رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

تحریف قرآن کی قرآن سے پکڑ : قرآن کا زندہ معجزہ

انّا نحن نزلنا الذکر و انّا لہ لحافظون


وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (قرآن:3:132)

 الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے

رساله تجديد الاسلام

پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بحالی کا پیغام

بسم الله الرحمن الرحيم

لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ


~~~~~~~~~~~~

شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا-  ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین  پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا

------------------

قرآن اور اسلامی مذہبی تاریخ کے گہرے مطالعه سےحیران کن حقائق کا انکشاف ہوا، جو پہلی صدی ہجری کے دین کامل کے احیاء کی ایمیت کو واضح کرتے ہیں۔ "أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ﷺ" کی بنیاد پر "رساله تجديد الاسلام" مسلمانوں کے انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی کا پیغام ہے-

------------------



صدیوں پرانی معنوی

تحریف قرآن کی قرآن سے پکڑ 

قرآن کا زندہ معجزہ

(اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا..[1])-(فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ[2])

 ( انّا نحن نزلنا الذکر و انّا لہ لحافظون [3])

تعارف

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ (قرآن  2:75)

"کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی" ۔(قرآن  2:75)[4]

کلام اللہ میں تحریف یہود کا شیوہ رہا ہے- امت مسلمہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن میں معنوی تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ (قرآن 41:40)[5]

"جو لوگ ہماری آیات کو اُلٹے معنی پہناتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھُپے ہوئے نہیں ہیں۔ بھلا بتاؤ کہ جس شخص کو آگ میں ڈال دیا جائے، وہ بہتر ہے، یا وہ شخص جو قیامت کے دن بےخوف و خطر آئے گا (اچھا) جو چاہو کرلو یقین جانو کہ وہ تمہارے ہر کام کو خوب دیکھ رہا ہے(قرآن 41:40)[6]

تحریف کسی اصل شئے میں ردو بدل کرنے کو کہاجاتا ہے۔ "کسی چیز کو اس کے اپنے اصلی مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنے کو تحریف کہتے ہیں- قرآن سے متعلق  تحریف کی دو قسمیں ہیں: 1)تحریف لفظی، 2) تحریف معنوی-

تحریف لفظی، سے مراد قرآن کی لفظی اعتبار سے کمی یا زیادتی ہے۔ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن لفظی اعتبار سے حجت اور معجزہ ہے۔ اس لئے اپنے نزول سے ابھی تک اس میں زیر و زبر کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے- البتہ کچھ افراد ہر زمانے میں تفسیریا ترجمہ کرتے ہونے اپنے عقیده و نظریات کے مطابق تشریح کر تے ہیں- اس طرح کی تحریف کہ ’انہوں نے حرفوں کو تو قائم رکھا مگر ان کے حدود میں تبدیلی کر دی (یعنی معنی بدل دیا)[7] اسے معنوی تحریف کہیں گے-

تفسیر بہ رای سے مراد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو اپنی تمایلات اور شخصی عقیدہ یا گروہی عقیدہ کے مطابق معنی و تفسیر کرے یا ان پر تطبیق کرے حالانکہ اس پر کوئی قرینہ یا شاھد موجود نہ ہو ایسا کرنے والا وقعیت میں قرآن کے حضور میں تابع اور اس کا مطیع نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کو اپنا تابع بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ قرآ ن مجید پر کاملا ً ایمان رکھتا تو ہر گز ایسا نہیں کرتا ۔ اگر ہر شخص اپنی میلان کے مطابق اس کے معنی اور تفسیر کرنے لگے گا تو ہر باطل عقیدہ قرآن کے اوپر تطبیق دیا جانے لگے گا ۔

تحریف قرآن کی قرآن سے پکڑ : قرآن کا زندہ معجزہ: : https://bit.ly/Tehreef-Quran

اللہ کی آیات کی تکزیب کرنے والوں کا انجام

تمام امتوں کے اہل علم  میں یہ عام بات ہے کہ وہ اپنے قائیم کردہ نظریات و عقائید کی کتاب اللہ سے مدد حاصل کرنے یا عقائید و نظریات کتاب اللہ کی واضح آیات کے برخلاف ہونے کی وجہ سے آیات کے معنی اپنی پسند کے نکالتے ہیں (معنوی تحریف)  ان کے متعلق اللہ کا فرمان ہے:

وَ يَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ فَوۡجًا مِّمَّنۡ يُّكَذِّبُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمۡ يُوۡزَعُوۡنَ ۞ حَتّٰٓى اِذَا جَآءُوۡ قَالَ اَكَذَّبۡتُمۡ بِاٰيٰتِىۡ وَلَمۡ تُحِيۡطُوۡا بِهَا عِلۡمًا اَمَّاذَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ۞ وَوَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَيۡهِمۡ بِمَا ظَلَمُوۡا فَهُمۡ لَا يَنۡطِقُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور جس روز ہم ہر اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو اُن کی جماعت بندی کی جائے گی ۞ یہاں تک کہ جب (سب) آجائیں گے تو اللہ فرمائے گا کہ کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلا دیا تھا اور تم نے ان پرعلمی احاطہ تو کیا ہی نہ تھا۔ بھلا تم کیا کرتے تھے ۞ اور اُن کے اپنی جانوں پرظلم کے سبب اُن کے حق میں وعدہ (عذاب) پورا ہوکر رہے گا تو وہ بول بھی نہ سکیں گے۞ (القرآن - سورۃ نمبر 27 النمل, آیت نمبر 83-85)

تفکر و تدبرقرآن

قرآن کی تلاوت میں اور اس کے معنی پر تفکر و تدبر بھی ہونا چاہئے اور یہ تفکر و تدبر اس پر عمل کرنے کے لئے مقدم ہونا چاہئے: (افلا یتدبرون القرآن ام علی قلو بھم اقفالھا) ترجمہ:  کیا وہ قرآن میں تفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پرقفل چڑھے  ہیں(قرآن: 47:24)[8]۔

واضح ہے اگر تفسیر بہ رای کرنے والا شخص صحیح و سالم ایمان کا مالک ہوتا تو کلام اللہ کو اسی معانی و مفاھیم کے ساتھ قبول کرلیتا اور اسے اپنے میل اور ھوا وھوس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرتا۔[9]

قادیانیوں کی تحریف قرآن 

 مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ‎﴿٤٠﴾

( مسلمانو ! ) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے (33:40 ) 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسی ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرے اور اس کی خونی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘ (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمر مکمل ہو چکی ہے ، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کے لیے کوئی آئے ) [ مسلم، ترمذی، ابو داوٗد،مُسند احمد]

 محمد رسول اللهﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا- اب کسی پر جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر نازل نہ ہوں گے- اگر مرزا صاحب کو ایسا محسوس ہوتا ہے یہ ان کا وھم ہے، جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں- 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح ، کھلے الفاظ میں قرآن کی آیات کی تشریح فرما دی تو اب کسی اور عالم کی تفسیر اس کو تبدیل نہیں کر سکتی- ایسا کرنا الله تعالی اور  رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی ، نہ فرمانی ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے جو کفر کی سزا ہے-  اب الفاظ کے کھیل سے ردو بدل کرنے سے کچھ حاصل نہیں، کہ سرہندی صاحب، یا ابن عربی صاحب نے کیا فرمایا یا کسی اور نے-  

اس محکم آیت  (33:40)  میں چودہ سو سال "خَاتَمَ النَّبِيِّينَ" کا مطلب آخری نبی ہے جس کے بعد کوئی اور نبی نہیں مگر مرزا صاحب اس کا معنی بدل کر مہر (stamp)  قرار دیتے ہیں تو پھر چودہ صدیوں میں بہت نبی ہونے چاہیئں جن پر مہر لگی ہو؟ اور آیندہ بھی سلسلہ  جاری رہے؟  لیکن ایسا نہیں ہے- قرآن اور حدیث میں معنوی تحریف بھی گناہ کبیرہ ہے- 

تفصیل :

  1.  لُغت کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی.....

  2. ختم نبوّت کے بَارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ......

  3. قادیانیت : https://bit.ly/Qadianiat

 اسماء قرآن

الله تعالی موقع کی مناسبت سے قرآن کو مخصوص ناموں یا اصطلاحات و صفات سے پکارتا ہے جیسے:

" فرقان (انفال/۲۹؛ آل عمران/۳و۴؛ فرقان/۱ و۔۔۔) ۔، کلام (توبه/۶)، کتاب (فاطر/۲۹؛ نساء/۱۰۵)، ذکر (آل عمران/۵۸؛ حجر/۹)، تنزیل/ (شعراء/۱۹۲؛ انسان/۲۳) ، مهیمن (مائده۔۴۸) ، هادی (جن/۱و۲)، نور (اعراف/۱۵۷) احسن الحدیث (39.23) حدیث (زمر۲۳/ کهف/۶) -

اس طرح قرآن کے پچاس سے زائد نام ہیں جو مضمون کی مناسبت سے اللہ نے منتخب اور استعمال کینے-

قرآن کا ایک اسم "حدیث" ہے ، مگر کسی مترجم ںے اس کو واضح کرنے کی کوشش تو کیا چھپایا، ترجمہ میں "کلام ، قرآن ، بات"  جیسے الفاظ استعمال کیے، حتی کہ بریکٹ میں بھی نہیں لکھا. یہ کوئی معمولی نظر انداز کرنے والی حدیث نہیں- اگر یہ کہا جایے کہ یھاں لفظ "حدیث" 'بات' کے معنی میں ہے تو عجیب سا لگے گا- ممکن ہے کہ قاری یہ سمجھے کہ شاید فرمان  رسول اللہ ﷺ کا ذکر ہے، مگر ایسی کوئی بات نہیں ایسا کرنا بدنیتی، دھوکہ، "کتمان حق"[10] ہو گا جو کہ گناہ کبیرہ ہے-

"بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (قرآن: 2:159)[11]

"اور حق کو باطل کے ساتھ خَلط مَلط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ(قرآن 2:42)[12]

 فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ‎﴿٦﴾

 ترجمہ : پس اگر یہ لوگ اس "حدیث" پر ایمان نہ ﻻئیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟ (قرآن 18:6)

جن آیات قرآن میں ، قرآن کو "حدیث" کہا گیا ، اردو تراجم میں لفظ "حدیث" کا ذکر نہیں ، "کلام ، بات ، قرآن" کہتے ہیں- انگریزی کے پچاس تراجم میں صرف دو حضرات نے مذکورہ آیات میں حدیث کو حدیث ہی لکھا- جو نام قرآن کا الله تعالی نے پسند فرمایا وہ علماء کو کیوں پسند نہیں؟ اگر یہ خدشہ ہے کہ حدیث  رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غلط فہمی نہ ہو تو مترجم اس کو بریکٹ میں کلیئرکر سکتا ہے، مگرقرآن کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم مبارک کا مکمل مقاطعة (boycott) بہت سے شکوک اورسوالات کھڑے کرتا ہے-

اہم نقطۂ

کسی ایک آیت میں جہاں الله تعالی نے قرآن کو "فرقان" کہا، تو اگر ترجمہ یا تفسیر میں "فرقان" کی جگہ کوئی اور نام جیسے، "کلام" استعمال کریں تو تفسیر یا ترجمہ میں یہ تحریف معنوی ہو گی اگرچہ  "کلام" بھی قرآن ہی کا دوسرا نام ہے جو قرآن میں بھی موجود ہے- یہ بہت اہم نقطۂ ذہن نشین کر لیں! مثال پر غور فرمائیں:

مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ‎﴿٤﴾

ترجمہ : اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے (جو حق اور باطل کا فرق د کھانے والی ہے) اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے (قرآن 3:4)[13](تفہیم القرآن )

"فرقان" کا معنی؛  کسوٹی (جو حق اور باطل کا فرق د کھانے والی ہے)، مترجم نی واضح بھی کر دیا-

اگر "فرقان" کے ترجمہ یا تفسیرمیں قرآن کا متبادل نام "کلام" یا دوسرے نام کر دیں تو دیکھیں کیسا لگتا ہے :

تحریف ترجمہ کی مثال :

"اور اس نے "کلام/ نور/ کتاب/ ذکر/ ... " اتارا ہے اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے"(مثال تحریف strikethrough)

کچھ تراجم پیش ہیں ان پر غور، تدبرو تفکر کی ضرورت ہے، خاص طور پر آخری دو 12, 13:

تراجم:

  1. {محترمہ رفعت اعجاز} اور اس نے وہ کسوٹی تیار کی ہے (جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے) اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی اللہ بےپناہ طاقت کا مالک ہے اور (برائی کا) بدلہ دینے والا ہے
  2. {مولانا فتح محمد جالندہری} (یعنی) لوگوں کی ہدایت کے لیے پہلے (تورات اور انجیل اتاری) اور (پھر قرآن جو حق اور باطل کو) الگ الگ کر دینے والا (ہے) نازل کیا جو لوگ خدا کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کو سخت عذاب ہوگا اور خدا زبردست (اور) بدلہ لینے والا ہے
  3. {مفتی محمد تقی عثمانی} جو اس سے پہلے لوگوں کے لیے مجسم ہدایت بن کر آئی تھیں، اور اسی نے حق و باطل کو پرکھنے کا معیار نازل کیا۔ ۔ بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا ہے ان کے لیے سخت عذاب ہے، اور اللہ زبردست اقتدار کا مالک اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے
  4. {امام احمد رضا خان} لوگوں کو راہ دکھاتی اور فیصلہ اتارا، بیشک وہ جو اللہ کی آیتوں سے منکر ہوئے ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب بدلہ لینے والا ہے،
  5. {علامہ طاہر القادری} (جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لئے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بیشک جو لوگ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے سنگین عذاب ہے، اور اﷲ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے،
  6. {مولانا عبد السلام بھٹوی} اس سے پہلے، لوگوں کی ہدایت کے لیے۔ اور اس نے (حق و باطل میں) فرق کرنے والی (کتاب) اتاری، بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور اللہ سب پر غالب، بدلہ لینے والا ہے۔
  7. {مولانا عبد الرحمٰن کیلانی} اور (ان کے بعد) فرقان (قرآن مجید) نازل کیا (یعنی جو حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے) اب جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کریں انہیں سخت سزا ملے گی اور اللہ تعالیٰ زور آور ہے (برائی کا) بدلہ لینے والا ہے
  8. {مولانا امین احسن اصلاحی} اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر۔ اور پھر فرقان اتارا۔ بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا، ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب اور انتقام لینے والا ہے۔
  9. {ڈاکٹر اسرار احمد} اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے اور اللہ نے فرقان اتارا بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے انتقام لینے والا ہے
  10. {ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی} اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور اس نے کسوٹی اتاری ( جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے) بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب اور انتقام لینے والا ہے
  11. {علامہ جوادی} اس سے پہلے لوگوں کے لئے ہدایت بنا کر اور حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب بھی نازل کی ہے بیشک جو لوگ آیااُ الٰہی کا انکار کرتے ہیں ان کے واسطے شدید عذاب ہے اور خدا سخت انتقام لینے والا ہے
  12. {محمد حسین نجفی} اور اسی نے اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لئے تورات و انجیل نازل کی۔ اور (حق و باطل کا) فیصلہ کن "کلام" نازل کیا۔ بلاشبہ جو لوگ آیاتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے لیے بڑا سخت عذاب ہے۔ خدا زبردست ہے (اور برائی کا) بدلہ لینے والا ہے۔ ["کلام" کے ساتھ  (حق و باطل کا) شامل کرکہ ترجمہ واضح کر دیا-
  13. {مولانا محمد جوناگڑہی} اس سے پہلے، لوگوں کو ہدایت کرنے والی بنا کر، اور قرآن بھی اسی نے اتارا، جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے، بدلہ لینے واﻻ ہے- [ "فرقان" کی جگہ "قرآن" لکھا مگر"فرقان" اور "قرآن " ذو معنی نہیں اگرچہ قرآن ہی کے اسماء ہیں- اس آیت کی روح "فرقان"  کسوٹی ( جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے) ہے کیونکہ "جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے انتقام لینے والا ہے" کا "فرقان" سے گہرا واسطہ ہے جو اس ترجمہ میں ناپید ہے-

یھاں ضمنی طور پر یہ اہم بات کہ جب قرآن ، فرقان (کسوٹی ،حق و باطل میں فرق کرنے والا) ہے تو احادیث کے میعار کو اس کسوٹی سے پرکھنے میں کیا رکاوٹ حائل ہے؟ جبکہ  رسول اللہ ﷺ کا یہی حکم ہے[14]،[15]

صدیوں سے جاری معنوی تحریف قرآن

قرآن نے واضح آیات احکام[16] سے قرآن کو (اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا) "بہترین کتاب حدیث"  قرار دیا اور تین مختلف آیات میں کسی اور"حدیث"  پر ایمان کی ممانعت فرمائی (فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ)-[17]. اس میں کوئی استثنیٰ نہیں کہ  رسول اللہ ﷺ  سے منسوب کتب حدیث پر ایمان لانے میں کوئی حرج نہیں! بلکہ رسول اللہ ﷺ نے "کتاب حدیث" بنانے سے منع فرمایا[18] اور اپنے اقوال کو سمع، حفظ و بیان کی تلقین فرمائی[19]- کچھ صحابہ کو کمزوری حفظ کی مجبوری پر نوٹس کی اجازت دی اور بہت کو انکار- اس پر بحث مباحث  کا کوئی جواز نہیں بنتا  جب  رسول اللہ ﷺ ںے اختلافات میں اپنی سنت اورسنت خلفاء راشدین کی سنت پر سختی سے عمل کی وصیت فرمائی[20] اور ان سب کی سنت میں اور صحابہ اکرام (رضی الله) سے کوئی کتاب حدیث  نہیں بلکہ ممانعت ہے[21]. اطاعت  رسول اللہ ﷺ  کی بجاۓ نافرمانی  رسول اللہ ﷺ کا انجام  بہت خوفناک ہے :

وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾      

اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)

بعد میں کتب احادیث لکھنے والوں اور ان کے پیروکاروں نےقرآن کی  واضح آیات احکام[22] کی معنوی تحریف اور کتمان حق کرکہ "کتب حدیث" مدون کرنے  کے جوازکو مظبوط کرنے کی کوشش کی -

ممانعت حدیث کی آیات میں واضح  عربی  لفظ اورمروج  اصطلاح "حدیث " کا مطلب ترجمہ اور مفہوم میں تبدیل کرکہ  "کلام/"بات" "بن گیا- اگرچہ  "حدیث " کا معنی  "کلام /"بات" بھی عربی میں درست  ہیں مگر الله نے حدیث کی ممانعت کے لیے خاص طور پر دوسرےالفاظ  جیسے "کلام الله" یا  "آیات" استعمال نہ  کیۓ -  
  1. [اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا] ترجمہ : اللہ نے بہترین حدیث اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے-(قرآن 39:23) 
  2.  اور قرآن نے یہ کہہ کر :[فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ] ترجمہ : اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ (المرسلات 77:50، (الأعراف 7:185]
  3. [ فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَ اللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ یُؤۡمِنُوۡنَ] ترجمہ : "تو پھر اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کے بعد اب یہ لوگ کون سی حدیث  پر ایمان لائیں گے" الجاثية45:6) 
  4. کسی اور کتاب حدیث کا معاملہ ختم کردیا، ان آیات سے مجموعی طور پر یہ مفھوم نکلتا ہے کہ:

اللہ نے بہترین حدیث اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے،  اب اِس (قرآن) کے بعد کسی اور (کتاب) حدیث پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں- ایمان کے چھ بنیادی ارکان میں بھی آخری کتاب قرآن شامل ہے، کوئی اور کتاب یا کتب حدیث نہیں-

حدیث نبویﷺ، کلام و اقوال  رسول اللہ ﷺ ہیں- جب قرآن کی اس موضوع پر آیات[23] پر غور کریں تو کتاب کا زکر بھی آتا ہے  [اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا] اور قرآن کتاب ہی تو ہے- قرآن ، حدیث /کلام اللہ ہے تو کلام  رسول اللہ ﷺ ، حدیث کے نام سے معروف ہے جس کی کتابت سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا بلکہ "حدیث" کی بجایے لفظ قول (مَقَالَتِي)[24] استعمال کیا- کتاب صرف ایک ، کتاب الله  قرآن ہے

اہم نقاط :

  1. الله تعالی نے اور کتاب یا کلام کی ممانعت کا حکم دیا گیا تو بطور خاص "حدیث" کا لفظ متخب کیا- پہلے قرآن نے اپنے آپ کو "اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا" (حدیث کی بہترین کتاب) قرار دیا- پھر قرآن نے اپنے علاوہ "حدیث" کی کسی اور (کتاب) پر ایمان لانے سے منع کردیا (فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ)، جبکہ ایمان[25] کے چھ اراکین میں بھی یہ شامل ہے کہ آخری کتاب صرف قرآن ہے-
  2. لفظ "حدیث" کلام  رسول اللہ ﷺ کے لیے استعمال ہو رہا تھا اور آج تک ہو رہا ہے- سوال یہ ہے کہ الله تعالی نے خاص طور پرقرآن کے لیے اور پھر ممانعت میں لفظ "حدیث" کیوں استعمال کیا؟ دماغ پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی ضرورت نہیں:
  3. اللہ  نے رسول الله محمد ﷺ پر یہ کتاب قرآن  نازل کیا  اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی،  بلکہ یہ سیدھی اور آسان کتاب ہے---- (مفھوم، قرآن2 -18:1)
  4. تو سیدھا اور آسان مطلب یہ ہے کہ اللہ نے لفظ "حدیث" اس لیے منتخب کیا کہ اللہ کو علم ہے کہ کتب حدیث لکھ کر قرآن کو مہجور (ترک العمل)[26] کر دیا جایے گا، یہ وارننگ ہے یا اتمام حجت (واللہ اعلم)
  5. کیا کوئی اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ قرآن میں [فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ] بار بار دہرانے کا کوئی مقصد نہیں؟
تحریف قرآن کی قرآن سے پکڑ : قرآن کا زندہ معجزہ  

ایک مہربان نے مشورہ دیا کہ کسی عالم سے سیکھیں وہ آپ کو سمجھائےگا کہ قرآن نے آیات مزکورہ[27] میں جو "حدیث" پر ایمان سے منع کیا ہے اس کا مطلب "کلام" ہے-


  1. اکثر علماء صاحبان تو "
    کتب حدیث" کو عملی طور پر قرآن پر ترجیح دیتے ہیں، قرآن کے اسم مبارکہ "حدیث" کو تراجم میں بھی لکھنا پسند نہیں فرماتے اور احقر کا عالم تو کتاب اللہ قرآن اور  رسول اللہ ﷺ ہیں-
  2. جب لفظ "کلام" قرآن میں تلاش کیا تو سب سے پہلے جو  آیت ملتی ہے، وہ جواب ہے الله تعالی کی طرف سے ان لوگوں کے لیے (سبحان الله) جو لفظی تحریف کرتے ہیں اور قران کے علاوہ کسی اور کتاب / کتب حدیث پر ایمان رکھتے ہیں، الله تعالی کا فرمان ہے:
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‎﴿٧٥﴾
"اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ کلام اللہ کو سن کر،اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کرتے ہیں" (قرآن 2:75)[28]
یہ قرآن کا زندہ معجزہ ہے،( "کلام الله" قرآن میں سرچ لنک پر پہلی آیت ابھی دیکھی جا سکتی ہے) الله تعالی کو علم تھا کہ رسول اللہﷺ کی بار بار تاکید کے باوجود مسلمان یہود و نصاری کے راستہ پر چلتے ہوۓ کتب حدیث لکھنے سے باز نہیں آیئں گے، تو قرآن میں "کلام اللہ" یا "آیات" "فرقان" یا پچاس سے زیادہ کسی دوسرے نام کی بجاۓ قرآن کے لیے اسم "حدیث" استعمال کیا تاکہ کوئی شک باقی نہ رہے اورنافرمانوں پر اتمام حجت پورا ہو جاۓ- مگر کلام الله میں تحریف کرنا، کتمان حق، بھی یہود ونصاری کا شیوہ ہے جو"کتب حدیث" کے شوقین حضرات نے کر ڈالا تاکہ یہود و نصاری کی پیروی سے جو  رسول اللہ ﷺ ںے بار بار تاکید سے منع فرمایا تھا[29]، ان کی نا فرمانی میں کوئی کسر باقی نہ رہ جاۓ-
 قابل غور ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حدیث لکھنے سے منع فرماتے ہیں تو فرماتے  ہیں؟ (مفھوم)

کیا تم کتاب اللہ  کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہیں؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ  انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔
کتاب اللہ کی موجودگی میں ایک اور کتاب؟[30]
مت لکھو میرا کلام (حدیث) اور جس نے لکھا کچھ مجھ سے سن کر تو وہ اس کو مٹا دے[31]، [32]
 رسول اللہ ﷺ  کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر لکھنے کی اجازت دیتے ہیں[33] مگرمستقبل کے مفسرین، علماء محدثین، ہزاروں احادیث کےراوی حضرت ابو ھریرہ (5374 احادیث)[28] ، عبدللہ بن عبّاس (2660) ، عبدللہ بن مسعود[29]( 80)[30]، عبداللہ بن عمر(2630) ، زيد بن ثابت، کاتب وحی  (92)، ابو سعید خضری[31] (1170) (رضی الله تعالی عنہم ) یہ صحابہ جو بہترین کتب احادیث لکھ سکتے تھے ان کو اجازت نہیں دیتے[34] اور وہ مرتے دم تک نہیں لکھتے، دوسروں کو منع کرتے کرتے فوت ہو جاتے ہیں- اگر پابندی عارضی تھی تو کیا ان کو علم نہ تھا؟ اگر یہ لاعلم تھے تو ان کی احادیث کیوں نہیں مسترد کرتے؟ باقی کیا بچے گا؟ اور  زيد بن ثابت تو کاتب وحی ہیں اور قرآن کی تدوین بھی کی، کیا ان کا حافظہ کمزور اور لا علم تھے توپھرقرآن کیسے مدون کر لیا؟ کوئی حد ہوتی ہے (disinformation) اور جھوٹے پراپیگنڈہ کی -
  1.  نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا  [صحیح مسلم,  حدیث نمبر: 40][35]
  2.  رسول اللہ ﷺ اختلافات میں اپنی سنت اور خلفاء راشدین کی سنت پر سختی سے عمل ، دانتوں سے پکڑنے اور بدعة سے بچنے کی وصیت فرماتے ہیں- سنت  رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین میں کتب حدیث شامل نہیں بلکہ پابندی-  رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی میں کتب حدیث لکھی گیئں-
  3. اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ میں "کتب حدیث"  کے علاوہ کون سی کتاب یا کتب قرآن کے مقابل یا ساتھ رکھی گئیں؟  جن کی وجہ سے قرآن مھجور(متروک العمل[36] ) ہوا؟
  4. لفظ "حدیث[37]" جب نزول قرآن ہو رہا تھا  رسول اللہ ﷺ کے اقوال کے لیے بھی استعمال ہو رہا تھا-[38] اور مترجم قرآن اس کا اردو ترجمہ "کلام /بات" کر رہے ہیں جیسے کہ حدیث[39] کا مطلب صرف "کلام" ہے- لفظ "حدیث" رسول اللہ ﷺ کے  کلام اور اقوال لیے اب بھی مروج ہے- قرآن ایک کتاب ہے تو اس لے مقابل کوئی "کتاب حدیث" ہی ہو سکتی ہے-
  5. ترجمہ کسی بھی زبان میں ہو ،  قرآن نہیں ہوتا ، قرآن اصل عربی میں ہے … اور عربی سے واقف شخص   "حدیث " کو " حدیث " ہی پڑھے گا .، اس کو سیاق و سباق بھی سمجھ اتا ہے- اب تو تمام دنیا کو علم ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے اقوال ، فرمان والی کتاب کو  "حدیث" کہتے ہیں، جو اصطلاح کی حثیت رکھتا ہے نزول قرآن کے وقت بھی اور آج بھی  [لفظ "حدیث"اب تمام دنیا، انگلش اور کئی زبانوں میں شامل ہو چکا ہے ]-
  6. لفظ "حدیث" قرآن میں مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے- اس کا درست مطلب قرآن میں سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے- قرآن ایک کتاب ھدایت ہے، اس کے مقابل "حدیث" کی کتاب ہی ہو سکتی ہے- حدیث کے دوسرے معنی؛ بات، قصہ ، کہانی، خوابوں کی تعبیر، نشان عبرت مذکورہ آیات سے متعلق نہیں- 
  7. ترجمہ میں لفظ "حدیث" کی جگہ "کلام" کومتبادل کے طور پر لگا کر دیکھتے ہیں:
  • [اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا] (قرآن) کلام (حدیث) کی بہترین کتاب ہے-
  • "کلام" رسول اللہ ﷺ کو "حدیث" کہتے ہیں-
  • فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسے کلام (حدیث) پر یہ ایمان لائیں؟
  • "کلام"  رسول اللہ ﷺ کو "حدیث" کہتے ہیں-
  • "حدیث" کا متبادل "کلام" جب ایک آیت میں کرتے ہیں تو دوسری جگہ بھی متبادل ہو گا- بات تو ایک ہی ہے مگر کتمان حق!
  • یہ ایک عجیب بات ہو گی مذکورہ آیات میں "حدیث" کا ترجمہ "کلام" ہو اور رسول اللہ ﷺ کے کلام  کو "حدیث" کہیں- یہی تو تحریف ہے-
  • لفظ "حدیث" قرآن میں دوسرے معنی "قصص" ، "خوابوں کی تعبیر"  "عام باتیں" وغیرہ سیاق و سباق سے واضح ہوتا ہے- ان معنی کو  سیاق و سباق سے ہتا کر دوسری جگہ فٹ نہیں کیا جا سکتا-
  1. جو تفصیل میں جایے تو سب واضح ہو جاتا ہے ہے کہ قرآن کے علاوہ کسی بھی کلام یا حدیث کی کتاب پرایمان لانا ممنوع ہے-  
  2. ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے : نہ کہیں لذّتِ کردار، نہ افکارِ عمیق حلقۂ شوق میں وہ جُرأتِ اندیشہ کہاں : آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق! خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدل دیتے ہیں: ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق! ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب : کہ سِکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق! [اقبال]


ضمیمہ1

رسول اللہ ﷺ  کی اطاعت کے احکام، نافرمانی  کی سزا جہنم

  1. مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
  2. جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)
  3. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  "--- جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی....[رواہ ابو ہریرہ، البخاری،2957][40]
  4. وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾      
  5. اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14 ﴾
  6. تمام احکام مذکورہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں اور اس کے مقرر کردہ ضابطے ہیں  جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ و رسول کا کہنا نہ مانے گا اور اس کی باندھی ہوئی حدوں کو توڑ کر بڑھ جائے گا اور اس کے مقررہ ضابطوں سے تجاوز کرنے پر اصرار کرے گا اور اس کے قوانین کی بالکل خلاف ورزی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کردے گا۔ اور اس کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس آگ میں ہمیشہ ہمیش پڑا رہے گا اور اس کو ذلت و اہانت آمیز اور رسوا کن عذاب ہوگا-[41]
  7. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾
  8. اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو (قرآن 47:33)
  9. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾  إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
  10.  اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن؛ 8:22)
  11. ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا[42]
  12.  جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔(قران 59:7)[43]
  13. یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)
  14. اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواور سن کر اس سے منہ نہ پھیرو ۔ (الانفال : ۲)
  15. یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا ﴿۶۶﴾
  16. "جس دن ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں۔تو وہ کہیں گے کاش! ہم نے اللہ کی اور رسول  صلی الله علیہ وسلم  کی اطاعت کی ہوتی۔"(الاحزاب:66)
  17. یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا ﴿٪۴۲﴾  3
  18. "جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالٰی سے کوئی بات نہ چھُپا سکیں گے ۔۔" (النساء: 42)
  19. وَ یَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیۡہِ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا ﴿۲۷﴾
  20. اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کو (شرمندگی اور ندامت سے) کاٹتے ہوئے کہے گا،ہائے کاش! میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  کے طریقہ کو ہی اپناتا۔"(الفرقان: 27)
  21. وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ {ترجمہ: ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:256قرآن)}


Footnotes/ Links

[1]  [اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا] ترجمہ : اللہ نے بہترین حدیث اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے-(قرآن 39:23) 

[2]  [فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ] ترجمہ : اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ (المرسلات 77:50، (الأعراف 7:185، الجاثية45:6)

[3]  ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی قطعی طور پر اس کی حفاظت کریں گے (سورہ حجر، آیت ۹)

[7] http://www.taghribnews.com/ur/article/63202/،  امام محمد باقر(رح) :‘‘انھم اقامو احروفہ و حرّفولحدودہ فھم یروون ولا یرعون۔

[38] الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303]

[41] [ماخوز ازتفسیر،کشف الرحمان، احمد سید دہلوی] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/14


"لو اب تم ایسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے "(سورة الأنعام, 6:94)[44]




"رساله تجديد الاسلام" بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ریٹائرڈ) کی تحقیقی کاوش ہے- آپ فری لانس مصنف ، محقق اور بلاگر ہیں، پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں ماسٹرزکیا ہے اور قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب، تعلیمات اور پیروکاروں کے مطالعہ میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت صرف کیا ہے-  وہ 2006 سے " Defence Journal کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ان کی منتخب تحریریں پچاس سے زائد کتب میں مہیا [ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی  کام کو 4.5 ملین تک رسائی ہو چکی ہے:

https://SalaamOne.com/About

Books and Article by By  Brigadier Aftab Khan (r)

رساله تجديد الاسلام

Author: Brig Aftab Ahmad Khan (r)

اردو -  (اس ترتیب میں پڑھیں )

  1. رساله تجديد الاسلام - انڈکس: ویب سائٹ :  https://bit.ly/Tejdee0d-Islam
  2. مصادر الإسلام: -https://bit.ly/IslamicSources-pdf \ https://bit.ly/Islamic-Sources
  3. تحریف قرآن کی قرآن سے پکڑ -قرآن کا زندہ معجزہ  : https://bit.ly/Tehreef-Quran
  4. رساله تجديد الاسلام: مقدمہ-  ویب سائٹ : https://bit.ly/Tejddeed

 https://bit.ly/تجدیدالسلام-مقدمہ  PDF

  1. تجديد الاسلام تحقیق( :  https://bit.ly/Tejdeed-Islam-PDF (Pdf eBook
  2.  تجديد ایمان Web https://bit.ly/Aymaan /  https://bit.ly/Aymaan-g
  3. شفاعت اور شریعت : https://bit.ly/Shfaat   \ https://bit.ly/Shafaat-pdf
  4. رسول اللہ ﷺ کا میعار حدیث: https://bit.ly/Hdees
  5. مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ :  https://bit.ly/Muslim-Tragedy
  6. Important Hadiths اہم احادیث: https://bit.ly/Hadiths 
  7.  متضاد عقائد و نظریات: https://bit.ly/WrongBeliefs-Pdf  https://bit.ly/Wrong-Beliefs
  8. Google Doc (Urdu): https://bit.ly/3jsw67y
  9. Full Research  Google Doc (Urdu): http://bit.ly/31lYQV3 

English

  1. Web  link: https://wp.me/scyQCZ-tajdid
  2. Exclusive Website: https://Quran1book.wordpress.com
  3. Download/ Share  eBooklet- pdf: http://bit.ly/3s6eEse
  4. Full Research (Web): https://wp.me/scyQCZ-index
  5. Full Research (Google Doc): https://bit.ly/3fM75jH
  6. Contact: https://www.facebook.com/IslamiRevival/inbox
  7. E Mail: Tejdeed@gmail.com

ایک عالم دین سے مکالمہ

16 - Q

  کیا اللہ تعالی نے قرآن میں 4 آیات میں قرآن کے علاوہ  کسی اور "حدیث،  کتاب " کا انکار نہیں فرمایا ؟ 

آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم ....[.....]

----------------------

Q -15,16..  ASJ said:

عالم دین (ASJ :) صاحب کا جواب :

الله تعالى نے قرآن من 4 آيات مين ... يه اعتراض سطحي ے جس چيز سے منع كيا گیا ہے وه مخالفت هڭم ہے رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كي سنت حديث قرآن هي كا حكم ہے-

نقطة نمبر 4 مين ذكر كيا ہے اور بهي آيات ہين قرآن حكيم ہمين سنت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كا حكم ديتا ہے كسي كے ذهن مين *حديث* كا جو لفظ قرآن مين آيا ہے اس سے كسي كو اشكال هے كے قرآن كي علاوه حديث صحيح نهين تو يه فهم صحيح نهين حديث والي آيات جمع كرين تو ايک معنى نهين اس كے مختلف معنى ہين سياق وسباق مختلف ہونے كي وجه سے معنی مختلف ہے 


1- كتاب الله قرآن مراد ہے 

أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ* سورة الأعراف 186، 

 کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں جو چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں ان پر نظر نہیں کی اور اس بات پر (خیال نہیں کیا) کہ عجب نہیں ان (کی موت) کا وقت نزدیک پہنچ گیا ہو۔ تو اس کے بعد وہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے".  قال ابن عباس رضي الله عنهما "فَبِأَي كتاب بعد كتاب الله" الله كي كتاب بعد كونسي كتاب .


- فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا* سورة الكهف: 6،

- تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ* سورة الجاثية:6، 

- فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُون*َ سورة المرسلات :77.

- اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ* سورة الزمر: 23.

أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُون*َ سورة النجم: 59.

تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ* سورة الواقعة:80-81.

فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُون*َ سورة القلم: 46.


2- سابقه أنبياء عليهم السلام اوو سابقه قومون ے قصص، (قرآن شريف كي صورت مين يا وحي غير متلو كي صورت مين)


وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسیَ* سورة طه: 9، السورة النازعات: 79، اور کیا تمہیں موسیٰ (کے حال) کی خبر ملی ہے. 

هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِين*َ سورة الذاريات 24،

هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُود*ِ سورة البروج: 17،

هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَة*ِ سورة الغاشية : 88.

3-عام باتین مراد هيں 

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا* سورة النساء: 140،

وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِين*َ، سورة الأنعام: 68.

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ* سورة لقمان:31.

4- نشان عبرت مراد

ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُون*َ سورة المؤمنون: 44.

فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُور*ٍ سورة سبأ: 19.

5-خوابون كي تعبير مراد

وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيم*ٌ سورة يوسف : 6.

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ* سورة يوسف: 21.

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ* سورة يوسف: 101.

والله أعلم ورسوله صلى الله عليه وآله وسلم

……………………………..

Q-15, 16 ...Response by AAK

جواب در جواب 
قرآن کو "کتاب اور حدیث" … کہا گیا… پھر مطلب واضح   ہوگیا  
قرآن مین ایک لفظ مختلف معنی میں استعمال بھی ہوتا ہے 
آپ سے متفق کہ قرآن می کوئی ایک لفظ ایک سے زیادہ معنی میں استمال ہوتا ہے … 
سیاق و سباق سے واضح ہو جاتا ہے کہ کیا مطلب ہے .. 
احادیث کی ممانعت ........... [......]
اور یہ بھی کہ ایک لفظ ایک ہی جگہ ایک سے زیادہ معنی  میں استعمال بھی ہوتا ہے … 
اتفاق ہے کہ آج کل سورہ نساء زیر مطالعہ ہے تو یہ آیت ملی..
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿۲۹﴾
 اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ   ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید وفروخت   ، اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو  یقیناً اللہ تعالٰی تم پر نہایت مہربان ہے ۔   [سورة النساء 4  آیت: 29]
 اس میں [ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ]  
اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو  ..    اور نہ خون کرو آپس میں ….    آپس میں (ایک دوسرے کو) قتل نہ کرو ….   اور اپنی جان کو ہلاک نہ کرو۔ ... اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو ….
تفسیر مختلف ہیں:
اس کے تین معانی ہوسکتے ہیں  اور تینوں مراد ہیں:

1. پہلا یہ کہ شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے حقیقی باہمی رضا مندی کے بغیر اگر لین دین کرو گے تو اس کا نتیجہ آپس میں قتل و غارت ہوگا، جیسا کہ جوئے کے نتیجے میں ہارنے والے کے ہاتھوں کئی جیتنے والے قتل ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کام مت کرو۔ .
2. دوسرا یہ کہ ایک دوسرے کو قتل مت کرو، کیونکہ یہ اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے اور
3. تیسرا یہ کہ خود کشی مت کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص نے چھری کے ساتھ اپنے آپ کو قتل کیا تو جہنم میں چھری اس کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ اس کے ساتھ اپنے پیٹ کو پھاڑے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی میں رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو زہر سے قتل کیا تو جہنم میں اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا، جسے وہ گھونٹ گھونٹ کر کے پیے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی میں رہے گا اور جس نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں گرتا رہے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہے گا۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان غلظ تحریم۔۔ : ١٠٩، بخاری : ٥٧٧٨، عن أبی ہریرۃ (رض) ] .. [ تفسیر القرآن .. عبدلسلام بھٹوی]

تفسیر (معارف القرآن ) مفتی محمد شفیع : 

خود کشی کی حرمت :۔ اس جملہ کے تین مطلب ممکن ہیں۔ 

١. ایک یہ کہ اسے سابقہ مضمون سے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کر کے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ 

٢اور اگر اسے الگ جملہ سمجھا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں۔ 

ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو یعنی قتل ناحق، جو حقوق العباد میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور قیامت کو حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل ناحق کے مقدمات کا ہی فیصلہ ہوگا۔ اور


دوسرا مطلب یہ کہ خودکشی نہ کرو۔ کیونکہ انسان کی اپنی جان پر بھی اس کا اپنا تصرف ممنوع اور ودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ چناچہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے کسی کو ایک پھوڑا نکلا۔ جب اسے تکلیف زیادہ ہوئی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور پھوڑے کو چیر دیا۔ پھر اس سے خون بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔ (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) حسن نے اپنا ہاتھ مسجد کی طرف بڑھایا اور کہا اللہ کی قسم مجھ سے یہ حدیث جندب (بن عبداللہ بجلی) نے بیان کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مسجد میں۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ)


تفہیم القرآن (ابوالا اعلی مودودی )

یہ فقرہ پچھلے فقرے کا تتمہ بھی ہوسکتا ہے اور خود ایک مستقل فقرہ بھی۔ اگر پچھلے فقرے کا تتمہ سمجھا جائے

1. تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ دنیا میں اس سے نظام تمدن خراب ہوتا ہے اور اس کے برے نتائج سے حرام خور آدمی خود بھی نہیں بچ سکتا۔ اور آخرت میں اس کی بدولت آدمی سخت سزا کا مستوجب بن جاتا ہے

2.. اور اگر اسے مستقل فقرہ سمجھا جائے تو اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ دوسرے یہ کہ خود کشی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے جامع استعمال کئے ہیں اور ترتیب کلام ایسی رکھی ہے کہ اس سے یہ تینوں مفہوم نکلتے ہیں اور تینوں حق ہیں۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :52 یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا خیر خواہ ہے، تمہاری بھلائی چاہتا ہے، اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسے کاموں سے منع کر رہا ہے جن میں تمہاری اپنی بربادی ہے۔ ..  [Ahsan ul Bayan by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3.اس سے مراد خود کشی بھی ہوسکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکاب معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی کیونکہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہے۔ اس لئے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔ 

Reference:  

http://trueorators.com/quran-translations/4/29

لفظ / اصطلاح -- حدیث - قرآن میں 


قرآن کے  مطابق  کسی اور کتاب، حدیث کی کوئی گنجائش نہیں :


(1) .اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ سورة الزمر 39 آیت: 23  (قرآن 39:23)

اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے (قرآن 39:23)

(2.) .تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاثية45:6)

یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی  حَدِيثٍ پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)

(3) .فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ  ( المرسلات 77:50) 
اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)

(4). فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ   (الأعراف 7:185)  
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)

اہم نقاط :
  1. ترجمہ کسی ببھی زبان میں ہو ،  قرآن نہیں ہوتا ، قرآن اصل عربی میں ہے … اور عربی سے واقف شخص   "حدیث " کو " حدیث " ہی پڑھے گا .، اس کو سیاق و سباق بھی سمجھ اتا ہے ، اور عربی زبان والے کو علم ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے اقوال ، فرمان والی کتاب کو  "حدیث" کہتے ہیں، جو اصطلاح کی حثیت رکھتا ہے نزول قرآن کے وقت بھی اور آج بھی  [اب تمام دنیا، انگلش اور کئی زبانوں میں شامل ہو چکا ہے ]- 
  2. قرآن کے مقابل "حدیث" کی کتاب ہی ہو سکتی ہے "بات" یا قصہ ، کہانی ، خوابوں کی تعبیر ، نشان عبرت وغیرہ نہیں ہے - 
  3. حدیث کی کتابوں میں اکثریت   رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے اقوال ، فرمان اور عملی اقدام ہیں جسے سنت کہتے ہیں- 
  4. حدیث کتب لکھنے والوں نے کتابوں کے نام "حدیث" نہیں رکھے بلکہ "سنن" رکھے ، جبکہ وہ "حدیث" کی بھی  کتب ہیں- یہ اس لیے کیا کہ قرآن میں کسی اور "حدیث" یعنی "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع فرمایا گیا ہے ، یھاں حدیث کے دونوں معنی  ،(١) کتاب حدیث  اور (٢) بات ، قول … لاگو ہوتے ہیں - جیسا پہلے بیان کیا [ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ]  [سورة النساء 4  آیت: 29]  تفصیل سے کہ ایک جگہ ، ایک لفظ کے تین مطلب لاگو ہوتے ہیں -
  5. اور آج بھی پوری دنیا میں حدیث کی کتب کو " سنن " کوئی نہیں کہتا ان کو حدیث کی کتب ہی کہا جاتا ہے ، جیسا کہ نزول قرآن کے وقت بھی جب حدیث کو لکھنے کی اجازت دی اورمنسوخ بھی ہوئی ..  الله العلیم اور الخبیر ہے …  سنن لکھی بات نہیں عمل کو کہتے ہیں  اور یہ عمل ایک نہیں بہت زیادہ لوگوں نے دیکھا اکو خود پریکٹس کیا ہوتا ہے - جبکہ حدیث کتب میں زیادہ حدیث ، اقوال ، باتیں ، ہیں - 
  6. یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ ایسے لفظ کا انتخاب فرمایا کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ چھوڑی مگر تحریف کرنے والے کیسے تسلیم لڑ سکتے ہیں -  
  7. پہلی صدی حجرہ میں جب حدیث کی مشہور کتب نہیں تھیں تو نماز ، حج ، روزہ ، زکات سب کچھ سنت متواتر سے نسل در نسل منتقل ہو رہا تھا- اسلام کو کوئی خطرہ نہ تھا -  اگر حدیث کی کتب نہ لکھی جاتیں جیسے کہ خلفاء راشدین کی سنت  اور حکم تھا ، جس عمل اور جبڑوں سے پکڑنے کا   رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے حکم دیا تھا تو ان کے درست خدشات کے مطابق  اسلام اور مسلمان بہتر ہوتے - آج قرآن کے ساتھ ساتھ ٧٥ حدیث کی کتب کا انبار نہ ہوتا .. تلمود میں ایک کروڑالفاظ اور 38 جلدیں ہیں -- شاید ہم بھی یہود کے ساتھ مقابلہ میں اگے ہوں ، ٦ لاکھ  احادیث تو صرف امام بخاری رح کو یاد تھیں - اسی  خدشہ کا اظہار حضرت عمر (رضی الله) ، حضرت علی (رضی الله) نے کیا ، دوسرے خلفاء راشدین کی سنت  بھی شامل رہی -  

اس لیے ترجمہ کی بحث کا کوئی اثر  نہیں ، مگر یھاں قارئین  کو واضح کرنا ضروری ہے -

ان 4 آیات میں عربی  لفظ "حدیث " استعمال ہوا ہے، ان آیات کا اردو ترجمہ کرتے ہوے مترجمین  نے  لفظ "حدیث " کو غائب کر دیا اوراردو  لفظ  "بات " استعمال کیا  [ملاحضہ فرمائیں ... یھاں ...].  قابل غور بات ہے کہ پہلے قرآن کو  ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ)  "بہترین حدیث " کتاب  کہا (٣٩:٢٣) ترجمہ "کلام " کیا ، مگر بعد کی آیات میں "حدیث " کا ترجمہ "بات " کر دیا .. قاری کو سمجھ نہ لگے کہ الله فرما رہا ہے کہ صرف قرآن حدیث ہے اور کوئی اور "حدیث " نہیں- اکثر مترجم قرآن بریکٹ میں  کسی لفظ کی مختصر تشریح بھی کر دیتے ہیں ، مگر ان آیات کے ترجمہ میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟ [واللہ اعلم ]

جب پچاس انگریزی تراجم دیکھے تو وہاں چار مترجموں نے لفظ (HADITH ) کا انگریزی ترجمہ نہیں کیا اور اس کو (HADITH) ہی لکھا ، یہ انگریزی زبان کا ایک لفظ بن چکا ہے  ...


جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا ، حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ رسول الله  صلی الله علیہ وسلم  کی باتیں ، اقوال لکھتے تھے،  جن کو "حدیث" کھا جاتا تھا ،پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله  صلی الله علیہ وسلم  نے "حدیث " لکھنے سے منع فرمادیا .. اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا ایسا حکم رسول الله  صلی الله علیہ وسلم  نے ان آیات کے نازل ہونے پر تو نہیں فرمایا تھا ؟


اس بات کو حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله کے اس فیصلہ سے بھی سپورٹ ملتی ہے کہ انہوں نے احادیث کی کتابت سے منع فرمادیا - اگر یہ سب کچھ احادیث سے نہ بھی ااخذ (quote) کریں تونا قابل تردید تاریخی حقیقت موجود ہے کہ باقی خلفاء راشدین نے بھی کتابت احادیث کا اہتمام نہ کیا - وہ سلرے حالات اور حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ تھے- جب وہ قرآن کی کتابت کا فیصلہ کر سکتے تھے تو اس کے بعد احادیث کی کتابت میں کیا رکاوٹ تھی؟

آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم ....[.....]


جو صحابہ احادیث لکھنے کے شوقین تھے انہوں نے جب یہ چار آیات مختلف اوقات میں نازل ہوئیں تو کامن سینس کہتی ہے کہ ؛ انہوں نے رسول الله  صلی الله علیہ وسلم  سے پوچھا ہوگا کہ ان آیات کے باوجود وہ احادیث لکھتے رہیں؟ اور اگر انہوں نے پوچھا تو رسول الله  صلی الله علیہ وسلم  نے کیا جواب دیا؟

یہ بات ان آیات کی تفسیر میں نہیں ملتی- یہ بات ملتی ہے کہ کبھی کسی کو اجازت دی اور پھر منع فرما دیا (واللہ اعلم )

عبدلرحمان کیلانی نے تفسیر میں لکھا ہے کہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اس آیت  (المرسلات 77:50 ) پر پہنچے تو یوں کہے : امنا باللّٰہ (مستدرک حاکم)-

یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب پر مشتمل بھی ہو سکتا ہے-


قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے  ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟ صرف رسول الله  صلی الله علیہ وسلم  کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جس کی وجہ سے احادیث کی کتابت سے منع کر دیا گیا ہو؟

اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات     (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23) حادیث کی کتابت میں رکاوٹ معلوم ہوتی  ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله  صلی الله علیہ وسلم  کے فرامین وارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے- 


فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ [پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے]


وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾


اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)

قرآن موجود ہے ، اس کو سمجھنے اور تفکر کے لے الله کی عطا کردہ عقل و دانش اور علم کے استعمال پر پابندی نہیں :

مرزا قادیانی ایک لفظ ...پر پکڑا گیا ...

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿۴۰﴾٪  2

Muhammad is not the father of [any] one of your men, but [he is] the Messenger of Allah and last of the prophets. And ever is Allah , of all things, Knowing.


( لوگو! ) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہیں لیکن آپ اللہ تعالٰی کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کا بخوبی جاننے والا ہے ۔ ( آیت  33:44  )

………...


تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡئَلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۱﴾

یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کی کمائی ان کے لیے ہے۔ اور تمہاری تمہارے لیے۔ اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے بازپرس نہ ہوگی (2:141)

…………………….

لفظ "حدیث " کا تجزیہ :

تثلیثی جڑ (ح د ث) قرآن مجید میں 36 مرتبہ پائی گئی ہے ، چار اخذ کردہ شکلوں میں:


فارم II فعل کے طور پر تین بار (تُحَدِّثُ)

فارم IV فعل کے طور پر تین بار (يُحْدِثُ)

28 مرتبہ بطور اسم حدیث (حَدِيث)

دو بار فارم IV غیر فعال شریک کے طور پر (مُحْدَث)


Noun

(4:42:14) ḥadīthan (any) statement يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا

(4:78:36) ḥadīthan any statement فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا

(4:87:17) ḥadīthan (in) statement وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا

(4:140:21) ḥadīthin a conversation فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ

(6:68:12) ḥadīthin a talk فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ


(7:185:20) ḥadīthin statement فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ


(12:6:7) l-aḥādīthi (of) the narratives وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ

(12:21:23) l-aḥādīthi the events وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ

(12:101:9) l-aḥādīthi of the events رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ

(12:111:10) ḥadīthan a narration مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ

(18:6:10) l-ḥadīthi [the] narration فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا

(20:9:3) ḥadīthu the narration وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ

(23:44:15) aḥādītha narrations فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ

(31:6:6) l-ḥadīthi idle tales وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ

(33:53:26) liḥadīthin for a conversation فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ

(34:19:9) aḥādītha narrations فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ


(39:23:4) l-ḥadīthi (of) [the] statement اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ


(45:6:8) ḥadīthin statement فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ


(51:24:3) ḥadīthu (the) narration هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ

(52:34:2) biḥadīthin a statement فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ

(53:59:3) l-ḥadīthi statement أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ

(56:81:2) l-ḥadīthi statement أَفَبِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ

(66:3:7) ḥadīthan a statement وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا

(68:44:5) l-ḥadīthi Statement فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَٰذَا الْحَدِيثِ


(77:50:2) ḥadīthin statement فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ


(79:15:3) ḥadīthu (the) story هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ

(85:17:3) ḥadīthu (the) story هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ

(88:1:3) ḥadīthu (the) news هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ


The triliteral root ḥā dāl thā (ح د ث) occurs 36 times in the Quran, in four derived forms:

  • three times as the form II verb tuḥaddithu (تُحَدِّثُ)
  • three times as the form IV verb yuḥ'dithu (يُحْدِثُ)
  • 28 times as the noun ḥadīth (حَدِيث)
  • twice as the form IV passive participle muḥ'dath (مُحْدَث)
  • http://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=Hdv

حدیث - قرآن میں  مختف معانی میں …


1. يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا ﴿النساء: ٤٢﴾

2. أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَـٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَـٰذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا ﴿النساء: ٧٨﴾

3. اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴿النساء: ٨٧﴾

4. وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ﴿النساء: ١٤٠﴾

5. وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿الأنعام: ٦٨﴾

6. أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ﴿الأعراف: ١٨٥﴾

7. لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿يوسف: ١١١﴾

8. فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿الكهف: ٦﴾

9. وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ ﴿طه: ٩﴾

10. وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿لقمان: ٦﴾

11. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ وَاللَّـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّـهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمًا ﴿الأحزاب: ٥٣﴾

12. اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّـهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴿الزمر: ٢٣﴾

13. تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ ﴿الجاثية: ٦﴾

14. هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ ﴿الذاريات: ٢٤﴾

15. فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ ﴿الطور: ٣٤﴾

16. أَفَمِنْ هَـٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ﴿النجم: ٥٩﴾

17. أَفَبِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ ﴿الواقعة: ٨١﴾

18. وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّـهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ﴿التحريم: ٣﴾

19. فَذَرْنِي وَمَن يُكَذِّبُ بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ ﴿القلم: ٤٤﴾

20. فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ﴿المرسلات: ٥٠﴾

21. هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ ﴿النازعات: ١٥﴾

22. هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ ﴿البروج: ١٧﴾

23. بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ ﴿الغاشية: ١﴾

http://tanzil.net/#search/quran/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB%20

References:

……………………………..

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]


🌹🌹🌹
 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

پوسٹ لسٹ