مھجورا کا مادہ ھ ج م ہے اب اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا) سے مفعول تسلیم کیا جائے تو ھجورا کا معنی ایسی مہمل گفتگو ہے جو کوئی شخص بیماری یا خراب یا نیم خوابی یا بےہوشی کی حالت میں کرتا ہے یعنی بڑبڑاہٹ یا ہذیان۔ پھر چونکہ ایسی باتیں ہنسی مذاق کا باعث ہوتی ہیں لہذا اس کا مطلب قرآن کی آیات کا ہنسی استہزاء اور مذاق اڑانا ہوگا اور قرآن کو نشانہ تضحیک بنانا جیسا کہ کفار مکہ کا معمول تھا۔
اور اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا ) سے مفعول تسلیم کیا جائے تو اس کا معنی قرآن کو "متروک العمل" سمجھتا اور اسے پس پشت ڈال دینا ہوگا۔ جیسا کہ آج کل کے مسلمان کیا عوام اور کیا علماء سب کے سب اس جرم کے مجرم ہیں۔
علماء کی قرآن سے غفلت کا یہ حال ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں جو
درس نطامی رائج ہے اس میں قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کی باری آخری سال ہی آتی ہے اور کبھی وہ بھی نہیں آتی۔ کسی مدرسہ میں چھ سالہ کو رس ہے، کسی میں سات کسی میں آٹھ اور کسی میں نو سال تک نصاب ہے۔ اور اس طویل مدت کا بیشتر حصہ قرآن کو سمھجنے کے لئے امدادی علوم کی تعلیم و تدریس پر صرف کردیا جاتا ہے۔ ابتدائی تین چار سال صرف و نحو، منطق وغیرہ یا اخلاقیات و بعد میں فقہ اور حدیث اور آخری سال میں قرآن، گویا ساری توجہ اور محنت بنیادی باتوں میں صرف کردی جاتی ہے اور طالب علموں کو قرآن پڑھنے کا اگر وقت مل جائے تو ان کی خوش قسمتی ہے ورنہ اکثر حالات میں نہیں ملتا-
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے عوام کو یہ بات ذہین نشین کرا رکھی ہے کہ قرآن کریم ایک انتہائی مشکل کتاب ہے۔ اسی لئے اس کی تدریس سب سے آخری سال رکھی جاتی ہے۔
حالانکہ قرآن کا دعویٰ اس نظریہ کے بالکل برعکس ہے اور تجربہ و مشاہد ہے کہ ایک معمولی لکھا پڑھا آدمی کسی ترجمہ والے قرآن کے مطالعہ سے جو سادہ اور سیدھی سادی سمجھ حاصل کرتا ہے۔ وہ اس سمجھ سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ جو فرقہ پرست اور مقلد حضرات کسی طالب علم پہلے اپنے مسلک کو فقہ پڑھا کر ذہین نشین کرانا چاہتے ہیں۔
یہ تو علماء کا قرآن پر ظلم ہوا اورعوام کا ظلم یہ ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن بس ایک عملیات کی کتاب ہے اور اس میں ہماری دینی اور دنیوی سب طرح کی تکلیفوں کا حل موجود ہے مگر ضرورت انھیں صرف دنیوی تکلیفیں کے دور کرنے کی ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لئے انہوں نے کچھ تجربے بھی کر رکھے ہیں مثلاً اس کی فلاں آیت کی تسبیحات نکالنے سے فلاں تکلیف دور ہوتی ہے اور فلاں سورت کی زکات نکالنے سے فلاں فلاں مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ پھر قرآن کو بطور تعظیم ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر مکان کے کسی اوپر والے طاقچے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یا پھر مرنے والے انسان پر۔۔ پڑھائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کبھی کبھی قسم اٹھانے کے کام آتا ہے۔ نزول قرآن کی اصل غرض وغایت تو یہ تھی کہ انسان اس سے ہدایت حاصل کرے تو اس بنیادی مقصد کے لحاظ سے فی الحقیقت قرآن آج
"متروک العمل" ہوچکا ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حضور یہی شکایت کریں گے۔
[تفسی: مولانا عبدالرحمان کیلانی ]
اس آیت میں لفظ ’’مہجورا‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ’’نظر انداز ‘‘ کیا گیا۔ ’’مہجورا‘‘ کا لفظ ’ہجر‘ سے مشتق ہے۔ ہجر کے معنیٰ ہیں ترک کرنا‘ چھوڑنا ‘ قطع تعلق کرنا ‘ رخ پھیر لینا وغیرہ۔ اسی سے ہجرت یعنی کسی چیز یا مقام کو چھوڑ کر دوسری چیز یا دوسرا مقام اختیار کرنا۔ مذکورہ بالا آیت میں ترک قرآن کی جو شکایت نبی کریم کی زبانی سامنے آئی اگرچہ اس سے مراد کفار ہیں کہ قرآن کا انکار کرنے والی قوم تو وہی ہے لیکن بعض روایات کی بناء پر مفسرین و علماء نے ایسے مسلمانوں کو بھی اس آیت کے ذریعہ تنبیہ کی ہے جو قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن نہ اس کی تلاوت کا اہتمام کرتے ،نہ اس کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے :
- ’’اس (قرآن) کا نہ پڑھنا بھی چھوڑ دینا ہے ،
- اس کا نہ سمجھنا بھی چھوڑ دینا ہے اور
- اس پر عمل نہ کرنا بھی اسے چھوڑ دینا ہے۔‘‘
حضرت انسؓ سے مروی ہے نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے قرآن پڑھا مگر پھر اس کو بند کرکے معلق کردیا،اس کی تلاوت کی پابندی نہیں کی ،اس کے احکام پر غور نہیں کیا تو بروز قیامت قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندہ نے مجھے چھوڑ دیا تھا اب آپ میرے اور اس کے معاملہ کا فیصلہ فرمادیجئے۔‘‘
ثعلبی کی اس روایت میں قرآن کی شکایت ’’ان عبدک ھذا اتخذنی مھجوراً ‘‘کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے اور یہاں بھی وہی لفظ ’’مہجورا‘‘ استعمال ہوا ہے۔
لفظ ’’مہجورا‘‘ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔ عربی زبان میں ’‘ہاجرات‘‘ بُری یا فحش باتوں کو کہتے ہیں کیونکہ یہ وہ باتیں ہوتی ہیں جنہیں ترک کردیا جانا چاہئے۔۔
تفہیم القرآن
لفظ مھجور کے کئی معنی ہیں ۔ اگر اسے ھَجْر سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے متروک ، یعنی ان لوگوں نے قرآن کو قابل التفات ہی نہ سمجھا ، نہ اسے قبول کیا اور نہ اس سے کوئی اثر لیا ۔ اور اگر ھُجْر سے مشتق مانا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے ہذیان اور بکواس سمجھا ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اسے اپنے ہذیان اور اپنی بکواس کا ہدف بنا لیا اور اس پر طرح طرح کی باتیں چھانٹتے رہے ۔ [تفہیم القرآن ]
یعنی اس پر ایمان نہیں لائی اور اس کی بجائے دوسری باتوں پر عمل کرتی رہی۔ یا مطلب یہ ہے کہ میری امت نے اس قرآن کو اپنی بکواس کا نشانہ بنا لیا۔ ” مھجورا “ کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی یہ یا تو ہجران (چھوڑنا) سے مشتق ہے اور یا ” ھحر “ سے جس کے معنی ” بکواس کرنا “ ہیں۔ (شوکانی)
تفسیر محمد اصف قاسمی
لغات القرآن : آیت نمبر 30 تا 34 : (مھجور) چھوڑا ہوا۔ چھوڑا گیا ‘(عدو) دشمن ‘(ھادی) ہدایت دینے والا۔ راستے دکھانے والا ‘(نصیر) مدد کرنیوالا ‘(نزل ) اتارا گیا ‘(جملۃ واحدۃ) ایک ہی مرتبہ ‘(نثبت) ہم مضبوط کریں گے ‘(فئواد) دل ‘ (رتلنا) ہم نے آہستہ پڑھا ‘(احسن) بہترین ‘۔ تشریح : آیت نمبر 30 تا 34 : جب کوئی قوم علم و عمل سے دور اور جہالت سے قریب ہوتی ہے تو ان میں ایک خاص ٹیڑھے پن کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے اور وہ سوائے بےتکی بحثوں ‘ کٹ حجتیوں ‘ ضد ‘ بےفائدہ سوالات اور بےعملی کے کچھ بھی نہیں کرتے۔ ان کو سچائی اور بھلی بات سے نفرت اور ہر جہالت سے خاص دلی لگائوہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہر سچی بات کو لوگوں کی نظروں میں بےقیمت بنا دیا جائے اور ہر جھوٹی بات کو خوبصورت رنگ دے کر لوگوں کی نگاہوں میں با عظمت بنا دیا جائے۔ چنانچہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کے سامنے قرآن کریم کی سچی اور حقیقی تعلیم کو پہنچانے کی جدوجہد فرمائی تو جہالت میں ڈوبے ہوئے عرب معاشرہ میں ہر ایک کی ایک ہی کوشش رہتی تھی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارکہ اور قرآن کریم کی سچائیوں کو بےقیمت بنادیا جائے اور اتنے بےت کے اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کردی جائے اور ایسے ایسے سوالات کئے جائیں کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ ان سچائیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ نیگذشتہ آیات میں پڑھ لیا ہے کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو گر ‘ مجنون ‘ کاہن ‘ کسی جادو کے زیر اثر اور بہکا ہوا انسان ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لیے کہتے تھے کہ یہ قرآن کیا ہے ؟ یہ تو ہمارے گذرے ہوئے بزرگوں کے قصے کہانیاں ہیں جن کو اللہ کا کلام کہہ کر پیش کردیا جاتا ہے اور نعوذ باللہ اس کلام کو آپ خود ہی گھڑ کر پیش کردیتے ہیں۔ جو نبی گذرے ہیں ان پر چند روز میں پوری پوری کتابیں نازل کی گئی تھیں یہ کیسا قرآن ہے کہ تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا جارہا ہے۔ اور مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے بےت کے سوالات اور باتوں کا بھر پورجواب دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اے ہمارے پیارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی باتوں کی پروانہ کیجئے کیونکہ یہ لوگ اس سے زیادہ نہ سوچ سکتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں۔ آپ اللہ کے دین کو پہنچانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے رہیے۔ اس طرح کی باتیں ہر اس شخص کے ساتھ پیش آتی ہیں جو حق و صداقت کے راستے پر چلتا ہے۔ چنانچہ جب بھی اللہ کے نبی اور رسول آئے ہیں ان پر ان کی قوم کے جاہلوں اور مفاد پرستوں نے اسی طرح کے اعتراضات کئے ہیں اور نبی کی دشمنی میں بہت آگے تک جاپہنچے تھے۔ کفار کے اس اعتراض کا جواب کہ قرآن ایک دم نازل کیوں نہیں کیا گیا فرمایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا دل قوی اور مضبوط رہے یعنی ہر شخص کے دل میں اس قرآن کی سچائی کو اتار دیا جائے۔ ہر شخص اسکو پڑھ کر ‘ سمجھ کر اور عمل کر کی نہایت مضبوطی اور اخلاص سے اس کو اپنے دل میں جمالے اور یاد کر دلے۔ اگر ذرا بھی غر کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپ پہل جتنی کتابیں نازل کی گئی ہیں وہ وقتی طور پر ہدایت و رہنمائی کیلئے اتاری گئی تھیں۔ صحابہ کرام (رض) ان کو یاد کرلیا کرتے تھے ‘ ان کو سمجھ کر عمل کر کے اپنے دل کا نور بنا لیا کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کریم آیات کے لاکھوں حافظ پیدا ہوگئے۔ اور جہری نمازوں میں پڑھے جانے سے اور بھی قرآن کریم کا ورد جاری ہوگیا اور قرآن کریم کی ہر آیت عمل میں ڈل کر آسان ہوگئی۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآنی تعلیمات سے دشمنی کا انداز اختیار کئے ہوئے تھے فرمایا گیا کہ ان کا انجام بہت بھیانک ہے کیونکہ جب قیامت کی دن ایسے لوگوں کو چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں جھونکا جائے گا تو اس وقت ان کو معلوم ہوگا۔ کہ انہوں نے وقتی فائدوں کے پیچھے پڑ کر اپنے لئے آخرت میں کس قدر برا اور گھٹیامقام بنایا ہے۔ لیکن اس وقت شرمندہ ہونے سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں یہ شکوہ کریں گے الہی ! جب میں نے اپنی قوم کو سچائی پر لانا چاہا تو انہوں نے اس کو ماننے اور اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا اور قرآنی تعلیمات کیا نکار نے انہیں حقیقت سے بہت دور کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کی پروانہ کیجئے کیونکہ اللہ نے ہر نبی کے دشمن پیداکئے ہیں لیکن جن لوگوں نے بھی اسلام دشمنی میں ان شیطانوں کی پیروی کی ہے ان کی آخرت برباد ہو کر رہی۔ ان ہی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے الہی ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا یعنی میں نے آپ کا کلام ان تک پہنچانے کی جدوجہد کی مگر انہوں نے اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا اور دشمنی میں بہت آگے نکل گئے تھے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس سے نہ گھبرائیں کیونکہ اس طرح کے گناہ گاروں نے ہمیشہ دین اسلام اور نبیوں کی اسی طرح دشمنی کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو ہدایت دینا چاہتا ہے اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ وہ سچائی کے راستے پر چلیں اور ہدایت حاصل کریں اللہ تعالیٰ ان کو توفیق ضرور عطا فرماتا ہے۔ [محمد اصف قاسمی ]
تفسیرسید قطب شید
انہوں نے اس قرآن کو چھوڑ دیا جو اللہ نے اپنے بندے پر نازل کیا تھا تاکہ ان کو ڈرائے۔ اور ان کو بصیرت عطا کرے۔ انہوں نے قرآن کو اس طرح چھوڑا کہ اسے سننے سے بھی دور بھاگے ‘ مارے اس خوف کے کہ اگر انہوں نے سن لیا تو وہ اپنی بےپناہ تاثیر سے ان کو متاثر کرے گا۔ اور وہ اس وے اثرات کو مسترد نہ کرسکیں گے۔ انہوں نے اگر سنا بھی تو اس کے مضامین پر غور و فکر نہ کیا تاکہ وہ سچائی کو پا سکیں اور اس کی راہ پر چلیں۔ انہوں نے اسے اس طرح چھوڑا کہ اسے اپنا دستور حیات نہ بنایا۔ حالانکہ وہ نازل اسی لیے کیا گیا تھا کہ وہ اسے نظام حیات بتائیں۔ (وقال الرسول یرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مھجورا) (٢٥ : ٣٠) ” اور رسول کہے گا اے میرے رب ‘ میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا “۔ اور رب تعالیٰ تو جانتا تھا کہ ایسا ہوا ہے لیکن یہ فریاد اور انابت الی اللہ کے طور پر دعا ہے اور اللہ کو بھی معلوم ہے اور اللہ اس کی شہادت دے رہا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے لیکن یہ قوم کا قصور ہے کہ اس نے اس قرآن کو نہ سنا اور نہ اس پر غور کیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتا ہے کہ یہ تو تمام نبیوں کو پیش آنے والا ایک عام طرز عمل ہے۔ یہ سنت جاریہ ہے اور تمام رسولوں نے ایسی ہی صورت حالات کا مقابلہ کیا۔ تمام انبیاء کو ایسے حالات پیش آئے کہ ان کی اقوام نے قرآن کریم اور ان کی دعوت کے ساتھ مذاق کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا لیکن اللہ کی مدد اپنے رسولوں کے ساتھ شامل رہی اور اللہ نے اپنے رسولوں کو ایسے راستے بتائے کہ وہ اپنے دشمنوں پر غاب ہو کر رہے۔ (وکذلک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ونصیرا) (٢٥ : ٣١) ” اے نبی ؐ‘ ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا شمن بنایا ہے اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کے لیے کافی ہے “۔ اللہ کی حکمت اچھے انجام تک پہنچنے والی ہے۔ کسی اسلامی تحریک کے مقابلے میں جب مجرم اٹھ کھڑے ہوں اور مخالفت پر کمربستہ ہوجائیں تو اس سے تحریک کے اندر قوت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس طرح تحریک سنجیدہ ہوجاتی ہے۔ ایک سچی دعوت اور جھوٹی دعوت کے درمیان فرق ہی یہ ہوتا ہے کہ سچی دعوت کے مقابلے میں لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک سچی دعوت کے حاملین کو مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اور یہ کشمکش ہی دعوت حق کو باطل دعوتوں سے ممیز کرتی ہے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں سچے پیرو کار چھٹ کر جم جاتے ہیں اور باطل کے حاملین بھاگ جاتے ہیں۔ دعوت کی پشت پر وہی لوگ رہ جاتے ہیں جو خالص اور مخلص ہوں جو مفادات کے بندے نہیں ہوتے۔ صرف اور صرف دعوت اسلامی ہی ان کا نصب العین ہوتی ہے۔ اور وہ صرف رضائے الہی چاہنے والے ہوتے ہیں۔ اگر دعوت اسلامی کا کام آسان ہوتا اور اس کے سامنے ردعمل واہ واہ کا ہوتا اور داعی کی راہ پر پھول بچھائے جاتے اور کوئی دشمن اور ناقد نہ ہوتا تو ہر کہ دمہ دعوت اسلامی کا حامل ہوجاتا۔ کیونکہ نہ کوئی عناد کرنے والا ہوتا اور نہ کوئی جھٹلانے والا اور پھر دعوت حق اور دعوت باطل کے درمیان کوئی فرق بھی نہ ہوتا اور دنیا میں انتشار اور فتنہ برپا ہو اتا۔ لیکن ہر سچی دعوت کے مقابلے میں اللہ نے دشمن اور مدعی پیدا کردیئے اور اللہ نے داعیوں کے لیے جدوجہد کرنا اور مقابلہ کرنا ضروری قرار دیا اور راہ حق میں قربانی دینا اور مشکلات برداشت کرنا اور راہ قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد وہی کرتا ہے جو سچا ہو۔ مشکلات اور قربانیوں کو وہی شخص برداشت کرتا ہے جو سچا مومن ہو۔ ایسے لوگ جو اپنے آرام اور عیش و عشرت کو دعوت حق کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ اور حیات دنیا کی لذتوں کو خیر باد کہتے ہیں بلکہ وہ اس راہ میں جان تک دے دیتے ہیں اگر دعوت کا تقاضا ہو کہ اب جان دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس عظیم جدوجہد کے لیے وہی لوگ تیار ہوتے ہیں جو مضبوط اور ثابت قدم ہوں جو پکے مومن ہوں۔ پختہ ایمان رکھتے ہوں۔ وہ اس اجر کے زیادہ مشتاق ہوں جو اللہ کے ہاں ہے بجائے اس اجر کے جو لوگوں کے پاس ہے۔ جب یہ صورت حالات پیش آجائے تو پھر سچی دعوت اور جھوٹی دعوت کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ ایسیحالات میں دعوت اسلامی کی صفوں کی تطہیر ہوجاتی ہے اور مضبوط قوی اور ثابت قدم لوگ چھٹ کر جدا ہوجاتے ہیں اور کمزور لوگ علحدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر دعوت اسلامی ان لوگوں کو لے کر آگے بڑھتی ہے جنہوں نے ثابت قدمی کا انتحان پاس کرلیا ہوتا ہے۔ اور وہی لوگ پھر اس دعوت کے امین اور لیڈرہوت ہیں اور یہی اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ یہ لوگ بھاری قیمت ادا کرکے اس نام تک پہنچتے ہیں۔ یہ لوگ سچائی کیساتھ اس دعوت کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔ پختہ ایمان کے ساتھ ‘ تجربے اور آزمائشوں نے ان کو بتادیا ہوتا ہے کہ اس دعوت کو مشکل سے مشکل حالات میں انہوں نے کس طرح لے کر چلنا ہے۔ شدائد اور مشکلات نے ان کی پوری قوت کو حساس بنا لیا ہوتا ہے اور ان کی قوت کا سرچشمہ اور طاقت کا ذخیرہ بڑھ جاتا ہے اور وہ مشکل سے مشکل صورت حالات میں دعوت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں عموما یوں ہوتا ہے کہ دعوت اسلامی کے حاملین اور ان کے مخالفین کے درمیان جو کشمکش برپا ہوتی ہے۔ لوگوں کی ایک عظیم تعداد اس میں غیر جانبدار ہو کر تماشادیکھتی ہے۔ یہ تماشا بین آبادی جب دیکھتی ہے کہ دعوت اسلامی کے حاملین اپنے نظریہ اور مقصد کی خاطرعظیم قربانیاں دے رہے ہیں اور بےحدو حساب مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور بڑی ثابت قدمی اور یکسوئی کے ساتھ اپنی راہ پر جارہے ہیں تو پھر یہ یہ تماشا بین عوام الناس سوچنے لگتے ہیں کہ دعوت اسلامی کے ساتھ ملیں آخرکیوں اس قدر قربانیاں دے رہے ہیں اور مشکلات برداشت کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مقاصد بہت ہی مفید ‘ بہت ہی قیمتی ہوں گے اور وہ جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دے رہے ہیں شاید ان چیزوں سے وہ مقاصد زیادہ قیمتی ہوں۔ اب یہ لوگ دعوت اسلامی کی اصل قدرو قیمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بات عامتہ الناس کی سمجھ میں آجاتی ہے تو وہ پھر فوج درفوج دعوت اسلامی میں داخل ہوتے ہیں اور وہ تماشادیکھنے کے بجائے اب خود تماشا بن جاتے ہیں۔ یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہر نبی کے لی مجرمین میں سے ایک دشمن پیدا کیا۔ یہ مجرمین دعوت اسلامی کی راہ روکنے کی سعی کرتے ہیں۔ پھر نبی اور ان کے عبد ہر حامل حق ان مجرمین کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کو مشکلات درپیش آتی ہیں اور وہ اپنی راہ میں چلتے ہی جاتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے لیے کامیابی مقدر ہوتی ہے۔ اور ان کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ آخرکار وہ اس انجام تک پہنچیں گے۔ آخر میں ان کو ہدایت اور نصرت مل جاتی ہے۔ وکفی بربک ھادیا ونصیرا (٢٥ : ٣١) ” اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کو کافی ہے “۔ انبیاء کے راستے میں مجرمین کا نمودار ہونا ایک طبیعی امر ہے۔ اس لیے کہ دعوت حق ہمیشہ اپے مناسب اور مقرر وقت پر نمودار ہوتی ہے جبکہ کوئی مخصوص سوسائٹی فساد پذیر ہوجاتی ہے یا پوری انسانیت فساد کا شکار ہوجاتی ہے۔ لوگوں کے قلب و نظر فساد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ لوگوں کے باہم روابط بگڑ جاتے ہیں۔ اس فساد اور بگاڑ کی پشت پر مجرم لوگ ہوتے ہیں ‘ جو ایک طرف فساد کرتے ہیں پھر وہ اس فساد اور بگاڑ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ اس فساد کے ہم مسلک اور ہم مشرب ہوتے ہیں۔ ان کی خواہشات اسی فساد زدہ معاشرے میں پوری ہوتی ہیں۔ اور ان کے وجود میں جو فساد اور بگاڑ ہوتا ہے اس کے لیے وجو جوز وہ معاشرے سے نکالتے ہیں کہ بس معاشرہ ہی ایسا ہے۔ اس لیے یہ بالکل طبیعی بات ہے کہ ایسے لوگ انبیاء کی راہ روک کر کھڑے ہوجائیں اور انبیاء کے دور کے بعد ان لوگوں کی راہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو انبیاء کی دعوت کو لے کر رکھتے ہیں کیونکہ یہ مجرم دراصل ان کے بگڑے ہوئے وجود کا دفاع ہوتا ہے ‘ اس لیے کہ حشرات میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو پاک و صاف اور خوشبودار اور شفاف ماحول میں زندہ ہی نہیں رہتے ‘ فوراً مرجاتے ہیں اس لیے کہ یہ گندے ماحول میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ بعض کیڑے ایسے ہوتے ہیں جو صاف پانی میں مرجاتے ہیں ‘ کیونکہ وہ صرف گندے اور سڑے ہوئے پانی ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہی حال ان مجرموں کا ہوتا ہے لہٰذا یہ طبیعی امر ہے کہ وہ دعوت حق کے دشمن ہوں اور اس کے مقابلے میں جان دینے کے لیے تیار ہوں اور یہ بھی بالکل طبیعی امر ہے کہ آخر میں دعوت اسلامی کو کامیابی ہو کیونکہ دعوت اسلامی زندگی کی ترقی پذیر لائٹوں پر چلنے والی ہوتی ہے۔ اور اس طرح دعوت اسلامی کو وہ عروج نصیب ہوتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمایا ہوتا ہے۔ وکفی بربک ھادیا ونصیرا (٢٥ : ٣١) ” اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کو کافی ہے “۔ اس کے بعد اب کفار کے اعتراضات بابت طریقہ نزول قرآن نقل کیے جاتے ہیں اور ان کی تردید کی جاتی ہے۔ (وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترتیلا) (٢٥ : ٣٢) ” منکرین کہتے ہیں اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ؟ “۔۔۔۔۔ ہاں ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے ہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے “۔ قرآن کریم نازل ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے ایک امت کی تربیت کی جائے۔ ایک نیا معاشرہ وجود میں لایا جائے۔ اس معاشرے میں ایک نیا نظام وجود میں لایا جائے۔ اور تربیت اس بات کی محتاج ہے کہ انسان کو بار بار تلقین کی جائے اور وہ متاثر ہوتا جائے۔ اور یہ تاثیر اور تاثر ایک مسلسل حرکت کے ذریعہ جاری رہے کیونکہ انقلاب انسانوں کے اندر پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہی اور انسان ایک ایسیذات ہے کہ اسے صرف ایک شب و روز میں تربیت نہیں دی جاسکتی کہ بس اس کے ہاتھ میں ایک نئے نظام پر مشتمل ایک کتاب پکڑا دی جائے۔ اور اس میں جدید معاشرے کے مکمل خدوخال ہوں بلکہ انسانوں کی تربیت یوں ہوتی ہے کہ اسے تدریج کے ساتھ ایک طویل عرصے کے بعد بدلا جاتا ہے۔ اور یہ تبدیلی اس کے اندر آہستہ آہستہ آتی رہتی ہے۔ ہر دن کی غذا کے بعد دوسرے دن وہ زیادہ غذا کے لیے تیار ہوتا ہے اور دوسرے دن کی خوراک وہ پھر بڑی خوشی سے لیتا ہے اور بڑے مزے سے قبول کرتا ہے۔ قرآن کریم زندگی کا ایک مکمل نظام لے کر آیا ہے اور قرآن کریم نے انسانوں کی تربیت کے لیے بھی ایک فطری منہاج اختیار کیا۔ یہ منہاج اس ذات کی طرف سے تھا جس نے انسان کو پیدا کیا تھا اس لیے قرآن کریم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا گیا تاکہ وہ جماعت مسلمہ کی حقیقی اور زندہموجود ضروریات کو پورا کرتا چلاجائے۔ کیونکہ یہ جماعت آہستہ آہستہ تعمیر ہورہی تھی۔ وہ اپنی استعداد کے مطابق ‘ اپنی قوت کے مطابق ایک ایک قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ ٹھیک ٹھیک اللہ کے حقیقی منہاج تربیت کے مطابق۔ چناچہ قرآن مجید کو بیک وقت منہاج تربیت اور نظام زندگی کی تشکیل کے لیے اتارا گیا۔ اس لیے اس کا متفرق نزول لازمی تھا۔ یہ محض کوئی علمی ثقافتی اور ادبی کتاب نہ تھی کہ مکمل شکل میں اسے تصنیف کر کے لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا۔ اور لوگ اسے پڑھتے رہتے اور مزے لیتے رہتے۔ اور پس اس پر عمل کی ضرورت نہ ہوتی۔ بلکہ یہ تو حرف حرف ‘ کلمہ اور ایک ایک حکم کے طور پر آیا۔ اس کی ہر آیت حکم الیوم (آرڈر آف دی ڈے) کے طور پر آئی۔ مسلمان حکم پاتے اور ان پر عمل کرتے۔ جیسا کہ ایک فوجی احکام لیتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ وہ اس حکم کو لیتا ہیسمجھتا ہے اور نافذ کردیتا ہے۔ خود بھی اس کی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے اور معاشرے کو اس میں غرق کردیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قرآن متفرق طور پر نازل ہوا ہے ‘ تاکہ رسول کے قلب کے اندر اچھی طرح جاگزیں ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے خود اس پر ثابت قدم ہوجائیں اور ایک ایک جز کے بعد اس کا دوسرا جز آئے اور اس پر عمل ہوتا رہے۔ کذلک لنثبت بہ فوء دک ورتلنہ ترتیلا (٢٥ : ٣٢) ” ہاں ایسا ہی کہا گیا تاکہ ہم اس کو اچھی طرح ہمارے ذہن نشین کرتے رہیں اور ہم نے اسے ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی “۔ ترتیل کا مفہوم یہاں اللہ کی حکمت کے مطابق آگے پیچھے نازل کرنا ہے ‘ اللہ کے علم کے مطابق اور لوگوں کی ضرورت کے مطابق اور اللہ کی اس حکمت کے مطابق جس کی رو سے اللہ جانتے تھے کہ لوگوں کے اندر کس قدر احکام و ہدایات قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوگئی ہے۔ قرآن کریم نے اپنے پے درپے منہاج نزول کے ذریعہ ان لوگوں کی تربیت کے میدان میں معجزات دکھائے۔ لوگ اس کے نزول سے دن بدن تاثرات لیتے رہے۔ اور ان کے اخلاق کی تشکیل آہستہ آہستہ ہوتی رہی۔ بسبب مسلمانوں نے قرآن مجید کا منہاج تربیت فراموش کردیا اور قرآن مجید کو انہوں نے محض علم و ثقافت کے طور پر پڑھنا شروع کردیا اور قرآن کو ایک ایسی کتاب تصور کرلیا جسے فقط پڑھا جاتا ہے ‘ اس کے مطابق معاشرے کو ڈھالنا ضروری نہیں ہے ‘ اس کی کیفیات میں ڈوبنا ضروری نہیں ہے اور نہ اس کے مطابق نظام زندگی قائم کرنا ضروری ہے تو مسلمانوں نے اس قرآن سے نفع لینا ترک کردیا اور قرآن نے ان کو نفع دینا چھوڑ دیا کیونکہ مسلمانوں نے وہ منہاج تربیت ہی ترک کردیا جو ان کے لیے علیم وخبیر نے قرآن میں منضبط کیا تھا۔ یعنی یہ کہ اسے ایک ایک کر کے عمل میں لایا جائے۔ [سید قطب شید ]
قرآن کی بھی بنیادی تعلیم یہی ہے ۔ پچھلی انبیائی تعلیمات اور حضرت محمد کے ذریعہ ملی ہدایت میں فرق یہ ہے کہ سابق میں علم و عقیدہ کا محور اُس دور تک اور جس قوم کی طرف نبی مبعوث کئے گئے اس قوم تک محدود تھا۔ حضرت محمد کا پیغام سارے عالم کے لئے اور تا بہ قیامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نہ صرف جامع و مکمل بنایا گیا بلکہ ہر قسم کی تحریف سے بھی محفوظ رکھا گیا۔ یہ قرآن کا ہی اعجاز ہے کہ 14 صدیاں گزرگئیں لیکن اس کا لفظ لفظ محفوظ ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اتنی خوش قسمت نہیں کہ اس کے پاس ایسی کتاب موجود ہو اور کوئی قوم اتنی بدنصیب بھی نہیں کہ جو ایسی عظیم کتاب کی ناقدری کی مرتکب ہو۔ ’’قرآن مجید کی ناقدری‘‘کا الزام معمولی نہیں جسے نظر انداز کردیا جائے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ آخروہ کیا ناقدری ہے جو امت مسلمہ اس نسخۂ کیمیا کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ یہ کتاب دلوں کی شفاء ‘ تعمیرِسماج کی بنیاد‘ قوموں کا افتخار اور جہاں گیری کا مسلمہ و آزمودہ اصول ہے۔
اس الزام پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک کا جتنا احترام ہم کرتے ہیں وہ اسکی قدر دانی کا ثبوت ہے۔ کسی اہم معاملہ میں قسم کھانا ہو تو اس کتاب سے بڑھ کر ہم کسی چیز کو نہیں سمجھتے ۔گھر میں سب سے اونچی جگہ اس کتاب کے لئے مختص ہوتی ہے وہ بھی ایسی کہ وہاں صاف ستھرے کاغذ و کپڑے بچھائے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ قرآن مجید کے نسخے لحاف میں لپیٹ کر آنکھوں سے لگاکر چوم کر طاق میں سجائے جاتے ہیں۔ نو مولود کا نام رکھنا ہو تو اسی کتاب کو کھول کر صفحہ کے پہلے حرف سے نام رکھتے ہیں ۔ کسی کے مرنے پر یہی کتاب تو ہے جو میت کے بازو بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور پھر اسی کتاب کا دور کرکرکے ہم اپنے مردوں کو بخشتے ہیں لیکن یہ جواب دینے والوں کو بتانا ہوگا کہ قرآن مجید کی قدردانی کا کیا یہی مطلب ہے ؟ کیا قرآن انہی مقاصد کے لئے نازل ہوا؟ کیا قرآن و حدیث میں کہیں مذکورہ بالا امور کو مقاصدِ نزول کی حیثیت سے پیش کیا گیا؟
جہاں تک احترام کا معاملہ ہے، اس کتاب کا جتنا احترام کیا جائے کم ہے لیکن اصل قابل غور نکتہ اس کے مقصدِ نزول کو سمجھنے کا ہے ۔ گویا یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن کا ہم پر کیا حق ہے؟ اگر ہم نے اس کے حقوق کو نہ پہچانا تو اتنا سب کرنے کے باوجود ہم پر قرآن مجید کی ’’ناقدری‘‘ کا ہی الزام عائد ہوگا کیونکہ یہ قرآن کے حقوق میں سے نہیں ۔ یہ قرآن کے ساتھ ہمارا خودساختہ سلوک ہے ورنہ اس کی اصل قدر دانی تو یہ ہے کہ اس کا وہ حق ادا کیا جائے جس کا تقاضا خود قرآن مجید ہم سے کرتا ہے۔
قرآن کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے ۔ ارشاد ربانی ہے:
’’پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول( ) پر اور اس روشنی (قرآن) پر جو ہم نے نازل کی ہے۔ ‘‘( التغابن8)۔
ایک اور مقام پر مطالبہ یہ ہے کہ یہ ایمان محض زبانی نہ ہو بلکہ سچے دل سے ہو :
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے ، وہ اس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں ،وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ 121)
سچے دل سے ایمان لانے کے نتیجہ میں انسان عقیدہ وفکر کی گمراہ کن تاریکی سے نکل کر اس روشنی میں آجاتا ہے جسے ا للہ کی توفیق کہتے ہیں اور جو صراط مستقیم اور سبیل الحمید ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’(اے محمد !)یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائو اُن کے رب کی توفیق سے اُس پروردگارکے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے ۔‘‘ (ابراہیم1)۔
وحی کی حکمت اور مقصدِ نزول بتانے کے بعد کہا گیا :
" اور اس سے قبل وہ (یعنی وحی سے محروم قوم) صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ (اٰل عمران 146)۔
گویا یہ قرآن ہی ہے جو لوگوں کو گمراہی سے نکالنے کا ذریعہ ہے۔
حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)
علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کرلیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی ١ ؎۔
(جامع ترمذی ، کتاب: فضائل قرآن کا بیان، حدیث نمبر: 2905)
حقیقت یہ ہے کہ اگر امت مسلمہ میں پائی جانے والی گمراہیوں کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک حدیث ہی کافی ہوگی ۔ یعنی امت مسلمہ غیر قرآن سے ہدایت کی متلاشی ہے۔مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس مستند و مسلمہ ہدایت نامہ کو رکھنے کے باوجود دنیا بھر کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں لیکن اس قرآن سے فیض یاب ہونے کی انہیں توفیق نہیں۔ اس کتاب ہدایت کو کتاب ِایصال ثوابِ بنا دیا ہے۔ یہ کتاب تو زندوں کے لئے نازل کی گئی لیکن اسے مردوں کے لئے مختص کردیاگیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ قرآن تمام تر نور کے باوجودلحافوں میں بند ہے ۔قرآن کریم میں ہے:
’’ہم نے اس (نبیؐ) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ شاعری اس کو زیب دیتی ہے ،یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کردے جو زندہ ہو اور انکارکرنے والوں پر حجت قائم ہوجائے۔‘‘ (یٰسین70,69)
مسلمان اس کی روشنی سے محروم ‘ افسانوں ‘ ناولوں ‘ شاعری ‘ ادب ‘ شیوخ و مرشدین کی تحریروں و فلسفوں میں الجھے ہوئے بھٹک رہے ہیں۔ انہیں زندگی کی راہِ ہدایت نظر نہیں آتی اور نہ آخرت کی راہ نجات دکھائی دیتی ہے۔زندگی میں غیر اللہ سے ہدایت کے طالب اور آخرت میں کسی کے دامن کو پکڑ کر نجات کی تمنا لئے مصروفیاتِ زندگی میں کھوئے ہوئے ہیں ۔ اگر کوئی اس پاک کلام کو سمجھنے والا ہے بھی توعمل و اخلاص کی قلت کے سبب اثر انگیزی کا فقدان ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ایک حدیث کا خلاصہ ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا :
’’تم لوگوں میں ایک گروہ ایسا پیدا ہوگا کہ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کی حلقوں سے نیچے نہ اترے گا ، اسلام سے وہ ایسے نکل جائیں گے جس طرح تیر ۔‘‘
یہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں رسول اللہ نے خبردار کیا ہے ایسے زمانے سے جبکہ لوگ قرآن پڑھ رہے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یعنی دل تک نہیں پہنچے گا محض زبان و حلق کی مشق ہوگی۔ تلفظ کی ادائی میں تو کوئی فرق نہ ہوگا لیکن نہ اس کے مفہوم سے آشنا ہوں گے ‘ نہ اس کی کیفیات کو محسوس کریں گے‘ نہ اس کے احکام کو جانیں گے اور نہ اس پر عمل کی رغبت رکھتے ہوں گے۔ حلق سے نیچے نہ اترنے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس پاک کلام کی دل تک رسائی نہیں ہوگی ۔لازمی بات ہے کہ شرک و نفاق سے لے کر اخلاقی بیماریوں تک تمام گناہوں اور نافرمانیوں کا گھر دل ہوتا ہے اور اگر قرآن کی تاثیر حلق سے نیچے اترکر دل تک نہ پہنچے تو اس کا پڑھنا پڑھانا کیسے باعث فیض و حصولِ پاکیزگی ہوسکتا ہے۔
قرآن مجید پر ایمان لانے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اس کے احکام کو بلا چوں و چرا قبول کرلیا جائے۔ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے جی چرانا اور تاویلات کے ذریعہ بچ نکلنے کی کوشش یا عملی انحراف کو منافقت سے تعبیر کیا گیا ہے:
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول( ص) کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں ۔ ‘‘ (النساء 61)
اس پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام تسلیم کیا جائے ۔اگر حلال و حرام کو جاننے کا معیار قرآن مجید کو نہ مانا گیا تو ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے نبی کریم نے ارشاد فرمایا :
’’جس شخص نے قرآن میں حرام کی ہوئی اشیاء کو حلال سمجھا وہ گویا قرآن پر ایمان ہی نہیں لایا۔‘‘ (ترمذی)۔
اس کتاب کے نزول کے جو مقاصد بتائے گئے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ انسانوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات حل کئے جائیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اے نبی( ) ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ۔‘‘ (النساء 105)۔
گویا اس کتاب پر ایمان کا تقاضاہے کہ اس کے فیصلوں کو تسلیم کیا جائے اور اپنے تنازعات کی یکسوئی کے لئے اسے حَکَم(جج) بنایا جائے۔
سنجیدگی سے غور کیجئے کہ قرآن مجید سے ہمارا تعلق کس قدر اور کس نوعیت کا ہے۔ اسے فراموش کردیا ہے یا محض تلاوت پر اکتفا ہے۔ اسے سمجھ تو لیتے ہیں لیکن اپنی مرضی کے مطابق یا پھر ٹھیک معنوں کو پالینے کے باوجود عمل سے محروم ہیں۔ بہرحال ہمارا جو بھی حال ہو ہم خود ہی اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں اور نزول قرآن کا مہینہ رمضان المبارک ہمیں اس محاسبہ کا موقع فراہم کرتا ہے۔
’’ (بروز قیامت )رسول (حق تعالیٰ سے شکایت کے طور پر) کہیں گے کہ اے میرے پروردگار !میری قوم نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کررکھا تھا۔‘‘
قرآن کا ایک حق اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا ‘ اس کی تعلیم کو عام کرنا بھی ہے لیکن اس کا اطلاق تو اس وقت ہوگا جب ہم مذکورہ ناقدری کو ترک کرتے ہوئے اس کی تلاوت کو حرز جان بنائیں۔ان حقوق کی ادائی ہی اصل قدر دانی ہے ۔ یہی قدر دانی ہے جس سے قرآن دنیا میں ہمارے لئے رہنما اور آخرت میں نور و ذریعۂ شفاعت بن سکتا ہے۔
وما توفیقی الا باللہ (* * * سید نورالعارفین ۔ حیدرآباددکن* * *)