رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

دین ‏کامل ‏سے ناکامل اور تجديد



اَلۡيَوۡمَ يَئِسَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ دِيۡـنِكُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡهُمۡ وَاخۡشَوۡنِ‌ ؕ اَ لۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَ تۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا‌ ؕ
ترجمہ:
آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پُوری مایوسی ہوچکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے (سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 3)

حضرت عمر (رض) نے فرمایا ہمیں معلوم ہے وہ دن اور وہ جگہ جس میں یہ آیت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی آپ عرفات میں وقوف کئے ہوئے تھے (اور) جمعہ کا دن تھا (صحیح بخاری ص ١١ ج ١) فتح الباری ج ١ ص ١٠٥ میں طبرانی سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا نزلت یوم جمعتہ و یوم عرفتہ وکلا ھما باللہ لنا عید (کہ یہ آیت جمعہ کے دن عرفہ کے روز نازل ہوئی اور الحمد للہ یہ دونوں ہمارے لئے عید ہیں)-
 حضرت عمر (رض) کی فراست جب آیت بالا نازل ہوئی تو حضرت عمر (رض) رونے لگے اور انہوں نے اس آیت سے یہ سمجھا کہ اب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا میں تشریف نہیں رکھیں گے چونکہ جس مقصد کے لئے آپ کو مبعوث فرمایا تھا وہ پورا ہوگیا۔ حقیقت میں انہوں نے ٹھیک سمجھا اور نزول آیت کے اکیاسی دن بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ (من روح المعانی و معالم التنزی)

”کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے“ ، یعنی اب تمہارا دین ایک مستقل نظام بن چکا ہے اور خود اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ و قائم ہے۔ کفار جو اب تک اس کے قیام میں مانع و مزاحم رہے ہیں، اب اس طرف سے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اسے مٹا سکیں گے اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیت کی طرف واپس لے جاسکیں گے۔ ”لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو“ ، یعنی اس دین کے احکام اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں اب کسی کافر طاقت کے غلبہ و قہر اور در اندازی و مزاحمت کا خطرہ تمہارے لیے باقی نہیں رہا ہے۔ انسانوں کے خوف کی اب کوئی وجہ نہیں رہی۔ اب تمہیں الله سے ڈرنا چاہیے کہ اس کے احکام کی تعمیل میں اگر کوئی کوتاہی تم نے کی تو تمہارے پاس کوئی ایسا عذر نہ ہوگا جس کی بنا پر تمہارے ساتھ کچھ بھی نرمی کی جائے۔ اب شریعت الہٰی کی خلاف ورزی کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ تم دوسرے کے اثر سے مجبور ہو، بلکہ اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے۔
 
دین کو مکمل کردینے سے مراد ُ اس کو ایک مستقل نظام فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنادینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ 
نعمت تمام کرنے سے مراد نعمت ہدایت کی تکمیل کردینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچا اور مخلصانہ اقرار ثابت کرچکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجہ قبولیت عطا فرمایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کا جوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا۔
 اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر انداز کلام سے خود بخود یہ بات نکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حدود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔

 مذہب اور دین میں بنیادی فرق : 
عربی لغت میں مذہب نام ہے رسومات ‘ چند عبادات اور طریقے کا۔ جبکہ دین عبادات ‘ احکامات ‘ معاملات ‘ اخلاقیات گویا کہ دنیا وآخرت کے تمام امور دین میں شامل ہیں لفظ مذہب عربی زبان کا لفظ ہونے کے باوجود قرآن و احادیث کے وسیع ترین علمی ذخیرہ میں دین کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ جبکہ دین قرآن مجید اور عربی ادب میں ان تمام معنوں میں استعمال ہوا اور تمام معانی اور مفاہیم کا لفظ ” دین اسلام “ نے احاطہ کرلیا ہے۔
 اسلام کا مرکزی اور جامع معنی سلامتی اور سپردگی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں ایک اسم مبارک ” سلام “ ہے۔ اسم پاک ہونے کی وجہ سے اس کا معنی ٰ سلامتی والا اور سلامتی عطا فرمانے والا ہے۔ اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لیے امن و سلامتی کا پیغام اور اپنے ماننے والوں کو سلامتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ قائم و دائم اور ہمیشہ سے سلامتی والا ہے اور رہے گا۔ اس طرح دین اسلام ہمیشہ قائم اور تسلیم ورضا اختیار کرنے والوں کو دنیاوآخرت کی سلامتی فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے اور دیتا رہے گا۔ 
دین اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی دل کی گہرائیوں اور عمل کی تمام اکائیوں کے ساتھ اس کے حلقۂ اثر میں شامل ہوجائے۔ اسلام کا مفہوم : 
” ابراہیم کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا ” مسلم ہوجا “ تو اس نے فورًا کہا میں مالک کائنات کا تابع ہوگیا۔ اس طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو بھی کی تھی اور اسی کی وصیّت یعقوب اپنی اولاد کو کر گئے۔ انہوں نے کہا میرے بچو ‘ اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔ “ [ البقرۃ : ١٣١‘ ١٣٢] 

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ “ [ آل عمران : ١٠٢‘ ١٠٣] 

اسلام مکمل تابع داری کا تقاضا کرتا ہے : ” اے ایمان والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ [ البقرۃ : ٢٠٨]
 ” کہیے ! میری نماز ‘ میرے تمام مراسم عبودیت ‘ میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العٰلمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ کہیے کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے۔ “ [ الانعام : ١٦٢ تا ١٦٤] 
دین فطرت :
 قرآن مجید نے اسلام کو دین فطرت قرار دیا ہے کہ اس کا ہر حکم اور ارشاد انسان کی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہے فطرت کو سمجھنے کے لیے کسی بھی نو مولود بچے کی عادات و حرکات پر غور فرمائیں۔ تجربہ اور مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ بطخ کا بچہ پیدا ہوتے ہی پانی کی طرف بھاگتا ہے، مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی مرغی کے پاؤں اور پروں میں سکون پاتا ہے، انسان کا نومولود اپنی مامتا کی چھاتی کی طرف لپکتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس کی فطرت اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
 اسی فطرت کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ ہر گھر کے آنگن میں پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ (مَامِنْ مَوْلُوْدٍ ےُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ ےُھَوِّدَانِہٖ اَوْےُمَجِّسَانِہٖ اَوْ ےُنَصِّرَانِہٖ ) [ مشکٰوۃ : باب الایمان بالقدر ] ” ہر جنم لینے والا بچہ فطرت سلیم پر پیدا ہوتا ہے یہ تو والدین کی تربیت کے اثرات ہونگے کہ اسے یہودی، عیسائی یا آتش پرست بنا دیں۔
 “ بھینس کا بچہ اگر کچھ لمحوں کے لیے بھول کر بھینس کے تھنوں کی بجائے اگلی ٹانگوں میں منہ ڈالتا ہے تو مالک کے ایک اشارے کے بعد دوبارہ دودھ پینے والی جگہ کو نہیں بھولتا۔ 
انسانی فطرت کا خود اپنا تقاضا ہے کہ وہ اپنے رب سے مانگے اور اس کے سامنے جھکتا رہے۔ اس کے باوجود پیدا ہوتے ہی اس کے کانوں میں اذان اور اقامت کہہ کر اسے بتلایا ہے گیا کہ اب تمہیں یہ سبق نہیں بھولنا کہ تیرا الٰہ ایک ہے اس نے ہی تجھے پیدا کیا اور تجھے ہر حال میں اس کے سامنے جھکنا ہوگا۔ جو شخص بڑا ہو کر توحید کے اس فطری راستے اور تقاضے کو چھوڑ کر شرک کی پگڈنڈیوں پر چلتا ہے وہ اپنے رب کا نافرمان ہی نہیں بلکہ اپنی فطرت سے بھی بغاوت کررہا ہوتا ہے۔ ان آیات میں انسان کو بغاوت و سرکشی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے اسی فطرت کا حوالہ دیا جا رہا ہے : ” پس اے نبی اور نبی کے ماننے والو ! یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم کرو۔ جس فطرت پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت بدلنے کی اجازت نہیں ہے ‘ یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ قائم ہوجاؤ اس بات پر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور ڈرو اس سے اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں شامل نہ ہوجاؤ۔ “ [ الروم : ٣٠‘ ٣١]
 مومن اور مشرک کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ موحّد کی فطرت اپنی اصلّیت پر قائم رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر حال میں اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع کرتا ہے۔ مشرک نے اپنی فطرت سے انحراف کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ خوش حالی اور امن و سکون کی حالت میں اپنے سچے اور حقیقی خالق کو براہ راست پکارنے کی بجائے دوسروں کے توسُّط سے سوال کرتا ہے لیکن ایسا شخص جب مسائل اور مصائب کے گرداب میں پھنس کر اسباب و وسائل سے مایوس ہوجاتا ہے تو وہ بےساختہ پکار اٹھتا ہے کہ الٰہی تیرے سوا کوئی میری مدد کرنے والا نہیں۔ گویا کہ فطرت اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اسباب کے حجاب اور وسائل کے پردے اٹھ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کو براہ راست پکار رہا ہے۔ یہی وہ فطرت صحیحہ اور اس کی حقیقی آواز ہے جس سے انسان وسائل کی وجہ سے بغاوت کرتا ہے۔
 ” اور جب سمندر میں ان لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے ‘ پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اغماض برتتا ہے اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدار اور ناشکرا ہے۔ “ [ لقمٰن : ٣٢]
اسلام - دین کامل 
1۔ دین اسلام مکمل ہوچکا ہے۔ نئی بداعات کی جگہ نہیں-
2۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم فرمانبردار بن جا تو ابراہیم اسی وقت رب کے مطیع ہوگئے۔ (البقرۃ : ١٣١)
3. اللہ تعالیٰ کے سامنے مطیع ہونے کا نام اسلام ہے۔ (الصافات : ١٠٣ تا ١٠٥)
4۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔ (سورۃ آل عمران : ١٩) 
5۔ جو اسلام کے علاوہ دوسرا دین تلاش کرے گا وہ خسارہ اٹھائے گا۔ (آل عمران : ٨٥) 
6۔ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ (الانعام : ١٢٥) 
7۔ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کی روشنی پر ہے۔ (الزمر : ٢٢)
8۔ جس نے اپنے چہرے کو اللہ کے سامنے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والا ہے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔ (لقمان : ٢٢)

اسلام صرف عبادات کا مجموعہ ہی نہیں اعتقادیات، عبادات و معاملات، اخلاق و آداب یہ سب اسلام میں موجود ہیں۔ اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین ایسا نہیں ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو۔ بجز چند تصورات اور خیالات کے دوسرے ادیان میں کچھ بھی نہیں۔ اگر اسلام میں کسی آنکھیں بند کرنے والے کو کچھ بھی نظر نہ آئے تو یہ دین کا جامع اور کامل ہونا ہی ایک منصف مزاج سمجھدار انسان کے لئے اسلام کے دین حق ہونے کی دلیل کے طور پر کافی ہے۔

 اس اعتبار سے انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کا دین بھی کامل تھا کہ اس کو اختیار کرنے پر ان کے اپنے اپنے زمانے میں آخرت کی نجات کا مدار تھا اور اس کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کافی تھا۔ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دین لائے وہ تمام انسانوں تمام جہانوں اور آئندہ آنے والے تمام زمانوں کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے اور کوئی دین اس کے بعد آنے والا نہیں جو اس کو منسوخ کردے اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے احکام پر حاوی ہے۔ دنیا کتنی بھی ترقی کر جائے اور کیسے ہی حوادث و نوازل کا ظہور ہوجائے ان سب کا حکم شرعی موجود ہے اور مدار نجات تو بہر حال ہے ہی، ان سب وجوہ سے اس کو کامل فرمایا۔ اتمام نعمت پھر فرمایا (وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ) (اور پوری کردی میں نے تم پر اپنی نعمت) صاحب روح المعانی ج ٦ ص ٦٠ لکھتے ہیں کہ مخاطبین پر نعمت کو پورا فرمانا اس طرح ہوا کہ ان کے لئے مکہ معظمہ فتح ہوا اور وہ مکہ معظمہ میں امن وامان کے ساتھ غلبہ اسلام کے ساتھ داخل ہوئے اور جاہلیت کی چیزیں ختم کردی گئیں اور مشرکیں کو حج کرنے سے روک دیا گیا۔ اتمام نعمت کی تفسیر میں دیگر اقوال بھی ہیں مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت پوری فرما دی اور اس کے اسباب مکمل فرما دیئے اور بعض حضرت نے فرمایا اتمام نعمت سے اکمال دین ہی مراد ہے (گویا پہلے جملے کی تاکید ہے) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ امت محمد علی صاجہا الصلوۃ والتحیہ کو جو علم و حکمت سے نوازا وہ اور کسی کو عطا نہیں فرمایا اتمام نعمت سے وہ مراد ہے۔ صاحب معالم التنزیل اس کی تفسیر کرتے ہوئے بعض حضرات سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ وعدہ پورا فرما دیا جو (وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ ) میں فرمایا تھا۔ دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر ہے پھر فرمایا (وَ رَ ضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دَیْنًا) اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کرلیا۔ دن اسلام ہی امن وامان اور آخرت کی نجات کا ضامن ہے جس کا دین اسلام نہ ہوگا وہ اصحاب نار میں سے ہوگا یعنی اس کے لئے ہمیشہ ہمیش دوزخ ہی ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر نہیں کوئی کیسی ہی عبادتیں اور ریاضتیں کرے تارک دنیا ہو، راہب ہو دوزخی ہی ہوگا اگر دین اسلام قبول کئے بغیر مرگیا۔ 

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ (قیامت کے دن اعمال آئیں گے) نماز آئے گی وہ کہے گی کہ اے رب ! میں نماز ہوں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا تو خیر پر ہے پھر صدقہ آئے گا وہ عرض کرے گا اے رب ! میں صدقہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا تو خیر پر ہے۔ روزے آئیں گے وہ کہیں گے کہ اے رب ! ہم صیام ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو خیر پر ہے۔ پھر دوسرے اعمال اسی طرح آتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا تم خیر پر ہو پھر اسلام آئے گا وہ عرض کرے گا اے رب ! آپ سلام ہیں میں اسلام ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا ہوگا کہ تو خیر پر ہے۔ تیری ہی وجہ سے میں آج مواخذہ کروں گا ( جس نے تجھے قبول نہ کیا تھا وہ خیر سے محروم ہوگا اور عذاب میں جائے گا) اور تیری وجہ سے عطا کروں گا (آج جو انعامات ملنے ہیں تیری وجہ سے ملیں گے ) اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) اور جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی دین کا طلب گار ہوگا۔ تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ علی صجاہ الصلوۃ والتحیہ کو تین خصوصی انعام عطا فرمائے (١) کمال دین (٢) اتمام نعمت (٣) نعمت اسلام۔ جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں اور جس کے بغیر کسی کے لئے آخرت میں کسی نعمت کا کوئی حصہ نہیں۔ امت محمدیہ افضل الامم ہے اس کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل الانبیاء ہے اس کے پاس کتاب افضل الکتب ہے۔ اس کا دین اکمل الادیان ہے، جو رہتی دنیا تک کے لئے ہے اس میں جامعیت ہے اور نسخ تبدیل نہیں ہے-

ایمان کی تجدید 

نبی ﷺ نے فرمایا اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم اپنے ایمان کی تجدید کیسے کرسکتے ہیں؟ لا الہ الا اللہ   کی کثرت کیا کرو (رواہ ابوہریرہ ؓ ، صحیفہ ہمام بن منبہ، حدیث نمبر: 8353)

ایمان :  حدیث جبرئیل

 حدیث جبرئیل, احادیث کی پانچ کتابوں میں ہے اور پانچ ہی صحابہؓ سے منقول ہے‘ یعنی حضراتِ عمر بن خطاب‘ ابوہریرہ‘ عبداللہ بن عباس‘ عبداللہ بن عمر اور ابوعامررضی اللہ عنہم اجمعین. یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اسے چار طرح سے مروی ہے. ان میں سے جو متفق علیہ روایت ہے وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے‘ لیکن جو مقبول ترین روایت ہے‘ جس کا متن پیش ہے‘ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور صحیح مسلم (کتاب الایمان ‘باب بیان الایمان والاسلام والاحسان )میں ہے.

مراتب میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین برابر نہیں تھے‘ سب کے اپنے اپنے مراتب تھے. کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم‘ کو فقہائے صحابہ کہا جاتا تھا‘ اس لیے کہ وہ فہم ِدین میں دوسروں سے زیادہ مرتبہ رکھتے تھے. ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ چوٹی کے مقام پر ہیں. اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی چوٹی کے فقہاءِ صحابہؓ میں شمار ہوتے ہیں.ان صحابہؓ سے مروی احادیث کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے.

اصول دین اور فروع دین ......


عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب شديد سواد الشعر لا يرى عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأسند ركبتيه إلى ركبتيه ووضع كفيه على فخذية وقال : يا محمد أخبرني عن الإسلام قال :  الإسلام : أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا  . قال : صدقت . فعجبنا له يسأله ويصدقه . قال : فأخبرني عن الإيمان . قال :  أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره  . قال صدقت . قال : فأخبرني عن الإحسان . قال :  أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك  . قال : فأخبرني عن الساعة . قال :  ما المسؤول عنها بأعلم من السائل  . قال : فأخبرني عن أماراتها . قال :  أن تلد الأمة ربتها وأن ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان  . قال : ثم انطلق فلبثت مليا ثم قال لي :  يا عمر أتدري من السائل  ؟ قلت : الله ورسوله أعلم . قال :  فإنه جبريل أتاكم يعلمكم دينكم  . رواه مسلم ورواه أبو هريرة مع اختلاف وفيه :  وإذا رأيت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الأرض في خمس لا يعلمهن إلا الله . ثم قرأ : ( إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث )  الآية (مشکوٰۃ المصابیح،  حدیث نمبر: 2)

ترجمہ:

حضرت عمر بن الخطاب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن (ہم صحابہ) رسول اللہ ﷺ کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی ہمارے درمیان آیا جس کا لباس نہایت صاف ستھرے اور سفید کپڑوں پر مشتمل تھا اور جس کے بال نہایت سیاہ (چمکدار) تھے، اس آدمی پر نہ تو سفر کی کوئی علامت تھی (کہ اس کو کہیں سے سفر کر کے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی سمجھا جاتا) اور نہ ہم میں سے کوئی اس کو پہچانتا تھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی مقامی آدمی ہو یا کسی کا مہمان بھی نہیں تھا) بہر حال وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کے اتنے قریب آکر بیٹھا کہ آپ ﷺ کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا لئے اور پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لئے (جیسے ایک سعادت مند شاگرد اپنے جلیل القدر استاد کے سامنے باادب بیٹھتا ہے اور استاد کی باتیں سننے کے لئے ہمہ تن متوجہ ہوجاتا ہے) اس کے بعد اس نے عرض کیا:

اے محمد ﷺ! مجھ کو اسلام کی حققیت سے آگاہ فرمائیے ؛

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اس حقیقت کا اعتراف کرو اور گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور پھر تم پابندی سے نماز پڑھو (اگر صاحب نصاب ہو تو) زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور زاد راہ میسر ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔

اس آدمی نے یہ سن کر کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اس (تضاد) پر ہمیں تعجب ہوا کہ یہ آدمی (ایک لاعلم آدمی کی طرح پہلے تو) آپ ﷺ سے دریافت کرتا ہے اور پھر آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے (جیسے اس کو ان باتوں کا پہلے سے علم ہو) پھر وہ آدمی بولا؛

اے محمد ﷺ! اب ایمان کی حقیقت بیان فرمائیے؛

 آپ ﷺ نے فرمایا (ایمان یہ ہے کہ) تم؛

اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں [1, 2, 3، 4] کو، اس کے رسولوں کو اور قیامت کے دن کو دل سے مانو 

اور اس بات پر یقین رکھو کہ برا بھلا جو کچھ پیش آتا ہے وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہے

 اس آدمی نے (یہ سن کر) کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔

 پھر بولا اچھا اب مجھے یہ بتائیے کہ احسان کیا ہے ؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو (یعنی اتنا حضور قلب میسر نہ ہو سکے) تو پھر (یہ دھیان میں رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

 پھر اس آدمی نے عرض کیا قیامت کے بارے میں مجھے بتائیے (کہ کب آئے گی)؟

آپ ﷺ نے فرمایا اس بارے میں جواب دینے والا، سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی قیامت کے متعلق کہ کب آئے گی، میرا علم تم سے زیادہ نہیں جتنا تم جانتے ہو اتنا ہی مجھ کو معلوم ہے)

 اس کے بعد اس آدمی نے کہا اچھا اس (قیامت) کی کچھ نشانیاں ہی مجھے بتادیجئے۔؟

آپ ﷺ نے فرمایا لونڈی اپنے آقا کو مالک کو جنے گی اور برہنہ پا، برہنہ جسم مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کو تم عالی شان مکانات و عمارت میں فخر و غرور کی زندگی بسر کرتے دیکھو گے۔ 

حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا اور میں نے (اس کے بارے میں آپ سے فورًا دریافت نہیں کیا بلکہ) کچھ دیر توقف کیا،

 پھر آپ ﷺ نے خود ہی مجھ سے پوچھا عمر! جانتے ہو سو، الات کرنے والا آدمی کون تھا؟ 

میں نے عرض کیا اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں

 آپ ﷺ نے فرمایا یہ جبرائیل تھے جو (اس طریقہ سے) تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (صحیح مسلم) 

نوٹ :

[1]  یہاں حدیث کی کتب  پرایمان  کا ذکر نہیں. قرآن بھی اپنے علاوہ کسی اور کتب حدیث پر ایمان سے منع کرتا ہے :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہےاَ(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ )( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185).

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [[رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ ، سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نا فرمنی و بدعة سے کامل دین اسلام کو نا کامل کر دیا -  تجديد الإسلام: ، وقت کی اہم، ضرورت ہے-


اس روایت کو حضرت ابوہریرہ ؓ نے چند الفاظ کے اختلاف و فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کی روایت کے آخری الفاظ یوں ہیں۔ (رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ) جب تم برہنہ پابرہنہ جسم اور بہرے گونگے لوگوں کو زمین پر حکمرانی کرتے دیکھو (تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے) اور قیامت تو ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ) 31۔ لقمان  34) آخر تک پڑھی (جس کا ترجمہ یہ ہے  اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور بارش کا کہ کب برسائے گا اور وہی (حاملہ) کے پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے ( کہ لڑکا ہے یا لڑکی) اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کسی آدمی کو نہیں معلوم کہ کس زمین پر اسے موت آئے گی۔ بیشک اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے)۔  (صحیح البخاری ومسلم)  (مشکوٰۃ المصابیح،  حدیث نمبر: 2)

تشریح

  یہ حدیث حدیث جبرائیل کہلاتی ہے کیونکہ یہ حدیث اس سوال و جواب (انٹرویو) پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بڑی خوبی کے ساتھ اسلام و ایمان کی حقیقت اور دین کی اساسی باتوں کا تعارفی خاکہ پیغمبر ﷺ کی زبان مبارک سے دنیا والوں کے سامنے پیش کرایا ہے۔

 حدیث میں سب سے پہلے ایمان اور اسلام کی حقیقت بیان ہوئی ہے جس سے ایمان اور اسلام کے درمیان یہ فرق بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ ایمان کا تعلق تو باطن یعنی تصدیق و اعتقاد سے ہے اور اسلام کا تعلق ظاہر یعنی اعمال اور جسمانی اطاعت و فرمانبرداری سے ہے۔ 

  1.  اللہ کو ماننے  کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اس کی ذات اور اس کی صفات برحق ہیں، عبادت و پرستش کی سزاوار صرف اسی کی ذات ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی اس کا ہمسر و شریک نہیں۔  

  2. فرشتوں کو ماننے  کا مطلب اس بات میں یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق  فرشتوں  کے نام سے موجود ہے یہ فرشتے لطیف اور نورانی اجسام ہیں۔ ان کا کام ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی تعمیل کرنا ہے۔  

  3. کتابوں کو ماننے  کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں اور وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبروں پر جو کتابیں نازل فرمائی ہیں اور ان میں چار کتابیں نازل فرمائی ہیں اور جن کی تعداد ایک سو چار ہے۔ وہ سب کلام الٰہی اور احکام و فرامین الٰہی کا مجموعہ ہیں اور ان میں چار کتابیں تو رات، انجیل، زبور اور قرآن مجید سب سے اعلیٰ و افضل ہیں اور پھر ان چاروں میں سب سے اعلیٰ و افضل  قرآن مجید  ہے۔  

  4. رسولوں کا ماننے  کا مطلب اس بات پر یقین اور اعتقاد رکھنا ہے کہ اول الانبیاء حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے ﷺ تک تمام نبی اور رسول اللہ تعالیٰ کے سب سے سچے، سب سے پیارے اور سب سے افضل بندے ہیں جن کو اس نے اپنے احکام و ہدایات دے کر مختلف زمانوں، مختلف قوموں میں مبعوث کیا اور انہوں نے ان خدائی احکام و ہدایات کے تحت دنیا والوں کو ابدی صداقت و نجات کا راستہ دکھانے اور نیکی و بھلائی پھیلانے کا اپنا فریضہ مکمل طور پر ادا کیا اور یہ کہ ان تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفے ﷺ ہیں جو کسی خاص زمانہ، کسی خاص علاقہ اور کسی خاص قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوئے، بلکہ اللہ کا ابدی دین  اسلام  لے کر تمام دنیا اور پوری کائنات کی طرف مبعوث ہوئے اور تا قیامت ان ہی کی نبوت اور انہی کی شریعت جاری و نافذ رہے گی۔ 

  5.  یوم آخرت یعنی قیامت کے دن  سے مراد وہ عرصہ ہے جو مرنے کے بعد سے قیامت قائم ہونے اور پھر جنت میں داخل ہونے تک پر مشتمل ہے۔  قیامت کے دن کو ماننے  کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ شریعت اور شارع نے مابعد الموت اور آخرت کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے یعنی موت کے بعد پیش آنے والے احوال مثلاً قبر اور برزخ کے احوال، نفخ صور، قیامت، حشر و نشر، حساب و کتاب اور پھر جزاء و سزا کا فیصلہ اور جنت و دوزخ یہ سب اٹل حقائق ہیں اور جن کا وقوع پذیر ہونا اور پیش آنا لازمی امر ہے۔ اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں۔ 

  6. تقدیر پر یقین رکھنے  کا مطلب اس حقیقت کو دل سے تسلیم کرنا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر وقوع پذیر ہوتا ہے، آج جو بھی علم واضح ہوتا ہے خواہ وہ نیکی کا ہو یا بدی کا، خالق کائنات کے علم اور تقدیر میں وہ ازل سے موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ مجبور و مضطر ہے۔ کاتب تقدیر نے انسان کو  مختار  بنایا ہے۔ یعنی اس کے سامنے نیکی و بدی کے دونوں راستے کھول کر اس کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہے وہ نیکی کے راستہ پر چلے، چاہے بدی کے راستہ پر اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ نیکی کے راستہ پر چلو گے تو جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے جو اللہ کا فضل و کرم ہوگا اور اگر بدی کے راستہ پر چلو گے تو سزا اور عذاب کے حقدار بنو گے اور دوزخ میں ڈالے جاؤ گے جو عدل الٰہی کے عین مطابق ہوگا۔  

  7. احسان سے مراد وہ جو ہر (اخلاص) ہے جس سے ایمان و اسلام کی ظاہری صورت یعنی عبادت الٰہی کا صحیح معیار اور حسن قائم ہوتا ہے اور عبادت کا یہی صحیح معیار اور حسن درحقیقت بندے کو معبود کا کامل تقرب اور عبدیت کا حقیقی مقام عطا کرتا ہے۔ بندہ اپنی عبادتوں کو اس جو ہر سے کس طرح آراستہ و مزین کرسکتا ہے؟ اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو تو اس طرح کرو جس طرح کوئی نوکر یا غلام اپنے آقا اور مالک کی خدمت اس کو اپنے سامنے دیکھ کر کرتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ اگر شفیق آقا نظر کے سامنے ہو اور غلام اس کو دیکھ رہا ہو تو اس کے فرض کی انجام دہی کی کیفیت ہی دوسری ہوتی ہے اس وقت غلام نہ صرف یہ کہ پوری طرح چاق و چوبند مؤدب اور پابند ہوتا ہے بلکہ کام کرنے کا اس کا انداز بھی پوری طرح والہانہ اور مخلصانہ ہوتا ہے اس کے برخلاف اگر آقا نظر کے سامنے نہ ہو تو غلام اگرچہ موفوضہ خدمت انجام ضرور دیتا ہے مگر اس صورت میں نہ تو وہ اتنا چاق وچوبند، مؤدب اور پابند ہوتا ہے اور نہ اس کے کام کرنے کے انداز میں اس قدر والہانہ اور مخلصانہ کیفیت موجود ہوتی ہے۔ پس اسی نکتہ کے پیش نظر اگر بندہ عبادت کے وقت ایسی کیفیت و حالات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو خشوع و خضوع اور تضرع کی تمام تر کیفیات خودبخود اس کی عبادت میں پیدا ہوجائیں گی اور اس طرح اس کی عبادت حقیقی عبادت کا درجہ پائے گی اور اس عبادت کا بنیادی مقصد بھی حاصل ہوگا۔ عبادت کے اس مرتبہ کو  حقیقی احسان  کہا گیا ہے جس کو ارباب تصوف  مشاہدہ اور استغراق  سے تعبیر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عبادت کا یہ سب سے اونچا مرتبہ و مقام ہے جہاں تک رسائی اتنی آسان نہیں ہے اس لئے نسبتاً آسان طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم عبادت کرو تو یہ دھیان میں رکھو کہ جس ذات کی عبادت تم کر رہے ہو اس کے سامنے تم کھڑے ہو اور اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ تمہاری ایک ایک بات پر اس کی نظر ہے اور تمہاری حرکات و سکنات میں سے کچھ بھی اس سے پوشیدہ نہیں، اس یقین و اعتقاد سے بھی تمہاری عبادت میں خشوع و خضوع اور تضرع بڑی حد تک پیدا ہوجائے گا اور عبادت کا حق ادا ہوگا۔ حدیث میں عبادت کی اسی کیفیت کو  احسان  سے تعبیر کیا گیا ہے جو حقیقی احسان یعنی مشاہدہ و استغراق کا ثانوی درجہ ہے۔ 

  8. حدیث میں ان چاروں فرائض کا بھی ذکر ہے جو ہر مسلمان و مومن پر اس تفصیل کے ساتھ عائد ہوتے ہیں کہ

 نماز اور روزہ:  تو وہ دو بدنی فرض عبادتیں ہیں جن کا تعلق ہر عاقل و بالغ مسلمان سے ہے جو بھی آدمی ایمان اور اسلام سے متصف ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس پر فرض ہے کہ وہ پانچوں وقت کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرے اور

رمضان:  جب رمضان آئے تو اس مہینے کے پورے روزے رکھے۔ 

 زکوٰۃ اور حج : باقی دو فرض عبادتیں یعنی زکوٰۃ اور حج وہ مالی عبادتیں ہیں جن کا تعلق صرف اس مومن و مسلمان سے ہے جو ان کے بقدر مالی استطاعت و حیثیت رکھتا ہو۔ 

مثلاً زکوٰۃ اس مسلمان پر فرض ہوگی جو صاحب نصاب ہو۔ 

اور حج اس مسلمان پر فرض ہوگا جو صاحب نصاب ہی نہیں بلکہ اپنی تمام ضروریات زندگی سے فراغت کے بعد اتنا سرمایہ رکھتا ہو کہ وہ بغیر کسی تنگی و پریشانی کے آمدورفت اور سفر کے دوسرے تمام اخراجات برداشت کرسکتا ہو۔ علاوہ ازیں سفر حج کی پوری مدت کے لئے اہل و عیال اور لواحقین کے تمام ضروری اخراجات کے بقدر رقم یا سامان و اسباب ان کو دے کر جاسکتا ہو۔ زادراہ اور فرضیت حج کی اس طرح کی دوسری شرائط پوری ہوجائیں تو باقی دشواریاں جیسے سفر کا طویل اور پر صعوبت ہونا، درمیان میں سمندر یا دریا کا حائل ہونا وغیرہ، حج کی فرضیت کو ساقط نہیں کرسکتیں۔ 


قیامت کی کچھ اہم نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ جب یہ آثار ظاہر ہونے لگیں اور یہ علامتیں دیکھ لی جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس عالم کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ دنیا اپنے وجود کے آخری دور سے گزر رہی ہے۔ 

پہلی علامت یا نشانی تو یہ بتائی گئی ہے کہ  لونڈی اپنے آقا یا مالک کو جنے گی  اس کا ایک مطلب تو غلامی کے زمانہ اور رواج کے سیاق میں لیا جاسکتا ہے کہ لوگ کثرت سے باندیاں رکھیں گے اور ان باندیوں سے اولاد بھی بہت جنوائیں گے، پھر انہی اولاد میں سے جو لوگ بڑے ہو کر مال و جائیداد اور حکومت و طاقت کے مالک بنیں گے وہ لا علمی میں اپنی انہی ماؤں کو جنہوں نے ان کو جنم دیا ہوگا، باندیوں کے طور پر خریدیں گے۔ اور اپنی خدمت میں رکھیں گے۔ 

اس جملے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب معاشرے میں جنسی بےراہ روی عام ہوجائے، مرد و زن تمام اخلاقی اور انسانی پابندیوں کو توڑ کر بےمحابہ ناجائز تعلقات پیدا کریں اور اس کے نتیجہ میں ایسے ناجائز بچے کثرت سے پیدا ہونے لگیں جن کو نہ اپنے باپ کی خبر ہو اور نہ اپنی ماں کو جانتے ہوں اور پھر وہی بچے بڑے ہو کر لا علمی میں اپنی ماؤں کو ملازمہ اور نو کر انی بنائیں جنہوں نے ان کو جنا تھا تو سمجھو کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ 

دوسری علامت  برہنہ پا، برہنہ جسم، مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کا ایوان حکومت اور عالیشان مکانات و محلات کا مالک ہونا  بتایا گیا ہے۔ 

اس کے مطلب یہ ہے کہ جب تم دیکھو کہ شریف النسل، عالی خاندان اور مہذب و معزز لوگ انقلاب عالم کا شکار ہو کر غربت و افلاس اور بےروز گاری و پریشانی حالی کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، اپنی حیثیت و وقعت کھو چکے ہیں اور معاشرتی و سماجی سطح پر کسی اثر و رسوخ کے حامل نہیں رہ گئے ہیں اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ کہ جو کل تک حسب و نسب، شرافت و نجابت، نسل و خاندان اور تہذیب و شائستگی کے اعتبار سے نہایت بےحیثیت و بےوقعت تھے، تعلیمی و اخلاقی طور پر کم تر و پسماندہ سمجھے جاتے تھے۔ غیر منصفانہ سیاست و انقلاب کی بدولت حکومت و اقتدار کے مالک بن بیٹھیں۔ دغا و فریب کے ذریعہ مال و دولت اور بڑی بڑی جائیدادوں پر قابض اور عالی شان مکانات و محلات کے مکین ہوگئے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ طاقت و حکومت، مال و دولت اور پر عیش زندگی نے ان کو گھمنڈی شیخی خور بنادیا ہے، حقیقی شرافت و نجابت رکھنے والے غریب و مفلس لوگوں کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کی تباہی و رسوائی کے بد سے بدتر حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو سمجھنا کہ اب اس دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے۔ 

اسی تفصیل کو علامہ طیبی نے چند جملوں میں اس طرح بیان کیا ہے کہ:

 قیامت کی علامتیں بتانے والے حدیث کے یہ دونوں جملے دراصل انقلاب حالات سے کنایہ ہیں یعنی جب اتنا انقلاب رونما ہوجائے کہ اپنی اولاد اپنا آقا اور حاکم بن جائے۔ اور شرفاء کی جگہ کمتر و ذلیل لے لیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب تمام عالم پر ایک عظیم انقلاب کا وقت قریب آگیا ہے جسے قیامت کہا جاتا ہے۔ 

خلاصہ کلام :

یہ کہ  اس حدیث میں شریعت محمدی ﷺ کی اساس اور دین کی بنیادی باتوں کو بتایا گیا ہے یعنی  ایمان  کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ ان عقائد و نظریات سے تعبیر ہے جن کو جاننے اور ماننے کے بعد کوئی آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور مومن بنتا ہے-

اسلام  کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس سے وہ عملی ذمہ داریاں (فرائض) مراد ہیں جو مومن پر عائد ہوتی ہیں اور ان عملی ذمہ داریوں یعنی فرائض کی انجام دہی ہی پیرو اسلام یعنی مسلمان بناتی ہے-

اس کے بعد احسان کی وضاحت کی گئی جس کو اخلاص سے (یا تصوف سے بھی) تعبیر کیا جاسکتا ہے یہ اس کیفیت کا نام ہے۔ جو صحیح عقائد و نظریات سے وابستگی اور شریعت کی اتباع و فرمانبرداری کے بعد توجہ الی اللہ کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے۔ اور بندے کو اپنے معبود کا تقرب عطا کرتی ہے۔ 

درحقیقت یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک اللہ اور اللہ کے رسول کے جاری و نافذ کئے ہوئے احکام و ہدایات پر پوری طرح عمل نہ کیا جائے اور  عمل  اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اس وقت تک  حسن قبول  کا درجہ نہیں پاسکتے جب تک اللہ کی طرف کامل توجہ نہ ہو اور پورے داخلی و خارجی وجود پر خوف و خشیت الہٰی اور حضور قلب کی کیفیت طاری نہ ہو-

 فکر و عقیدہ
ان دونوں کا اس وقت تک کوئی اعتبار نہیں ہوگا جب تک فکر و عقیدہ صحیح نہ ہو۔ اور دل و دماغ ایمان و یقین سے روشن نہ ہوں۔ پس کامل مومن یا کامل مسلمان وہی آدمی مانا جائے گا جس کا دل و دماغ میں ایمان یعنی صحیح اسلامی عقائد و نظریات کا نور موجود ہو، پھر وہ ان فرائض کو پوری طرح ادا کرے اور ان احکام و ہدایات کی کامل اطاعت کرے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ جاری و نافذ کئے اور پھر ریاضیت و مجاہد یعنی ذکر و شغل اور اوراد وظائف کے ذریعہ اخلاص، توجہ الی اللہ اور رضاء مولیٰ کے حصول کی جدوجہد کرے جس سے ایمان و اسلام میں حسن و کمال اور بلند قدری ملتی ہے۔

 تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)


[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور کتاب حدیث پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ )( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [[رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ ، رسول اور جبرایل کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے کو کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے-

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]


پوسٹ لسٹ