قرآن اندھی تقلید کو مسترد کرتا ہے- یہ انسانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ اپنے دماغ، اپنی عقل اور سمجھ کو استعمال کریں۔ ایسی صلاحیتیں بغیر مقصد کے نہیں دی جاتیں۔ انسانی عقل و شعور میں بنیادی طور پر یہ عنصر، ارادہ شامل ہے جس میں کسی قسم کی سچائی تک پہنچنے کے لیے استدلال کا استعمال بھی شامل ہے، حالانکہ یہ اس بات کے خلاف بھی ہو سکتا ہے جو بچپن سے ان کے آباؤ اجداد نے سکھایا ہے- انسان اور جانور میں بہت بڑا فرق عقل سے تحقیق انتقادی (Critical Inquiry) کی اہلیت کا ہے-
بہت سے مسلمان، جیسا کہ اکثر کسی بھی مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ ہوتا ہے، تحقیق انتقادی (Critical Inquiry) کے بغیر اپنے آباؤ اجداد کے طریقوں اور رسومات کی اندھا دھند پیروی کی جاتی ہے۔ ان سے موصول عقائد کا قرآن و سنت کی روشنی میں عقلی جائزہ لینا گناہ سمجھا جاتا ہے- لوگوں کو اپنے آباؤ اجداد کی طرف سے مقدس کئتب اپنے عقائد کے ساتھ وراثت میں ملے ہوتے ہیں چاہے وہ ابراہیمی مذاھب جیسے یہودیت، مسیحیت، اسلام میں بائبل اور قرآن یا دوسرے مذھب جیسے ہندوویدا اپندشاد (Hinduism Vedas، Upanishads), سکھ سری گرو گرنتھ صاحب, بدھ مت ترپیتک ( Budhism Tipitaka) , جین مت اگاماس (Jainism Agamas), زرتشتی آویستا (Zoroastrianism Avesta) وغیرہ سے ہوں۔
لوگ اپنی مقدس کتب کی حتمی سچائی کے طور پر پیروی کرتے ہیں، اکثر ان کے 'علماء' ان کے لیے مقدس کتب کی تشریح اپنے نظریات وعقائد کے مطابق کرتے ہیں، کئی مرتبہ ایک مقدس کتاب کی مختلف تشریحات سے کئی ذیلی مذھب اور فرقے وجود میں آجاتے ہیں جو ایک دوسرے پربدعت، ضلاله اور کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔ قرآن نے حیرت انگیز طور پر آیات قرآن سے مختلف معنی اخذ کرنے کا طریقہ دفن کردیا جب صرف "محکم آیات" (واضح ، صرف ایک معنی والی) کو "ام الکتاب " قرار دے کر متشابھات (شک و شبہ ،زیادہ معنی والی آیات) سے علیحدہ کر دیا (آل عمران 3:7) الکن جن لوگوں کو دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اوراُن سے متضاد معنی (تاویلیں) پہنانے کی کو شش کرکہ فرقہ واریت، گمراہی پھیلاتے ہیں -
معامله یھاں نہیں رکا بلکہ رسول اللہ ﷺ نے علم دین اسلام کے ماخزعلوم صرف تین قرار دیے: ١) آیت محکمہ اور ٢) سنت ثابتہ اور ٣) فریضہ عادلہ باقی زائد (extra) ہیں- رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو بھی نظرانداز کرکہ اضافی علوم کو بنیادی علوم میں شامل گیا جس پر خلفاء راشدین نے پابندی لگا رکھی تھی- قرآن، سنت رسول اللہ ﷺ ، سنت خلفاء راشدین اور ان کے احکام کو نظر انداز کرکہ جو دینی فرقے بنیں گے ان کا خالص دین کامل اسلام سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
فرقہ وارانہ نظریات، عقائد و رسومات کو اپنانا صرف اس بات پر منحصر ہے کہ کوئی شخص کس گھر میں پیدا ہوا ہے اور ان کے آباؤ اجداد نے اسے کیا سکھایا یا ان کی کمیونٹی کے مذہبی رہنماؤں نے کیا تبلیغ کی ہے-
ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
ہر پیدا ہونے والا بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں .... " (البخاری حدیث 4775)
اس کو جب کسی مسلمان گھرانے پر لاگو کریں تو پھرایک مسلمان بچے کو اس کے ماں باپ اور ماحول کسی مخصوص مسلک ، فرقہ ، فقہ کا مقلد بنا دیتے ہیں-
پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت قرآن تلاوت کی:
فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلک الدين القيم
"اللہ کی اس فطرت کی اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں، یہی سیدھا دین ہے"۔(30:30)
یہ فطرت (اقرار توحید) "میثاق الست" عالم ارواح سے ہر ایک انسان کے لاشعور(subconscious) میں محفوظ ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے:
"اور اے نبی ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم اس بات سے بے خبر تھے"(قران 7:172)
درحقیقت سب انسان اپنے خالق کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہیں اور سب انسانوں کو ایک روز جواب دہی کرنی ہے کہ انہوں نے اس میثاق کی کہاں تک پابندی کی ۔ یہ"میثاق الست، عام عہد کا ذکر ہے جو فرداً فرداً تمام انسانوں سے لیا گیا تھا اور یہ اس دور کا واقعہ ہے جب اللہ تعالیٰ آدم کو پیدا کرچکے تھے (تفصیل لنکx)
وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ , فطرت دبا دی جاتی ہے، ختم نہیں ہوتی جب بھی موقع ملتا ہے فطرت بحال ہوتی ہے, جیسے بارش کے بعد بنجر زمین میں پودے نکل آتے ہیں جن کے بیج زمین میں قدرتی طور پر دفن تھے-
اسی طرح "میثاق الست" جو انسانی لاشعور(subconscious) میں محفوظ ہے وہ شعور میں آجاتا ہے- یہ عام مشاہدہ ہے کہ مغرب، امریکہ اور دنیا بھر میں جب کوئی داعی دعوت دیتا ہے تو مطالعہ، تدبراور تحقیق انتقادی (Critical Inquiry) کے بعد ایک کافر دین فطرت، اسلام پر واپس لوٹ آتا ہے، اسے 'تبدیلی' (conversion) نہیں بلکہ 'واپسی' (reversion) کہتے ہیں "سچ اور حق" جو گم ہو چکا تھا تلاش پر مل جاتا ہے اوراصل "حق" تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے یہ کسی شخص کی تحقیق انتقادی (Critical Inquiry) کے بغیر ممکن نہیں جو ہر ایک انسان اوربالخصوص مسلمان کو کرتے رہنا چاہیے- لیکن اندھی تقلید کے مبلغ اور مقلدین اس دانشورانہ فکری تحقیق (intellectual inquiry) کی سخت مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے جس سے مذھب اور پیروکاروں پر کنٹرول، اثر و رسوخ اور اہمیت خطرہ میں پڑ سکتی ہے جو ان کی معیشیت اور سماجی و سیاسی طاقت کا اہم ستون ہے >>>>>>
دعوة دین کامل : https://bit.ly/DeenKamil
قرآن نے عقل، اور فہم کو بیان کرنے کے لیے عربی اصطلاح 'عقل' کا استعمال کیا ہے۔ لفظ عقل جسے ہم ع انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، قرآن کا لفظ ہےجو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ، اور مخلتف انداز میں 49 مرتبہ استعمال ہوا ہے- کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے۔ کامن سنس کے استعمال کی ہماری عادت بنے۔ اس طرح ہم انسانی عقل کی قدر و قیمت کے ساتھ اس کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھ لیں۔ انسانی سوچ کا یہ عمل دراصل اس کی ساری ترقیات کا ضامن ہے۔ دنیوی ترقی کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کی ترقی کے رازہائے دست بستہ بھی اسی فکر و عمل کے ذریعے کھلنے شروع ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔
یقیناًالله کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
پورے قرآن کا بیانیہ اس کے سامعین سے اپنی عقل سے استفادہ کرنے کی اپیل کرتا ہے:
"... کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (جزو 7:169)
ہم پورے قرآن میں پڑھتے ہیں کہ خدا کے غضب سے مکمل اقوام کا خاتمہ ہو گیا کیونکہ انہوں نے اپنی 'عقل' کا استعمال نہیں کیا بلکہ اندھا دھند اپنی خواہشات کی پیروی کی اور حد سے تجاوز کیا۔
یہ جزوی طور پر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے یا محض اپنے آباؤ اجداد یا ساتھیوں کے جاہلانہ طریقوں اور جرائم کی پیروی کرنے سے ہوا ہے۔ وجہ اور رجحان جو بھی ہو، قرآن کے نقطہ نظر سے یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ ہر فرد کو یہ جاننے کی بنیادی صلاحیت دی گئی ہے کہ اس کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ اس طرح، یہ انفرادی ذمہ داری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے:
" قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی -پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی - جس نے اسے پاک کیا وه کامیاب ہوا - اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وه ناکام ہوا( 91:7,8,9,10)
بدقسمتی سے، بہت سے لوگ اپنے آباؤ اجداد کے طریقوں پر آنکھیں بند کر کے یا اکثریت کی رائے میں پناہ لینے پر مطمئن رہتے ہیں۔ قرآن بار بار اس طرز عمل سے خبردار کرتا ہے۔ قرآن الله تعالی کے سابق رسولوں کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے اکثریت کے اندھے پن کے خلاف جنگ کی۔ افسوس، آخر میں، وہ صرف اکیلے ہی اندھی اکثریت کو ہدایت کی تبلیغ کرتے ہوئے چلتے رہے جب تک کہ ان کی برادریوں کو سختی سے سرزنش نہ کی گئی یا بالآخر تباہ نہ کر دیا گیا۔
قوم لوط، صالح، ھود اور شعیب (علیہ السلام) کے حوالے سے روایات نوٹ کرتے ہیں، صرف چند ایک کے نام۔ یہ تاریخی داستانیں ہر کسی کے لیے مطالعہ کرنے اور سبق حاصل کرنے کے لیے واضح ہیں۔ نوح (علیہ السلام) کی طویل عمر بھی ان کی اکثریت کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں تھی۔
اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی نصیحت میں بھی اسی طرح کے جذبات کو گونجتی تھی۔
"اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں الله کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں (6:116)
"یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا اپنی عقل سے کام لیتے ہیں؟ وہ تو صرف چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ راستے سے زیادہ گمراہ ہیں۔" (25:44)
مسلم فکر میں ایک قدیم عقیدہ داخل ہو چکا ہے (جو دوسروں میں بھی میں مقبول ہے ) کہ کسی نہ کسی وجہ سے، اکثریت کے عقائد اور عمل عام طور پر درست ہوتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی تائید عام طور پر اسلامی ثانوی ذرائع (احادیث) سے ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس، یہ نقطہ نظر قرآن سے قطعی طور پر ثابت نہیں ہے۔ منظم مذہب میں داخل ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود، قیامت کے حوالے سے ایک قرآنی پیشین گوئی اس نقطہ نظرکو مسترد کرتی ہے، قیامت کے دن یہ بلکل واضح ہے کہ شیطان نے اکثریت کو سب سے زیادہ گمراہ کیا ہوگا:
بہت سے لوگ اپنے لیڈروں پر الزام لگائیں گے:
اور وہ کہیں گےاے ہمارے رب !یقینا ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت (تقلید) کی تو انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کر دیا۔"(33:67)
حتمی نقاط
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاپرواہ لوگوں کے لیے سب سے آسان انتخاب تنقیدی تفتیش (critical enquiry) سے غافل رہنا ہے۔ سچائی اور مقصد کی تلاش کو ترک کرنا؛ کسی بھی معاشرے میں اپنے باپ دادا، مبلغین، اساتذہ کے طریقوں پر آنکھیں بند کر کے چلنا؛ اپنی عقل کا استعمال کیے بغیردوسروں کے عقائد پربغیر سوچے سمجھے عمل کرنا لینا یہاں تک کہ موت ہمیں زندگی سے الگ کرکہ اپنو آغوش میں لے لیتی ہے۔
تاہم اس طرح عقل کو دبانے اور انتخاب کرنے کے لیے الله تعالی کی طرف سے تحفہ میں دی گئی (Free Will) اراده آزاد, مرضی، آزادی کا حساب قیامت کے دن دینا پڑے گا مگر وقت گزر چکا ہو گا!
’’اور اس چیز کی پیروی نہ کرو جس کا تمہیں ( صحیح ) علم نہ ہو، یقیناً کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کے بارے میں تم سے باز پرس ہوگی۔‘‘(17:36)
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہل علم (سیکھے ہوئے افراد) یا دوسروں کی رائے کا مطالعہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ درحقیقت انہیں ان کی خوبیوں اور مخلصانہ کوششوں کے مطابق داد کا مستحق ہونا چاہیے۔ تاہم، دوسروں کی رائے کواعتراض سے مبرا نہیں ہونا چاہیے، نہ اس کو ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر قبول کر لینا چاہیے۔ صرف اللہ کا کلام ہی ایسا اعلی مقام رکھتا ہے کہ اس کو من وعن قبول کیا جایے۔ بصورت دیگر انسانوں کی آراء کی تنقیدی تحقیقات کا راستہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے۔
ہر ایک ذی روح ایک وسیع تر جامع سماجی گروپ کا حصہ ہونے کے باوجود بالآخر صرف اپنے لیے ذمہ دار ہے۔
( پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ ) تم ہمارے پاس اسی طرح تن تنہا آگئے ہو جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا ، اور جو کچھ ہم نے تمہیں بخشا تھا وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو ، اور ہمیں تو تمہارے وہ سفارشی کہیں نظر نہیں آرہے جن کے بارے میں تمہارا دعوی تھا کہ وہ تمہارے معاملات طے کرنے میں (ہمارے ساتھ ) شریک ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمہارے سارے تعلقات ٹوٹ چکے ہیں اور جن کے بارے میں تمہیں بڑا زعم تھا وہ سب تم سے گم ہو کر رہ گئے ہیں( 6:94 )
پس جب ہر انسان نے اللہ کے سامنے جوابدہ ذاتی ، انفرادی طور پر ہونا ہے ، تو کیا حق ، سچائی کی تلاش کے لیے اپنی صلاحیت کے مطابق دیانت دارانہ تحقیق انتقادی (Critical Inquiry) کرنا ہر انسان کی انفرادی ذاتی ذمہ داری نہیں؟ اس وقت کوئی مذہبی پیشوا ، عالم، پیر مدد گار موجود نہ ہوگا- *
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا انسان کے جھوٹ بولنے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جس بات کو سنے (بغیر تحقیق کے) اسے نقل کر دے۔ (صحیح مسلم) [مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 153]
"رساله تجديد الاسلام" کا مقصد تحقیق انتقادی (Critical Inquiry) سے "حق" تلاش کرکہ دلائل اور ریفرنسز کے ساتھ پیش کرنا ہے - تفصیل --- << انڈکس >>
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿١٧﴾
اور ہمارے ذمے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم (پیغام حق) پہنچا دیں کھول کر(36:17)
- دعوة دین کامل : https://bit.ly/DeenKamil
- رسول اللہ ﷺ سے ماخوز علم الحديث تحقیق کے سنہری اصول https://bit.ly/Hadith-Basics
- احکام القرآن https://t.me/QuranAhkaam
- تجديد الإسلام: مقدمہ
- تہجد /تراویح https://bit.ly/Taraveeh
- مزید : قرآن اور عقل و شعور .........
علماء اور علم
علم کیسے اٹھا لیا جائے گا
دیہاتی نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! جب ہمارے درمیان قرآن کے نسخے موجودہوں گے توہمارے درمیان سے علم کیسے اٹھالیاجائے گا جبکہ ہم خودبھی اس کے احکامات کوسیکھ چکے ہیں اور اپنی بیویوں ، بچوں اور خادموں کو بھی سکھاچکے ہیں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناسرمبارک اٹھایا توچہرہ مبارک پر غصے کی وجہ سے سرخی چھاچکی تھی پھر فرمایا تیری ماں تجھے روئے ان یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس بھی توآسمانی کتابوں کے مصاحف موجود ہیں لیکن اب وہ کسی ایک حرف سے بھی نہیں چمٹے ہوئے جوان کے انبیاء علیہم السلام لے کر آئے تھے یادرکھو! علم اٹھ جانے سے مرادیہ ہے کہ حاملین علم اٹھ جائیں گے تین مرتبہ فرمایا۔ (مسند احمد: 21264)
تین چیزیں خوفناک ہیں
جہاں تک ہوسکے تم تین چیزوں سے بچتے رہو،
1.عالم کے پھسلنے سے
2. قرآن کے ساتھ منافق کے جھگڑے سے او
3. دنیا سے جس پر تم باہم جھگڑنے لگو،
رہی بات عالم کے پھسلنے کی تم اپنے دین کے معاملہ میں اس کی تقلید مت کرو بشرطیکہ وہ ہدایت پر آجائے اور اگر پھسل جائے تو اس سے اپنی امیدوں کو قطع مت کرو۔
رہی بات قرآن کے ساتھ منافق کے جدال کی لہٰذا جس چیز کو تم پہنچانتے ہوا سے قبول کرلو اور جو تمہیں غیر معروف لگے اسے رد کردو، رہی بات دنیا کی جو تمہاری گردنیں اڑانے لگے سو اللہ تعالیٰ جس کے دل میں غنی ڈال دے وہی حقیقت میں غنی ہے۔ (کنزالعمال، حدیث نمبر: 43894، رواہ الطبرانی فی الاوسط عن معاذ)
زید بن حدیر کی روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اے زید بن حدیر! کیا تم جانتے ہو کہ کونسی چیز اسلام کو منہدم کردیتی ہے گمراہ امام ، منافق کا قرآن کے ساتھ جھگڑا، وہ قرض جو تمہاری گردنوں کو توڑ ڈالے مجھے تمہارے اوپر عالم کے پھسل جانے کا خدثہ ہے گمراہ عالم اگر ہدایت پر آجائے تو اس کے دین کی تقلید مت کرو، اگر عالم گمراہ رہے تو اس سے مایوس مت ہوجاؤ چونکہ عالم توبہ بھی کرسکتا ہے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ غنا ڈال دے گویا اس نے فلاح پائی۔ (رواہ العسکری فی المواعظ، کنزالعمال، حدیث نمبر: 44223)
قرآن کو چھوڑنے والے بدترین علماء
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔ (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا، فرمان رسول اللہ ﷺ(مسلم)
علم الحديث میں تحقیق کے لیے رسول اللہ ﷺ کے فرامین سے ماخوز علم الحديث کے سنہری اصولوں پر عمل درآمد سے مشکوک اور غیر مستند احدیث کی پہچان آج بھی با آسانی ممکن ہے : https://bit.ly/Hadith-Basics
حدیث کے راویوں کا جھوٹ بولنا
محمد بن ابی عتاب، عفان، حضرت سعید بن قطان اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ابن ابی عتاب نے کہا کہ میری ملاقات سعید بن قطان کے بیٹے سے ہوئی میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ کہتے تھے کہ ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے۔ [صحیح مسلم, حدیث نمبر: 40]
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ آخری زمانہ میں ایسے فریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے باپوں نے سنا ہوگا لہٰذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔ (صحیح مسلم) [مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 151]
علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
Index: https://bit.ly/Tejdeed-Islam
احکام القرآن https://bit.ly/AhkamAlQuraan
دعوة دین کامل : https://bit.ly/DeenKamil