رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

دعوة دین کامل


اگر آپ کسی ایک قدیم روائیتی فقہ پر عمل پیرا ہیں تو  بنیادی طور پر تمام فقہ میں ایمان کی بنیاد  ایک جیسی ہے۔ فروعی اختلافات نظر انداز کیے جا سکتے ہیں جن کا قرآن میں مفصل بیان نہیں لہذا جس تک جو سنت پہنچی اسی پر عمل کرے دوسروں پر تنقید کی ضرورت نہیں- بدعات نے اختلاف پیدا کر رکھے ہیں جن سے کنارہ کشی ممکن ہے اگر کوشش کریں۔ سب عقائد و نظریات کو قران کی "آیات محکمہ" کی کسوٹی پر پرکھیں اور بدعہ و خرافات سے چھٹکارا پا کر تجدید (Revival) کریں، یعنی اصل راستہ :دین کامل" کی طرف واپسی- اگر کوئی آپ سے متفق نہیں تو اپنا نقطۂ نظر مہذب طریقہ سے پیش کرکہ اتمام حجت پورا کریں اور سکوت اختیار کریں-  یہ بیانیہ ہے، تفصیل آگے ---

جب تک نبی اپنی امت میں موجود رہتا ہے۔ مومنین کے دل نبی کی صحبت اور اللہ کے ذکر اور اس سے تقویٰ کی وجہ سے نرم پڑجاتے ہیں اور ان لوگوں کے دل اور طبیعتیں نیکی میں سبقت کی طرف مائل رہتی ہیں لیکن جب نبی اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اللہ کی یاد سے غافل رہنے لگتے ہیں۔ ان میں تقویٰ کی بجائے فسق اور اللہ کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کے جراثیم جنم لینے لگتے ہیں۔  دین میں نئی نئی بدعات شامل ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور کتاب الله تعالی سے دوری کی وجہ سے دین کا حلیہ بگڑنا شروع ہوجاتا ہے- یہود اور نصاریٰ پر یہ کیفیت گزر چکی تھی اس لئے الله نے بالعموم مسلمانوں کو اور بالخصوص منافقوں کو یہ تنبیہ کی کہ:

وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ. (الْحَدِيْد، 57:16)

’’اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر مدّت دراز گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے‘‘۔

اللہ کی یاد سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں فسق و فجور داخل ہونے لگتے ہیں لہذا تم پر لازم ہے کہ اللہ کو ہر دم یاد رکھو، الله تعالی کی کتاب کو مت چھوڑو اسی سے تم میں تقویٰ پیدا ہوگا اور تمہارے دل نرم رہ سکتے ہیں اور راہ ھدایت پر قائم راہ سکتے ہیں :

 رسول اللہ ﷺ اپنا مشن مکمل کر کہ اسلام کو کامل (perfect) حالت میں چھوڑ کر گۓ اور دین کی تمام  تفصیل واضح کر گیے- آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نےوصیت کرتے فرمایا :

 میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ ٤٣)

دین اسلام کے کمال کی آیت حج آلودع پر نازل ہوئی:

الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

 آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو  آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا (المائدہ : 3)

اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو پوچھا گیا: یارسول اللہ! ہم اپنے ایمان کی کیسے تجدید کیا کریں فرمایا: ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کثرت سے پڑھا کرو۔ (رواہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، حاکم، مستدرک، رقم: 7657)

تجدید دین اسلام پہلی صدی کے دین کامل کی طرف واپسی ہے :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ(قرآن 5:3)

 پڑھیں : دین ‏کامل ‏سے "ناکامل" اور تجديد ....

دعوة دین کامل  https://bit.ly/DeenKamil 


پہلی صدی کے بعد دین میں جو کچھ اضافہ ہوا وہ "دین کامل اسلام"  کو "ناکامل" کرتا ہے جسے واپس کامل کی طرف لوٹنا، تجدید ہے کچھ بھی نیا نہیں- معیار صرف اخلاص ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی دل کی گہرائیوں سے اس کلمہ کو پڑھے اور دل کی گہرائیوں سے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھے اور ان کے قریب بھی نہ جائے۔ جس پر ایمان کا حکم الله نے دیا رسول اللهاور صحابہ نے قبول کیا، عمل کیا اس پر قائم رہے وہی دین کامل (perfected faith) ہے-

شیطان ایمان پر حملہ اور رہتا ہے اور وقت کے ساتھ  دنیا میں آفات و حوادث دین و ایمان کی شفاف سطح پر جو گرد و غبار کی تہہ جما دیتے اور ہوا و ہوس کی گندگی بھر دیتے ہیں، اور نیے عقائد و نظریات ایمان میں شامل کرکہ ایمان کو ناخالص کر دیتے ہیں-  کلمہ طیبہ اس گندگی سے دل کو پاک کر دیتا ہے، اس لئے کلمہ طیبہ کی کثرت کا حکم دیا ہے تاکہ ایمان کی تجدید کا سامان ہوتا رہے۔ کلمہ طیبہ دل کی گہرائیوں سے پڑھنے کا مطلب اصل ایمان کو بحال کرنا ہے- یہی تجدید ہے ، کوئی نیی یا جدید بات نہیں بلکہ اصل دین اسلام کی طرف واپسی ہی تجدید (Revival) دین کامل ہے-

پڑھیں : لاالہ الا اللہ پر جنت؟

کامیابی اور نجات کا آسان نسخہ

انسان کی کامیابی کی بنیاد درست ایمان پر ہے۔ اس کے بعد عمل صالح۔ دونوں مل کر انسان کو حق پر قائم کرتے ہیں حق کی  نصیحت بنی نوع انسان کو کرنا اور مخالفت پر صبر کرنا ہے۔ یہی دنیا و آخرت میں کامیابی کا راستہ ہے جو خلاصہ قرآن سورہ العصر میں بیان ہے۔ 

اکثر کہا جاتا ہے کہ کس راستہ پر چلیں؟

 اتنے زیادہ فرقے ، گروپ ہیں اور سب ہی اپنے آپ کو حق اور دوسروں کو باطل ، کافر، جہنمی قرار دیتے ہیں۔

ایک عام مسلمان کیا کرے؟

اس کا حل اللہ تعالی نے قرآن میں دیا ہے، سورہ آل عمران کی آئیت 7 میں۔ صرف قرآن کی "آیات محکمات" ، جن کا صرف ایک مطلب ہوتا ہے ، کسی تفسیر ، تاویل کی ضرورت نہیں، یہ "ام الکتاب" ہیں۔ قرآن کی بنیاد ہیں۔

 اسلام ، ایمان. عقائد ، عبادات کی بنیاد "آیات محکمات" پر ہے۔

 قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿١١١البقرہ ﴾‏

کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو

تفصیل : شاه کلید قرآن:  Master Key Quran (3:7)

آپ اپنے ایمان کو خود چیک کر سکتے ہیں، جو عقیدہ "آیات محکمات" سے ثابت نہیں تاویلوں کی ضرورت پڑتی ہے وہ ایمان سے خارج کریں۔ اللہ، ایمان خود بیان کرتا ہے

جب ایمان درست ہوگیا تو پھر اللہ باقی اعمال بھی درست کرنے میں مدد فرمائے گا۔ بنیادیاعمال کے علاوہ عبادات کی زیادہ تفصیل "سنت ثابتہ"  سے ملتی ہے ، جو نسل در نسل عملی طور پر منتقل ہوتی چلی آرہی ہے ان میں جو اختلاف ہیں وہ فروعی ہیں ان پر بحث کی ضرورت نہیں جس تک جو پہنچا اسی کے مطابق نماز، عبادات ادا کرے عمل کرے اور اختلاف کو برداشت کرے. یہ مشیت ، امتحان ہے-

پڑھیں : مصادر الإسلام ...

اس کاروائی کو خود اکیلے کریں کسی کی مدد ضروری نہں،  اللہ سے ہدائیت اور مدد کی دعا مانگتے رہیں وہ آپ کو مایوس نہ کرے گا،  ان شاء اللہ 

یھاں پر ریفرنس/ لنکس قرآن کی آیات سے راہنمائی کی طرف جاتے ہیں۔ قرآن کی آیات کو خود سٹڈی کریں ، خود سمجھنے کی کوشش کریں، یہ کتاب ہدائیت اللہ نے ہماری ہدائیت کے لئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور اسے محفوظ کر دیا۔ 

آپ کو معلوم ہو جائیے گا کہ اگر آپ کسی ایک قدیم روائیتی فقہہ، گروپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں تو  بنیادی طور پر سب فقہ میں ایمان کی بنیاد  ایک جیسی ہے۔  بدعات نے اختلاف پیدا کر رکھے ہیں جن سے کنارہ کشی کرنا ممکن ہے اگر کوشش کریں۔ بدعہ سے چھٹکارا پا کر تجدید (Revival ) یعنی اصل راستہ کی طرف واپسی ممکن ہے جو دین کامل ہے-

تجدید ایمان:  نبی ﷺ نے فرمایا :

اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم اپنے ایمان کی تجدید کیسے کرسکتے ہیں؟

لا الہ الا اللہ کی کثرت کیا کرو


ایک مثال قرآن نے دین کا نام "اسلام" رکھا اور مومنین کو "مسلم" کا نام عطا فرمایا جو کہ آیت محکمہ سے ثابت ہے - اب اگر کوئی اس کے ساتھ دوسرے سابقہ لاحقہ جات لگا تا ہے تو یہ بدعة ہے- الله تعالی کا نام پسند نہیں کہ کسی شخص ، شہر ، بلڈنگ ، کتاب وغیرہ کا نام جوڑنا درست نہیں- ان ناموں کو ترک کرنا ہوگا فقہ جو بھی ہو ایکسٹرا لیبل کی ضرورت کیوں؟

مزید تفصیل : صرف مسلمان Muslim Only


کامیابی، ہدایت حاصل کرنے اور نجات کا آسان نسخہ

انسان کی کامیابی کی بنیاد درست ایمان پر ہے۔ اس کے بعد عمل صالح۔ دونوں مل کر انسان کو حق پر قائم کرتے ہیں جس کی  نصیحت بنی نوع انسان کو کرنا اور مخالفت پر صبر کرنا ہے۔ یہی دنیا و آخرت میں کامیابی کا راستہ ہے جو خلاصہ قرآن سورہ العصر میں بیان ہے۔ 

پڑھیں :مقصد حیات: کامیاب  اور ناکام کون؟

اکثر کہا جاتا ہے کہ کس راستہ پر چلیں؟

 اتنے زیادہ فرقے ، گروپ ہیں اور سب ہی اپنے آپ کو حق اور دوسروں کو باطل ، کافر، جہنمی قرار دیتے ہیں۔

ایک عام مسلمان کیا کرے؟

اس کا حل اللہ تعالی نے قرآن نے دیا ہے، سورہ آل عمران کی آئیت 7 میں۔ صرف قرآن کی "آیات محکمات" ، جن کا صرف ایک مطلب ہوتا ہے ، کسی تفسیر ، تاویل کی ضرورت نہیں، یہ "ام الکتاب" ہیں۔ قرآن کی بنیاد ہیں۔

 ایمان کی بنیاد آیات محکمات پر ہے۔

آپ اپنے ایمان کو خود چیک کر سکتے ہیں، جو عقیدہ "آیات محکمات" سے ثابت نہیں تاویلوں کی ضرورت پڑتی ہے وہ ایمان سے خارج کریں۔ اللہ ایمان کی  بات خود بیان کرتا ہے

جب ایمان درست ہوگیا تو پھر اللہ باقی اعمال بھی درست کرنے میں مدد فرمائے گا۔ اعمال "سنت ثابتہ" سے ملتے ہیں، جو نسل در نسل عملی طور پر منتقل ہوتی چلی آرہی ہے ان میں جو اختلاف ہیں وہ فروعی ہیں ان پر بحث کی ضرورت نہیں جس تک جو پہنچا اسی کے مطابق نماز ادا کرے عمل کرے اور اختلاف کو برداشت کرے.

اس کاروائی کو خود اکیلے کریں کسی کی مدد ضروری نہں،  اللہ سے ہدائیت اور مدد کی دعا مانگتے رہیں وہ آپ کو مایوس نہ کرے گا، ان شاء اللہ 

قرآن کی آیات سے راہنمائی حاصل کریں۔ قرآن کی آیات کو خود سٹڈی کریں ، خود سمجھنے کی کوشش کریں، یہ کتاب ہدائیت اللہ نے ہماری ہدائیت کے لئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور اسے محفوظ کر دیا۔  آپ کو معلوم ہو جائیے گا کہ اگر آپ کسی ایک قدیم روائیتی فقہہ، گروپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں تو  بنیادی طور پر ایمان کی بنیاد  ایک جیسی ہے۔  بدعات نے اختلاف پیدا کر رکھے ہیں جن سے کنارہ کشی کرنا ممکن ہے اگر کوشش کریں۔ بدعہ سے چھٹکارا پا کر تجدید  (Revival ) یعنی اصل راستہ کی طرف واپسی ممکن ہے۔

پڑھیں :
2.تجديد ایمان----

کوئی عقیدہ،  نظریہ، عبادت ، کلمہ ، قول جو قرآن کی "آئیت محکمہ" کے مطابق نہیں، تشریحات و تاویلات کے زور پر جسے قرآن سے ثابت کرنا پڑے اور تشریحات و تاویلات کے ہی زور پر جسے قرآن مخالف ، باطل بھی ثابت کیا جاسکے وہ نظریہ ، عقیدہ، قول، کلام ایمان کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ 

ایسے کچے قول ، نظریہ پر ایمان کی عمارت کھڑی نہیں کی جاسکتی جو ابدی جہنم کی طرف لے جا سکتی ہو۔ اس میں کسی رسک (risk) یا شک و شبہ کی گنجائیش نہیں۔ صرف ایک کتاب ہے جو خود دعوی کرتی ہے : ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ 

یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں 

اور قرآن ہی آیات محکمات کو قرآن کی بنیاد قرار دیتا ہے۔

قرآن کی اہم آیات کو منتخب کرکہ اکٹھا کیا گیا ہے استفادہ کی آسانی کے لئے :

https://bit.ly/AhkamAlQuran

اللہ تعالی ہم سب کو محکم مضبوط  ایمان کے ساتھ  صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 https://bit.ly/Tejdeed-Islam 

الله تعالی کا فرمان ہے :

لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ(قرآن:‎(8:42

تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً اللہ  سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن : ‎(8:42

دعوة دین کامل  https://bit.ly/DeenKamil 

~~~~~~~~~~~~~

تجدید اسلام


اسلام میں مسیحیت کی طرح پاپایت (Pope) یا یہود کی طرح "الحاخام"(Rabbi) کا کوئی تصور نہیں- حکمران، علماء، مسلمان سب اپنی اپنی حیثیت میں دین اسلام کی ترویج، تبلیغ، دعوه کرتےہیں. "امربالمعروف ؤںہی عن المنکر" سب مسلمانوں کا فریضہ ہے-  لهذا "مجدد" کوئی مخصوص دینی عہدہ (Religious appointment) نہیں جس کا اعلان یا تشہیر ہو یا ملسمانوں کو اس کی تقلید کی دعوت دی جایے کہ فلاں صاحب مجدد ہیں ان کی پیروی کرو- اگر کوئی مسلمان جماعت یا افرد قرآن و سنت و احادیث سے اولین دور کے دین کامل اسلام پر کاربند ہونے کی دعوت دے تو اس کا  تجزیه کرکہ عمل پیرا ہونا کسی خاص جماعت یا افراد کی پیروی نہیں بلکہ قرآن و سنت و احادیث پرعمل کرنا ہے-

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ؛ 

میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کےحاکم، مستدرک، رقم: 7657)حکم پر قائم رہے گی (مفھوم، متفق علیہ ) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس دین کی خاطر قیامت تک (باطل کے خلاف) برسرِپیکار رہے گی۔ [رواہ مسلم ،احمد ] ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔ [ابوداؤد: 4291)

عمومی طور پراس سے  ہر وہ جماعت ، طبقہ، فرد یا افراد مراد ہیں  جو اللہ کے سچے دین پر قائم ہوں اور دین کامل، اسلام  کی خدمت و اشاعت میں اورسر بلندی کے لئے کسی بھی صورت سے مصروف عمل ہوں۔

تجدید دین اسلام - (جماعت )

آیات قرآن :

(1) وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (آل عمران، 3/ 104)

اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔


(2) کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ ط وَلَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ط مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَo (آل عمران، 3/ 110)

تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔


(3) وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍم يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ ط اُولٰٓئِکَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ ط اِنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo (التوبة، 9/ 71)

اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔


(4) وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا کَآفَّةً ط فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوٓاْ اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَo (التوبة، 9/ 122)

اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔


احادیث 

1. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِاللهِ. لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتّٰی يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ عَلٰی ذَالِکَ. 

[(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.)  أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب سؤال المشرکين أن يريهم النبي آية فآراهم انشقاق القمر، 3/ 1331، الرقم/ 3442، وأيضًا في کتاب التوحيد، باب قول اللہ تعالی: إنما قولنا لشيء، 6/ 2714، الرقم/ 7022، ومسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3/ 1524، الرقم/ 1037، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 101، الرقم/ 16974، وأبو يعلی في المسند، 13/ 375، الرقم/ 7383.]


حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی۔ جو اُنہیں ذلیل کرنے کا ارادہ کرے گا یا اُن کی مخالفت کرے گا وہ اُنہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا امر(یعنی قیامت کا دن) آجائے گا اور وہ اِسی حال پر قائم ہوں گے۔  [یہ حدیث متفق علیہ ہے۔]

2 وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ. وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي. وَلَنْ تَزَالَ هٰذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلٰی أَمْرِ اللهِ. لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ. 

[مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد اللہ به خيرا يفقهه في الدين، 1/ 39، الرقم/ 71، ومسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله: لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3/ 1524، الرقم/ 1037، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 101، الرقم/ 16973، والطبراني في المعجم الکبير، 19/ 329، الرقم/ 755.[


3. ایک اور روایت میں آپ (یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اُسے دین کی فقہ (سوجھ بوجھ) عطا کر دیتا ہے۔ میں صرف تقسیم کرنے والا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے۔یہ اُمت ہمیشہ اللہ کے دین پر قائم رہے گی اور ان کے مخالف قیامت تک اُنہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔  

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

4 وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللهِ. لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، أَوْ خَالَفَهُمْ، حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ ظَاهِرُوْنَ عَلَی النَّاسِ.

 [رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3/ 1524، الرقم/ 1037، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 101، الرقم/ 16974، والطبراني في المعجم الکبير، 19/ 370، 380، 383، الرقم/ 869، 893، 899]


ایک اور روایت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ جو شخص ان کو رسوا کرنا چاہے گا یا ان کی مخالفت کرے گا وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ وہ (حق و صداقت میں ہمیشہ) لوگوں پر غالب رہیں گے حتیٰ کہ قیامت آ جائے گی۔ [اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے]


5 عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِيْنَ عَلَی الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتّٰی يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ کَذَالِکَ. [رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.] [ أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3/ 1523، الرقم/ 1920، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 279، الرقم/ 22456، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الأئمة المضلين، 4/ 504، الرقم: 2229، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 226، الرقم/ 18605، وسعيد بن منصور في السنن، 2/ 177، الرقم/ 2372]


حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ جو شخص اُن کو رسوا کرنا چاہے گا وہ اُن کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ وہ اسی طرح ثابت قدم رہیں گے حتیٰ کہ قیامت آ جائے گی۔ [اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح حدیث کہا ہے۔]


6 عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: لَنْ يَبْرَحَ هٰذَا الدِّيْنُ قَائِمًا. يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ. 

[ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ. أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله: لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق لا يضرهم من خالفهم، 3/ 1524، الرقم/ 1922، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 103، 106، الرقم/ 21023، 21052، وأبو عوانة في المسند، 4/ 505، الرقم/ 7499، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 217، 225، الرقم/ 1891، 1931.]


حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس دین کی خاطر قیامت تک (باطل کے خلاف) برسرِپیکار رہے گی۔ [اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ]


تجدید دین اسلام -فرد یا افراد

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَرَاحِيلَ بْنِ يَزِيدَ الْمُعَافِرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ لَمْ يَجُزْ بِهِ شَرَاحِيلَ. (سنن ابوداؤد, حدیث نمبر: 4291)  (مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 235)

ترجمہ: ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا ۔[سنن ابوداؤد, حدیث نمبر: 4291),  تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٥٤٥١) (صحیح)، ۔(کتاب الملاحم باب ۱ح ۴۲۹۱)


تشریح:

عمومی طور پراس سے  ہر وہ جماعت اور ہر وہ طبقہ مراد ہے جو اللہ کے سچے دین پر قائم ہو اور اللہ دین کی خدمت و اشاعت میں اور اسلام کی سر بلندی کے لئے کسی بھی صورت سے مصروف عمل ہو۔ اسلام میں مسیحیت کی طرح پاپایت (Pope) یا یہود کی طرح "الحاخام الأكبر"(Chief Rabbi) کا کوئی تصور نہیں- نیک حکمران، علماء ، عام مسلمان سب اپنی اپنی حیثیت میں دین اسلام کی ترویج، تبلیغ، دعوه کر تے ہیں "امربالمعروف  ؤںہی عن المنکر" سب مسلمانوں کا کام ہے-  لهذا "مجدد" کوئی مخصوص دینی عہدہ (Religious appointment) نہیں جس کا اعلان یا تشہیر کی جاینے یا ملسمانوں کو اس کی تقلید کی دعوت دی جایے کہ فلاں صاحب مجدد ہیں ان کی پیروی کرو- اگر کوئی مسلمان قرآن و سنت و احادیث سے اولین دور کے دین کامل اسلام پر کاربند ہونے کی دعوت دے تو اس کا  تجزیه کرکہ عمل پیرا ہونا کسی فرد نہیں بلکہ قرآن و سنت و احادیث پرعمل کرنا ہے-

اکثر علماء کرام نے اس حدیث سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں امت کے اندر اپنے علم و فضل کے اعتبار سے سب میں ممتاز ایک ایسا آدمی موجود ہوتا ہے جو دین کو نکھارتا اور تجدید کرتا ہے جسے مجدّد کہا جاتا ہے۔ مجدّد اپنے زمانہ میں دین کے اندر ہر پیدا ہونے والی برائی اور خرابی کو دور کرتا ہے۔ بدعة اور رسم و رواج کے جو گہرے پردے دین کی حقیقت پر پڑجاتے ہیں وہ اپنے علم و معرفت کی قوّت سے انہیں چاک کرتا ہے اور امت کے سامنے پورے دین کو نکھار کر اور صاف و ستھرا کر کے اس کی اپنی شکل میں پیش کردیتا ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے تعین بھی کیا ہے کہ فلاں مجدّد پیدا ہوا تھا اور فلاں صدی میں فلاں مجدّد موجود تھا۔ بعض علماء نے اس حدیث کے معنی کو عمومیت پر محمول کیا ہے، یعنی خواہ دین کی تجدید کرنے والا کوئی ایک آدمی واحد ہو خواہ کوئی جماعت ہو جو دین میں پیدا کی گئی برائیوں اور خرابیوں کو ختم کرے۔


 تجدید کرنے والے سے کیا مراد ہے؟ مختلف فرقوں اور لوگوں نے اپنی اپنی پسندیدہ شخصیتوں کو تجدید کا تاج پہنا کر مجدد بنانے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن ان لوگوں کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ فلاں شخص ضرور بالضرور مجدد تھا یا ہے؟ اس قسم کے سب دعوے بلا دلیل ہیں لہذا اس مسئلے میں مکمل سکوت میں ہی بہتری ہے۔ اللہ کے ہاں مجدد کون ہے یہ کسی کو پتہ نہیں لہذا خوامخواہ قیاس آرئیاں کرکے اپنی مرضی کی شخصیات کو مجددیت کا تاج پہنا دینا بے دلیل اور مردود ہے۔

سب مسلمانوں کو اپنی طرف سے دین کامل، پہلی صدی کے اسلام کی تجدید و احیاء کی کوشش کرنا چاہے بغیر کسی دنیوی لالچ ، تشہیر کے- مجددین کی کچھ اہم خصوصیات :

  1. مجدد قرآن و سنت کو عام کرنے والا اور بدعت کو مٹانے والا ہو نہ کہ بدعة پیدا کرنے والا-

  2. مجدد ان تمام کاموں کو بخوبی انجام دے سکے جو تجدید میں داخل ہیں، ان میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ مجدد اسلام کو تمام انحرافات اور اس کی اصل میں داخل ہوئے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کر کے اصل کتاب و سنت سے بحال کر دے-

  3. جو خیال اس کے دل میں آیا ہو وہ کسی کی تقلید سے نہ آیا ہو، بلکہ اجتہادی ہو۔

  4. مذہب، علم یا سیاست میں کوئی مفید انقلاب برپا کرے۔

  5. علمی کمال و مہارت، علوم میں راسخ و ماہر ہو، یعنی زیادہ سے زیادہ علوم پر مہارت اور قدرت کے ساتھ ساتھ ان علوم کے نقد و تبصرہ پر بھی قادر ہو۔ بعض علما کے مطابق مجدد کا صرف عالم یا فقیہ ہونا کافی نہیں بلکہ مجتہد ہونا بھی ضروری ہے۔

  6.  مجدد کا علم اور اس کا نفع اس زمانہ میں عام ہو، اس کی تالیفات و تصنیفات مشہور ہوں اور اس کی اصلاحی کوششوں کا اثر ظاہر ہو-

  7. ایک صدی گزر جائے اور مجدد لوگوں کے درمیان موثر ہو۔ اس کا علم اور مقام و مرتبہ معروف و مسلّم ہو اور وہ اپنی باتوں سے سنت کو عام کرتا ہو۔ ہر فن میں اسے مہارت حاصل ہو، اور اس کا علم زمانہ والوں پر عام ہو۔ 

  8. محمد رشید رضا مصری نے اپنی کتاب "موسوعۃ اعلام المجددین فی الاسلام" میں ان مجددین کو بھی شمار کرایا ہے جن کا تجدیدی کارنامہ صرف کسی علاقہ یا کسی قوم تک محدود رہا ہو، بلکہ انہوں نے جنگ میں تجدیدی کارنامہ انجام دینے والے مجددین کو بھی شامل کیا ہے، اسی طرح دیگر میدانوں یا شعبوں میں تجدید کرنے والوں کو بھی اپنی کتاب میں شمار کیا ہے-

  9. ایک ہی زمانے میں مجدد ایک یا ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں، یہ رائے ابن اثیر جزری، شمس الدین ذہبی، ابن کثیر اور ابن حجر عسقلانی کی ہے-


Revival /Renewal of Islam 

Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet  ﷺ  said: Allah will raise for this community at the end of every hundred years the one who will renovate its religion for it.

Abu Dawud said: Abdur-Rahman bin Shuriah al-Iskandarani has also transmitted this tradition, but he did not exceed Shrahil. [Abo Dawood: 4291), [USC-MSA web (English) Reference: Book 38 , Number 4278]


یہ امت اللہ کے سچے دین پر قائم رہنے والوں سے کبھی خالی نہیں رہے گی

دثنا منصور بن ابي مزاحم ، حدثنا يحيي بن حمزة ، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، ان عمير بن هانئ ، حدثه قال: سمعت معاوية على المنبر، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا تزال طائفة من امتي قائمة بامر الله، لا يضرهم من خذلهم او خالفهم حتى ياتي امر الله وهم ظاهرون على الناس ". (صحیح مسلم 4955)

‏‏‏‏ عمیر بن ہانی سے روایت ہے، میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا منبر پر، وہ کہتے تھے میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گا جو کوئی ان کو بگاڑنا چاہے وہ کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آن پہنچے اور وہ غالب رہیں گے لوگوں پر۔“ (صحیح مسلم 4955),(بخاری ومسلم، مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6322، مزید ...]   

تشریح

اللہ کے حکم پر قائم ہوگا۔۔۔  یعنی اس گروہ کی اعتقادی اور عملی زندگی پوری عمارت ودینی فرائض اور شرعی احکام پر استوار ہوگی جو کتاب اللہ کو یاد کرنے حدیث کا علم حاصل کرنے کتاب سنت سے استباط کرنے، فی سبیل اللہ جہاد کرنے مخلوق اللہ کی خیر خواہی میں لگے رہنے اور جتنے فرض کفایہ ہیں سب کے تئیں اپنی ذمہ داری نبھا نے سے عبارت ہے اور جس کی طرف اللہ تعالیٰ کا ارشاد اشارہ کرتا ہے   ولتکن منکم امۃ ید عون الی الخیر و یا مرون بلمعروف وینھون عن المنکر۔   اور تم میں ( ہمیشہ) ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے جو ( دوسروں کو بھی) خیر کی طرف بلا یا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں۔   بہرحال اس حدیث سے وا ضح ہوا کہ روئے زمین ایسے صلحا اور پاکیزہ نفس لوگوں سے کبھی خالی نہیں رہے گی جو احکام خداوندی کی پیروی میں ثابت قدم رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے دور رہتے ہیں، دین و شریعت پر ہر حالت میں عمل کرتے ہیں اور بہر صورت اسلام کی بقاء وسر بلندی کے لئے سر گرم رہتے ہیں، خواہ مدد و اعانت کرنے والے ان کی مدد و اعانت کریں یا مخالفت پر کمربستہ لوگ ان کی مخالفت و برائی کریں۔  حتی یاتی امر اللہ (یہاں تک کہ اللہ کا حکم آن پہنچے گا) میں (امر اللہ) اللہ کے حکم) سے موت اور انقضائے عہد مراد ہے تاہم شارح نے اس سے  قیامت  مراد لی ہے لیکن اس قول پر اس حدیث کی رو شنی میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے لا تقوم الساعۃ حتی لا یکون فی الا رض من یقول اللہ (روئے زمین پر جب تک ایک بھی اللہ کا نام لیوا موجود رہے گا قیامت نہیں آئے گی) اسی طرح قائمۃ بامر اللہ ( اللہ کے حکم پر قائم ہوگا) کے معنی ایک شارح نے اللہ کے دین پر سختی سے عمل کرنا لکھے ہیں، نیز بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حدیث میں مذکورہ  گروہ  سے مراد اہل علم کی وہ جماعت ہے جو ہر زمانہ میں قرآن و سنت، حدیث کی تعلیم اور دینی علوم کی تدریس وا شاعت کے ذریعہ قرآن و سنت کی ترویج اور دین کی تجدید و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتی رہے گی اور ایک شارح کہتے ہیں  گروہ  سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اور ہر حالت میں اسلام پر قائم رہیں گے۔ ایک اور شارح لکھتے ہیں، ہوسکتا ہے اس حدیث کا مطلب یہ ہو کہ روئے زمین سے اہل اسلام کی شوکت و عظمت کبھی فنا نہیں ہوگی۔ اگر روئے زمین کے کسی علا قہ اور کسی خطہ میں اسلام اور مسلمانوں کو ضعف واضمحلال لاحق ہوگا تو کسی دوسرے علاقہ اور خطہ میں اسلام کا بول بالا اور مسلمانوں کو شوکت و عظمت حاصل رہے گی جو اعلاء کلمۃ اللہ اور اسلام کا پرچم سر بلند کرنے میں مستعدی سے لگے ہوں گے-

اکثر اقوال کا خلاصہ یہ کہ گروہ سے مراد غازیان اسلام کی جماعت ہے جس کا کام دشمنان دین اسلام سے جہاد کر کے دین کو مضبوط و سر بلند کرنا ہے اور پھر یہی جماعت آخر زمانہ میں اسلامی سرحدوں کی حفا ظت و نگہبانی کرے گی، بعض روایتوں میں وھم بالشام کے الفاظ بھی آئے ہیں یعنی اس گروہ کا مستقر ملک شام ہوگا اور بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی ہیں حتی یقاتل اخر ھم مسیح الدجال (یہاں تک کہ اس گروہ کے آخری افراد جال کو قتل کریں گے) گو یا یہ روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ  گروہ  سے مراد غازیان اسلام ہی کی جماعت ہے لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ عمومی طور پر ہر وہ جماعت اور ہر وہ طبقہ مراد ہے جو اللہ کے سچے دین پر قائم ہو اور اللہ دین کی خدمت و اشاعت میں اور اسلام کی سر بلندی کے لئے کسی بھی صورت سے مصروف عمل ہو۔

تجدید ایمان

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں فرمایا:

جد دوا ايمانکم قيل يارسول الله کيف نجدد ايماننا؟ قال: اکثروا من قول لا اله الا لله.

اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو پوچھا گیا: یارسول اللہ! ہم اپنے ایمان کی کیسے تجدید کیا کریں فرمایا: ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کثرت سے پڑھا کرو۔ (حاکم، مستدرک، رقم: 7657)

 https://bit.ly/Tejdeed-Islam 

دعوة دین کامل  https://bit.ly/DeenKamil 

☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly