رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب تو فرقے کیوں؟

ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب پر ایمان تو فرقے کیوں؟ 

بسم الله الرحمن الرحيم

1۔مسلمان ایک اللہ ، ایک رسول اور ایک کتاب (قرآن) پر ایمان رکھتے ہیں، جس میں تمام اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے[1]، لیکن پھر بھی بہت سے فرقے موجود ہیں۔ فرقہ واریت کی ایک بڑی وجہ مختلف احادیث [2]کا استعمال کرکے قرآنی آیات کی متضاد تعبیرات [3] کرنا ہے۔ بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ قرآن پاک کی تدوین کے بعد، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں  خلفائے راشدین نےاحادیث کی تدوین کا بندوبست کیوں نہیں کیا جبکہ اکثر راویان (صحابہ کرام) زندہ تھے-

حدیث اور قرآن کو ملا دینے کے خوف کی جو داستان بیان کی جاتی ہے، وہ تاریخ، حالات اور کامن سینس کے مطابق نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں کا مزاج ، بیان مختلف ہے  اور ان میں ملاپ ، مشابہت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بلکہ تیسرنے خلا کے دور میں تمام حدیث جمع کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی اور اس کی وجہ بھی وہی بیان کی گئی تھی جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھی، جس سے ان کے موقف کی مزید تصدیق ہوتی ہے۔ نہ ہی تیسرے خلیفہ راشدہ کے دوران، قرآن کی تدوین کے بعد احادیث کی جمع کی  گئیں۔ نہ ہی چوتھے خلیفہ راشدہ کی خلافت کے دوران اور نہ ہی پہلی صدی ہجری میں- لہذا صرف ایک غیر معقول ذہن ہی داستان پر یقین کر سکتا ہے کہ حدیث کی تحریر پر پابندی قرآن کے ساتھ ملا دینے کے خوف کی وجہ سے لگائی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی ایسی حدیث نہیں ملتی جس میں تمام لوگوں کے لیے احادیث لکھنے کی اجازت عام دی گئی ہو، بلکہ علماء نے احادیث کی تحریر کے جواز پیش کرنے کے لیے مختلف تاریلات پیش کی ہیں- لیکن یہ دلائل اکثر ذاتی نوٹس کی طرف اشارہ کرتے ہیں نہ کہ باقاعدہ کتابی تدوین یا زکوٰۃ، خون بہا (ٹیکس) وغیرہ کے جمع کرنے کے لیے سرکاری مراسلات/حساب کتاب کی ہدایات کا لکھنا [4]۔ ذاتی حدیثی نوٹس اور باقاعدہ حدیثی کتابوں کی تحریر میں فرق کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ دونوں مختلف ہیں۔ قرآن لکھنے کے برعکس، جسے کبھی بھی اس طرح کے مسائل یا اختلافات کا سامنا نہیں کرنا پڑا، احادیث کی تحریر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص اجازت کی ضرورت تھی۔

خطیب بغدادی (وفات 463ھ) نے ایک کتاب (تقید علم - علم کو قید/محفوظ کرنا) لکھی جس میں انہوں نے علم (احادیث) کو تحریر سے محفوظ کرنےکی اہمیت کے حق میں اورخلاف میں دلائل پیش کیے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے احادیث کی کتابیں لکھنے کی ممانعت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ "یہ اللہ کی کتاب کو کمزور کر دے گا"، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا، یہ دلیل دائمی ہے اور اسے تحریر اور علم کو محفوظ کرنے کے فوائد سے  نفی نہیں کیا جا سکتا (جیسا کہ انہوں نے اور بہت سے دوسروں نے کیا)۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کو یہ معلوم نہیں تھا؟ کبھی کبھی بظاھر نظرآنے والے فوائد  نہ محسوس کیے جانے والے نقصانات کی وجہ سے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں جو صرف ایک دور اندیش نبی ہی سمجھ سکتا ہے- اسی لینے آپ  رسول اللہ ﷺ  نے حدیث کی بجاتے قرآن لکھنے پر زور دیا- یہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی بہانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نفی کرنا نافرمانی کے سوا کچھ نہیں ہے (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ). اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہ سب کو معلوم ہے۔ غلطی کی اصلاح جلد ہوئی چاہیے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک موقع فراہم کیا ہے. رسول اللہ ﷺ کے حکم، خلفائے راشدین کا اجماع و اعمال (سنت)، اور پہلی صدی ہجری کے مکمل دورکا عمل (جب تک تمام صحابہ وفات پا گئے) کی مخالفت میں   کوئی بھی دلیل یا تاویل بے کار ہے-

جو لوگ سچ سننے، بولنے یا اسے سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال کرنے سے انکار کرتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے سب سے بدترین لوگ قرار دیا ہے۔[5] کیسے دوسری اور تیسری صدی ہجری کے بعض افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکامات اور خلفائے راشدین کی متفقہ سنت کو تبدیل کرنے[6] اور اپنی اپنی خواہشات کو لوگوں پر مسلط کرنے میں کامیاب ہو گئے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی[7]۔ ایمان کے جنگجو جو ان کا مقابلہ کرتے تھے ان کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔ تاریخ میں گم ہو گئے۔ یہاں تک کہ بعد میں بھی لوگوں نے ان کی پیروی اندھا دھند کی ،  بغیر تفصیل میں جانے کے۔ اس سے اقبال کا فارسی شعر بھی یاد آتا ہے:

ز مَن بر صُوفی و مُلاّ سلامے:  کہ پیغامِ خُدا گُفتَند ما را

ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت: خُدا و جبرئیلؑ و مصطفیؐ را

میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچائے، لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو تاویلیں کیں،اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔ (علامہ محمد اقبال)

 

2.ابوہریرہ (رضی الله) نے فرمایا کہ: اللہ  کے  رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ ﷺ  نے فرمایا: "یہ کیا لکھ رہے ہو؟" ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں لکھ رہے ہیں؛

انہوں نے فرمایا: کیا تم کتاب اللہ  کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہو؟

تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گئیی تھیں کیونکہ  انہوں نے کتاب اللہ کے علاوہ دوسری کتابیں لکھیں.[5]


[یہ جواز قطعی حتمی اور ابدی ہے جو آج یہودیت اور مسیحیت کی ہزاروں سالہ تاریخ سے ثابت ہے،  اس جواز کی آج بھی تصدیق کی جا سکتی ہے- یہود نے تورات کے ساتھ تالمود کی38 جلد5a مسیحیوں نے  انجیلوں کے ساتھ 23 کتب لکھ کر عہد نامہ جدید بنایا - مقام حیرت اور افسوس ہے کہ  رسول اللہ ﷺ کے اس حکم اوراس پر سنت خلفاء راشدین[6]  کے اجماع کو بھی نظرانداز کیا گیا، بڑے بڑے علماء و محدثین ںے اس پر عمل اور تحقیق کی بجانے اسے مخفی رکھنے کی کوشش کی جو اب بھی جاری ہے- علامہ اقبال چھٹے لیکچر "اصول حرکت" میں لکھتے ہیں کہ  شاہ والی الله دہلوی سمجھتے ہیں نبی کا ہر قول شریعت نہیں6a].


چناچہ ہم نے اس وقت تک جتنا لکھا تھا، اس تمام کو ایک ٹیلے پر جمع کرکے اسے آگ لگادی ( مسند احمد 10670][7]

(حضرت عمر (رضی الله ) نے اپنے دور خلافت میں بھی ذخیرہ احادیث کو آگ لگا دی یہی وجہ بیان فرمائی)8a.

ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: "ہاں ، میرے بارے میں بات کرو (حفظ و بیان) ،  کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔"[8]

3۔ ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ ’ اللہ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث کو سنا، اسےحفظ کیا، اور پھر اسے آگے بیان کیا ....(نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا ​وَأَدَّاهَا)‘‘[9]

4۔ ابوهریره 7 /8 ہجرہ کو مسلمانوں میں شامل ہوئیے غزوہ خیبر پر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 10 ہجرہ کو وفات پا گئیے،لہذا حدیث لکھنے کی ممانعت کا مندرجہ بالا واقعہ آپ کی وفات سے صرف تین سال پرانا ہو سکتا ہے یہ نزول قرآن کے آخری دن تھے، جب سب کو قرآن اور حدیث کے فرق کا بخوبی علم تھا اس لیئے یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنا iاس لیےمنع فرمایا کہ قرآن سے مکس نہ ہو کسی حدیث سےثابت نہیں ہوتا نہ جانے یہ کس کا قول مشہور ہے؟  رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ کی سزا جہنم کی آگ ہے- رسول اللہ ﷺ  نے حدیث نہ لکھنے کی وجہ اوپر بتلا دی جس کو عوام سے مخفی رکھا جاتا جاتا ہے. مشہور کتب حدیث میں نہیں ورنہ ان کے جواز کو ٹھیس پہنچتی- اسلام میں ایک کتاب ہے صرف قرآن، جو کتاب اللہ ہے دوسری کوئی کتاب نہیں۔ اس لیئے حدیث کے حفظ و بیان کی اجازت عام تھی کچھ مخصوص صحابہ کو شوق اور کمزور یاداشت پر حدیث لکھنے کی اجازت ملی اور کئی کو نہیں۔ ابو ہریرہ کو نہیں اور وہ مرتے دم تک احادیٹ حفظ و بیان کرتے رہے بہت دوسرے صحابہ کی طرح.[10]

5۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم پر جید صحابہ ، مفسرین قرآن ، عالم دین اور ہزاروں احادیث کے حافظ، راویان ومحدثین جنہوں نے مرتے دم تک عمل کیا، نہ حدیث لکھی نہ کتاب لکھی اور منع فرماتے رہے کہ وہ حکم  رسول اللہ ﷺ کے حکم کے پابند تھے-  حضرت ابو ھریرہ (5374 احادیث) ، عبدللہ بن عبّاس (2660) ، عبدللہ بن مسعود( 800)، عبداللہ بن عمر(2630) ، زيد بن ثابت، کاتب وحی  (92)، ابو سعید خضری (1170) (رضی الله تعالی عنہم ) اگریہ صحابہ حدیث کی کتب لکھتے تو وہ مصدقہ ہوتیں جبکہ دوسرے راوی بھی زندہ تھے، اس طرح سے وہ ہزاروں احادیث حفظ کرنے کی مشکل سے بچ جاتے - اگر ان صحابہ اکرام  کو حدیث کی کتب لکھنے پر پابندی کا علم نہ تھا تو ان کی احادیث کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟ ان کی احادیث نکال دیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ اور زید بن ثابت (رضی الله) تو کاتب وحی اور قرآن مدون کرنے والے ہیں۔ بہت صحابہ تو حدیث لکھنا بھی مکروہ سمجھتے تھے، کچھ کو حافظہ کمزوری پر اجازت ملی کچھ کو انکار۔[11]امام سیوطی (رح)  نے اپنی کتاب “قطف الازہر متناتھرہ فی الخبار المتواتر”(بکھرے ہوئے خوشبودار پھولوں (احادیث ) کا معتبر (متواتر) مجموعہ) میں 113متواتر احادیث اکٹھی کیں جن کے 10راویان ہر مرحلہ پر ہیں .[12] 

6۔أَبِوهُرَيْرَةَ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی[13]

 قرآن:‎  قرآن میں ہر قسم کا مضمون14a بار بار بیان کیا گیا ہے اور اپنے آپ کو "احسن الحدیث" کہتا ہے[14]،[15]. اگر کوئی اب بھی مطمئن نہیں ہے، تو قرآن کی آیات 45:6، 77:50، 7:185، اور 4:87 کو بہت غور سے پڑھ لے، لفظ "حدیث" کو بدلے، تحریف یا ترجمہ کئیے بغیر، حدیث کا مطلب سب کو اچھی طرح معلوم ہے۔  قرآن کی تدوین اورتدوین حدیث میں تقابل سے فرق واضح ہے-[16](کلام  15a:قرانی لفظ ہے "كَلَامَ اللَّهِ" ، اگر الله تعالی  نے کلام کی بجایے "حدیث" لفظ استعمال کیا تو کوئی مصلحت ہو گی پھر مفسرالله کی اصلاح کو ترجمہ کر کہ، تبدیل کرکہ "کلام" کیوں کہتے ہیں؟)

8۔ تحقیق کا نتیجہ؟ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے اجماع کی نافرمانی کے نتیجے میں اللہ کی کتاب، قرآن کو محدود کر دیا گیا ہے،جس میں عبادات اور احکامات ( آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ أُمُّ الْكِتَابِ) موجود ہیں (3:7) مگر قرآن کی  آزادی کو محدود کردیا گیا ہے۔[17]"رسول کہیں گے، 'اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔'" (25:30). کون چایے گا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے شکایت پرالله تعالی کے سامنے مجرم کے طور پر جواب دہندہ ہو؟

9۔ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟

قرآن، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اوراجماع سنت  خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو بحال کرنا اور حدیثوں کو قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورمجوزہ اصولوں کے مطابق تدوین نو کرنا مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے.  ڈیجیٹل، اے آئی (AI) سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ مزید تفصیلات لنک پر :[ https://bit.ly/ReviseHadiths ]

                                                              📖 🕋☝🏿

وماعَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن36:17): اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پیغام پہنچا دینا ہے


بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ریٹائرڈ) فری لانس مصنف، محقق اور بلاگر ہیں، پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں ماسٹرزکیا ہے اور قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب، تعلیمات کے مطالعہ میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت صرف کیا ہے- Defence Journal کے  لینے وہ  2006 سے "  (https://defencejournal.com/author/aftab-khanلکھ رہے ہیں۔ ان کی منتخب تحریریں ای کتب اور آرٹیکلزویب پر مہیا ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی  کام کوتقریبا 5 ملین تک رسائی ہو چکی ہے.

https://www.facebook.com/IslamiRevival \  https://SalaamOne.com/About \ ContactTejdeed@gmail.com

تفکراسلام کا اندازجدید - Reconstruction of Religious Thought in Islam

 بیسویں صدی میں علامہ اقبال جیسا ایک شخص جس نے وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا، جس نے مشرق و مغرب کے فلسفے پڑھ لئے، جو قدیم اور جدید دونوں کا جامع تھا، جو جرمنی اور انگلستان میں جا کر فلسفہ پڑھتا رہا، اُس کو اس قرآن نے اس طرح Possess کیا اور اس پراس طرح چھاپ قائم کی کہ اُس کے ذہن کو سکون ملا تو صرف قرآنِ حکیم سے اور اس کی تشنگٔی علم کو آسودگی حاصل ہو سکی تو صرف کتاب اللہ سے-
مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد علامہ اقبالؒ کو عہدِ حاضر میں اعجاز قرآن کا مظہر قرار دیتے ہوئے مزید رقمطراز ہیں ؎ Read more »

رسالة التجديد - تعارف



السلام علیکم ! اسلامی فکر صدیوں سے جمود کا شکار ہے جبکہ علامہ اقبال کے ویژن میں بنیادی  طور پر اسلامی فکر کو متحرکت اورارتقاء پزیر ہونا چاہیے- اسلام میں قران کی مرکزیت پر قرآن اور رسول اللہ ﷺ نے بہت زور دیا مگر افسوس کہ قرآن کو متروک العمل کردیا گیا- اقبال اورڈاکٹر برق کے مجربات و محسوسات بھی قرآن پر فوکس  اور (inspire) کرتے  ہیں-  بیس سال قرآن کے مطالعہ و تحقیق، علماء اور اہل علم لوگوں سے کئی کئی دن پر محیط طویل  تبادلہ خیالات و ای ایکسچینجز کے بعد اہم موضوعات پر حاصل نتائج کا خلاصہ مرتب کردیا ہے- رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ احادیث کی درستگی کے معیاراور اصول احادیث سے ہی مل جاتے ہیں، آپﷺ سے بہتراصول کون بنا سکتا ہے؟ مکمل تحقیق اردو اور انگریزی ویب سائٹس اور eBooks میں مہیا کر دی گئی ہے جو کہ 17 سال سے (Defence Journal)میں بھی پرنٹ ہو چکی ہے - دوران مطالعہ اپنے موجودہ نظریات کو ایک طرف رکھنا بہتر ہو گا، فٹ نوٹس پرریفرنس لنکس کو پڑھیں توذہن میں اٹھنے والےاکثرسوالات کے جوابات مل جائیں گےپھررابطہ بھی کیا جا سکتا ہے- الله تعالی کے پیغام کو درست طور پرسمجھ کر پیش کرنے کی یہ ایک کوشش ہے، بشری محدودات سے کسی نادانستہ غلطی پراللہ تعالی سےمعافی اوربخشش کا طلبگار-

بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر)

[September 29 2023 |  ١٢ ربیع الاول ١٤٤٨ ھ]

______________________________

The Retrieval of Last Book

آخری کتاب بازیافت 

عظیم فکری مطالعہ و تحقیقی جائزہ

~ ~ ~ ~
اسلامی مذہبی تاریخ کے  گہرے مطالعه سےحیران کن ناقابل یقین حقائق سامنے آئےجو  پہلی صدی ہجری کے دین کامل اسلام کی ایمیت اور ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔ "رسالة التجديد" مسلمانوں کے انداز فکرو عمل میں "أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ﷺ سے مثبت تبدیلی کا پیغام ہے - https://bit.ly/2ZfyS8t

اسلام کی تعلیمات میں اتحاد اور اجتماعیت پربہت زور ہے اور فرقہ واریت سخت نا پسندیدہ عمل ہے جو کہ مشرکوں  کا طریقہ ہے- چھوٹی چھوٹی باتوں پرمعمولی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں میں فرقے بن چکے ہیں جو کہ قابل افسوس ہے- اپنے مخالفین پراپنی من پسند  کتب سے دلائل کی بنیاد پر گمراهی کے الزامات لگایے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کے بیس سالہ گہرے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صرف ایک کتاب قرآن، اللہ کی رسی ہے جو فرقہ واریت کا خاتمہ کر کہ مسلمانوں کو متحد رکھ سکتی ہے-   

 رسول اللہﷺ ، خلفاء راشدین  اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے احادیث کی کتب  مرتب نہ کرنے کی وجوہات جانچنے کے لیے کئی سال قبل ایک تحقیقی منصوبہ شروع کیا- یہ معلوم ہوتا ہے کہ  رسول اللہﷺ کے بعد قابل احترام شخصیات خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام (رضی الله عنھم) میں سے کسی کی طرف سے یہ کام کیا جاتا تو مسلمانوں میں اختلافات، تنازعات کم ہوتے اور فرقہ واریت بھی کم ہوتی- مگر کیا ایسا نہ کرنا کسی خاص منصوبہ، مصلحت کی وجہ سے تھا یا محض ایک بھول یا غلطی (استغفر الله)  جسے تیسری اور چوتھی صدی میں درست کیا گیا ؟

اگر اسے بھول یا غلطی سمجھا جایے تو یہ غلط ہو گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن مکمل کر لیا تھا اور آخری حج میں بہت بڑے ہجوم نے اس کی گواہی دی اور قرآن (5:3)  نے بھی تکمیل اسلام کا اعلان کیا-  رسول اللہﷺ نے اپنے بعد اختلافات کےحل کی ذمہ داری اور طریقه بھی وصیت کر دیا تھا- اتنی تفصیل کے بعد تو کوئی بچہ بھی گمراہی کے راستہ پر نہیں چل سکتا،  اور ایسا ہی ہوا پہلی صدی میں مکمل طور پر، لیکن پھر بعد میں رسول اللہ ﷺ کی وصیت کو نظر انداز کرنے سے بدعة کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ فقہ اربعیں بغیر کتب احادیث کے، قرآن و سنت اور زبانی روایات کی بنیاد پر تشکیل پا چکے تھے - نئے سلسلہ کو روکنا مشکل ہو گیا >>>

قران اور اسلام - 19 جواب

مقصد قرآن کی تفہیم در اصل اسلام کو فروغ دینا ہے۔ اللہ کی طرف سے آخری اور جامع کتاب کے طور پر، قرآن انسانیت کی رہنمائی کا حتمی ذریعہ ہے، یہ موضوعات کی ایک وسیع لسٹ کا احاطہ کرتا ہے، جو افراد اور معاشروں کے لیے مکمل کامیابی حاصل کرنے کی لازوال حکمت اور رہنمائی پیش کرتا ہے۔
اسلام دین کامل (طریقہ حیات)، کی بنیاد  قرآن ہے، مگر بدقسمتی سے  وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے پیروکاروں کا قرآن کی تعلیمات سے بھٹکنے  کی وجہ سے مسلمان امت تنزلی کا شکار ہے۔ الله تعالی ںےقرآن سمجھنا آسان کر رکھا ہے مگر کتاب الله، نور ہدایت کو مشکل سمجھ کردوسری کتابوں کو قرآن پر ترجیح دینے کی وجہ سے لوگ قرآن سے جسمانی قربت کے باوجود  ذہنی و فکری طور پر بہت دور ہو چکے ہیں  ہمارا مقصد قرآن کو ذہنی و فکری مرکز و رسائی اور پہنچ میں لانا  مطلوب ہے۔ اس روشن سفر کو شروع کرنے کے لیے، ابتدائی طور پر قرآن سے 19 مشترکہ مختصر جوابات مرتب کیے گئے ہیں، جو کہ بنیادی سوالات کی ایک وسیع رینج پر روشنی ڈالتے ہیں، یہ آغاز ہے- ان جوابات کو ایکسپلورکر کہ کوئی بھی قرآن اور اس کی تعلیمات کے گہرے فہم کے لیے ایک مضبوط بنیاد قائم کرکہ آگے چل سکتا ہے، تاکہ اسلام کی خالص تعلیمات پر عمل پیرا ہو، جیسا کہ پہلی صدی ہجری میں دین کامل کی صورت میں وقوع پزیر ہوا- روشنی  کے اس سفر میں شامل ہونے اور "اسلام کامل دین" کے قریب ترین رہنے کی دعوت ہے،  رسول اللہ ﷺ کی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوئی جس سے فرقان کی روشنی میں بھر پوراستفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے- فرقہ واریت کا رد، عدم برداشت، انتہا پسندی ، تکفیر،  کی مذمت اور اتحادامت  کو برقرار رکھتے ہوئے پرامن مکالمے پر زور دیں، ایک دوسرے کو حق ، سچائی اور استقامت کی طرف راغب کریں: Read more »

قرآن مضامین Quran Subjects

یہ فورم، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں، مسلمانوں کو قرآن پڑھنے، سمجھنے، غور کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تعلیمات کو سب تک پہنچانے کی ذمہ داری کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
This forum, in both Urdu and English, serves the purpose of enabling Muslims to fulfill their obligation of reading, understanding, contemplating, acting upon, and sharing the teachings of the Quran. Read more »

علم الحدیث کے سات مجوزہ سنہری اصول اور احادیث کی تدوین نو (القواعد الذهبية السبع المقترحة في علم الحديث) Seven Golden Rules of Science of Hadith and Recompilation of Hadith literature

بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے یہ فرمان ہے حضرت محمد ﷺ  کا - حدیث رسول اللہ ﷺ کے بیان یا عمل سے پہلے یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ وہ درست, مستند ہو جو قرآن سے رہنمائی اور رسول اللہ ﷺ  کے قائم کردہ  بنیادی اصولوں اور میعار کے مطابق معلوم ہوسکتا ہے -

بدقسمتی سے صدیوں سے ایسا نہیں ہو رہا جوامت مسلمہ میں فتنہ، فساد، فرقہ واریت، نفاق اور فکری، روحانی و دنیاوی انحطاط کی بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے- اسلامی تاریخ میں یہ شاید پہلی کوشش ہے کہ اسلام کے اس اہم جزو حدیث (علم الحديث) کوکسی فرد یا گروہ کی  اجارہ داری , صوابدید , اختیار کے دائرۂ سے نکال کر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کے طابع کیا جاۓ- دین کا کوئی جزو اگر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے واضح احکام کی موجودگی میں ان سے باہر یا ان سے مختلف ہو تو وہ دین اسلام کو فائدہ کی بجاے نقصان دہ ہو گا-
الله اور رسول (ﷺ) کی  ہدایت کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی پیروی کرنا اللہ کے حکم  کے خلاف ہے:-

وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾      

اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)


 علم الحدیث کے سات مجوزہ سنہری اصول