رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

لاالہ الا اللہ پر جنت؟ بخشش ، مغالطے

"اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم اپنے ایمان کی تجدید کیسے کرسکتے ہیں؟  'لا الہ الا اللہ '  کی کثرت کیا کرو" 

لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ

"لاالہ الا اللہ" ، .اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا،  ایمان کی بنیادی، پہلی سیڑھی ہے- دل سے یقین، زبان سے اظہار، جسمانی طور پر عمل کا نام ایمان ہے جبکہ اطاعت اللہ و رسولﷺ سے ایمان میں اضافہ اور نافرفانی سے کمی واقع ہوتی ہے  لیکن اگر ایمان کے اجزا میں قولی، فعلی طور پر تبدلی کریں تو ایمان کی اصل ، نوعیت ہی تبدیل جاتی ہے، ایمان کا الٹ کفر ہے۔ [اسلام میں  ایمان کے چھ ارکان ہیں: 1).اللہ تعالیٰ پر ایمان 2) فرشتوں پر ایمان 3) رسولوں پر ایمان 4) الله کی  نازل کردہ کتب پر ایمان 5).یوم آخرت پر ایمان 6) تقدیر پر ایمان]

"لاالہ الا اللہ" کہنے کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے معنیٰ کو جانیں اور اس کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کریں، لیکن چونکہ کچھ ایسے نصوص ہیں جن سے یہ وہم واشکال پیدا ہوتا ہے کہ صرف اس کلمہ کا زبان سے کہہ دینا ہی جنت جانے کے لیے کافی ہے، اور بعض لوگ اس وہم کا شکار بھی ہیں، لہذا اس کے وضاحت کرنا ضروری  ہے تاکہ متلاشیانِ حق کے لئے اس وہم کا ازالہ کیا جاسکے اور وہ لوگ جو لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ایسی احادیث کو بلا تحقیق و تشریح  شئیر کرتے ہیں خاص طور پر سوشل میڈیا پر تو لوگ دھوکہ کھاتے ہیں اور گناہ کرتے رہتے ہیں کہ اب ہم ںے کلمہ پڑھ لیا دل سے اور ہمارے پیارے  رسول اللہ ﷺ  ںے گارنٹی دی جنت کی اور دوزخ حرام کی تو کسی کی کیا پرواہ؟  ان کے  گناہوں میں میں متنازعہ احادیث کو بلا تحقیق و تشریح  شئیر کرنے والے حصہ دار بن جاتے ہیں، الله تعالی کا فرمان ہے:

 مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ‎﴿٨٥﴾‏ 

جو شخص کوئی نیک سفارش کرے تو اس کے لئے اس (کے ثواب) سے حصہ (مقرر) ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرے تو اس کے لئے اس (کے گناہ) سے حصہ (مقرر) ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے، (4:85)

دعوة دین کامل  https://bit.ly/DeenKamil 


 لاالہ الا اللہ کی شرائط

لاالہ الا اللہ کی سات شرطیں ہیں جن کو پورا کئے بغیریہ کلمہ اس کے کہنے والے کونفع نہیں دے گا :

1. نفی واثبات کے اعتبار سے لاالہ الا اللہ کے معنیٰ کاعلم رکھنا:(یعنی تمام معبودان باطلہ کی نفی کرکے عبادت کو صرف اللہ کے لئے ثابت کرنا یہی نفی واثبات ہے)،پس جوشخص اس کا اقرار کرتا ہے اور اس کے معنیٰ ومقتضیٰ کو نہیں جانتا ہے تو یہ اسے نفع نہیں دے گا،کیونکہ اس نے اس کے مدلولات پر اعتقاد نہیں رکھا، جیسے وہ شخص جوایسی زبان میں بات کرےجسے وہ سمجھتا نہیں ۔

2.۔یقین: یعنی کلمہ کے بارے میں ایسا کمالِ علم پایا جائے جو شک وریب کے منافی ہو۔

3.۔ایسااخلاص: جو شرک کے منافی ہو،اوراسی پر لاالہ الا اللہ دلالت کرتا ہے۔

4۔ایساصدق: جو نفاق سے مانع ہو، کیونکہ وہ لوگ اس کلمہ کو اپنی زبانوں سے توکہتے ہیں لیکن اس کے مدلول پر اعتقاد نہیں رکھتے۔

5. ۔محبت:اس کلمہ اور اس کے مدلولات سے محبت کی جائے اور اس پر خوشی ومسرت محسوس کی جائے بخلاف منافقین کی۔

6.انقیادوتابعداری:اس کلمہ کے حقوق اداکرنے میں انقیاد وتابعداری کا پایا جانا،اوریہ واجب کردہ اعمال کو خالص اللہ کے لئے اس کی رضا وخوشنودی چاہتے ہوئے بجالانا ہے،اور یہی اس کلمہ کا تقاضا ہے۔

7.۔ایسی قبولیت: کا پایاجانا جو رد وانکار کے منافی ہو اوریہ اوامرالہی کی بجاآوری اوراس کے نواہی سے اجتناب کرکےہوگا۔

 اور ان شرطوں کو علمائے کرام نے کتاب وسنت کی ان نصوص سے استنباط کیا ہے جو اس عظیم کلمہ کی خصوصیت اور اس کے حقوق وقیود کے بیان میں وراد ہوئی ہیں،اور یہ محض زبان سے کہاجانے والا لفظ نہیں ہے۔

گمراہی سے بچاوو

قرآن کو نظر انداز کر کہ صرف متنازعہ احادیث جو کہ قرآن کی تعلیمات، سنت رسول اللہ ﷺ  اور دوسری احادیث سے متصادم ہیں، رسول اللہ ﷺ کے میعار حدیث پربھی پوری نہیں اترتیں اور لوگوں میں گمراہ کن عقائد کے پھیلانے، شریعت کی منسوخی اور بے عملی پھیلانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں ان (ضعیف) احادیث کو منسوخ ہونا چاہیے-

 بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامرو نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہوگئی ہیں، اور واجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی)

 تاویلات کے زور پران کو شریعت کے مطابق درست ثابت کرنے کی (تطبیق)  کوشش کی جاتی ہے مگر ایسی تشریحات و تاویلات کتابوں تک محدود رہتی ہے- لاعلم اکثریت قبول نہیں کرتی اپنی گمراہی، گناہوں اور بداعمالیوں کے باوجود شارٹ کت، فائدہ اور آسانی سے جنت کے حصول کے لیے- 

"اور جو لوگ جو خوف رکھتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر کئے جائیں گے (اور جانتے ہیں کہ) اس کے سوا نہ تو ان کا کوئی دوست ہوگا اور نہ شفاعت  کرنے والا، ان کو اس (قرآن) کے ذریعے سے نصیحت کر دو تاکہ پرہیزگار بنیں " (قرآن 6:51)

جس  ۓ " لاالہ الا اللہ " دل سے کہہ دیا تو مسلمان ضرور بلآخر جنت میں جائے گا مگر حساب کتاب اور سزا جزا کے فیصلہ پر یا سزا کاٹ کر یا الله تعالی کی رحمت اور جب اذن اللہ سے رسول اللہ ﷺ کو شفاعت کی اجازت ملے،  تو  دوزخ سے نکالا جا ۓ گا، یہ ہے اس موضوع پر دوسری احادیث کا خلاصہ:

لیکن کچھ لوگ جو اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے آگ انہیں جلا کر کوئلہ بنادے گی اس کے بعد شفاعت کی اجازت دی جائے گی ( مسلم حدیث: 459)


ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ںےفرمایا کہ: میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ 

لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں تو (اللہ کا پیغام) تم تک پہنچا چکا تھا۔ 

اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ :

میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا

 یا (وہ اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ:

میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا۔ 

یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہوں جو اسے حرکت دے رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ 

میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں تو (اللہ کا پیغام) پہلے ہی پہنچا چکا تھا۔

 اور ایوب سختیانی نے بھی ابوحیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو۔  (بخاری، 3073)




شفاعت یا شریعت .... 

کچھ احادیث سے یہ بھی  تاثر ملتا ہے کہ جس نے "  لاالہ الا اللہ " دل سے کہہ دیا تواس پر دوزخ حرام ہے- اگر وہ  "  لاالہ الا اللہ "  کے تقاضے پورے کرتا ہے تو اللہ اس کو کیوں دوزخ میں ڈالے گا- یہ حرمت شرائط و قیود کے ساتھ ہے صرف زبانی اقرار کافی نہیں-

"لاالہ الا اللہ"  جنت کی کنجی (چابی) ہے-  ’’جس نے لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوگیا‘‘. 

حسن بصریؒ نے فرمایا: ’’جس نے لاالہ الا اللہ کا اقرارکیا اور اس کا حق وفریضہ ادا کیا تو جنت میں داخل ہوگا‘‘۔

اور وہب بن منبّہؒ سے کسی نے پوچھا کہ :’’کیا لاالہ الا اللہ جنت کی کنجی نہیں ہے؟‘  تو فرمایا:  ’’کیوں نہیں، لیکن کوئی چابی دندانے کے بغیر نہیں ہوتی،پس اگرتم ایسی چابی لاؤ جس کےدندانے ہوں تو یہ دروازہ کھلے گا ورنہ نہیں"- عمل صالح اس چابی کے دندانے ہیں جو کہ شریعت پر مکمل عمل ہے- تمام عبادات . فرائض ، امر معروف پر عمل  اور منکر سے پرہیز-

’اس کے معنیٰ کے سلسلے میں سب سے بہتروہ بات ہے جس کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہ نے کہا ہے کہ: ’’یہ سب احادیث ان لوگوں کے بارے میں ہیں جنہوں نے لاالہ الااللہ کہا اور اسی پران کا انتقال ہوگیا-  اخلاص نام ہے اللہ تعالیٰ کی طرف دل کے کھنچنے کا ،اس طورپر کہ بندہ اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے،اوراگراسی حالت پرمرجائے تو وہ اس (جنت) کو حاصل کرسکےگا، احادیث میں اس بات کا ذکرہے کہ جہنم سے ہراس شخص کو (آخر کار) نکال باہرکیا جائے گا جس نے لاالہ الا اللہ کہا اور اس کے دل میں جَو،رائی اور ذرہ برابر بھلائی ہوگی۔

اوریہ بھی منقول ہے کہ:’’ آگ پروہ شخص حرام ہے جس نے لاالہ الا اللہ کہا‘‘، اور’’جس نے لاالہ الا اللہ اورمحمد رسول کی گواہی دی‘‘،لیکن یہ بہت بھاری قیود سے مقیّد وارد ہوئی ہیں،اوراکثراس کلمہ کے کہنے والے اخلاص ویقین کے معنیٰ کو جانتے ہی نہیں، اورجو اس کو نہیں جانتا تو اندیشہ ہے کہ وہ اس کے بارے میں موت کے وقت آزمائش میں پڑجائےاوراس شخص کے اور کلمہ کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے، اور بہت سارے لوگ اس کلمہ کو بطوررسم وعادت کہتے ہیں،اور عموماً ان کے دل کی گہرائی میں یہ کلمہ جاں گزیں نہیں ہوتا، اورغالبا موت کے وقت اور قبروں میں ایسے لوگ ہی آزمائے جاتے ہیں جیساکہ حدیث میں ہے:(سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ)۔ ترجمہ : ’’میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا تو میں نے بھی اسے کہدیا ‘‘۔

اس کلمہ سے اس کا خون ومال اور آبرو محفوظ ہوتا ہے نبیﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے : ’’مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں،پس جب وہ اسے کہہ لیں تو مجھ سے ان کے خون اور مال محفوظ ہوجائیں گے مگراس کے حق کے ساتھ ‘‘ 

آپ ﷺ کا فرمان(بحقّھا)’’اس کے حق کے ساتھ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ :جب وہ لوگ اس کلمہ کو کہیں اور اس کے حق کی ادائیگی نہ کریں۔ یعنی جوان سے توحید قائم کرنے،شرک سے بچنے اور اسلام کے ارکا ن بجالانے کا مطالبہ ہے اسے پورا نہ کرسکیں۔تو ایسی صورت میں ان کی جان ومال محفوظ نہیں رہیں گی-

ایسی صورت میں احادیث کے درمیان کوئی اختلاف وتعارض نہیں رہ جاتا، کیونکہ جب اس(کلمہ) کو اخلاص ویقین تام کے ساتھ کہے گا توایسی صورت میں وہ گناہ پر قائم نہیں رہے گا، اس لئے کہ اس کا مکمل اخلاص ویقین اس بات کو واجب کرتا ہے کہ اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہو،تواس وقت اس کے دل میں اللہ کی حرام کردہ اور اس کی ناپسندیدہ ومکروہ چیزوں کے بارے میں کوئی ارادہ باقی نہیں رہے گا،اوریہی وہ ہے جس پر آگ حرام ہوگی۔ اوراگراس سے پہلے اس کے کوئی گناہ ہوئے ہوں گے تو یہ ایمان، توبہ، اخلاص،محبت اور یقین اس کے گناہ کو ویسے ہی مٹادیں گے جیسے دن کے آنے سے رات کی تاریکی مٹ جاتی ہے ‘‘

مزید تفصیل کے لینے: ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے رہن ہے (كُلُّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِینَةٌ) / : https://bit.ly/Haqoq-ul-Ibaad

Every soul is held in pledge for its deeds شفاعت اور شریعت: https://bit.ly/Shfaat زوال پذیرمعاشرہ میں ہمارا کردار: https://bit.ly/Zowal لاالہ الا اللہ پر جنت؟ بخشش ، مغالطے: https://bit.ly/KalmahPerJannat

~~~~~~~~~~~~~

لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ

ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم

مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ ، کلمہ کا دوسرا حصہ ہے

بالکل اسی طریقے سے سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر ایمان ہے۔ امام الانبیا محمد بن عبد اللہ بھی ہیں، نبی اللہ بھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور ہم  نے امام الانبیا کے کئی اور نام بھی پڑھے اور سنے ہوئے ہیں۔ امام الانبیا کا ہر نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حیثیت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جس طرح اللہ ربّ العزت کی ذات پر ایمان کی تکمیل تمام اسماء وصفات پر ایمان لائے بغیر نہیں ہوسکتی اور اللہ کے ساتھ بندے کے تعلقات وسیع الجہت ہیں، اللہ ربّ العزت کی اُلوہیت اور وحدانیت پر ایمان کے ساتھ اس کا ہر اسم اور صفت ایک تعلق کی نشاندہی کرتاہے، ان تمام تعلقات کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی، ویسے ہی امام الانبیا پر ایمان ہے۔ ہمارا تعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی وسیع الاطراف ہے، ہر زاویے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کریں گے تب ہی امام الانبیا پر ایمان کی تکمیل ہوگی۔ ورنہ محمد بن عبد اللہ کو تو ابوجہل، عتبہ اور شیبہ سب ہی مانتے تھے بلکہ الصادق الأمین بھی مانتے تھے، لیکن ان کی بات نہیں چل سکی، جب تک محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی حیثیتیں، جتنے مقامات ومراتب کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کئے گئے ہیں، اللہ ربّ العزت نے جس اعتبار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کروایا ہے، ایک ایک بات پر یقین نہ کیا جائے تب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی، ورنہ جزوی ایمان ہوگا، کلی نہیں!

 

ہم  کو معلوم ہے کہ اللہ ربّ العزت کے ہاں ناقص ایمان قبول نہیں ہوتا، صرف کامل ایمان قبول ہوتاہے۔ اور ایمان وہ مرکب ہے جس کے اجزاے ترکیبی اس کی حقیقت کا جزوِ لاینفک ہیں اور مسمیٰ الإیمان میں داخل ہیں، لہٰذا جیسے اللہ ربّ العزت پر ایمانِ کامل ہوگا تو قبول ہوگا، رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان کامل ہوگا تو قبول ہوگا یعنی اللہ پر ایمان کی طرح جملہ اُصولِ ایمان کا یہی حکم ہے۔

 

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کی طرف اس لئے کہ آپ کا مقام ومرتبہ ہی سنت  رسول اللہ ﷺ  کا مقام و مرتبہ ہے۔ جس طرح امام الانبیا کی حیثیت مسلم ہے، بعینہٖ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال، حرکات وسکنات اور اَحکام کی بھی حیثیت مسلم ہے(_لیکن تحقیق ضروری کہ کوئی دھوکہ باز آپ کے نام پر جھوٹ نہ پھیلا نے)۔ اللہ ربّ العزت نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم میں بڑا ہی واضح تعارف کرایاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی حیثیتیں بیان کی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے۔ ایک ایک بات پر دل ودماغ سے یقین ہو، زبان سے اعتراف ہو، پھر اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ نبوت ورسالت پر ایمان ہے، اس کے بغیر نبوت ورسالت پر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔

 

مقامِ نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَ‌سُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا...﴿١٥٨﴾...سورۃ الاعراف

''فرما دیجئے! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ ''

قرآن کریم کی شرح وتفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضِ منصبی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ ربّ العزت نے قرآن کریم نازل کیا اور یہ اللہ ربّ العزت کا کلام اور اس کی وحی ہے۔ اللہ کا اپنے بندوں کے نام پیغام ہے اور امام الانبیا کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا :

كِتَـٰبٌ أَنزَلْنَـٰهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِ‌جَ ٱلنَّاسَ مِنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ‌...﴿١﴾...سورۃ ابراھیم

''یہ کتاب ہم نے تیری طرف بھیجی ہے تاکہ تو لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے۔ ''

 

لوگوں کو قرآنِ مجید پڑھانا، سنانا، سمجھانا، اور اس کی شرح اور وضاحت کرنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور رسول منصبی فرض ہے۔امام الانبیا معلم کائنات ہیں اور قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا یوں مذکور ہے:

رَ‌بَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴿١٢٩﴾...سورۃ البقرۃ

'' اے ہمارے ربّ! ان لوگوں میں اِنہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت کرے اور اُنہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کی صفائی کرے۔ بے شک تو غالب وداناہے۔ ''

 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ معلم ِکتاب وحکمت اور تزکیہ کرنے والے مربی کی حیثیت سے متعارف کرایاہے۔

 

اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کو قرآنِ کریم میں چار مقامات پر ذکر کیا ہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ امام الانبیا کی یہ حیثیت واضح ہے- قرآن کریم سے جو حکمت ودانائی کے عملی پہلولئے جا سکتے ہیں، امام الانبیا کی تعلیم کے بغیر وہ بھی حاصل نہیں کئے جاسکتے، اور دل ودماغ کی طہارت بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کو چھوڑ کر نہیں کی جاسکتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں اللہ کے نبی ہیں، وہیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت ودانائی (جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ) کے معلم اور دل کی صفائی کرنے والے بھی ہیں اور یہ صرف امام الانبیا کی ایک حیثیت ہے جس کے چار پہلوہیں، اور ان کو چار دفعہ قرآنِ کریم میں بیان کیا گیاہے۔ ملاحظہ ہو : (1) سورة البقرة :129 (2) البقرة :151(3) آل عمرانُ :164 (4) الجمعہ :2

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بطورِ معلم کیا مقام ومرتبہ ہے۔ 

قرآن پاک کے بیان کی چار پانچ صورتیں ہوتی ہیں۔ ان کی تکمیل کے لئے درمیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال کر بیان کا کوئی اِمکان ہی باقی نہیں رہتا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا :

لَا تُحَرِّ‌كْ بِهِۦ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِۦٓ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُۥ وَقُرْ‌ءَانَهُۥ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَ‌أْنَـٰهُ فَٱتَّبِعْ قُرْ‌ءَانَهُۥ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُۥ ﴿١٩﴾...سورۃ القیامة

'' اے محمد! وحی کو پڑھنے کے لئے اپنی زبان کو زیادہ حرکت مت دیں تاکہ اس کو جلد یاد کرلیں، اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔ جب ہم وحی پڑھا کریں تو آپ اس کو سنا کریں اور پھر اسی طرح پڑھا کریں۔ پھر اس کے معانی کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔ ''

اللہ تعالیٰ نے بیان و وضاحت کی یہ ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی  ذات میں مکمل کردی ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت

قرآنِ کریم کی نصوص کے مطابق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور مقام ومرتبہ اور حیثیت ثابت ہوتی ہے۔ تشریع کا حق اللہ تعالیٰ کا حق ہے، قانون بنانا شریعت بنانا اللہ تعالیٰ کا حق ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شارع ہونے میں لوگ افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شارع حقیقی سمجھتے ہیں، یہ بھی حد سے تجاوز ہے اور کچھ لوگ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریع کا ذرا بھی حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 

تشریع کا حق اللہ کے پاس ہے لیکن اللہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ بیان کرنے کے لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اُمت پر واضح کرنے کے لئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اجاگر کرنے کے لئے تشریع کے بعض حصے امام الانبیا کی طرف منسوب کئے ہیں اور کئی جگہ تحلیل وتحریم کی نسبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی کی ہے، تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ یہ صرف چٹھی رساں نہیں ہیں بلکہ اس کے آگے بھی بہت کچھ ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قَـٰتِلُوا ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ وَلَا يُحَرِّ‌مُونَ مَا حَرَّ‌مَ ٱللَّهُ وَرَ‌سُولُهُ...﴿٢٩﴾...سورۃ التوبہ

''ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں۔''

ٱلَّذِينَ يَتَّبِعُونَ ٱلرَّ‌سُولَ ٱلنَّبِىَّ ٱلْأُمِّىَّ ٱلَّذِى يَجِدُونَهُۥ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى ٱلتَّوْرَ‌ىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ يَأْمُرُ‌هُم بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَىٰهُمْ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ ٱلْخَبَـٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَ‌هُمْ وَٱلْأَغْلَـٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُوابِهِۦ وَعَزَّرُ‌وهُ وَنَصَرُ‌وهُ وَاتَّبَعُوا ٱلنُّورَ‌ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ مَعَهُۥٓ ۙ أُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ﴿١٥٧﴾...سورۃ الاعراف

''وہ لوگ جو محمد رسول اللہ کی... جو نبی اُمی ہیں...پیروی کرتے ہیں، جن (کے اوصاف ) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ اُنہیں نیک کا م کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر اور گردنوں ) پر تھے اُتارتے ہیں، تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت اختیار کی اور اُنہیں مدددی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کی پیروی کی، تو وہی مراد پانے والے ہیں۔''

 تحلیل وتحریم کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ اور حیثیت بتانے کے لیے {وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ ٱلْخَبَـٰٓئِثَ} میں تحلیل وتحریم نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی کی گئی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ِمطاع

قرآنِ پاک میں متعدد مقامات میں واردہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اسی طرح سے فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے۔ فرمایا :

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا ٱتَّقُوا ٱللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَـٰلَكُمْ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَ‌سُولَهُۥ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿٧١﴾...سورۃ الاحزاب

''مؤمنو! اللہ سے ڈرو اور بات سیدھی کہا کرو؛ وہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بے شک بڑی مراد پائے گا۔''

 

اور فرمایا : {وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّ‌سُولَ فَأُولَـٰٓئِكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ وَٱلصِّدِّيقِينَ وَٱلشُّهَدَآءِ وَٱلصَّـٰلِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰٓئِكَ رَ‌فِيقًا ﴿٦٩﴾...سورۃ النساءٰ}

''اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں و ہ( قیامت کے روز ) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے بڑا فضل کیا، یعنی انبیا اور صدیق، شہید اور نیک لوگوں کے ساتھ۔ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔''

 

مزید فرمایا: {يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُوا ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا ٱلرَّ‌سُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ ۚ ذَ‌ٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾...سورۃ النساء}

''مؤمنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں صاحب ِ حکومت ہیں، ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہوتو اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو اس میں اللہ اور اس کے رسول ( کے حکم ) کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھاہے۔''

 

مزید فرمایا: {مَّن يُطِعِ ٱلرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ...﴿٨٠﴾...سورۃ النساء}

''جو شخص رسول کی فرمانبرداری کرے گا توبے شک اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی ۔''

 

کتنے ہی مقامات ہیں جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کواللہ نے اپنی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم میں 40 مقامات پراللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اگر اب بھی کسی کوسمجھ نہ آئے کہ مقامِ رسالتؐ کیا ہے تو سمجھ لیجئے کہ دماغ میں خلل ہے۔

 

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ اور آپ کی حیثیت مبہم نہیں۔اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں نبی اور رسول ہیں، شارح اور شارع ہیں؛ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطاع بھی ہیں جیسے اللہ کی اطاعت فرض ہے ویسے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فرض ہے۔

رسول اللہ بحیثیت حَکم اور قاضی

اس کے علاوہ آپ قاضی بھی ہیں بلکہ اس کائنات کے قاضی القضاة ہیںیعنی قاضی بھی ایسے کہ اس سے بڑھ کر کوئی قاضی نہیںاوراس کے فیصلے کوچیلنج نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جہاں چیلنج کرناہے، اسی نے تو انہیں قاضی بنایاہے۔ اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم حَکمبھی ہیں جب تک امام الانبیاء کوحَکم اور فیصل نہیں مانا جائے گا،اس وقت تک امام الانبیا پر ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوافِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾...سورۃ النساء

''تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مؤمن نہیں ہوں گے۔''

 

مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بارے میں دل کے اندر ملال کی بھی اجازت نہیں بلکہ دل کے اندر کسی قسم کی تنگی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر آپ حَکم اور فیصل بھی ایسے ہیں کہ ان کے فیصلہ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی بولنے کی اجازت نہیں ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَىِ ٱللَّهِ وَرَ‌سُولِهِ...﴿١﴾...سورۃ الحجرات

''مؤمنو! کسی بات کے جواب میں اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اُٹھا کرو۔''

 

یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جوآپ کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتا، اس کواللہ تعالیٰ نے منافق کہاہے اور مؤمن وہی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کومن وعن مانتاہے:

وَإِذَا دُعُوٓاإِلَى ٱللَّهِ وَرَ‌سُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِ‌يقٌ مِّنْهُم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٤٨﴾ وَإِن يَكُن لَّهُمُ ٱلْحَقُّ يَأْتُوٓا۟ إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ ﴿٤٩﴾ أَفِى قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ أَمِ ٱرْ‌تَابُوٓاأَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَ‌سُولُهُۥ ۚ بَلْ أُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ﴿٥٠﴾ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوٓا إِلَى ٱللَّهِ وَرَ‌سُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ﴿٥١﴾...سورۃ النور

''اور جب ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتاہے تاکہ ( رسول اللہ ) ان کا قضیہ چکادیں تو ان میں سے ایک فرقہ منہ پھیر لیتاہے اور اگر( ان کا) حق نکلتا ہو تو ان کی طرف مطیع ہوکر چلے آتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا ( یہ ) شک میں ہیں یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے حق میں ظلم کریں گے؟ (نہیں) بلکہ یہ خود ظالم ہیں، مؤمنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے ( حکم ) سن لیا اور مان لیا یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔''

 

یہاں ایمان اور نفاق کے درمیان حد ِ فاصل بیان ہوئی ہے، یعنی امام الانبیا کے فیصلوں کے بارے میں بحث کرنا نفاق کی علامت ہے، جب کہ امام الانبیا کے فیصلوں کوسو فیصد تسلیم کرلینا ایمان کی علامت ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فیصل اور قاضی بھی ہیں، حَکم اور حاکم بھی۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکومت بھی ملی ہے اور دین بھی، اور حکومت بھی ایسی محبت و احترام سے کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔

دعوة دین کامل  https://bit.ly/DeenKamil 

رسول اللہ ﷺ کی الوداعی وصیت، حکم (ابی داوود 4607, ترمزی 266) کا انکار 

ترجمہ : 4607 اَلتِّرْمِذِيُّ 2676 سنن ابی داود

---- عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا :

ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے ، پھر ایک شخص نے عرض کیا :

اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے [ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)]

تجزیہ 

" کتاب حدیث کی ممانعت" ہے ، حدیث لکھنے کو نجی نوٹس کی حیثیت سے ممنوع قرار نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو کنزور حافظہ کی وجہ سے انفرادی طور پر لکھنے کی  اجازت دی۔ تاہم یہ اجازت اس مخصوص شخص کے لیے ہی مخصوص تھی عام اجازت نہیں تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ابوہریرہ ، عبد اللہ بن مسعود ، عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن عمر، ابی سعد خدری اور بہت سارے دوسرے صحابہ کو اجازت نہیں دی۔ ان متقی صحابہ نے کبھی بھی  رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی یہاں تک کہ ان کی موت تک ، انہوں نے حدیث نہیں لکھی بلکہ حفظ کرنے کے بعد ہزاروں احادیث کو زبانی بیان کیا۔ اگر بعد میں لکھنے کی عام اجازت ہوتی تو یہ متقی صحابہ اس تبدیل شدہ پالیسی سے واقف ہوتے اور ہزاروں احادیث کو حفظ کرنے کے تردد اور تکلیف نہ اٹھاتے۔

1. رسول اللہ ﷺ  کے بعد ، ان کے خلفاء کے تسلسل میں اگلے چارخلفاء راشدین ہیں۔  رسول اللہ ﷺ  نے قرآن کو دو کوروں (جلد) کے درمیان جکڑی ہوئی کتاب کے طور پر نہیں چھوڑا۔

2.یہ خلفاء راشدین کی سنت ہے کہ قرآن کی کتابٹ کا احتمام کیا اگرچہ ابتدا میں خلیفہ اول کہتے کہ جو کام  رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا، ایک نئی چیز ہونے کی وجہ سے قرآن کو جمع کرنے سے بھی گریزاں تھنے ۔

3.کسی خلیفه راشد نے حدیث کی کتابیں لکھنے کا انتظام نہ کیا ، حتی کہ تیسرے خلیفہ کے ذریعہ قرآن مجید کی تدوین کے بعد بھی ، حدیث کی کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ یہ  ہے خلفاء راشدین کی اجماع کی سنت جس کی طرف  رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی -

"حدیث کتابت ممنوع" کے بارے میں واضح احادیث موجود ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی وجہ صرف یہی تھی کہ: 

"کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔"(لنک )

مزید تفصیل :

  1. راہ نجات 
  2. حدیث کے گمشدہ بنیادی اہم اصول
  3. مصادر الإسلام [English Translation]
  4.  تجديد الإسلام: مقدمہ  [Read  <Abstract >English]
  5.  قرآن کا زندہ معجزہ
  6. دعوة دین کامل  https://bit.ly/DeenKamil 

اہل مدینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیش کش کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس تشریف لایئے اور ہماری حکومت سنبھال لیجیے ؛ حالانکہ اس حکومت کا آپؐ کی طرف سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا،نہ ہی اس کی کوشش کی گئی اورنہ کہیں کسی سے ووٹ مانگے اور نہ ہی اس کے لئے درخواست دی گئی بلکہ جنہوں نے حکومت کروانی تھی، وہ خود چل کر آپ کے پاس درخواست لے کر آئے۔ بیعت ِعقبہ اولیٰ وثانیہ میں مدینہ سے مکہ آئے، کہا کہ آیئے تشریف لائیے اور حکومت سنبھال لیجئے۔

 

گویا امام الانبیا کو دینی زندگی کے کسی شعبہ اور کسی پہلوسے آپ دیکھیں گے تو آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نئی حیثیت ہی نظر آئے گی۔ قرآن نے امام الانبیا کی اتنی حیثیتیں بتا دی ہیں اور ہر ایک حیثیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں، اس لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جامع مقام بیان فرمادیا :

{لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَ‌سُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ...﴿٢١﴾...سورۃ الاحزاب}

''تمہارے لئے اللہ کے رسولؐـ میں بہترین نمونہ ہے۔''

 

زندگی گزارنی ہو اور اسے کامیاب بنانا ہو تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مطابق گزر کر ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مطابق نہیں ہوگی تو پھر کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں، نہ دنیا سنورے اورنہ آخرت سنورے گی۔ جس کو دنیا کی فکر ہے اسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونہ بنانا پڑے گا، اس کے بغیر کوئی اُسوہ نہیں ہے۔

 

اور اسکے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ مشرق سے لے کر مغرب تک، جنوب سے لے کر شمال تک امام الانبیا کے زمانہ سے لے کر قیامت تک امام الانبیا کا رسالت میں کوئی شریک نہیں ہے:

قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَ‌سُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا...﴿١٥٨﴾...سورۃ الاعراف

''(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (یعنی رسول) ہوں۔''

 

اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنی ذات کے بارے میں بتایا کہ میں کتنی عظیم ہستی ہوں، پھر بتایا:

هُوَ ٱلَّذِى بَعَثَ فِى ٱلْأُمِّيِّـۧنَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوامِن قَبْلُ لَفِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾...سورۃ الجمعہ

''وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں اُنہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتاہے اور ان کا تزکیہ کرتاہے اور اُنہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔''

 

تاقیامت جتنے لوگ عہد ِنبویؐ کے بعد آتے رہیں گے، ان کے لئے آپؐ کی نبوت ورسالت جاری وساری رہے گی اورآپؐ ان کے لئے بھی حجت ہوں گے۔ اس کی وضاحت کے لئے مزید فرمایا:

وَءَاخَرِ‌ينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴿٣﴾...سورۃ الجمعہ

''اور ان میں سے دوسرے لوگوں کی طرف بھی ان کو بھیجاہے جو ابھی اُن سے نہیں ملے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔''

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا دین ہیں-  جب تک امام الانبیا کی اطاعت نہ کی جایے نہ دین مکمل ہوسکتاہے، نہ دین پر ایمان مکمل ہوسکتاہے، اور نہ ہی بالواسطہ اللہ پر ایمان مکمل ہوسکتاہے۔

 

حفاظت ِ دین اللہ کے ذمہ ہے !

اللہ تعالیٰ نے پورا دین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت میں نازل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری اُمت کی طرف مبعوث فرمایا اورامت کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کی اطاعت کے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے:

فَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا بِهِۦ وَعَزَّرُ‌وهُ وَنَصَرُ‌وهُ وَاتَّبَعُوا ٱلنُّورَ‌ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ مَعَهُۥٓ ۙ أُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ﴿١٥٧﴾...سورۃ الاعراف

''تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت اختیار کی اور اُنہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا، اس کی پیروی کی تو وہی مراد پانے والے ہیں۔''

 

اس کے بغیر کہیں فلاح نہیں ہے اور ساتھ ہی اللہ نے وعدہ بھی فرمایا :

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ ﴿٩﴾...سورۃ الحجر

''بیشک یہ (کتاب ) نصیحت ہم ہی نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنیوالے ہیں۔''

 

اللہ نے دین بھیجا ہے اوراس پرعمل کو واجب قرار دیا ہے اوراللہ کسی کو تکلیف مالا یطاق نہیں دیتا، کوئی ایساکام نہیں سونپتا جو اس کے بس میں نہ ہو۔ کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے اور عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کام کو کرنے کا حکم دے اور اس کام پر عمل کرنا ممکن نہ ہو، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس دین 'اسلام' کی بنیادوں (کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کی حفاظت فرمائی، اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔

اس وحی کے سلسلے میں سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام فرمایا کہ ایک طرف اپنی ذات کا ذکر فرمایا، اس کے بعد جبریل امین کا ذکر فرمایا جسکا نام ہی الروح الأمین ہے۔ اس کے بعد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتاہے جن کے مخالف اور دشمن بھی آپ کو الصادق الأمین کہتے تھے، اور امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں کے ذریعے اس کی حفاظت کروائی، ان کے بارے میں ارشاد ہوا :

وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِ‌ينَ وَٱلْأَنصَارِ‌ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٍ رَّ‌ضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِ‌ى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ‌ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾...سورۃ التوبہ

''اور جن لوگوں نے سبقت کی ( یعنی سب سے پہلے ایمان لائے) انصار و مہاجرین میں سے اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی ؛ اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش اور اللہ نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔''

 

اس آیت میں گویا اللہ تعالیٰ نے پوری تاریخ انسانی میں کتاب وسنت اور ان پر عمل کی حفاظت کرنے والوں کی پاکیزگی کا تذکرہ کیا ہے اور ان کا تزکیہ کیا ہے ۔ حضرات ابوبکر، عمر، عثمان وعلی رضوان اللہ علیہم، صحابہؓ کرام شامل ہیں- ایسی عظیم شخصیات تھیں جن میں سے ایک ایک شخصیت اس قابل ہے کہ انسان زندگی گزارنے اور سنوارنے کے لئے ان کی زندگی کو پڑھے تو اس سے اس کی زندگی بھی سنور جائے اور دین کے بارے میں اسے اطمینان بھی حاصل ہوجائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ ان لوگوں نے دین ِاسلام کو یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علمی، عملی اور فکری طور پر ہر طرح محفوظ کیا جو کہ تواتر سے نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے-

 لاالہ الا اللہ کے اثرات

جب کلمۂ طیبہ(لاالہ الااللہ) کو صدق دل اور اخلاص کے ساتھ کہا جائے اور ظاہروباطن کےلحاظ سے اس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے تو فرد وجماعت پر اس کے بہت اچھے اثرات مرتّب ہوتے ہیں،ان میں سے چند اہم اثرات درج ذیل ہیں:

1.اتحاد 

۔کلمہ کا متّحد ہونا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو قوّت وشوکت اوردشمنوں پر غلبہ وتمکنت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ کو اپنانے والے ہوتے ہیں،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّ‌قُوا﴾[آل عمران:103]

’’ اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو‘‘۔[آل عمران:۱۰۳]

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِ‌هِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾[الأنفال:62-63]

’’ اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا ہے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وه غالب حکمتوں والاہے‘‘[انفال:۶۲۔۶۲]

اور عقیدہ میں اختلاف کرنا افتراق وانتشار،لڑائی وجھگڑااورخون ریزی وباہمی قتل وغارت گری کا سبب بنتا ہے،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّ‌قُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُ‌هُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾[الأنعام:159]

’’بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جُدا جُدا کردیا اور گروه گروه بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلادیں گے‘‘۔[انعام:۱۵۹]

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿فَتَقَطَّعُوا أَمْرَ‌هُم بَيْنَهُمْ زُبُرً‌ا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِ‌حُونَ﴾ [المؤمنون:53]

’’ پھر انہوں نے خود (ہی) اپنے امر (دین) کے آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیئے، ہر گروه جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر اترا رہا ہے‘‘۔[مومنون:۵۳]

لہذا لوگوں کا اتحاد واتفاق اورملت کا اتحاد صرف عقیدہ ایمان وتوحید ہی سے ہوسکتا ہے جو کہ لاالہ الا اللہ کا مدلول ہے،اوراسلام سےقبل اور اس کے بعد عربوں کی حالت سے عبرت حاصل کریں۔

2.۔توحید پرست معاشرہ 

جو لاالہ الا اللہ کے تقاضوں کو اپناتا ہے اس کے اندر (یہ کلمہ)امن وسکون اور طمانینت پیدا کرتا ہے،کیونکہ معاشرہ کا ہرفرد اس عقیدہ کے ساتھ تفاعل کرتے ہوئے اسی چیزکو لیتا ہے جس کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے، اور اس چیز سے باز رہتا ہے جس کو اللہ نے حرام ٹہرایا ہے،چنانچہ ظلم وزیادتی اور سرکشی سے رُک جاتا ہے اوراس کی جگہ باہمی تعاون،محبت اور اللہ کی خاطردوستی جگہ لے لیتی ہے اللہ کےدرج ذیل قول پر عمل کرتے ہوئے کہ:

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾[الحجرات:10]

’’(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘۔[حجرات:۱۰]

اوراس چیز کا نمایاں اظہار اس کلمہ کے اپنانے سے پہلے اور بعد میں عربوں کے حالات سے ہوتا ہے، چنانچہ وہ اس(کلمہ کے اپنانے) سے پہلے آپس میں ایک دوسرے کے دشمن،باہم دست وگریباں اور خون کے پیاسے تھے، ایک دوسرے کاقتل،لوٹ مار،چھینا جھپٹی کرنے پر فخر کرتےتھے لیکن جب انہوں نے اس کلمہ کو اپنایا تو باہم محبت کرنے والے بھائی بن گئے(اورمعاشرہ امن وسکون اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن گیا)،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿مُّحَمَّدٌ رَّ‌سُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُ‌حَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾[الفتح:29]

’’ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں‘‘۔[فتح:۲۹]

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّ‌قُوا ۚ وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ﴾ [آل عمران:103]

’’ اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے‘‘۔[آل عمران:۱۰۳]

3. الله اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت 

الله اور رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دلی محبت پیدا ہوتی ہے کہ الله نے  رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زریعہ ہمیں پیغام توحید پہنچایا اور رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمام مشکلات اور اپنی زندگی کو خطروں میں ڈال کر اپنا فرض ادا کیا کہ آج ہم مسلمان ہیں- (فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ ) یہ پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے دو بنیادی تقاضے ہیں ‘ پہلا تقاضا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور دوسرا تقاضا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت۔ ان دونوں تقاضوں کے بارے میں دو احادیث ملاحظہ کیجیے۔ پہلی حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : 
(لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِءْتُ بِہٖ ) (١) تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہے جب تک کہ اس کی خواہش نفس تابع نہ ہوجائے اس چیز کے جو میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آیا ہوں۔ یعنی جو احکام اور شریعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر تشریف لائے ہیں ‘ اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اس سب کچھ کو تسلیم کر کے اس پر عمل کرنا ہوگا۔
 دوسری حدیث متفق علیہ ہے اور اس کے راوی حضرت انس بن مالک (رض) ہیں۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَا یُوؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ) (١) تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے محبوب ترنہ ہوجاؤں اس کے باپ ‘ بیٹے اور تمام انسانوں سے۔ چناچہ یہ دونوں تقاضے پورے ہوں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کا دعویٰ حقیقت بنے گا۔ ایک غایت درجہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع اور اطاعت ‘ دوسرے غایت درجے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت۔ (وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ ) جب مذکورہ بالا دو تقاضے پورے ہوں گے تو ان کے لازمی نتیجے کے طور پر دلوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم پیدا ہوگی ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت دلوں پر راج کرے گی۔ جب اور جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام مبارک سنائی دے گا بےساختہ زبان پر درود وسلام آجائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سامنے آنے پر منطق و دلائل کا سہارا چھوڑ کر سرتسلیم خم کردیا جائے گا۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب و احترام کے سلسلے میں یہ اصول ذہن نشین کرلیجئے کہ اگر کہیں کسی مسئلے پر بحث ہو رہی ہو ‘ دونوں طرف دلائل کو دلائل کاٹ رہے ہوں اور ایسے میں اگر کوئی کہہ دے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ضمن میں یوں فرمایا ہے تو حدیث کے سنتے ہی فوراً زبان بند ہوجانی چاہیے۔ ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سن لینے کے بعد بھی کسی معاملے میں رائے زنی کرے۔ بعد میں تحقیق کی جاسکتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوب کر کے جو فرمان سنایا گیا ہے درحقیقت وہ حدیث ہے بھی یا نہیں اور اگر حدیث ہے تو روایت و درایت کے اعتبار سے اس کا کیا مقام ہے۔ حدیث صحیح ہے یا ضعیف ! یہ سب بعد کی باتیں ہیں ‘ لیکن حدیث سن کر وقتی طور پر چپ ہوجانا اور سر تسلیم خم کردینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کا تقاضا ہے۔

4.غلبہ اسلام 

اس کلمہ سے زمین میں جانشینی وسرداری حاصل ہوتی ہے اور دین میں نکھار وخلوص آتا ہے اور مختلف مبادیات وافکار کے لہروں کے سامنے ثابت قدمی واستقلال پیدا ہوتا ہے،جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾[النور:55]

’’ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں‘‘۔

چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان بلند مقاصد کے حصول کو اپنی خالص عبادت کے ذریعہ مربوط کردیا ہے جس میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے، اور یہی لاالہ الا اللہ کا معنیٰ اورمقتضیٰ ہے۔

5.اطمینان قلب

۔جوشخص لاالہ الا اللہ کہتا ہے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے تو اسے اطمینان قلب اورذہنی سکون حاصل ہوتا ہے،کیونکہ وہ ایک ایسے رب کی عبادت کرتا ہے جس کی مراد اوراس کی مرضی کی چیز کو جانتا ہے اور اسے بجالاتا ہے،اور اسے ناراض کرنے والی چیز کو جانتا ہے اوراس سے اجتناب کرتا ہے،بخلاف اس شخص کے جو متعدد معبودوں کی پوجا کرتا ہے جن میں سے ہرایک کی مراد جداہوتی ہے ،اورہرایک کی تدبیردوسرے سے مختلف ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْ‌بَابٌ مُّتَفَرِّ‌قُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّـهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ‌ 12:39﴾[اليوسف:39]

’’ اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟‘‘۔[یوسف:۳۹]

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ضَرَ‌بَ اللَّـهُ مَثَلًا رَّ‌جُلًا فِيهِ شُرَ‌كَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَ‌جُلًا سَلَمًا لِّرَ‌جُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّـهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾[الزمر:29]

’’ اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے ایک وه شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں، اور دوسرا وه شخص جو صرف ایک ہی کا (غلام) ہے، کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں، اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب تعریف ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ سمجھتے نہیں‘‘۔[زمر:۲۹]

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:’’یہ ایک مثال ہے جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مشرک وموحّد شخص کے لئے بیان فرمایا ہے،چنانچہ مشرک تو اس غلام کی طرح ہے جس کے کئی ایک مالک ہوں اور ہوں بھی وہ سب آپس میں مختلف اور پھر ایک دوسرے کے مخالف،ایک دوسرے سے بدی رکھنے والے،(اب اس غلام کی کیسی درگت ہوگی یہ ظاہر ہے) چونکہ مشرک کئی ایک معبودوں کا پرستار ہوتا ہے نا ممکن ہے کہ وہ سب کو خوش رکھ سکے، اور موحّد صرف پرستار واحدہوتا ہے ،پس اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی ایک کا غلام ہو اس کی طبیعت سے واقف ہو، اس کے مزاج کو جانتا ہو، اس کی رضا مندی کے طریقے کو پہچانتا ہو(پس اس کی نگاہیں اسی پر ہیں،ہرخدمت سے اسے خوش کرسکتا ہے)۔دوسرے سب سے بے پرواہ ہے۔ کسی کا نہ اسے ڈر نہ لحاظ، پھر اس کا مالک سلیم المزاج رافت وشفقت اوراحسان وسلوک والا ہے،کوئی اس کا ساتھی نہیں، وہ اپنےاس غلام سے خوش ہےاس پراحسان کرتا ہے اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا ہے تو کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘(اعلام الموقعین:۱؍۱۴۴)۔

6.دنیا وآخرت میں رفعت وبلندی

۵۔لاالہ الا اللہ والوں کودنیا وآخرت میں رفعت وبلندی حاصل ہوتی ہے ،جیسا کہ ارشادباری تعالی ٰہے:

﴿حُنَفَاءَ لِلَّـهِ غَيْرَ مُشْرِ‌كِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّ‌يحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ 22: -31﴾[الحج:31]

’’ صرف اﷲ کے ہوکر رہو اس کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ ٹھہراتے ہوئے، اور جو کوئی اﷲ کے ساتھ شرک کرتاہے تو گویا وہ (ایسے ہے جیسے) آسمان سے گر پڑے پھر اس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا اس کو کسی دور کی جگہ میں نیچے جا پھینکے‘‘۔[الحج:۳۱]

چنانچہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ توحید بلندی وبالائی ہے،اور شرک پستی وگراوٹ اور تنزّلی ہے۔

 

یہ(لاالہ الا اللہ ) کے چنداثرات اورثمرات وبرکات ہیں،اور اس کے علاوہ عبادات، معاملات،آداب اور اخلاق وغیرہ میں فرد وجماعت پر مرتّب ہونے والے بہت سارے اثرات ہیں…

بخشش ، مغالطے سب گناہ معاف ۔۔۔ مگر کیسے؟ اکثر لاعلمی کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں گناہ کی عام معافی کا زکر ہوتا ہے اور بظاہر یہ احادیث گناہ کی ترغیب دیتی معلوم ہوتی پیں جبکہ ایسا نہیں۔ کسی ایک حدیث یا آئیت سے شریعت مت بنائیں، سیاق و ثبات ، اور کسی خاص موضوع پر تمام آیات، سنت و احادیث کی روشنی میں علماء، مفسرین، فقہا ء تفسیر کرتے پیں شائید اسی لئیے رسول ﷺ نے فرمایا : نبی کریم  ﷺ  نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ماخوز، ترمذی 2906) ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي( 20۔ طہ آئیت  123) ترجمہ جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا  (رزین)  (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث:185) ایک مثال ۔۔۔ ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو“۔ ۔۔۔۔۔۔ ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔“ لیکن اس معافی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے حضور خلوص دل سے توبہ کرو ‘ حرام خوری چھوڑ دو ‘ معصیت کی روش ترک کر دو اور آئندہ کے لیے اپنے اعمال کو درست کرلو۔ ایسی توبہ کا انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ملے گا کہ تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ سورة الفرقان میں اس بارے میں بہت واضح حکم موجود ہے : { اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًارَّحِیْمًا۔ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا۔ ”سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے ‘ تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے ‘ اور اللہ غفور ہے ‘ رحیم ہے۔ اور جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے تو یہی شخص توبہ کرتا ہے اللہ کی جناب میں جیسا کہ توبہ کرنے کا حق ہے“۔ چناچہ سابقہ گناہوں کی معافی توبہ سے ممکن ہے ‘ لیکن توبہ وہی قبول ہوگی جس کے بعد انسان کے اعمال درست ہوجائیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو رسمی اور زبانی توبہ بےمعنی ہے۔ { اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ } ”یقینا وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ اب دوسری آیات ۔۔۔ أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞ وَاَنِيۡبُوۡۤا اِلٰى رَبِّكُمۡ وَاَسۡلِمُوۡا لَهٗ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِيَكُمُ الۡعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ ۞ ترجمہ: کہہ دے اے بندو میرے جنہوں نے کہ زیادتی کی ہے اپنی جان پر آس مت توڑو اللہ کی مہربانی سے بیشک اللہ بخشتا ہے سب گناہ وہ جو ہے وہی ہے گناہ معاف کرنے والا مہربان ۞ اور رجوع ہوجاؤ اپنے رب کی طرف اور اس کی حکم برداری کرو پہلے اس سے کہ آئے تم پر عذاب پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 39 الزمر، آیت نمبر 53-54) تفسیر: سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے قتل ناحق کئے اور بہت کئے اور زنا کا ارتکاب کیا اور بہت کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ جس دین کی طرف آپ دعوت دیتے ہیں وہ ہے تو بہت اچھا لیکن فکر یہ ہے کہ جب ہم اتنے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرچکے اب اگر مسلمان بھی ہوگئے تو کیا ہماری توبہ قبول ہو سکے گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مذکورہ نازل فرمائی۔ (ذکرہ البخاری بمعناہ۔ قرطبی) اس لئے خلاصہ آیت کے مضمون کا یہ ہوا کہ مرنے سے پہلے پہلے ہر بڑے سے بڑے گناہ یہاں تک کہ کفر و شرک سے بھی جو توبہ کرلے قبول ہوجاتی ہے۔ اور سچی توبہ سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کسی کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے۔ ( کیسے موت ہوگی؟ حادثہ، اچانک موت، موقع ملے یا نہ ملے توبہ کا واللہ اعلم ) حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ یہ آیت گناہ گاروں کے لئے قرآن کی سب آیتوں سے زیادہ امید افزاء ہے۔ مگر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ سب سے زیادہ رجاء وامید کی یہ آیت ہے (آیت) ان ربک لذو مغفرہ للناس علیٰ ظلھم۔ (معارف القرآن، مفسر: مفتی محمد شفیع) مزید》》》

https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/salvation-faith-works.html

مزید مطالعہ :

  1. دعوة دین کامل  https://bit.ly/DeenKamil 
  2. راہ نجات 
  3. مصادر الإسلام [English Translation]
  4.  تجديد الإسلام: مقدمہ  [Read  <Abstract >English]
  5. حدیث کے گمشدہ بنیادی اہم اصول
  6.  قرآن کا زندہ معجزہ
  7. شفاعت یا شریعت  [Intercession Translation]
  8. تجدید ایمان [Faith Renewal]
  9.  گمراہی کے اسباب:  https://bit.ly/Gumrah

https://www.facebook.com/IslamiRevival



 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کلام الله، قرآن کو اس کی اصل حیثیت کے مطابق ترجیح کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کی اہمیت نہیں- “تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) سے بھی محبت رکھتا ہے لیکن حقیقی محبت کا اظہار اطاعت  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث” کی ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیارکے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُو) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر) وضع موجود  (statues-que) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیارکے مطابق علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ درست احادیث کی ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں- جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے-

دعوة دین کامل  https://bit.ly/DeenKamil 

https://bit.ly/Tejdeed-Islam

http://SalaamOne.com/Revival

https://Quran1book.blogspot.com

https://Quran1book.wordpress.com

https://twitter.com/SalaamOne

پوسٹ لسٹ