرار رکھنا …. احادیث کی کتب کی شکل میں قرآن کی طرح کتابت نہ کرنا ۔۔۔ (6).مسلم حکمرانوں کا خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کی اس سنت پر کاربند رہنا۔ (7).تیسری صدی میں انفرادی، ذاتی طور پر احادیث کی مشہور کتب کی کتابت..…
(8) بلاواسطہ اور بالواسطہ الله اور رسول ، خلفاء راشدین کی صریح نافرمانی ….
19. رسول  ﷺ کی نافرمانی کا انجام -  رُسوا کُن عذاب جہنّم :
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿4:14﴾       
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا  ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿4:14﴾ 
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (2:170) اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں(2:170)

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ
جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا (17:15)
کچھ  گناہ اور کوتاہیاں انفرادی ہوتی  ہیں ، جیسے نماز میں سستی ، کسی سے بدکلامی کرنا وغیرہ ، لیکن ایسے اقدام جن کے اثرات نسل در نسل لاکھوں ، کروڑوں افراد کے مذھبی نظریات اوراعمال پر اثر انداز ہوں تو یہ بہت سنجیدہ معامله ہے، خاص طور پر جب حقیقت کا علم ہو جایے تو اپنی بزرگوں سے محبت میں ان کے غلط اقدام کا دفاع کرنا اس میں شامل ہونا ہے:
أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾
نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو, اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے (5:2)
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (4:85)
دلچسب اور اہم تاریخی معلومات 
چار مہشور  فقہ کے بانی مشہور احادیث کی کتب کے بغیر فقہ مکمل کرگیے  ( علاوہ موطأ امام مالک)- ظاہرہے انہوں قرآن سنت اور احادیث سے استفادہ کیا ہوگا-  ابوحنیفہ نعمان بن ثابت جو  بہت مقبول  ہیں انہوں  نے  کوئی کتاب نہیں لکھی - حدیث کی بھی نہیں ، وہ پہلی صدی حجرہ میں پیدا ہوے جب حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدہ کے فیصلوں کا احترم زیادہ ہوتا ہو گا (واللہ اعلم )
1. ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء)
2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء) موطأ امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو آپ نے تصنیف کی۔
3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء)
4. احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء)
مشہور محدثین  - صحاحِ ستہ : ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسا سمجھی جاتی ہیں۔
1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)
2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)
3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)
4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی   275ھ/9-888ء
5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء
6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء
امام احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) فقہ اربعہ کی ٹائم لائن کے آخر میں ہیں … وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے …. اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟
 وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے
 فقیہ، محدث، اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ایک مجتہد اور فقہ حنبلی کے مؤسس تھے۔ امام احمد بن حنبل کی پوری زندگی سنتِ رسول سے عبارت ہے، وہ در حقیقت امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع اور امام فی السنت کے عالی مقام پر فائز رہے۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی و علمی لگاؤ تھا، اس لیے امت سے امام اہل السنت و الجماعت کا لقب پایا۔
تعلیم و سماعت حدیث: 16 برس کی عمر میں انہوں نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ ابو یوسف کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ 180ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھر حجاز آمد و رفت رہی اور علما حجاز سے علم سیکھتے رہے۔
196ھ میں یمن جاکر عبد الرزاق الصنعانی سے احادیث سنیں۔ یہاں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ وہ کوفہ بھی گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پزیر رہے سر کے نیچے سونے کے لیے اینٹ رکھا کرتے۔
کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لیے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔
شافعی خود فرماتے ہیں انہوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آ سکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ وہ تقریباً سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشائخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ 199ھ میں شافعی جب دوسری بار بغداد آئے تو احمد سے انہوں نے کہا: ”اگر تمہارے پاس، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو۔ میں حجازی فقہا کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔“ اس وقت احمد کی عمر 36 برس کی تھی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احدیث کی کتب مہیا نہ تھیں اور محدثین سے احدیث کی سماعت ہوتی تھی ، تیسری صدی حجرہ کے وسط تک .
19-A

 اہم نقاط کا خلاصہ 

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)


[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور کتاب حدیث پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ )( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)


[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)


[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

"کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں"

[رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ ، رسول اور جبرایل کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے کو کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

مزید اہم نقاط :

  1. حدیث کو لکھنے کی اجازت   رسول اللهﷺ نے دی/ منع  فرما دیا کہ قرآن سے مکس نہ ہو -
  2. رسول اللهﷺ نے  اپنی اور خلفاء راشدین کی سنت کوسختی سے پکڑنےکا حکم دیا -
  3. رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-
  4. قرآن کو حضرت ابوبکر صدیق  (رضی الله) کے دور خلافت میں حضرت عمر (رضی الله) کے اصرار پر جمع کر دیا گیا - اور حضرت عثمان (رضی الله) کے دور میں کاپیاں تقسیم کی گئں-
  5.  قرآن کی کتابت میں بہت احتیاط برتی گیی - دو چشم دید  زندہ افراد کی شہادت لازم ، جنہوں نے   رسول اللهﷺ سے خود آیات سنی ہوں ، کتابت کرنے والی کمیٹی  کاانچارج حافظ قرآن ، کاتب وحی حضرت زید بن ثابت  (رضی الله) ، ممبران میں عبد اللہ بن زبیر سعید ابن عاص  اور عبد الرحمٰن  بن ہشام رضی للہ عنہ بھی شامل تھے-
  6.  قرآن کے مطابق،  رسول اللهﷺ کی اطاعت، اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے- اس کو محفوظ  کرنے کے مختف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ، سنت   رسول اللهﷺ  پر عمل ، حفظ ، تحریر مگر  قرآن کے علاوہ کسی حدیث ، کلام ، بات پر ایمان سے منع فرماتا ہے  -
  7. اس کے بعد احادیث کو جمع کرنے کا سرکاری طور پر  اہتمام  نہ کیا گیا -
  8. قرآن نے کسی " حدیث"  کتاب سے  منع کیا [  (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)]
  9.  سنت رسول اللهﷺ تواتر سے نسل در نسل متنقل ہوتی رہی ،  احادیث زبانی حفظ کرکہ منتقل ہویں ، کچھ ذاتی تحریریں بھی-
  10. حضرت عمر (رضی الله) خلیفہ بنے تو سوچ بچار کےبعد  احادیث کی کتابت نہ کرنے  کافیصلہ کیا -
  11. حدیث کی کتابت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک کتاب ہو گی کتاب الله … کہ پہلی امتیں برباد ہوئیں کتاب الله کو چھوڑ کر دوسری کتب میں  مشغول ہو گیئں- 
  12. حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل تھے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں -
  13.  حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلہ پر خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور یہ پہلی صدی حجرہ تک یہی سنت رہی-
  14. مسیحیت کی بائبل میں ٢٠% حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلام اور ٨٠% سینٹ پال اور  حواریوں کی تحریریں-
  15. یہود نے تورات چھوڑ کر مذہبی پیشواؤں کی تفسیریں اور تحریریوں والی تلمود کو اپنا لیا جس میں ایک کروڑالفاظ اور 38 جلدیں ہیں -- 
  16. آج قرآن کے ساتھ ساتھ ( 51 /75 ) حدیث کی کتب ہیں .
  17. امام ابو حنیفہ (80-150ھ ) نے فقہ کی بنیاد ڈالی ،مگر حدیث کی کوئی کتاب نہ لکھی  حالانکہ وہ بہت بڑے محدث بھی تھے 
  18. . حضرت عمر بن عبد العزیز نے ١٠٠ ھ میں احادیث کی کتابت کا اہتمام کیا -
  19. دوسری صدی کے نصف کے  بعد مختلف افراد نے اپنے اپنے احادیث کے ذخیرہ اکتھے کرنے شروع  دیے - تیسری صدی تک  احادیث کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گی-صرف  امام بخاری 6 لاکھ  احادیث  کے دعوے دار ہیں -
  20. قرآن میں حدیث کی ممانعت ہے - .حدیث کی کتابیں  لکھنے والوں نے کتب کا نام "سنن " رکھ لیا ; سنن أبو داود , سنن الصغرى والكبرى النسائي, سنن الترمذي, سنن ابن ماجة, سنن الدارمي, سنن الدارقطني, سنن سعيد بن منصور , س للبيهقي,وغيره وغيره- 
  21. قرآن کہتا ہے کہ یہ الله کی کتاب ہے ، محفوظ ہے ، اس میں کوئی شک نہیں اور یہ مکمل ہدایت ہے -
  22. حدیث کہتی ہے کہ جو حدیث تمہا رے دل کو اچھی نہ لگے وہ   رسول اللهﷺ سے بھی دور ہے- جو حدیث  قرآن اور سنت  کے  خلاف ہے وہ درست نہیں -
  23. اب چودہ سو سال بعد معلوم ہوتا ہے کہ بہت اور بھی مسائل کھڑے ہو گیے ، احادیث کی بنیاد پر نئے نیے فرقے بن گئے ، قرآن کی تاویلیں جھوٹی منٹ گھڑت ، ضعیف ، کمزور احادیث سے اور صحیح کو ملا جلا کر ایسا کام کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے - قرآن کو اگر غیر مصدقہ ، نامکمل مواد سے تفسیر کریں گے توکمی رہ جایے گی  … سنت رسول اللهﷺ تواتر سے موجود ہے جس کا انکار ناممکن ہے اور کسی کے لیے ممکن نہیں کہ جھوٹی" سنت"  گھڑ لے … سنت تو نام ہی رسول اللهﷺ کے عمل کا ہے-
  24. کچھ قابل غور باتیں  ہیں :
  25. کیا ایک الله ، ایک کتاب  ، ایک دین اسلام -  یا - ایک الله ،76  کتب ،کئی فرقے (٧٣) والا دین اسلام؟ 
  26. تاریخ  نے ثابت کیا کہ خلفاء راشدین کا فیصلہ درست تھا, تاریخ اپنی جگہ ان کے فیصلے کی اطاعت   رسول اللهﷺ کی اطاعت اور   رسول اللهﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ...
  27. کتب احادیث  رسول اللهﷺ کی نامزد کردہ مجاز اتھارٹی سے منظور، تصدیق  شدہ نہیں
  28. پرائیویٹ اشخاص کی زاتی، انفرادی  تحقیق،  تخلیق و انتخاب ، انسانی غلطی کا بہت امکان -
  29. اصل راوی (گواہان) وفات شدہ تھے دوسو برس قبل کم یا زیادہ -  احادیث  اکٹھی کرنے، منتخب کرنے  والا ایک شخص جس کی  اپنی  صوابدید  پر  ہے کہ کس حدیث کو منتخب کرے کس کو چھوڑ دے - [قرآن کی تدوین ایک مثالی ہے ]
  30.  احادیث  کی اکثریت خبر احاد ہے - ٢٥٠٠٠ میں سے متواتر احادیث (سنت ) صرف ١١٣ اہم عبادات وغیرہ -
  31. احادیث کی نامکمل کتب (تمام احادیث کو اکٹھا کرنا ناممکن ) جن  کا انتخاب،  کتابت انفرادی طور پر دوسری اور  تیسری صدی حجرہ میں ہوئی فائدہ زیادہ دے سکتی ہیں یا نقصان ؟
  32. یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے- 
  33. اصطلاحِ شرعیت میں اجماع اسے  کہتےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلہ کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا اتفاق کرلینا، تو جب کسی زمانہ میں کوئی مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں- قرآن   رسول اللهﷺ اور خلفاء راشدین کی سنت کے خلاف کتابت  احادیث اجتہاد نہیں ہو سکتا-  اہم بات …..جب  مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں- اسلام میں مذہبی پیشواؤں کی یہود و نصاری کی طرح "رب " بننے کی گنجائش نہیں-
  34. ہم کو پہلی صدی حجرہ کے اصل دین اسلام کی طرف واپس  جانا ہوگا  رسول اللهﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کا دین اسلام جو حج الواداع پر اپنے عروج اور کمال پر تھا … 
  35. قرآن   رسول اللهﷺ اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرتے رہیں-
  36. ایک مسلمان کے لیے  رسول اللهﷺ سے محبت  اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ  رسول اللهﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. اس کو الله نے "حدیث"  بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ  رسول اللهﷺ نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح  رسول اللهﷺ کے مستند ، اصل  کلام کو بھی مقدس اور عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں …
  37. احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت  اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول ﷺ سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
  38. الله ہم کو قرآن اور سنت رسول ﷺ پر عمل کی توفیق عطافرمایے - آمین 
20.

اب کیا کریں ؟

(1) اگرچہ احادیث کی کتابت بالواسطہ الله اور رسول کے اطاعت کےبرخلاف بزرگوں سے ہوئی، جوسب الله کے پاس ہیں اور ان کا معامله بھی الله کے سپرد ہے, امید ہے کہ الله ان پر ان کی نیک نیت کے مطابق رحم  فرمایے گا:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (59:10)
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)
(2) اسلام سچا دین حق ہے ، کسی فرد یا افراد کی غلطیوں کا جذباتی محبت،روحانی، مسلکی وابستگی کی بجاتے قرآن و سنت اور عقل و حکمہ سے حل تلاش کریں- قرآن مذہبی پیشواؤں کو خدا کا درجہ دینے سے منع کرتا ہے-
(3). احادیث کو اختلافات ، فرقہ واریت ، تنقید ، نفرت کے لیے استعمال کرنا حماقت ، کم عقلی اور جہالت ہے جس سے پرہیز کریں- [ملاحظہ پیرا 16, 17]
(4).حکومتی ادارے اورعلماء، کتابت احادیث کی شرعی حیثیت کا از سرنو جائزہ لیں اور شکوک و شبہات کا ازالہ کریں- حکومت ترکی کےتحقیقی کام اور دوسرے عالم اسلام کےاداروں اورحکومتوں سے بھی روابط رکھیں-
(5). پیرا " 17 15,16" کی روشنی میں ذخیرہ احادیث کا جائزہ لینےکی ضرورت ہے-
(6). حکومت متواترسنت اور احادیث پر ادارہ جاتی اورانفرادی تحقیق کا اہتمام کریں-
(7) . حضرت عمر رضی الله کوکتابت حدیث پرجوخدشات تھے ان کو مد نظر رکھیں، غلطی کا ازالہ تو اسی طریقه سے ہو سکتا ہے جو حضرت عمر رضی الله نے اختیار کیا تھا، مگر عوام میں صدیوں جو نظریات قائم ہو چکے ہیں ان کو بتدریج حکمت سے تبدیل کرنا چاہیے ، یہ حکمت قرآن سے نشہ کی بتدریج ممانعت سے معلوم ہوتا ہے-
احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت  اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول ﷺ سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
(8) ابتدائی طور پر کتب احادیث کے ٹائیٹل پر پیرا 16اور 17 میں مذکور آیات قرآن اور احادیث بمع ترجمہ پرنٹ کرنا چاہیے، تاکہ امت مسلمہ پہلی امتوں کی طرح کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب کو مت ملائیں نہ ترجیح دیں - الله کی رسی قرآن کو پکڑ لیں ، پہلی گمراہ امتوں کے راستہ پر نہ چلیں جن پر الله کا غضب نازل ہوا -
(9) الله نے قرآن میں ٤٤ مرتبہ مسلمان کہا اور ہمارا نام مسلمان رکھا، ہم کو تمام ایکسٹرا لیبل ختم کرکہ اپنے آپ کو صرف اور صرف مسلمان کہلانا چاہیے ... [.......]
(10). قرآن کے پیغام امن کی اندروں ملک اور  بین القوامی طور دعوه اور تشہیر کریں ،شدت پسندی ، دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کو ختم کرنےاور امن کے حصول میں قرآن کی مدد لیں- 
(11) آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت کے ذریعے سے ِ ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا ” وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ “(  یونس : ٥٧ ) بھی اسی میں ہے: “پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں” (25:52). جہاد کبیرہ پر مزید...[......] 
.......................
21
مضمرات - Implications
1.اگر سفارشات پر عمل کریں تو ، عملا فوری طور پر کچھ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ سب کچھ ویسے ہی رہ گا جیسے ہے-، کوئی نیا انقلاب برپا نہیں ہوگا ، صرف سوچنے والے مفکرین  اور افراد کی توجہ قرآن کی طرف زیادہ ہو جانے سے عوام کا رجہان بھی اہستہ اہستہ تبدیل ہوسکتا ہے - اگر کچھ پرجوش مسلمان اپنی سوچ میں تبدیلی لا کر کوشش کریں تو اچھا آغاز ہو سکتا ہے-مذہبی پیشواؤں  کی طرف سے شدید  دفاعی ردعمل، علمی دلیل کی بجاتے جذباتی ابال  سطحی اور وقتی ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن کے اپنے مثبت اثرات ہیں- چار مشہور فقہ کے بانیوں نے اگر احادیث کی کتب نہیں لکھیں تو وہ تو اس معامله سے بری الزمہ ہو گئے-
2. عوام کا جذباتی  استحصال اور دیگر فتوے ، وقتی رد عمل دیر پا نہیں ہوسکتا -
3. کوئی بات قرآن ، سنت اور احادیث کے علاوہ نہیں تو اس کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ ؟
4.مذہبی پیشواؤں کے لیے اپنی اہمیت کم ہونے کا فرضی احساس، حالانکہ دین پر ان کی اجارہ داری علم کی بنیاد پر کم نہیں ہو سکتی -
5.  قرآن کے خلاف باطل  نظریات اور مشرکانہ پریکٹسز میں کمی اور خاتمہ سے کچھ افراد کوسیاسی، سماجی اور معاشی نقصان -
6. فرقہ واریت میں کمی اور خاتمہ کی طرف ابتدا .
7. علماء پر تحقیق کی ذمہ داری ، جس کو صرف اہل علم ہی نبھا سکتے ہیں-
8.عوامی شعور میں اضافہ اور سیاسی ،  سماجی ،معاشی ،  اخلاقی بہتری-
9. اتحاد امت مسلمہ جو صدیوں سے ایک خواب رہا ہے ، اس کو صرف قرآن پر عمل درآمد سے حاصل کیا جاسکتا ہے-
10. بین الاقوامی طور پر مسلمان ایک مہذب قوم کے طور پر اپنا وجود ثابت کر سکتے ہیں ، جس سے اسلام کو دنیا میں  عروج حاصل ہو سکتا ہے-
11. ......
………………..
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢:٢٨٦﴾
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر (:2:286)
…………………….
 ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ  (قرآن) وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے (البقرہ 2:2)
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا(قرآن 47:24)
” تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں”(قرآن 47:24)
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾ تحقیق و تحریر-  بریگیڈیئر آفتاب  خان (ر)
مدلل تبصرہ , تنقید, کمنٹس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے:
.. الِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
.. تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً الله سُننے والا اور جاننے والا ہے  (قرآن 8:42)
اُدۡعُ  اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ  الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ  وَ ہُوَ  اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے  یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے(16:125)

رابطہ / کمنٹس / تجاویز :
.......................
Reader’s Guide for Comments on “ Comeback to Quran- A Research Thesis
قارئین کے کمنٹس ، تبصرہ کے لئے رہنما گایڈ - قرآن کی طرف واپسی - تحقیقی مقالہ
اس مقالہ کی پزیرائی کا شکریہ جہاں کچھ برادران براہراست پیغامات میں حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں تنقید سےبھی مبرانہیں جوکہ خوش آیئند ہے- اکثر یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ لوگ جلدی میں غلام احمد پرویز، جاویداحمد غامدی اور کئی دوسرے لوگوں کے متعلق تحریروں کے جوابات کو کاپی کر کہ کمنٹس کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مقالہ کو بغور نہیں پڑھا ۔ "قرآن کی طرف واپسی" کا ان حضرت کے نظریات جن کو "منکرحدیث" کے خطابات سےنوازا جاتا ہے کوئی واسطہ نہیں- اگر کوئی زبردستی مماثلت بنا دے تو اس کی مرضی ۔۔ مقالہ موجود ہے ۔۔۔ یھاں تھیم یہ نہیں کہ حدیث کی کیا اہمیت ہے؟ یا یہ کہ حدیث وحی تھی یا نہیں؟ حدیث کی کتابت درست ہوئی یا غلطیاں ہیں یا نہیں؟ یہ سب علیحدہ مضامین ہیں ، جو تھیسس "قرآن کی طرف واپسی" کا موضوع نہیں نہ ہی ان کو ڈسکسس کیا گیاہے- شاید تحریر میں کمی رہ گیئی کہ مناسب طریقہ سے اصل موضوع قارئین کو نظر نہیں آتا ، یا وہ اپنے طرف سے خیال (Preconceived) میں گم ہوجاتےہیں- لہٰذا ضروری ہے کہ ایک "گائیڈ لائن" مہیا کی جایے : "قرآن کی طرف واپسی" مقالہ کا ، تھیم ، ٹاپک موضوع، عنوان، سبجیکٹ یہ ہے کہ : 1.جن اصحابہ کی سنت کو پکڑنے کا رسول ﷺ نے حکم فرمایا ۔۔۔ جنہوں نے قرآن کی کتابت کروائی.. کاتب وحی و حافظ قرآن اور دو ذاتی شہادتوں کے ساتھ قرآن کو محفوظ کیا جو کہ رسول ﷺ چھوڑ گیے تھے۔ انہی صحابہ میں سے حضرت عمر رضی الله نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ ، کیونکہ پہلی امتیں کتاب اللہ کے مقابل دوسری کتب لاکر برباد ہوئیں، لہذا کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب نہی۔ ہو گی۔۔۔ انکےپاس رسول ﷺ کی طرف سے اتھارٹی تھی- وہ صرف سیاسی حکمران نہ تھے بلکہ دینی رہنما بھی تھے ، خلفاء راشدین کا یہ خصوصی اعزاز ہے، جنہوں نے اہم دینی فیصلے کیےجن پر آج تک عمل ہو رہا ہے . تفصیل کتابوں میں موجود ہے-
Hazrat Umar was authorised by Prophet ﷺ to take decisions, he was not merely a political head but also religious and spiritual leader , mujtahid.
2.یہود اور مسیحت کی کتب کا تجزیہ مقالہ میں موجود ہے، جو حضرت عمر رضی الله کے اس درست فیصلہ کا زندہ ثبوت ہے ۔۔ جس کوسب نظر انداز کردیتے ہیں- کوئی اس پر بات نہیں کرتا کیوں ؟
3. قرآن کے ساتھ احادیث کی 51 کتب کا تجزیہ اور پہلی اقوام سے مماثلت اور ترجیحات ، فرقہ واریت ، سب کچھ حضرت عمر رضی الله اور خلفاء راشدین کے فیصلہ کی درستگی، ان کی ذہانت ، فراست کا زندہ ثبوت کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
4.پرویز یا غامدی یا کوئی چکڑالوی،یا کوئی " دو اسلام" والے برق صاحب ۔۔ ان کے تھیم مختلف ہیں ۔۔۔
5. "مقالہ قرآن کی طرف واپسی" میں دلائیل قرآن و سنت اور احادیث سے ہیں ۔۔۔ ان کا جواب بھی صرف قرآن سے دیا جا سکتا ہے ۔۔ جو "فرقان" ہے ۔۔۔ قرآن کے سامنے کسی شخصیت ، پیشوا کی کوئی حثیت نہیں چہ جا یکہ وہ قرآن و سنت سے دلیل پیش کرے ...
6. یہ مقالہ مصنف کی ذاتی تحقیق ہے ۔۔ یہ "تھیم" کسی سے کاپی نہیں گیا، قرآن اور سنت کے مطالعہ، تفکر، تدبر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ۔۔۔ اس لیے اس نیے تھیم کا جواب دینے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے-
7.دوسروں لوگوں کے نظریات کے جوابات ادھر نہیں لاگو کیے جا سکتے -
8. قرآن و سنت کو جھٹلانا ناممکن ہے ۔۔ انسان غلطی کرسکتا ہے ۔۔۔ اللہ غلطی نہیں کر سکتا ۔۔ اہل xxx کے بہت بڑے عالم جو قابل احترام ہیں ۔۔۔ ان سے بھی ان سولات کا جواب نہ مل سکا ۔۔۔ کچھ معلومات ادھر سے معلوم ہو سکتی ہے>> https://salaamone.com/islam-2/sectarianism/muslim 9. باعیث حیرت ہے کہ مسلمان قرآن و سنت اور خلفاء راشدین اور حضرت ابوبکر صدیق، عمر رضی اللہ کے فیصلے سے انکار بھی کرتے ہیں اور اور پھر واضح دلیل بھی نہیں دے سکتے ۔۔۔ اور یہ دعوی بھی کرتے ہیں ہم قرآن و سنت پر عمل کرتے ہیں؟
10. کھل کر بات ہو ، کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ کا کتابت حدیث نہ کرنے کا فیصلہ(جسے باقی خلفاء راشدین نے بھی قبول کیا- اجماع خلفاء راشدین ) غلط تھا؟
11. حضرت عمر رضی اللہ کا فیصلہ اگر درست تھا، جو کہ وقت نے بھی ثابت کیا کہ درست تھا (اگر نقصانات فائدہ سے زیادہ ہو تو پھر سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں) تو بحث کیسی؟
12.جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدین کے فیصلہ کے بر خلاف سو یا دو سو سال بعد کتابت حدیث کی کیا انہوں نے درست کیا؟
13. اگر درست کیا تو کیا انکار قرآن ، انکار سنت , انکار حدیث رسول ﷺ، انکار سنت خلفاء راشدین.. کسی اجماع سے جائز ہو سکتے ہیں؟ [عربی میں انکار کو "کفر" کہتے ہیں ، یہ شرعی اصطلاح بھی ہے، یھاں یہ مطلب نہیں . یہ مفتی صاحبان کا کام ہے ]
14۔ کیارسول ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ، عمر رضی الله اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا نہیں فرمایا تھا؟
15. کیا اللہ نے رسول اللہ کی اطاعت کا حکم نہیں دیا ؟
16. کیا اللہ تعالی نے قرآن میں 4 آیات میں قرآن کے علاوہ کسی اور حدیث، کتاب کا انکار نہیں فرمایا ؟
17. کیا انکار قرآن ، انکار سنت رسول ﷺ , انکار حدیث رسول ﷺ ، انکار سنت خلفاء راشدین.. کسی اجماع سے چاہے وہ کروڑوں علماء (مذہبی پیشوا ) کریں جائز ہو سکتے ہیں؟ [عربی میں انکار کو "کفر" کہتے ہیں ، یہ شرعی اصطلاح بھی ہے]
18. کیا قرآن نے نہیں فرمایا کہ یہود و نصاریٰ نے مذہبی پیشواؤں کو رب بنا لیا تھا … وہ ان کے کہنےپر حلال و حرام ، جائز و ناجائز مانتے تھے؟
19.کیا مسلمان بھی قرآن کی اس وارننگ کے باوجود اگر اپنے مذہبی پیشواؤں کی بات کو قرآن و سنت پر ترجیح دیتے ہیں، تو کیا یہ کھلا شرک نہیں کر رہے ؟ ہم کدھر کھڑے ہیں؟ کدھر جا رہے ہیں؟ یا اللہ ہم پر رحم فرما اور سینے کھول دے کہ ہم تیری ھدائیت قرآن کو کھلے دل سے عملی طور پر بھی قبول کر سکیں ۔۔

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3)

یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع کو نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- ایک سچنے مسلم کی خواہش اور کوشش ہونا چاہیے  کہ وہ اصل "دین کامل- اسلام"  کی بحالی کی عملی جدوجہد کرے جو کہ ان خرابیوں سے پاک ہو- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺب ہترین نمونہ  کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی متواتر سنت (عمل)  اوراحادیث (اقوال ) موجود ہیں - حدیث کا میعاررسول الله  ﷺ نے مقرر فرمایا اور محدثین نے بھی[1] لیکن جو احادیث اس میعار پر پورا نہ بھی اتریں، ان کا احترم کرنا چاہیے، فضائل، سیره اور تاریخی اہمیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے- قرآن مجید آخری رسول محمد صلی الله علیہ وسلم  پر تئیس سالوں میں نازل ہوا ، جو حفظ و تحریر کے ذریعہ محفوظ  کیاگیا- پہلے دوخلفاء راشدین مہدیین کی کوششوں کے نتیجہ میں  ،. کتاب کی شکل میں قرآن مجید کو اکٹھا کرکہ بعد میں دوبارہ جانچ پڑتال کے بعد ، تیسرے خلیفہ حضرت عثمان (رضی الله) نے قرآن کی مستند مجلد کاپیاں تیار کرواکہ امت میں قسیم کردیں ۔ قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله، راہ هدایت ہے-مسلمانوں کو  دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے "دین کامل: اسلام" کو بحال کرنے کی  پرامن انداز میں  کوشش کرنی ضروری ہے۔


References 

  1. تورات اور تالمود Torah and Talmud : https://salaamone.com/torah-talmud/
  2. قرآن ، سنت ، حدیث : https://quransubjects.blogspot.com/2019/12/hadith-sunnah.html
  3. ، حضرت عمر (رضی الله
  4. جہاد کبیرہجہاد کبیرہ : https://salaamone.com/great-jihad/
  5. https://salaamone.com/دو-اسلام-ڈاکٹر-غلام-جیلانی-برق/

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]



      ~~~~~~~~~

      🌹🌹🌹
       🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


      الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

      آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

      [1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

      [2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

      [3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

      [4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

      یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

      [5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

      لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

      پوسٹ لسٹ