رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

داستانوں سے حقائق مسخ کرکے رسول اللہﷺ کی حکم عدولی


 رسول اللہ ﷺ احادیث لکھنے پر عام پابندی لگا دی جسے منسوخ کرنے کا حکم نہیں ملتا ، ممنسوخ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ پابندی کی وجہ ابدی ، مستقل ہے ، جو آج بھی ایک معجزہ کی طرح موجود ہے ، یہود ، نصاری اور مسلمانوں نے کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب لکھ کر کتاب الله کو نظر انداز کر دیا -- سچے  رسول اللہ ﷺ  کا پیغام آج بھی سچ ہے اور اس کو جھوٹ کے غلاف میں کوور کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی :
 رسول اللہ ﷺ فَقَالَ أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ ؟ مَا أَضَلَّ الأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ " [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
ترجمہ :
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
 کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔ [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب] 
اس کا اعا دہ سنت خلفاء راشدین ہے اور فرمان حضرت عمر (رض ) و حضرت علی (رض) بھی ہوتا ہے  جن کے متعلق فرمایا "--- تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے [ ابن ماجہ 42 ، اَلتِّرْمِذِيُّ 266 , ابی داود ،4607]
 "عمر بن الخطاب (رضی الله)  نے  ایک مہینہ اللہ سے استخارہ کریں، پھر ایک دن آیا ،عَزَمَ اللَّهُ  سے کہا:  "میں نے ارادہ کیا کہ سنن لکھوں گا ، مگر پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو  چھوڑ دییا، اللہ کی قسم  میں کتاب اللہ کو کبھی بھی کسی بھی چیز کا لبادہ  (لباس) نہیں پہناوں گا"( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ماخوز )

.حضرت عبداللہ ؓبن یسار فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت علیؓ (رضی الله)  نے تمام صحابہ کو جمع کر کے حکم دیا کہ یہاں سے واپس جانے کے بعد ہر شخص پہلا کام یہ کرے کہ جس کے پاس کوئی بھی تحریر ہو اسے مٹا ڈالے۔ کیوں کہ پہلی قومیں اپنے علماء کی احادیث پہ چلنے اور کتاب اللہ کو چھوڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو چکیں ہیں۔ (مختصر جامع بیان العلم ص 33)

2. حضرت علی رضی الله نے خطبہ میں  فرمایا:” جس کے پاس (قرآن کے علاوہ) کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں کہ وہ گھر لوٹ کے جایےتو اسے مٹا ڈالے ، کیونکہ پچھلی قومیں اس وقت ہلاک ہوئیں جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گیے”-(“کتابت حدیث” خلاصہ ” نخبة  الفکر” علامہ ابن حجرالعسقلانی)

حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: 

3. ’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)

ایک مثال سے جھوٹ اور سچ کا فرق واضح ہوگا :

قیام پاکستان کی وجہ اسلامی مملکت یہ سیکولر پاکستان؟ 
 سچ بمقابلہ جھوٹ حقائق کو کس طرح مسخ کیا جاتا ہے اس کی تازہ مثال پاکستان کے قیام کی وجہ پر جھوٹے پراپیگنڈہ اور من گھڑت تاویلوں سے اس کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے - سب کو معلوم ہے کہ دو قومی نظریہ قیام پاکستان کی وجہ ہے - قائد اعظم محمد رسول اللهﷺ علی جنا ح نے کبھی بھی سیکولر کا لفظ تقریر میں استمعال نہ کیا ، ایک ١١ ستمبر ١٩٤٨ کی تقریر جس میں بھی سیکولر کا لفظ نہیں صرف تمام پاکستانیوں کے لیے اپنے اپنے مذھب کو آزادی سے پریکٹس کرنے کی آزادی کا ذکر کیا - سب کچھ رکارڈ پر موجود ہے ابھی بھی لوگ زندہ ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی جدو جہد میں حصہ لیا، کوئی بھی سیکولرزم کا نام نہیں لیتا لیکن ڈان گروپ اور لبرل سیکولر لابی نے اپنے مسلسل جھوٹے پراپیگنڈہ سے بہت لوگوں کو قائل کیا ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد مسلمانوں کو معاشی آزادی تھا نہ کہ اسلامی مملکت- یہ سیکولر لوگ اشرفیہ میں ہیں ، حکومت ان کی ہوتی ہے ، دو تین صدی بعد اگر خدانخواستہ یہ لوگ کامیاب ہو گئے سب کچھ بدل دیں گے - نئی کتب لکھی جائیں گی اور جو کوئی ان کو جھوٹا اور غلط کہے گا ، دلائل دے گا، کوئی اس کی بات نہ مانے گا اسے پاگل ، جاہل احمق قرار دیں گے ، وہ کہتا رہے گا کہ :

 قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿١١١﴾‏ پنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو (2:١١١)
 لیکن اس کے دلائل کو بغیر جواب ، بغیر دلیل کے رد کر دیں گے اپنے نفس کے زیر اثر - لیاقت علی خان تحریک پاکستان کے سر گرم مخلص لیڈر ، قآئد کے قریبی ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے ، انہوں نے "قرار داد مقاصد" کو اسمبلی سے منظور کروایا جو آج بھی آیئن پاکستان کا حصہ ہے ، وہ قیام پاکستان کے وجہ سے بخوبی واقف تھے - ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور مختلف قسم کی داستانیں مشہور ہیں آخر ان کو شہید کر دیا گیا- 

 اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقائق کو مسخ کرنا کس طرح ممکن ہے ، لیکن سچ اور حق کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا ، اسلام دین کامل ہے اس طرح کے واقعات الله تعالی نے ہمارے امتحان کے لیے رکھے ہیں ، قرآن سے دین اسلام کی حفاظت الله تعالی کرے گا، مگر افسوس یہ ہے کہ جب حقائق ہمارے سامنے روشن دلیل سے واضح ہوے تو ہم نے اپنی بربادی و ہلاکت کا راستہ اختیار کیا ایمان سے حیات کا ؟ 

حدیث کے راویوں کا جھوٹ بولنا 

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَفَّانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ فَقَالَ عَنْ أَبِيهِ لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ مُسْلِم يَقُولُ يَجْرِي الْکَذِبُ عَلَی لِسَانِهِمْ وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْکَذِبَ (صحیح مسلم,  حدیث نمبر: 40)

ترجمہ: محمد بن ابی عتاب، عفان، حضرت سعید بن قطان اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ابن ابی عتاب نے کہا کہ میری ملاقات سعید بن قطان کے بیٹے سے ہوئی میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ کہتے تھے کہ ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے۔ [صحیح مسلم,  حدیث نمبر: 40]

ایک داستان (myth) نہ جانے کب اور کس نے گھڑی کہ :

  1. "غالبا کچھ صحابہ سنت کو لکھنا پسند نہین کرتے تھے اس کا سبب یہ ہے کے کہین قرآن وحدیث آپس مین مل نا جائین, جب لوگ قرآن سے نئی نئی واقف ہوئے تھے صحابہ چاہتے تھے وہ قرآن کو خالص رکھین اور پکے رہین ۔"
  2. اہل سنت کا "خیال ہے" کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو اعلان کیا تھا (سند؟) کہ کسی حدیث کو ریکارڈ نہیں کیا جائے گا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ لوگ "قرآن کے ساتھ کسی حدیث کو الجھا نہ دیں"۔

یہ "خیال " خیالی داستان ہے جس کوئی سند نہیں. کیا رسول اللہ ﷺ پی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح سے اپنے خیالات منسوب / تھوپے جاتے ہیں ، یہ تو جھوٹ لگانا ہے جہنم کا راستہ - سب کو احادیث بھی اچھی طرح معلوم ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث لکھنے سے کیوں منع فرمایا تھا اور یہ کہانی (Myth) اہل بدعة کی من گھڑت ہے جسے بغیر ہچکچاہیٹ کے دھڑلے سے بیان کیا جاتا ہے- اس کہانی کا کوئی ثبوت نہیں -

خیال / داستان / متھ / Myth کا تجزیہ :

1. اس جھوٹی داستان کی کوئی بنیاد نہیں نہ کوئی حدیث نہ قرآن سے یہ ثابت ہے ، یہ جھوٹ صرف حدیث کی کتب کے جواز کو پیدا کرنے کے لیے بہت بعد میں گھڑا گیا- شاید امام شافعی کے دور میں- اب یہ تقریبا تمام کتب میں ملتا ہے کسی سند کے بغیر ، یہ ہے دین اسلام کے ساتھ مذاق-

2.اس حدیث ( [لحديث : ٣٣, تقييد العلم) میں بیان کردہ واقعہ میں جضرت ابوهریره (رضی الله) موجود اور شامل تھے جنہوں نے 7 یا 8 حجرہ کو اسلام قبول کیا اور تقریبا تین سے چار سال تک رسول اللہ ﷺ کی قربت میں رہے- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یھاں حدیث لکھنے کی ممانعت کا واقعه نزول قرآن کے آخری 3 یا 4 سالوں میں پیش آیا- رسول اللہ ﷺ کا وصال 10 حجرہ میں ہوا، تو اس حدیث کا زمانہ کم از کم نزول قرآن سے انیس (19) یا بیس (20) سال بعد کا بنتا ہے اوراگر زیادہ سے زیادہ شمار کریں تو 23 سال (حجرہ 10)- اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یھاں حدیث لکھنے کی ممانعت کا زمانہ نزول قرآن کے شروع کا زمانہ نہیں تھا کہ کسی کو قرآن اور حدیث کا فرق معلوم نہ ہوتا- نزول قرآن کے بیس سال بعد سب کو بخوبی حدیث اور قرآن کے فرق کا علم تھا- اس لیے یہ افسانہ کہ حدیث لکھنے کی ممانعت کی وجہ حدیث اور قرآن کے فرق سے لاعلمی تھا ، فضول ، بے بنیاد اور منگھڑت فریب ہے جس کا مقصد علمی دھوکہ ہے تاکہ (disinformation) غلط معلومات کی بنیاد پر کتب احادیث مدون کرنے کا جواز گھڑا جا سکے-

3.حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احادیث لکھنے سے جب منع فرمایا تو اس کی وجہ بھی بیان فرما دی تھی ، جسے کہ پہلے بیان کیا اور اب دوبارہ پیش ہے :

رسول اللہ ﷺ فَقَالَ

 أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ ؟ مَا أَضَلَّ الأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ " [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب] "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میری طرف سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو تو وہ اسے مٹادے-“ (صحیح مسلم،الزھد، باب التثبت فی الحدیث و حکم کتابہ العلم، حدیث:3004)

رسول اللہ ﷺ احادیث لکھنے پر عام پابندی لگا دی کبھی بھی منسوخ کرنے کا حکم نہیں ملتا - ممنسوخ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ پابندی کی وجہ ابدی ، مستقل ہے: 

دارمی کے حاشیہ پر اس کے متعلق لکھا ہے:

وقد قيل انمها نهى ان تكتب الحديث مع القرآن فى صفحه واحدة فيختلط به فيشتبه(دارمى جلد1 ص99)

 "حدیث کو قرآن مجید کے ساتھ ایک ہی صفحہ پر لکھنے سے منع فرمایا تاکہ اشتباہ پیدا نہ ہو جائے۔" یہ " دارمی" نے درج ذیل حدیث کے "حاشیہ" میں لکھا :

 عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: «اسْتَأْذَنَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الكِتَابَةِ فَلَمْ يَأْذَنْ لَنَا»: «وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الوَجْهِ أَيْضًا عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ» رَوَاهُ هَمَّامٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ (جامع الترمذي ج2ص102)

"حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہ دی۔ اس کے علاوہ یہ حدیث زید بن اسلم سے بھی مروی ہے۔"

یہی حدیث اور مقام پر الفاظ کی ذرا تبدیلی سے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ:

«اسْتَأْذَنَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ان يكتبواعنه فَلَمْ يَأْذَنْ لَنَا» "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے لکھنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت نہ دی۔"

وقد قيل انمها نهى ان تكتب الحديث مع القرآن فى صفحه واحدة فيختلط به فيشتبه(دارمى جلد1 ص99)

 "حدیث کو قرآن مجید کے ساتھ ایک ہی صفحہ پر لکھنے سے منع فرمایا تاکہ اشتباہ پیدا نہ ہو جائے۔" یہ "حاشیہ" میں لکھا ہے ہے" دارمی" نے درج ذیل حدیث کے حاشیہ میں لکھا- (محدث فورم )

دآرمی [امام عبد الرحمن الدارمی سمرقندی (پیدائش: 181ھ/ 797ء – وفات 255ھ/17 نومبر 869ء) حدیث کی معتبر کتاب سنن الدارمی کے مؤلف ہیں۔]  کا  خیال یا نظریہ اس طرح سے مشور ہوا ہے جیسے کہ یہ حدیث کا حصہ ہے ، جبکہ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ بات نہیں کی کہ قرآن کے ساتھ ایک صفحہ پرر حدیث مت لکھو یہ دارمی کا ٢٥٠ سال کے بعد اندازہ ، خیال ہے جس کو خلفاء راشدین کے حکم کی حکم عدولی کے لیے جواز گھڑا جا رہا ہے -

صحیفہ ہمام بن منبہ کے مقدمے (ص 72-76) میں ڈاکٹر حمیداللہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہےکہ :

"یمن سے نو مسلموں کی جماعت آئی ان میں سے کچھ نے احادیث کو اپنے ان اوراق پر لکھ لیا جن پر قرآن مجید کی سورتیں لکھی تھیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کے علاوہ (جو کچھ لکھا ہے) اس کو مٹا دو۔ یہ بات واضح ہی ہے کہ نومسلم لوگ اس اختلاط سے الجھ جاتے ہیں"

سو کتابت حدیث کی ممانعت مخصوص حالات میں اختلاط قران کے خدشے کے سبب تھی ..اور جب یہ خدشہ نہ رہا تو خود نبی کریم کے سامنے صحابہ لکھتے رہے اور آپ نے منع نہ کیا - (محدث فورم )

 کہتے ہیں جھوٹ کےپاووں نہیں ہوتے ، ابو ہریرہ کا قربت رسول اللہ ﷺ  کا  زمانہ 7 سے 10 حجرہ کا ہے جو کہ نزول قرآن کے 19 سے 23 سال بعد کا زمانہ ہے جب سب کو قرآن اور حدیث کا فرق معلوم تھا ، اس لیے کسی کا غلطی سے قرآن اور حدیث کو ایک صفحہ پر لکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-

یہ حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کر نا ہے  کہ : "و کتابت حدیث کی ممانعت مخصوص حالات میں اختلاط قران کے خدشے کے سبب تھی"- جبکہ یہ ممانعت اس لیے تھی اور ہے کہ کتاب الله، قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں، جو غلطی پہلی اقوام نے کی اور گمراہ ہو گۓ اس غلطی سے بچنے کا حکم دیا -

”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“[ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی]

 رسول اللہ ﷺ کتب احدیث لکھنے کی ممانعت کا فرمان  قرآن کے مطابق ہے:

.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)

اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)

فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)

پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)

اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴿٨٧﴾ 

اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی حدیث اور کس کی ہوسکتی ہے (النساء 4:87)

اگر عارضی پابندی ہوتی تو ابو ھریرہ ، عبدللہ بن مسعود ، ابو سعد خضری ، زید بن ثابت ، عبدللہ بن عمر اور بہت سے دوسرے صحابہ کو کیا اس علم نہ ہوتا کہ وہ مرتے دم تک احادیث لکھنے سے منع فرماتے رہے- اور خلفا راشدین کا کتابت حدیث نہ کرنتے کی سنت پر اجماع نہ ہوتا - یہ لوگ قرآن ، سنت  رسول اللہ ﷺ ، سنت خلفاء راشدین کو کیسے مسترد کرنتے ہیں بارہ صدیوں سے -( استغفر اللہ )

اگر کچھ لوگوں نے قرآن اور حدیث کو ایک جگہ اکٹھا لکھنے کی غلطی کی ہو لیکنو اصل وجہ مستقل اپنی جگہ قائم ہے کہ :

 أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ ؟ مَا أَضَلَّ الأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ " 

"کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لکھ رہے تھے- آپ نے فرمایا:"کیا لکھ رہے ہو؟" ہم نے عرض کیا :"وہ باتیں جو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔"

اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"تم کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ تم سے پہلی امتوں کو اس کے سوا کسی چیز نے نہیں گمراہ کیا کہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دیگر کتابیں بھی لکھ لیں۔" (مسند احمد عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)

یہ مطلب نکلنا کہ "کتاب اللہ کے سآتھ کتاب" لکھنا ایک صفحہ پر قرآن و حدیث لکھنا درست نہیں مکمل حدیث ، سیاق و ثبات کے ساتھ پڑھیں یہاں پر رسول اللہ ﷺ کے  مخاطب کوئی یمن کے نو مسلم نہیں بلکہ حضرت ابو ھریرہ اور صحابہ اکرام تھے جو کہ قرآن اور حدیث کے فرق کو بخوبی سمجھتے تھے:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّرَّاجُ، بِنَيْسَابُورَ , حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ , حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَنَحْنُ نَكْتُبُ الْأَحَادِيثَ , فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي تَكْتُبُونَ؟» , قُلْنَا: أَحَادِيثَ سَمِعْنَاهَا مِنْكَ. قَالَ: «أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟ مَا أَضَلَّ الْأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَّا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ» . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ , تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . كَذَا رَوَى لَنَا السَّرَّاجُ هَذَا الْحَدِيثَ , وَرَوَاهُ غَيْرُ الْأَصَمِّ , عَنِ الْعَبَّاسِ الدُّورِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ , فَاللَّهُ أَعْلَمُ 

ترجمہ/ تشریح :  

ہمیں ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبد اللہ السراج ، بِنَيْسَابُورَ  نے ، ہمیں ابو عباس محمد بن یعقوب الْأَصَمُّ نے ،

عباس الدوری کو بتایا ، ہمیں عبد اللہ بن عمرو نے بتایا ، کہا: ہمیں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اپنے والد سے ، عطا بن یاس سے ابوہریرہ کے اختیار پر، انہوں نے کہا: 

اللہ  کے  رسول اللہ ﷺ  ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، 

اور آپ (ﷺ ) نے کہا: یہ کیا ہے؟ 

ہم نے کہا:

 ہم نے جو  آپ کی احادیث سنی ہیں۔

[ اہم نقطۂ کے وہ قرآن نہیں لکھ رہے تھے صرف احادیث لکھ رہے تھے ]

 انہوں (ﷺ ) نے فرمایا:

کیا آپ کتاب اللہ  کے ساتھ  کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہیں؟

وہ لوگ صرف احادیث لکھ رہے تھے، قرآن کے ساتھ نہ لکھ رہے تھے انہوں نے پہلے ہی واضح کر دیا کہ احادیث لکھ لکھ رہے ہیں- 

کتاب الله کے ساتھ کا مقصد ہے کہ کتاب اللہ کے علاوہ اور کتاب لکھنا - جیسا کہ اگلے فرمان میں واضح  کر دیا]

تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ  انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔

یہ بات مزید وضاحت کرتی ہے کہ " پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں"

یہ حقیقت آج بھی موجود ہے کہ یہود و نصاری نے علیحده کتب لکھیں، انجیل کے علاوہ 23 کتب, عہد نامہ جدید

(New Testament) ، تورات کے ساتھ (علاوہ، علیحدہ) 38 ضخیم جلدوں پر مشتمل تلمود / مشنا، یہ بات

حضرت عمر (رضی الله) نے بھی واضح کر دی تھی، اب مسلمانوں م کے پاس احادیث کی 75 کتب ہیں-ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ انہوں (ﷺ ) نے کہا: "ہاں ، میرے بارے میں بات کرو ، کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے

اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔" اسی طرح ، سراج نے ہم سے یہ حدیث بیان کی، اور اسےالْأَصَمِّ کے علاوہ کسی اور نے عباس الدوری، عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ

الْخَرَّازُ کے ذریعہ ، عبد اللہ ابن الرحمٰن کے اختیار سے روایت کیا۔ فَاللَّهُ أَعْلَمُ ["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33] دوبارہ واضح کر دیں کہ کتاب اللہ کے ساتھ ایک صفحہ پر لکھنے کی بات ضمنی ہو سکتی ہے اگر کسی سے کسی موقع

پر غلطی ہوئی ہو مگر اصل وجہ کتاب الله تعالی کے ساتھ (علاوہ) کتب لکھنے کی ممانعت ہے-

جو کہ یہود و نصاری کی مثال سے واضح ہو جاتی ہے-

حضرت عمر  تحریری حدیث کا موازنہ اہل کتاب کے مشنا سے کرتے ہیں۔ یہودیت میں مشنا وہی کردار ادا کرتی ہے جو اب اسلام امین احادیث کی کتب ادا کرتی ہیں- اور حضرت علی (رض) نے انہی الفاظ میںا یہود کو کتب مشنا کا نام  لے کر بعد میں دہرای  جو تمام شکوک کو ختم کرنے لکے لیے کافی ہے اگر کوئی شک دور کرنے میں مخلص ہو تو-

یہی بات حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) نے انہی الفاظ میںا یہود کو کتب مشنا کا نام لے کر بعد میں دہرای جو تمام شکوک کو ختم کرنے لکے لیے کافی ہے اگر کوئی شک دور کرنے میں مخلص ہو تو-

کتاب اللہ کے ساتھ ایک صفحہ پر لکھنے کی بات ضمنی ہو سکتی ہے اگر کسی سے غلطی ہوئی ہو مگر اصل وجہ کتاب الله تعالی کے ساتھ (علاوہ) حقیقت ہے کہ یہود و نصاری نے علیحده کتب  لکھیں ، انجیل کے ساتھ 23 کتب, عہد نامہ جدید (New Testament) ، تورات کے ساتھ 38 ضخیم جلدوں پر مشتمل تلمود / مشنا، یہ بات حضرت عمر (رضی الله) نے بھی واضح کر دی تھی،  اب مسلمانوں م کے پاس احادیث کی 75  کتب  ہیں-

  Abū Hurayra, said;

God’s Messenger (God bless him) came out to us while we were writing ḥadīths, and he said, “What is this that you are writing?” We said,” ‘Ḥadīths we have heard from you.” He said, “Do you want a book other than God’s book? [a kitāban ghayr kitāb illāh turīdūna] The communities before you were only caused to stray by the books they wrote along with God’s book.” [ مَا أَضَلَّ الأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ " ] Abū Hurayra said, “Then, I said, ‘May we relate ḥadīth [orally] on your authority, oh, messenger of God?’ He said, ‘Yes, there is no harm in relating ḥadīth [orally] on my authority, but anyone who intentionally attributes a lie (to) me should prepare to take his place in the fire.’ [, تقييد العلم للخطيب]

رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم قرآن کے ان احکام (قرآن 39:23) ، (الجاثية45:6)، ( المرسلات 77:50)، (الأعراف 7:185)، (النساء 4:87) کی تفسیر معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم ) اس پر پھر تفصیل ......

https://quran1book.blogspot.com/2020/06/verses.html

معمر بن رشید کی روایت کے مطابق حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے ایسا کرنے سے اتفاق کیا لیکن حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) ہچکچاہٹ میں رہے اور پورا ایک مہینہ الله سے رہنمائی اور روشنی کی دعا کرتے رہے بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام نہیں کیا جایے گا اور فرمایا کہ: “سابق لوگوں نے اللہ کی کتابوں کو نظر انداز کیا اور صرف نبیوں کی سنت پرپر توجہ مرکوز کی، میںاللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے درمیان الجھن کا امکان قائم نہیں کرنا چاہتا- [ڈاکٹرمحمد حمیدالله ] (تقید، مفھوم ) حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے حوصلہ افزائی کی، لیکن ان کو اس بات کا مکمل یقین نہیں تھا کہ آیاان کو آگے بڑھ کر یہ کام کرنا چاہیے نہیں؟ ایک دن، الله کی طرف سے الہام بعد انہوں نے فیصلہ کرلیا اور اعلان کیا: “میں چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و روایات لکھ لی جائیں لیکن میں ڈرتا ہوں کہ اللہ کی کتاب میں دخل اندازی ہوسکتی ہے، لہذا میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا “- اس ذہن کی تبدیلی کے بعد انہوں نے تمام صوبوں کے مسلمانوں کو ہدایت کی: “جس کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے متعلق تحریری دستاویز ہے وہ اسے تتلف کردے”.اس کے بعد احادیث کو صرف زبانی طور پر منتقل کیا جاتا رہا اور جمع کر کہ المامون کے دور میں لکھا گیا- [محمّد حسسین ہیکل] (تقید . مفھوم) حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل ہیں : عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی] (تقید ، مفھوم ) حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله تعالی) اور حدیث (ترجمہ )

اس کے علاوہ بہت سے صحابہ اکرام کی طرف سے احادیث میں یہ واضح کیا گیا ہے کے حدیث کنے لکھننے پر ممانعت کی یہی ایک وجہ تھی ... [ https://bit.ly/3uQJrcq ]

کیا یہ احدیث علماء اور محدثین کو معلوم نہیں؟ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی کتاب اکثر مدارس کے نصا ب اور لائبریریز میں مپجود ہوتی ہے- 1.اس بات کو کیوں چھپاتے ہیں ؟ 2.علم کوچھپانا گناہ ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَن سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ ”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“ [ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی] 3. حدیث کو چھپانا کیا دھوکہ اور رسول اللہ ﷺ سے خیانت نہیں؟ پہلی اقوام (یہود و نصاری ) کتاب الله کے ساتھ کتب لکھ کر گمراہ ہو گی- اس لیے صرف قرآن لکھنے کی اجازت تھی- یہ وجہ ابدی ہیو جو کہ آج بھی ثبوت موجود ہے کہ مسلمان قرآن کو نظر انداز کر کہ ٧٥ کتب احادیث میں مشغول ہیں اور فرقے واریت ، بدعت میں مشغول ہیں- یہی وجہ حضرت عمر، حضرت علی رضی الله اور عبدللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ اکرام سے منقول ہیں-

--------------------
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ: 1.حدیث لکھنے کی ممانعت کی صرف ایک وجہ تھی کہ قرآن واحد کتاب ہے اور اس کے علاوہ کوئی کتاب نہ ہو گی- 2. یہود و نصاری کی مثال سے سب کچھ مزید واضح ہوتا ہے کہ کتاب الله تعالی کے علاوہ کتب گمراہی کی وجہ ہے ، نصاری نے انجیل کلے ساتھ ٢٣ کتب اور یهود نے توریت کے علاوہ تلمود لکھی جوس کی ٣٨ ضخیم جلدیں ہیں- یہ حقیقت آج بھی موجود ہے - اگر فرصت ملے تو معلوم کرسکتے ہیں- ................................ حدیث لکھنے کی اجازت : اسی داستان #1 کا دوسرا حصہ ہے کہ جب کچھ عرصہ بعد صحابہ میں قرآن اور حدیث کا فرق معلوم کرنا آسان ہو گیا تو حدیث لکھنے کی اجازت مل گی تجزیہ : جب بنیادی وجہ ہی جھوٹ ہے تو یہ دوسرجزو بھی جھوٹی داستان کا پارٹ 2 ہوا - کچھ صحابہ حدیث لکھنے کا جذبہ اور محبت رکھتے تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ان کا حافظہ کمزور ہے اس لیے ان کو حدیث لکھنے کی اجازت دیں ، اس پر رسول اللہ ﷺ جو کہ ساتھیوں پر مہربان تھے اور نرم مزاج تھے ان کو انفرادی طور پراجا زت دی -
Weak Memory & Permission to Write:، https://docs.google.com/document/d/1NEXjyZPtJZt3xzOY397VULZgQSw5SP8sGvGG4dvU7AU/edit#heading=h.bayrqyfuifcv https://docs.google.com/document/d/1NEXjyZPtJZt3xzOY397VULZgQSw5SP8sGvGG4dvU7AU/edit#heading=h.rasmdzmuf6x8 احادیث لکھنے کی مشروط اجازت [ ترمزی حدیث نمبر: 2666 ] حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن الخليل بن مرة، عن يحيى بن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: كان رجل من الانصار يجلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فيسمع من النبي صلى الله عليه وسلم الحديث، فيعجبه ولا يحفظه، فشكا ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إني اسمع منك الحديث فيعجبني ولا احفظه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " استعن بيمينك واوما بيده للخط " , وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده ليس بذلك القائم، وسمعت محمد بن إسماعيل يقول: الخليل بن مرة منكر الحديث. ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہ آپ کی حدیثیں سنتا اور یہ حدیثیں اسے بہت پسند آتی تھیں، لیکن وہ انہیں یاد نہیں رکھ پاتا تھا تو اس نے اپنے یاد نہ رکھ پانے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کی حدیثیں سنتا ہوں اور وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں (مگر) میں انہیں یاد نہیں رکھ پاتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے داہنے ہاتھ کا سہارا لو (اور یہ کہتے ہوئے) آپ نے ہاتھ سے لکھ لینے کا اشارہ فرمایا ”۔ [ترمزی حدیث نمبر: 2666] امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند قوی و مستحکم نہیں ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل کو کہتے ہوئے سنا: خلیل بن مرہ منکر الحدیث ہے،۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14814) (ضعیف) (سند میں خلیل بن مرہ ضعیف راوی ہیں، اور یحییٰ بن ابی صالح مجہول راوی ہیں)» قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (2761) // ضعيف الجامع الصغير (813) نوٹ ؛ مجبوری ، پانی نہ میسر ہو تو تیمم کی اجازت ہے ، مگر یہ نہیں کہ وضو ختم کرکہ تیمم ہی کرتے رہیں جبکہ مجبوری ختم ہو جائیے ۔ لیکن یہ عام اجازت نہ تھی جیسا کہ جھوٹی داستان میں بیان کیا جاتا ہے- اگر عام اجازت ہوتی تو کیوں بار بار صحابہ اجازت کی درخواست کرتے ؟ اور کیوں کچھ صحابہ کو اجازت ملی اور کچھ کو انکار ہوا- ابو حرہرہ (رضی الله) ، زید بن ثابت ، عبدللہ بن مسعود ، عبدللہ بن عمر (رضی الله) اور کی صحابہ شامل ہیں جنہوں نے مرتے دم تک رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور احدیث نہ لکھتے نہ املا کرواتے - جن کو اجازت ملی کچھ اپنے ذاتی نوٹس (صحیفہ جات ) کو مٹا دیتے کچھ نے تبرک اور احترم میں محفوظ بھی کیا ہوگا - ذاتی نوٹس کو کتاب نہیں کہ سکتے . قرآن کی آیات بھی ذاتی نوٹس میں تھیں ان کو قرآن نہیں کہ سکتے - جب کہ سب کو معلوم تھا کہ کتاب صرف ایک قرآن ہے اسی لیے کسی نے حدیث کی کتاب لکھنے کی کوشش نہ کی- اگربعد میں حدیث لکھنے کی عام اجازت ہوتی تو سب سے پہلنے ابو ھریرہ اپنی کتاب لکھتے - سرکاری دستاویز ، زکات وغیرہ کے احکام ، خطوط، حساب کتاب ، ریاست میں لکھے جاتے ہیں ان کو حدیث کی کتب لکھنے کا جواز بنانا حماقت نہیں تو کیا ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم اور خلفا راشدین کا اجماع سنت سب کو معلوم ہے اس کا انکار بدعت نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انکار (لغوی کفر) ہے . فرمان رسول اللہ ﷺ : ” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” [رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ4607 ، الأربعون النووية وَاَلتِّرْمِذِيُّ [رقم:, 266] وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)] الله تعالی کا فرمان : اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً اللہا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (22) اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سُننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سُنواتا تو وہ بے رُخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے (23) اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے (24) اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے (قرآن: 8:25 )

Why was Caliph Umar bin Al-Khattab Averse to Hadith Book writing and Burnt Hadith Notebooks?

https://docs.google.com/document/d/1NEXjyZPtJZt3xzOY397VULZgQSw5SP8sGvGG4dvU7AU/edit#heading=h.19gmhn9aqgw8

ایک جھوٹ کو کوور کرنے کے لیے جھوٹوں کی قطار لگ جاتی ہے - ثابت ہو کہ : 1.حدیث لکھنے پر پابندی رسول اللہ ﷺ کا حکم تھا ، 2. یہ حکم عارضی نہیں بلکہ مستقل تھا ، وجہ بھی ، مستقل ہے جو آج بھی موجود ہے کہ کتاب الله تعالی صرف ایک ہے کوئی دوسری کتاب نہیں ہو گی 3. کچھ صحابہ کو لکھنے کی اجازت انفرادی طور پر ملی جو حافظہ کی کمزوری کا عذر تھا ، یہ استثنا تھا ، جیسا کہ مجبوری میں بیٹھ کر ، لیٹ کر نماز پڑھنا مجبوری ہوتی ہے - لیکن یہ اجازت انفرادی تھی- حدیث کنے حفظ و بیان کی اجازت تھی، یہ سلسہ صدیوں قائم رہا ، عوام میں کتب احدیث کی قبولیت میں اعتراض تھا ، البخاری پہلی مرتبہ حجرہ 464/ 1072 ع نشا پور مدرسہ میں پہلی بار پڑھی گی- 4. اگر کوئی شک شبہ راہ جاتا ہے تو خلفا راشدین کے اجماع سنت میں کتابت حدیث نہ ہے اور ان کی سنت پر عمل اور دانتوں سے پکڑنے کا حکم رسول اللہ ﷺ کا ہے جس کا انکار بدعت نہیں انکار (کفر لغوی ) ہے . فتوی کوئی مفتی صاحب ہی دے سکتے ہیں میرا اختیار نہیں - ترجمہ : "اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً اللہا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (22) اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سُننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سُنواتا تو وہ بے رُخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے (23) اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے (24) اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (8:25قرآن ) اختتامیہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے (قرآن :5:3) یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع [ جمعہ ،9ذوالحج، 10حجرہ / 6 مارچ 632ٌٌ] کو نازل ہوئی- کمال کے بعد زوال شروع ہوا، بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- ایک سچے مسلم کی خواہش اور کوشش ہونا چاہیے کہ وہ اصل "دین کامل- اسلام" کی بحالی کی عملی جدوجہد کرے جو کہ ان خرابیوں سے پاک ہوجو دین اسلام میں داخل ہو گیئں- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺ ، ہترین نمونہ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی متواتر سنت (عمل) اوراحادیث (اقوال ) موجود ہیں - حدیث کا میعاررسول الله ﷺ نے مقرر فرمایا اور محدثین نے بھی[1] لیکن جو احادیث اس میعار پر پورا نہ بھی اتریں، ان کا احترم کرنا چاہیے، فضائل، سیره اور تاریخی اہمیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے- قرآن مجید آخری رسول محمد صلی الله علیہ وسلم پر تئیس سالوں میں نازل ہوا ، جو حفظ و تحریر کے ذریعہ محفوظ کیاگیا- پہلے دوخلفاء راشدین مہدیین کی کوششوں کے نتیجہ میں ،. کتاب کی شکل میں قرآن مجید کو اکٹھا کرکہ بعد میں دوبارہ جانچ پڑتال کے بعد ، تیسرے خلیفہ حضرت عثمان (رضی الله) نے قرآن کی مستند مجلد کاپیاں تیار کرواکہ امت میں تقسیم کردیں ۔ قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله، راہ هدایت ہے-مسلمانوں کو دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے "دین کامل: اسلام" کو بحال کرنے کی پرامن انداز میں کوشش کرنا ضروری ہے۔ یہ کام ہونا ہے جب الله تعالی کو منظور ہوگا وہ کروا لے گا مگر ہمارا امتحان ہے کہ ہم نے اس جدوجیہد میں کیا کردار ادا کیا؟ جب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی خلاف درزی اور اصل بدعات کبیرہ کا ہمیں علم ہوا تو ہم کدھر کھڑے تھے؟ رسول اللہ ﷺ اور خلفا راشدین کے ساتھ یا ان کے احکام کو مسترد کرنے والوں کے ساتھ؟ بروز قیامت الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کو کس منہ سے فیس کریں گے ؟ الله تعالی ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں پر مغفرت عطا فرمایے اورصراط مستقیم پر چلنے کی ہمت و طاقت عطا فرمایے- لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ‎﴿٤٢﴾‏ تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً الله سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن :8:42)

جھوٹ اور وہ بھی دین کے معامله میں وہ بھی قرآن کے مقابل آج ٧٥ کتب ...
اب یہ حقیقت آج بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہود نے تورہ / تورات کے یلوش تلمود لکھی جس کے ٣٨ ضخیم جلدیں ہیں اور تورات کو چھوڑ دیا - اسی طرح مسیحیوں نے انجیل کو چھوڑا اور ٢٣ کتب عہد نامہ جدید میں شامل کیں ، یہود و نصاری گمراہ ھوے- 
مسلمانوں نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی بات ./ حکم پر ٢٥٠ سال عمل کیا پھر احادیث کی کتب لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج ٧٥ کتب احدیث کی ہیں اور ایک قرآن تلاوت تک محدود ہو گیا ہے- مسلمان کہتے ہیں کہ ہم ذلیل و خوار کیوں ہو رہے ہیں؟ اسلام : دین کامل کے احیاء میں ہی سب کچھ پوشیدہ ہے -
حق کو دلیل سے واضح کرنا ہوگا ، بہت جدوجہد کی ضرورت ہے ، صدیوں سے گمراہی اور جھوٹ کے گرد ع غبار سے سچ ، حقیقت کو نکلنا ہو گا --- قران سے مدد ملے گی :

 لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ(قرآن : ‎(8:42
 تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن : ‎(8:42 

اللہ کے حکم (دین) پر قائم رہنے والوں کو مخالفت کی پرواہ نہ کرنی چاہیے : ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم (دین) پر قائم رہنے والا ہوگا، اس کی مخالفت کرنے والا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا ۔ (ابن ماجہ 7) 
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: ١٤٢٧٨، ومصباح الزجاجة: ٣)، وقد أ خرجہ: مسند احمد (٣/٤٣٦، ٤/٩٧) (حسن صحیح )
 قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿١١١﴾‏ پنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو (2:١١١)
 لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ(قرآن : ‎(8:42 
تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن :

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]


~~~~~~~~~

🌹🌹🌹
 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

پوسٹ لسٹ