رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حقیقی کیمیا : ثابت شدہ احادیث نبوی ﷺ کی جستجو- علم الحدیث کے سات مجوزہ سنہری اصول اور احادیث کی تدوین نو (القواعد الذهبية السبع المقترحة في علم الحديث) Seven Golden Rules of Science of Hadith and Recompilation of Hadith literature

یہ عنوان ایک علمی جستجو کا اعلان ہے جس کا مقصد اصلی احادیث کو غیر معتبر روایات سے الگ کرنا ہے۔ "سچائی کا کیمیا" استعارہ ہے جو نبی ﷺ کی خالص تعلیمات کو تلاش کرنے کی کوشش کا مظھر ہے۔ "سنہری اصول" وہ بنیادی قواعد ہیں جو حدیث کی تحقیق میں معیار کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ کام منظم اور دقیق تحقیق کا متقازی ہے۔ Read more »
 

رسالة التجديد - تعارف



السلام علیکم ! اسلامی فکر صدیوں سے جمود کا شکار ہے جبکہ علامہ اقبال کے ویژن میں بنیادی  طور پر اسلامی فکر کو متحرکت اورارتقاء پزیر ہونا چاہیے- اسلام میں قران کی مرکزیت پر قرآن اور رسول اللہ ﷺ نے بہت زور دیا مگر افسوس کہ قرآن کو متروک العمل کردیا گیا- اقبال اورڈاکٹر برق کے مجربات و محسوسات بھی قرآن پر فوکس  اور (inspire) کرتے  ہیں-  بیس سال قرآن کے مطالعہ و تحقیق، علماء اور اہل علم لوگوں سے کئی کئی دن پر محیط طویل  تبادلہ خیالات و ای ایکسچینجز کے بعد اہم موضوعات پر حاصل نتائج کا خلاصہ مرتب کردیا ہے- رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ احادیث کی درستگی کے معیاراور اصول احادیث سے ہی مل جاتے ہیں، آپﷺ سے بہتراصول کون بنا سکتا ہے؟ مکمل تحقیق اردو اور انگریزی ویب سائٹس اور eBooks میں مہیا کر دی گئی ہے جو کہ 17 سال سے (Defence Journal)میں بھی پرنٹ ہو چکی ہے - دوران مطالعہ اپنے موجودہ نظریات کو ایک طرف رکھنا بہتر ہو گا، فٹ نوٹس پرریفرنس لنکس کو پڑھیں توذہن میں اٹھنے والےاکثرسوالات کے جوابات مل جائیں گےپھررابطہ بھی کیا جا سکتا ہے- الله تعالی کے پیغام کو درست طور پرسمجھ کر پیش کرنے کی یہ ایک کوشش ہے، بشری محدودات سے کسی نادانستہ غلطی پراللہ تعالی سےمعافی اوربخشش کا طلبگار-

بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر)

[September 29 2023 |  ١٢ ربیع الاول ١٤٤٨ ھ]

Read more>>>>>

حیرت انگیز

انسانی تاریخ میں ایسے لمحات بہت کم آتے ہیں جب کوئی عظیم مقصد وسائل اور طاقت کی کمی کے باعث ادھورا رہ جاتا ہے، اور اس کی تکمیل کا بار آئندہ نسلوں کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ لیکن پھر، تقدیر کے صفحات پلٹتے ہیں، اور وہ کام، جو بظاہر ناممکن تھا، اچانک حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حدیث نبوی کی "تدوین نو" کے ساتھ ہوا[1]۔ برسوں کی عرق ریزی اور تحقیق کے بعد، جب اس اہم کام کے نتائج کو ویب سائٹس پر محفوظ کر دیا گیا،[2] اور مسلم ممالک کے سفارت کاروں، وزارتوں، ملکی اہم افراد، اداروں اور دارالعلوم کو خطوط لکھ کر آگاہ کر دیا گیا، تو یہ خیال دل میں راسخ ہو گیا کہ اب یہ کام اللہ کے سپرد ہے۔ وہی کوئی ایسا سبب پیدا کرے گا کہ یہ عظیم الشان منصوبہ اس زندگی میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکے- ورنہ پچھلے بارہ سو سال سے مسلمانوں کو کتب حدیث لکھنے والوں کی صوابدید پر تکیہ کرنا پڑتا رہا ہے- انہوں نے بہت محنت کی لیکن آخر انسان تھے کوئی پیغمبر نہیں اور دو ڈھائی سو سال کا عرصۂ درازبھی گزر چکا تھا- وقت کے ساتھ ان پر شخسیت پرستی اور مقدسیت کے حصار قائم ہو چکے تھے جن کو پار کرنا ناممکن ہو چکا تھا[3]- ان کتب نے قرآن کے قریب کا درجہ حاصل کر لیا جبکہ  تدوین قران[4] سے ان کا زرہ برابر بھی تقابل نہیں- جیسا کہ  رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر (رضی الله )[5]  کی بصیرت نے پہلے بھانپ لیا تھا جب انہوں نے کتب حدیث لکھنے پر پابندی لگائی.  رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا کہ ، یہ (کتب احادیث) اللہ کی کتاب کو نظراندا کر دیں گی"[6]، جیسا کہ پہلی اقوام  نے کیا (یہود (تلمود 38جلد) و نصاریٰ (23 کتب، عہد جدید)[7] اور اب تک مسلمان 171 کتب[8] حدیث لکھ چکے ہیں اور بے شمار فرقے موجود ہیں- کتب حدیث کی "تدوین نو" تو کیا اس موضوع پر بات کرنا بھی نا ممکن ہے- اپنی تحقیق کو اردو اور انگلش ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پرڈال کر اللہ کے حوالے کردیا-[9]

زبانی روایت اور تحریری کلام

تحریر کوئی فطری چیز نہیں، حالانکہ ہمارے بیشتر خیالات اور اعمال تحریری شکل میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ تحریری زبان کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ یہ تقریباً پانچ ہزار سال قبل پہلی بار میسوپوٹیمیا کے سُومر خطے میں نمودار ہوئی، جبکہ زبانی روایات نے تو زمانۂ قدیم سے ہی غلبہ پایا ہوا تھا۔ آج بھی دنیا کے بڑے حصوں بشمول ہمارے خطے میں یہ روایات زندہ ہیں۔ انسانی تجربے اور علم کی تمام کیفیات، خواہ باطنی ہوں یا ظاہری، زبانی طور پر منتقل ہوتی رہی ہیں۔ ہم جدید دور میں اس پر شک کرتے ہیں کیونکہ تحریری مواد پر ہمارا انحصار بڑھ گیا ہے، اور خواندگی کے ذرائع نے یادداشت کی ضرورت اور صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔ >>>

ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب توتقسیم کیوں؟

ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب پر ایمان توتقسیم کیوں؟ 

مختصرخلاصہ١

بسم الله الرحمن الرحيم

1۔مسلمان ایک اللہ ، ایک رسول اور ایک کتاب (قرآن) پر ایمان رکھتے ہیں، جس میں تمام اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے[1]، لیکن پھر بھی بہت سے فرقے موجود ہیں۔ فرقہ واریت کی ایک بڑی وجہ مختلف احادیث [2]کا استعمال کرکے قرآنی آیات کی متضاد تعبیرات [3] کرنا ہے۔ بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ قرآن پاک کی تدوین کے بعد، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں  خلفائے راشدین نےاحادیث کی تدوین کا بندوبست کیوں نہیں کیا جبکہ اکثر راویان (صحابہ کرام) زندہ تھے-

حدیث اور قرآن کو گڈمد ہونے کے خوف کی وجہ سے حدیث کے نہ لکھنے جو داستان بیان کی جاتی ہے، وہ تاریخ، حالات اور کامن سینس کے مطابق نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں کا مزاج ، بیان مختلف ہے اور ان میں ملاپ ، مشابہت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بلکہ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر (رض) کے دور میں حدیث پر پابندی لگائی گئی تھی   دوسری اقوام (یہود و نصاری) غیر اللہ کی کتب لکھ کر کتاب اللہ کو چھوڑ بیٹھی تھیں مسلمان بھی یہی کریں گے- اس کی آج بھی تصدیق ہوتی ہے کی پیغمبر کا خدشہ درست تھا۔ تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان (رض)کے دور حکومت کے دوران، قرآن کی تدوین کے بعد احادیث  جمع نہیں کی  گئیں۔ نہ ہی چوتھے خلیفہ راشدہ کی خلافت کے دوران اور نہ ہی پہلی صدی ہجری میں- لہذا صرف ایک غیر معقول ذہن ہی داستان پر یقین کر سکتا ہے کہ حدیث کی تحریر پر پابندی قرآن کے ساتھ گڈ مڈ ہونے کے خوف کی وجہ سے لگائی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی ایسی حدیث نہیں ملتی جس میں تمام لوگوں کے لیے احادیث لکھنے کی اجازت عام دی گئی ہو، بلکہ علماء نے احادیث کی تحریر کے جواز پیش کرنے کے لیے مختلف تاریلات پیش کی ہیں- لیکن یہ دلائل اکثر ذاتی نوٹس کی طرف اشارہ کرتے ہیں نہ کہ باقاعدہ کتابی تدوین یا زکوٰۃ، خون بہا (ٹیکس) وغیرہ کے جمع کرنے کے لیے سرکاری مراسلات/حساب کتاب کی ہدایات کا لکھنا [4]۔ ذاتی حدیثی نوٹس اور باقاعدہ حدیثی کتابوں کی تحریر میں فرق کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ دونوں مختلف ہیں۔ قرآن لکھنے کے برعکس، جسے کبھی بھی اس طرح کے مسائل یا اختلافات کا سامنا نہیں کرنا پڑا، احادیث کی تحریر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص اجازت کی ضرورت تھی۔

تفکراسلام کا اندازجدید - Reconstruction of Religious Thought in Islam

 بیسویں صدی میں علامہ اقبال جیسا ایک شخص جس نے وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا، جس نے مشرق و مغرب کے فلسفے پڑھ لئے، جو قدیم اور جدید دونوں کا جامع تھا، جو جرمنی اور انگلستان میں جا کر فلسفہ پڑھتا رہا، اُس کو اس قرآن نے اس طرح Possess کیا اور اس پراس طرح چھاپ قائم کی کہ اُس کے ذہن کو سکون ملا تو صرف قرآنِ حکیم سے اور اس کی تشنگٔی علم کو آسودگی حاصل ہو سکی تو صرف کتاب اللہ سے-
مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد علامہ اقبالؒ کو عہدِ حاضر میں اعجاز قرآن کا مظہر قرار دیتے ہوئے مزید رقمطراز ہیں ؎ Read more »