أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّرَّاجُ، بِنَيْسَابُورَ,حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ , حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَنَحْنُ نَكْتُبُ الْأَحَادِيثَ , فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي تَكْتُبُونَ؟» , قُلْنَا: أَحَادِيثَ سَمِعْنَاهَا مِنْكَ. قَالَ: «أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟ مَا أَضَلَّ الْأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَّا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ» . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ , تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . كَذَا رَوَى لَنَا السَّرَّاجُ هَذَا الْحَدِيثَ , وَرَوَاهُ غَيْرُ الْأَصَمِّ , عَنِ الْعَبَّاسِ الدُّورِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ , فَاللَّهُ أَعْلَمُ
مفھوم :
ہمیں ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبد اللہ السراج ، بِنَيْسَابُورَ نے ، ہمیں ابو عباس محمد بن یعقوب الْأَصَمُّ نے ، عباس الدوری کو بتایا ، ہمیں عبد اللہ بن عمرو نے بتایا ، کہا: ہمیں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اپنے والد سے ، عطا بن یاسر سے ، ابوہریرہ کے اختیار پر، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ (ص ) نے کہا: یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:
کیا آپ کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہیں؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔
ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: "ہاں ، میرے بارے میں بات کرو ، کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔" اسی طرح ، سراج نے ہم سے یہ حدیث بیان کی ، اور اسےالْأَصَمِّ کے علاوہ کسی اور نے عباس الدوری، عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ کے ذریعہ ، عبد اللہ ابن الرحمٰن کے اختیار سے روایت کیا۔ فَاللَّهُ أَعْلَمُ ["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33]
نوٹ:یھاں پر ترجمہ/. مفہوم کا معیار اعلی نہیں ، غلطیاں در گزر کریں ، عربی سکرپٹ تصحیح کے لیے موجود ہے -جزاک الله
قرآن اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ
قرآن کسی دوسری کتاب یا حدیث پر ایمان سے منع فرماتا ہے- ایمان کے چھ ارکان میں بھی صرف کتاب الله پر ایمان ضروری ہے-
قرآن نے قرآن کو بہترین حدیث کہا، قرآن کے بہت سے نام ہیں جو موقع اور سیاق و سباق (context) کے مطابق استعمال ہوتے ہیں، الکتاب ، فرقان ، نور ، تنزیل، برھان، حق ، حدیث ، احسن الحدیث ،
کچھ آیات اورترجمہ [اکثرمترجمین "حدیث" مروجہ معنی چھپاتے ہیں , لفظ "حدیث" کےتمام معنی شامل ہیں:
(1) .اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ (قرآن 39:23)
اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے (قرآن 39:23)
(2.) .تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
(3) .فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)
(4). فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)
(5) اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴿٨٧﴾
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی حدیث اور کس کی ہوسکتی ہے (النساء 4:87)
مزید :
~~~~~~~
پہلی امتیں، یہود نے تورات کے علاوہ تلمود اور نصاری نے انجیل کے ساتھ ٢٣ کتب لکھ کر گمراہ ہو گیے-
نوٹ : یہ اہم ترین حدیث ، احادیث کی مشہور کتب میں بھی مختلف الفاظ کے ساتھ موجود ہے مگر اس کا اہم ترین جزو [تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں" ۔] ان میں شامل نہیں ([مسند احمد، حدیث: 10670) - یہ اصل وجہ ہے احادیث کی کتابت نہ کرنے کی جو مستقل ، دائمی ہے - اس لیے کچھ افراد کو احادیث لکھنے کی مشروط اجازت یادداشت میں کمزوری، زکات ، دیت ،خاص حساب کتاب ، سرکاری خط و کتابت ، معاہدات وغیرہ مستثنیات ہیں جو اس حکم کو منسوخ نہیں کرتے الا کہ رسول اللہ صلعم منسوخی کا حکم جاری فرماتے - یہ سب شکوک و شبھات ختم ہوں جانا چاہیے تھے جب خلفاء راشدین نے اسی حکم/ سنت رسول اللہ صلعم کو جاری رکھا جس پر دوسری تیسری صدی تک عمل درآمد ہوتا رہا - تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہ صلعم اور خلفاء راشدین کی حکم عدولی کا خمیازہ نفاق ، فرقہ واریت ، قرآن کو نذر انداز کرکہ بھگت رہے ہیں - اصلاح کی فوری ضرورت ہے -
http://lib.efatwa.ir/43553/1/33
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث نہ لکھنے کا حکم
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَکْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ کَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 7510)
مفہوم : سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت لکھو میرا کلام (حدیث) اور جس نے لکھا کچھ مجھ سے سن کر تو وہ اس کو مٹا دے مگر قرآن کو نہ مٹائے۔ البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کچھ حرج نہیں اور جو شخص قصداً میرے اوپر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“
(صحیح مسلم، کتاب: زہد و تقوی کا بیان، باب: حدیث مبارکہ کو سمجھ کر پڑھنے اور علم کے لکھنے کے حکم کے بیان میں ، حدیث نمبر: 7510)[6]
رسول اللہ سے حدیث لکھنے کی ممانعت پر احادیث کی مشہور کتب سے مزید احدیث ...[....]
اہل کتاب نے علماء کی اتباع میں کلام اللہ کو ترک کر دیا
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْعَلَّافُ، قَالَا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عِيسَى الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ:
«إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَتَبُوا كِتَابًا وَاتَّبَعُوهُ وَتَرَكُوا التَّوْرَاةَ 》》
《 بنی اسرائیل نے ایک کتاب لکھی اور اس کی پیروی کی ، اور تورات چھوڑ دی》
وَأَخْبَرَنِي أَبُو الْفَضْلِ الْفَزَارِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا جَدِّي، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: بَلَغَ ابْنَ مَسْعُودٍ أَنَّ عِنْدَ، نَاسٍ كِتَابًا , فَلَمْ يَزَلْ بِهِمْ حَتَّى أَتَوْهُ بِهِ , فَلَمَّا أَتَوْهُ بِهِ مَحَاهُ , ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا هَلَكَ أَهْلُ الْكِتَابِ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ أَقْبَلُوا عَلَى كُتُبِ عُلَمَائِهِمْ وَأَسَاقِفَتِهِمْ وَتَرَكُوا كِتَابَ رَبِّهِمْ , أَوْ قَالَ: تَرَكُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ حَتَّى دَرَسَا وَذَهَبَ مَا فِيهِمَا مِنَ الْفَرَائِضِ وَالْأَحْكَامِ
مفہوم :اس نے مجھ سے ابوالفضل فاضری کو بتایا ، ہمیں عبدالرحمٰن بن عمر نے بتایا ، ہمیں محمد بن احمد بن یعقوب نے بتایا ، ہمارے دادا سے کہا ، ہمیں بن ہارون کے بارے میں بتایا ، ہمیں عام بن بن ہشب نے تیمی کے بارے میں بتایا ، کہا:
ابن مسعود وہ تھا جب ، لوگوں نے کتاب لکھا ، ، اور جب اس نے اسے مہا کہا ، پھر کہا ، لیکن آپ کے سامنے اہل کتاب ہلاکت میں پڑ گئے ، انہوں نے علماء اور ان کے بشپوں (bishops ) کی پیروی کی اور اپنے رب کی کتاب چھوڑ دی ،
یا اس نے کہا: تورات اور انجیل کا سبق چھوڑ دیا ہے اور یہاں تک کہ احکام و فرائیض بھی چھوڑ دئیے۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/56
----------------
رسول صلی الله علیہ وسلم نے الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کی سنت پر عمل کا حکم دیا :
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مَوْلًى
لِرِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي لَا أَدْرِي مَا قَدْرُبَقَائِي فِيكُمْ، فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي، وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ
(سنن ابن ماجہ , کتاب: سنت کی پیروی کا بیان, باب: سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت, حدیث نمبر: 97)
ترجمہ:
حذیفہ بن الیمان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ کب تک میں تمہارے درمیان رہوں، پس میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا ، اور آپ ﷺ نے ابوبکرو عمر ؓ کی جانب اشارہ کیا۔
(سنن ابن ماجہ , کتاب: سنت کی پیروی کا بیان, باب: سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت, حدیث نمبر: 97)
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/المناقب ١٦ (٣٦٦٢، ٣٦٦٣)، (تحفة الأشراف: ٣٣١٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٨٥، ٣٩٩، ٤٠٢) (صحیح )
اس فیصلہ پر خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا پھر دوسری صدی میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کے خلاف " بدعت کبیرہ" کا آغاز ہوا -
رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انکار الله تعالی کے حکم کا انکار ہے (قرآن 4:80).
رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین کے حکم کےخلاف احادیث کی کتب لکھ کر اسلام کی خدمت نہیں بلکہ یہود و نصاری کے نقش قدم پر چل کر بدعت کبیرہ کا ارتکاب کیا جس کو اصل پر واپسی میں ہی فلاح ہے.
احادیث کا انکار کرنا درست نہیں مگر کتب مدون کرنا بدعت ہے ، نہ فرمانی ہے- حدیث کو رسول اللہ ﷺ کے مسنون طریقہ بیان وسماع کو واپسی کی کوشش کریں-
---------------
الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ل کی کتاب حدیث نہ لکھنے کی سنت
حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله)
حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله) نے نہ صرف یہ کہ اپنی 500 احادیث کا مجموعہ جلایا ، اور صحیح اور من گھڑت احادیث میں کوئی فرق نہیں کیا انہوں نے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچایا:" رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کوئی قول بیان نہ کرو- ان لوگوں سے کہو جو آپ کو احادیث بتانا چاہتے ہیں: دیکھو! اللہ کی کتاب ہمارے ساتھ ہے ، جو قرآن میں آپ کے لئے حلال ہے اس کی پابندی کرو اور اس سے منع کرو جس کی اس کی ممانعت کی گئی ہو۔ "
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُعَدِّلُ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، هُوَ الرَّمَادِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ، فَاسْتَشَارَ فِي ذَلِكَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَشَارُوا عَلَيْهِ أَنْ يَكْتُبَهَا فَطَفِقَ عُمَرُ يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِيهَا شَهْرًا , ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا وَقَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ , فَقَالَ: «إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَكْتُبَ السُّنَنَ وَإِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كُتُبًا فَأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا»( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ، جلد:1 صفحه : 49)
ہمیں علی بن محمد بن عبد اللہ معدل ، ہمیں اسماعیل بن محمد الصفر نے بتایا ، ہمیں احمد بن منصور نے بتایا ، رمادی ہے ، ہمیں عبدالرزاق نے بتایا ، ہم نے معمر کو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ، عروہ ابن الزبیر سے کہا کہ:
مفہوم : "عمر بن الخطاب سنن لکھنا چاہتا تھا ، اصحاب رسول اللہ ﷺ سےمشورہ کیا تو انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اسے لکھیں، لیکن عمر نے اس کا انتظار کیا کہ وہ ایک مہینہ اللہ سے استخارہ کریں، پھر ایک دن آیا ،عَزَمَ اللَّهُ سے کہا: "میں نے ارادہ کیا کہ سنن لکھوں گا ، مگر پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دییا، اللہ کی قسم میں کتاب اللہ کو کبھی بھی کسی بھی چیز کا لبادہ (لباس) نہیں پہناوں گا"( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ، جلد:1 صفحه : 49)
أَخْبَرَنَا ابْنُ رَزْقَوَيْهِ , أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ , حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: أَرَادَ عُمَرُ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَخَارَ اللَّهَ تَعَالَى شَهْرًا , ثُمَّ أَصْبَحَ وَقَدْ عَزَمَ لَهُ فَقَالَ: «ذَكَرْتُ قَوْمًا كَتَبُوا كِتَابًا فَأَقْبَلُوا عَلَيْهِ وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
ہمیں بتایا ابْنُ رَزْقَوَيْهِ سے عثمان بن احمد نے بتایا ، ہمیں حنبل بن اسحاق نے بتایا ، ہمیں قصبہ بن عقبہ سے بتایا ، سفیان ، معمر نے الزہری، عروہ نے کہا:
مفہوم :عمر سنن لکھنا چاہتا تھا اس نے اللہ سے ایک مہینہ استخارہ کیا ، پھر ایک صبح اس کا تعین ہوا ، اس نے کہا: "ان اقوام کو یاد رکھو جنہوں نے کتاب لکھی تو انہوں نے كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ کو ترک کردیا ۔"
أَخْبَرَنِي أَبُو الْفَتْحِ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَرَ بْنِ خَلَفٍ الرَّزَّازُ , أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْبُرُوجِرْدِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ وَهْبٍ الْحَافِظُ , فِي سَنَةِ ثَمَانِ وَثَلَاثِمِائَةٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ ,
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ , عَنْ مَعْمَرِ بْنِ رَاشِدٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , أَنَّهُ "أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَخَارَ اللَّهَ شَهْرًا فَأَصْبَحَ وَقَدْ عَزَمَ لَهُ , ثُمَّ قَالَ: إِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كِتَابًا فَأَقْبَلُوا عَلَيْهِ وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ , عَزَّ وَجَلَّ , هَكَذَا قَالَ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ بِخِلَافِ رِوَايَةِ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ , فَوَافَقَ رِوَايَةَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ , وَرِوَايَةَ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ مَعْمَرٍ , وَقَالَ: عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ , وَرَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ
الیکٹرانک مفہوم ؛
مجھے ابوالفتح عبد الملک بن عمر بن خلف رزاز خبر دی ، ہمیں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْبُرُوجِرْدِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ وَهْبٍ الْحَافِظُ , فِي سَنَةِ ثَمَانِ وَثَلَاثِمِائَةٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ سے کہا:
ہمیں بتایا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ , عَنْ مَعْمَرِ بْنِ رَاشِدٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ,
ععُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نے کہا کہ: میں نے سنت لکھنے کا ارادہ کیا ایک مہینہ اللہ سے استتخارہ کیا ، پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دییا،
یہ قول، روایت ہے عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ سے , عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عمر ثوری کے متعلق قبیصہ کی روایت سے مختلف ہیں ، اور اس حدیث کو شعیب ابن ابی حمزہ نے روایت کیا ہے الزُّهْرِيِّ , اور وہ عبد الرزاق کے بیان سے اتفاق کرتا تھا عَنْ مَعْمَرٍ , وَرِوَايَةَ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ مَعْمَرٍ , وَقَالَ: عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ , وَرَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/49
أَرَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَشَارَ فِيهَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَشَارَ عَامَّتُهُمْ بِذَلِكَ عَلَيْهِ , فَمَكَثَ عُمَرُ شَهْرًا يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِي ذَلِكَ شَاكًا فِيهِ , ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا قَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ , فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ ذَكَرْتُ لَكُمْ مِنْ كِتَابِ السُّنَنِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ , ثُمَّ تَذَكَّرْتُ فَإِذَا نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ قَدْ كَتَبُوا مَعَ كِتَابِ اللَّهِ كِتَابًا أَلْبَسُوا عَلَيْهِ , وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا , فَتَرَكَ عُمَرُ كِتَابَ السُّنَّةِ
مفہوم :عمر بن الخطاب نے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کا ارادہ کیا اور صحابہ سے مشورہ کیا ،تو انہوں نے اس کے خلاف مشورہ دیا پھر عمر نے ایک ماہ اللہ سے استخارہ کے بعد ، انہوں نے کہا: میں نے سنن کی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا ، اور پھر مجھے پہلی اقوام یاد آگیئں ، اہل کتاب نے کتاب لکھی کے لوگوں نے خدا کی کتاب کے ساتھ ایک کتاب لکھی اور کتاب اللہ کو چھوڑ دیا ہے اور اسے خدا کی کتاب چھوڑ دی، اللہ کی قسم میں کبھی بھی اللہ کی کتاب کو کوئی لبادہ (لباس) نہیں پہناتا ، اس لئے عمر نے سنت کی کتابت کرنا چھوڑ دیا ۔
أَمَّا حَدِيثُ شُعَيْبٍ فَأَخْبَرَنَاهُ أَبُو سَعِيدٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْفَضْلِ الصَّيْرَفِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ , أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْجَكَّانِيُّ الْخُزَاعِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ , أَخْبَرَنِي شُعَيْبٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَشَارَ فِيهَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَشَارَ عَلَيْهِ عَامَّتُهُمْ بِذَلِكَ فَلَبِثَ عُمَرُ شَهْرًا , يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِي ذَلِكَ , شَاكًّا فِيهِ , ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا وَقَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ , فَقَالَ: «إِنِّي قَدْ كُنْتُ ذَكَرْتُ لَكُمْ مِنْ كِتَابِ السُّنَنِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ , ثُمَّ تَذَكَّرْتُ فَإِذَا أُنَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ قَبْلَكُمْ قَدْ كَتَبُوا مَعَ كِتَابِ اللَّهِ كُتُبًا فَأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا» فَتَرَكَ كِتَابَ السُّنَنِ
عمر ابن الخطاب نے سنن لکھنے کا ارادہ کیا اصحاب رسول اللہ ﷺ سے مشورہ کیا ، ایک مہینہ استخارہ کیا پھر ایک دن ان کا عزم ہوا ، انہوں نے کہا: " میں نے آپ سے ذکر کیا کہ سنن کی کتاب لکھوں، اور پھر مجھے آپ سے قبل اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کے ساتھ اور کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب چھوڑ دی ، تو اللہ کی قسم میں اللہ کی کتاب کو کبھی بھی کوئی نہیں پہنتا »اس نے سنن کی کتاب کو چھوڑ دیا http://lib.efatwa.ir/43553/1/50
عمر (رضی الله) کا حدیث لکھنے پرکہنا : "ایک اور مشناہ" درست ثابت ہوا
مسلمان علماء کی اکثریت فرقہ واریت کا شکار ہے ان کی بقا کا دارومدار اپنی من پسند احادیث سے اپنےمسلک کا جواز حاصل کرنا ہے لہٰذاوہ احدیث کی کتب کا دفاع کرنا اپنا مقدس فریضہ سمجھتے ہیں لہٰذا ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تحقیق کرکہ حقائق سامنے لائیں عبث ہے- ان کے نزدیک قرآن , سنت , احادیث, خلفاء راشدین کی سنت , تاریخ سے کتابت احادیث کےخلاف دلائل کی اہمیت نہیں کیونکہ یہ ان کی ذاتی بقا کامسلہ ہے- لیکن حق پرست علماء ہمیشہ سے آواز حق بلند کرتے رہے جس کےاثار مل جاتے ہیں- جدید علم اور دینی علم رکھنے والے مسلمان سکالرز کی بقا کسی مخصوص نظریہ پرمنحصر نہیں , وہ حق کا برملا خلفاء کر اظہار کرنے سے خوف زدہ نہیں ہوتے- ان کی تحقیق مل جاتی ہے- اس علاوہ اسلام پر مغربی سکالرز مستشرقین (Orientalist) ہیں- ان میں اکثر کا مقصد اسلام پر تنقید ہے مگر مستشرقین (Orientalist) کی وہ تحریریں جس میں قرآن, سنت, حدیث اورمسلم تاریخ دانوں اور علماء کی کتب سے دلائل دیتے ہیں ان کو صرف جذبات سے رد نہیں کیا جا سکتا کہ کافر کی تحریر ہے - ان تحریروں سے مثبت طور پر سبق / فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کچھ اقتباسات ,...
ابتدائی مغربی اسکالر جس نے احادیث اور یہودی اثرات کے مابین تعلقات کو نوٹ کیا وہ فرانسیسی مستشرق (Orientalist) بارتھلیمی ڈی ہیربلوٹ ( Barthélemy d'Herbelot) (متوفی 1695) تھا ، جس نے "یہ دعوی کیا کہ چھ کتابوں میں سے بیشتر" (یعنی احادیث کا مجموعہ) "اور حدیث ادب کے بہت سارے حصے تلمود سے حاصل کیے گئے" (تلمود، محمد رسول کی پیدائش سے کم از کم ایک صدی قبل یروشلم میں دوسری اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان زبانی روایت سے قلمبند کی جارہی تھی اور بعد میں وہ علاقہ جو اب عراق ہے)۔ بعد ازاں بہت سے دوسرے مستشرقین ، جیسے (Aloys Sprenger ) الویس اسپرنگر (وفات 1893) ، ایناز گولڈزیہر Ignaz Goldziher (متوفی :1921) وغیرہ نے اس سمت تنقید جاری رکھی۔
ایک اور مفصل مطالعہ ڈبلیو آر ٹیلر (W.R. Taylor) نے "البخاری اور اگاداہ" ("Al‐Bukhārī and the Aggadah) کے نام سے کیا ،(اگدہ (Aggadah ) ( یہودی بابلیون کی کہانیاں،زبانی داستانیں lore ) غیرشرعی تقویم ہے جو یہودیت کے کلاسیکی ربانی ادب ، خاص طور پر تلمود اور مدراش (Talmud and Midrash) میں ہے۔ عام طور پراگدہ ، ربانی ادب (compendium of rabbinic texts) کا ایک مجموعہ ہے جس میں لوک داستان ، تاریخی قصے ، اخلاقی نصیحت اور کاروبار سے لے کر طب تک مختلف شعبوں میں عملی مشورے شامل ہیں) جس نے "ان میں سے کچھ احادیث کو "البخاری" اور تلمود اور مدراش (Talmud and Midrash) کی کچھ عبارتوں سے تفویض کیا ہے۔ ٹیلر نے ان احادیث کا نصوص کے ساتھ تقابل کیا ، اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ احادیث تلمود اور مدراش سے مختص کی گئیں ہیں۔
احادیث پر تنقید ,.. مزید ,.. [.........]
احادیث قرآن سے توجہ ہٹانے کا زریعہ
تاہم ، عمر کو نہ صرف حدیث کی تحریر پر اعتراض کرنے کا اعزاز حاصل ہے ، بلکہ انھیں منتقل کرنے کا بھی۔ احادیث کے متعلق حضرت عمر کے خیالات کے بارے میں شاید سب سے مضبوط اور زبردست کہانی "طبقات " کی جلد چھ میں ملتی ہے۔ یہاں ، ابن سعد نے صحابہ کے ایک وفد کو حضرت عمر کی ہدایت کا واقعہ بیان کیا ہےجس میں وہ انتظامی خدمات انجام دینے کے لئے صحابہ اکرام کے ایک وفد کو کوفہ کے علاقے کی طرف بھیج رہے ہیں۔ وہ انھیں حکم دیتا ہے کہ احادیث کی ترسیل و بیان سے لوگوں کو قرآن کریم سے دور نہ کریں۔ ایک بار پھر ، عمر سے منسوب یہ الفاظ معنیٰ خیز ہیں:
"“la tasadduhum bil-aHadith fa-tashghalunahum jarridu al-Qur’an wa-aqillu al-riwayat an rasul Allah”"
(ان کی احادیث کے زریعہ توجہ مبذول نہ کریں ، اور اس طرح ان کو مشغول کریں! قرآن مجید سے تعلق رکھو اوررسول کی روایت سے درگزر کرو!)۔
حضرت عمر نے قرضاء بن کعب کی ایک ٹیم سے کہا جو عراق کے سفر کے لئے تیار تھے:"آپ اس ملک میں جارہے ہیں جہاں لوگ قرآن کی اتنی تلاوت کرتے ہیں کہ وہاں مصروف شہد کی مکھیوں کی طرح قرآن کی آواز گونجتی ہے۔ لہذا انہیں احادیث بیان کرکے قرآن سے اور ان کے حقیقی راستے سے نہ ہٹائیں۔ قرضا کہتے ہیں ، اس دن کے بعد ، انہیں پھر سے کوئی حدیث بیان کرنا یاد نہیں تھا۔ ( , جامع البیان، کتاب تذكرة الحفاظ/الطبقة الأولى, الذهبي)
حضرت عمر حدیث کی ترسیل و بیان کے اس قدرخلاف تھے کہ جب انہوں نے ابی بن کعب کو احادیث بیان کرتے ہوئے دیکھا تو وہ بڑا ڈنڈا لے کر ان کی طرف گنے کتاب تذكرة الحفاظ/الطبقة الأولى, الذهبي)
ابوہریرہ - ایک مشہور حدیث راوی نے اپنے آپ کو عمر کے ساتھ اپنی مشکلات اور پریشانی کا اعتراف کیا ہے۔"ابو ہریرہ نے کہا: ہم عمر کے مرنے سے پہلے ،’ خدا کے میسنجر کی بات ‘نہیں کر سکتے تھے۔ (مسلم)
عمر نے کہا: "ان لوگوں کو یاد رکھو جو آپ سے پہلے گئے تھے ، ان کے پاس اللہ کی کتاب لکھی ہوئی تھی اور چھوڑ دی گئی تھی۔ میں کسی کو بھی کسی بھی کتاب کا قرآن کے ساتھ موازنہ کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔"
عمر نے کہا:" اللہ کی قسم ، میں کسی کو بھی کتاب کو قرآن مجید پر سایہ ڈالنے نہیں دوں گا۔"
عمر نے کہا:" قرآن مجید کو احادیث کے لبادہ میں مت کوور کرو۔" (طبقات )
حدیث کے معاملات میں عمر کو کسی طرح کا کوئی تحفظ نہیں تھا ، حتی کہ صحابہ کرام. بھی تھے۔ اس نے احادیث بیان کرنے پر عبد اللہ بن مسعود ، ابو دردہ اور ابوظہری کو سرزنش کی اور ان تینوں کو مدینہ منورہ میں نظربند رکھا جب تک وہ زندہ رہا۔
"شیبی نے کہا: میں پورے ایک سال تک عمر رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہا ، لیکن ان سے کبھی کوئی حدیث نہیں سنی۔"
"ابوہریرہ نے کہا: اگر میں عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ان احادیث کو بیان / منتقل کرتا تو وہ مجھ پر ضرور حملہ کرتے۔" ( کتاب تذكرة الحفاظ/الطبقة الأولى, الذهبي)
ان روایات سے مجموعی طور پر یہ ظاہر ہوتاہے کہ حضرت عمر نےاحادیث کی تحریر اور ترسیل دونوں کی سختی سے مخالفت کی - اس لئے نہیں کہ وہ لکھنے سے یا معلومات کو شیر کرنے سے انکار کرتا تھا ، بلکہ اس لئے کہ اسے خدشہ تھا کہ احادیث قرآن کے برابر یا اس سے بھی زیادہ درجہ حاصل کریں گے۔[ جو تاریخ سے درست ثابت ہوا]
یہ تصور کہ حدیث لوگوں کو قرآن سے دور کرے گی حدیث کے خلاف دلائل کا مرکزی خیال ہے جو ہم بعد میں الخطیب البغدادی کے تقید العلم ، اور جدید دلائل میں دیکھیں گے۔
حضرت عثمان (رضی الله) ، تیسرے خلیفہ نے بھی حدیث یا روایات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
ایک بار حضرت علی (رضی الله) کا بیٹا زکات کے بارے میں نبی ﷺ کا حکم نامہ لے کر حضرت عثمان (رضی الله) کے پاس آیا تو انہوں نے معزرت چاہی ! (اظہر بن صالح)یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت عثمان (رضی الله) نے حضرت ابو ہریرہ کو دھمکی دی تھی کہ وہ اسے دیش کے پہاڑوں اور کعب کو کردا کے پہاڑوں پر جلاوطن کر دے گا اگر انہوں نے وہ احادیث کی ترسیل/ بیان جاری رکھی-
حضرت علیؓ (رضی الله) قرآن اور احادیث
حضرت عبداللہ ؓبن یسار فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت علیؓ (رضی الله) نے تمام صحابہ کو جمع کر کے حکم دیا کہ یہاں سے واپس جانے کے بعد ہر شخص پہلا کام یہ کرے کہ جس کے پاس کوئی بھی تحریر ہو اسے مٹا ڈالے۔ کیوں کہ پہلی قومیں اپنے علماء کی احادیث پہ چلنے اور کتاب اللہ کو چھوڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو چکیں ہیں۔ (مختصر جامع بیان العلم ص 33)
حضرت علی رضی الله نے خطبہ میں فرمایا:” جس کے پاس (قرآن کے علاوہ) کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں کہ وہ گھر لوٹ کے جایےتو اسے مٹا ڈالے ، کیونکہ پچھلی قومیں اس وقت ہلاک ہوئیں جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گیے”-(“کتابت حدیث” خلاصہ ” نخبة الفکر” علامہ ابن حجرالعسقلانی)
حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)
ابوبکر کا پوتا- القاسم ابن محمد بن ابو بکرصدیق (رضی الله)
ابن سعد نےامیرالمومنین حضرت عمر (رضی الله) کے بارے میں روایت بیان کی ہے جو حدیث کے بارے میں ان کے رویہ کی عکاسی کرتی ہے جو "طبقات" کی جلد پانچ میں ملتی ہے۔ اس کا تعلق القاسم ابن معمد بن ابو بکرصدیق (متوفی: 106 ہجری)
سے ہے جو کہ حضرت ابوبکرصدیق کا پوتا ،حضرت محمد رسول اللهﷺ کے کے ایک قریبی ترین ساتھی اور خلفاء راشدین میں اول خلیفہ راشد تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین کی وفات کے بعد مسلمانوں کی راہنمائی کی۔ جب القاسم سے اس کے طالب علم عبد اللہ ابن الاعلاء (وفات 164 ھ) نے حدیث کی املا (لکھوانے ) کے لئے کہا ، تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ حضرت عمر (رضی الله) کے زمانے میں احادیث کی تعداد بہتزیادہ بڑھ چکی تھی، پھر انہوں نے لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں ان کے پاس لے آئیں ، اور جب لوگ احادیث لے کر ان کے پاس آئے تو حضرت عمر (رضی الله) نے انہیں جلانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ، انہوں نے کہا ، "ایک مشناه جیسے اہل کتاب کا مشناه ،" (mathna’a ka mathna’at ahl al-Kitab)۔“ اس دن سے،” عبد اللہ ابن الاعلاء اپنا بیان جاری رکھتے کہتے ہیں: “ القاسم نے مجھے حدیث لکھنے سے منع کیا” جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا، حضرت عمر کوجس چیز نے پریشان کیا وہ ایک ایسی کتاب لکھنا ہے جو الله کی کتاب کا مقابلہ کرے گی۔
اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذمہ دار لوگ جیسے القاسم ابن معمد بن ابو بکرصدیق (رضی الله) (متوفی: 106 ہجری) حضرت عمر (رضی الله) کی طرف سے حدیث لکھنے کی پابندی سختی سے عمل پیرا تھے- اگر احادیث لکھنے کی "عام اجازت" رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین نے دی ہوتی تو حضرت عمر (رضی الله) رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کیسے
کر سکتے تھے اور پھر ان کے بعد کے خلفاء راشدین اور صحابہ اور ان کی اگلی سے اگلی نسل بھی -
حدیث , مشنا , تلمود
حضرت عمر تحریری حدیث کا موازنہ اہل کتاب کے مشنا سے کرتے ہیں۔ یہودیت میں مشنا وہی کردار ادا کرتی ہے جو اب اسلام امین احادیث کی کتب ادا کرتی ہیں - مشنا زبانی قانون شریعت کا ایک ضابطہ ہے (Codification of the Oral Law ) جس میں میں رسم عبادات ، طہارت ، دعا ، شادی ، طلاق وغیرہ کی تفصیلات سے متعلق احکام شامل ہیں۔ "مشنا اور گیمارا " نے مل کر "تلمود" کی تشکیل کی ہے ، جو تورات کے علاوہ یہودیت کی سب سے اہم کتاب ہے۔
بنی اسرائیل کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت موسیٰؑ کوطور پر دو طرح کی توریتیں ملی تھیں۔ ایک وہ تھی جو تحریری شکل میں موجود ہے اور ایک کو حضرت موسیٰؑ نے تحریر نہیں کیا بلکہ وہ سینہ بسینہ ہی چلتی اور منتقل ہوتی رہی۔ یہ قانون آلِ اسرائیل کی الہامی تاریخِ قانون سازی، تفسیر اور ہزار سالہ فکری ارتقاء پر محیط ہے۔ اِس کو ”طالمود“ (תַּלְמוּד) کہتے ہیں (“تالمود“ لکھنا مستعمل ہے)، جس کی دو اہم شکلیں ”تالمودِ یروشلم“ اور ”تالمودِ بابل“ ہیں۔ مزید برآں، تالمود کے دو اندرونی اہم حصے ہیں جن کے نام ”مشناح“ (מִשְׁנָה) اور ”گمورا“ (גמרא) ہیں
تالمود کی قانونی شکل کو مسیحیت کی پیدائش کے وقت تک یہودی علماء نے سیل کر کے حتمی رُوپ دے دیا تھا اور اِس کے الہامی معیار کو یہود کے سبھی فرقے تسلیم کرتے تھے (سوائے آٹھویں صدی میں مشرقی یورپ میں ظاہر ہونے والے ”قرائیم“ فرقے کے)۔ تالمود کو بالآخر جب تحریری شکل میں لایا گیا اور اِس کی قانونیت (Canonization) کو حتمی قرار دیا گیا تو اِس عمل کو ”ہلاکاہ“ (הֲלָכָה) یعنی ”راستہ پر چلنے“ کا نام دیا گیا۔ یہودی ”تناخ“، جسے مسیح ”عہد نامہ قدیم“ کہتے ہیں اور جو توریت، کتبِ انبیاء، اور کتبِ حکمت پر مشتمل ہے، کے بعد ”تالمود“ یہود کی معتبر ترین کتاب ہے، جس کو یہودی عقائد کے مطابق الہامی سمجھا جاتا ہے اور یہودی علماء تالمود کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کو حتمی سمجھتے ہیں۔ توریت درحقیقت شریعت کے 613 اصولوں کا مجموعہ ہے، جن میں سے اکثریت ”کتابِ استثناء“ میں وارد ہیں، جبکہ تالمود اِن اصولوں پر انبیاء اور یہودی صالحین وفقہاء کی جانب سے ڈالی گئی روشنی اور عملی تشریح پر مشتمل ایک وسیع سلسلہ ہے-
ابن سعد., الشعبی (عبدللہ) سے بیان کرتے ہیں: "میں نے ایک سال عبد اللہ ابن عمر (متوفی 693 ھ جو خلیفہ دوم حضرت عمر رض کے بیٹے ) کے ساتھ گزارا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ احادیث کا دوسرا سب سے زیادہ راوی ہے، جس سے 2630 روایات منقول ہیں اور میں نے ان کو رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث روایت کرتے ہوے نہ پایا-
"میں نے کبھی جابر بن زید (متوفی 101 ھ) کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ پیغمبر نے فرمایا ... 'اور پھر بھی یہاں کے جوان یہ ایک گھنٹے میں بیس بار کہہ رہے ہیں"۔
- Hadith
- Difference in Hadith writing (private notes)and “Hadith Book writing
- Obedient Companions & Scholars Adhered to Hadith Writing Ban till end
- Prophetﷺ forbids Writing Book, except Qur’an -1 (Abu Hurairah)
- Prophetﷺ forbids Writing, Book except Qur’an-2 (Abu Said al-Khudri)
- Hadith Writing was forbidden, except Qur’an-3 (Abdullah bin Masood)
- Writing Allowed: Individual Permissions for weak memory. State matters, Correspondence, Taxation, Records, other matters & Knowledge (4).
- Permission Not Granted to some Companions to Write (5)
- The Will of Prophet & Sunnah of Caliphs [Abi Dawud 4607]
- Companions Implemented ban on Hadith Writing till death-6
- Bidʻah (بدعة)
- Rightly Guided Caliphs: Merits & Task by The Prophet (ﷺ)
- Abu Bakr & Umar did not leave written (Hadiths): 20(48)
- Importance of Sunnah of 4 Rightly Guided Caliphs on Hadith Books
- Caliph Umer & Hadith
- Summary: 4 Caliphs and Hadith Writing
- 02- Prophetﷺ forbids Writing, except Qur'an-2 (Abu Said al-Khudri) https://wp.me/scyQCZ-ban02
- 03 Hadith Writing was forbidden, except Qur'an-3 (Abdullah bin Masood) https://wp.me/scyQCZ-ban03
- 04 Prophetﷺ granted Individual Permission for weak memory or other reasons-4 https://wp.me/scyQCZ-ban04
- 05 Prophet (ﷺ) does not grant permission to some for Hadith Writing -5
- https://wp.me/scyQCZ-ban05
- 06 Companions Implemented Prophet's (ﷺ) ban on Hadith Writing -6 https://wp.me/scyQCZ-ban06
- 07 Umar bin al-Khaṭṭab Decides not to write Hadith Books -1 https://wp.me/scyQCZ-omar1
- 08 Umer & Book of Daniel-2 https://wp.me/scyQCZ-omar2
- 09 Umer Burns, Ban Hadith Books-3 https://wp.me/scyQCZ-omar3
- https://wp.me/pcyQCZ-4R
- Farewell Exhortation / Sunan Abi Dawud 4607اَلتِّرْمِذِيُّ 266 سنن ابی داود: https://wp.me/pcyQCZ-ce
- Rightly Guided Caliphs: Merits & Task by The Prophet (ﷺ):
- Sunnah of Rightly Guided Caliphs: https://wp.me/pcyQCZ-4t
مفہوم : ابو سعید سے عطاء بن یاسر سے ، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، مجھے حدیث لکھنے کی اجازت
نہیں دی اور بخاری نے کہا: انہوں نے حدیث لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/32
زید ابن ثابت کے مطابق ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث لکھنے سے منع کیا تھا۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/35
عبداللہ بن عمرو کو اجازت
انہوں نے ابو ہریرہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو زیادہ حفظ کرنے والا میں تھا ، عبداللہ بن عمرو کے علاوہ ، میں اپنے دل سے باخبر ہوں اور اس کے دل سے واقف ہوں اور وہ لکھتا تھا ، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی ، اس کو رسول اللہ ﷺ سے اجازت مل گئ تھی۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/82/
بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا الْمُسْتَمِرُّ يَعْنِي ابْنَ الرَّيَّانِ , حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ: قُلْتُ لَهُ: " أَلَا نَكْتُبُ مَا نَسْمَعُ مِنْكَ , قَالَ: تُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوهَا مَصَاحِفَ؟ فَإِنَّ نَبِيَّكُمْ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , كَانَ يُحَدِّثُنَا فَاحْفَظُوا مِنَّا , كَمَا حَفِظْنَا " وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عَلِيٍّ
ہمیں ابو ورونیس ابو سعید کے بارے میں بتائیں: میں نے اس سے کہا: "جو کچھ ہم آپ سے سنتے ہیں اسے لکھ دیں ، آپ نے فرمایا: تم اسے قرآن پاک کی نسخے بنانا چاہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتے ہیں ، ہمیں رکھنا ، جیسا کہ ہم بات کرتے ہیں"
http://lib.efatwa.ir/43553/1/36
حَدَّثَنَا كَهْمَسُ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ: أَكْتِبْنَا , قَالَ: «لَنْ أُكْتِبَكُمْ , وَلَكِنْ خُذُوا عَنَّا كَمَا كُنَّا نَأْخُذُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ»
میں آپ کو نہیں لکھوں کر دوں گا ، لیکن ہم سے جس طرح ہم رسول خدا سے لے جایا کرتے تھے اسی طرح ہم سے لےجائیں ، خدا کی دعائیں اس کے ساتھ ہوں
http://lib.efatwa.ir/43553/1/37
شعبان نے ہم سے سعید الجریری ، ابو نصرکے اتباع سے بیان کیا ، جس نے کہا: میں نے اپنے والد سعید سے کہا: کیا تم مجھے احادیث لکھاتے ہو ، اور اس نے کہا: سنو جیسا کہ ہم نے سنا ہے۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/37
ہمیں ہیبان بن موسی نے بتایا ، ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے ، جریرہ کے لئے ، نے ہمیں ابو ورنس نے کہا: میں نے ابوسعید سے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیث بیان کی ، اسے کہا کہ اسے لکھ دے ، تو اس نے کہا: میں اسے لکھ کر قرآن نہیں بناؤں گا۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/38
احَدَّثَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِحَدِيثٍ فَقَالَ ابْنُهُ: لَيْسَ كَمَا حُدِّثْتُ , قَالَ: وَمَا عِلْمُكَ؟ قَالَ: كَتَبْتُهُ , قَالَ: فَهَلُمَّ الصَّحِيفَةَ , فَجَاءَ بِهَا , فَمَحَاهَا
بن مسعود کی ایک حدیث ہے ، تو اس کے بیٹے نے کہا: ایسا نہیں ہے جیسا کہ تھا ، اس نے کہا: تمہارا کیا علم ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے یہ لکھا ، انہوں نے کہا: تو وہ صحیفہ کو لے آیا ، اور اس نے اسے مٹا دیا
http://lib.efatwa.ir/43553/1/39
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: كَانَ أَبُو مُوسَى يُحَدِّثُنَا بِأَحَادِيثَ , فَنَقُومُ أَنَا وَمَوْلَى لِي فَنَكْتُبُهَا , فَحَدَّثَنَا يَوْمًا بِأَحَادِيثَ فَقُمْنَا لِنَكْتُبَهَا , فَظَنَّ أَنَّا نَكْتُبُهَا , فَقَالَ: أَتَكْتُبْنَانِ مَا سَمِعْتُمَا مِنِّي؟ قَالَا: نَعَمْ , قَالَ: فَجِيئَانِي بِهِ , فَدَعَا بِمَاءٍ فَغَسَلَهُ , وَقَالَ: احْفَظُوا عَنَّا كَمَا حَفِظْنَا
ہمیں حامد بن ہلال بتائیں ، ابو بردہ نے کہا: ابو موسی ہمیں حدیث دیتے ہیں ، میں وینکٹبھا ، وڈٹنا کے انٹرویو کے دنوں سے اپنی نوکری سناتا ہوں ، اس لئے ہم لکھتے ہیں ، میں کلین لکھتے ہیں ، انہوں نے کہا: اکیٹ ببان مجھے سامتما کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ، اس نے کہا: پھر وہ میرے پاس لے آیا ، تو اس نے پانی طلب کیا اور اس نے اسے دھو لیا ، اور کہا: حفظ کرو جس طرح ہم نے حفظ کیا ہے۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/39
طلحہ بن یحییٰ نے ہمیں ابوبردہ سے بتایا ، انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد سے کتاب لکھتا تھا ، اس لئے اس نے پانی کا ایک برتن بلایا اور اس نے اسے دھویا۔ الفاظ احمد کی حدیث ہے
http://lib.efatwa.ir/43553/1/40
ہمیں ابو عبید اللہ سید بن عبد الرحمٰن المکزومی نے بتایا ، ہمیں سفیان ، ابراہیم بن نرم ، طاووس سے کہا ، انہوں نے کہا: اگر کوئی شخص ابن عباس کو اس کے بارے میں پوچھتا ہے ، تو وہ اس شخص سے کہتا ہے -: اپنے دوست سے کہو کہ ایسا ہے اور ایسا ہے؟ اس لئے کہ ہم صرف خطوط اور قرآن مجید صحیفہ میں لکھتے ہیں ، ابو خضمہ کا لفظ۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/42
حدیث لکھنا مکروہ
ابن جریج نے ہم سے کہا: الحسن ابن مسلم نے مجھ سے ، سعید بن جبیر کے اختیار پر ، کہا کہ ابن عباس کتاب سے منع کرتے تھے۔
عبد اللہ بن محمد نے ہم سے روایت کیا ابو ابوتہمہ نے اسے بیان کیا۔ اس نے کہا: نہیں ، میں نے کہا: مجھے ایک ایسی کتاب ملی ہے جو میں پڑھ سکتا ہوں؟ اس نے کہا نہیں
عبدالرحمٰن بن عثمان ، دمشق کو لکھا ، اور ہم سے عبدالعزیز ابن ابی طاہر کو ، ان کے ساتھ ، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ابوالحسن عبدالرحمٰن بن عبد اللہ بجالی نے ، ہمیں ابو زار عبدالرحمٰن بن عمرو نے بتایا ، مجھے ابوذر نے بتایا ، مجھے منھیر بن نافی نے کہا ، میں نے ادریس ابن ابی کو سنا ادریس کہتے ہیں: میرے والد نے مجھ سے کہا: کیا تم مجھ سے سنتے ہو وہ لکھتے ہو؟ تو میں نے کہا: ہاں ، اس نے کہا: مجھے دے دو ، اس نے کہا: تو میں اسے لے کر آیا ، اور اس نے اسے توڑ دیا۔
ابو زار نے کہا ، مجھے عبدالرحمٰن بن ابراہیم نے بتایا ، ہمیں ولید بن مسلم ، عبد اللہ بن علاء بن زپر ، قاسم بن محمد نے بتایا کہ «« حدیث لکھنا مکروہ »
(كَرِهَ كِتَابَةَ الْحَدِيثِ)
http://lib.efatwa.ir/43553/1/46
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِجَرِيرٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْحَمِيدِ , كَانَ مَنْصُورٌ , يَكْرَهُ كِتَابَ الْحَدِيثِ؟ قَالَ: نَعَمْ , مَنْصُورٌ , وَمُغِيرَةُ , وَالْأَعْمَشُ , «كَانُوا يَكْرَهُوَنَ كِتَابةَ الْحَدِيثِ»
ہمیں بتائیں ، عبدالمالک نے ، ہم سے عمر نے ، ہم سے علی نے ، ہمیں اسحاق بن اسماعیل تالقانی نے کہا: میں نے جریر ابن عبد الحمید سے مراد کہا ، کیا منصور تھا ، کتابی حدیث سے کراہت کرتا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں ، منصور ، مغیرہ اور العاش ، "انہیں حدیث لکھنے سے کراہت تھی۔"
http://lib.efatwa.ir/43553/1/48
أَخْبَرَنَا ابْنُ الْفَتْحِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «كَانُوا §يَكْرَهُوَنَ الْكِتَابَ»
بیٹا فتح ہمیں بتائیں ، ہم سے عمر بن ابراہیم ، ہمیں عبد اللہ بن محمد نے ، ہمیں ابو الخدمہ سے ، عبدالرحمٰن نے ، سفیان ، منصور ، ابراہیم کے بارے میں ، کہا:
ا"نہیں کتاب سے کراہت تھی"
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ النَّاقِدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيدَانَ، بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بَعَثَ إِلَى أَبِي الْعَالِيَةِ أَنْ يَكْتُبَ، لَهُ حَدِيثًا , قَالَ: فَجَاءَ أَبُو الْعَالِيَةِ فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ , فَقَالَ: §لَوْ كُنْتُ أَكْتُبُ لِأَحَدٍ لَكَتَبْتُهُ لَكَ , فَحَدَّثَهُ حَتَّى حَفِظَهُ
اگر میں کسی کے لئے لکھ رہا ہوتا تو میں آپ کے لئے لکھتا اور اس نے اسے اپ ڈیٹ کردیا یہاں تک کہ اس نے اسے حفط کرلیا۔ http://lib.efatwa.ir/43553/1/47
فتنہ، گمراہی اوربدعت
أَجِيبُوا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فِي دَارِهِ , فَانْطَلَقَ النَّاسُ , فَذَهَبْتُ مَعَهُمْ , فَإِذَا تِلْكَ الصَّحِيفَةُ بِيَدِهِ وَقَالَ: أَلَا إِنَّ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ , وَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكُتُبِ بِاتِّبَاعِهِمُ الْكُتُبَ وَتَرْكِهِمْ كِتَابَ اللَّهِ , وَإِنِّي أُحَرِّجُ عَلَى رَجُلٍ يَعْلَمُ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا دَلَّنِي عَلَيْهِ فَوَالَّذِي نَفْسُ عَبْدِ اللَّهِ بِيَدِهِ لَوْ أَعْلَمُ مِنْهَا صَحِيفَةً بِدَيْرِ هِنْدَ لَأَتَيْتُهَا وَلَوْ مَشْيًا عَلَى رِجْلَيَّ , فَدَعَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ تِلْكَ الصَّحِيفَةَ
عبد اللہ بن مسعود کے گھر لوگ گئے ، میں ان کے ساتھ گیا ، اس کے ہاتھ میں کاغذ تھا اور انہون نے کہا: اس صحییفہ میں فتنہ، گمراہی اوربدعت ہے ( فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ ) تم سے قبل اہل کتاب ہلاک (برباد، گمراہ) ہوئے کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ چھوڑ کر دوسری کتب کی اتباع کی ۔ یا اللہ ، میں شرمندہ ہوں ان کو کچھ نہیں جانتا لیکن مجھے دکھاؤ اگر وہ مجھے جانتا ہے، اگر ہند کے مندر میں بھی صحیفہ ہو تو میں جا کر لاتا پھر اس نے پانی کا منگوایا اور تو اس نے وہ صحیفہ دھودیا
http://lib.efatwa.ir/43553/1/55
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَبْقَسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّيْبُلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ:
سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيَّ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا بِالْكُوفَةِ , فَجَاءَ رَجُلٌ وَمَعَهُ كِتَابٌ , فَقُلْنَا مَا هَذَا الْكِتَابُ؟ قَالَ: كِتَابُ دَانْيَالَ , فَلَوْلَا أَنَّ النَّاسَ تَحَاجَزُوا عَنْهُ لَقُتِلَ , وَقَالُوا: أَكِتَابٌ سِوَى الْقُرْآنِ؟
میں نے عمرو بن میمون الاودی کو سنا ، جس نے کہا: ہم بیٹھے تھے کوفہ میں ، پھر ایک شخص کتاب لے کر آیا ، تو اس نے کہا یہ کون سی کتاب ہے؟ اسں نے کہا: دانیال کی کتاب ، اگر لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی ، تو وہ مارا جائے گا اور کہا: قرآن کے سوا کچھ نہیں لکھا؟
http://lib.efatwa.ir/43553/1/56
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الدَّقَّاقُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ النَّهَاوَنْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَلَّادٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ الْحَدِيثَ وَيَكْتُبُهُ فَإِذَا حِفْظَهُ دَعَا بِمِقْرَاضٍ فَقَرَضَهُ
أَخْبَرَنَا ابْنُ رَزْقَوَيْهِ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ « لَمْ يَرَ بَأْسًا إِذَا سَمِعَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ، أَنْ يَكْتُبَهُ، فَإِذَا حَفِظَهُ مَحَاهُ»
ہمیں ابن روزقوہ بتادیں ، ہمیں عثمان بن احمد نے بتایا ، کہا: ہمیں حنبل بن اسحاق نے کہا: ہمیں ہشام بن خلف سے کہو ، ہمیں حماد بن زید ، یحییٰ بن عتیق ، محمد ، نے بتایا کہ ا《 جب اسے نئے آدمی نے لکھنے کے لئے سنا تو اسے بدقسمتی نظر نہیں آئی اور جب اس نے اسے محفوظ کیا تو اس نے اسے مٹا دیا 》
http://lib.efatwa.ir/43553/1/59
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس بیان میں کہ عبد اللہ بن عمرو رسول خدا سے حدیث لکھا کرتے تھے ، خدا کی دعائیں ان پر پڑھیں۔
جج ابوبکر احمد بن حسن الحراشی نے بتایا ، ہمیں ابو عباس محمد نے بتایا یعقوب کے بہرے نے ، ہمیں ابو زارحہ دمشق بتایا ، احمد بن خالد سے مراد الوہبہ نے ، ہمیں محمد بن اسحاق ، عمرو بن شعیب نے ، تعزیرات بن سے حکیم مجاہد کو بتایا۔ ، انہوں نے ابو ہریرہ کو سنا ، کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو حفظ کرنے والا کیا تھا ، اللہ مجھ سے عبد اللہ بن عمرو کے علاوہ ، میں اپنے دل سے واقف ہوں اور اس کے دل سے واقف ہوں ، اور وہ لکھتے ہیں ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی ، اسے مجاز قرار دیا۔
ہمیں علی بن محمد بن عبد اللہ نے ترمیم کی ، ہمیں اسماعیل بن محمد الصفر نے بتایا ، بتایا احمد بن منصور رمادی ہے ، ہمیں عبدالرزاق نے بتایا ، ہم سے معمر نے ، ہمام بن الارم نے سنا ، انہوں نے ابو ہریرہ کو سنا ، وہ کہتے ہیں: صحابہ کرام میں سے کوئی بھی اللہ تعالٰی رحمت کرے۔ اس کی بنا پر ، مجھ سے زیادہ حدیثیں ، سوائے عبد اللہ ابن عمرو کے ، کیونکہ اس نے لکھا تھا اور نہیں لکھا تھا
ہمیں احمد بن محمد بن غالب نے بتایا ، کہا: ہم نے ابوبکر اسماعیلی پر پڑھا ، حدثم احمد بن ہمدان ال عسکری نے ، ہم نے علی بن شہری کو ، اور ابو علی سے ، ہمیں عمرو نقاد نے بتایا ، جوزف کے بیٹے ہارون اور عبداللہ بن صالح سے کہا ، انہوں نے کہا: ہمیں ابو عمر کا بیٹا بتاؤ انہوں نے کہا: ہمیں اپنے بھائی ، عطیہ بن الارم کے بارے میں ، سفیان ، عمرو بن دینار سے کہو ، انہوں نے کہا: میں نے ابو ہریرہrah کو کہتے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا حال کیا ، حال ہی میں وہ مجھ سے زیادہ ہے ، لیکن عبد اللہ بن عمرو کیا تھا؟ ابن صالح نے کہا ، ابن ابی عمر نے کہا ، "عمرو نے ہمیں بتایا ،" وہ لکھتے تھے ، اور میں نہیں لکھتا تھا۔
http://lib.efatwa.ir/43553/1/82/
حضرت زید بن ثابت کا حضرت امیر معاویہ کو حدیث لکھنے سے انکار - پابندی دائمی تھی
حضرت زید بن ثابت نے جب حضرت امیر معاویہ کو وزٹ کیا تو ان کی فرمائش پر حدیث لکھنے سے انکار کیا- امیر معاویہ (رضی الله) کئی برس تک ک شام کے گورنر رہے اور بعد میں خلیفہ بھی-
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَبْقَسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّيْبُلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيَّ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا بِالْكُوفَةِ , فَجَاءَ رَجُلٌ وَمَعَهُ كِتَابٌ , فَقُلْنَا مَا هَذَا الْكِتَابُ؟ قَالَ: كِتَابُ دَانْيَالَ , فَلَوْلَا أَنَّ النَّاسَ تَحَاجَزُوا عَنْهُ لَقُتِلَ , وَقَالُوا: أَكِتَابٌ سِوَى الْقُرْآنِ؟
ہمیں حسین بن ابراہیم بتائیں ، ہمیں احمد بن ابراہیم البکسانہ نے بتایا ، ہمیں محمد بن ابراہیم الدیپلا نے بتایا ، ہمیں ابو عبید اللہ المکزومی نے بتایا ، ہمیں سفیان نے بتایا ، ایک صدقہ بن گیا ، کہا: میں نے عمرو ابن میمن اوڈی کو سنا ، کہا: ہم بیٹھے تھے - کوفہ ، پھر ایک شخص کتاب لے کر آیا ، تو ہم نے کہا یہ کتاب کیا ہے؟ انہوں نے کہا: دانیال کی کتاب ، کیا لوگوں کو اس کو روکنے اور قتل کرنے کا کام نہ ہوتا ، اور کہا: قرآن کے سوا کچھ نہیں لکھا؟
وَأَخْبَرَنِي أَبُو الْفَضْلِ الْفَزَارِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا جَدِّي، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: بَلَغَ ابْنَ مَسْعُودٍ أَنَّ عِنْدَ، نَاسٍ كِتَابًا , فَلَمْ يَزَلْ بِهِمْ حَتَّى أَتَوْهُ بِهِ , فَلَمَّا أَتَوْهُ بِهِ مَحَاهُ , ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا §هَلَكَ أَهْلُ الْكِتَابِ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ أَقْبَلُوا عَلَى كُتُبِ عُلَمَائِهِمْ وَأَسَاقِفَتِهِمْ وَتَرَكُوا كِتَابَ رَبِّهِمْ , أَوْ قَالَ: تَرَكُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ حَتَّى دَرَسَا وَذَهَبَ مَا فِيهِمَا مِنَ الْفَرَائِضِ وَالْأَحْكَامِ
اس نے مجھ سے ابوالفضل فاضری کو بتایا ، ہمیں عبدالرحمٰن بن عمر نے بتایا ، ہمیں محمد بن احمد بن یعقوب نے بتایا ، ہمارے نانا سے کہا ، ہمیں بن ہارون کے بارے میں بتایا ، ہمیں عام بن بن حشب نے تیمی کے بارے میں بتایا ، کہا: ابن مسعود وہ تھا جب ، لوگوں نے بکنگ کی تھی ، اور اس نے انہیں برقرار رکھا تھا۔ اور اسے ، اور جب اس نے اسے مہا کہا تو ، لیکن آپ کے سامنے اہل کتاب ، انہوں نے اسکالروں اور ان کے بشپوں کو تبدیل کیا اور اپنے رب کی کتاب چھوڑ دی ، یا انہوں نے کہا: تورات اور بائبل کو بھی سبق چھوڑ دیا اور آئین اور فیصلے میں سے دو کو چھوڑ دیا ،
غَيْرُ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُودٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْكِتَابَةِ لِذَلِكَ
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْعَلَّافُ، قَالَا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عِيسَى الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: «إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَتَبُوا كِتَابًا وَاتَّبَعُوهُ وَتَرَكُوا التَّوْرَاةَ»
عمر ابن مسعود نے لکھنے سے منع کیا
ہمیں حسن ابن ابی بکر اور عثمان بن محمد ابن یوسف الفر نے بیان کیا ، کہا: ہمیں محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم الشفیعی ، ابو ابو عیسی التوسی ، نے
زکریا بن عودی سے ، ہمیں عبید اللہ بن عمرو ، عبد المالک ابن عامر ، ابو بردہ ، سے کہا: ابو موسی کے اختیار پر ، انہوں نے کہا: "بنی اسرائیل نے ایک کتاب لکھی اور اس کی پیروی کی ، اور تورات چھوڑ دی۔"
[تقييد العلم, ص56 ]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/56
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کی اجازت نہیں دی
ابو سعید سے عطاء بن یاسر سے ، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، مجھے حدیث لکھنے کی اجازت نہیں دی اور بخاری نے کہا: انہوں نے حدیث لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔
[ تقييد العلم ص 32]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/32
زید ابن ثابت نے معاویہ کو بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث لکھنے سے منع کیا تھا۔
دَخَلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَسَأَلَهُ عَنْ حَدِيثٍ، فَأَمَرَ إِنْسَانًا يَكْتُبْهُ، فَقَالَ لَهُ زَيْدٌ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , أَمَرَنَا أَنْ لَا نَكْتُبَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ ,
قاضی ابوبکر محمد بن عمر بن اسماعیل داؤدی نے ، ہمیں عمر بن احمد مبلغ نے بتایا ، ہمیں عبد اللہ بن سلیمان نے بتایا ، جعفر بن مسافروں نے بتایا ، ہمیں یحیی بن حسن ، سلیمان بن بلال نے ، بہت سے بن زید کے لئے ، بن حنٹب کے مطالبہ پر ، زید کو بتایا۔ ابن ثابت نے معاویہ کوکہا ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث لکھنے سے منع کیا تھا [ تقييد العلم ص 35]
مجھ کے اختیار میں ، زید ابن ثابت کے قول کے بیان ،
أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الدَّاوُدِيُّ , أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَاعِظُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ , حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ , عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ , عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ حَنْطَبٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , أَنَّ النَّبِيَّ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , نَهَى أَنْ يُكْتَبَ حَدِيثُهُ
ذِكْرُ الرِّوَايَةِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فِي ذَلِكَ
أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو عُمَرَ الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْهَاشِمِيُّ، بِالْبَصْرَةِ , حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَمْرٍو اللُّؤْلُؤِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَشْعَثِ , حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، قَالَ:
دَخَلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَسَأَلَهُ عَنْ حَدِيثٍ، فَأَمَرَ إِنْسَانًا يَكْتُبْهُ، فَقَالَ لَهُ زَيْدٌ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , أَمَرَنَا أَنْ لَا نَكْتُبَ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ ,
فَمَحَاهُ. أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ النَّاقِدُ , أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِيعِيُّ , حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِيرْيَابِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , حَدَّثَنَا كَثِيرٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ , بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ
بصرہ میں جج ابو عمر القاسم بن جعفر بن عبدالوحید الہاشمی نے بتایا ، ہمیں ابو علی محمد بن احمد بن عمرو پرل نے ، ہمیں ابو داؤد سلیمان بن باغی نے بتایا ، نصر بن علی نے ، ہمیں ابو احمد نے بتایا ، ہمیں بہت سے بن زید نے ، بن عبداللہ سے مطالبہ کیا بین ہینٹب نے کہا ، زید بن ایک مقررہ آمدنی والے سید پر ، اور اس سے ایک انٹرویو کے بارے میں پوچھے ، اس نے ایک شخص کو حکم لکھ دیا ، زید نے اس سے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آمنا ، جو اپنی تقریر کا کچھ نہ لکھیں ، فماہ۔ ہمیں ابو طاہر محمد ابن الحسن نے بتایا۔محمد ابن عبد اللہ ابن الزبیر نے ہمیں بہت کچھ بتایا ، وہ ابن زید تھے ، ان کے سلسلے میں راویوں کی اس سلسلہ کے ساتھ [ تقييد العلم ص 35]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/35
عبداللہ بن عمرو کو رسول اللہ ﷺ سے اجازت مل گئ
انہوں نے ابو ہریرہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو زیادہ حفظ کرنے والا میں تھا ، عبداللہ بن عمرو کے علاوہ ، میں اپنے دل سے باخبر ہوں اور اس کے دل سے واقف ہوں اور وہ لکھتا تھا ، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لکھنے کی اجازت طلب کی ، اس کو رسول اللہ ﷺ سے اجازت مل گئ تھی۔
<كُنْتُ أَعِي بِقَلْبِي وَيَعِي بِقَلْبِهِ وَيَكْتُبُ , فَاسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَذِنَ لَهُ
ذِكْرُ الرِّوَايَةِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو كَانَ يَكْتُبُ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَرَشِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ , حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ يَعْنِي الْوَهْبِيَّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ حَكِيمٍ، وَمُجَاهِدٌ، أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: مَا كَانَ أَحَدٌ أَحْفَظُ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو فَإِنِّي<<كُنْتُ أَعِي بِقَلْبِي وَيَعِي بِقَلْبِهِ وَيَكْتُبُ , فَاسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَذِنَ لَهُ
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُعَدِّلُ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ هُوَ الرَّمَادِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , أَكْثَرُ حَدِيثًا مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَتَبَ وَلَمْ أَكْتُبْ
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ، قَالَ: قَرَأْنَا عَلَى أَبِي بَكْرٍ الْإِسْمَاعِيلِيُّ , حَدَّثَكُمْ أَحْمَدُ بْنُ حَمْدَانَ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَأَخْبَرَكَ أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو النَّاقِدُ، أَخْبَرَكَ هَارُونُ بْنُ يُوسُفَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: مَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , أَكْثَرُ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لَا أَكْتُبُ , لَفْظُ ابْنِ صَالِحٍ , وَقَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ , حَدَّثَنَا عَمْرُو
[ تقييد العلم ص82]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/82/
بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا الْمُسْتَمِرُّ يَعْنِي ابْنَ الرَّيَّانِ , حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ: قُلْتُ لَهُ: " أَلَا نَكْتُبُ مَا نَسْمَعُ مِنْكَ , قَالَ: تُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوهَا مَصَاحِفَ؟ فَإِنَّ نَبِيَّكُمْ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , كَانَ يُحَدِّثُنَا فَاحْفَظُوا مِنَّا , كَمَا حَفِظْنَا " وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عَلِيٍّ
ہمیں ابو ورونیس ابو سعید کے بارے میں بتائیں: میں نے اس سے کہا: "جو کچھ ہم آپ سے سنتے ہیں اسے لکھ دیں ، آپ نے فرمایا: تم اسے قرآن پاک کی نسخے بنانا چاہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتے ہیں ، ہمیں رکھنا ، جیسا کہ ہم بات کرتے ہیں" [ تقييد العلم ص 36]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/36
حدیث کو لکھ کر قرآن مت بناؤ : بعد میں بھی صحابہ کا احادیث لکھوانے سے انکار صرف سماء جیسے وہ رسول اللہ ﷺ سے سنتے تھے
أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَخْلَدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمُعَدِّلُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَكِيمِيُّ , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرِمٍ , حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ: أَكْتِبْنِي أَحَادِيثَ , قَالَ: أَتَتَّخِذُونَهُ قُرْآنًا؟ اسْمَعُوا أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَخْلَدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمُعَدِّلُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَكِيمِيُّ , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرِمٍ , حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ,
قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ: أَكْتِبْنِي أَحَادِيثَ ,
قَالَ: أَتَتَّخِذُونَهُ قُرْآنًا؟ اسْمَعُوا كَمَا كُنَّا نَسْمَعُ
احادیث لکھ دو,اس نے کہا: اسے (لکھ کر) قرآن مت بناو؟ سنو جیسا کہ ہم نے سنا ہے
[ تقييد العلم ص 37]
بعد میں بھی صحابہ کا احادیث لکھوانے سے انکار صرف سماء جیسے وہ رسول اللہ ﷺ سے سنتے تھے
حَدَّثَنَا كَهْمَسُ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ: أَكْتِبْنَا , قَالَ: «لَنْ أُكْتِبَكُمْ , وَلَكِنْ خُذُوا عَنَّا كَمَا كُنَّا نَأْخُذُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ»
میں آپ کو نہیں لکھوں کر دوں گا ، لیکن ہم سے جس طرح ہم رسول خدا سے لے جایا کرتے تھے اسی طرح ہم سے لےجائیں ، خدا کی دعائیں اس کے ساتھ ہوں
[ تقييد العلم ص 37]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/37
بعد میں بھی صحابہ کا احادیث لکھوانے سے انکار صرف سماء جیسے وہ رسول اللہ ﷺ سے سنتے تھے
شعبان نے ہم سے سعید الجریری ، ابو نصرکے اتباع سے بیان کیا ، جس نے کہا: میں نے اپنے والد سعید سے کہا: کیا تم مجھے احادیث لکھاتے ہو ، اور اس نے کہا: سنو جیسا کہ ہم نے سنا ہے۔
[ تقييد العلم ص 37]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/37
حدیث کو قرآن مت بناؤ : بعد میں بھی صحابہ کا احادیث لکھوانے سے انکار صرف سماء جیسے وہ رسول اللہ ﷺ سے سنتے تھے
ہمیں ہیبان بن موسی نے بتایا ، ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے ، جریرہ کے لئے ، نے ہمیں ابو ورنس نے کہا: میں نے ابوسعید سے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیث بیان کی ، اسے کہا کہ اسے لکھ دے ، تو اس نے کہا: میں اسے لکھ کر قرآن نہیں بناؤں گا۔[ تقييد العلم ص 38]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/38
ابن مسعود (رضی الله) نے اپنے بیٹے کی لکھی حدیث کو مٹا دیا
احَدَّثَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِحَدِيثٍ فَقَالَ ابْنُهُ: لَيْسَ كَمَا حُدِّثْتُ , قَالَ: وَمَا عِلْمُكَ؟ قَالَ: كَتَبْتُهُ , قَالَ: فَهَلُمَّ الصَّحِيفَةَ , فَجَاءَ بِهَا , فَمَحَاهَا
ابن مسعود کی ایک حدیث ہے ، تو اس کے بیٹے نے کہا: ایسا نہیں ہے جیسا کہ تھا ، اس نے کہا: تمہارا کیا علم ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے یہ لکھا ، انہوں نے کہا: تو وہ صحیفہ کو لے آیا ، اور اس نے اسے مٹا دیا
[ تقييد العلم ص 39]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/39
حفظ کرو جس طرح ہم نے حفظ کیا
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: كَانَ أَبُو مُوسَى يُحَدِّثُنَا بِأَحَادِيثَ , فَنَقُومُ أَنَا وَمَوْلَى لِي فَنَكْتُبُهَا , فَحَدَّثَنَا يَوْمًا بِأَحَادِيثَ فَقُمْنَا لِنَكْتُبَهَا , فَظَنَّ أَنَّا نَكْتُبُهَا , فَقَالَ: أَتَكْتُبْنَانِ مَا سَمِعْتُمَا مِنِّي؟ قَالَا: نَعَمْ , قَالَ: فَجِيئَانِي بِهِ , فَدَعَا بِمَاءٍ فَغَسَلَهُ , وَقَالَ: احْفَظُوا عَنَّا كَمَا حَفِظْنَا
ہمیں حامد بن ہلال بتائیں ، ابو بردہ نے کہا: ابو موسی ہمیں حدیث دیتے ہیں ، میں وینکٹبھا ، وڈٹنا کے انٹرویو کے دنوں سے اپنی نوکری سناتا ہوں ، اس لئے ہم لکھتے ہیں ، میں کلین لکھتے ہیں ، انہوں نے کہا: اکیٹ ببان مجھے سامتما کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ، اس نے کہا: پھر وہ میرے پاس لے آیا ، تو اس نے پانی طلب کیا اور اس نے اسے دھو لیا ، اور کہا: حفظ کرو جس طرح ہم نے حفظ کیا ہے۔
[ تقييد العلم ص39]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/39
حدیث کو مٹا دیا
طلحہ بن یحییٰ نے ہمیں ابوبردہ سے بتایا ، انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد سے کتاب لکھتا تھا ، اس لئے اس نے پانی کا ایک برتن بلایا اور اس نے اسے دھویا۔ الفاظ احمد کی حدیث ہے
[ تقييد العلم ص40]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/40
ہم نہیں لکھتے ہم نہیں لکھتے لَا نَكْتُبُ وَلَا نُكْتِبُ
سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: لَا نَكْتُبُ وَلَا نُكْتِبُ
ہمیں ابو عبید اللہ سید بن عبد الرحمٰن المکزومی نے بتایا ، ہمیں سفیان ، ابراہیم بن نرم ، طاووس سے کہا ، انہوں نے کہا: اگر کوئی شخص ابن عباس کو اس کے بارے میں پوچھتا ہے ، تو وہ اس شخص سے کہتا ہے -: اپنے دوست سے کہو کہ ایسا ہے اور ایسا ہے؟ اس لئے کہ ہم صرف خطوط اور قرآن مجید صحیفہ میں لکھتے ہیں ،
[ تقييد العلم ص 42]
ہم صحہف نہیں لکھتے سوائے پیغامات اور قرآن کے
فَإِنَّا لَا نَكْتُبُ فِي الصُّحُفِ إِلَّا الرَّسَائِلَ وَالْقُرْآنَ لَفْظُ أَبِي خَيْثَمَةَ
ابن عباس ہم صحہف نہیں لکھتے سوائے پیغامات اور قرآن کے ابو خائفہ کا تلفظ
راویوں کی لسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت بعد کی بات ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبِ بْنُ الْفَتْحِ , أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُقْرِئُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَحْمَدَ الْمِصْرِيُّ , بِمَكَّةَ , حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَبْقَسِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّيْبُلِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ , أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ , عَنْ طَاوُسٍ , قَالَ: إِنْ كَانَ الرَّجُلُ يَكْتُبُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ
[ تقييد العلم ص 42]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/42
حضرت زید بن ثابت نے جب حضرت امیر معاویہ کو وزٹ کیا تو ان کی فرمائش پر حدیث لکھنے سے انکار کیا-
امیر معاویہ (رضی الله) کئی برس تک ک شام کے گورنر رہے اور بعد میں خلیفہ بھی-
کوفہ میں قرآن کے علاوہ کتاب والے کو قتل کا خطرہ أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَبْقَسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّيْبُلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيَّ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا بِالْكُوفَةِ , فَجَاءَ رَجُلٌ وَمَعَهُ كِتَابٌ , فَقُلْنَا مَا هَذَا الْكِتَابُ؟ قَالَ: كِتَابُ دَانْيَالَ , فَلَوْلَا أَنَّ النَّاسَ تَحَاجَزُوا عَنْهُ لَقُتِلَ , وَقَالُوا: أَكِتَابٌ سِوَى الْقُرْآنِ؟ میں نے عمرو بن میمون الاودی کو سنا ، جس نے کہا: ہم بیٹھے تھے کوفہ میں ، پھر ایک شخص کتاب لے کر آیا ، تو اس نے کہا یہ کون سی کتاب ہے؟ اسں نے کہا: دانیال کی کتاب ، اگر لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی ، تو وہ مارا جائے گا اور کہا: قرآن کے سوا کچھ نہیں لکھا؟ [ تقييد العلم ص 56] http://lib.efatwa.ir/43553/1/56
مٹا دیا
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الدَّقَّاقُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ النَّهَاوَنْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَلَّادٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ الْحَدِيثَ وَيَكْتُبُهُ فَإِذَا حِفْظَهُ دَعَا بِمِقْرَاضٍ فَقَرَضَهُ
أَخْبَرَنَا ابْنُ رَزْقَوَيْهِ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ « لَمْ يَرَ بَأْسًا إِذَا سَمِعَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ، أَنْ يَكْتُبَهُ، فَإِذَا حَفِظَهُ مَحَاهُ»
ہمیں ابن روزقوہ بتادیں ، ہمیں عثمان بن احمد نے بتایا ، کہا: ہمیں حنبل بن اسحاق نے کہا: ہمیں ہشام بن خلف سے کہو ، ہمیں حماد بن زید ، یحییٰ بن عتیق ، محمد ، نے بتایا کہ ا《 جب اسے نئے آدمی نے لکھنے کے لئے سنا تو اسے بدقسمتی نظر نہیں آئی اور جب اس نے اسے محفوظ کیا تو اس نے اسے مٹا دیا 》
"شیبی نے کہا: میں پورے ایک سال تک عمر رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہا ، لیکن ان سے کبھی کوئی حدیث نہیں سنی۔"
حضرت ابو ہریرہ کو حضرت عمر (رضی الله) کا خوف
"ابوہریرہ نے کہا: اگر میں عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ان احادیث کو بیان / منتقل کرتا تو وہ مجھ پر ضرور حملہ کرتے۔" ( کتاب تذكرة الحفاظ/الطبقة الأولى, الذهبي)
عبد اللہ ابن عمر
ابن سعد., الشعبی (عبدللہ) سے بیان کرتے ہیں: "میں نے ایک سال عبد اللہ ابن عمر (متوفی 693 ھ جو خلیفہ دوم حضرت عمر رض کے بیٹے ) کے ساتھ گزارا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ احادیث کا دوسرا سب سے زیادہ راوی ہے، جس سے 2630 روایات منقول ہیں اور میں نے ان کو رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث روایت کرتے ہوے نہ پایا-
"میں نے کبھی جابر بن زید (متوفی 101 ھ) کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ پیغمبر نے فرمایا ... 'اور پھر بھی یہاں کے جوان یہ ایک گھنٹے میں بیس بار کہہ رہے ہیں"۔
مسلمانون کا پہلی امتوں کے طریقوں کی پیروی کرنےکی خبر مگر ترغیب نہیں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ الصَّنْعَانِيُّ مِنْ الْيَمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ.
(صحیح بخاری، کتاب: کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان باب: نبی ﷺ کا ارشاد کہ تم اپنے سے پہلی امتوں کے طریقوں کی پیروی کرنے لگوگے۔ حدیث نمبر: 7320)
ترجمہ:ہم سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے یمن کے ابوعمر صنعانی بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟ فرمایا پھر اور کون۔
(صحیح بخاری، کتاب: کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان باب: نبی ﷺ کا ارشاد کہ تم اپنے سے پہلی امتوں کے طریقوں کی پیروی کرنے لگوگے۔ حدیث نمبر: 7320)
باضابطہ طور پر حدیث کے درج ہونے والا پہلا شخص محمد بن مسلم بن شہاب (متوفی 124 ہجری)
تاریخی ذرائع سے معلوم ہے کہ باضابطہ طور پر عمر بن عبد العزیز کے حکم سے حدیث لکھنے والا پہلا شخص محمد بن مسلم بن شہاب تھا۔ ان کا انتقال سن 124 ہجری میں، جب ان کا یہ قول نقل کیا گیا: حيث نقل عنه قوله: لم يدون هذا العلم أحد قبل تدويني (میرے لکھے جانے سے پہلے کسی نے بھی اس علم کی تدوین نہیں کی)۔
نقلاً عن كتاب نشأة الشيعة والتشيع – للإمام محمد باقر الصدر 6– 2- السلطة في الإسلام – عبد الجواد ياسين- مصدر سابق- ص 153-154 تحقيق وتعليق الدكتور عبد الجبار شرارة – بيروت 1996 –
http://www.almothaqaf.com/a/b6/942858
احادیث لکھنے کی ممانعت
"بنی اسرائیل نے ایک کتاب لکھی اور اس کی پیروی کی ، اور تورات چھوڑ دی۔"[http://lib.efatwa.ir/43553/1/56 ]
Hadiths on Hadith Writing Ban احادیث : حدیث لکھنے پر پابندی :
"تقييد العلم"للخطيب البغدادی يسے انتخاب احادیث ------ https://bit.ly/2Iv3MkZ
{نبی صلعم نے اپنے الوداعی خطبے میں کہا:
"... میں نے آپ کے درمیان اللہ کی کتاب چھوڑی ہے ، اور اگر آپ اس پر قائم رہیں گے تو آپ کبھی بھی گمراہ نہیں ہوں گے"
حوالہ: صحیح مسلم 1218 ا ، کتابی حوالہ: کتاب 15 ، حدیث 159 ، یو ایس سی۔ ایم ایس اے ویب (انگریزی) حوالہ: کتاب 7 ، حدیث 2803 (فرسودہ نمبر اسکیم) ترجمہ /15/159 }
حضرت عمر (رضی الله] اسلام کو اس خطرہ سے محفوظ رکھنا ضروری سمجھتے تھے، اس لیےانہوں نےمشاورت تفکراوربہت غورو خوض، استخارہ کے بعد احادیث کی کتابت کوممنوع[18] قراردیا اور تمام مواد تلف کردیا- یہ انتہائی سخت فیصلہ قرآن[19] ، سنت رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین[20] کے مطابق تھا- احادیث کوزبانی روایات کے طور پر بیان کیا جاتا تھا (ذاتی نوٹس حفظ کرکہ تلف کر دیے جاتے)، سنت رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین (عملی طریقہ) نسل در نسل تواتر سے منتقل ہوتا رہا ہے-
اس مقصد کے حصول میں ان کو دوسرے خلفاء راشدین[21] اور خاص طور حضرت علی (رضی الله)[22] اور اصحابہ کرام کی مدد حاصل رہی، یہ سلسلہ پہلی صدی حجرہ ( صحابہ اکرام کی زندگی) تک قائم رہا -
دوسری اور تیسری صدی میں اس پالیسی کے خلاف حدیث کی کتب لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا
جیساکہ یہود و نصاری نے بھی کتاب اللہ کے ساتھ تلمود اور دوسری کتب لکھ کر اختیارکیاتھا[23]-
اس وقت [1442ہجری] پچھتر (75) کتب [24]اوربہت سے فرقے موجود ہیں
جن کی قرآن و سنت میں سختی سے ممانعت[25] ہے-
یہی وہ خدشہ تھا جو حضرت عمر (رضی الله) اور ان کے ساتھیوں کو تھا جو بلکل سچ ثابت ہوا- اہل قرآن اوراہلحدیث مغالطوں[26] میں گم ہیں-
(قابل غور ہے کہ امام ابو حنیفہ (رح ) بہت عظیم عالم, فقیہ تھے مگرآپ نے حدیث کی کوئی کتاب تحریر نہ کی، ان کے شاگردوں نے لکھ کر ان سے منسوب کر دیں[27])-
حضرت عمر (رضی الله) کا دوسرے تمام فیصلوں کی طرح، دین اسلام کو خالص رکھنے کا یہ اہم ترین تاریخی فیصلہ[28] تھا ، جس کو ایک صدی کے بعد عملی طور پر منسوخ[29] کردیا گیا ،
جس کا کسی کو اختیار نہیں تھا- کیونکہ دین اسلام پر انہی لوگوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی تو
اس حقیقت کو حرف غلط کی طرح محو کر دیا گیا-
یاد رہے کہ حق بات کا چھپانا جرم عظیم ہے، قرآن آیا ت ( 2:159 )(2:17),(3:187)[30] میں
زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی باتیں یعنی شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں-
قرآن نہیں چاہتا ہے کہ کوئی بھی دوسری کتاب یا حدیث پر ایمان لایا جایے، سوائے قرآن کے ، جس کو بہترین حدیث کہا ، کچھ آیات اورترجمہ [اکثرمترجمین "حدیث" مروجہ معنی چھپاتے ہیں , لفظ "حدیث" کےتمام معنی شامل ہیں: (1) .اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ (قرآن 39:23)
اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے (قرآن 39:23)
(2.) .تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
(3) .فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)
(4). فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)
(5) اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴿٨٧﴾
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی حدیث اور کس کی ہوسکتی ہے (النساء 4:87)
"اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ انسان اور کچھ جن، جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افترا پردازی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے اور تاکہ اس کی طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ اس کو پسند کرلیں اور تاکہ مرتکب ہوجائیں ان امور کے جن کے وه مرتکب ہوتے تھے- تو کیا اللہ کے سوا کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں حاﻻنکہ وه ایسا ہے کہ اس نے ایک کتاب کامل تمہارے پاس بھیج دی ہے، اس کے مضامین خوب صاف صاف بیان کئے گئے ہیں اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وه اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ بھیجی گئی ہے، سو آپ شبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوں آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، اس کے کلام کا کوئی بدلنے واﻻ نہیں اور وه خوب سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے- اور دنیا میں زیاده لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وه آپ کو اللہ کی راه سے بے راه کردیں وه محض بے اصل خیاﻻت پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں(قرآن 6:112,116)
سنت رسول اللهﷺ اور اطاعت کا حکم
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر
کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (33:21)
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20)
اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21)
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿4:14﴾ \
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿4:14﴾
مزید تفصیل >>>> قرآن میں لفظ "حدیث" کے معنی میں تحریف کی مذموم کوشش ...... [.......]
احادیث سے حدیث لکھنے کی ممانعت :
اس موضوع پر اختلافات ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نےاحادیث لکھنے کی اجازت دی پھر منع فرمایا ، پھر کسی خاص کو اجازت دی … لمبی بحث ہے یہ تضادات اور تبتیق اس تحقیق کے تھیم کا مین حصہ نہیں- یہاں انفارمشن لیے کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں جو ممانعت کے متعلق ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو وہ اسے مٹادے-“ (صحیح مسلم،الزھد، باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابہ العلم، حدیث:3004) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ ایک اور کتاب بھی لکھی جارہی ہے اللہ کی کتاب کو علحیدہ کرلو اور اسے خالص رکھو-“ (مسند احمد: 3/12، حدیث:11092) احادیث لکھنے کی ممانعت کی گئی۔ "امحضوا کتاب اللہ واخلصوہ۔" …. اللہ تعالیٰ کی کتاب کو ہر قسم کے شائبۂ التباس سے پاک رکھو ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک واقعہ کتب تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پانچ سو روایات پر مشتمل ایک مجموعہ تیار کیا ہوا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھا ہوا تھا۔ ایک رات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت بے چین ہیں۔ انھوں نے سبب پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ نسخہ منگوایا اور اسے جلا دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا سبب پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
خشیت ان اموت وہی عندی فیکون فیہا احادیث عن رجل قد ائتمنتہ ولم یکن کما حدثنی. فأکون قد نقلت ذاک فہذا لایصح.(اسد الغابہ ۳/ ۲۲۴)
”مجھے اندیشہ ہوا کہ میں مرجاؤں اور یہ مجموعہ میرے ہاں موجود رہے۔ دراں حالیکہ اس میں ایسی روایات موجود ہیں جو میں نے تو اپنے اعتماد کے آدمی سے سنی ہیں، لیکن ممکن ہے بات اس طرح نہ ہو، جیسے اس نے مجھے بتائی ہے، جبکہ میں اسے نقل کرنے والا ہوں۔ یہ صورت معاملہ درست نہیں ہے۔”
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ا: ’حسبنا کتاب اللہ‘ یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ ( بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب المرضی ، باب قول المريض قوموا عني ، حدیث : 5731 )
معمر بن رشید کی روایت کے مطابق حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے ایسا کرنے سے اتفاق کیا لیکن حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) ہچکچاہٹ میں رہے اور پورا ایک مہینہ الله سے رہنمائی اور روشنی کی دعا کرتے رہے بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام نہیں کیا جایے گا اور فرمایا کہ: “سابق لوگوں نے اللہ کی کتابوں کو نظر انداز کیا اور صرف نبیوں کی سنت پرپر توجہ مرکوز کی، میںاللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے درمیان الجھن کا امکان قائم نہیں کرنا چاہتا- [ڈاکٹرمحمد حمیدالله ]
حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے حوصلہ افزائی کی، لیکن ان کو اس بات کا مکمل یقین نہیں تھا کہ آیاان کو آگے بڑھ کر یہ کام کرنا چاہیے نہیں؟ ایک دن، الله کی طرف سے الہام بعد انہوں نے فیصلہ کرلیا اور اعلان کیا: “میں چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و روایات لکھ لی جائیں لیکن میں ڈرتا ہوں کہ اللہ کی کتاب میں دخل اندازی ہوسکتی ہے، لہذا میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا “- اس ذہن کی تبدیلی کے بعد انہوں نے تمام صوبوں کے مسلمانوں کو ہدایت کی: “جس کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے متعلق تحریری دستاویز ہے وہ اسے تتلف کردے”.اس کے بعد احادیث کو صرف زبانی طور پر منتقل کیا جاتا رہا اور جمع کر کہ المامون کے دور میں لکھا گیا- [محمّد حسسین ہیکل]
حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل ہیں : عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]
اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے .... [......]
مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے [صحیح مسند احمد 497/3, شیخ البانی صحیح السلسلہ الصحیحہ 732/2 تفسیرکثیر١١:٨٨].
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔
[سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)
؛الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠5) الكامل في ضعفاء الرجال
» من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]
فرقہ واریت
"جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے"ا۔(قرآن 6:159)
حدیث اور فرقہ واریت
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حج الوداع میں فرمایا :
1.قرآن:
وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ
"میں نےتمہارے پاس اللہ کی کتاب چھوڑی ہے، اور اگر تم اس پر قائم رہو گے تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے" [صحیح مسلم 1218 , ابن ماجہ 25/84 , ابو داوود 11/56]
2.قرآن اور سنت
ایک دوسری حدیث میں قرآن سنت کا ذکر ہے :
"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ"۔(مشکوٰۃ شریف:29)
” :میں تمہارے درمیان میں دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “
3.تیسری حدیث میں قرآن اور اہل بیت کا ذکر ہے
قرآن اوراہل بیت
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُم مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهٖ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ : کِتَابُ ﷲِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِّنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي : أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِيْهِمَا.[ رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.]
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اﷲتعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘ [ رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.]
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَا أَيُّهَاالنَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا : کِتَابُ ﷲِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي. [رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِیُّ]
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔‘‘ [رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِیُّ]
تجزیہ :
تینوں احادیث میں "قرآن" کا تذکرہ شامل ہے، مگر فرقے اپنی پسندیدہ حدیث کو قبول کرکہ دوسری احادیث پر اعتراضات لگا کر مسترد کرتے ہیں.
قابل غور بات ہے کہ حج الوداع آخری خطبہ ہزاروں صحابہ نے توجہ سےسنا مگر ایک اہم ترین حکم پراختلاف، تین مختلف احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ:
1. قرآن نے احادیث کاانکار کیوں کیا؟
2. رسول اللهﷺ نے احادیث لکھنے سےکیوں منع فرمایا ؟
3. خلفاء راشدین نے احادیث کواکٹھا کرکہ کتابت کابندوبست کیوں نہ کیا بلکہ اس کو منع فرمایا ؟
4.اور ایک صدی تک اس فیصلہ پرعمل ہوا جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گے تو الله تعالی رسول اللهﷺ خلفاء راشدین اورصحابہ اکرام کے احکام کو مسترد کرکہ اسلام کو مسخ کرنے ابتدا ہوئی جو اب تک جاری ہے قرآن کو چھوڑدیا
خلفائے راشدین کا احادیث کی کتابت نہ رنے کا فیصلہ , حکم , قرآن اورسنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق تھا ، جس پر پہلی صدی ہجری کے اختتام تک سختی سے عملدرآمد ہوتا رہا- جب تمام صحابہ اکرام وفات چکے توخلفاء راشدین , قرآن ، اور سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ، احادیث کی مشہور کتابیں تیسری صدی میں مرتب کی گئیں ، تاریخی اہمیت کےعلاوہ لہذا ان کی شرعی , قانونی حیثیت پرسوالیہ نشان ہے۔
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]