رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حیرت انگیز

انسانی تاریخ میں ایسے لمحات بہت کم آتے ہیں جب کوئی عظیم مقصد وسائل اور طاقت کی کمی کے باعث ادھورا رہ جاتا ہے، اور اس کی تکمیل کا بار آئندہ نسلوں کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ لیکن پھر، تقدیر کے صفحات پلٹتے ہیں، اور وہ کام، جو بظاہر ناممکن تھا، اچانک حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حدیث نبوی کی "تدوین نو" کے ساتھ ہوا[1]۔ برسوں کی عرق ریزی اور تحقیق کے بعد، جب اس اہم کام کے نتائج کو ویب سائٹس پر محفوظ کر دیا گیا،[2] اور مسلم ممالک کے سفارت کاروں، وزارتوں، ملکی اہم افراد، اداروں اور دارالعلوم کو خطوط لکھ کر آگاہ کر دیا گیا، تو یہ خیال دل میں راسخ ہو گیا کہ اب یہ کام اللہ کے سپرد ہے۔ وہی کوئی ایسا سبب پیدا کرے گا کہ یہ عظیم الشان منصوبہ اس زندگی میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکے- ورنہ پچھلے بارہ سو سال سے مسلمانوں کو کتب حدیث لکھنے والوں کی صوابدید پر تکیہ کرنا پڑتا رہا ہے- انہوں نے بہت محنت کی لیکن آخر انسان تھے کوئی پیغمبر نہیں اور دو ڈھائی سو سال کا عرصۂ درازبھی گزر چکا تھا- وقت کے ساتھ ان پر شخسیت پرستی اور مقدسیت کے حصار قائم ہو چکے تھے جن کو پار کرنا ناممکن ہو چکا تھا[3]- ان کتب نے قرآن کے قریب کا درجہ حاصل کر لیا جبکہ  تدوین قران[4] سے ان کا زرہ برابر بھی تقابل نہیں- جیسا کہ  رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر (رضی الله )[5]  کی بصیرت نے پہلے بھانپ لیا تھا جب انہوں نے کتب حدیث لکھنے پر پابندی لگائی.  رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا کہ ، یہ (کتب احادیث) اللہ کی کتاب کو نظراندا کر دیں گی"[6]، جیسا کہ پہلی اقوام  نے کیا (یہود (تلمود 38جلد) و نصاریٰ (23 کتب، عہد جدید)[7] اور اب تک مسلمان 171 کتب[8] حدیث لکھ چکے ہیں اور بے شمار فرقے موجود ہیں- کتب حدیث کی "تدوین نو" تو کیا اس موضوع پر بات کرنا بھی نا ممکن ہے- اپنی تحقیق کو اردو اور انگلش ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پرڈال کر اللہ کے حوالے کردیا-[9]

زبانی روایت اور تحریری کلام

تحریر کوئی فطری چیز نہیں، حالانکہ ہمارے بیشتر خیالات اور اعمال تحریری شکل میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ تحریری زبان کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ یہ تقریباً پانچ ہزار سال قبل پہلی بار میسوپوٹیمیا کے سُومر خطے میں نمودار ہوئی، جبکہ زبانی روایات نے تو زمانۂ قدیم سے ہی غلبہ پایا ہوا تھا۔ آج بھی دنیا کے بڑے حصوں بشمول ہمارے خطے میں یہ روایات زندہ ہیں۔ انسانی تجربے اور علم کی تمام کیفیات، خواہ باطنی ہوں یا ظاہری، زبانی طور پر منتقل ہوتی رہی ہیں۔ ہم جدید دور میں اس پر شک کرتے ہیں کیونکہ تحریری مواد پر ہمارا انحصار بڑھ گیا ہے، اور خواندگی کے ذرائع نے یادداشت کی ضرورت اور صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔ >>>

ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب توتقسیم کیوں؟

قرآن آخری کتاب کیوں اور کیسے ہے؟

سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں کتنی کتابوں پر ایمان لازم ہے ؟

یہ عقیدہ کہ قرآن اللہ کی طرف سے آخری اور حتمی وحی ہے، اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے۔ یہ concept قرآن مجید کی متعدد آیات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے, اور ام السنہ میں جبرائیل علیہ السلام نے برسرعام اسلام اور ایمان واضح کرتے کسی اور کتاب پر ایمان یا انتظار کازکر نہیں کیا۔ 


یہ قرآنی آیات اس اصول کو قائم کرتی ہیں:


1۔ دین کی تکمیل اور اسے کامل کر دینا شاید یہ سب سے واضح آیت ہے،جو نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی۔ یہ اعلان کرتی ہے کہ اب divine message قرآن کے ذریعے مکمل اور کامل ہو چکا ہے۔


سورۃ المائدہ (5:3): "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔"


یہ آیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ divine legislation (خدائی قانون سازی) کے اختتام کی علامت ہے۔


2۔ ہر چیز کی وضاحت قرآن کو ایک ایسی کتاب کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے ضروری رہنمائی مہیا کرتی ہے،نجات اور نیک زندگی کے لیے ضروری تمام چیزوں کی وضاحت کرتی ہے۔


سورۃ النحل (16:89): "اور ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے ہر چیز کی واضح تشریح کے ساتھ، اور مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔"


3۔ پچھلی کتابوں پر نگہبان قرآن خود کو پچھلی revelations(جیسے تورات اور انجیل) کے انکار کے طور پر نہیں بلکہ ان کا محافظ اور معیار (فرقان) قرار دیتا ہے، ان میں موجود سچائی کی تصدیق کرتا ہے اور وقت کے ساتھ در آنے والی تحریفات کو درست کرتا ہے۔


سورۃ المائدہ (5:48): "اور ہم نے آپ کی طرف سچائی کے ساتھ کتاب نازل کی ہے، ان کتابوں کی تصدیق کرنے والی جو اس سے پہلے آئی تھیں اور ان پر نگہبان (حاکم) بن کر۔"


4۔ بنی نوع انسان کے لیے عالمگیر پیغام پچھلی کتابوں کے برعکس جو کسی خاص قوم یا زمانے کے لیے بھیجی گئی تھیں،قرآن کو تمام مخلوق (جن و انس) کے لیے پیغام قرار دیا گیا ہے۔


سورۃ الفرقان (25:1): "بڑی برکت والا ہے وہ (اللہ) جس نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب) نازل کی تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والا بن جائے۔"


سورۃ سبا (34:28): "اور (اے نبی) ہم نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔"


5۔ نبوت کی اختتامییت اگرچہ یہ آیت براہ راست کتاب کے بارے میں نہیں ہے،لیکن نبی کی اختتامییت کے بارے میں یہ آیت پیغام کی اختتامییت سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ چونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آخری نبی ہیں، اس لیے ان پر نازل ہونے والی وحی آخری وحی ہے۔


سورۃ الاحزاب (33:40): "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں۔ اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔"


ان آیات سے اخذ کردہ کلیدی concepts کا خلاصہ:


· حتمی وحی: قرآن خدا کی طرف سے آخری کتاب ہے، جو حضرت آدم سے شروع ہونے والی اور حضرت ابراہیم، موسیٰ، داؤد اور عیسیٰ علیہم السلام کو عطا کردہ کتابوں پر مشتمل وحی کے سلسلے کا اختتام ہے۔

· عالمگیر پیغام: اس کی رہنمائی کسی خاص قبیلے یا قوم تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔

· خدا کی طرف سے حفاظت: مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پچھلی کتابوں کے برعکس، اللہ نے خود قرآن کو کسی بھی قسم کی تحریف یا alteration (تبدیلی) سے بچانے کا عہد لیا ہے (سورۃ الحجر (15:9): "بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔")۔

· معیار (فرقان): یہ حق و باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان فیصلہ کرنے اور پچھلی روایات میں سچائی کی تصدیق کرنے کے لیے حتمی معیار (Criterion) کے طور پر کام کرتا ہے۔


لہٰذا، مسلمانوں کے لیے، قرآن خدا کا ابدی، لغوی اور غیر متبدل کلام ہے، جو زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے مکمل اور کامل رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور اس کے بعد کوئی نئی کتاب یا نبی نہیں آئے گا۔

مزید 

 https://SalaamOne.com/last-book