رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

وحی "متلو" اور "غیر متلو" تحقیقی جائزہ (2)

 قرآن اور اس کا مثل ؟
موسیٰ (علیہ السلام) نے [ خضر (علیہ السلام)] سے فرمایا کہ میں آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم آپ کو حاصل ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ .....  خضر (علیہ السلام) نے فرمایا، موسیٰ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص علم ملا ہے جسے آپ نہیں جانتے، اسی طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے وہ میں نہیں جانتا۔------ راوی نے بیان کیا کہ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور اس نے کشتی کے کنارے بیٹھ کر سمندر میں ایک مرتبہ اپنی چونچ ماری تو خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے اور آپ کے علم کی حیثیت اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی سے کم کیا ہے۔ (صحیح بخاری:  حدیث نمبر: 4725)
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا  میں سو رہا تھا کہ (خواب میں) دودھ سے بھرا ہوا پیالہ لا کر مجھے دیا گیا، میں نے اس دودھ کو پیا، پھر میں نے دیکھا کہ (زیادہ ہونے کے سبب اس دودھ کی) تری اور تازگی میرے ناخنوں سے پھوٹ رہی ہے اور پھر میں نے بچایا ہوا دودھ عمر بن الخطاب کو (پینے کے لئے) دے دیا، بعض صحابہ نے (یہ سن کر) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اس دودھ کی تعبیر میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں فرمایا  علم!۔  (بخاری 7006 ومسلم 6190 ) (مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 5988)

علماء نے لکھا ہے کہ علم کی صورت مثالیہ عالم بالا میں دودھ ہے، اسی لئے اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ دودھ پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ قرار پاتی ہے۔ کہ اس شخص کو خالص ونافع علم نصیب ہوگا علم اور دودھ کے درمیان وجہ مشابہت یہ ہے کہ جس طرح دودھ انسانی جسم کی پہلی غذا اور بدن کی اصلاح وتقویت کا بنیادی ذریعہ اسی طرح انسانی روح کی پہلی غذا اور اس کی اصلاح وتقویت کا بنیادی ذریعہ ہے۔ بعض عارفین نے یہ لکھا ہے کہ عالم مثال سے تجلی علم کا انعکاس صرف چار چیزوں یعنی پانی، دودھ شراب اور شہد کی صورت میں ہوتا ہے اور یہی وہ چار چیزیں ہیں جن کی نہرین بہہ رہی ہیں۔ قرآن کریم نے ان چارنہروں کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے   آیت (مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِيْهَا اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّا ءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُه وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ڬ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى) 47۔ محمد  15)  جنت جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بو نہیں کرے گا اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلے گا اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے (سراسر) لذت ہیں اور شہد مصفا کی نہریں۔   پس جس شخص نے (خواب میں) پانی پیا اس کو علم لدنی عطا ہوگا، جس شخص نے دودھ پیا اس کو اسرار شریعت کا علم عطا ہوگا، جس شخص نے شراب پی اس کو علم کمال عطا ہوگا اور جس نے شہد پیا اس کو بطریق وحی علم عطا ہوگا۔ اور عارفین ہی میں سے بعض نے اس ضمن میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جنت کی یہ چاروں نہریں درحقیقت چاروں خلفاء سے عبارت ہیں اور اس عتبار سے حدیث بالا میں دودھ کی نسبت سے صرف حضرت عمر کا ذکر ہونا نہایت موزوں ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا  اگر حضرت عمر کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے میں عرب کے تمام قبائل (کے اہل علم) کو جمع کرکے رکھا جائے اور پھر وزن کیا جائے تو حضرت عمر کے علم کے علم کا پلڑا ان سب کے علم سے وزن میں بھاری رہے گا اور اسی وجہ سے تمام صحابہ کا اعتقاد تھا کہ دس حصوں میں سے نوحصے علم تنہا حضرت عمر پاگئے ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

" حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ: فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا البُلْعُومُ "

میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو برتن یاد کیے ہیں جن میں سے ایک تو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا ایسا ہے کہ اگر میں اسے پھیلاؤں تو یہ شہ رگ کاٹ دی جائے ۔ [صحیح بخاری: 7006]

 اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم 

ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو کوئی خاص یا زیادہ علم الله نے عطا فرمایا جو کہا وحی کے علاوہ تھا اور اس کا ایک حصہ حضرت عمر فاروق (رض ) کو بھی عطا ہوا-

Read in English: https://wp.me/pcyQCZ-ea
 ایک بہت مشہور دلیل "حدیث" کے وحی  (غیر متلو) کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "ان کو قرآن کے مثل (قرآن کی طرح) کچھ اور بھی دیا گیا ہے"- اور وہ "کچھ اور" (مثل قرآن ) در اصل حدیث  ( وحی غیر متلو)  کی طرف واضح اشارہ ہے- بہت تلاش کے بعد اس موضوع پر کل تیرہ (13) احادیث ملی ہیں۔ چار حدیثوں میں بلکہ در اصل تین (3) ( ابو داؤد 4604 اور 4606 ایک جیسی ،دہرای  ہے) راوی " الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ" نے روایت کیا کہ  رسول اللہ ﷺ  نے حلال ، حرام جانوروں کے بارے میں ذکر کیا ہے اور یہ ہے کہ: "ان کو قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"-  جبکہ نو (9) احادیث میں یہ جملہ:"ان کو قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے" ، شامل نہیں ہے جبکہ دیگر مشمولات حلال اور حرام کھانے / کھانے پینے کے بارے میں بھی ملتے جلتے ہیں۔
یہ احادیث رسول اللہ ﷺ کنے  حدیث کی درستگی/ پہچان  کنے میعار پر پوری نہیں اترتیں:

 ان احادیث کا  تجزیه :
ایک راوی "الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ" پہلی چار(4) احادیث میں  رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایک طرح کے الفاظ بیان کرتا ہے کہ :" ان کو قرآن کے مثل کچھ اور بھی چیز دی گیی ہے "-  رسول اللہ ﷺ نے  وحی کا لفظ استعمال نہیں فرمایا- ایک ہی راوی سے منسوب ایک مضمون پر ایک جسسے متن کی احادیث کی ایک (1) ہی شمار کیا جایے گا اگر ایک حدیث کو سو(100) کتب میں مختلف لوگ لکھتے ہیں تو وہ سو(100) حدیث نہیں ایک(1) حدیث ہی شمار ہو گی-
ان چار کے علاوہ  اسی موضوع پر آٹھ  (8) مزید احادیث ہیں  [حدیث #5 سے #12 تک ] مگر ان میں یہ فقرہ : "ان کو قرآن کے مثل کچھ اور بھی چیز دی گیی ہے" شامل نہیں-
ان میں  راوی "الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ" کی طرف سے بیان کردہ تین (3) احادیث [#5،6،7]  اور دوسرے راویوں سے منسوب پانچ  (5) احادیث [#8,9,10,11,12]  بھی شامل ہیں جن میں فقرہ : "ان کو قرآن کے مثل کچھ اور بھی چیز دی گیی ہے" شامل نہیں -
لہذا اس طرح کی الگ تھلگ حدیث, جس کی صداقت بھی مشکوک  ہو اس کی بنیاد پر الله تعالی کی کتاب ، قران کے مقابل کتب کا جواز پیدا کرنا نہ صرف غیر منطقی بلکہ مضحکہ خیز ہے- مزید یہ حدیث  رسول اللہ ﷺ کے بتلائے ہویے میعار پر بھی پوری نہیں اترتی-

# 1 & 2 حدیث [ ابو داوود 4604 & 4606]

سنن ابوداؤد حدیث: 4604:  "قرآن  اور اس کے مثل ایک اور چیز بھی" 
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ. [سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4604 ] 
ترجمہ :  سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4604 
مقدام بن معد یکرب ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  سنو، مجھے کتاب  (قرآن)  دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی  (یعنی سنت) ، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے  ١ ؎: اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہوجائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4604 ) 
  ٢ ؎۔   تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١١٥٧٠)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦٤)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٢)، مسند احمد (٤/١٣٠) (صحیح  ) , (کچھ الفاظ کے فرق سے معارف الحدیث, حدیث نمبر: 1894)

 3# حدیث : مسند احمد , حدیث : 16548

مسند احمد , حدیث : 16548
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا حَرِيزٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيِّ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَا يُوشِكُ رَجُلٌ يَنْثَنِي شَبْعَانًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ أَلَا وَلَا لُقَطَةٌ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُمْ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُمْ فَلَهُمْ أَنْ يُعْقِبُوهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُمْ مسند احمد , حدیث نمبر: 16548]
ترجمہ : 
حضرت مقدام بن معدیکرب ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا یاد رکھو! مجھے قرآن کریم اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی دیا گیا ہے، یاد رکھو! عنقریب ایک ادمی آئے گا جو اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے گا کہ قرآن کریم کو اپنے اوپر لازم کرلو، صرف اس میں جو چیز تمہیں حلال ملے، اسے حلال سمجھو اور جو حرام ملے، اسے حرام سمجھو، یاد رکھو! تمہارے لئے پالتو گدھوں کا گوشت اور کوئی کچلی والا درندہ حلال نہیں ہے، کسی ذمی کے مال کی گری پڑی چیز بھی حلال نہیں، الاّ یہ کہ اس کے مالک کو اس کی ضرورت نہ ہو اور جو شخص کسی قوم کے یہاں مہمان بنے، انہیں اس کی مہمان نوازی کرنا چاہئے، اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو انہیں بھی اجازت ہے کہ وہ اسی طرح ان کی بھی مہمان نوازی کریں۔[ مسند احمد , حدیث نمبر: 16548]
#4 حدیث :مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 160
وَعَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیْکَربَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ((اِلَا اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْقُرْاٰنَ وَمِثْلَہ، مَعَہ، اَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانَ عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَقُوْل: عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ فَمَاوَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالَ فَاَحِلُّوْہُ وَمَاوَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامِ فَحَرِّمُوْہُ وَاِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَمَا حَرَّمَ اﷲُ أَلاَ لاَ یَحِلًّ لَکُمُ الْحِمَارُ الْاَھْلِیُّ وَلَا کُلُّ ذِیْ نَاْبِ مِنَ السِّبَاعِ وَلَا لُقْطَۃُ مُعَاھِدِ اِلا اَنْ یَّسْتَغْنِیَ عَنْھَا صَاحِبُھَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمِ فَعَلَیْھِمْ اَنْ یَّْقُرْوُہ فَاِنْ لَّمْ یَقْرُوْہُ فَلَہ،ۤ اَنْ یُعْقِبَھُمْ بِمِثْلِ قِرَاہُ)) رَوَاہُ اَبُوْدَا دَوَرَوَی الدَّرِامِیُّ نَحْوَہ، وَکَذَا ابْنُ مَاجَۃَ اِلٰی قَوْلِہٖ ((کَمَا حَرَّمَ اﷲُ) [مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 160]
ترجمہ:
اور حضرت مقدام بن معدیکرب ؓ  راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  آگاہ رہو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کا مثل، خبردار، عنقریب اپنے چھپر کھٹ پر پڑا ایک پیٹ بھرا آدمی کہے گا کہ بس اس قرآن کو اپنے اوپر لازم جانو (یعنی فقط قرآن ہی کو سمجھو اور اس پر عمل کرو) اور جو چیز تم قرآن میں حلال پاؤ اس کو حلال جانو اور جس چیز کو تم قرآن میں حرام پاؤ اسے حرام جانو حالانکہ جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے حرام فرمایا ہے وہ اس کے مانند ہے جسے اللہ نے حرام کیا، خبردار تمہارے لئے نہ اہلی (گھریلو) گدھا حلال کیا اور نہ کچلی رکھنے والے درندے اور نہ تمہارے لئے معاہد یعنی وہ قوم جس سے معاہدہ کیا گیا ہو کا لقطہ حلال کیا ہے جس کی پرواہ اس کے مالک کو نہ ہو اور جو شخص کسی قوم کا مہمان ہو اس قوم پر لازم ہے کہ اس کی مہمانی کریں۔ اگر وہ مہمانی نہ کریں تو اس آدمی کے لئے جائز ہے کہ وہ مہمانی کے مانند اس سے حاصل کرے۔ (ابوداؤد) دارمی نے بھی ایسی روایت نقل کی ہے اور اسی طرح حدیث بھی مجھے بارگاہ الوہیت سے عطا ہوئی ہے۔    (مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 160, صحیح )
گدھا حلال یا حرام ؟
وقد اخبر النبي صلى الله عليه وسلم امر الخيل وغيرها، ثم سئل عن الحمر فدلهم على قوله تعالى: فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره سورة الزلزلة آية  وسئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الضب، فقال: لا آكله ولا احرمه، واكل على مائدة النبي صلى الله عليه وسلم الضب فاستدل ابن عباس بانه ليس بحرام. [صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7356 ]
ترجمہ:
‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان کئے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت بیان فرمائی «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره‏» کہ ”جو ایک ذرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساہنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خود اسے نہیں کھاتا اور (دوسروں کے لیے) اسے حرام بھی نہیں قرار دیتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر ساہنہ کھایا گیا اور اس سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے استدلال کیا کہ وہ حرام نہیں ہے ۔ [صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7356 ]
"الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ" : مختلف  احادیث 
1.اسی راوی"الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ" کی تین (3) احادیث [# 5،6،7] اہم ہیں کیونکہ ان احادیث میں وہ روایت نہیں کرتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، "مجھے کچھ دیا گیا ہے جیسے مثل قرآن"
2. ایک ہی راوی کی مختلف کتابوں میں نقل کردہ احادیث کی تعداد میں اضافہ نہیں کرتی، یہ ایک (1) حدیث ہی شمار ہو گی. جیسے پہلے کی گئی تھیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس راوی کی ایک حدیث ہے۔
3. لہذا  "الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ"  کی ایک روایت میں: "مجھے قرآن کی مثل  کچھ دیا گیا ہے"  شامل ہے لیکن اسی راوی کی  اور ایک اور احادیث میں : "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں ہے- نتیجہ صفر-

 5# : جامع ترمذی : حدیث نمبر: 2664:  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ جَابِرٍ اللَّخْمِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  أَلَا هَلْ عَسَى رَجُلٌ يَبْلُغُهُ الْحَدِيثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ فَيَقُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
 ترجمہ:
مقدام بن معدیکرب ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور وہ کہے: ہمارے اور تمہارے درمیان  (فیصلے کی چیز)  بس اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں جو چیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے، اور اس میں جو چیز حرام پائیں گے بس اسی کو ہم حرام جانیں گے، یاد رکھو! بلا شک و شبہ رسول اللہ  ﷺ  نے جو چیز حرام قرار دے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز ۔   [ترمذی حدیث نمبر: 2664 ]
 امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔    تخریج دارالدعوہ:  سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٢) (تحفة الأشراف: ١١٥٥٣) (صحیح  )    قال الشيخ الألباني:  صحيح، ابن ماجة (12)   صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2664]

6# :  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں
مقدام بن معدیکرب ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور وہ کہے: ہمارے اور تمہارے درمیان  (فیصلے کی چیز)  بس اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں جو چیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے، اور اس میں جو چیز حرام پائیں گے بس اسی کو ہم حرام جانیں گے، یاد رکھو! بلا شک و شبہ رسول اللہ  ﷺ  نے جو چیز حرام قرار دے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز ۔ [مسند احمد ٤/١٣٢]

7# :  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ الْكِنْدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏  يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ  [ ْسنن ابن ماجہ: حدیث نمبر:12]
ترجمہ:
مقدام بن معدیکرب کندی ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے:  ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی کو حلال سمجھیں گے اور جو چیز حرام پائیں گے اسی کو حرام جانیں گے ، تو سن لو! جسے رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔[ ْسنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 12ٌ]
 تخریج دارالدعوہ:  سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦٤)، (تحفة الأشراف: ١١٥٥٣)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٤)، مسند احمد (٤/١٣٢)، سنن الدارمی/المقدمة ٤٩، (٦٠٦) (صحیح  )

8# :  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فِي بَيْتِهِ أَنَا سَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْر، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَرَّ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَو زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏  لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ .[سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 13 ]
ترجمہ:
ابورافع ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو، اور اس کے پاس جن چیزوں کا میں نے حکم دیا ہے، یا جن چیزوں سے منع کیا ہے میں سے کوئی بات پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی ۔   [سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 13 ]
 تخریج دارالدعوہ:  سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٥)، سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦٣)، (تحفة الأشراف: ١٢٠١٩)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٣٦٧) (صحیح  )  (جامع ترمذی; حدیث نمبر: 2663)  امام ترمذی کہتے ہیں:  ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،  ٢ - بعض راویوں نے سفیان سے، سفیان نے ابن منکدر سے اور ابن منکدر نے نبی اکرم  ﷺ  سے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور بعض نے یہ حدیث سالم ابوالنضر سے، سالم نے عبیداللہ بن ابورافع سے، عبیداللہ نے اپنے والد ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم  ﷺ  سے روایت کی ہے۔  ٣ - ابن عیینہ جب اس حدیث کو علیحدہ بیان کرتے تھے تو محمد بن منکدر کی حدیث کو سالم بن نضر کی حدیث سے جدا جدا بیان کرتے تھے اور جب دونوں حدیثوں کو جمع کردیتے تو اسی طرح روایت کرتے  (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) ۔  ٤ - ابورافع نبی اکرم  ﷺ  کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام اسلم ہے۔  تخریج دارالدعوہ:  سنن ابی داود/ السنة ٦ (٤٦٠٥)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٣) (تحفة الأشراف: ١٢٠١٩)، و مسند احمد (٦/٨) (صحیح)    قال الشيخ الألباني:  صحيح، ابن ماجة (13)    صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2663) 

9# :  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں ، راوی ابورافع ؓ
سنن ابوداؤد  حدیث نمبر: 4605
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي النَّضْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا نَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ.
ترجمہ:
ابورافع ؓ سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا:  میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے: یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے  ١ ؎۔    تخریج دارالدعوہ:  سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦١)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٣)، (تحفة الأشراف: ١٢٠١٩)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/٨) (صحیح  )   

10# :  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں ، راوی ابورافع ؓ
معارف الحدیث, حدیث نمبر: 1895
عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ لاَ نَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه والبيهقى فى دلائل النبوة)
ترجمہ:
حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں پاوں (یعنی اس کا یہ حال ہو) کہ وہ اپنے شاندار تخت پر تکیہ لگائے (متکبرانہ انداز میں) بیٹھا ہو اور اس کو میری کوئی بات پہنچے جس میں، میں نے کسی چیز کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہو تو وہ کہیں کہ ہم نہیں جانتے، ہم تو بس اسی حکم کو مانیں گے جو ہم کو قران میں ملے گا (مسنداحمد سنن ابی داود جامع ترمذی سنن ابن ماجہ دلائل النبوہ بیہقی)

 11# :  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں ، راوی ابوہریرہ ؓ
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمَقْبُرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ لَا أَعْرِفَنَّ مَا يُحَدَّثُ أَحَدُكُمْ عَنِّي الْحَدِيثَ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ اقْرَأْ قُرْآنًا، ‏‏‏‏‏‏مَا قِيلَ مِنْ قَوْلٍ حَسَنٍ فَأَنَا قُلْتُهُ. [سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 21]
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:  میں یہ ہرگز نہ پاؤں کہ تم میں سے کسی سے میری حدیث بیان کی جا رہی ہو اور وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے یہ کہتا ہو: قرآن پڑھو، سنو! جو بھی اچھی بات کہی گئی ہے وہ میری ہی کہی ہوئی ہے-
 تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٤٣٣٦) (ضعیف جدًا) (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری متروک روای ہیں  

12# :  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں ، راوی "عرباض بن ساریہ سلمی "

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ حَكِيمَ بْنَ عُمَيْرٍ أَبَا الأَحْوَصِ، ‏‏‏‏‏‏يُحَدِّثُ عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَزَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ وَمَعَهُ مَنْ مَعَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ صَاحِبُ خَيْبَرَ رَجُلًا مَارِدًا مُنْكَرًا فَأَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ أَلَكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا حُمُرَنَا وَتَأْكُلُوا ثَمَرَنَا وَتَضْرِبُوا نِسَاءَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ عَوْفٍ ارْكَبْ فَرَسَكَ ثُمَّ نَادِ أَلَا إِنَّ الْجَنَّةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِمُؤْمِنٍ وَأَنْ اجْتَمِعُوا لِلصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاجْتَمَعُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ وَلَا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمُ الَّذِي عَلَيْهِمْ. [سنن ابوداؤد, حدیث نمبر: 3050]
ترجمہ:
عرباض بن ساریہ سلمی ؓ کہتے ہیں  ہم نے نبی اکرم  ﷺ  کے ساتھ خیبر میں پڑاؤ کیا، جو لوگ آپ کے اصحاب میں سے آپ کے ساتھ تھے وہ بھی تھے، خیبر کا رئیس سرکش و شریر شخص تھا وہ رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد! کیا تمہارے لیے روا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کر ڈالو، ہمارے پھل کھاؤ، اور ہماری عورتوں کو مارو پیٹو؟  (یہ سن کر)  رسول اللہ  ﷺ  غصہ ہوئے، اور عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے فرمایا:  عبدالرحمٰن! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر دو کہ جنت سوائے مومن کے کسی کے لیے حلال نہیں ہے، اور سب لوگ نماز کے لیے جمع ہوجاؤ ، تو سب لوگ اکٹھا ہوگئے، نبی اکرم  ﷺ  نے انہیں نماز پڑھائی پھر کھڑے ہو کر فرمایا: 
 کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس قرآن میں جو کچھ حرام کیا اس کے سوا اور کچھ حرام نہیں ہے؟ خبردار! سن لو میں نے تمہیں کچھ باتوں کی نصیحت کی ہے، کچھ باتوں کا حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے روکا ہے، وہ باتیں بھی ویسی ہی  (اہم اور ضروری)  ہیں جیسی وہ باتیں جن کا ذکر قرآن میں ہے یا ان سے بھی زیادہ  ١ ؎، اللہ نے تمہیں بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے، اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے و ستانے کی، اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کی، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں دیتے رہیں جو تمہارا ان پر ہے  (یعنی جزیہ) ۔   [سنن ابوداؤد, حدیث نمبر: 3050]
تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٩٨٨٦) (ضعیف)  (اس کے راوی اشعث لین الحدیث ہیں  ) 

  13# :  "مجھے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"  شامل نہیں ، راوی "عرباض بن ساریہ سلمی "

وَعَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ((اَیَحْسِبُ اَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَظُنُّ اَنَّ اﷲَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْئًا اِلَّا مَافِی ھٰذَا الْقُرْاٰن؟ اَلَا اوَاِنِّیْ وَاﷲِ قَدْاَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَھَیْبُ عَنْ اَشْیَآءَ اِنَّھَا لَمِثْلُ الْقُرْاٰنِ اَوْ اَکْثَرُ& وَاِنَّ اﷲَ لَمْ یُحِلَّ لَکُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ابُیُوْتَ اَھْلِ لْکِتَابِ اِلَّا بِاِذْنِ وَلَا ضَرْبَ نِسَآءِ ھِمْ وَلَا اَکْلَ ثِمَارِھِمِ اِذَا اَعْطُوْ کُمُ الَّذِیْ عَلَیْھِمْ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ فِی اِسْنَادِہٖ اَشْعَثُ بْنُ شُعْبَۃَ الْمَصِیْصِیُّ قَدْ تُکُلِّمَ فِیْہِ۔ [مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 161، ضعیف]
ترجمہ:
اور حضرت عرباض بن ساریہ ؓ  راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کوئی آدمی اپنے چھپر کھٹ پر تکیہ لگائے ہوئے یہ خیال رکھتا ہے کہ اللہ نے وہی چیزیں حرام کی ہیں جو قرآن میں ذکر کی گئی ہیں، خبردار! اللہ کی قسم! بلاشک میں نے حکم دیا، میں نے نصیحت کی اور میں نے منع کیا چند چیزوں سے جو مثل قرآن کے ہیں بلکہ زیادہ ہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ حلال نہیں کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں اجازت حاصل کئے بغیر چلے جاؤ اور نہ تمہارے لئے ان عورتوں کو مارنا حلال ہے اور نہ تمہارے لئے ان کے پھلوں کا کھانا جائز کیا ہے جب کہ وہ اپنا مطالبہ ادا کردیں جو ان کے ذمہ تھا۔ (ابوداؤد) اور ان کی سند میں اشعث بن شعبہ مصیصی ہیں جن کے بارے میں کلام کیا گیا ہے وہ ثقہ ہیں یا نہیں؟۔   [مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 161، ضعیف ]

حاصل بحث:

اس مضمون پر کل تیرہ (13) احادیث ملتی ہیں [پہلے بیان کر دی گئیں]۔ چار حدیثوں میں (در حقیقت 3 کیونکہ  ابو داؤد حدیث #4604 اور# 4606 میں ایک ہی مضمون  دہرایا گیا ہے)  الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، نے روایت کیا کہ ، رسول اللہ نے  کھانے پینے کے بارے کچھ کع حرام قرار دیا اور یہ فرمایا  کہ:"ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے" ، جبکہ نو (9) احادیث میں یہ جملہ: "ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے" شامل نہیں ہے جبکہ دیگرمتن حلال اور حرام کھانے / کھانے پینے کے بارے میں تقریبا ایک جیسا ہے-  جبکہ اسی راوی الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، کی اگلی تین (3) احادیث میں یہ جملہ:"ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے"، موجود نہیں ہے۔ یہ تضاد  اسی ایک  راوی کی روایت کو مشکوک بنا دیتا ہے-

ایک ہی راوی "المقدم ابن مدکارب"کی روایت کردہ ان احادیث کو جن میں ایک ہی طرح کے مضامین / عبارت ہے ان کو ایک حدیث کے بطور شمار کیا گیا ہے ، کیوں اگر کسی ایک حدیث کو متعدد بار نقل کیا جاتا ہے یا 100 کتابوں میں لکھا جاتا ہے تو یہ 100 احادیث نہیں بنتیں بلکہ ایک حدیث ہی شمار ہو گی- لہذا مذکورہ بالا جملے کے ساتھ اور اسی راوی کی طرف سے دوسری احادیث اس  مخصوص جملے کے بغیر اس کی مروی احادیث کو مشکوک بنا دیتی ہے- لہذا ایسی مشکوک اور کمزور بنیاد پر اس حدیث  کو قرآن کے برابر یا  متوازی "حدیث" کو وحی کنے جواز کے طور پر استعمال نہہں کیا جاسکتا۔ جبکہ "

(قرآن 10:15) اور دوسری احادیث واضح طور پر قرآن کی حدیث پر برتری اورقرآن کے احادیث کو منسوخ کرنے کو بیان کرتی ہیں-

اسی موضوع پر 9 دیگر احادیث [# 5 سے # 13] ہیں، لیکن اس جملے کے بغیر: "اسے قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے" ،۔ اس میں 3 حدیثیں [# 5،6،7] اسی راوی المقدم ابن مدکارب کی اس عبارت کے بغیر شامل ہیں:"ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے"،۔ جیسا کہ قبل ذکر کیا گیا۔

دیگر 6 احادیث [# 8،9،10،11،12،13] دوسرے راویوں کی ہیں۔ تین احادیث (# 8 اور9،10) سنن ابن ماجہ: 13 اور ابوداؤد 4605 (دونوں صحیح) اور معارف حدیث: 1895) میں "عبیداللہ بن ابو رفیع" بھی عبارت: :"ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے"، بیان نہیں کرتے-

حدیث # 11 ، سنن ابن ماجہ 21، راوی  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، حدیث نمبر 12 ، ابوداؤد 3050 ، راوی"عرباض بن ساریہ سلمی" اور حدیث نمبر 13 ،مشکوٰۃ المصابیح, 161 ، تینوں احادیث سے روایت کیا ہے  مختلف راویوںنے مگر ان میں جملہ ::"ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے"، شامل نہیں-

مذکورہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ کے علاوہ تین مزید مختلف راوی [  ابوہریرہ، عرباض بن ساریہ سلمی، عبیداللہ بن ابو رفیع ] اس زیربحث اس اہم فقرے: :"ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے"، کا ذکر نہیں کرتے-

یہ  جملہ :"ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حدیث کی توثیق کے میعار کے برخلاف ہے کیونکہ حدیث کی قبولیت کے لیے اسے  قرآن ، سنت اور عقل (دل) کے خلاف نہیں ہونی چاہئے۔ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ کی روایت کی واحد (احادیث) روایت متاواثر حدیث نہیں ہے ، حتی کہ اسی راوی کی بیان کردہ دوسری روایتوں میں بھی اس کی پہلی روایت سے مطابقت نہیں کرتیں جس سے ضعف میں اضافہ ہوتا ہے-


اس کی یہ بھی تشریح کی گئی ہے کہ: ""ان کو قرآن کی طرح بھی کچھ دیا گیا ہے" سنت کا حوالہ ہے۔ قرآن مجید کتاب ہے ، سنت عمل ہے ، لہذا سنت کتاب نہیں ہے یا کسی کتاب کی طرح ہے۔ کسی غیر کتاب پر "کتاب کی مثل " کیسےلاگو ہو سکتا ہے-
 رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے سوا کچھ لکھنے سے منع کیا تھا، لہذا قرآن کی طرح کوئی دوسری کتاب موجود نہیں تھی۔ ضعیف حافظے والے چند صحابہ  کو حدیثوں کے نجی نوٹ لکھنے کی اجازت ملی ، ان کی نوٹ بکس (صحیفہ جات) نامکمل تھیں ، زیادہ ترنوٹس حفظ کے بعد حذف کردیے جاتے تھے، لیکن کچھ صحابہ نے انہیں یادداشت، یا تبرک کی حیثیت سے رکھا ہو تو ممکن ہے۔ عبد اللہ بن مسعود ، صحابہ اور ابتدائی اسلام کے اعلیٰ چار علمائے کرام میں شامل تھے وہ  قرآن کے علاوہ کسی بھی صحیفہ کو فتنہ، بدعت اور ضلالہ کہتے تھے-
 رسول اللہ ﷺ  کا کردار قرآن تھا ، وہ خود کسی اور چیزکے وجود  سے قرآن کے رتبہ میں کمی کیسے کرسکتنے؟
لہذا قرآن کے ساتھ حدیث کی کتابوں کے مساوی ہونے کے جواز کے طور پر اس طرح کے بیان کو استعمال کرنا غیر منطقی اور مضحکہ خیز ہے ، جبکہ یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ احادیث لکھنے پر رسول  اورخلفاء راشدین کی سنت میں پابندی عائد  تھی، جس پر صدیوں عمل ہوتا رہا-
حتی کہ تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی حدیث کی کتابیں بھی عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہیں، اس  مہم کی قبولیت میں مزید دو صدی کا عرصہ لگا جب البخاری کو پہلی بار 464 ھ / 1072ع   میں نیشا پور میں کالج میں عوامی طور پر پڑھا گیا۔
ریفرنسز اور لنکس
  1. اہم احادیث
  2. خلفاء راشدین نے  کتابت  حدیث کیوں نہ کی؟ 
  3. رسول اللہ ﷺ کا حدیث کی درستگی اور پہچان کا میعار
  4. رسول اللہ ﷺ کی  وصیت کا انکار اور بدعت 
  5. قرآن ایک کتاب - تحقیق کے اہم نقاط و نتائج 
  6. حلال و حرام - قرآن کا نظریہ 
  7. آیات قرآن کو جھٹلانے والوں منکرین کا برا انجام 
  8. دین کی تعلیم " فقہ" کا اصل مطلب اور غلط فہمیاں !
  9. محدثین کا جھوٹ بولنا : مسلم حدیث:40
  10. Non Recited Revelations[ Ghair Matloo]: https://wp.me/pcyQCZ-ea
اختتامیہ 


ایک الله ، ایک رسول ، ایک کتاب قرآن
حضرت محمدﷺ کو وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح اور دوسرے پیغمبروں کو بھیجی تھی، ایک ہی طرح سے ، کسی متلو یا غیر متلو وحی کا ذکر نہیں ! إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚوَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ( قرآن 4:163) (اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی ہم نے وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور بھی عنایت کی تھی (4:163)
الله تعالی نے صرف قرآن کو وحی کہا اور اس کا وارث امت مسلمہ کو قرار دیا، کسی وحی غیر متلو. خفی کا نہ ذکر ہے نہ وارثت!
وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ هُوَ ٱلْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ ٱللَّـهَ بِعِبَادِهِۦ لَخَبِيرٌۢ بَصِيرٌ﴿٣١﴾
ثُمَّ أَوْرَثْنَا ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖفَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِۦ
وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِٱلْخَيْرَٰتِ بِإِذْنِ ٱللَّـهِ ۚذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ۔۔۔ (قرآن ٣٥:٣١،٣٢)
(اے نبیؐ) جو کتاب ہم نے تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے اُن کتابوں کی جو اِس سے پہلے آئی تھیں بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے (31) پھر ہم نے اس کتاب کا وارث @ بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے (قرآن ٣٥:٣١،٣٢)
@ صرف اس کتاب ، قرآن کا وارث مسلمانوں کو بنایا کسی اور کتاب کا وارث نہیں بنایا ، تو حدیث کی 75 کتب؟

 رسول اللہ ﷺ  نے قرآن کے سوا  کوئی وحی نہیں چھوڑی 

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبد العزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ میں اور شداد بن معقل ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گئے ۔ شداد بن معقل نے ان سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قرآن کے سوا کوئی اور بھی قرآن چھوڑا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی (وحی) چھوڑی ہے وہ سب کی سب ان دو گتوں کے درمیان صحیفہ میں محفوظ ہے عبد العزیز بن ربیع کہتے ہیں کہ ہم محمد بن حنیفہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور ان سے بھی پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی وحی چھوڑی وہ سب دو دفتیوں کے درمیان ( قرآن مجید کی شکل میں ) محفوظ ہے ۔[ صحیح بخاری حدیث: 5019]

قرآن: واحد وحی- فرمان علی ؓ 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مِنَ الْوَحْيِ إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وأن لا يقتل مسلم بكافر. [صحیح بخاری, حدیث نمبر: 3047]

ترجمہ:

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ ان سے مطرف نے بیان کیا ‘ ان سے عامر نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوجحیفہ ؓ نے بیان کیا کہ  میں نے علی ؓ سے پوچھا ‘ آپ حضرات  (اہل بیت)  کے پاس کتاب اللہ کے سوا اور بھی کوئی وحی ہے؟ آپ نے اس کا جواب دیا۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو  (زمین)  چیر کر  (نکالا)  اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں  (جو قرآن میں نہ ہو)  البتہ سمجھ ایک دوسری چیز ہے ‘ جو اللہ کسی بندے کو قرآن میں عطا فرمائے  (قرآن سے طرح طرح کے مطالب نکالے)  یا جو اس ورق میں ہے۔ میں نے پوچھا ‘ اس ورق میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ دیت کے احکام اور قیدی کا چھڑانا اور مسلمان کا کافر کے بدلے میں نہ مارا جانا  (یہ مسائل اس ورق میں لکھے ہوئے ہیں اور بس) ۔ [صحیح بخاری, حدیث نمبر: 3047]

نبی کریم  ﷺ کی  وصیت:کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو 

نبی کریم  ﷺ  نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی (‏‏‏‏ أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ)۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 5022)

 رسول اللہ ﷺ احادیث  لکھنے پر عام پابندی لگا دی 

أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ ؟ مَا أَضَلَّ الأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ "

"کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]]


 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]


پوسٹ لسٹ