رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حضرت عمر (رضی الله) کا فراموش کردہ اہم ترین کارنامہ : حدیث کتابت پر پابندی کیوں لگائی اور پھر باقی خلفاء راشدین نے اس پرعمل کیوں کیا ؟

یکم محرم اسلامی سال کا پہلا دن اور حضرت عمر[1] (رضی الله ) کا  یوم شہدت بھی ہے - آپ  رسول اللہ ﷺ کے قریب ترین ساتھیوں میں شامل اور دوسرے خلیفہ راشد تھے - آپ کی فضیلت پر رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین کے متعدد ارشادات[2] آپ کی اعلی شخصیت اور مقام کے مظہر ہیں، خاص طور پر یہ کہ : "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ بن خطاب ہی ہوتے"؛ "اے عمر! شیطان تم کو دیکھتے ہی راستہ کاٹ جاتا ہے“ ؛ "جبرائیل و میکائیل میرے دو آسمانی وزیر ہیں جب کہ ابوبکر و عمر میرے دو زمینی وزیر ہیں۔“ ؛ "میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں[3]۔“ اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمر کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمر کا پلڑا بھاری ہوگا۔ (از عبداللہ بن مسعود)[4]


حضرت عمر (رضی الله)  کے کارنامے[5],[6] اتنے زیادہ ہیں کہ اسں پر کئی کتب لکھی گئی ہیں- حتی کہ غیر مسلم[7] بھی ان کی عظمت اور اسلام کی ترویج میں بنیادی کردارکے معترف ہیں- مستشرقین[8] (اوریئنٹلسٹ Orientlists) کہتے ہیں کہ اگر اسلام کے دامن میں عمر جیسی ہستی نہ ہو تی تو اسلام اس قدر تیزی سے نہ پھیلتا ، اور اگر ایک عمر اور ہوتا تو روئے زمین پر اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب نہ ہوتا-  حضرت عمر (رضی الله) کواسلام میں پیغمبر کے بعد دوسری اہم ترین  شخصیت قرار دیتے ہیں- [9]مائیکل ہارٹ نے حضرت عمر (رضی الله)  کو تاریخ کے 52 ویں بااثرترین افراد میں شامل کیا ہے- [ جبکہ ان کےبعد اشوکا (53) ، سینٹ اگسٹین (54) ، تھامس جیفرسن (64) ، جولیس سیزر (67) ، والٹیئر (74) ، جین جیک روسو (78) ، مانی (83) ، سائرس اعظم (87) ، ماؤ زےتنگ (89)، فرانسس بیکن (90) ، زرتشت (93) ، شارلمین (97) اور مہاویر (100) نمبرپرہیں۔]  کچھ اوریئنٹلسٹ حضرت عمر (رضی الله) کواسلام کا سینٹ پال[10] کہتے ہیں جو کہ مسیحیت کا اصل بانی ہے،اگرچہ یہ مماثلت حضرت عمر (رضی الله) کی اہمیت کو بیان کرتی ہے مگر مبالغہ ہے کیونکہ حضرت عمر (رضی الله) اسلام میں اپنے اہم ترین کرداراوراہمیت کے باوجود قرآن اور رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین کی تعلیمات کے دائرہ میں محدود رہے-

عظیم اسلامی سلطنت کے قیام، وسعت، انتظام اور استحکام میں حضرت عمر (رضی الله ) کا مرکزی کرداربہت اہم ہے مگر دینی معاملات میں بھی انکی خدمات کم نہیں ان کے اجتہادات[11] آج بھی دین کا حصہ ہیں- حضرت ابو بکرصدیق(رضی الله) نے  حضرت عمر (رضی الله) کے اصرار پر قرآن جمع کروا کر محفوظ کیا -[12]

دین اسلام میں قرآن ، واحد مکمل ، محفوظ کتاب ہدایت ہے جو بلا شک و شبہ کلام الله تعالی ہے[13] پرانی امتوں کی تباہی اور گمراہی[14]کی وجہ کتاب اللہ سےغفلت، تحریف اوردوسری کتب کو اہمیت دینے کی وجہ سے ہوئی- قرآن اپنےعلاوہ کسی اور حدیث کاانکار کرتا ہے[15]

 لنڈا کیرن  (Linda Kern ) نے 1996 میں ہارورڈ کے مقالے میں ، بخاری کی کتاب حدیث میں حضرت عمر (رضی اللہ ) کی شخصیت  کا جائزہ لیا ہے ، اور ان کے کچھ مشاہدے موجودہ مطالعے کے لئے خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے ،  کیرن کا  مشاہدہ ہے کہ : "عام دانش کے مطابق ، کلام الله (قرآن ) کی انتہائی جوش و خروش اور شدت سے حفاظت کی وجہ سے حضرت  عمر رضی اللہ عنہ نے "الفاروق" کے مقبول لقب کا اعزاز حاصل کیا، یعنی وہ  شخص جو  خدا کے کلام میں کسی بھی ممکنہ تغیرکے فرق کو بہت سختی اور شدت سے محسوس کرکہ کلام الله کو محفوظ رکھتا  تھا-[16] (الفاروق کامعنی حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہیں)-

"اور حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا  میں سو رہا تھا کہ (خواب میں) دودھ سے بھرا ہوا پیالہ لا کر مجھے دیا گیا، میں نے اس دودھ کو پیا، پھر میں نے دیکھا کہ (زیادہ ہونے کے سبب اس دودھ کی) تری اور تازگی میرے ناخنوں سے پھوٹ رہی ہے اور پھرمیں نے بچایا ہوا دودھ عمر بن الخطاب کو (پینے کے لئے) دے دیا، بعض صحابہ نے (یہ سن کر) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اس دودھ کی تعبیر میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں فرمایا  علم!۔  (بخاری 7006 ومسلم 6190 ) (مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 5988) [16a]

تشریح

علماء نے لکھا ہے کہ علم کی صورت مثالیہ عالم بالا میں دودھ ہے، اسی لئے اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ دودھ پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ قرار پاتی ہے۔ کہ اس شخص کو خالص ونافع علم نصیب ہوگا علم اور دودھ کے درمیان وجہ مشابہت یہ ہے کہ جس طرح دودھ انسانی جسم کی پہلی غذا اور بدن کی اصلاح وتقویت کا بنیادی ذریعہ اسی طرح انسانی روح کی پہلی غذا اور اس کی اصلاح وتقویت کا بنیادی ذریعہ ہے۔ بعض عارفین نے یہ لکھا ہے کہ عالم مثال سے تجلی علم کا انعکاس صرف چار چیزوں یعنی پانی، دودھ شراب اور شہد کی صورت میں ہوتا ہے اور یہی وہ چار چیزیں ہیں جن کی نہرین بہہ رہی ہیں۔ قرآن کریم نے ان چارنہروں کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے:

آیت (مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِيْهَا اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّا ءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُه وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ڬ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى) 47۔ محمد  15)

جنت جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بو نہیں کرے گا اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلے گا اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے (سراسر) لذت ہیں اور شہد مصفا کی نہریں۔   پس جس شخص نے (خواب میں) پانی پیا اس کو علم لدنی عطا ہوگا، جس شخص نے دودھ پیا اس کو اسرار شریعت کا علم عطا ہوگا، جس شخص نے شراب پی اس کو علم کمال عطا ہوگا اور جس نے شہد پیا اس کو بطریق وحی علم عطا ہوگا۔

اور عارفین ہی میں سے بعض نے اس ضمن میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جنت کی یہ چاروں نہریں درحقیقت چاروں خلفاء سے عبارت ہیں اور اس عتبار سے حدیث بالا میں دودھ کی نسبت سے صرف حضرت عمر کا ذکر ہونا نہایت موزوں ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا  اگر حضرت عمر کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے میں عرب کے تمام قبائل (کے اہل علم) کو جمع کرکے رکھا جائے اور پھر وزن کیا جائے تو حضرت عمر کے علم کے علم کا پلڑا ان سب کے علم سے وزن میں بھاری رہے گا اور اسی وجہ سے تمام صحابہ کا اعتقاد تھا کہ دس حصوں میں سے نوحصے علم تنہا حضرت عمر پاگئے ہیں۔

حضرت عمر (رضی الله)[17] اسلام کو اس خطرہ سے محفوظ رکھنا ضروری سمجھتے تھے، اس لیےانہوں نےمشاورت تفکراوربہت غورو خوض، استخارہ کے بعد احادیث کی کتابت کوممنوع[18] قراردیا اور تمام مواد تلف کردیا- یہ انتہائی سخت فیصلہ قرآن[19] ، سنت رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین[20] کے مطابق تھا- احادیث کوزبانی روایات کے طور پر بیان کیا جاتا تھا (ذاتی نوٹس حفظ کرکہ تلف کر دیے جاتے)، سنت  رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین (عملی طریقہ) نسل در نسل تواتر سے منتقل ہوتا رہا ہے- 

حضرت عمر بن خطاب (رضی الله) کی مشاورت اور استخارہ کے بعد احادیث لکھنے پر پابندی کا فیصلہ

 أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُعَدِّلُ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، هُوَ الرَّمَادِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ، فَاسْتَشَارَ فِي ذَلِكَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَشَارُوا عَلَيْهِ أَنْ يَكْتُبَهَا فَطَفِقَ عُمَرُ يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِيهَا شَهْرًا , ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا وَقَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ , فَقَالَ: «إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَكْتُبَ السُّنَنَ وَإِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كُتُبًا فَأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا»( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ، جلد:1  صفحه : 49)

مفہوم : "عمر بن الخطاب سنن لکھنا چاہتا تھا ، اصحاب  رسول اللہ ﷺ سےمشورہ کیا  تو انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اسے لکھیں، لیکن عمر نے اس کا انتظار کیا کہ وہ ایک مہینہ اللہ سے استخارہ کریں، پھر ایک دن آیا ،عَزَمَ اللَّهُ  سے کہا:  "میں نے ارادہ کیا کہ سنن لکھوں گا ، مگر پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو  چھوڑ دییا، اللہ کی قسم  میں کتاب اللہ کو کبھی بھی کسی بھی چیز کا لبادہ  (لباس) نہیں پہناوں گا"( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ، جلد:1  صفحه : 49)


أَخْبَرَنَا ابْنُ رَزْقَوَيْهِ , أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ , حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: أَرَادَ عُمَرُ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَخَارَ اللَّهَ تَعَالَى شَهْرًا , ثُمَّ أَصْبَحَ وَقَدْ عَزَمَ لَهُ فَقَالَ: «ذَكَرْتُ قَوْمًا كَتَبُوا كِتَابًا فَأَقْبَلُوا عَلَيْهِ وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»

مفہوم :عمر سنن لکھنا چاہتا تھا اس نے اللہ سے ایک مہینہ استخارہ کیا ، پھر ایک صبح اس کا تعین ہوا ، اس نے کہا:  "ان اقوام کو یاد رکھو جنہوں نے کتاب لکھی  تو انہوں نے كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ کو ترک کردیا ۔"

أَخْبَرَنِي أَبُو الْفَتْحِ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَرَ بْنِ خَلَفٍ الرَّزَّازُ , أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْبُرُوجِرْدِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ وَهْبٍ الْحَافِظُ , فِي سَنَةِ ثَمَانِ وَثَلَاثِمِائَةٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ ,حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ , عَنْ مَعْمَرِ بْنِ رَاشِدٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , أَنَّهُ "أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ فَاسْتَخَارَ اللَّهَ شَهْرًا فَأَصْبَحَ وَقَدْ عَزَمَ لَهُ , ثُمَّ قَالَ: إِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كِتَابًا فَأَقْبَلُوا عَلَيْهِ وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ , عَزَّ وَجَلَّ , هَكَذَا قَالَ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ بِخِلَافِ رِوَايَةِ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ , فَوَافَقَ رِوَايَةَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ , وَرِوَايَةَ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ مَعْمَرٍ , وَقَالَ: عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ , وَرَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ

مفہوم  ؛

عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نے کہا کہ:  میں نے سنت لکھنے کا ارادہ کیا  ایک مہینہ اللہ سے استتخارہ کیا ، پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو  چھوڑ دییا،

یہ قول، روایت ہے عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ سے ,  عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عمر ثوری  کے متعلق قبیصہ کی روایت سے مختلف ہیں ، اور اس حدیث کو شعیب ابن ابی حمزہ نے روایت کیا ہے الزُّهْرِيِّ , اور وہ عبد الرزاق کے بیان سے اتفاق کرتا تھا عَنْ مَعْمَرٍ , وَرِوَايَةَ قَبِيصَةَ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ مَعْمَرٍ , وَقَالَ: عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ , وَرَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ , عَنْ عُمَرَ۔ 


اہم بات

حضرت عمر (رضی الله)  ںے حدیث کتب کی ممانعت کی وہی وجہ بیان فرمائی جو  رسول اللہ ﷺ ںے فرمایی تھی - تو سنت عمر (رضی الله) عین مطابق ہے سنت  رسول اللہ ﷺ کے :

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّرَّاجُ، بِنَيْسَابُورَ,حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ , حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَنَحْنُ نَكْتُبُ الْأَحَادِيثَ , فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي تَكْتُبُونَ؟» , قُلْنَا: أَحَادِيثَ سَمِعْنَاهَا مِنْكَ. قَالَ: «أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟ مَا أَضَلَّ الْأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَّا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ» . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ , تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . كَذَا رَوَى لَنَا السَّرَّاجُ هَذَا الْحَدِيثَ , وَرَوَاهُ غَيْرُ الْأَصَمِّ , عَنِ الْعَبَّاسِ الدُّورِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ , فَاللَّهُ أَعْلَمُ

مفھوم :  

ابوہریرہ نے کہا: اللہ  کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ ﷺ نے فرمایا ا: یہ کیا ہے؟

ہم نے کہا: ہم نے جو  آپ کی احادیث سنی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:

کیا تم  کتاب اللہ  کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہو؟

تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ  انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔

 ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ
، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: "ہاں ، میرے بارے میں بات کرو (حفظ و بیان، زبانی) ،  کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔"فَاللَّهُ أَعْلَمُ ["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33] 
ممانعت حدیث پر اور بھی احادیث ہیں جو اس لنک پر ہیں-

حدیث کتابت پر پابندی پر باقی خلفاء راشدین نے بھی عمل کیوں کیا، تبدیل نہ کیا ؟

حضرت عمر (رضی الله) کی طرف سے حدیث کتابت پر پابندی پر باقی خلفاء راشدین نے بھی پرعمل کیا ،ظاھر ہے کہ وہ حضرت عمر (رضی الله) سے متفق تھے ورنہ اس پابندی کو ختم کر سکتے تھے-

 اس مقصد کے حصول میں ان کو دوسرے خلفاء راشدین[21] اور خاص طور حضرت علی (رضی الله)[22] اور اصحابہ کرام کی مدد حاصل رہی، یہ سلسلہ پہلی صدی حجرہ ( صحابہ اکرام کی زندگی) تک قائم رہا - دوسری اور تیسری صدی میں اس پالیسی کے خلاف حدیث کی کتب لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا  جیساکہ یہود و نصاری نے بھی کتاب اللہ کے ساتھ تلمود اور دوسری کتب لکھ کر اختیارکیاتھا[23]- اس وقت [1442ہجری] پچھتر (75) کتب [24]اوربہت سے فرقے موجود ہیں جن کی قرآن و سنت میں سختی سے ممانعت[25] ہے- یہی وہ خدشہ تھا جو حضرت عمر (رضی الله) اور ان کے ساتھیوں کو تھا جو بلکل سچ ثابت ہوا- اہل قرآن اوراہلحدیث مغالطوں[26] میں گم ہیں-

(قابل غور ہے کہ امام ابو حنیفہ (رح ) بہت عظیم عالم, فقیہ تھے مگرآپ نے حدیث کی کوئی کتاب تحریر نہ کی، ان کے شاگردوں نے لکھ کر ان سے منسوب کر دیں[27])-

حضرت عمر (رضی الله) کا دوسرے تمام فیصلوں کی طرح، دین اسلام  کو خالص رکھنے کا یہ اہم ترین تاریخی فیصلہ[28] تھا ، جس کو ایک صدی کے بعد عملی طور پر منسوخ[29] کردیا گیا ، جس کا کسی کو اختیار نہیں تھا- کیونکہ دین اسلام پر انہی لوگوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی تو اس حقیقت کو حرف غلط کی طرح محو کر دیا گیا- یاد رہے کہ حق بات کا چھپانا جرم عظیم ہے، قرآن آیا ت ( 2:159 )(2:17),(3:187)[30] میں زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی باتیں یعنی شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں-

حضرت عمر (رضی الله) کے کارنامے بیان کرتے ہوے اہل علم اس اہم کارنامہ کا ذکر کیوں  نہیں کرتے؟

کیا قرآن کا حکم یاد نہیں :


وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٤٢﴾

 اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور جانتے بوجھتے ہوئے حق کو نہ چھپاؤ۔ (قران  2:42)

کیا  حضرت عمر (رضی الله)، خلفاء راشدین[31] و صحابہ کرام کی غلطی تھی کہ انہوں نے قرآن ، سنت  رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین کی بنیاد پر اس فیصلہ پر سختی سے عمل کروایا ؟  (استغر اللہ )

یا کہ دوسری اور تیسری صدی کے علماء غلط  تھے؟  ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے حکم رسول   کی نافرمانی کی، بدعت کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے-

 کون اسلام کا ہیرو ہے اور کون زیرو (0) یہ واضح ہے-

1 اس اہم موضوع پرکھل کر بات شروع کر دی ہے،کیونکہ حق بات کا چھپانا جرم عظیم ہے  [32] قرآن آیا ت (2:159 )(2:17),(3:187)] اہل علم اورعلمی تحقیقی ادارے ریسرچ[33] کریں، مضمرات کے ہر پہلو کو جانچا جائے اور پہلی صدی حجرہ کے "اسلام دین کامل" کواصل شکل میں بتدریج بحالی کے اقدام کیے جائیں- جب تک یہ کام مکمل نہیں ہو جاتا, موجودہ صورت حال  (Status-quo ) برقرار رہے-

2.سنت اورحدیث[34] کے فرق[35] کوسمجھیں, احادیث کا احترام کریں کہ رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین سے منسوب اقوال ہیں، لیکن ان کی بنیاد پر تفرقہ بازی، نفرت انگیزبحث مباحث سےاجتناب کریں-

3. قرآن کو اس کا اصل مقام دیں: "اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" (قرآن25:30)


تحقیق اور اہل علم سے مفصل  ڈسکشنز، مکالمہ ، بحث مباحثہ کے بعد احقر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ  علماء ںے صدیوں سے بہت بڑا دھوکہ کیا ہے- الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی دوسری / تیسری صدی حجرہ سے کھلم کھلا نافرمانی کی یہ کامل دین اسلام کو ناکامل کرنے کی کوشش ہوئی جس کا ازالہ کرنا ضروی ہے، ورنہ ہم الله کے عذاب سے جو مسلمانوں پر جاری ہے اور آخرت میں بھی نہ بچ سکیں گے-

قرآن، سنت اور احادیث ، تاریخ سے تحقیق کے بعد علم الحدیث کے سات (7) اصول وضوابط بنانے ہیں جن کو اسٹڈی کیا جاسکتا ہے اور ان پر فوری عمل بھی ممکن ہے:


اصول علم الحديث : https://bit.ly/Hadith-Basics

مزید ریفرینسز 

  1. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اجتہاد
  2. حضرت عمر بن خطاب  ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ (سیرہ)
  3. عظیم فاتح: اﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ یا ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ؟
  4. Caliph Umer & Hadith
  5. Uumar Ibn Al-khattab By Micheal Hart
  6. البدعة الكبيرة Big Bid'ah
  7. حضرت عمر (رضی الله) کا اہم ترین کارنامہ(1)
  8. حادیث لکھنے کی ممانعت 
  9. احادیث پر احادیث - تقييد العلم للخطيب البغدادي
  10. رسول اللہ ﷺ وصیت  (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )  کا انکار اور بدعت 
  11. سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث  کیوں نہ کی؟ 
  12. أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَﷺ



معلومات اور ریفرنس

https://flip.it/U9IEBe

[1] To visit any Link in web page, tap, choose, “Open in new tab” - https://ur.wikipedia.org/wiki/عمر_بن_خطاب

[35] https://flip.it/coinET


حضرت عمر (رضی الله) اسلام کو ہر خطرہ سے محفوظ رکھنا ضروری سمجھتے تھے، اس لیےانہوں نےمشاورت تفکر، استخارہ اوربہت غوروخوض کے بعد اللہ کی آخری کتاب ہدایت قرآن کی منفرد حثیت کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ترین،  سخت فیصلہ کیا جو کہ قرآن ، سنت رسول اللہ ﷺ خااتم النبیین کے مطابق تھا ........ اس پر ایک صدی تک عمل درآمد ہوا اور دوسری اور تیسری صدی حجرہ میں منسوخ کردیا گیا .... [ تحقیق و تجزیہ ... https://flip.it/U9IEBe ]


🌹🌹🌹
 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-



 
Short Link to this page: https://flip.it/U9IEBe

پوسٹ لسٹ