رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

وحی متلو اور غیر متلوتحقیقی جائزہ (1)

اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، یہ ایک مشہور قول ہے، در اصل اسلام کی بنیاد کتاب الله ، قرآن پر ہے جو کہ محفوظ ترین کتاب ہے- قرآن ہی اللہ اوررسول اللہ ﷺ  کی اطاعت کا حکم دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ اب الله کے پاس ہیں،ان کا کردار قرآن کا عملی نمونہ تھا ، ان کا اسوہ حسنہ مسلمانوں کے لیے قابل تقلید مثال، رول ماڈل ہے جو کہ سنت (عمل) اور کلام، ارشادات (حدیث) کی شکل میں ملتے ہیں-
سنت اور حدیث مختلف اصطلاحات ہیں- قرآن کی حفاظت کا ذمہ الله نے خود لے لیا، خلفاء راشدین نے اکٹھا کر کہ جلد میں مستند  کتاب کی شکل میں بھی محفوظ کر دیا، سنت (مثلا صلوات / نماز کی تفصیلات ، روزہ ، زکات ، حج اور مزید تفصیلات ) ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کے عملی مشاہدہ اور عمل سے متواتر نسل د نسل منتقل ہوتی آ رہی ہے، قرآن کہ بعد سنت محفوظ ترین ہے- تمام احادیث کے ساتھ یہ سلسلہ نہ ہو سکا، صرف "متواتر احادیث" جن کوایک یا دو افراد نے نہیں بلکہ بہت زیادہ افراد نے سنا اور نسل در نسل تواتر سے منتقل کیا اور متواتر احادیث، سنت کے درجہ تک پہنچ سکیں- "متواتر احادیث" کی تعداد بہت کم ہے ، امام سیوطی (رح) نے  ہر سٹیج پر دس راویوں والی ایسی 113 متواتر احادیث کو اکٹھا کیا ہے- سعودی ویب سائٹ پران کی تعداد 324 ہے - دوسری قسم کی احا دیث "احد" کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں ،
جو کہ احادیث کنے کثیر مجموعہ پر مشتمل ہے- ان سے استفادہ کرتے ہوے بہت تحقیق اوریہت احتیاط کی ضرورت ہے-  رسول اللہ ﷺ نے حدیث کے میعار کو جانچنے کی پالیسی (criteria) بیان فرما دی کہ جو حدیث قرآن و سنت اور عقل کے خلاف نہ ہو وہی قابل قبول ہے- اس لیے تحقیق ضروری ہے، الله کا فرمان ہے:
مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ (قرآن 49:6)

اس سے بڑی حماقت کیا ہو سکتی ہے کہ ہر حدیث کو رسول اللہ ﷺ کے مقررر کرده مکمل معیار کسوٹی پر پرکھے بغیر ، صرف ایک نقطۂ کی کسوٹی پر قبول کرلیا جایے(ملاحضہ : مسلم حدیث:40) اورپھر اس پر اصرار کیا جایے، فتوے لگانے جائیں، فرقےبنایے جائیں- یہ رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہے اور یہود ونصاری کے علماء کی طرح علماء کو "رب" بنانا ہے، شرک کی قرآن نے مما نعتت  فرمائی ،اس جہالت کو ختم کرنا ضروری  ہے- دین کے معامله میں اس رطرح کی لا پرواہی کیسے قبول کی جا سکتی ہے جبکہ ہم اپنے ذاتی ، معاشی معاملات میں کس پراس طرح اندھا اعتبار نہیں کر تے!


الله نے قرآن میں اپنے احکامات اور ضروری ہدایت واضح ترین طریقه سے بیان فرما دیے ہیں (3:7) لیکن جن کے دل میں کجی ہے وہ واضح احکام  کو چھوڑ کر متشابھات کی طرف جاتے ہیں تاویلوں سے نئی نئی باتیں ، بدعات ایجاد کر تے ہیں تاکہ اپنے نظریات کو عوام کے لیے قابل قبول بنا سکیں - قرآن میں تحریف ممکن نہیں ، لہذا ممکنه طور پر ہزاروں احد احدیث کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ حدیث چیک کرنے کے مکمل میعار کی بجایےصرف ایک نقطۂ کو میعار بنایا جو کہ راوی اور اسناد پر مشتمل ہے، متن کی اہمیت کو کیسے نظر انداز کیر سکتے ہیں؟ - حدیث میں جھوٹ کے بےدریغ استعمال کا اقرار محدثین نے بھی کیا ہے (مسلم حدیث:40) - اس لیے رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ تمام اصولوں کو قبول کرکہ ان پر عمل کرن ہو گا - وہ اصول کیا ہیں؟ ذیل  لنک پر تفصیل موجود ہے :

علم حدیث کے بنیاد ی اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics

ارباب / علماء نے حدیث کو وحی (غیر متلو، قرآن و حدیث میں یہ اصطلاح موجود نہیں، بدعت ) کے درجہ پر بڑھا دیا یعنی قرآن کے برابر یا قریب، اور ان کی بنیاد پر قرانی احکام میں ردو بدل ممکن کر دیا- اس اہم ترین  بدعة کو بدعة  کے طور پر قبول کرنے میں مسلمانوں میں تردد پایا جاتا ہے کہ صدیوں کے پراپیگنڈہ نے ان کے دماغ جامد کر دیے ہیں-

احادیث لکھنے پررسول اللہ ﷺ نے پابندی لگائی کہ پہلی اقوام (یہود و نصاری ) کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب لکھ کر گمراہ ہو گۓ تھے،

اس پالیسی پر حضرت عمر (رضی الله) اور خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا، تیسری صدی حجرہ میں حدیث کی مشہور کتب لکھی گیئں مگر ان کو علمی قبولیت میں دو صدی اور لگ گئیں، جب ٤٦٤ حجرہ / ١٠٧٢ عیسوی کو نیشاپور کے دارالعلوم میں پہلی مرتبہ البخاری کو پڑھا گیا تھا - احقر جب تحقیق کے نتائج پر پہنچا تو "ایک ہزار سالہ بیانیہ" (Millennium Narrative) تشکیل  دیا کہ مذہبی معاملات میں تحقیق اور نظریات کی علمی اور عوامی قبولیت میں صدیاں لگ جاتی ہیں-  لیکن الله کے اپنے پلان ہیں 27 اپریل 2021 کو سعودی ولی عہد شہزاده محمد بن سلمان نے اپنے انٹرویو میں اس حقیقت کو سعودی حکومت کے آیین کی بنیاد میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا- الله کا شکر ہے کہ اس تحقیق  کی قبولیت اورعمل درآمد کا آغازہو چکا ہے (الحمد لللہ)  اور مستقبل میں "پہلی صدی کے کامل اسلام کا احیاء" (Revival of 1st Century Perfected Islam) ممکن ہو سکے گا ، ان شاء الله 

~~~~~~~~~~~~~~~
وحی متلو  اور غیر متلوتحقیقی جائزہ  (1)

وَالَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاسۡتَكۡبَرُوۡا عَنۡهَاۤ اُولٰۤئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ۞ (القرآن 7:36)
ترجمہ:
*اور جو لوگ ہماری آیات کو جھُٹلائیں گےاور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گےوہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔* (القرآن 7:36)


کیا قرآن کی کسی ایک آیت سے سیاق و سبق سے ہٹ کر (out of context) تاویل اورایک حدیث کی بنیاد پر جو کہ قرآن، سنت و احادیث اور عقل کے بھی خلاف ہے، تیسری صدی حجرہ کے ارباب نے "وحی غیر متلو" کی نئی  اصطلاح  جو کہ نہ  قرآن ، سنت و حدیث میں موجود، نہ ہی  رسول اللہ ﷺ  اور صحابہ کو معلوم تھی، ایجاد کر کہ قرآن کے ساتھ کتب احادیث کو شامل کرنے کا جوازپیدا کیا، آج ایک قرآن اور 75 کتب احادیث ہیں- حالانکہ  رسول اللہ ﷺ  کے اعتراض پرابوحریرہ(رضی الله) اور صحابہ نے  دخیرہ حدیث  کو آگ لگا دی تھی اور یہی کام  بعد میں حضرت عمر(رضی الله) نے کیا-  تحقیق و تجزیہ سے تمام حقیقت سامنے ہے-

سارا بیانیہ ظن, گمان ,استدلال اور استنباط , مفروضوں [deductions، assumptions and inferences ] پرکھڑا کیا گیا ہے نہ کہ قرآن کے واضح احکام پر  (قرآن 3:7)..اتنا اہم ترین معامله کہ  اللہ کی آخری ایک کتاب کی حثیت تبدیل کی جارہی ہو وہ کسی کی تاویلوں کی بنیاد پرنہیں ہو سکتا-  جب مرزا قادیانی نے ایک آیت  پرتاویل گھڑی تو گمراہ ہوگیا- 
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مِنَ الْوَحْيِ إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ ....[صحیح بخاری, حدیث نمبر: 3047]
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ ان سے مطرف نے بیان کیا‘ان سے عامر نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا ‘ آپ حضرات ( اہل بیت ) کے پاس کتاب اللہ کے سوا اور بھی کوئی وحی ہے ؟ آپ نے اس کا جواب دیا ۔ اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو ( زمین ) چیر کر ( نکالا ) اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں ( جو قرآن میں نہ ہو ) ....
[صحیح بخاری, حدیث نمبر: 3047]]
ایک مثال لیتے ہیں یہ آیت ایک صاف بات واضح کر رہی ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)
اب جس کے دل میں کجی ہے وہ اس  یہ مطلب اخذ کر لے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  بشر نہیں تھے اور پھر اور زیادہ دور چلاجائے اور ان  مسیحیوں کی طرح غلو کرتے ہوے اس ذات کا  حصہ سمجھ لے، بغیر قرآن کے پیغام توحید کوسامنے رکھ کر،, صرف سوره اخلاص ہی دیکھ لے- اس قسم کی تاویلوں اور ظن کا راستہ قرآن نے بند کر دیا ہے (قرآن 3:7)  , محکمات آیات واضح اور غیرمبہم ہیں جو کتاب اللہ اور دین اسلام کی بنیاد ہیں- اسلام کی بنیاد ، ایمان اور ہدایت قرآن و سنت کے واضح احکام پر کھڑی ہے نہ کہ کسی مذہبی پیشوا کی من گھڑت تاویلوں پر ... 
قرآن کی "محکم آیات"  کےعلاوہ آیات سے ماخوز, ظن, گمان ,اندازے,آراء (speculations, inferences, decuctions، guess work, inference) ,نتیجه گیری, کی بُنیادووں پر دین کی نہ عمارت کھڑی کی جاسکتی نہ "بنیادی احکام'  [ Fundamentals of Faith] نکالے جاسکتے ہیں, یہ چور دروازہ جو یہود و نصاری استعمال کرتے تھے اللہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے[(قرآن 3:7)
جبکہ قرآن کی واضح محکم آیات موجود ہوں جو سنت سے بھی ثابت ہوں توقیاس آرائیاں ,اندازے,آراء (speculations, inferences, deductions، guess work, inference) ,نتیجه گیری کی کوئی  گنجائش نہیں:
 قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
 قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے (-جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویا کہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو  (الجاثية45:7,8) 
“یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11)
اجتہاد ، قیاس صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی معاملہ میں قرآن و سنت سے واضح ہدایت نہ مل سکتے، مگر پھر بھی قرآن و سنت کے دائرہ کے اندر رہنا ہوتا ہے- اسلام کے  چھ بنیادی عقائد اور پانچ ارکان ہیں- ان عقائد کا ماخذ قرآن سے ہے, پیغمبروں اور الہامی کتابوں پر ایمان ان میں شامل ہے اس کی بنیاد قرآن سے  ہے [سورة البقرة 2  آیت: 136] - اس میں کسی اور کتاب کا تذکرہ نہیں- اب احادیث کو  وحی قرار دے کر احادیث کی کتب پر ایمان نہ لانے والے پر فتوے لگانا قرآن کی آیات کی نفی (کفر) نہیں تو کیا ہے  اور یہ سب کچھ  ظن,گمان, مفروضوں اور خود ساختہ تاویلوں  قیاس آرائیاں ,اندازے,آراء (speculations, inferences, deductions، guess work, inference) ,نتیجه گیری, کی بُنیاد پر کیا جارہا ہے جس کی قرآن نے واضح محکم آیات سے تین مرتنہ تردید کی ہےاور خلفاء راشین کی سنت سے ممنوع قرار دیا گیا ثابت ہے :
 .تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)
 فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)
یہ اسلام کی کون سی خدمت ہے؟ کہ اسلام کے چھ بنیادی عقائد میں ساتواں عقیدہ داخل کر رہے ہیں بڑے عجیب،  غیرمحسوس, طریقہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نام استعمال کرکہ- الله تعالی ننے صرف  انبیاء علیہ السلام پر نازل کتب پر ایمان کا حکم دیا ہے ، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم  پر قرآن نازل ہوا جس پرمسلمان کا ایمان ہے . 
اللہ  نے یہود و نصاری کی اس قسم  کی ایجادات کا دروازہ قرآن میں ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جب فرمایا کہ : "کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے.."
"( اے رسول ) وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں ، حالانکہ ان آیتوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور جن لوگوں کا علم پختہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس ( مطلب ) پر ایمان لاتے ہیں ( جو اللہ کو معلوم ہے ) سب کچھ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے ، اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں (قرآن 3:7)
جو  لوگ سمجھتے ہیں  کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)  کی ہر بات، فرمان ، قول، عمل الله کے حکم سےتھا ، وحی سے تھا، وہ سورہ نجم کی  آیت سے دلیل دیتے ہیں:
 وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾
“اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں” (نجم  53:3)
اگر یہ آیت  (نجم 53:3) سیاق و ثبات میں  دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کی نسبت قرآن سے ہے، نہ کہ آپ کے عام  صلی الله علیہ وسلم  اقوال اور بات چیت سے:
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ﴿٢﴾ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (قرآن 53:4)
ترجمہ : ” کہ تمہارے رفیق (محمدﷺ) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں (2) اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں (3) یہ (قرآن) تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے (4) ان کو نہایت قوت والے  (یعنی جبرائیل) نے سکھایا(نجم 53:5)
تفسیر ابن عبّاس (رضی الله ): اور نہ آپ بذریعہ قرآن کریم اپنی نفسانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں۔
” وما ینطق۔ الایۃ “ اللہ کی طرف سے آپ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ اپنی رائے اور خواہش سے بنا کر نہیں لاتے، بلکہ اللہ کی طرف سے آپ پر اس کی باقاعدہ وحی ہوتی ہے۔ ای ما یصدر نطقہ فما اتاکم بہ من جھتہ عز وجل کالقران او من القران عن ھوی نفسہ ورایہ اصلا (روح ج 17 ص 46) ۔ ” ان ھو۔ الایۃ “ ھو سے مراد قرآن ہے یعنی یہ قرآن وھی ہے جو اللہ کی طرف سے آپ کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (بیضاوی، روح، وغیرہما) ۔ (تفسیر جواہر قران ، مولانا غلام اللہ خان )
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ’’ آپؐ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ جو کچھ آپؐ کہتے ہیں وہ ایک وحی ہے جو آپؐ پر نازل کی جاتی ہے ‘‘، آپؐ کی زبان مبارک سے نکلے والی کن کن باتوں سے متعلق ہے ؟ آیا اس کا اطلاق ان سارے باتوں پر ہوتا ہے جو آپ بولتے تھے ، یا بعض باتوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض باتوں پر نہیں ہوتا؟
جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے اس پر تو اس ارشاد کا اطلاق بدرجہ اَولیٰ ہوتا ہے ۔ رہیں وہ دوسری باتیں جو قرآن کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے ادا ہوتی تھیں تو وہ لا محالہ تین ہی قسموں کی ہو سکتی تھیں۔ ایک قِسم کی باتیں وہ جو آپ تبلیغ دین اور دعوت الیٰ اللہ کے لیے کرتے تھے ، یا قرآن مجید کے مضامین اس کی تعلیمات اور اس کے احکام و ہدایات کی تشریح کے طور پر کرتے تھے ، یا قرآن ہی کے مقصد و مدعا کو پورا کرنے کے لیے وعظ و نصیحت فرماتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے تھے ۔ ان کے متعلق ظاہر ہے کہ یہ شبہ کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ باتیں معاذاللہ، آپ اپنے دل سے گھڑتے تھے ۔ ان امور میں تو آپ کی حیثیت در حقیقت قرآن کے سرکاری ترجمان، اور اللہ تعالیٰ کے نمائندہ مجاز کی تھی۔ مگر یہ لازماً تھیں اسی "علم" پر مبنی جو آپ کو دیا گیا تھا, جتنی تنفصلات بتلائی جائیں وہ کافی ہیں ، زیادہ علم کے گھوڑے دوڑانے سے گمراہی کا خطرہ رہتا ہے - دوسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ اعلائے کلمۃ اللہ کی جد جہد اور اقامت دین کی خدمات کے سلسلے میں کرتے تھے ۔ اس کام میں آپؐ کو مسلمانوں کی جماعت کے قائد و رہنما کی حیثیت سے مختلف نوعیت کے بے شمار فرائض انجام دینے ہوتے تھے جن میں بسا اوقات آپؐ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ بھی لیا ہے ، اپنی رائے چھوڑ کر ان کی رائے بھی مانی ہے ، ان کے دریافت کرنے پر کبھی کبھی یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ بات میں خدا کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی رائے کے طور پر کہہ رہا ہوں، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا ہے کہ آپؐ نے اپنی طرف سے کوئی بات کی ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف ہدایت آ گئی ہے ۔ اس نوعیت کی جتنی باتیں بھی آپؐ نے کی ہیں، ان میں سے بھی کوئی ایسی نہ تھی اور قطعاً نہ ہو سکتی تھی جو خواہش نفس پر مبنی ہو۔ رہا یہ سوال کہ کیا وہ وحی پر مبنی تھیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بجز ان باتوں کے جن میں آپؐ نے خود تصریح فرمائی ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے نہیں ہیں، یا جن میں آپؐ نے صحابہؓ سے مشورہ طلب فرمایا ہے اور ان کی رائے قبول فرمائی ہے ، یا جن میں آپؐ سے کوئی قول و فعل صادر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف ہدایت نازل فرما دی ہے ، باقی تمام باتیں اس "علم" پر مبنی تھیں جو الله نے آپ کو عطا فرمآیا-
اس لیے کہ دعوت اسلامی کے قائد و رہنما اور جماعت مومنین کے سردار اور حکومت اسلامی کے فرمانروا کا جو منصب آپؐ کو حاصل تھا وہ آپؐ کا خود ساختہ یا لوگوں کا عطا کردہ نہ تھا بلکہ اس پر آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے تھے ، اور اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں آپؐ جو کچھ کہتے اور کرتے تھے اسمیں آپؐ کی حیثیت مرضی الٰہی کے نمائندے کی تھی۔ اس معاملے میں آپ نے جو باتیں اپنے اجتہاد سے کی ہیں ان میں بھی آپؐ کا اجتہاد اللہ کو پسند تھا اور "علم "کی
اس روشنی سے ماخوذ تھا جو اللہ نے آپؐ کو دیا تھا۔ اسی لیے جہاں آپؐ بات اللہ کی پسند سے ہٹتی ہے وہاں اس کی اصلاح کر دی جاتی۔ رسول الله (صلعم ) کے پاس وحی کے علاوہ کون کون سا "علم یا علوم" تھے ہم کو نہیں معلوم اس لیے قیاس آرایاں کرنا درست نہیں- واللہ اعالم ، کہنا کافی ہے -
رسول الله (صلعم ) نے مسقبل کے واقعات اور پیشین گویاں کیں ظاہر ہے یہ غیب کا علم آپ کو الله کی طرف سے عطا ہوا- جس کی جتنی تفصیل آپ نے بیان فرما دی ووہی کافی ہے، زبردستی نئی بدعات ددین میں شامل کرنا درست نہیں-

الله نے حضرت محمدﷺ کو وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح اور دوسرے پیغمبروں کو بھیجی تھی، تو نئی اصطلاحات کی کے ضرورت ہے؟
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚوَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ( قرآن 4:163)
(اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی ہم نے وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور بھی عنایت کی تھی (4:163)
لیکن اگر مقصد رسول الله (صلعم ) کی ہر بات / کلام (حدیث) کولازم وحی ثابت کرنا ہے تاکہ خاص مقاصد کے حصول کا جواز پیدا کیا جا سکے، قرآن کے مقابل 75 کتب لانا ہو، جیسے مسیحیوں نے انجیل کے ساتھ 23 کتب اور یہود نے تورات کے ساتھ تلمود کی 73 ضخیم کتب لکھیں اور کتاب الله کو چھوڑ دیا تو پھر اور بات ہے-[@]
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ بیان فرمایا ہے جو حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ‎﴿٦٥﴾‏
اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم (لَّدُنَّا عِلْمًا) عطا کیا تھا (18:65)
حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعے کی تفصیل ایک طویل حدیث میں بیان فرمائی ہے جو صحیح بخاری میں کئی سندوں سے منقول ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کسی نے یہ سوال کیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟
چونکہ ہر پیغمبر اپنے وقت میں دین کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں یہی فرما دیا ہے کہ میں ہی سب سے بڑا عالم ہوں۔
اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ہدایت دی گئی کہ اس سوال کا صحیح جواب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو علم کے کچھ ایسے گوشوں سے روشناس کرائیں جو ان کی واقفیت کے دائرے سے باہر تھے۔ چنانچہ انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس جائیں۔ یہاں اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو یہ سفر کرایا گیا۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ادب سکھانا تھا کہ اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم کہنا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ علم تو ایک ناپید اکنار سمندر ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسا علم کس کے پاس زیادہ ہے۔ اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خود آنکھوں سے اس بات کی ایک جھلک دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور علم سے اس کائنات کا نظام کس طرح چلا رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سے ایسے واقعات روز مرہ انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں جن کا مقصد اس کی سمجھ میں نہیں آتا، حالانکہ کوئی واقعہ تو اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی حکمت کے بغیر نہیں ہوتا۔ انسان کی نظر چونکہ محدود ہے، اس لیے وہ اس حکمت کو بسا اوقات نہیں سمجھتا، لیکن جس قادر مطلق کے ہاتھ میں پوری کائنات کی باگ ڈور ہے، وہی جانتا ہے کہ کس وقت کیا واقعہ پیش آنا چاہئے۔
اس لیے جب رسول الله نے کسی علم کی تفصیل نہ بتلائی تو اپنے خیالات کی بنیاد پر بدعت بنانا ، وحی جلی ، متلو، خفی ، غیر متلو وغیرہ کی اصطلاحات گھڑنا اور رسول الله پر لگا دینا کیسا انصاف ہے ، یہ تو جھوٹ گھڑنا ہے جس کی سزا جہنم کی آگ ہے -
ارشاد باری تعالی ہے :
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۔ قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِيْنَ۔ (سورۃ المائدۃ :101، 102)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کردیا، وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے ۔ تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے۔ "
غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی (دینی مسائل جاننے کا)صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیا گیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیا جائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود و قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا کہ جو میں چھوڑوں یعنی اس کا ذکر نہ کروں تم بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ ہوگئے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب توقیرہ و ترک اکثار سوالہ ممالا ضرورۃ الیہ۔۔ الخ) ۔
سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کام سے میں تمہیں منع کروں اس سے باز رہو اور جس کام کا حکم دوں اسے جہاں تک ہو سکے بجا لاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے پیغمبروں سے اختلاف کرنے کی وجہ سے تباہ ہوگئے (مسلم حوالہ ایضاً )
آپ نے فرمایا اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں، انہیں ضائع نہ کرو (ٹھیک طرح سے بجا لاؤ) اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کے پاس نہ پھٹکو، کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے اس کو بھول لاحق ہو لہذا انکی کرید نہ کرو۔ (بیہقی بحوالہ الموافقات للشاطبی اردو ترجمہ ج ١ ص ٢٩١) [ماخوز،تفسیر عبدالرحمان کیلانی ]
تیسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپؐ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے زندگی کے عام معاملات میں کرتے تھے ، جن کا تعلق فرائض نبوت سے نہ تھا، جو آپؐ نبی ہونے سے پہلے بھی کرتے تھے اور نبی ہونے کے بعد بھی کرتے رہے ۔ اس نوعیت کی باتوں کے متعلق سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے بارے میں کفار سے کوئی جھگڑا نہ تھا۔ کفار نے ان کی بنا پر آپؐ کو گمراہ اور بد راہ نہیں کہا تھا بلکہ پہلی دو قِسم کی باتوں پر وہ یہ الزام لگاتے تھے ۔ اس لیے وہ سرے سے زیر بحث ہی نہ تھیں کہ اللہ تعالیٰ انکے بارے میں یہ آیت ارشاد فرماتا۔ لیکن اس مقام پر ان کے خارج از بحث ہونے کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے کوئی بات اپنی زندگی کے اس نجی پہلو میں بھی کبھی خلاف حق نہیں نکلتی تھی، بلکہ ہر وقت ہر حال میں آپ کے اقوال و افعال ان حدود کے اندر محدود رہتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبرانہ اور متیقانہ زندگی کے لیے آپؐ کو بتا دی تھیں- نبوت سے قبل حق گوئی کی وجہ سے آپ کو صادق اور امین کے لقب سے جانا جاتا تھا-
[علم لدنی: علم لدنی کو علم وہبی، عطائی اورعلم ربانی کہا جاتا ہے جو بغیر کسی خارجی سبب کے خود بخود قلب میں من جانب اللہ آتا ہو۔]
وحی متلو (قرآن ) اور غیر متلو (حدیث )
وحی  کی یہ دونوں اصطلاحات بعد میں ایجاد کردہ ہیں- یہ دونوں اقسام "وحی متلو" اور "وحی غیر متلو" خلفاء راشدین کے علم میں نہ تھیں- انہوں نے قرآن کے علاوہ کس اور کلام (حدیث ) کی کتابت کرنا ضروری نہ سمجھا، کسی اختلاف کی صورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کو فیصلہ کا اختیار دیا تھا، نہ کہ تیسری صدی والوں کو:
[See-Farewell Exhortation / Sunan Abi Dawud 4607 اَلتِّرْمِذِيُّ 266 سنن ابی داود: https://wp.me/pcyQCZ-ce ]
جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فیصلہ کو قبول کرنے سے منکر ہیں، وہ الله کا حکم یاد رکھیں:
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا : نہیں، اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں (4:65 قرآن )
جائزہ و تجزیہ
،وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾
حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ۔ (قرآن 37:96)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا- مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا ۔ اس پر بعض صحابہ نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کبھی کبھی ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا -…….. اب اس کا یہ مطلب نکلنا کہ ہر بات وحی ہے خود ساختہ نتیجہ ہے ، آپ وحی کے علاوہ بھی عظیم انسان ، اور پیغمبر تھے آپ کوئی معمولی انسان نہ تھے ، آپ کی ہر بات دینی رہنمائی کےلیےہوتی, حق ، سچ ہوتی تھی ، جو لکھوا دی وہ قرآن بن گیی یہ علم صرف آپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو ہی تھا ، دوسروں کو اس میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں- عام مشاہدہ ہے کہ بہت لوگوں میں سے اگر ایک عقلمند انسان کومنتخب کر کہ تربیت اور ہدایت دے کر کسی خاص مشن پر بھیجا جاتا ہے تو اکثر مطلوبہ نتائج حاصل کرتا ہے- اس کو قدم قدم پر لفظ بلفظ کمپوٹر کی طرح اگر کمانڈ دیں تو وہ انسان نہیں روبوٹ بن جاتا ہے-
ظاہر ہے کہ رسول الله ﷺہمیشہ حق کی بات کر تے ہیں- کیونکہ وہ الله کی طرف سے ایک مشن پر ہیں- اس کا مطلب یہ نہیں کہ حق بات کرنے کے لیے وحی لازم ہے- اپ  صلی الله علیہ وسلم  اس وقت بھی صادق اور امین کہلاتے تھے جب وحی کا آغاز نہیں ہوا تھا- آپ صلی الله علیہ وسلم  کی ہر بات کو وحی قرار دے دینا اور پھر جب کوئی عام دنیوی معاملہ میں غلطی ہو (کھجور کی پولینشن) تو اس کو ذاتی اجتہاد قرار دینا اور پھر الله کی طرف سے اس کی اصلاح .. ایک سادہ بات کو پیچیدہ بنانے کی کیا ضرورت ہے- آپ ہمیشہ حق سچ ہدایت کی بات کرتے تھے جو آپ کی رسالت کا مقصد تھا-
اگر آپ کی ہر بات وحی سے ہوتی تو پھرآپ صلی الله علیہ وسلم  کی کسی بات میں اصلاح کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ [اس میں قرانی نسخ منسوخ کی تاویل بھی شامل کرنا، جس پرعلماء میں اختلاف ہے مزید پیچیدگی پیدا کرتا ہے] اور آپ ﷺکی واضح احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ  صلی الله علیہ وسلم  دین کے علاوہ دوسرے معاملات میں بشری تقاضہ کے مطابق آراء دیتے اور تبدیل بھی کرتے تھے– رسول الله صلی الله علیہ وسلم  اعلی ترین انسان تھے اگر ان کے ہر عمل کو وحی قرار دیں تو یہ ان کے اعلی مقام کوکم کرنے کے مترادف ہو گا - جیسے کچھ لوگ ان کو نور ی قرار دیتے ہیں -  وحی تو بہت عظیم رہنمائی ہے، جس سے آج بھی اور قیامت تک انسان ہدایت حاصل کرتے رہیں گے- عملی طریقه اور تفصیلات رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  نے پیش کر دیں، جو سنت  صلی الله علیہ وسلم  میں محفوظ اور تواتر سےنسل در نسل منتقل ہوتی آئیں جبکہ  ابتدائی دور میں حدیث کی کتب  موجودہ شکل میں مدون نہ تھیں- خلفاء کے اقدامات بھی اس قرآن کے علاوہ احادیث کے وحی ہونے کے دعوی کی تصدیق نہیں کرتے- حدیث کی بطور کلام و فرامین رسول اللہ   صلی الله علیہ وسلم  قرآن کے بعد اہم ترین حثیت بلکل عیاں ہے-
رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا کلام ہر بات مسلمان کے لیے محترم ہے, جو آپ صلی الله علیہ وسلم  فرماتے کہ یہ قرآن ہے وہ کاتب وحی لکھ لیتے، دہراتے آپ اگر ضروری ہوتا تصحیح فرماتے - اگر سب کچھ وحی تھا تو جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  خلفاء راشدین کی سنت کو پکڑنے کا حکم دیتے ہیں ، اور وہ احادیث کو لکھنے سے منع کر دیتے ہیں پھر جو لوگ حدیث لکھتے ہیں تو وہ وحی کے خلاف عمل کر رہے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے حکم کی نا فرمانی کر کہ … جو وحی کا کفر کر تا ہے وہ کیا کر رہا ہے ان نظریات کے مطابق ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “إِنما أقضِی بَیْنَکُمْ بِرَأْیِی فِیْمَا لَمْ یُنْزَلْ عَلَیَّ فِیہِ” (ابوداؤد، حدیث نمبر:۳۱۱۲)
جس امرکے بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوتی ہے تو میں اپنی رائے سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا کرتا ہوں۔
احادیث جن سے ہرعام کلام، بات ، وحی ثابت  نہیں ہوتا:
“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی اور ان کی طرف نکلے۔ پھر ان سے فرمایا کہ میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں، میرے پاس لوگ مقدمہ لے کر آتے ہیں، ممکن ہے ایک فریق دوسرے سے زیادہ عمدہ بولنے والا ہو اور میں اس کے لیے اس حق کا فیصلہ کر دوں اور یہ سمجھوں کہ میں نے فیصلہ صحیح کیا ہے (حالانکہ وہ صحیح نہ ہو) تو جس کے لیے میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو بلاشبہ یہ فیصلہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔” (صحیح بخاری ،حدیث نمبر: 7185)
اگر آپ کا ہر قول وحی تھا تو پھر ایسا حکم کیوں ؟ 
ایک اور موقع پر آپ  صلی الله علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
” انما ظننت ظنا و لا تواخذنی باظن و لکن اذا حدثتکم عن الله شیئاً فخذوا به فانی لم اکذب علی الله۔”
” میں نے ایک گمان کیا تھا ، اس لیے میرے گمان پر نہ جاؤ لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات کہوں تو اس کو لازم پکڑو کیونکہ میں اللہ پر جھوٹ نہیں باندھتا۔”( صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ  ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل)
اگر آپ کا ہر قول وحی تھا تو پھر ایسا حکم کیوں ؟
فرمانِ رسالت مآب  صلی الله علیہ وسلم  ہے :
” انما انا بشر اذا امرتکم بشئ من دینکم فخذوا به و اذا امرتکم بشئ من رائ فانما انا بشر۔”
” بلاشبہ میں انسان ہوں اگر میں دین میں کسی بات کا حکم دوں کو اسے مضبوطی سے تھام لو ، لیکن اگر اپنی رائے سے فیصلہ دوں تو میں انسان ہی ہوں۔”
(صحیح مسلم ٦٠٢٢، کتاب الفضائل ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ  ما ذکره من معایش الدنیا علی سبیل)
اگر آپ کا ہر قول وحی تھا تو پھر ایسا حکم کیوں ؟
اس کے جواب میں لمبی چوڑی تاویلیں ، ذاتی اجتہاد ، پھر اس کی تصحیح … وہ جو فرماتے تھے ووہی کافی ہے ہمارے لیے سادہ اور آسان دین اسلام کو علماء یہود کی تقلید میں مشکل اور پیچیدہ مت بنائیں … 
کیا یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  اور خلفاء راشدین مھدین کی سنت کے خلاف نہیں کہ اپنی قیاس آرئیوں اورمن گھڑت نظریات کے دفاع میں بہت دور نکل جا ؤ -
اگر حدیث وحی تھی اور اس کا لکھنا لازم تھا ، جو نہ ہوا .. تو کیا قرآن احادیث کی کتب لکھنے تک نا مکمل رہا ؟ مگر دین تو کامل قرار دیا گیا تھا تھا حج الوداع پر (5:3)- قرآن کو مکمل ہدایت قرار دیا …آگے تفصیل آ رہی ہے - 
وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ (2:256قرآن )
ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:285قرآن )
مگر کیونکہ فتوی بازی پر ان کی اجارہ داری ہے جس کے زور پر یہ اپنے ہر عمل کو جائز اور دوسروں کی  درست بات کو بھی ناجائز قرار دیتے ہیں- علماء یہود و نصاری بھی یہی کرتے تھے ، جس کو قرآن نے غلط قرار دیا :
"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے ….(9:31)
آج  100احادیث کی کتب ہیں- احادیث  کو وحی قراردے کر قرآن کی خصوصیات ان پرچسپاں کر دی گیئی ہیں مثلا :"اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا"۔(الحجر15:9)...جو کوئی احادیث پر سوالات اٹھاتا ہے اس پر یہ آیت انکار کا فتوی اور پھر کفر .. تکفیری دہشت گرد بھی اسی طرح جواز اور تاویلیں کرتے ہیں -  اب آپ ذرا غور سے قرآن کی ان آیات کا مفھوم جو کہ خالص قرآن کے متعلق ہے ، کیا احادیث کی کتب پر لاگو کر سکتے ہیں ؟
جسی اظت قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60), اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے
جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28),
۔قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2), ,
قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2),
قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف18:1,2),
باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42),
یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17),
یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48),
قرآن کریم  لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)
قرآن تو کھلم کھلا حدیث کی نفی کر رہا ہے .. حدیث کے تمام معنی لگا کر دیکھ لیں [ 36 آیات  اس لنک پر ]
الله تعالی کا کلام کا یہ ایجاز ہے:
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے(الجاثية45:6),
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویاکہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو  (الجاثية45:7,8). “یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11),  ۔یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
یہ قرآن کی غیر معمولی مخصوص حیثیت کو مجروح کرنےکی کوشش نہیں تو کیا ہے؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے اقوال اور سنت سے ہر مسلمان کو محبت اور عقیدت ہے ، ان کی ذات اقدس سے منسوب فرامین  کو  آنکھوں پر لیتے ہیں مگر کیا انہوں نے یا ان کے قریب ترین نامزد خلفاء راشددن نے جس کام سے  منع فرمادیا ہو اس کومسترد کرکہ کس محبت اور اطاعت کا ثبوت دیا جا رہا ہے؟
مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے
[صحیح مسند احمد 497/3, شیخ البانی صحیح السلسلہ الصحیحہ 732/2 تفسیرکثیر١١:٨٨].
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ :
” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔
[سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠5) الكامل في ضعفاء الرجال  » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]
اہم بات:
 "کچھ اختلافی احادیث آئینگی" یعنی کتاب حدیث کا ذکر نہیں، نفی ہوئی کتابت کی - (ممانعت کے باوجود احادیث کی موجودگی ، انسانی کمزوری کی طرف اشارہ ہے )
“کتاب اللہ” کا ذکر علیحدہ اور "سنت" کا علیحدہ  ,نتیجہ  کتاب اللہ صرف ایک -
سنت ، کتاب نہیں ، عمل کا نام ہے ، سنت کو کتاب سے علیحدہ رکھ گیا -
احادیث کا تیسرا درجہ اور ان کے حثیت قرآن و سنت سے مشروط -
اب حدیث کو غیر متلو وحی قرار دینے والے غور فرمائیں -
احادیث کی کتا بت کی ضرورت اور خلفاء راشدین (رضی الله) 
مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ” خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو. حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: ” جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے “ [ديكھيں: الكفايۃ للخطيب ( 12 ) اسے دارمى نے سنن دارمى ( 588 ) اور خطيب نے الكفايۃ ( 12 ) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 13 / 291 ) ميں بيہقى كى طرف منسوب كيا ہے كہ انہوں نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.] …
اگریہ روایات درست بھی تسلیم کرلی جاییں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  اور خلفاء راشدین (رضی الله) کی سنت سے احادیث کو قرآن کی طرح احتیاط سے تحریر، کتابت ، تدوین کروانے کا اہتمام کسی جگہ ثابت نہیں- بلکہ ممانعت پرزور ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صرف قرآن کو تحریر کرنا ضروری اور اہم تھا جس پر عمل  ہوا- کیا کلام یاعمل وحی  تھا یا کیا نہیں،کس کا لکھنا ضروری تھا یا نہیں اس کا صرف رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلمالله علیہ وسلم  کو علم تھا اورپھر ان کے قرین ترین نامزد ساتھی خلفاء راشدین کو,  نہ کہ عرصہ دراز بعد کسی اور کو  علم ہوا ہو جبکہ وحی  کا سلسلہ ختم ہو چکا  - اللہ کی طرف سے کس اہم ہدایت کو کسی فرد کی صوابدید پر کیسے چھوڑا جا سکتا کہ وہ جو چاہے لکھے جو چاہے نہ لکھے.. اور کئی سال بعد انکشاف ہو کہ احادیث وحی  تھی جس کا بھی کا لکھنا بہت ضروری  تھا جو رہ گیا [نعوز باللہ کیا سب بھول گئے؟] ، پھر لوگوں  کی ذاتی تحریروں اور یاداشت سے  سو، دو سو سال بعد  اکٹھا کرکہ کتب کی صورت دے دی گیئی … اللہ کی آخری کتاب صرف ایک ہے قرآن ، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے سب کچھ پہنچا دیا ،جس کی گواہی سب نے حج الوداع  کو دی :
"اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔  اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی  اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا  بے شک  اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔" (5:67)  
الله تعالی نے صرف قرآن کو وحی کہا اور اس کا وارث امت مسلمہ کو قرار دیا، کسی وحی غیر متلو. خفی کا نہ ذکر ہے نہ وارثت!
وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ هُوَ ٱلْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ ٱللَّـهَ بِعِبَادِهِۦ لَخَبِيرٌۢ بَصِيرٌ﴿٣١﴾
ثُمَّ أَوْرَثْنَا ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖفَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِۦ
وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِٱلْخَيْرَٰتِ بِإِذْنِ ٱللَّـهِ ۚذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ۔۔۔ (قرآن ٣٥:٣١،٣٢)
(اے نبیؐ) جو کتاب ہم نے تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے اُن کتابوں کی جو اِس سے پہلے آئی تھیں بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے (31) پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے (قرآن ٣٥:٣١،٣٢)
 ایک مسلمان کے لیے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  سے محبت  اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. قرآن  کو الله نے "حدیث"  بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے مستند ، اصل  کلام  اور عمل (سنت ) کو بھی جو تواتر سے منتقل ہوا، مقدس اور اس پر عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں … احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت  اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول  صلی الله علیہ وسلم  سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو- الله ہم کو قرآن اور سنت رسول  صلی الله علیہ وسلم  پر عمل کی توفیق عطا ا فرمایے - آمین 
********
 ایک بہت مشہور دلیل "حدیث" کے وحی  (غیر متلو) کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "ان کو قرآن کے مثل (قرآن کی طرح) کچھ اور بھی دیا گیا ہے"- اور وہ "کچھ اور" (مثل قرآن ) در اصل حدیث  ( وحی غیر متلو)  کی طرف واضح اشارہ ہے- بہت تلاش کے بعد اس موضوع پر کل تیرہ (13) احادیث ملی ہیں۔ چار حدیثوں میں بلکہ در اصل تین (3) ( ابو داؤد 4604 اور 4606 ایک جیسی ،دہرای  ہے) راوی " الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ" نے روایت کیا کہ  رسول اللہ ﷺ  نے حلال ، حرام جانوروں کے بارے میں ذکر کیا ہے اور یہ ہے کہ: "ان کو قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"-  جبکہ نو (9) احادیث میں یہ جملہ:"ان کو قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے" ، شامل نہیں ہے جبکہ دیگر مشمولات حلال اور حرام کھانے / کھانے پینے کے بارے میں بھی ملتے جلتے ہیں۔ یہ احادیث رسول اللہ ﷺ کنے  حدیث کی درستگی/ پہچان  کنے میعار پر پوری نہیں اترتیں، بهرحال ان کا مفصل تجزیه >>> "وحی متلو  اور غیر متلو: تحقیقی جائزہ (2) [قرآن کا مثل ؟]
ایک الله ، ایک رسول ، ایک کتاب قرآن
حضرت محمدﷺ کو وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح اور دوسرے پیغمبروں کو بھیجی تھی، ایک ہی طرح سے ، کسی متلو یا غیر متلو وحی کا ذکر نہیں ! إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚوَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ( قرآن 4:163) (اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی ہم نے وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور بھی عنایت کی تھی (4:163)
الله تعالی نے صرف قرآن کو وحی کہا اور اس کا وارث امت مسلمہ کو قرار دیا، کسی وحی غیر متلو. خفی کا نہ ذکر ہے نہ وارثت!
وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ هُوَ ٱلْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ ٱللَّـهَ بِعِبَادِهِۦ لَخَبِيرٌۢ بَصِيرٌ﴿٣١﴾
ثُمَّ أَوْرَثْنَا ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖفَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِۦ
وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِٱلْخَيْرَٰتِ بِإِذْنِ ٱللَّـهِ ۚذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ۔۔۔ (قرآن ٣٥:٣١،٣٢)
(اے نبیؐ) جو کتاب ہم نے تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے اُن کتابوں کی جو اِس سے پہلے آئی تھیں بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے (31) پھر ہم نے اس کتاب کا وارث @ بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے (قرآن ٣٥:٣١،٣٢)
@ صرف اس کتاب ، قرآن کا وارث مسلمانوں کو بنایا کسی اور کتاب کا وارث نہیں بنایا ، تو حدیث کی 75 کتب؟

 رسول اللہ ﷺ  نے قرآن کے سوا  کوئی وحی نہیں چھوڑی 

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبد العزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ میں اور شداد بن معقل ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گئے ۔ شداد بن معقل نے ان سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قرآن کے سوا کوئی اور بھی قرآن چھوڑا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی (وحی) چھوڑی ہے وہ سب کی سب ان دو گتوں کے درمیان صحیفہ میں محفوظ ہے عبد العزیز بن ربیع کہتے ہیں کہ ہم محمد بن حنیفہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور ان سے بھی پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی وحی چھوڑی وہ سب دو دفتیوں کے درمیان ( قرآن مجید کی شکل میں ) محفوظ ہے ۔[ صحیح بخاری حدیث: 5019]

قرآن: واحد وحی- فرمان علی ؓ 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مِنَ الْوَحْيِ إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وأن لا يقتل مسلم بكافر. [صحیح بخاری, حدیث نمبر: 3047]

ترجمہ:

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ ان سے مطرف نے بیان کیا ‘ ان سے عامر نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوجحیفہ ؓ نے بیان کیا کہ  میں نے علی ؓ سے پوچھا ‘ آپ حضرات  (اہل بیت)  کے پاس کتاب اللہ کے سوا اور بھی کوئی وحی ہے؟ آپ نے اس کا جواب دیا۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو  (زمین)  چیر کر  (نکالا)  اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں  (جو قرآن میں نہ ہو)  البتہ سمجھ ایک دوسری چیز ہے ‘ جو اللہ کسی بندے کو قرآن میں عطا فرمائے  (قرآن سے طرح طرح کے مطالب نکالے)  یا جو اس ورق میں ہے۔ میں نے پوچھا ‘ اس ورق میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ دیت کے احکام اور قیدی کا چھڑانا اور مسلمان کا کافر کے بدلے میں نہ مارا جانا  (یہ مسائل اس ورق میں لکھے ہوئے ہیں اور بس) ۔ [صحیح بخاری, حدیث نمبر: 3047]

نبی کریم  ﷺ کی  وصیت:کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا طَلْحَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، ‏‏‏‏‏‏أَوْصَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ كَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أُمِرُوا بِهَا وَلَمْ يُوصِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ. (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 5022)

ترجمہ:

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن مغول نے، کہا ہم سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا، کہ  میں نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے سوال کیا: کیا نبی کریم نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا: پھر لوگوں پر وصیت کیسے فرض کی گئی کہ مسلمانوں کو تو وصیت کا حکم ہے اور خود نبی کریم  ﷺ  نے کوئی وصیت نہیں فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم  ﷺ  نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 5022)

ایک تضاد سے حقیقت کا انکشاف :

کہتے ہیں کہ : حدیث قدسی وہ جس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف کی جائے ،اس میں بیان شدہ مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور الفاظ رسول اللہ ﷺکے ہوتے ہیں اورحدیث نبوی میں حدیث کی نسبت رسول کریمﷺ کی طرف ہوتی ہے ۔حدیث نبوی میں الفاظ و معانی رسول اللہﷺ کے اپنے ہوتے ہیں،البتہ حدیث نبوی بھی وحی الٰہی کے تابع ہوتی ہےاورحدیث قدسی کو قدسی اس کی عظمت ورفعت کی وجہ سے کہا جاتا ہےیعنی قدسی کی نسبت قدس کی طرف ہے،جو اس حدیث کے عظیم ہونے کی دلیل ہے۔ [http://www.urdufatwa.com/view/1/56]

اگر یہ تعریف درست ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عام حدیث جو کہ اکثریت میں ہیں ان میں الفاظ و معانی رسول اللہﷺ کے اپنے ہوتے ہیں! تو یہ خود ہی اقرار کر رہے ہیں کہ حدیث رسول اللہ کا کلام ہے وحی نہیں- حدیث نبوی بھی وحی الٰہی کے تابع ہوتی ہے [ یعنی قرآن کے تابع ہوتی ہے، قرآن کے خلاف نہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول الله ص نے فرمایا ].


ریفرنسز اور لنکس

  1. اہم احادیث
  2. خلفاء راشدین نے  کتابت  حدیث کیوں نہ کی؟ 
  3. رسول اللہ ﷺ کا حدیث کی درستگی اور پہچان کا میعار
  4. رسول اللہ ﷺ کی  وصیت کا انکار اور بدعت 
  5. قرآن ایک کتاب - تحقیق کے اہم نقاط و نتائج 
  6. حلال و حرام - قرآن کا نظریہ 
  7. آیات قرآن کو جھٹلانے والوں منکرین کا برا انجام 
  8. دین کی تعلیم " فقہ" کا اصل مطلب اور غلط فہمیاں !
  9. محدثین کا جھوٹ بولنا : مسلم حدیث:40
  10. Non Recited Revelations[ Ghair Matloo]: https://wp.me/pcyQCZ-ea

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

پوسٹ لسٹ