رسالة التجديد تحقیقی مقالہ - ایگزیکٹو خلاصہ
تحقیق و تحریر- بریگیڈیئر آفتاب خان (ر)
1 - تعارف :
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
"کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾
بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے (3:19)
براہ کرم جب آپ یہ مقالہ پڑھتے ہو تو اپنے ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے تعصبات fixations سے آزاد کریں… اگر آپ واقعتا کچھ سمجھنا چاہتے ہیں تو صرف اس مقالہ پر توجہ مرکوز کریں اور سمجھ کر تبصرہ ، مفید کمنٹس، تجاویزدے کر اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں ... بصورت دیگر اپنا وقت یہاں ضائع نہ کریں ...
قرآن اللہ نے رسول پیر نازل فرمایا جو قرآن کا عملی نمونہ تھے اور ان کا أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ہمرے لے رول ماڈل (قرآن ٣٣:٢١) ہے- قرآن مکمل . محفوظ ترین کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا، جبکہ سنت رسول الله ﷺ، عمل تواتر کی وجہ سے بھی محفوظ رہی- احادیث کی کتابت کا اہتمام خلفاء راشدین نےکیوں ضروری نہ سمجھا، اس حقیقت کا تحقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جس پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے، کیوں؟ جبکہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کا حکم رسول الله ﷺ نے دیا تھا-
2 - یہودیت ، مسیحیت اور الہامی کتب :
3 - تورات اور تلمود
5- انجیل
6 - الہامی کتب میں تحریف ، غلو اور مذہبی پیشواؤں کی تحریر کردہ کتب کا اضافہ
7 - آخری نبیﷺ اور آخری کتاب - قرآن
8 - سنت نبوی ﷺ اور اسوہ حسنہ
9.
] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
"کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں"
اطاعت رسول ﷺ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
10.
رسول ﷺ کی نافرمانی کا انجام - رُسوا کُن عذاب جہنّم :
مرزا قادیانی نے ایک آیت قرآن کے مطلب میں اپنی طرف سے تحریف کر کہ مطلب نکالا اور گمراہ ٹھہر :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
(حضرت ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبین ہیں ( سب نبیوں پر مہر۔ آخری نبی) اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ (٣٣:٤٠)
خاتم ، یعنی "ختم کرنے والا" .. دوسرا مطلب خاتم کا "مہر" بھی ہے آیا ، دونوں مطلب ہیں نبویت پر آخری مہر یعنی ختم ہو گیا نبوت کا سلسہ ... جیسے کسی خط لو مہر لگا کر بند کرکہ سیل کر دیتے ہیں .. 10-A
رسول ﷺ نے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا حکم دیا :
مزید پڑھیں .... سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق ....[.....]
حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے ایسا کرنے سے اتفاق کیا لیکن حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) ہچکچاہٹ میں رہے اور پورا ایک مہینہ الله سے رہنمائی اور روشنی کی دعا کرتے رہے بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام نہیں کیا جایے گا اور فرمایا کہ: “سابق لوگوں نے اللہ کی کتابوں کو نظر انداز کیا اور صرف نبیوں کی سنت پرپر توجہ مرکوز کی، میں اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے درمیان الجھن کا امکان قائم نہیں کرنا چاہتا- اس کے بعد انہوں نے تمام صوبوں کے مسلمانوں کو ہدایت کی: “جس کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے متعلق تحریری دستاویز ہے وہ اسے تتلف کردے”.
مزید پڑھیں ، حضرت عمر (رضی الله ).....[...] اگرچہ تیسری صدی حجرہ میں حدیث کی مشور کتب تحقیق اور محنت سے مرتب کی گیئں- لیکن کیونکہ دو سو سال سے زیادہ کا عرصۂ گزر چکا تھا اور اکثر احادیث خبر واحد ، یعنی کسی ایک راوی سے نسل در نسل منتقل ہوئیں- احادیث کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے- کوئی انفرادی ، انسانی کوشش کتابت قرآن کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتی-
قرآن سے اختلاف ممکن نہیں مگراحادیث کی مختلف توجیہات سے بہت اختلافات اور فرقے بن چکے ہیں- اکثراختلافات فروعی نوعیت کےہیں مگر تکفیرکے فتوے لگتے ہیں، شدت پسندی سے فتنہ و فساد ہوتا ہے جبکہ الله کا حکم ہے :
12.
سنت تواتر
13.
اب ایک نظر دوبارہ یہود ونصاری پر…
حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی مگر تلمود یہودیوں کی مقدس کتاب بن چکی ہے جو کہ توریت کی تفسیر ہے اور یہودیوں کی من پسند بہت ساری بحثیں اس میں موجود ہیں جو توریت میں نہیں ہیں یہودیوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے حتیٰ کہ یہودی تلمود کے مطالعہ کو توریت کی تلاوت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ تلمود ، میسورہ پبلی کیشنز (73 جلدوں) کا اسکاٹسٹن ایڈیشن۔قرآن کریم کی کل آیت = 6236 ایک پارہ تقریبا = 208
14.
قرآن و حدیث کے تحریری مواد کا تقابلی جائزہ :
قرآن میں 6,236 آیات ہیں, احادیث کی 51 کتب، (75 اگر شیعہ کتب شامل کریں ) اکثریت تیسری صدی حجرہ میں مدون ہوئیں …. اگر صرف ایک مثال لیں تو امام بخاری نے پوری محنت کے ساتھ 600،000 سے زیادہ حفظ شدہ احادیث سے 7،397 روایات شامل کیں۔ تکرارکے بعد ، مجموعی طور پر 2،762 احادیث ان کی کتاب میں جمع ہیں- یہ خیال رہے کہ قرآن کی زیادہ تر آیات ایک سے دویا تین لائن میں ہوتی ہیں مگرحدیث اکثر طویل ہوتی ہے- اندازہ کےلیےاوسط ایک حدیث کےالفاظ یا تحریری مواد کو (5) پانچ آیات کے تحریری مواد کے برابر تصور کرسکتے ہیں- احادیث کی کل تعداد کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہے، اور محدثین کے اس میں مختلف اقوال بھی ہیں، ایک اندازہ کے مطابق احادیث کی تعداد پچیس ہزار سے بھی زائد ہوسکتی ہے [تفصیل لنک پر]- اگر 25000 ہزار احادیث کےاتحریری مواد 125000 آیات کے تحریری مواد کے قریب برابرہے، توقرآن و احادیث کے مجموعہ کو[ 6236 +125000] 131000 آیات کے قریب تحریری مواد سمجھ سکتے ہیں-اسی طرح قرآن کی آیات کا تناسب اگر متواتر احدیث / سنت متواتر (113) سے کریں تو ٹوٹل تحریری مواد کا 8%, اور قرآن 92% بنتا ہے جو کہ حقیقت پسندانہ تناسب ہے -
ایک طرف کتاب الله ، قرآن اور اس کے ساتھ 51/75 کتب احادیث، اس کی تفصیل بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے- یہ تناسب بائبل میں مسیح علیہ السلام سے منسوب اقوال, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد سے بھی کم ہے- اگرچہ احادیث میں اکثریت رسول رسول ﷺ سے منسوب ہیں ان کی صداقت کے معیار کا قرآن سے کوئی تقابل نہیں-
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں :
14 A
کیا قرآن آسان ہے یا مشکل ترین؟
اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن ہمارے فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنادیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بےبہرہ ہی رکھنا چاہئے؟
پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنادیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذھن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ [تفسیر عبدالرحمان کیلانی ]
الله کا فرمان مت بھولیں :
"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31) بہت لوگوں نے احادیث کے زریعہ فروعی اختلافات ، بحث مباحث ، فرقہ بازی، فساد میں مشغول ہو کر قرآن کو پس پشت ڈال دیا-
15.
مقام قرآن :
مزید پڑھیں.. قرآن کا تعارف قرآن سے .....[.....]
16.
حدیث کی اہمیت :
[قرآن ، سنت ، حدیث : https://quransubjects.blogspot.com/2019/12/hadith-sunnah.html]
17.
قرآن کے مطابق کسی اور کتاب، حدیث کی کوئی گنجائش نہیں :
(4). فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)
اہم نقطۂ :
ترجمہ کسی ببھی زبان میں ہو ، قرآن نہیں ہوتا ، قرآن اصل عربی میں ہے … اور عربی سے واقف شخص "حدیث " کو " حدیث " ہی پڑھے گا .، اس کو سیاق و سباق بھی سمجھ اتا ہے ، اور عربی زبان والے کو علم ہے کہ رسول اللهﷺ کے اقوال ، فرمان والی کتاب کو "حدیث" کہتے ہیں، جو اصطلاح کی حثیت رکھتا ہے نزول قرآن کے وقت بھی اور آج بھی [اب تمام دنیا، انگلش اور کئی زبانوں میں شامل ہو چکا ہے ]-
قرآن کے مقابل "حدیث" کی کتاب ہی ہو سکتی ہے "بات" یا قصہ ، کہانی ، خوابوں کی تعبیر ، نشان عبرت وغیرہ نہیں ہے -
حدیث کی کتابوں میں اکثریت رسول اللهﷺ کے اقوال ، فرمان اور عملی اقدام ہیں جسے سنت کہتے ہیں-
حدیث کتب لکھنے والوں نے کتابوں کے نام "حدیث" نہیں رکھے بلکہ "سنن" رکھے ، جبکہ وہ "حدیث" کی کتب ہیں …
یہ اس لیے کیا کہ قرآن میں کسی اور "حدیث" یعنی "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع فرمایا گیا ہے ،
یھاں حدیث کے دونوں معنی ،(١) کتاب حدیث اور (٢) بات ، قول … لاگو ہوتے ہیں - جیسا کہ [ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ] [سورة النساء 4 آیت: 29] میں ایک ہی جگہ ، ایک لفظ کے تین مطلب لاگو ہوتے ہیں -
اور آج بھی پوری دنیا میں حدیث کی کتب کو " سنن " کوئی نہیں کہتا ان کو حدیث کی کتب ہی کہا جاتا ہے ، جیسا کہ نزول قرآن کے وقت بھی جب حدیث کو لکھنے کی اجازت دی اورمنسوخ بھی ہوئی .. الله العلیم اور الخبیر ہے … سنن لکھی بات نہیں عمل کو کہتے ہیں اور یہ عمل ایک نہیں بہت زیادہ لوگوں نے دیکھا اکو خود پریکٹس کیا ہوتا ہے - جبکہ حدیث کتب میں زیادہ حدیث ، اقوال ، باتیں ، ہیں -
تمام اہم ہدایت جنکو لکھنے کی ضرورت تھی الله نے قرآن میں شامل کر دیا ... قرآن سند یافتہ ایک مکمل کتاب ہدایت ہے-
سنت عمل کا نام ہے -
یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب پر مشتمل ہے-
قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟
صرف رسول الله ﷺ کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جو کہ مزید وجہ احادیث کی کتابت سے منع کر نےکی ہو سوسکتی ہے-
اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
حادیث کی کتابت میں رکاوٹ ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله ﷺ کے فرامین ور ارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں تھا یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے کہ دوسری صدی حجرہ تک سماع احادیث ہوا کرتا تھا ، امام احمدد بن حنبل جگہ جگہ سفر کرتے تھے سماع حدیث کے لیے- بعد میں وہ بھی ٣٠٠٠٠ احدادیث کی مسند لکھ گیے-
جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا ، حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ رسول الله ﷺ کی باتیں ، اقوال لکھتے تھے، جن کو "حدیث" کھا جاتا تھا ،پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله ﷺ نے "حدیث " لکھنے سے منع فرمادیا ..ممکنہ طور پر ایسا حکم رسول الله ﷺ نے ان آیات کے نازل ہونے کے بعد فرمایا ہو گا -
اس بات کو حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله کے اس فیصلہ سے بھی سپورٹ ملتی ہے کہ انہوں نے احادیث کی کتابت سے منع فرمادیا -
اگر یہ سب کچھ تاریخ احادیث سے نہ بھی ااخذ (quote) کریں تونا قابل تردید تاریخی حقیقت موجود ہے کہ باقی خلفاء راشدین نے بھی کتابت احادیث کا اہتمام نہ کیا -
وہ سلرے حالات اور حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ تھے- جب وہ قرآن کی کتابت کا فیصلہ کر سکتے تھے تو اس کے بعد احادیث کی کتابت میں کیا رکاوٹ تھی؟
یہ بات ان آیات کی تفسیر میں نہیں ملتی- یہ بات ملتی ہے کہ کبھی کسی کو اجازت دی اور پھر منع فرما دیا (واللہ اعلم )
یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب (لغوی اور اسطلاحی )پر مشتمل ہو سکتا ہے-
قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟ صرف رسول الله ﷺ کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جس کی وجہ سے احادیث کی کتابت سے منع کر دیا گیا ہو؟ اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
حادیث کی کتابت میں رکاوٹ معلوم ہوتی ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله ﷺ کے فرامین ور ارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں ہو سکتا یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے-
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ [پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے]
"… اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا- اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے" (قرآن :20:123,124)
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
قرآن موجود ہے ، اس کو سمجھنے اور تفکر کے لے الله کی عطا کردہ عقل و دانش اور علم کے استعمال پر پابندی نہیں :
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡئَلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۱﴾
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کی کمائی ان کے لیے ہے۔ اور تمہاری تمہارے لیے۔ اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے بازپرس نہ ہوگی (2:141)
[پڑھیں >> کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی – ایک علمی جایزہ:]
18.
کتابت حدیث کی ممانعت کی نسبت بلا واسطہ اور بالواسطہ الله کی طرف جاتی ہے:
(8) بلاواسطہ اور بالواسطہ الله اور رسول ، خلفاء راشدین کی صریح نافرمانی ….
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (2:170) اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں(2:170)
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ
جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا (17:15)
کچھ گناہ اور کوتاہیاں انفرادی ہوتی ہیں ، جیسے نماز میں سستی ، کسی سے بدکلامی کرنا وغیرہ ، لیکن ایسے اقدام جن کے اثرات نسل در نسل لاکھوں ، کروڑوں افراد کے مذھبی نظریات اوراعمال پر اثر انداز ہوں تو یہ بہت سنجیدہ معامله ہے، خاص طور پر جب حقیقت کا علم ہو جایے تو اپنی بزرگوں سے محبت میں ان کے غلط اقدام کا دفاع کرنا اس میں شامل ہونا ہے:
دلچسب اور اہم تاریخی معلومات
چار مہشور فقہ کے بانی مشہور احادیث کی کتب کے بغیر فقہ مکمل کرگیے ( علاوہ موطأ امام مالک)- ظاہرہے انہوں قرآن سنت اور احادیث سے استفادہ کیا ہوگا- ابوحنیفہ نعمان بن ثابت جو بہت مقبول ہیں انہوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی - حدیث کی بھی نہیں ، وہ پہلی صدی حجرہ میں پیدا ہوے جب حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدہ کے فیصلوں کا احترم زیادہ ہوتا ہو گا (واللہ اعلم )
1. ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء)
2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء) موطأ امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو آپ نے تصنیف کی۔
3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء)
4. احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء)
مشہور محدثین - صحاحِ ستہ : ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسا سمجھی جاتی ہیں۔
1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)
2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)
3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)
4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی 275ھ/9-888ء
5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء
6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء
امام احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) فقہ اربعہ کی ٹائم لائن کے آخر میں ہیں … وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے …. اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟
وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے
فقیہ، محدث، اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ایک مجتہد اور فقہ حنبلی کے مؤسس تھے۔ امام احمد بن حنبل کی پوری زندگی سنتِ رسول سے عبارت ہے، وہ در حقیقت امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع اور امام فی السنت کے عالی مقام پر فائز رہے۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی و علمی لگاؤ تھا، اس لیے امت سے امام اہل السنت و الجماعت کا لقب پایا۔
تعلیم و سماعت حدیث: 16 برس کی عمر میں انہوں نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ ابو یوسف کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ 180ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھر حجاز آمد و رفت رہی اور علما حجاز سے علم سیکھتے رہے۔
196ھ میں یمن جاکر عبد الرزاق الصنعانی سے احادیث سنیں۔ یہاں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ وہ کوفہ بھی گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پزیر رہے سر کے نیچے سونے کے لیے اینٹ رکھا کرتے۔
کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لیے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔
شافعی خود فرماتے ہیں انہوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آ سکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ وہ تقریباً سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشائخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ 199ھ میں شافعی جب دوسری بار بغداد آئے تو احمد سے انہوں نے کہا: ”اگر تمہارے پاس، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو۔ میں حجازی فقہا کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔“ اس وقت احمد کی عمر 36 برس کی تھی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احدیث کی کتب مہیا نہ تھیں اور محدثین سے احدیث کی سماعت ہوتی تھی ، تیسری صدی حجرہ کے وسط تک .
19-A
اہم نقاط کا خلاصہ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور کتاب حدیث پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ )( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
"کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں"
[رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ ، رسول اور جبرایل کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے کو کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-
مزید اہم نقاط :
- حدیث کو لکھنے کی اجازت رسول اللهﷺ نے دی/ منع فرما دیا کہ قرآن سے مکس نہ ہو -
- رسول اللهﷺ نے اپنی اور خلفاء راشدین کی سنت کوسختی سے پکڑنےکا حکم دیا -
- رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-
- قرآن کو حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله) کے دور خلافت میں حضرت عمر (رضی الله) کے اصرار پر جمع کر دیا گیا - اور حضرت عثمان (رضی الله) کے دور میں کاپیاں تقسیم کی گئں-
- قرآن کی کتابت میں بہت احتیاط برتی گیی - دو چشم دید زندہ افراد کی شہادت لازم ، جنہوں نے رسول اللهﷺ سے خود آیات سنی ہوں ، کتابت کرنے والی کمیٹی کاانچارج حافظ قرآن ، کاتب وحی حضرت زید بن ثابت (رضی الله) ، ممبران میں عبد اللہ بن زبیر سعید ابن عاص اور عبد الرحمٰن بن ہشام رضی للہ عنہ بھی شامل تھے-
- قرآن کے مطابق، رسول اللهﷺ کی اطاعت، اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے- اس کو محفوظ کرنے کے مختف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ، سنت رسول اللهﷺ پر عمل ، حفظ ، تحریر مگر قرآن کے علاوہ کسی حدیث ، کلام ، بات پر ایمان سے منع فرماتا ہے -
- اس کے بعد احادیث کو جمع کرنے کا سرکاری طور پر اہتمام نہ کیا گیا -
- قرآن نے کسی " حدیث" کتاب سے منع کیا [ (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)]
- سنت رسول اللهﷺ تواتر سے نسل در نسل متنقل ہوتی رہی ، احادیث زبانی حفظ کرکہ منتقل ہویں ، کچھ ذاتی تحریریں بھی-
- حضرت عمر (رضی الله) خلیفہ بنے تو سوچ بچار کےبعد احادیث کی کتابت نہ کرنے کافیصلہ کیا -
- حدیث کی کتابت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک کتاب ہو گی کتاب الله … کہ پہلی امتیں برباد ہوئیں کتاب الله کو چھوڑ کر دوسری کتب میں مشغول ہو گیئں-
- حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل تھے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں -
- حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلہ پر خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور یہ پہلی صدی حجرہ تک یہی سنت رہی-
- مسیحیت کی بائبل میں ٢٠% حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلام اور ٨٠% سینٹ پال اور حواریوں کی تحریریں-
- یہود نے تورات چھوڑ کر مذہبی پیشواؤں کی تفسیریں اور تحریریوں والی تلمود کو اپنا لیا جس میں ایک کروڑالفاظ اور 38 جلدیں ہیں --
- آج قرآن کے ساتھ ساتھ ( 51 /75 ) حدیث کی کتب ہیں .
- امام ابو حنیفہ (80-150ھ ) نے فقہ کی بنیاد ڈالی ،مگر حدیث کی کوئی کتاب نہ لکھی حالانکہ وہ بہت بڑے محدث بھی تھے
- . حضرت عمر بن عبد العزیز نے ١٠٠ ھ میں احادیث کی کتابت کا اہتمام کیا -
- دوسری صدی کے نصف کے بعد مختلف افراد نے اپنے اپنے احادیث کے ذخیرہ اکتھے کرنے شروع دیے - تیسری صدی تک احادیث کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گی-صرف امام بخاری 6 لاکھ احادیث کے دعوے دار ہیں -
- قرآن میں حدیث کی ممانعت ہے - .حدیث کی کتابیں لکھنے والوں نے کتب کا نام "سنن " رکھ لیا ; سنن أبو داود , سنن الصغرى والكبرى النسائي, سنن الترمذي, سنن ابن ماجة, سنن الدارمي, سنن الدارقطني, سنن سعيد بن منصور , س للبيهقي,وغيره وغيره-
- قرآن کہتا ہے کہ یہ الله کی کتاب ہے ، محفوظ ہے ، اس میں کوئی شک نہیں اور یہ مکمل ہدایت ہے -
- حدیث کہتی ہے کہ جو حدیث تمہا رے دل کو اچھی نہ لگے وہ رسول اللهﷺ سے بھی دور ہے- جو حدیث قرآن اور سنت کے خلاف ہے وہ درست نہیں -
- اب چودہ سو سال بعد معلوم ہوتا ہے کہ بہت اور بھی مسائل کھڑے ہو گیے ، احادیث کی بنیاد پر نئے نیے فرقے بن گئے ، قرآن کی تاویلیں جھوٹی منٹ گھڑت ، ضعیف ، کمزور احادیث سے اور صحیح کو ملا جلا کر ایسا کام کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے - قرآن کو اگر غیر مصدقہ ، نامکمل مواد سے تفسیر کریں گے توکمی رہ جایے گی … سنت رسول اللهﷺ تواتر سے موجود ہے جس کا انکار ناممکن ہے اور کسی کے لیے ممکن نہیں کہ جھوٹی" سنت" گھڑ لے … سنت تو نام ہی رسول اللهﷺ کے عمل کا ہے-
- کچھ قابل غور باتیں ہیں :
- کیا ایک الله ، ایک کتاب ، ایک دین اسلام - یا - ایک الله ،76 کتب ،کئی فرقے (٧٣) والا دین اسلام؟
- تاریخ نے ثابت کیا کہ خلفاء راشدین کا فیصلہ درست تھا, تاریخ اپنی جگہ ان کے فیصلے کی اطاعت رسول اللهﷺ کی اطاعت اور رسول اللهﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ...
- کتب احادیث رسول اللهﷺ کی نامزد کردہ مجاز اتھارٹی سے منظور، تصدیق شدہ نہیں
- پرائیویٹ اشخاص کی زاتی، انفرادی تحقیق، تخلیق و انتخاب ، انسانی غلطی کا بہت امکان -
- اصل راوی (گواہان) وفات شدہ تھے دوسو برس قبل کم یا زیادہ - احادیث اکٹھی کرنے، منتخب کرنے والا ایک شخص جس کی اپنی صوابدید پر ہے کہ کس حدیث کو منتخب کرے کس کو چھوڑ دے - [قرآن کی تدوین ایک مثالی ہے ]
- احادیث کی اکثریت خبر احاد ہے - ٢٥٠٠٠ میں سے متواتر احادیث (سنت ) صرف ١١٣ اہم عبادات وغیرہ -
- احادیث کی نامکمل کتب (تمام احادیث کو اکٹھا کرنا ناممکن ) جن کا انتخاب، کتابت انفرادی طور پر دوسری اور تیسری صدی حجرہ میں ہوئی فائدہ زیادہ دے سکتی ہیں یا نقصان ؟
- یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-
- اصطلاحِ شرعیت میں اجماع اسے کہتےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلہ کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا اتفاق کرلینا، تو جب کسی زمانہ میں کوئی مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں- قرآن رسول اللهﷺ اور خلفاء راشدین کی سنت کے خلاف کتابت احادیث اجتہاد نہیں ہو سکتا- اہم بات …..جب مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں- اسلام میں مذہبی پیشواؤں کی یہود و نصاری کی طرح "رب " بننے کی گنجائش نہیں-
- ہم کو پہلی صدی حجرہ کے اصل دین اسلام کی طرف واپس جانا ہوگا رسول اللهﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کا دین اسلام جو حج الواداع پر اپنے عروج اور کمال پر تھا …
- قرآن رسول اللهﷺ اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرتے رہیں-
- ایک مسلمان کے لیے رسول اللهﷺ سے محبت اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ رسول اللهﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. اس کو الله نے "حدیث" بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ رسول اللهﷺ نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح رسول اللهﷺ کے مستند ، اصل کلام کو بھی مقدس اور عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں …
- احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول ﷺ سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
- الله ہم کو قرآن اور سنت رسول ﷺ پر عمل کی توفیق عطافرمایے - آمین
اب کیا کریں ؟
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (59:10)
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)
(5). پیرا " 17 15,16" کی روشنی میں ذخیرہ احادیث کا جائزہ لینےکی ضرورت ہے-
(6). حکومت متواترسنت اور احادیث پر ادارہ جاتی اورانفرادی تحقیق کا اہتمام کریں-
(7) . حضرت عمر رضی الله کوکتابت حدیث پرجوخدشات تھے ان کو مد نظر رکھیں، غلطی کا ازالہ تو اسی طریقه سے ہو سکتا ہے جو حضرت عمر رضی الله نے اختیار کیا تھا، مگر عوام میں صدیوں جو نظریات قائم ہو چکے ہیں ان کو بتدریج حکمت سے تبدیل کرنا چاہیے ، یہ حکمت قرآن سے نشہ کی بتدریج ممانعت سے معلوم ہوتا ہے-
احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول ﷺ سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
(8) ابتدائی طور پر کتب احادیث کے ٹائیٹل پر پیرا 16اور 17 میں مذکور آیات قرآن اور احادیث بمع ترجمہ پرنٹ کرنا چاہیے، تاکہ امت مسلمہ پہلی امتوں کی طرح کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب کو مت ملائیں نہ ترجیح دیں - الله کی رسی قرآن کو پکڑ لیں ، پہلی گمراہ امتوں کے راستہ پر نہ چلیں جن پر الله کا غضب نازل ہوا -
1.اگر سفارشات پر عمل کریں تو ، عملا فوری طور پر کچھ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ سب کچھ ویسے ہی رہ گا جیسے ہے-، کوئی نیا انقلاب برپا نہیں ہوگا ، صرف سوچنے والے مفکرین اور افراد کی توجہ قرآن کی طرف زیادہ ہو جانے سے عوام کا رجہان بھی اہستہ اہستہ تبدیل ہوسکتا ہے - اگر کچھ پرجوش مسلمان اپنی سوچ میں تبدیلی لا کر کوشش کریں تو اچھا آغاز ہو سکتا ہے-مذہبی پیشواؤں کی طرف سے شدید دفاعی ردعمل، علمی دلیل کی بجاتے جذباتی ابال سطحی اور وقتی ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن کے اپنے مثبت اثرات ہیں- چار مشہور فقہ کے بانیوں نے اگر احادیث کی کتب نہیں لکھیں تو وہ تو اس معامله سے بری الزمہ ہو گئے-
2. عوام کا جذباتی استحصال اور دیگر فتوے ، وقتی رد عمل دیر پا نہیں ہوسکتا -
3. کوئی بات قرآن ، سنت اور احادیث کے علاوہ نہیں تو اس کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ ؟
4.مذہبی پیشواؤں کے لیے اپنی اہمیت کم ہونے کا فرضی احساس، حالانکہ دین پر ان کی اجارہ داری علم کی بنیاد پر کم نہیں ہو سکتی -
5. قرآن کے خلاف باطل نظریات اور مشرکانہ پریکٹسز میں کمی اور خاتمہ سے کچھ افراد کوسیاسی، سماجی اور معاشی نقصان -
6. فرقہ واریت میں کمی اور خاتمہ کی طرف ابتدا .
7. علماء پر تحقیق کی ذمہ داری ، جس کو صرف اہل علم ہی نبھا سکتے ہیں-
8.عوامی شعور میں اضافہ اور سیاسی ، سماجی ،معاشی ، اخلاقی بہتری-
9. اتحاد امت مسلمہ جو صدیوں سے ایک خواب رہا ہے ، اس کو صرف قرآن پر عمل درآمد سے حاصل کیا جاسکتا ہے-
10. بین الاقوامی طور پر مسلمان ایک مہذب قوم کے طور پر اپنا وجود ثابت کر سکتے ہیں ، جس سے اسلام کو دنیا میں عروج حاصل ہو سکتا ہے-
11. ......
مدلل تبصرہ , تنقید, کمنٹس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے:
.. الِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
.. تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً الله سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن 8:42)
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے(16:125)
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3)
References
- تورات اور تالمود Torah and Talmud : https://salaamone.com/torah-talmud/
- قرآن ، سنت ، حدیث : https://quransubjects.blogspot.com/2019/12/hadith-sunnah.html
- ، حضرت عمر (رضی الله
- https://salaamone.com/دو-اسلام-ڈاکٹر-غلام-جیلانی-برق/
- New Testament Statics: https://www.sacred-texts.com/bib/csj/csj001.htm
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
~~~~~~~~~
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-