اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3)
یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع کو نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- ایک سچنے مسلم کی خواہش اور کوشش ہونا چاہیے کہ وہ اصل "دین کامل- اسلام" کی بحالی کی عملی جدوجہد کرے جو کہ ان خرابیوں سے پاک ہو- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺب ہترین نمونہ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی متواتر سنت (عمل) اوراحادیث (اقوال ) موجود ہیں - حدیث کا میعاررسول الله ﷺ نے مقرر فرمایا اور محدثین نے بھی[1] لیکن جو احادیث اس میعار پر پورا نہ بھی اتریں، ان کا احترم کرنا چاہیے، فضائل، سیره اور تاریخی اہمیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے- قرآن مجید آخری رسول محمد صلی الله علیہ وسلم پر تئیس سالوں میں نازل ہوا ، جو حفظ و تحریر کے ذریعہ محفوظ کیاگیا- پہلے دوخلفاء راشدین مہدیین کی کوششوں کے نتیجہ میں ،. کتاب کی شکل میں قرآن مجید کو اکٹھا کرکہ بعد میں دوبارہ جانچ پڑتال کے بعد ، تیسرے خلیفہ حضرت عثمان (رضی الله) نے قرآن کی مستند مجلد کاپیاں تیار کرواکہ امت میں قسیم کردیں ۔ قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله، راہ هدایت ہے-مسلمانوں کو دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے "دین کامل: اسلام" کو بحال کرنے کی پرامن انداز میں کوشش کرنی ضروری ہے۔ تحقیق کیوں ؟
ہمارے معاشرہ میں مذہبی عدم برداشت، شدت پسندی،سماجی،معاشرتی، اخلاقی، معاشی ،سیاسی بےراہ روی ، مشرکانہ رسوم اور گوناں مسائل کی وجہ قرآن سے دوری ہے- قبیح رسوم ہمارے معاشرہ میں تیزی سے پھیل رہی ہیں- علماء کا ایک طبقہ بھی ان برائیوں کو روکنے کی بجایے ان کا حصہ بن گیا ہے- سوشل میڈیا نے ہر ایک کو سہولت مہیا کی ہے کہ وہ اپنے نظریات کا اظھار اور فروغ کر سکے- افسوس کہ اس سہولت کو مثبت کی بجایے منفی طور پر دوسرے مسلمانوں پر تنقید اور طعنہ زنی کے لیے استعال کیا جاتا ہے- دین کا محدود علم مزید خرابی کی وجہ ہے- ہر ایک اپنے فرقہ ، مسلک کا دفاع اور دوسروں کی تضحیک میں مگن ہے اور اس کو دین اسلام کی خدمت اور دعوه سمجھ رہے ہیں- اس سلسلہ میں احادیث کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، اکثر تحقیق، ریفرنس اور درجہ بندی کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر- پچھتر( 75) کتب، پچیس ہزار احادیث (لاتعداد جو عام پبلش نہیں ہوئیں) بہت بڑی تعداد ہے جس پر عبور رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں- قرآن اور سنت جو مستند اور محفوظ ترین ہیں، سے کسی حد تک احتیاط کی جاتی ہے، ایک وجہ لاعلمی اور دوسرے غلطی فوری طور پر پکڑے جانے کا احتمال اور شدید ردعمل-
اسی سے منسلک دوسرا مسئلہ فرقہ واریت ہے جس نے امت مسلمہ کو بہت نقصان پنہچایا ہے جو تسلسل سے جاری ہے- فتنہ، فساد اور دہشت گردی کی بنیاد فرقہ واریت ہے جس کو روکنے میں علماء کا موئثر کردار بہت اہم ہے- گمراہ لوگ قرآن اوراپنی من پسند احادیث کے حوالوں کی من گھڑت تاویلون سے دینی ، ذہنی پراگندگی ، فتنہ و فساد اور دینی فکر میں اپنے نظریات کی ملاوٹ کرکہ نہ صرف دہشت گردی کا جواز گھڑ کر سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں بلکہ فکری انتشار پیدا کرکہ غیر محسوس طریقہ سے فرقہ در فرقہ بناتے ہیں۔ وہ سادہ مسلمان اکٹریت کے یہود کے مذہبی پیشوا کے طور پر نجات دہندہ بن کر ان سے معاشی، سیاسی اور دوسرے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ جو مسلمان ان کی فزیکل دسترس سے باہر ہیں ان کو زہنی غلام بنا کر سوشل میڈیا پرپراپیگنڈہ کروا کہ معاشی مدد اور پبلک سپورٹ حاصل کر تے ہیں-
جب پورا معاشرہ ابتری کا شکار ہے وہاں علماء کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ علماء حق کا فرض ہے کہ وہ علماء اور معاشرہ کی دینی اور دنیاوی فلاح کے حصول میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ علماء یہود و نصاری کی مثالیں قرآن نے ہماری راہ نمائی کے دی ہیں، جس میں سبق ہے کہ ان کے علماء اللہ کی کتاب اور انبیاء کی تعلیمات پر اپنے نظریات کو ترجیح دیتے تھے۔ تورات کو چھوڑ کر تلمود کو پکڑ لیا جو علماء کی تفسیریں، تحریریں ہیں ۔ ادھر بھی ایسے ہی حالا ت ہیں جس خدشہ کا کھلا عام خلفاء راشدین نے اعلان کیا تھا مگر ہمارا نفس حاوی ہو گیا اور ہم نے ان کی سنت کو رد کرکہ اپنے لئیے تباہی کا راستہ اختیار کر لیا اور پھر کہتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ یہ اللہ کا عذاب ہے اپنے نفس اور دوسروں کو خدا بنانے کا نتیجہ !
اس غلو اور جہالت کا پرامن طریقہ سے قران و سنت کی طاقت سے سدباب کرنا حکومت ، ارباب اختیار ، انٹلیکچوئیلز اور ہر ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ قران نے دعوہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے۔ اس مقالہ کا مقصد آپ کو ناقابل تردید حقائق سے آگاہ کرنا ہے ، صدیوں سے قائیم مائینڈ سیٹ کو راتوں رات تبدیل نہیں کیا جاسکتا مگر ہمارا فرض کوشش کرنا ہے ، باقی ھدائیت دینا صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو شخص کوشش کرتا ہے اللہ اسے ہدائیت دیتا ہے اور جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرے وہ اسے ادھر بھٹکنے کو چھوڑ دیتا ہے- دین میں جبر نہیں ، ہم کسی پر داروغہ نہیں ، ہمارا فرض صرف قرآن و سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اعلان حق کرنا ہے۔
یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]
ان خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ ہر طرح کے لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایات پر اپنے آباؤ اجداد کے رسم و رواج کو مقدم سمجھتے اور انہی چیزوں سے محبت رکھتے ہیں خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق یا دوسرے مشرکین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بیشمار ایسے احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرنا اکثر لوگوں کو ناگوار تھا-
اس طرح یہ نادان لوگ اس اصلاح کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اس وقت احکام الہٰی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا ۔ دوسری طرف یہودی تھے جنہوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے اصل خدائی شریعت پر اپنے خود ساختہ احکام و قوانین کا ایک بھاری خول چڑھا رکھا تھا ۔ بے شمار پابندیاں اور باریکیاں اور سختیاں تھیں جو انہوں نے شریعت میں بڑھالی تھیں ۔ بکثرت حلال چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ حرام کر بیٹھے تھے ۔ بہت سے اوہام تھے جن کو انہوں نے قانون خداوندی میں داخل کر لیا تھا ۔
اب یہ بات ان کے علماء اور عوام دونوں کی ذہنیت اورمزاج کے بالکل خلاف تھی کہ وہ اس سیدھی سادھی شریعت کی قدر پہچان سکتے جو قرآن پیش کر رہا تھا ۔ وہ قرآن کے احکام کو سن کر بے تاب ہو جاتے تھے ۔ ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہاء کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعت الہٰی قرار دے ، ورنہ یہ ہرگز کتاب الہٰی نہیں ہے-
یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جہلاء اور نواحی مدینہ کے یہودیوں کی طرف ۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت ناگوار تھیں جو تمدن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات اور رسم و رواج کے خلاف کی جارہی تھیں - اسلام کو بھی اس قسم کے حالات کا چیلنج پیش ہے جس کا تدارک ضروری ہے-
موضوع تحقیق (تھیم) :
دینی معاملات میں راہنمائی کے لئیے کتاب اللہ قرآن، سنت رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم اور ان کے قریب ترین چار ساتھی اصحاب و خلفاء راشدین ، حضرت ابو بکر(رضی اللہ)، حضرت عمر (رضی اللہ)، حضرت عثمان (رضی اللہ) اور حضرت علی (رضی اللہ) کی سنت کو باقی سب لوگوں پر دائیمی ترجیح حاصل ہے۔ ان کے طریقہ سے دین اسلام کو پہلی صدی کے اصل خالص دین اسلام کی طرف واپس لے جانا ہے جس کے کمال پر پہنچنے کا اعلان اللہ تعالی نےحجۃ الوداع (10 ہجری۔ 631ء) کو کردیا تھا (المائدہ ٥:٣)- کمال کےبعد زوال شروع ہو جاتا ہے جو ابتک جاری ہے… ہماری خواہش دعا اورکوشش ہونی چاہیے کہ اس "کمال" کی منزل کا سفر کبھی نہ چھوڑیں اور پہلی صدی ہجری کے دین کامل اسلام کے احیاء کی جدوجہد کریں-
قرآن کریم الله تعالی کی طرف نازل کردہ تمام بنی نوع انسان کے لیے تا قیامت آخری کتاب ہدایت ہے، جو قرآن کے مطابق؛ مکمل، مفصل، آسان اور محفوظ ہے- اللہ نے اس کو آخری رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم پر نازل فرمایا جنہوں نے اس کے نفاذ کا عملی نمونہ پیش کیا جسے سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کہتے ہیں جو نسل در نسل تواتر سے منتقل ہو رہی ہے-
اب اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ:
اگر قرآن مکمل مفصل، محفوظ ابدی کتاب ہدایت ہے تو پھر کیا مزید کسی اور کتاب یا کتب کی ضرورت ہے؟
اگر مزید کتب کی ضرورت ہے تو کیا قرآن نے ایسی مزید کتب کا حکم دیا یا منع فرمایا ؟
خلفاء راشدین مہدین ، جن کی سنت پر عمل درآمد کا رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے حکم دیا تھا ، اس سلسلہ میں خلفاء راشدین مہدین کی سنت کیا ہے؟
ایک غلط فہمی کا ازالہ، اس مقالہ کا ان حضرات کے نظریات جن کو "منکرحدیث" کے خطابات سےنوازا جاتا ہے کوئی واسطہ نہیں- صرف لفظ احادیث کی حد تک مماثلت ہے، یھاں احادیث کا انکار نہیں، احترام ہے صرف احادیث کو کتاب کی شکل میں مدون کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے قرآن او سنت کی روشنی میں ، جبکہ دوسرے حضرات احادیث کا انکار کرتے ہیں اور دلائل دیتے ہیں، قرآن کےعلاوہ سنت اورحدیث کا انکارکرتے ہیں- ہم ان سے متفق نہیں٠ ہمارا اور ان کا تھیم ، بیانیہ مختلف ہے:
موضوع تحقیق (تھیم) یہ نہیں کہ:
- حدیث کی کیا اہمیت ہے اورکیا فوائد ؟
- حدیث وحی تھی یا نہیں؟
- حدیث کی کتابت درست ہوئی یا غلطیاں ہیں یا نہیں؟
- احادیث فوری لکھی گیئں یا تیسری صدی میں ؟
- احادیث کتب مرتب کرنے والے نیک ، پرہیزگار تھے یا ولی اللہ تھے یا نہیں ؟
- احادیث کتب مرتب نہ ہوتیں تو کیا ہو جاتا ؟
یہ سب علیحدہ مضامین ہیں ، جو ہمارے تھیسس کا موضوع نہیں نہ ہی ان کو تفصیلی طور پر ڈسکسس کیا گیاہے- ضمنی طورکہیں ذکر آتا ہے تو مختصر کمنٹس اور فٹ نوٹ پر لنک میں تفصیل، ان موضوعات پر لا تعداد کتابیں اور انٹرنیٹ پر مواد موجود ہے - جس کو زیادہ دلچسپی ہو وہ "دو اسلام - ڈاکٹر غلام جیلانی برق" اور اس پر جوابی مباحث دیکھ سکتا ہے ..
اصل موضوع، تھیم قارئین کو سمجھنے میں میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ بارہ صدیوں سے جو پڑھایا اور بتلایا گیا بلکہ جسے عملی طور پرایمان کاحصہ سمجھا جاتا ہو , اس پر سوال اٹھایا جائے اور وہ بھی قرآن و سنت اور خلفاء راشدین مھدیین ( ہدایت یافتہ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ مخصوص لقب اور اعزاز) کے توسط سے اور احادیث کے ریفرنس سے، اسےآسانی سے قبول کرنا بہت مشکل ہے ، انسان سوچتا ہے کہ کہیں میرے ساتھ کوئی دھوکہ تو نہیں ہو گیا؟
ایسی حالت میں انسان فوری طور پر انکار (Denial) اور دفاع (Defensive) کی حالت میں چلا جاتا ہے, تھیم کو سمجھے بغیر یا وہ اپنے طرف سے پہلے سے قائم نظریات اور (Preconceived) خیالات کے زیر اثر حقائق اور دلائیل کو جذبات سے دبا دیتے ہیں-
لہٰذا ضروری ہے کہ تھیم کو تفصیل سے بیان کر دیا جایے :
رساله التجديد : " مقالہ کا ، تھیم , موضوع : پہلی صدی کے اسلام دین کامل کا احیاء
.جن اصحابہ (رضوان الله) کی سنت کو پکڑنے کا رسول صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا ۔۔۔ جنہوں نے قرآن کی کتابت کروائی.. کاتب وحی و حافظ قرآن اور دو ذاتی شہادتوں کے ساتھ کمیٹی سے خاص نگرانی میں قرآن کو مدون کتاب کرکہ محفوظ کیا جو کہ رسول صلی الله علیہ وسلم چھوڑ گیے تھے۔ انہی صحابہ میں سے حضرت عمر رضی الله نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ ، کیونکہ پہلی امتیں کتاب اللہ کے مقابل دوسری کتب لاکر برباد ہوئیں، لہذا کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب نہی۔ ہو گی، اس پر دوسرے خلفاء راشدین ، مھدین کی حمایت شامل رہی اور صحابہ اکرام بھی مجموعی طور پر عمل پیرا ہویے، ا خلفاء راشدین ، مھدین کے پاس رسول صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے اتھارٹی تھی- ایک صدی کے بعد اس کی خلاف درزی ہوئی-
"خلفاء راشدین ، مھدنین" صرف سیاسی حکمران نہ تھے بلکہ دینی رہنما بھی تھے ، خلفاء راشدین کا یہ خصوصی اعزاز ہے، جنہوں نے اہم دینی فیصلے کیےجن پر عمل ہو رہا ہے- . پہلی صدی کے بعد جب احادیث کو کتابوں کی شکل میں مرتب کرنے کا رواج پڑا تو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا- ایک سادہ آسان دین اسلام ، مشکل مذھب میں تبدیل ہو گیا ، اللہ کی آخری کتاب کو نظر انداز کر کہ "قیل و قال" میں الجھ گیے جس خدشہ کا اظہار حضرت علی (رضی الله) نے کیا تھا جب انہوں نے بھی حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا-
قرآن کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ، اگر کوئی اختلاف بھی ہو تو بآسانی حل موجود ہے کہ محکمات آیات ہی "ام الکتاب" ہیں (قرآن 3:7) لیکن یہ حکم احادیث پر نہ لاگو کیا گیا- قرآن کے ساتھ اس وقت پچھتر کتب اور پچیس ہزار سے زیادہ مختلف درجات کی احادیث موجود ہیں اور فرقے بھی ، اپنے مخالف کی احدیث کو ضعیف ، کہہ کر مسترد کرتے ہیں اور تاویلیں اور مباحث میں مشغول رہتے ہیں- یہود کا یہی طریقہ تھا جو ہم نے قرآن ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ، خلفاء راشدین و مھدین کی سنت کے برخلاف کیا- کیونکہ اکثرمذہبی پیشواؤں کا ذاتی مفاد اس میں پوشیدہ اور وابستہ ہے (اچھے پرخلوص علماء کی بھی کمی نہیں ) ، جس نے پہلی صدی حجرہ کے اسلام کی طرف واپسی ، اصلاح کی بات کی ملعون قرار پایا-
دوسری طرف "اہل القرآن" یا ملتے جلتے نام ہیں جنہوں نے دوسری ایکسٹریم پوزیشن اختیار کر رکھی ہے کہ ، صرف قرآن .. جبکہ قرآن رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور اسوۂ حسنہ کی بھی بات کرتا ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا -
قرآن کے مطالعہ اور سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سب کچھ واضح ہو جاتا ہے اور ہم کو صاف ہدایت و رہنمائی ملتی ہے. اس کی روشنی میں یہ تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے تاکہ اس پر بحث ہو اور ہم مشکلات سے نکل کر قرآن و سنت پر عمل کر سکیں اور پہلی صدی حجرہ والا دین اسلام جو اصل ہے اس تک مکمل طور پر پہنچنے کی کوشش کریں, مگر واضح رہے کہ :
- اصول دین ، فروغ دین کو بلکل نہیں ٹچ کیا جارہا (اگرچہ وہ علماء نے اخذ کرکہ تشکیل دئیے ہیں ) -
- یعنی اسلام کے چھ بنیادی اصول اور پانچ ستون کو ڈسکس نہیں کیا جارہا ، ان پر ایمان لازم ہے-
- کسی فرقہ کی تضحیک یا تعریف مقصد نہیں -
- کسی نئے فرقہ کی ضرورت نہیں ، فرقہ واریت قرآن نے ممنوع قرار دی ہے- صرف اسلام اور مسلمان-
- یہ صرف ایک علمی تحقیق ہے، تاکہ قرآن پر تدبر کریں اور قرآن کی اصل حیثیت بحال کی جائیے-
- جس طرح اسلام پریکٹس کر رہے ہیں اس پر قرآن و سنت کی روشنی میں عمل پیرا رہیں-
- صبر و تحمل سے دوسروں کوبرداشت کریں اور دینی مواد کو طعنہ و تشنع کی بجاتے مثبت طورپر استعمال کریں-
- متواتر احادیث ، سب سے زیادہ مستند (authentic) ہیں جن کاانکار کفر,اس پراتفاق ہے-
- احادیث جو کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ہوں، ضعیف بھی ہوں تو ان کا احترام لازم ہے کہ ممکن ہے درست ہوں چہ جائیکہ غیر مناسب قرآن وسنت کے خلاف ہوں- اس عظیم علمی ، تاریخی خزانہ کی اپنی اہمیت ہے-
یہ سب علیحدہ مضامین ہیں ، جو ہمارے تھیسس کا موضوع نہیں نہ ہی ان کو تفصیلی طور پر ڈسکسس کیا گیاہے- ضمنی طورکہیں ذکر آتا ہے تو مختصر کمنٹس ، ان موضوعات پر لا تعداد کتابیں اور انٹرنیٹ پر مواد موجود ہے - جس کو زیادہ دلچسپی ہو وہ "دو اسلام - ڈاکٹر غلام جیلانی برق" اور اس پر جوابی مباحث دیکھ سکتا ہے ..
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]