آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3)
یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع کو نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- ایک سچنے مسلم کی خواہش اور کوشش ہونا چاہیے کہ وہ اصل "دین کامل- اسلام" کی بحالی کی عملی جدوجہد کرے جو کہ ان خرابیوں سے پاک ہو- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺب ہترین نمونہ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی متواتر سنت (عمل) اوراحادیث (اقوال ) موجود ہیں - حدیث کا میعاررسول الله ﷺ نے مقرر فرمایا اور محدثین نے بھی[1] لیکن جو احادیث اس میعار پر پورا نہ بھی اتریں، ان کا احترم کرنا چاہیے، فضائل، سیره اور تاریخی اہمیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے- قرآن مجید آخری رسول محمد صلی الله علیہ وسلم پر تئیس سالوں میں نازل ہوا ، جو حفظ و تحریر کے ذریعہ محفوظ کیاگیا- پہلے دوخلفاء راشدین مہدیین کی کوششوں کے نتیجہ میں ،. کتاب کی شکل میں قرآن مجید کو اکٹھا کرکہ بعد میں دوبارہ جانچ پڑتال کے بعد ، تیسرے خلیفہ حضرت عثمان (رضی الله) نے قرآن کی مستند مجلد کاپیاں تیار کرواکہ امت میں قسیم کردیں ۔ قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله، راہ هدایت ہے-مسلمانوں کو دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے "دین کامل: اسلام" کو بحال کرنے کی پرامن انداز میں کوشش کرنی ضروری ہے۔
تحقیق میں قرآن، سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم، سنت خلفاء راشدین و صحابہ اکرام کا جائزہ لینے کے بعد اہم حقائق و نتائج کا خلاصہ :
کتابت احادیث - اہم نقاط :
- قرآن نے کسی " حدیث" کی کتاب سے منع کیا (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
- حدیث کو لکھنے کی اجازت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی/ منع فرما دیا ، دونوں طرح کی روایات موجود ہیں، مگر منع والی روایات قرآن کے مطابق ، ترجیح پر ہیں -
- رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی اور خلفاء راشدین کی سنت کوسختی سے پکڑنےکا حکم دیا -
- رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-
- قرآن کو حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله) کے دور خلافت میں حضرت عمر (رضی الله) کے اصرار پر جمع کر دیا گیا - اور حضرت عثمان (رضی الله) کے دور میں کاپیاں تقسیم کی گئں-
- قرآن کی کتابت میں بہت احتیاط برتی گیی - دو چشم دید زندہ افراد کی شہادت لازم ، جنہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے خود آیات سنی ہوں ، کتابت کرنے والی کمیٹی کاانچارج حافظ قرآن ، کاتب وحی حضرت زید بن ثابت (رضی الله) ، ممبران میں عبد اللہ بن زبیر سعید ابن عاص اور عبد الرحمٰن بن ہشام رضی للہ عنہ بھی شامل تھے-
- قرآن کے مطابق، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت، اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے- اس کو محفوظ کرنے کے مختف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ، سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر عمل ، حفظ ، تحریر مگر قرآن کے علاوہ کسی حدیث ، کلام ، بات پر ایمان سے منع فرماتا ہے -
- اس کے بعد احادیث کو جمع کرنے کا سرکاری طور پر اہتمام نہ کیا گیا -
- سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم تواتر سے نسل در نسل متنقل ہوتی رہی ، احادیث زبانی حفظ کرکہ منتقل ہویں ، کچھ ذاتی تحریریں بھی-
- حضرت عمر (رضی الله) خلیفہ بنے تو سوچ بچار کےبعد احادیث کی کتابت نہ کرنے کافیصلہ کیا -
- حدیث کی کتابت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک کتاب ہو گی کتاب الله … کہ پہلی امتیں برباد ہوئیں کتاب الله کو چھوڑ کر دوسری کتب میں مشغول ہو گیئں-
- حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل تھے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں -
- حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلہ پر خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور یہ پہلی صدی حجرہ تک یہی سنت رہی-
- مسیحیت کی بائبل میں 20% حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلام اور80% سینٹ پال اور حواریوں کی تحریریں-
- یہود نے تورات چھوڑ کر مذہبی پیشواؤں کی تفسیریں اور تحریریوں والی تلمود کو اپنا لیا جس میں ایک کروڑالفاظ اور 38 جلدیں ہیں --
- آج قرآن کے ساتھ ساتھ ( 51 /75 ) حدیث کی کتب ہیں .
- امام ابو حنیفہ (80-150ھ ) نے فقہ کی بنیاد ڈالی ،مگر حدیث کی کوئی کتاب نہ لکھی حالانکہ وہ بہت بڑے محدث بھی تھے
- . حضرت عمر بن عبد العزیز نے ١٠٠ ھ میں احادیث کی کتابت کا اہتمام کیا -
- دوسری صدی کے نصف کے بعد مختلف افراد نے اپنے اپنے احادیث کے ذخیرہ اکتھے کرنے شروع دیے - تیسری صدی تک احادیث کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گی-صرف امام بخاری 6 لاکھ احادیث کے دعوے دار ہیں-
- قرآن میں حدیث کی ممانعت ہے - .حدیث کی کتابیں لکھنے والوں نے کتب کا نام "سنن " رکھ لیا ; سنن أبو داود , سنن الصغرى والكبرى النسائي, سنن الترمذي, سنن ابن ماجة, سنن الدارمي, سنن الدارقطني, سنن سعيد بن منصور , س للبيهقي,وغيره وغيره-
- قرآن کہتا ہے کہ یہ الله کی کتاب ہے ، محفوظ ہے ، اس میں کوئی شک نہیں اور یہ مکمل ہدایت ہے -
- حدیث کہتی ہے کہ جو حدیث تمہا رے دل کو اچھی نہ لگے وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بھی دور ہے- جو حدیث قرآن اور سنت کے خلاف ہے وہ درست نہیں -
- اب چودہ سو سال بعد معلوم ہوتا ہے کہ بہت اور بھی مسائل کھڑے ہو گیے ، احادیث کی بنیاد پر نئے نیے فرقے بن گئے، قرآن کی تاویلیں جھوٹی منٹ گھڑت ، ضعیف ، کمزور احادیث سے اور صحیح کو ملا جلا کر ایسا کام کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے - قرآن کو اگر غیر مصدقہ ، نامکمل مواد سے تفسیر کریں گے توکمی رہ جایے گی … سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم تواتر سے موجود ہے جس کا انکار ناممکن ہے اور کسی کے لیے ممکن نہیں کہ جھوٹی" سنت" گھڑ لے … سنت تو نام ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عمل کا ہے-
- کیا ایک الله ، ایک کتاب ، ایک دین اسلام - یا - ایک الله ،76 کتب ،کئی فرقے (73) والا دین اسلام؟
- تاریخ نے ثابت کیا کہ خلفاء راشدین کا فیصلہ درست تھا, تاریخ اپنی جگہ ان کے فیصلے کی اطاعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ...
- کتب احادیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نامزد کردہ مجاز اتھارٹی سے منظور، تصدیق شدہ نہیں
- پرائیویٹ اشخاص کی زاتی، انفرادی تحقیق، تخلیق و انتخاب ، انسانی غلطی کا بہت امکان -
- اصل راوی (گواہان) وفات شدہ تھے دوسو برس قبل کم یا زیادہ - احادیث اکٹھی کرنے، منتخب کرنے والا ایک شخص جس کی اپنی صوابدید پر ہے کہ کس حدیث کو منتخب کرے کس کو چھوڑ دے - [قرآن کی تدوین ایک مثالی ہے، جس مثال مذاھب کی تاریخ میں نہیں ملتی ]
- احادیث کی اکثریت خبر احاد ہے - ٢٥٠٠٠ میں سے متواتر احادیث (سنت ) صرف ١١٣ اہم عبادات وغیرہ -
- احادیث کی نامکمل کتب (تمام احادیث کو اکٹھا کرنا ناممکن ) جن کا انتخاب، کتابت انفرادی طور پر دوسری اور تیسری صدی حجرہ میں ہوئی فائدہ زیادہ دے سکتی ہیں یا نقصان ؟
- یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-
- اصطلاحِ شرعیت میں اجماع اسے کہتےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلہ کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا اتفاق کرلینا، تو جب کسی زمانہ میں کوئی مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں- قرآن رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی سنت کے خلاف کتابت احادیث اجتہاد نہیں ہو سکتا- اہم بات …..جب مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں- اسلام میں مذہبی پیشواؤں کی یہود و نصاری کی طرح "رب " بننے کی گنجائش نہیں-
- ہم کو پہلی صدی حجرہ کے اصل دین اسلام کی طرف واپس جانا ہوگا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کا دین اسلام جو حج الواداع پر اپنے عروج اور کمال پر تھا …
- قرآن رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرتے رہیں-
- ایک مسلمان کے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے محبت اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. اس کو الله نے "حدیث" بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مستند ، اصل کلام کو بھی مقدس اور عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں …
- احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
- الله ہم کو قرآن, سنت رسول ﷺ, سنت خلفاء راشدین و مھدین پر عمل کی توفیق عطافرمایے اور شیطانی نفس کے شر سے پناہ دے - آمین
. اب کیا کریں ؟
(1) اگرچہ احادیث کی کتابت بالواسطہ الله اور رسول کے اطاعت کےبرخلاف بزرگوں سے ہوئی، جوسب الله کے پاس ہیں اور ان کا معامله بھی الله کے سپرد ہے, امید ہے کہ الله ان پر ان کی نیک نیت کے مطابق رحم فرمایے گا:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (59:10)
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)
(2) اسلام سچا دین حق ہے ، کسی فرد یا افراد کی غلطیوں کا جذباتی محبت،روحانی، مسلکی وابستگی کی بجاتے قرآن و سنت اور عقل و حکمہ سے حل تلاش کریں- قرآن مذہبی پیشواؤں کو خدا کا درجہ دینے سے منع کرتا ہے-
(3). احادیث کو اختلافات ، فرقہ واریت ، تنقید ، نفرت کے لیے استعمال کرنا حماقت ، کم عقلی اور جہالت ہے جس سے پرہیز کریں-
(4).حکومتی ادارے اورعلماء، کتابت احادیث کی شرعی حیثیت کا از سرنو جائزہ لیں اور شکوک و شبہات کا ازالہ کریں- حکومت ترکی کےتحقیقی کام اور دوسرے عالم اسلام کےاداروں اورحکومتوں سے بھی روابط رکھیں-
(5). پیرا [17to 20]" کی روشنی میں ذخیرہ احادیث کا جائزہ لینےکی ضرورت ہے-
(6). حکومت متواترسنت اور احادیث پر ادارہ جاتی اورانفرادی تحقیق کا اہتمام کریں-
(7). حضرت عمر رضی الله کوکتابت حدیث پرجوخدشات تھے ان کو مد نظر رکھیں، غلطی کا ازالہ تو اسی طریقه سے ہو سکتا ہے جو حضرت عمر رضی الله نے اختیار کیا تھا، مگر عوام میں صدیوں جو نظریات قائم ہو چکے ہیں ان کو بتدریج حکمت سے تبدیل کرنا چاہیے ، یہ حکمت قرآن سے جوا اور نشہ کے فائدے کم نقصان زیادہ اور بتدریج ممانعت(2:219) سے معلوم ہوتا ہے-
احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو- ان کتب کواسلامی تاریخ و اسوہ حسنہ کی کتب کے طور پر بھی استعمال کا جائزہ لیا جا سکتا ہے-
(8) ابتدائی طور پر کتب احادیث کے ٹائیٹل پر پیرا 18 اور 20 میں مذکور آیات قرآن [ (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)] اور احادیث بمع ترجمہ پرنٹ کرنا چاہیے، تاکہ امت مسلمہ پہلی امتوں کی طرح کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب کو مت ملائیں نہ قرآن پر ترجیح دیں - الله کی رسی قرآن کو پکڑ لیں ، پہلی گمراہ امتوں کے راستہ پر نہ چلیں جن پر الله کا غضب نازل ہوا -
(9) الله نے قرآن میں ٤٤ مرتبہ مسلمان کہا اور ہمارا نام مسلمان رکھا، ہم کو تمام ایکسٹرا لیبل ختم کرکہ اپنے آپ کو صرف اور صرف مسلمان کہلانا چاہیے ... [.......]
(10). قرآن کے پیغام امن کی اندروں ملک اور بین القوامی طور دعوه اور تشہیر کریں ،شدت پسندی ، دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کو ختم کرنےاور امن کے حصول میں قرآن کی مدد لیں-
(11) آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت کے ذریعے سے ِ ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ دین اسلام کوپہلی صدی حجرہ کی کامل ،خالص حالت میں بحالی کے لئے قرآن , سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم,سنت خلفاء راشدین و صحابہ کرام کےذریعہ پر امن نظریاتی ، فکری جدوجہد کریں, جو کچھ ان کے برخلاف ہو منسوخ, مسترد ہے- ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا ” وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ “( یونس : ٥٧ ) بھی اسی میں ہے: “پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں” (25:52). الله تعالی کی طرف سےنازل آخری کتاب ہدایت صرف قرآن کریم ہے - قرآن، سنت رسول اللهﷺ، سنت خلفاء راشدین و صحابہ اکرام کی روشنی میں , پہلی صدی ہجری کے دین اسلام کا احیاء کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے-
(12) تحقیقی گروپوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی اسکالرز اور اسکالرز پر مشتمل مختلف ٹیموں کے ذریعے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر وسیع پیمانے پر جامع مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ بہت اہم اور سنگین معاملہ ہےجسے صرف مذہبی لوگوں تک محدود نہیں رکھا جا سکتا ۔
(13) تاہم جب تک اتفاق رائے حاصل نہیں ہوتا تب تک اتحاد و یگانگت برقرار رکھنے کے لئے اور کسی بھی فکری ، مذہبی انتشار / کنفیوزن سے بچنے کے لئے موجودہ (status quo) برقرار رکھنا چاہئے۔
جہاد کبیرہ پر مزید...[......]
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
.......................
24. مضمرات - Implications
1.اگر سفارشات پر عمل کریں تو ، عملا فوری طور پر کچھ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ سب کچھ ویسے ہی رہ گا جیسے ہے-، کوئی نیا انقلاب برپا نہیں ہوگا ، صرف سوچنے والے مفکرین اور افراد کی توجہ قرآن کی طرف زیادہ ہو جانے سے عوام کا رجہان بھی اہستہ اہستہ تبدیل ہوسکتا ہے - اگر کچھ پرجوش مسلمان اپنی سوچ میں تبدیلی لا کر کوشش کریں تو اچھا آغاز ہو سکتا ہے-مذہبی پیشواؤں کی طرف سے شدید دفاعی ردعمل، علمی دلیل کی بجاتے جذباتی ابال سطحی اور وقتی ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن کے اپنے مثبت اثرات ہیں- مشہور فقہ کے بانیوں نے اگر احادیث کی کتب نہیں لکھیں تو وہ تو اس معامله سے بری الزمہ ہو گئے، امام ابو حنیفہ (رح ) کی خود تحریر کردہ کسی کتاب حدیث کا علم نہیں (واللہ اعلم )
2. عوام کا جذباتی استحصال اور دیگر فتوے ، وقتی رد عمل دیر پا نہیں ہوسکتا -
3. کوئی بات قرآن ، سنت اور احادیث کے علاوہ نہیں تو اس کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ ؟
4.مذہبی پیشواؤں کے لیے اپنی اہمیت کم ہونے کا فرضی احساس، حالانکہ دین پر ان کی اجارہ داری علم کی بنیاد پر کم نہیں ہو سکتی -
5. قرآن کے خلاف باطل نظریات اور مشرکانہ پریکٹسز میں کمی اور خاتمہ سے کچھ افراد کوسیاسی، سماجی اور معاشی نقصان -
6. فرقہ واریت میں کمی اور خاتمہ کی طرف ابتدا .
7. علماء پر تحقیق کی ذمہ داری ، جس کو صرف اہل علم ہی نبھا سکتے ہیں-
8.عوامی شعور میں اضافہ اور سیاسی ، سماجی ،معاشی ، اخلاقی بہتری-
9. اتحاد امت مسلمہ جو صدیوں سے ایک خواب رہا ہے ، اس کو صرف قرآن پر عمل درآمد سے حاصل کیا جاسکتا ہے-
10. بین الاقوامی طور پر مسلمان ایک مہذب قوم کے طور پر اپنا وجود ثابت کر سکتے ہیں ، جس سے اسلام کو دنیا میں عروج حاصل ہو سکتا ہے-
11. ......
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
………………..
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢:٢٨٦﴾
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر (:2:286)
…………………….
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے (البقرہ 2:2)
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا(قرآن 47:24)
” تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں”(قرآن 47:24)
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا" ﴿سورة الفرقان25:30﴾
تحقیق و تحریر- بریگیڈیئر آفتاب خان (ر)
مدلل تبصرہ , تنقید, کمنٹس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے:
.. الِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
.. تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً الله سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن 8:42)
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے(16:125)
رابطہ / کمنٹس / تجاویز :
https://www.facebook.com/QuranSubject/inbox/
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]