اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یَشۡتَرُوۡنَ الضَّلٰلَۃَ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَضِلُّوا السَّبِیۡلَ ﴿ؕ4:44﴾
کیا تم نے نہیں دیکھا؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصّہ دیا گیا ہے وہ گُمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ ۔ ﴿ؕ4:44﴾
علماء اہل کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ” انہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو انہوں نے کتاب الہٰی کا ایک حصہ گم کر دیا تھا ۔ پھر جو کچھ کتاب الہٰی میں سے ان کے پاس موجود تھا اس کی روح اور اس کے مقصد و مدعا سے بھی وہ بیگانہ ہو چکے تھے ۔ ان کی تمام دلچسپیاں لفظی بحثوں اور احکام کے جزئیات اور عقائد کی فلسفیانہ پیچیدگیوں تک محدود تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دین کی حقیقت سے ناآشنا اور دینداری کے جوہر سے خالی تھے ، اگرچہ علماء دین اور پیشوایان ملت کہے جاتے تھے- (تفہیم القران)
علماء یہود کتاب اللہ میں تحریف کرتے تھے ان کی اسی تحریف کو پہلے اَلضَّلٰلَۃ سے تعبیر فرمایا۔ علماء یہود اپنے ماننے والوں اور اپنے معتقدین سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرتے اور اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں لفظی اور معنوی تحریفیں کیا کر تھے
نتیجہ, قرآن و حدیث کے مجموعی تحریری مواد کےمشمولات میں قرآن صرف 5%, اور احادیث 95% ہیں, یہ ایک اندازہ کی حد تک حساب کتاب ہے-
اسی طرح قرآن کی آیات کا تناسب اگر متواتر احدیث / سنت متواتر (113) سے کریں تو ٹوٹل تحریری مواد کا 8%, اور قرآن 92% بنتا ہے جو کہ حقیقت پسندانہ تناسب ہے -
ایک طرف کتاب الله ، قرآن اور اس کے ساتھ تقریبا سو کے قریب کتب احادیث، اس کی تفصیل بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے- یہ تناسب بائبل میں مسیح علیہ السلام سے منسوب اقوال, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد سے بھی کم ہے- اگرچہ احادیث میں اکثریت رسول رسول صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ہیں ان کی صداقت کے معیار کا قرآن سے کوئی تقابل نہیں-
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں :
" اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟" (54:17,22,32,40)
" ہم نے اس (قرآن) کو تمہاری زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں" ( 44:58)
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
کیا قرآن آسان ہے یا مشکل؟... قرآن کیا کہتا ہے ؟
اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنادیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بےبہرہ ہی رکھنا چاہئے؟
پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنادیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذھن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ [تفسیر عبدالرحمان کیلانی ]
الله کا فرمان مت بھولیں :
"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
بہت لوگوں نے احادیث کے زریعہ فروعی اختلافات ، بحث مباحث ، فرقہ بازی، فساد میں مشغول ہو کر قرآن کو پس پشت ڈال دیا-
قرآن کا بلند ترین درجہ :
قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
( اے رسول ) وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں ، حالانکہ ان آیتوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور جن لوگوں کا علم پختہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس ( مطلب ) پر ایمان لاتے ہیں ( جو اللہ کو معلوم ہے ) سب کچھ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے ، اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں (قرآن 3:7)
مزید پڑھیں.. قرآن کا تعارف قرآن سے .....[.....]
حدیث کا درجہ
مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے [صحیح مسند احمد 497/3, شیخ البانی صحیح السلسلہ الصحیحہ 732/2 تفسیرکثیر١١:٨٨].
اس حدیث کی بنیاد پر کوئی مسلمان کسی حدیث کو قبول یا نہ قبول کرنے کا اختیار رکھتا ہے ، تو بحث اور جھگڑا کیسا ؟
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
" بیشک بدترین خلائق اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں جو کہ ( ذرا ) نہیں سمجھتے " (قرآن :8:22)
"اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (22) اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سُننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سُنواتا تو وہ بے رُخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے (23) اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے (24) اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے (8:25)
سنت اور حدیث مختلف متبادل نہیں مختلف اصطلاحات ہیں ....[.....]
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]