قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے (-جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویا کہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو (الجاثية45:7,8)
“یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11)
اجتہاد ، قیاس صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی معاملہ میں قرآن و سنت سے واضح ہدایت نہ مل سکتے، مگر پھر بھی قرآن و سنت کے دائرہ کے اندر رہنا ہوتا ہے- اسلام کے چھ بنیادی عقائد اور پانچ ارکان ہیں- ان عقائد کا ماخذ قرآن سے ہے, پیغمبروں اور الہامی کتابوں پر ایمان ان میں شامل ہے اس کی بنیاد قرآن سے ہے [سورة البقرة 2 آیت: 136]
کچھ عرصہ قبل "تحقیق و تجزیہ" کو سوشل میڈیا پر شیر کیا تو وہاٹس ایپ پر ایک عالم دین (ASJ ) جو انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی (PHD) کر رہے ہیں ان سے اس موضوع پر مکالمہ ہوا - اس مقصد کے لیے ایک الگ وہاٹس ایپ گروپ بنایا جس میں صرف سات ممبران شامل ہوئے- جن میں اعلی تعلیم یافتہ سینئر بیوروکریٹ پولیس آفیسر ، آرمی آفیسر، یونیورسٹی پروفیسر ماہر تعلیم پی یچ ڈی ڈاکٹر، میڈیکل ڈاکٹر پروفیسر، دارالعلوم علوم کے ناظم اور عالم دین، محقق شامل تھے- مکالمہ میں زیادہ سوال و جواب (ASJ ) صاحب سے ہوے- اس مکالمہ کو ایڈٹ کر کہ پیش خدمت ہے- کچھ وضاحت (blue colour) سے بعد میں شامل کی ہے تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو مقصد صرف نقطۂ نظر سمجھنا ہے کسی کی تعریف یا تضحیک نہیں- (ASJ ) صاحب نے بہت محنت اور لگن سے چبھتے ہوے سوالات کو ہینڈل کیا، جو قابل تعریف ہے- مقالہ کے حق اور مخالفت میں دلائل کو سمجھ کر کوئی بھی قاری آزادانہ طور پر اپنا نظریہ، رایئے قائم کر سکتا ہے-
معزز ممبران کی شمولیت اور مثبت سوالات "تحقیق " کو بہتر کرنے میں مدگار ثابت ہوئے جو قابل تعریف ہے-
- سوال و جواب (Q & A)
- اصول دین اور فروع دین
- حدیث اور قرآن و سنت میں اختلاف اور موافقت
- منکرین حدیث کے سوالات و جوابات
- منطق ، عقل ، عربی زبان، پرانا نظام پرسوالات
- ایک عالم دین سے (Q&A) - ١٩ سوال
- احادیث کی کتابت سے حضرت عمر (رضی الله) کا انکار اور وجوہات
- يهود اور مسيحت كي كتب كا تجزيه
- حفاظت قول رسول الله صلعم اور مذہبی پیشواؤں کو ترجیح
- اجماع خلفاء راشدین کو ایک صدی بعد منسوخ کرنے کا اختیار کسی شخص کو نہیں
- دوسرون كے نظريات كا اثر , فرقہ واريت
- حضرت عمر كا كتابت حديث نہ كرنے كا فيصله
- قرآن میں لفظ "حدیث" کے معنی میں تحریف کی مذموم کوشش
- علماء ، مذہبی پیشواؤں کو رب ماننا
- اختتامیہ
- References ریفرنس
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]