رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

قرآن ربا اور کاغذی کرنسی Riba Explained

اگرتم  توبہ کرتےہو  اورربا  نہیں لیتے  تو تمہاراصل سرمایہ پر حق ہے بغیر کسی نقصان، کمی کے (قرآن 2:279)

If you repent and don't take usury you have right on Principal Capital without any loss/decrease in value

ربا ایک عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے "اضافہ کرنا" یا "زیادہ کرنا" اور عام طور پر غیر مساوی تبادلے یا قرض لینے کے معاوضے اور فیس کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے۔ سود کو ربا، یا ناجائز، استحصالی فائدہ سمجھا جاتا ہے، اور اسلامی قانون شریعت کے تحت ایسا عمل حرام ہے۔ ربا سے مراد سود یا سود کا تصور ہے۔
فیاٹ (کاغذی) کرنسی نظام کے اس دور میں ربا کی تعریف کرنے میں ایک سنگین غلط فہمی پائی جاتی ہے >>>
یہ بہت زیادہ شرح سود (یا کم ) پر رقم یا دیگر سامان ادھار دے کر منافع یا فائدہ حاصل کرنے کا رواج ہے۔ اسلامی شرعی اصولوں کے مطابق سود کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی ہر قسم کی سختی سے ممانعت ہے۔ غیر مساوی مقدار یا خوبیوں کے سامان کا بیک وقت تبادلہ، کمتر معیار کی کھجوروں کو اعلیٰ معیار کے ساتھ تبدیل کرنا جائز نہیں کیونکہ اسے ربا سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی چیز کو اس کی مارکیٹ ویلیو سے زیادہ قیمت پر بیچنا یا سود لے کر کسی کی مالی حالت کا استحصال کرنا یہ سب سود کی قسمیں ہیں اور اسلام میں ممنوع ہیں، تمام معاشی لین دین میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے اور کمزوروں کے استحصال کو روکنے کے لیے ربا ممنوع ہے-ربا ایک عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے "اضافہ کرنا" یا "زیادہ کرنا" اور عام طور پر غیر مساوی تبادلے یا قرض لینے کے معاوضے اور فیس کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے۔ سود کو ربا، یا ناجائز، استحصالی فائدہ سمجھا جاتا ہے، اور اسلامی قانون شریعت کے تحت ایسا عمل حرام ہے۔ ربا سے مراد سود یا سود کا تصور ہے۔ یہ بہت زیادہ شرح سود (یا کم ) پر رقم یا دیگر سامان ادھار دے کر منافع یا فائدہ حاصل کرنے کا رواج ہے ( کم ہو تو بھی درست نہیں)۔ اسلامی شرعی اصولوں کے مطابق سود کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی ہر قسم کی سختی سے ممانعت ہے۔ غیر مساوی مقدار یا خوبیوں کے سامان کا بیک وقت تبادلہ، کمتر معیار کی کھجوروں کو اعلیٰ معیار کے ساتھ تبدیل کرنا جائز نہیں کیونکہ اسے ربا سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی چیز کو اس کی مارکیٹ ویلیو سے زیادہ قیمت پر بیچنا یا سود لے کر کسی کی مالی حالت کا استحصال کرنا یہ سب سود کی قسمیں ہیں اور اسلام میں ممنوع ہیں، تمام معاشی لین دین میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے اور کمزوروں کے استحصال کو روکنے کے لیے ربا ممنوع ہے-
غریب، بدعنوان اور بدانتظامی کا شکار ممالک میں میں افراط زر اور دیگر رجحانات کی وجہ سے سرمائے کی قدر میں کمی ایک معمول ہے۔ (تقریبا پچاس (اکثریت کافر) ترقی یافتہ ممالک میں یہ مسلہ نہیں) جزوی انڈیکسیشن کے ذریعے اس نقصان کا کوئی بھی ازالہ ، تدارک (compensation) پورے نقصان کو پورا نہیں کرتا لیکن اسے ربا یا منافع کہنا ظلم ، گمراہی اور ناانصافی ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے غیر مبہم احکام (قرآن 2:279، 6:152، 4:135) کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہے،اس سے پہلے کہ اللہ کا غضب ہم پر نازل ہو ان احکام کی فوری طور پر اطاعت ضروری ہے- اس سادہ مسئلے کو سمجھنے کے لیے نہ تو کوئی خاص مہارت، نہ مذہبی پس منظر اور نہ ہی پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے، بس کامن سینس کافی ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
"بے شک اللہ کے نزدیک تمام مخلوق میں بدترین قسم کے وہ لوگ ہیں جو گونگے بہرے ہیں اور سمجھتے نہیں ہیں۔" (قرآن 8:22)
اسلامی بینکنگ ایک اچھا قدم ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آئے گی۔ اس تجزیاتی تحریر کا بنیادی مرکز نیشنل سیونگ سکیموں (NSC) کے ذریعے ادا کیے جانے والے نام نہاد منافع / سود پر ہے، جسے 'ماہرین' کی سمجھ کی کمی یا غلط فہمی کی وجہ سے غلط طریقے سے 'ربا' سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس مطالعے کے نتائج کو مناسب غور و خوض کے بعد بینکنگ اور مالیاتی شعبوں پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ احکام الله کی اطاعت کے ذریعے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بیمار معیشت کی بحالی میں یہ ایک انقلابی قدم ہوگا۔
اللہ فرماتا ہے:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو ربا (سود) باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے۔ اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارا اصل سرمایہ محفوظ ہے۔ نہ تم (قرضدار) کو نقصان پہنچاو گے اور نہ تم کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ (قرآن: 2:278-279، ترجمہ)

کاغذی کرنسی کی قدر
اللہ فرماتا ہے:
وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (البقرہ ٢٧٩)
لیکن اگر توبہ کر لیں تو آپ کے پاس آپ کا اصل سرمایہ ہوگا (رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ)۔ کسی پر ظلم نہ کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے گا (قرآن؛ 2:279- ترجمہ)
جو شخص توبہ کرے اور سود لینا چھوڑ دے تو اسے اس کا اصل سرمایہ حاصل کرنے کا حق ہے۔ سود نہ لے کر وہ دوسرے پر ظلم نہیں کر رہا ہے، اس کے اصل سرمائے میں کسی قسم کی کمی کرکہ اس پر ظلم نہیں کرنا۔ یہ الله تعالی کا حکم ہے جس کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے بلکہ اصل زر، سرمایہ میں کمی کو پور کرنے لیے جو تلافی ادا کی جاتی ہے، ا الٹا اس پر ربا لینے کا جھوٹا بہتان بھی لگا یا جا رہا ہے-

اصل سرمایہ کیا ہے؟ (رأس المال)
اصل سرمایہ سے مراد دولت کی ابتدائی رقم (رأس المال) ہے جسے کوئی فرد یا ادارہ کسی کاروبار یا منصوبے میں لگاتا ہے۔ بغیر کسی کٹوتی یا سود کے یا کسی بینک یا ادارے میں سرمایہ کاری کے لیے جمع کی گئی رقم۔
پرنسپل اصل سرمایہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے؟
رأس المال کاغذی کرنسی کے تناظر میں قدر یا قیمت
ایک کلو گرام وزن کا پیمانہ (باٹ) کسی بھی ملک میں صرف وزن کی اپنی تخلیق شدہ اکائی نہیں ہے، بلکہ بین الاقوامی نظام کے یونٹس (SI) کے ذریعہ بیان کردہ معیاری وزن ہے۔
اگر کوئی شخص 100 گرام وزنی 24 قیراط سونے کے دس سکے جمع کرتا ہے تو یہ اصل سرمایہ ہے (رأس المال)- کچھ سالوں کے بعد، اگر بینک وہی گنتی ، دس سکے، 100 گرام وزنی لیکن ناقص معیار، 18 قیراط سونے کے سکے واپس کرے، تو کیا اسے اصل سرمایہ (رأس المال) کہا جا سکتا ہے؟
جو شخص 'ہاں' کہتا ہے، عقل سے عاری ہے، اسے فوری طور پر دماغی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے۔
اور جو اختلاف کرتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ "18 قیراط سونے کے سکے" کے 100 گرام کے دس سکے کمتر معیار کے ہیں، اصل سرمایہ (رأس المال) 100 گرام "24 قیراط سونے کے دس سکوں پر مشتمل ہے- اگر 18 قیراط کو 24 قیراط کے برابر قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ چونکہ واپس کیے جانے والے سکوں کی تعداد دس ہے وزن 10 گرام ہے اس لیے یہ اصل سرمایہ (رأس المال) کے برابر ہے، دھوکہ دہی، لوٹ مار ہے۔ دھوکہ دہی اور ناانصافی جو اسی طرح کاغذی کرنسی کے ساتھ چل رہی ہے، یہاں بے نقاب ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ ربا ہونے کی وجہ سے کمتر کھجور کا اعلیٰ معیار کے ساتھ تبادلہ بھی جائز نہیں ہے۔
اصل سرمائے (رأس المال) کی مساوات (ہر لحاظ سے یعنی تعداد، معیار اور قدر) کے قرآنی اصول کو یقینی بنایا جائے گا جس میں سرمائے کو واپس کیا جائے گا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کچھ طریقہ کار تلاش کرنا ہوگا کہ جمع کرنے والے کو کوئی نقصان نہ پہنچے کیونکہ یہ ناانصافی اور اللہ کے حکم کے خلاف ہوگا۔
کاغذی کرنسی کے تناظر میں اس دھوکہ دہی اور فراڈ کی پردہ پوشی کی گئی ہے، جسے نام نہاد اسلامی علماء نے مندرجہ بالا تشبیہ کے تحت چھپایا ہے۔ کاغذی کرنسی نوٹوں پر اسٹیٹ بینک کی طرف سے کچھ قدر لکھی ہوتی ہے جو کرپٹ حکمرانوں، خراب حکمرانی اور ناقص مالیاتی پالیسی کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی رہتی ہے۔ روپے کی اصل قیمت یا مالیت اسلامی ترقیاتی بینک کے معیاری بین الاقوامی یونٹ، SDR یا اسلامی دینار کے تقابل سے معلوم کی جا سکتی ہے، جسے اصل سرمایہ جمع کرنے اور واپس کرنے کے وقت استعمال کیا جانا چاہیے (تفصیلات بعد میں) اور کرنسی نوٹوں پر صرف نمبر چھاپے گئے جو اس کی مارکیٹ میں موجودہ قدر ظاہر نہیں کرتے اس کے لے SDR یا اسلامی دینار سے تقابل کرنا پڑے گا۔ صرف نوٹ پر لکھے اعداد پر بھروسہ کرنا اللہ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے:
لیکن اگر (ربا ) توبہ کر لیں تو آپ کے پاس آپ کا اصل سرمایہ ہوگا (رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ)۔ کسی پر ظلم نہ کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے گا (قرآن؛ 2:279- ترجمہ)
سرمایہ کی واپسی پر صرف کرنسی نوٹ پر اعداد پر بھروسہ کرنا جمع کرنے والے (سرمایہ کار) کے ساتھ ظلم ہے۔
کاغذی کرنسی میں اصل سرمائے (رأس المال) کی قدر(value) کا تعین
کوئی یہ کہہ کر تضحیک کا نشانہ بن سکتا ہے کہ 1 کلو کے کپڑے سے معیاری پتلون (پینٹ) بنائی جا سکتی ہے۔ عام طور پر، ایک معیاری بالغ فرد کے سائز کی پتلون کے لیے، 1.5 میٹر کی معیاری چوڑائی فرض کرتے ہوئے، تقریباً 2 میٹر کپڑا درکار ہوتا ہے۔ وزن کی پیمائش کرنے والی اکائیاں لمبائی کی پیمائش کے لیے یا اس کے برعکس استعمال نہیں کی جاتی ہیں۔ پیمائش کی اکائیوں کو کسی چیز کے لیے مناسب ہونا چاہیے- (حجم ، وزن ، لمبائی)
خیال رہے کہ جب سونے اور چاندی کے سکے بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے تو سکوں کا وزن اورخالص پن (purity) اس کی قیمت یا مالیت کا تعین کرتی تھی۔ اگرچہ کاغذی کرنسی کو عام طور پر نمبروں میں ماپا جاتا ہے لیکن اس کی "حقیقی قدر یا قدر" کو صرف مروجہ بین الاقوامی معیار کی کرنسی کی پیمائشی اکائیوں کے سلسلے سے تقابل سے ہی ماپا جا سکتا ہے، صرف نمبر یا وزن ہمیشہ غلط نتائج دے گا، نوٹوں کو نمبروں میں گننا عام رواج ہے کہ اس میں آسانی ہے اور کم وقت میں کچھ خاص فرق نہیں پڑتا-
کاغذی کرنسی کی قدر کا تعین مانیٹری اتھارٹی کے ذریعے کیا جاتا ہے جو اسے جاری کرتی ہے، عام طور پر اسٹیٹ بینک یا کوئی سرکاری ایجنسی۔ کاغذی کرنسی کی قدر سونے یا چاندی جیسی قیمتی دھات کے وزن یا قدر سے نہیں، بلکہ اقتصادی عوامل جیسے افراط زر، انٹرسٹ ریٹ، اور مجموعی اقتصادی کارکردگی کے پیچیدہ مجموعہ سے منسلک ہے۔ مرکزی بینک اور سرکاری ایجنسیاں کاغذی کرنسی کی قدر کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کرتی ہیں، جیسے کہ انٹرسٹ ریٹ کا تعین، رقم کی فراہمی کو ایڈجسٹ کرنا، اور بین الاقوامی منڈیوں میں کرنسی کی مداخلت میں مشغول ہونا۔ کاغذی کرنسی کی قدر دیگر عوامل سے بھی متاثر ہو سکتی ہے، جیسے کہ سیاسی استحکام، بین الاقوامی تجارت، اور کسی خاص کرنسی کی مجموعی مانگ۔ عام طور پر، ایک کرنسی کی قدر کو عالمی منڈی میں دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں ماپا جاتا ہے، اور شرح مبادلہ میں اتار چڑھاو بین الاقوامی تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی پر اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
اگرچہ کسی ملک کے اندر روزمرہ کے کاروبار میں نوٹوں کو تعداد میں شمار کرنا ایک عام عمل ہے۔ بینک یا مالیاتی ادارے میں جمع رقم یا قرض پر منافع (ربا، سود) اسلام میں سختی سے ممنوع ہے۔ تاہم سرمایہ کاری کے لین دین میں، فوری طور پر مختصر مدت میں نہیں، بلکہ طویل مدت میں،(رأس المال) کی قدر(value) کا تعین کرنے کے لیے صرف کرنسی نوٹوں کو گننا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ کرنسی کی قوت خرید بدل گئی ہو گی۔
کاغذی نوٹ کاغذ کا ایک بیکار ٹکڑا ہے۔ کاغذ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی (سونے کے دینار کی اپنی قیمت ہوتی ہے) نوٹ پر چھپی ہوئی قیمت اس کی قیمت کو بیان کرتی ہے، جو افراط زر، حد سے زیادہ پرنٹنگ اور دیگر عوامل کی وجہ سے اتار چڑھاؤسے گرتی ہے۔
کسی چیز کے وزن کو اکثر تبدیل ہونے والے پیمانہ (variable) صحیح وزن معلوم نہیں کیا جا سکتا، یعنی اگر حکام دکانوں میں ناپتے ہوئے وزن کو چیک کریں اور دیکھیں کہ باٹ پر وزن تو 5 کلو گرام (5000 گرام) لکھا ہوا ہے، لیکن درحقیقت معیاری وزن (standard weight) سے چیک کرنے پر اس کا وزن 4995 گرام ہے۔ ، 5 گرام کم، اسے فراڈ کہا جاتا ہے، دکاندار کو فراڈ، دھوکہ دہی پر گرفتار کرکے عدالت سے سزا دی جائے گی۔ اسی طرح اگر 5000 روپے کا کرنسی نوٹ ایک سال پہلے بینک میں جمع کرایا گیا تھا، اور اسے ایک کرنسی نوٹ کے طور پر واپس کیا جاتا ہے جس پر 5000 روپے لکھا ہوا ہے لیکن اس کی قیمت یا قیمت (قوت خرید) 4995 روپے ہے، تو کیا یہ دھوکہ نہیں ہے؟ قبل دی گئی مثال کی طرح فراڈ-
ربا / سود (اصل قیمت میں اضافہ) کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ اللہ نے ڈپازٹر/سرمایہ کار کے اصل سرمائے میں کسی قسم کے اضافے یا کمی کو روکا ہے:
"تمہارا اپنے اصل سرمایہ پر حق ہے، نہ تم (قرضدار کو) نقصان میں مبتلا کرو گے اور نہ تمہیں نقصان پہنچایا جائے گا۔" (قرآن 2، 279)
سرمائے کی اصل قدر و قیمت کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس لیے "کرنسی نوٹ" کی اصل قیمت کا تعین کسی معیاری اکائی کے حوالے سے کیا جائے گا تاکہ "کرنسی نوٹ" کی قدر میں اگر کمی ہو تو اس کا علم ہو جایے تاکہ نقصان کا ازالہ کیا جاسکے اور اللہ کا حکم پورا ہو-
اللہ کا فرمان ہے: (ترجمہ) اور اگر تم (ربا ، سود سے) توبہ کر لو تو تمہارا اصل سرمایہ (capital) محفوظ ہے۔ نہ تم (قرضدار) کو نقصان پہنچاو گے اور نہ تم کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ (البقرہ ;279)
اس سرمایہ کاری کے معامله میں فوری مختصر وقت نہیں بلکہ زیادہ عرصہ میں کرنسی نوٹوں کے اعداد کا شمار دھوکہ دہی ہوگی- لمبے عرصۂ کے (deposit) پر کوئی ربا (سود) نہیں لیا جا سکتا مگر اللہ نے اصل سرمایہ میں کسی کمی بیشی سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے اس لیے "مال" کی حقیقی قدر (real value) کا تعین معیاری اکائی کے حوالے سے کیا جائے گا تاکہ "مال " کی قدر میں کوئی کمی نہ ہو، نقصان نہ ہو- کاغذی نوٹ بیکار ہوتا ہے، کاغذ کی کوئی قیمت نہیں (گولڈ دینار کی اپنی قدر ہے)اس پر چھپی ہوئی قیمت اس کی مالیت بیان کرتی ہے، جو مہنگائی، ضرورت سے زیادہ پرنٹنگ اور دیگر عوامل کی وجہ سے اتار چڑھاؤ، قدر میں کمی کا شکاررہتی ہے۔

اسلامی دینار
اسلامی ترقیاتی بنک (IDB -Islamic Development Bank ) بلا سود حساب کتاب کے لیے کاغذی کرنسی کے اتار چڑھاوکے اثرات سے حفاظت کے لئے اپنا اسلامی دینار(virtual) استعمال کرتا ہے جو IMF کی طرف سے قائم کردہ SDR (خصوصی ڈرائنگ رائٹ) کے برابر ہے۔ پہلے سونا اور امریکی ڈالرریفرنس کے لئے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب ایس ڈی آر (SDR) ایک مستحکم مانیٹری یونٹ ہے، موجودہ عالمی مالیاتی نظام میں کاغذی / فیاٹ کرنسی میں۔ سپیشل ڈرائنگ رائٹ (SDR) کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) نے 1969 میں ایک ضمنی بین الاقوامی ریزرو اثاثہ کے طور پر بنایا تھا۔ ایس ڈی آر کو بریٹن ووڈ سسٹم (Bretton Woods system) کے عدم استحکام کے جواب میں متعارف کرایا گیا تھا، اس سسٹم نے سونے اور امریکی ڈالر کو بین الاقوامی ریزرو کرنسیوں کے طور پر استعمال کیا تھا۔ مہنگائی، ضرورت سے زیادہ کرنسی نوٹ پرنٹنگ اور دیگر معاشی متغیرات کی وجہ سے کمزور معیشت والے ممالک جیسے پاکستان، میں کاغذی کرنسی کی قدر میں اتار (چڑھاؤ) آتا رہتا ہے۔ایک اسلامی دینار، ایک اسپیشل ڈرائنگ رائٹ (SDR) کے برابر ہے، جو کئی بڑی کرنسیوں کا وزنی اوسط ہے۔ 2021 تک، SDR ٹوکری کی ساخت حسب ذیل ہے:
امریکی ڈالر - %41.73. یورو - %30.93. چینی یوآن 10.92%. جاپانی ین - 8.33%. برطانوی پاؤنڈ سٹرلنگ 8.09%
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی طرف سے ٹوکری (basket) میں ان کرنسیوں کے وزن (weightage) کا ہر پانچ سال بعد جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ دنیا کے تجارتی اور مالیاتی نظام میں کرنسیوں کی نسبتی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ موجودہ SDR باسکٹ کا آخری بار 2020 میں جائزہ لیا گیا تھا اور یہ 2025 میں اگلے جائزے تک برقرار رہے گا۔
ایک مثال: یہاں ہم صرف 15 سال کی مدت لیتے ہیں (2008-2023)

Here we just take a period of 15 years (2008-2023)
August 2008: 1 SDR =84.26
PKR or 1 Pk Rs.= 0.011860275 SDR
April 2023, 1 SDR (Special Drawing Right) = 377.98 PKR OR
Total depreciation of Pak Rs in 15 years=377.98-84.26=293.72 = 347.18%
Annual average Depreciation in relation with Islamic Dinar (SDR)= 23%
پاکستانی روپیہ کی اسلامی دینار (اور SDR) کے تعلق سے سالانہ (average Depreciation) اوسط فرسودگی = 23%

اس عرصۂ میں (NSC ) پنشن اکاؤنٹ/بہبود سرٹیفکیٹس پر ریٹرن 11.04% سے 16.80%,9, 10, 11, 12, 13 کے درمیان اتار چڑھاؤ آئے، صرف ایک بار 16.80% کی چوٹی تک پہنچ گئے (دسمبر 2008 سے جولائی 2009)۔ اس لیے تقریباً اوسطاً، بظاہر منافع تقریباً 12% رہا ہے، جو روپے کی فرسوددگی ، مالیت کی قدر میں سالانہ کمی (23%) کا تقریباً نصف (50%) ہے- اصل مال کی امانت کی قدر و قیمت کی حفاظت کی اللہ کی طرف سے ضمانت دی گئی ہے (قرآن 2:279)۔ اللہ کے حکم سے کوئی انحراف نافرمانی ہے۔ جو منافع کے نام پر ادائیگی کی جاتی ہے وہ منافع نہیں بلکہ مال کی قدر میں کمی کا جزوی ازالہ ہے جسے ِ(indexation)کہنا درست ہوگا- ِانڈیکسیشن ِ(indexation) ایک مالیاتی مروجہ اصول ہے جوس کی ایک مثال پاکستان میں (IPP) بجلی بنانے والےپرائیویٹ اداروں کو تیل کی قیمت میں اضافہ اور انفلیشن کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لے ادا کی جاتی ہے اور یہ عوام سے (fuel adjustment) کے نام پر ہر ماہ وصول کی جاتی ہے ، مگر یہ ربا یا سود نہیں-
تو مرکز قومی بچت جو کہ حکومتی ادارہ ہے جو کسی کاروبار میں شامل نہیں نہ ہی کسی کوقرض دیتا ہے ، اس کی طرف سے ِ(indexation) کی کچھ ادائیگی جو کہ اصل مال کے تحفظ کی قرانی گارنٹی کے مطابق ہے اسے ربا یا سود یا منافع کیسے کہا جا سکتا ہے؟
ڈپازٹر حقیقی معنوں میں تقریباً 11% سالانہ (12-23) کے خالص نقصان میں ہے، NSC کی طرف سے ادا کردہ اوسطاً 12% روپے کی قدر کے نقصان/فرسودگی کے صرف 50% اشاریہ کا جزوی ازالہِ(indexation) ہے۔ .
اگر NSC اکاؤنٹ / سرمایہ کاری / ڈپازٹ کو اسلامی دینار (SDR کے برابر) کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ پھر روپے کے لحاظ سے، 23% فی سال ادا کیا جاتا ہے روپے کی قدر میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ اسلامی دینار کے برابر ہوگا۔ 23% سے زیادہ کوئی بھی چیز ربا/سود/منافع وغیرہ ہے، جو پاکستان کی بینکنگ کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
یاد رہے اللہ کا وعدہ:
اللہ فرماتا ہے:
’’تم کوئی ظلم نہیں کرتے (سود لے کر) اور نہ تم پر ظلم ہو گا (اپنے اصل کی قیمت کم کرکے)‘‘ (قرآن 2:279)۔
اے ایمان والو! انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ (قرآن 4:135)
اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو (قرآن؛ 6:152)
جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں (قرآن 2:269)
یہ قرآن سراسر ہدایت ہے جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا ان لوگوں کے لیے ذلت اور اذیت ناک عذاب ہوگا (قرآن 15:11)

مزید پڑھ:

English: https://SalaamOne.com/Riba https://bit.ly/QuranOnRiba (اردو خلاصہ)

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

 أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰانِ الرَّجِيْمِ o بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے (قران 64:15) 

قرآن اور ربا:  جنگ دراصل کون کر رہا ہے؟

بریگیڈیئر(ر) آفتاب خان (عبداللہ) 

https://bit.ly/QuranOnRiba  \ https://SalaamOne.com/Riba 


مصنف فری لانس رایٹر، محقق اور بلاگر، پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں ماسٹرز اور قرآن کریم ودیگر کتب الہی کے مطالعہ میں دو دہائیوں سے مصروف،، سولہ سال سے " Defence Journal میں تسلسل سے لکھ رہے ہیں۔ ان کی منتخب تحریریں پچاس سے زائد ای کتب میں مہیا ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی  کام سے لاکھوں لوگ استفادہ کر چکے-  تحقیقی کام ویب سائٹ پر موجود ہے: https://SalaamOne.com/About : رابطہ E Mail: Tejdeed@gmail.com


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~

کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے مروجہ ماحول کو اچھی طرح سمجھنا پڑتا ہے، پھر قرآنی احکام کا اطلاق موجودہ صورت حال میں عقلمندی سے کیا جاتا ہے۔ فیاٹ (Fiat) کرنسی ایک حالیہ رجحان ہے۔یہ حکومت کی طرف سے جاری کی جانے والی کاغذی کرنسی (نوٹ) ہے جسے کسی مادی (فزیکل) شے، جیسے سونا یا چاندی کی سپورٹ حاصل نہیں ہے، بلکہ حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ فیاٹ رقم کی قدر (value) طلب اور رسد کے درمیان تعلق اور جاری کرنے والی حکومت کے استحکام سے حاصل کی جاتی ہے، بجائے اس کے کہ اس کی پشت پناہی کرنے والی کسی شے کی قیمت۔ زیادہ تر جدید کاغذی کرنسیاں فیاٹ کرنسیاں ہیں، بشمول امریکی ڈالر، یورو، اور دیگر بڑی عالمی کرنسیاں۔ فیاٹ کرسی کا ایک خطرہ یہ ہے کہ حکومتیں اس میں سے بہت زیادہ کرنسی نوٹ پرنٹ کر سکتی ہیں، جس کے نتیجے میں افراط زر(inflation) کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ قرآن کریم ہر معاملے کے لیے ابدی رہنمائی فراہم کرتا ہے، اس لیے کسی مسئلے پر قرآنی احکام کا مکمل اطلاق ضروری ہے, احکام کا جزوی، نامکمل اطلاق ایک ظالمانہ مذاق ہے (cruel mockery). قرآن کا حکم ( لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ) ظلم نہ کرو اور تمہارے ساتھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا(البقرة ٢٧٩) اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ایس کا بار بارتذکرہ ہو گا اور یہ (البقرة ٢٧٩) اس مقالہ کی بنیاد بھی ہے-

حکم اللہ کا نامکمل نفاذ 

 قرآنی احکام کونامکمل پیش کرنا انتہائی گمراہ کن ہے، جان بوجھ کر معلومات کو چھوڑنا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے، بہت بڑا گناہ ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ؛ آدھا سچ اکثر مکمل جھوٹ ہوتا ہے جو کہ یہ اہل کتاب کا وطیرہ  ہے۔ اللہ کا فرمان ہے : 

اے اہل کتاب ! باوجود جاننے کے حق وباطل کو کیوں غلط ملط کر رہے ہو اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو؟ (3:71)

کیا تم کتاب کے بعض احکام مانتے ہو اور بعض کا انکار کردیتے ہو؟ بھلا جو لوگ ایسے کام کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں اور قیامت کے دن وہ سخت عذاب کی طرف دھکیل دیئے جائیں؟ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں"(قرآن 2:85) آئیے ایک مثال لیتے ہیں، الله تعالی کا فرمان ہے :  Read more »

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا (اے لوگو جو ایمان لائے ہو) لَاتَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ (نماز کے قریب نہ جاؤ) وَاَنۡتُمۡ سُکٰرٰی (جب تم نشے میں ہو) [قرآن: 4:3]

اس آیت میں اگر آخری حصہ (وَاَنۡتُمۡ سُکٰرٰی) ’’جب تم نشے میں ہو‘‘ پیش نہیں کیا گیا تو یہ پڑھے گا:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو (یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا) نماز کے قریب نہ جاؤ (، لَاتَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ)۔

پورے معنی بدل گئے ہیں، نماز (صَلَاة‎) اسلام کے بنیادی ستون کی نفی آیت کے کچھ حصے کو چھپا کر، گھما کر کر دی گئی ہے۔ اگر پوری سچائی نہ بتائی جائے تو ایسا ہے کے جیسے آپ ان سے جھوٹ بول رہے ہوں۔

لہذا یہاں "صدی کے بہت بڑے(Scam of the Century  Unveiled) گھپلہ کو بے نقاب کیا گیا ہے"۔ ربا (سود)  کی حرمت پر اکثر پیش کی جانے والی دو آیات میں فرمانبردار بندوں پر اس کے مثبت اثرات کے وعدہ کے بارے میں بھی پوری حقیقت بیان کی گئی ہے۔ دونوں پہلو یکساں طور پر اہم ہیں اور دونوں احکام کومکمل طور پر ان کی روح (سپرٹ) کے مطابق نافذ کیا جانا لازم و ملزوم ہے، یہی اس تحقیق و مقالہ کا موضوع ہے۔

الله تعالی کی طرف سے "ربا" پر پابندی کے حکم کا دوسرا حصہ جو کہ اصل سرمایہ کی مکمل حفاظت، بغیر کمی و نقصان کے واپس کرنے کی گارنٹی دیتا ہے اس پر توجہ نہ دے کرسرمایه کے مالک پر ظلم اور ناانصافی کی جا رہی جس سے اللہ تعالی ںے صریحا منع فرمایا:  

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ‎﴿٢٧٨﴾‏ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ‎﴿٢٧٩﴾

"اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ربا (سود) لینا چھوڑ دو اگر تم مومن ہو(٢٧٨) اور اگر تم باز نہ آؤ تو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ)سے جنگ ہے اور اگر تم سود لینے سے توبہ کرو، تو تمہارا اصل سرمایہ پر حق ہے ؛ تم (قرضدار) سے (زیادہ مانگ کر اس پر) ظلم  نہ کرو اور تمہارے ساتھ بھی (تمہارے اصل  سرمائے میں خوردبرد  کرکہ) ظلم  نہیں کیا  جائے گا (البقرة ٢٧٩،مفھوم)

اسے ہزاروں ، لاکھوں علماء ، دانشوروں، معاشی ماہرین، قانونی ماہرین، میڈیا اور معزز ججز کی لاعلمی، غلطی کہیں یا کسی دشمن ، شیطان کی سازش و منصوبہ سازی (واللہ اعلم) حسن ظن کا تقاضا ہے کہ اسے عظیم بلنڈر سمجھ کر درگذر کیا جاۓ، فضول بحث مباحث میں وقت ضایع کرنے کی بجاۓ فوری طور پر مثبت پیش رفت سے غلطی کا  ازالہ کرکہ الله تعالی کے احکام پر مکمل عمل کیا جاۓ ( لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ) ظلم  نہ کرو اور تمہارے ساتھ بھی ظلم  نہیں کیا  جائے گا-

یاد رکھیں کہ قرآن پر ایمان ، تلاوت ، سمجھنا ، عمل کرنا اور دوسروں تک اس کا پیغام پہنچانا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے- [ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ‎﴿١٧﴾] "اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟"(قرآن 54:17). جب ہم اپنی آنکھیں بند کر کہ  قرآن کو صرف دوسروں کی آنکھ سے دیکھتے ہیں تو پھر بلندرز ہوتے ہیں- ایک دوسرے بلنڈرکا بھی علم ہوا، اس کا ذکر آخر میں-   

اسلامک بینکنگ کا فیصلہ 

ریا کی قرآن میں حرمت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے- پاکستان میں اسلامی قوانین کی قرآن و سنت کی روشنی میں  جانچ پڑتال کے لے فیڈرل شریعت کورٹ (FSC) نے بنکنگ سسٹم میں ربا کے خاتمہ پر 1999  میں فیصلہ دیا ، جس پر اپیل ہوئی اور  28 اپریل 2022 کو پھرربا کو حرام قرار دے کر اسلام بنکنگ کے زریعہ اسے ختم کرنے کا حکم جاری  ہوا- یہ ایک خوش آئند قابل تعریف قدم (welcome step) ہے جس کی مخالفت کرنا الله اور  رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے مترادف ہے- اس تحریر کا مقصد صرف قرآن کے احکام کی تعمیل میں کمی کی نشاندہی اور تصحیح کی ضرورت کو واضح کرنا ہے- الله تعالی کے احکام پر مکمل عمل درآمد  کیسے کرنا ہے یہ فیڈرل شریعت کورٹ (FSC) اور متعلقہ اداروں کی قانونی ، اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے-

اکثریت کو شاید یہ علم نہیں معززعدالت کے اس فیصلہ میں اللہ کا حکم آدھا نافذہوا- قرآن کی ایک ہی آیت میں سے  نصف پر پر عمل اور باقی آیت کو اس بنا پرنظر انداز کرنا کہ یہ دائرہ اختیار سے باہر ہے فیصلہ مکمل کیسے ہو سکتا ہے؟ 

سخت حیرت ہے کہ علماء ، دانشور اور قانونی ماہرین جو کئی دہایوں سے اس معامله کا جوش و خروش سے تعاقب (pursue) کر رہے ہیں ان کی توجہ کیوں آیت کے دوسرے حصہ سے صرف نظرکر گئی- بحرحال انسان خطا کا  پتلا ہے اور اللہ نے خطا کی معافی تلافی کی گنجائش رکھی ہے- گونگے شیطان کی طرح خاموشی کی بجانے قرآن کی طرف توجہ مبذول کرانے کا مقصد بلا جواز توہین و تضحیک نہیں بلکہ حق کی بنیاد پر اصلاح کی کوشش ہے جو اللہ کے حکم سے تا قیامت جاری رہے گی،

".. انہوں نے اللہ کے نازل کردہ احکام  کو ناپسند کیا، لہذا الله تعالی نے ان کے اعمال کو ضائع کر دیا" (قرآن 47:9)

اصل سرمایہ کی قدر میں افراط زر سے کمی کا ازالہ 

----- اگر تم سود لینے سے توبہ کرو، تو تمہارا اصل سرمایہ پر حق ہے ؛ تم (قرضدار) سے (زیادہ مانگ کر اس پر) ظلم  نہ کرو اور تمہارے ساتھ بھی (تمہارے اصل  سرمائے میں خوردبرد  کرکہ) ظلم  نہیں کیا  جائے گا (البقرة ٢٧٩)

جناب محترم مفتی تقی عثمانی صاحب نے 1999 کی شریعت کورٹ  ایپلیٹ ججمنٹ میں افراط زر سے "راس المال"  (Principal/ Capital)  کی قدر (devaluation) میں کمی کے مسلہ پراسلامی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ عام بحث (general discussion) کی اورحل کے لے کئی آپشن بھی دئیے مگر پھراسے سائیڈ لائین کردیا کہ اس پر مزید تحقیق، سوچ بچارکی ضرورت ہے- یہ تحقیق گزشتہ بائیس (22) سال میں ہوئی یا نہیں (واللہ اعلم).اسلامی نظریاتی کونسل کو لکھا ہے جواب کا انتظار ہے-

حالیہ 28  اپریل 2022 کے فیڈرل شریعت کورٹ FSC  کے فیصلہ پر بہت واہ واہ ہو رہی ہے، ہونا بھی چاہیے مگر FSC نے انفلیشن سے منسلک مسئلہ کو یہ کہہ کر خارج از بحث کردیا کہ یہ (indexation & inflation) ان کے دائرہ اختیار (jurisdiction) سے باہر ہے۔ انہوں نے 1999 میں جناب مفتی تقی عثمانی صاحب کی ججمنٹ اور مزید تحقیق کی سفارشات کا تزکرہ بھی نہ کیا اور معامله ختم کر دیا- 

اسلامی نظریاتی کونسل کی ویب سائٹ پر بلا سود بنکاری پر ١٩٨٠کی رپورٹ ہے 

پاکستان میں افراط زر (انفلیشن ) اور انٹرسٹ ریٹس کا ڈیٹا 

یہ دلچسپ اعداد و شمار ہیں: افراط زر کی شرح 1960 میں منفی 0.52- ٪ تھی پھر 1974 میں پلس 26.66٪، 2021 میں 9.5٪ اور 2022 میں 26٪ کے درمیان اتار چڑھاؤ پر رہی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک کی طرح افراط زر اور شرح سود کو پاکستان میں بھی زیرو پر لانا ممکن ہے- 

شرح انٹرسٹ  کے 1956 سے  2022 کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقریبا  3.6% (1956) سے 19% (1996)، 14% ،2009  8% 2016،  13%  2019 ، 8% 2020 اور 16%  2022 (یہ ڈیٹا چارٹ سے لیا  گیا ہے ان میں معمولی غلطی کا امکان ہے) 


 ایک مثال :

 عبداللہ (depositor) سے بینک، نیشنل سیونگ سنٹر  (NSC/ government/ State Bank) ایک سو (100) گرام سونا لے کر اس میں ایک گرام  تانبہ ملاتا ہے (inflation)  تو 101 گرام سونا  ہو گیا- ،نیشنل سیونگ سنٹر/ بنک عبدللہ  کو اس ملاوٹ شدہ  سونے میں سے 0.5 گرام منافع کہہ کراسے واپس  دیتا ہے اورباقی 0.5 گرام خود رکھ لیتا ہے [6 دسمبر 22 کو 1 گرام 24 قرات سونے کا ریٹ 12809روپیہ ہے]

ایک مولانا صاحب فرماتے ہیں یہ  0.5 گرام منافع ربا ہے حرام ہے- دوسرا کہتا ہے نہیں یہ منافع ہے- تیسرا کہتا ہے نہیں یہ کاروبار ہے-

عبداللہ کہتا ہے:

 یہ نہ "ربا" (سود) ہے نہ منافع بلکہ بددیانتی ، نا انصافی ، ظلم ، دھوکہ ، انفلیشن کی جزوی تلافی ہے،  مگر کیسے؟

گولڈ میں ملاوٹ ہو یا کرنسی نوٹ کی زیادہ پرنٹنگ (money printing) دونوں ہی اصل مال میں خرد برد ، دھوکا ہے- مثلا  100گرام گولڈ  "اصل راس المال" میں کسی دوسری دھات کی ملاوٹ (inflation) سے اس کی قدر کم (devalue) ہو گئی  بظاہر سو گرام سونا  ہی نظر آتا ہے یہ وہ اصل نہیں بلکہ کم قیمت کا ملاوٹ شدہ  پتلا ،گھٹیا سونا ہے-  (State bank/ governments) نے بنک اور نیشنل سونگ سنٹرکے زریعہ سے 100گرام  خالص سونا  لے کر اس میں 1 گرام  تانبہ یا کوئی دھات (inflation) ملا کر اسے ناخالص کر دیا جو سونا (اصل زر . مال ) واپس کیا وہ کم قیمت کا ہے اصل مال نہیں- سونے کی قیمت اس میں ملاوٹ سے کم ہو جاتی ہے جیسا کہ مندرجہ زیل ریٹ سے ظاہر ہے :

1Gm Gold@ Rs.10700 (24K), Rs.9808(22K), Rs.9363(21K), Rs.8025(18K)

قرآن کہتا ہے جو ربا سے توبہ کر لے ، ربا نہ لے تو اصل مال اس کا ہے. وہ کسی پر ظلم نہ کرے کہ زیادہ پیسوں کا مطلبہ کرے تو نہ ہی اس پر ظلم کیا جایے گا یعنی اس کے اصل مال میں خردبرد ، کمی نہ کی جایے ( لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ) (مفھوم قرآن 2:279)

اس مثال میں اصل مال میں 1 گرام گولڈ  کی ملاوٹ کرکہ جو 100 گرام  گولڈ واپس کیا وہ نا خالص ہے ، اس کی کوالٹی کم ہے، اگر فروخت کرے تو تو مارکیٹ میں کم قیمت ملے گی. جیسا کہ منرجہ بالا قیمت کے چارٹ سے ظاہر ہے-  جو0.5 گرام منافع دیا وہ اسی کے گولڈ اصل زر میں سے دیا بلکہ 0.5 گرام گولڈ خود بھی رکھ لیا- اس طرح عبداللہ کو دھوکہ سے اسی کے اپنے مال سے کچھ رقم واپس کی جو بظاہر مفافع نظر آتا ہے مگر نہیں ہے بلکہ جو0.5 گرام حکومت / سٹیٹ /ببنک  خود لے گیا وہ بھی عبداللہ  کے اصل میں سے نقصان ، کمی ہے-

مالیاتی فراڈ کے لیے  "ڈبل شاہ" جیسے  اور دھوکہ باز لوگ بدنام ہیں جو سادہ عوام کو بے وقوف بنا کران ہی کے مال سے منافع دے کر خوش کر تے ہیں -اسلامی ریاست کو ایسا کام زیب نہیں دیتا- عبداللہ (شہری) کے اپنے ہی اصل مال سے حاصل شدہ مال کو ربا، حرام کہے، اللہ اور  رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ ، گناہ کبیرہ ، جہنم کی آگ کا خوف پیدا کرے بنک اور مالیاتی اداروں کی ملازمت اور تنخواہ کو حرام کے  فتوے لگایئں پھر اور مزید حکومت اس کی اپنی اصل رقم مال کو آمدنی کہے اس (15٪ سے 30٪) پرودہولڈنگ (Withholding) اور پھرانکم ٹیکس لگا  ۓ  ظلم اور کیا ہے؟ زکاۃاپنی جگہ فرض ہے-

اللہ کا فرمان ہے تا قیامت ابدی ہے جو ہر قسم کی کرنسی گولڈ ، سلور. کاغذ ، فیاٹ،  ڈالر، روپیہ ، ڈیجیٹل یا جو بھی مستقبل میں ہو، قرض و مقروض کے اصول دیتا ہے:

1) اصل سرمایہ کی گارنٹی 2) نہ زائد لو(ربا) 3) نہ اصل زر مال کی قدر میں کمی 4) جو ان اصولوں پر عمل نہ کرے وہ ظالم ہے (اسلامی تجارت کے اصول، الگ موضوع ہے) 

ظالم ہی الله تعالی اور  رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ پر ہیں 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ‎﴿٢٧٨﴾‏ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ‎﴿٢٧٩﴾

"اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ربا (سود) لینا چھوڑ دو اگر تم مومن ہو(٢٧٨) اور اگر تم باز نہ آؤ تو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ)سے جنگ ہے اور اگر تم سود لینے سے توبہ کرو، تو تمہارا اصل سرمایہ پر حق ہے ؛ تم (قرضدار) سے (زیادہ مانگ کر اس پر) ظلم  نہ کرو اور تمہارے ساتھ بھی (تمہارے اصل  سرمائے میں خوردبرد  کرکہ) ظلم  نہیں کیا  جائے گا (البقرة ٢٧٩)

عوام (عبداللہ ) کدھر جائیں؟  

کیا ایسا قانون اسلامی کہا جا سکلتا ہے کہ: چوری، ملاوٹ کرنا ، کم تولنا حرام ہے عوام کے لیے مگر حکومت کے لے نہیں؟

انڈیکسیشن (Indexation)

انڈیکسیشن ایک ایسا تسلیم شدہ مروجہ طریقہ ہے جس سے اصل زر میں (inflation) افراط زرکی وجہ سے جو قدر (value) میں  کمی واقع ہوتی ہے اس ( کمی) کو دور کیا جاتا ہے اور اصل زر کی اصل  قدر (original value) قائم  رہتی ہے، نہ کم، نہ زیادہ ، یہی انصاف ہے، یہی قرآن و شریعت کا تقاضہ ہے- اسلامی  ڈویلپمنٹ بنک  کا دینار اور IMF اس پر عمل پیرا ہیں -

اگر ایک کلو خالص سونا قرض یا امانت دیا جایے اورمقروض اس میں سے کچھ سونا (مثلا 10 گرام ) نکال کر 10 گرام تانبہ کی ملاوٹ کر کہ وزن ایک کلو پورا کر کہ واپس کر دے کہ یہ ہے آپ کا ایک کلو سونا، اور 5 گرام منافع بھی دے اور 5 گرام خود رکھ لے کیا یہ "ربا" ہے یا آپ کے اپنے اصل زر کا ایک حصہ؟  اور اگر یہ حرکت وہ  ہر ماہ  کرے تو100ماہ بعد صرف تانبہ رہ جایے گا جس پر سونے کا ملمع کرکہ سونا کہہ دے-

اصل زر مال کی قدر میں تبدیلی [1947-2022]

1947میں ایک ڈالر 3.31 روپیہ کا تھا,  اور اب229 روپیہ کا،  تقریبا زیرو, ایک روپے  کا نہ سکہ زیر استعمال ہے نہ نوٹ نظر آتا ہے، صرف حساب کتاب میں رہ گیا  ہے- فقیر بھی 5 یا 10 کا سکہ یا نوٹ لیتا ہے-

روپیہ کی قدر میں تبدیلی بمقابلہ گولڈ 

1947 میں 3.31 روپے (1 امریکی ڈالر) سے 0.6770982456 گرام سونا ملتا اب 2022 میں اس وزن سونے کی قیمت 6641 روپے ہے(یا 1947 والا ایک روپیہ آج کے 2006 روپے کے برابر ہے)- جبکہ 3.31 روپے (1$) کے پرنسپل مآل پر 10.139 فیصد سالانہ کی شرح سے 75 سالوں کے دوران مسلسل کمپاؤنڈ انٹرسٹ کے ساتھ جمع ہونے والی کل رقم 6,641 روپے بنتی ہے.۔ اس طرح اس مثال میں 10.139 فیصد سالانہ  کی شرح سے اضافہ "ربا" (اصل مال میں اضافہ ) نہیں بنتا اس سے زیادہ شرح اصل رقم اصل زر مال (principal) میں اضافہ ہے جو "ربا" ہے، یہ صرف  ایک علمی اعداد و شمار کی مثال ہے کوئی فتوی نہیں-

 لیکن اگر اس "رقم تلافی" (compensation) کو ربا قرار دے کر نہ ادا کریں اور 75 سال بعد صرف 3.31 روپے واپس کر دیں- تو کیا اصل رقم کی قدر میں کمی پورا نہ کرکہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں؟ کیا یہ ظلم نہیں؟ 

روپیہ کی قدر میں تبدیلی بمقابله کاغذی کرنسی ڈالر ($ fiat/ paper currency) 

اب دوسری مثال کاغذی کرنسی (fiat/ paper currency) کی دیکھتے ہیں-  1947 میں 3.31 روپیہ (1 امریکی ڈالر) کے برابرتھا اور اب ایک ڈالر 229 روپیہ (ریٹ تبدیل ہوتا رہتا ہے) - اصل زر کی قدر میں یہ اضافہ، 75 سال کے لیے 5.56% کمپاؤنڈ تلافی سے تلافی ممکن ہے اگر ایسا نہ کریں اور 75 سال بعد عبداللہ (depositor) کو 3.31 روپیہ واپس کریں-

ان دونوں مثالوں سے اصل زر [3.31 روپے / 1 امریکی ڈالر] کی مالیت  75 سال بعد، گولڈ کی مطابق 6,641 روپیہ اور ڈالر کے مطابق 229 روپیہ بنتی ہے- اگر اس کو صرف 3.31 روپے واپس کر دیں تو کیا یہ 75 سال بعد اصل زر کی مارکیٹ  ویلیو ہے؟  تو کیا یہ کسی بھی انسانی اخلاقیات کے مطابق انصاف ہے؟ کیا الله تعالی کے وعدہ کا یہ مطلب ہے؟  کیا یہ انصاف ہے یا ظلم؟ کیا اصل زر جس کی قدر کی گارنٹی الله تعالی  ںے دی کہ اس میں کوئی خردبرد کمی نہ کی جانے گی (البقرة ٢٧٩) اس حکم کی تعمیل ہے یا نافرمانی؟ 

 قرآن کے حکم پر دوبارہ نظر ڈالیں :  

"اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ربا (سود، اصل زر مال میں اضافہ) لینا چھوڑ دو اگر تم مومن ہو(٢٧٨) اور اگر تم باز نہ آؤ تو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ)سے جنگ ہے اور اگر تم سود (سود، اصل زر مال میں اضافہ) لینے سے توبہ کرو، تو تمہارا اصل سرمایہ پر حق ہے ؛ تم (قرضدار) سے (زیادہ مانگ کر اس پر) ظلم  نہ کرو اور تمہارے ساتھ بھی (تمہارے اصل  سرمائے میں خوردبرد  کرکہ) ظلم  نہیں کیا  جائے گا (البقرة ٢٧٩ مفھوم)

 إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ‎﴿٢٢﴾‏

یقیناً اللہ  کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن :8:22)

۔۔۔۔ اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں (قرآن 2:269)

اصل زر کی قدر میں انفلیشن کی وجہ سے کمی کی تلافی کرنے کے دو طریقے ڈسکس کیے- ایک گولڈ کے ساتھ اور دوسرا ڈالر کے ساتھ جو خود ایک کاغذی کرنسی ہے اگرچہ روپیہ کے مقابل قدرے مستحکم ہے - 

  1. گولڈ : مرکب تلافی @ 10.139%، 75 سال بعد ≈ 6,641 روپیہ 

  2. ڈالر : 75 سال کے لیے 5.56% کمپاؤنڈ تلافی  ≈ 229 روپیہ 

  3. دونوں کو مکس کرکہ ایوریج بھی نکالی جا سکتی ہے جو ≈ 8%  ہو سکتی ہے-

  4. یا پھر مکس باسکٹ (متوازن کرنسیاں ، گولڈ ، کموڈیٹیز وغیرہ) انڈکسیشن بیس رکھ  کر شمار کریں- جیسے کہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک ںے  اپنے اسلامی دینارکوIMF کے (SDR(Special Drawing Rights  کے برابر رکھا ہے- ابتدائی طور پر ایس ڈی آر 0.888671 گرام سونے کے مساوی تھا جواس وقت ایک امریکی ڈالر کے برابر بھی تھا۔ Bretton Woods کے نظام کے خاتمے کے بعد، SDR( کو کرنسیوں کی ٹوکری کے طور پر دوبارہ بیان کیا گیا۔ SDR ٹوکری (باسکٹ،امریکی ڈالر، یورو، چینی یوآن، جاپانی ین، پاؤنڈ سٹرلنگ) کا ہر پانچ سال بعد یا اس سے پہلے جائزہ لیا جاتا ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ٹوکری دنیا کے تجارتی اور مالیاتی نظام میں کرنسیوں کی نسبتی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ امریکی ڈالر کے لحاظ سے SDR قدر کا تعین روزانہ لندن کے اسپاٹ ایکسچینج کی شرحوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اسے IMF کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا جاتا ہے- یہ ایک ریڈی میڈ حل موجود ہے-

  5.   On 16/12/22:  1SDR =1.32993 $US=Rs.299.1544,≈Rs.300
  6. یہ عدلیہ اور ماہرین کا کام ہے کہ وہ تلافی کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں- مگر عوام کا  ان پر نظر رکھنا ضروری ہے-

  7. ان مثالوں کے ریٹ ہر ایک پر لاگو نہیں ہو سکتے ، ہر فرد کے ڈیپوزٹ کی تاریخ، دورانیہ، اس دورانیہ میں انفلیشن اورانٹرسٹ ریٹ کے مطابق کیکولیشن کرنا ہوگی- ماہرین سافٹ ویئر یا  مخصوص  کیکولیٹربنا سکتے ہیں-

  8.  لیکن یہ واضح ہے کہ موجودہ طریقہ کوجمع کنندگان کے لیے "ربا" کہنا درست نہیں یہ ظلم اور نا انصافی ہے جس کو ختم ہونا چاہیے یہ صرف جزوی تلافی (partial compensation) ہے اصل زر مآل کی قدرمیں افراط زر کی وجہ سے اصل زر مال کی قدر (value) میں کمی کی تلافی جو قرآن (2:279) میں اللہ کے حکم کے مطابق ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا-

حکومت کے لیےمسمینیجمنٹ،کرپشن غیر ضروری اخراجات پورے کرنے کے لیے لامحدود کرنسی  نوٹ پرنٹ کرنا، افراز زر سے  ان کی قدر (value) کم کرنا کیسے حلال، جائز ہے؟ جبکہ اللہ اور  رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ اصل مال میں کمی یا زیادتی نہ کرو یہ دونوں ظلم ہیں (2:279) ایسے عمل کو اسلامی  کیسے کہا جاسکتا ہے جو کہ قرآن کے بر خلاف ہو؟

بیس 20 تفاسیر 

مشہور مفسرین کی بیس (20)  تفاسیر کو کنسلٹ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ  کسی نے بھی افراط زر، انفلیشن، فیاٹ کرنسی (Fiat Currency) کا ذکر تک کرنا گوارا نہ کیا، شائید ان  کو علم ہی نہیں یا پھر ان کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ نہیں وہ شاید یہ سمجھتے ہوں  کہ عام شہریوں کو تکلیف اور غربت میں رہنا چاہیے، مال و دولت گناہ کی طرف لے جاتی ہے، اشرفیہ کو گناہ کرنے دو مال کمانے دو، وہ جہنم میں جایئں گے (جبکہ اشرفیہ کو ان کے پیروں  اور ولیوں ںے جنت کا ٹکٹ کنفرم کر رکھا ہے)

ابن کثیر (رح) (CE.1300 – 1373)  ںے  صدیوں  قبل خطبہ حج میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی طرف سے  ربا ختم کرنے کے اعلان اور ربا (سود) نہ لینے والوں کے اصل مال میں کمی نہ کرنے کا حکم  بھی پیش کیا جسے دوسرے مفسرین نے سرسری طور پر دہرا دیا۔ 

اس دور، اکیسویں صدی کے پاکستانی علماء نے اپنی گونہ مصروفیات کے با عث اس طرف دھیان نہیں دیا ، میڈیا میں خوب شور ہوتا ہے کہ ربا ختم کرو ، یہ ایک دینی سے زیادہ سیاسی نعرہ بن چکا ہے - جبکہ قرآن صاف صاف اصل مال پورا کا پورا واپس کرنے کا حکم اور "کمی" کو ظلم کہہ رہا ہے۔

عصری فقہا اور اشاریہ (Indexation) سازی   

علماء کا ایک طبقہ اشاریہ سازی (indexation) کو جائز سمجھتا ہے جن میں رفیق المصری، سلطان ابو علی، ایم اے منان، ضیاء الدین احمد، عمر زبیر اور گل محمد شامل ہیں۔ انہیں اس میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جو شرعی قوانین سے متصادم ہو، بلکہ وہ اسے قرآن و سنت میں بیان کردہ عدل کے اصولوں کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ مصر میں 1900 میں مفتی محمد عبدہ کا فتویٰ 2002 تک یکے بعد دیگرے مفتیوں نے سود کو "حرام، مباح اور ممنوع اور پھر دوبارہ جائز" قرار دیا ہے",.۔ مسلم ممالک ہینڈ بک  کے مطابق :"ایک سود کی شرح جو افراط زر کی شرح سے زیادہ نہ ہو، کلاسیکی اسلامی فقہاء کے مطابق سود نہیں ہے" ۔" اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تجاویز میں قرضوں کی فہرست بنانا یا قرضوں کو "کسی شے کے لحاظ سے" جیسے سونا، اور جواب تلاش کرنے کے لیے مزید تحقیق کرنا شامل ہے۔  اس کے برعکس‘ بعض علماء متفق نہیں جن میں مفتی تقی عثمانی اور بعض دوسرے علماء شامل ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب  ۓ اپنی 1999 کی شریعت کورٹ کی ججمنت میں اس پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ جس کا نتیجہ معلوم نہیں-

اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کا اسلامی دینار آئی ایم ایف کے "جی  ڈی آر" کے برابر ہے وہ پہلے ہی اسے قبول کر چکے ہیں  اب "میں نہ مانوں" پر اصرارکی کوئی وجہ نہیں جبکہ نہ کوئی متبادل حل دیتے ہیں نہ ہی عملی اقدام اٹھاتے ہیں 22 سال گزار دینے!

"کیا یہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں" (47:24).

منافع نہیں نقصان 

علماء کو یہ بات سمجھآنا بہت مشکل ہے کہ جسے وہ بظاہر منافع سمجھ رہے ہیں وہ تو مال کی قدر میں کمی (افراط زر. inflation) سے ہونے والے نقصان کا کچھ ازالہ ہے، کچھ علماء کے مطابق اگر یہ ازالہ افراط زرکی شرح سے زیادہ ہو تو"ربا" ہے اور کم ہو تو ربا نہیں نقصان کا جزوی ازالہ (partial compensation) ہے، شرح افراط زر کے برابر ہو توپھر کچھ بھی نہیں- یہ سادہ سی  بات اگر کسی کی عقل میں نہیں آرہی تو وہ الله سے ہدایت کی دعا کرے:

"اللہ تعالٰی نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر (ان کی اپنی بدنیتی اور سوء اختیار کی بنیاد پر) مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے" (قرآن 2:7)

صرف ظاہرسے حلال حرام کا فیصلہ کرنا درست نہیں - اگر کوئی شخص شربت پی رہا ہو تو یہ کہنا کہ وہ شراب پی رہا ہے صرف الزام ہے. موجودہ مالیاتی نظام میں بظاہر جو منافع (ربا) نظر اتا ہے، ثابت ہو رہا ہےکہ  وہ ربا نہیں- بغیر تحقیق کے حلال حرام کے فتوے جاری کرنا گمراہی ہے-

نصف آیات قرآن (2:279) کو نظر انداز کرنا جبکہ وہ کلام اللہ  آج کے معاشی ، فیاٹ منی مارکیٹ  سسٹم  (Fiat monetary system) میں کمزوریوں کا علاج بھی مہیا کر رہی ہے۔ اسلامک بنکنگ بہت وسیع تناظر میں ہر طرف ترقی پزیر ہے مگر اس  اہم معاملہ پر خاموش ہے۔ کیا یہ سب کچھ  عجیب ، پر اسرار نہیں؟ 

قرآن جن آیات میں ربا کی ممانعت کا حکم دیتا ہے وہیں پر ظلم سے پاک عدل انصاف سے، ہر قسم کی کرنسی (فیاٹ کرنسی، ڈیجیٹل کرنسی یا ورچوئیل)  سے پیدا شدہ مسائل کا حل بھی دیتا ہے، وہ العلیم اور الخبیر بھی ہے۔ یہ قرآن کا معجزہ ہے، جس سے ہدائیت حاصل کرنا لازم ہے ۔۔۔  

۔۔۔۔ اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں (قرآن 2:269)

"اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ربا (سود) لینا چھوڑ دو اگر تم مومن ہو(٢٧٨) اور اگر تم باز نہ آؤ تو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ)سے جنگ ہے اور اگر تم سود لینے سے توبہ کرو، تو تمہارا اصل سرمایہ پر حق ہے ؛ تم (قرضدار) سے (زیادہ مانگ کر اس پر) ظلم  نہ کرو اور تمہارے ساتھ بھی (تمہارے اصل  سرمائے میں خوردبرد  کرکہ) ظلم  نہیں کیا  جائے گا (البقرة ٢٧٩)

نتیجہ

اس مثالوں، اعداد و شمار اور حساب کتاب سے یہ نتیجہ اخذ  ہوتا ہے کہ کہ افراط زر کی وجہ سے ہونے والے اصل مال کے  نقصان کا معاوضہ، تلافی (compensation) دینا ضروری ہے-

 یہ کہنا کہ آپ $ اکاؤنٹ کھولیں، $ میں تجارت کرنے یا سونے کی اینٹوں کا استعمال کریں  مضحکہ خیز نا قابل عمل بھونڈا مذاق ہے۔ ریاست کو اپنا کام کرنا چاہیے- جو لوگ خاص طور پر مولانا صاحبان شہریوں کو متعدد کرنسیوں اور قیمتی دھاتوں میں تجارت کے مشورے دیتے ہیں ان کو قرآن کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے ، جس معامله کا علم نہیں تو علم حاصل کریں یا پھر ہر معامله میں سینگ پھنسا نے سے باز رہیں- اللہ کا فرمان ہے 

فَلِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡمَا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ 

تو اب تم ایسی چیزوں کے ضمن میں حجت بازی کیوں کرتے ہو جن کے بارے میں تمہارے پاس کچھ بھی علم نہیں ؟ (قرآن 3:66)

وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ‎﴿٣٥﴾‏ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ‎﴿٣٦﴾

پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی یہی بہتر ہے (35) کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے ( 17:36)

 تو کیا یہ افراط زراصل مال (principal) میں کھوٹ  ، ملاوٹ  نہیں؟ 

کیا یہ انصاف ہے؟ کیا قرآن و شریعت اس کی اجازت دیتے ہیں؟ قرآن اصل زر میں اس کمی کو ظلم کہتا ہے (2:279)  اللہ کا فرمان بلکل واضح ہے بلا شک و شبہ :

"اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے (2:279)

" تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو '' (قرآن11:85)

ناپ تول میں کمی اور گھٹانے کو فساد و تباہی قرار دیا گیا ہے، جو بہت بڑا گناہ و جرم ہے-

انڈیکسیشن  تو اصل زر کی قیمت میں افراط زر کی وجہ سےکرنسی کی  قدر(value) ویلیو میں کمی کا تدارک کرتی ہے۔ یہ ہی انصاف ہے جس کا قرآن تقاضا کرتا ہے-

افراط زر سے اصل زر کی قدر میں کمی کا حل : 

  1. ملاوٹ (inflation) ختم کریں، کرپشن اور (financial / monetary mismanagement) کو ٹھیک کرکہ بہت ممالک ںے افراط زرکو کنٹرول کرکہ صفر یا قریب رکھا ہے (inflation, interest rate near zero) پاکستان نے بھی  افراط زر کی شرح 1960 میں منفی 0.52- رکھی تھی - یہ اب کیا ممکن نہیں؟

  2.  دوسرا طریقہ مکمل یا جزوی انڈیکسیشن (partial or full indexation) جیسے ہر سال تنخواہیں ، پنشن نڑھائی جاتی ہے(inflation% partially) کے مطابق- 

  3. زیرو سود کی شرح والے 26 ممالک ہیں، مارچ 2021 میں، کم شرح سود والے 29 ممالک، کچھ ممالک کی شرح سود منفی ہے۔ سب سے کم شرح سود والے 5 ممالک سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، جاپان، سویڈن، اور اسپین ہیں۔ 20 ممالک جن میں 2020 میں افراط زر کی شرح سب سے کم ہے- پاکستان کیوں ان ممالک سے سبق نہیں سیکھ سکتا؟

  4. حکومت اپنے اخراجات کو امندن کے مطابق کرے، آمدن بڑھایے، درست مالیاتی پالیسیوں پور عمل درآمد مگر حکمران ایسا نہیں کرتے بلکہ کرنسی نوٹ میں ملاوٹ ، ان پر پانی ڈالنے سے تو  نوٹ صرف گیلے ہوں گے ان میں ملاوٹ مزید زیادہ  نوٹ پرنٹ کرنا ہے جس سے  مہنگائی ، افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی نوٹ کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے- یہ عوام کی جیب پر ڈاکہ ہے- 

  5. بادی النظر میں حکومت ، قاضی اور ملا  آپس میں متفق ہوں تو کس سے ظلم کے خلاف انصاف کی توقع کر سکتے ہیں؟ امید ہے کہ ایسا نہیں- یہ عدلیہ اور ماہرین کا کام ہے کہ  وہ عوام کی تلافی کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں- 

  6.  الله تعالی کا حکم ہے : " --- پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت دو اور روئے زمین میں اس کے بعد اس کی درستی کر دی گئی فساد مت پھیلاؤ یہ تمھارے لئے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو"  (قرآن :7:85)

  7. یہ ظلم ہے کہ جمع کنندہ (depositor) کے اپنے ہی اصل مال سے حاصل شدہ مال کومولانا صاحب ربا ، حرام کہے، اللہ اور  رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ ، گناہ کبیرہ ، جہنم کی آگ کا خوف پیدا کرے بنک اور مالیاتی اداروں کی ملازمت اور تنخواہ کو حرام کے فتوے لگایئں صرف اس لیۓ  کہ اس ںے تاریخ میں سونے چاندی کے سکوں کے متعلق پڑھا ہے اسے کاغذ کی کرنسی (fiat concept) پر عبور نہیں، وہ افراط زر کے اصل مال پر منفی اثر سے لا علم . لا تعلق ہے کہ اس کا اسلامی تاریخ  کی کتب میں ذکرنہیں ملتا، جبکہ قرآن واضح ہے اور یہ حضرات عقل کو استعمال کرنے میں کنجوس ہیں-

  8. لیکن یہ واضح ہے کہ موجودہ طریقہ کو "ربا" کہنا بالخصوص بنک اور قومی بچت سکیمز کے جمع کنندہ (depositor) کے لئے  درست اقدام نہیں یہ ظلم اور نا انصافی ہے جس کو ختم ہونا چاہیے- جو کچھ وہ وصول کرتے ہیں وہ صرف جزوی تلافی (compensation) ہے "اصل زر مآل" کی قدرمیں افراط زر کی  وجہ سے کمی کی- دسمبر 2022  میں انفلیشن 26% ہے اور منافع 14% یا 16% تو 10% پھر بھی نقصان ہے جو حکومت کے پیٹ میں جا رہا ہے- در اصل جمع کنندہ (depositor) اپنے اصل زر سے ہی  منافع کے نام سے جووصول  کر رہے ہیں اس سے ان کے اصل مال کی قدر(value) کم ہو رہی ہے (یہ نقطہ غور کرنے پر سمجھ آجاتا ہے)-  قرآن (2:279) میں اللہ کا حکم جسے لا علمی یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا گیا (واللہ عالم ) مزید اس جزوی تلافی کومنافع یا آمدنی کہنا  اس (15٪ سے 30٪) پرودہولڈنگ (Withholding) اور پھرانکم ٹیکس لگانا  ظلم نہیں اور کیا ہے؟  زکاۃ اپنی جگہ فرض ہے- 

  9. لہٰذا  نہ کوئی مسلمان الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کر رہا ہے نہ ہی ایسا سوچ سکتا ہے ، نہ ہی بنک اور قومی ادارہ بچت کے ملازمین پر حرام نوکری کے فتوے لگانا درست ہے- 

  10. بلکہ جو لوگ اللہ کے احکام کے بر خلاف کام کر رہے ہیں آیات قرآن کو نظر انداز کے رہے ہیں وہ اپنی فکر کریں اور اس کا ازالہ کریں:

"کیا تم کتاب کے بعض احکام مانتے ہو اور بعض کا انکار کردیتے ہو؟ بھلا جو لوگ ایسے کام کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں اور قیامت کے دن وہ سخت عذاب کی طرف دھکیل دیئے جائیں؟ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں"(قرآن 2:85) 

  1. اسلامک بنکنگ کو فروغ دینا بہت ضروری ہے جو کہ ہر شعبہ میں ربا کو مکمل طور ختم کرنے کا وسیع  پروگرام ہے- واضح رہے کہ اسلامک بنکنگ کو فروغ دینا بہت ضروری ہے جو کہ ہر شعبہ میں ربا کو مکمل طور ختم کرنے کا وسیع  پروگرام ہے- مشارکہ، مضاربہ اور اجارہ اور اسلامی بینکنگ کے کے زیادہ ترجیحی شراکتی طریقوں سے حاصل ہونے والا منافع پیسے جمع کرنے والوں کو اضافی ترغیب فراہم کرتا ہے۔

ان حالات میں قرآن کے حکم ( 2:279) کے مکمل نفاذ پراصرار کرنا، بظاہر ایک لاحاصل کوشش معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کا حکم (وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) حق کی تلقین اور صبر کی تاکید ۔۔۔ 

یہ صرف مختصر تعارف ہے مزید تفصیل ان  لنکس پر .... 》》》》》

https://bit.ly/QuranOnRiba  \  https://SalaamOne.com/Riba \ https://bit.ly/RibaOrQuran 

ز مَن بر صُوفی و مُلاّ سلامے:  کہ پیغامِ خُدا گُفتَند ما را 

ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت: خُدا و جبرئیلؑ و مصطفیؐ را 

میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچائے، لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو تاویلیں کیں،اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔(علامہ محمد اقبال)

‘ ہمارے عہد کے یہ واعظ لوگ کیسے ہیں؟ سیدنا عیسیٰ ؑ نے ارشاد کیا تھا : وہ مچھر چھانتے اور اونٹ نگل جاتے ہیں۔

وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے) (القرآن  36:17)

دعوت نامہ

اہل ایمان کو دعوت ہے کہ وہ جہالت اور غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے اس "ربا آگاہی مہم" میں شرکت کریں-اس پمفلٹ کی فوٹو کاپی ، پرنٹ احباب میں تقسیم کریں- ویب لنکس واٹس ایپ  پر شیئرکریں- "جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا (قرآن 4:85)

https://bit.ly/QuranOnRiba


 رسول اللہ ﷺ کے احکام کی روشنی میں علم الحديث کے سنہری اصول اور ذخیرہ احادیث کی تدوین نو کی ضرورت

اصول#1. قرآن حدیث کو منسوخ کرتا ہے حدیث قرآن کو نہیں

اصول #2. حدیث "موافق قرآن و سنت" لازم

اصول #3.- حدیث موافق عقل و فہم

اصول #4: حدیث قدسی اور حدیث نبوی

اصول # 5: سلسلہ اسناد

اصول #6 :صرف ایک کتاب الله 

اصول#7 : حدیث کا حفظ و بیان

رسول اللہ ﷺ  کی اطاعت، نافرمانی  کی سزا جہنم

محدثین اور اہل علم سے گزارش ہے کہ اس نیک کام کو مکمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں- اکیلے یا ٹیم بنا کر "ذخیرہ احادیث کی تدوین نو" بالا اصولوں کے مطابق کریں - اس طرح سے مستند احادیث فروغ حاصل کریں گی اور ضعیف ، موضوع ، متنازعہ منسوخ و مسترد ہوں گی - یہ کام سالوں یا صدیوں میں ہو، شروعات کریں-   جزاک اللہ 


Blunder/ Scam 2https://bit.ly/Hadith-Basics


کتب اور مقالات 

☆ خالق کائنات https://bit.ly/Allah-Khaliq 

☆ قران، تیس پارہ کا خلاصہ: https://bit.ly/Quran30ParahSummary 

☆ احکام القرآن - خلاصہ :  https://bit.ly/AhkamAlQuran 

☆ قرآن مضامین  https://bit.ly/Quran-Subjects 

☆حقوق العباد کی تلافی کرو، بخشش نہیں https://bit.ly/Haqoq-ul-Ibad

☆اسلام، مسلم  فرقہ واریت،  قابل عمل حل :  https://bit.ly/IslamMuslim  

☆ رسالة التجديد  https://bit.ly/Risala-Tejdeed 

https://bit.ly/FreEbooks  Free eBooks  

~~~~~~~~~~~~~~

رسالة التجديد :The Revival 

  https://bit.ly/Risala-Tejdeed

~~~~~~~~

تحقیقی مقالہ , ترجمہ

https://bit.ly/RibaOrQuran



~~~~~~~~~

Islamic Banking

  https://SalaamOne.com/islamic-banking


Federal Shariat Court Judgements on Riba 1999 & 2022 & Inflation Indexation Ignored 
ربا پر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور افراط زر کا ظلم حل طلب

حلال و حرام FB Post : https://bit.ly/3OYDq8Z

☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly

رسالة التجديد :The Revival 

  https://bit.ly/Risala-Tejdeed

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ‎﴿سورة البقرة٢٨٦﴾‏

اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر ﴿سورة البقرة٢٨٦﴾‏



پوسٹ لسٹ