چار مہشور فقہ کے بانی مشہور احادیث کی کتب کے بغیر قرآن و سنت کی بنیاد پر فقہ مکمل کرگیے ( ماسوا موطأ امام مالک): 1. ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء) 2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء) موطأ امام مالک دوسری صدی حجرہ 3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء) 4. احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (ر ح ) جو بہت مقبول ہیں انہوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی - حدیث کی بھی نہیں، وہ پہلی صدی حجرہ میں پیدا ہوے جب حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدہ کے فیصلوں کا احترم زیادہ تھا- فقہ ان کے نام سے موسوم ہے ان کی رہنمائی میں ان کے شاگردوں نے مدون کیا- مشہور محدثین - صحاحِ ستہ : ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔
ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ”صحاحِ ستہ“ کے نام سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں ہر حدیث صحیح ہے، اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں؛ لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے؛ بلکہ صحاح ستہ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان چھ کتابوں کو پڑھ لے اس کے سامنے اصولِ دین سے متعلق صحیح روایات کا ایک بڑا ذخیرہ آجاتا ہے، جو دین کے معاملات میں کافی ہے۔ (درسِ ترمذی، مقدمہ ۱/۱۲۶)
مؤطا کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس میں احادیث کی تعداد بھی کم ہے اور اس سے ذیادہ یا قریب قریب امام مالک رحمہ اللہ کے اقوال ہیں یا مختلف صحابہ کے بے سند اقوال ہیں جس کی وجہ سے کتاب فقہی جانب بھی مائل ہے۔
غرضیکہ شروع میں ایک عرصے تک جزوی اختلاف رہا؛ لیکن بالآخر صحاحِ ستہ کی اصطلاح رائج ہوئی اور سادسِ ستہ کا سہرا ”سنن ابن ماجہ“ ہی کے سر بندھا۔ لہذا کئی علماء کے نزدیک حدیث کی صحیح ترین کتابیں چھ نہیں بلکہ سات ہیں جن میں موطا امام مالک بھی شامل ہے جب کہ بعض کے نزدیک حدیث کی صحیح ترین کتابیں پانچ ہیں اور جن کے نزدیک چھ ہیں انہوں نے موطا امام مالک کو صحاح ستہ میں اس لیے شامل نہیں کیا کیونکہ اس میں صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ امام مالک کے ذاتی اقوال یعنی ان کی روایات بھی شامل ہیں۔دوسری بات یہ کہ امام مالک حدیث کے باقی سب راوی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے ساری روایات نہیں مروی کر سکے نہ ہی ایک اکیلے فرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام کی تمام روایات کو سارے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے روایت کر سکتے تھے۔لہذا خود امام مالک اور باقی سب صحابہ کی روایات کو اکٹھا کرنے کے بعد جو حدیث کی صحیح اور جامع ترین چھ کتابیں ترتیب دی گئی ان کو صحاح ستہ کا نام دیا گیالیکن اس کے باوجود امام مالک کی کتاب کا عمومی مرتبہ اتنا اونچا ہے کہ کئ علماء نے اسے حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں شمار کیا ہے۔لہذا یہ کہنا کہ موطا امام مالک کو محدثین نے اہمیت کیوں نہیں دی اور اس کو صحیح ترین کتابوں میں شامل نہیں کیا تو یہ اعتراض غلط ہے۔
محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسا سمجھی جاتی ہیں۔ مگر حق الیقین صرف قرآن، کتاب الله ہے جس کی ہر ایک آیت محکم ، مکمل ، محفوظ ہے بلا شک و شبہ- یہ دعوی کوئی دوسری کتاب نہیں کر سکتی- 1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء) 2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء) 3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء) 4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی 275ھ/9-888ء 5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء 6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء فقیہ و محدثین ٹائم لائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا چھ ، صحاحہ ستہ کتب احادیث سے سے قبل فقہ اربعہ قائم ہو چکے تھے-
امام احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) فقہ اربعہ کی ٹائم لائن کے آخر میں ہیں … وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے …. وہ کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لیے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔ فقیہ، محدث، اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ایک مجتہد اور فقہ حنبلی کے مؤسس تھے۔ امام احمد بن حنبل کی پوری زندگی سنتِ رسول سے عبارت ہے، وہ در حقیقت امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع اور امام فی السنت کے عالی مقام پر فائز رہے۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی و علمی لگاؤ تھا، اس لیے امت سے امام اہل السنت و الجماعت کا لقب پایا۔ تعلیم و سماعت حدیث: سولہ برس کی عمر میں انہوں نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ ابو یوسف کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ 180ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھر حجاز آمد و رفت رہی اور علما حجاز سے علم سیکھتے رہے۔ 196ھ میں یمن جاکر عبد الرزاق الصنعانی سے احادیث سنیں۔ یہاں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ وہ کوفہ بھی گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پزیر رہے سر کے نیچے سونے کے لیے اینٹ رکھا کرتے۔
- شافعی خود فرماتے ہیں انہوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آ سکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ وہ تقریباً سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشائخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ 199ھ میں شافعی جب دوسری بار بغداد آئے تو احمد سے انہوں نے کہا: ”اگر تمہارے پاس، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو۔ میں حجازی فقہا کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔“ اس وقت احمد کی عمر 36 برس کی تھی۔ پھر انہوں نے مسند احمد لکھی- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ، تیسری صدی حجرہ کے وسط تک احادیث کی کتب مہیا نہ تھیں اور محدثین سے احادیث کی سماعت ہوتی تھی-
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]