حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کا ایک حواری پطرس(Peter) بھوک سے نڈھال ہوا اورآسمان سے خوان آیا جس میں سب حلال حرام تھا اور آواز آئی کہ کھا و اور"حرام" ، پھر "حلال" ہو گۓ خزیر بھی حلال ہو گیا مسیحت میں ، جبکہ سور شریعت موسوی میں ناپاک و حرام ہے (بائبل ،احبار 11:7،بائبل (یسعیاہ 5-65:1) (Isaiah 65: 1-5) - یہود کے رسول حضرت عیسی علیہ السلام شریعت موسوی پر کاربند تھے, آپ کا فرمان آج نہی متی انجیل میں موجود ہے :
“یہ نہ سمجھو کہ میں موسیٰ کی کتاب شریعت اور نبیوں کی تعلیمات کو منسوخ یا بیکار کرنے کیلئے آیا ہوں میں ان کو منسوخ کر نے کے بجائےان کو پورا کرنے کیلئےآیا ہوں۔ میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں کہ زمین و آسمان کے فنا ہونے تک شریعت سے کچھ بھی غائب نہ ہوگا۔شریعت کا ایک حرف یا اسکا ایک لفظ بھی غائب نہ ہوگا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ ہر حکم بلکہ چھوٹے احکام کی بھی تعمیل میں فرمانبردار بنیں۔اگر کوئی ان احکامات میں سے کسی ایک کی تعمیل میں نافرمانی کرے اور دوسرےلوگوں کو بھی اس نا فرمانی کی تعلیم دے تو وہ خدا کی بادشاہت میں انتہائی حقیر ہوگا۔لیکن اگر وہ شریعت کا فرمانبردار ہوکر زندگی گزارنے اور دوسروں کو شریعت کا پابند ہونے کی تلقین کرنے والا خدا کی بادشاہت میں بہت اہم ہوگا۔- لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ معلمین شریعت سے اور فریسیوں سے بہتر کام ہی تم کو کرنا چاہئے ورنہ تم خدا کی بادشاہت میں داخل نہ ہو سکو گے۔[انجیل ، متی 5: 17 سے 19]
ایک مبہم خواب نے شریعت کو منسوخ کر دی!
"---- اس وقت پطر س اوپر چھت پر دعا کر نے کو چڑھا یہ دوپہر کا وقت تھا۔ پطرس بھوکا تھا۔اور کچھ کھا نا چاہتا تھا لیکن جب وہ لوگ کھانا تیار کر رہے تھے اس وقت پطرس نے رویا (خواب) میں دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ آسمان کھل گیا اور ایک چیز جیسے ایک بڑی چادر ہو زمین کی طرف آرہی ہے اس کے چاروں کو نے پکڑے ہو ئے تھے۔ اس میں ہر قسم کہ جانور کیڑے مکوڑے چوپائے اور پرندوں جو ہوا میں اڑتے ہیں اس میں مو جود تھے۔ تب ایک آواز نے پطرس سے کہا، “اٹھ اے پطرس! ان میں سے کسی بھی جانور کو مارو اور اس کو کھا جا ؤ۔” لیکن پطرس نے کہا، “اے خداوند میں ایسا نہیں کر سکتا میں نے ایسی کوئی غذا نہیں کھا ئی جو صاف نہ ہو اورناپاک ہو۔” لیکن دوسری بار آواز آئی اور کہا، “خدا نے یہ سب تمہارے لئے پاک کر دیا ہے اور انہیں نا پا ک نہ کہو۔”اس طرح تین بار ایسا ہی ہوا اور پھر وہ تمام چیزیں آسمان پر اٹھا لی گئیں۔ [رسولوں10, 9-16]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :-
تم لوگ ٹھیک پہلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلو گے یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس کر رہو گے۔کسی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! پہلی امتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاری ہیں ؟ ارشاد فرمایا تو اور کون؟ (صحیح بخاری ، 3456)
اس حدیث مبارکہ سے یہود و نصاری، جو کہ کتاب الله کو چھوڑ کر دوسری کتب لکھ کر گمراہ ہوے ان کے نقش قدم پر چلنے سے ممانعت مقصود ہے نہ کہ ترغیب اور پیشین گوئی بھی ہے کہ مسلمان اس گمراہی کے راستہ سے باز نہ آیئں گے- الله تعالی ہم کو محفوظ رکیھے کہ یہود و نصاری کے گمراہی کے راستہ پر چلنے سے-
خواب (vision) سے الله اور رسول کے واضح احکام کو بدلنا مسیحیت میں سینٹ پال نے شروع کیا تھا- پال جس کا اصل نام ساول (Saul) تھا اور وہ ایک یہودی عالم، رومن شہری تھا جو حضرت عیسی علیہ السلام کا سخت محالف تھا ان کے بعد 36عیسوی میں دمشق کی طرف دوران سفر خواب (vision) میں حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھنے کے دعوے کی بنیاد پرحضرت عیسی علیہ السلام کے12 حواریوں میں تیرواں حواری بن کرزبردستی شامل ہوا- پال نے اس خواب کی بنیاد پر مسیحیت کو غیر یہودی اقوام میں پھیلانےاورعجیب وغریب نظریات سے حضرت عیسی علیہ السلام کے توحید کے پیغام کو جو اب بھی موجودہ انجیل میں موجود ہے، اسےایک مشرک مذھب بنا دیا- سینٹ پال نے لکھا : "جو شریعت پہلی دی گئی تھی وہ ختم ہو گئی کیوں کہ وہ کمزور اور بے فائدہ تھی۔" [عبرانیوں 7:18 Hebrews ]
St. Paul the Apostle, original name Saul of Tarsus, [born 4 BCE, Tarsus in Cilicia,now in Turkey,died c. 62–64 CE, Rome,Italy], one of the leaders of the first generation of Christians, often considered to be the most important person after Jesus in the history of Christianity.[more ...]
مسیحی بائبل عہد نامہ جدید کی 27 میں سے 14کتب سینٹ پال سےمنسوب ہیں- یہ کتب انجیل کی تعلیمات کو بے اثر کرتی ہیں- اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے علاوہ کسی اور "کتاب" سے منع فرمادیا :
أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟
کیا تم کتاب الله کے علاوہ اور کتابیں چاہتے ہو؟
پہلی اقوام, کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھ کر گمراہ ہوگئیں [تقیدالعلم ]
نوٹ : اہم نقطہ قرآن کے علاوہ کسی "کتاب" سے منع فرمایا- کسی کو کمزور حفظ پر احادیث کے ذاتی نوٹس، تحریر کی اجازت دی ,سرکاری خطوط ،مشکل حساب کتاب، دیت ،زکات کا حساب کتاب وغیرہ لکھنے کی اجازت تھی، مگرحدیث کی کتاب لکھنے کی نہیں ، حفظ و بیان کی عام اجازت تھی- یہ بات مزید احادیث اورسنت خلفاء راشدین سے بلکل واضح ہو جاتی ہے بلا شک و شبہ- یہ معامله اتنا زیادہ اہم ہے کہ اگر احدیث کی کتب لکنے کے ایک ملین فائدے ہوں تو ایک ٹریلین نقصانات ہیں، (اہل کتاب کی غلطی و گمراہی کی مثال کیا کافی نہیں؟) اگرچہ اللہ اور رسول اللہﷺ کے احکامات کو اپنی ناقص عقل سے پرکھنا ویسے ہی خلاف عقل ہے، درست نہیں ...
وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ :ترجمہ : ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (قرآن 2:285)
قرآن نے اس طرح علماء اور مذہبی پیشواؤں کے ہر بات کو قبول کرنے کو "أَرْبَابًا" (اللہ کے سوا اپنا رب بنا نا) یعنی شرک قرار دے ہے :
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (9:31)
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
ترجمہ : " اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے جو ایک دوسرے کو دھوکہ و فریب دینے کے لیے بناوٹی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں اور اگر آپ کا پروردگار (زبردستی) چاہتا، تو یہ ایسا نہ کرتے پس آپ انہیں اور جو کچھ وہ افترا کر رہے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ (قرآن 6:112)
صدیوں سے مسلمانوں نے بھی کچھ علماءحضرات کو مسیحی علماء اور مذہبی پیشواؤں، پوپ (Pope) کی طرح معصوم بلخطاء (infallable) کا درجہ دے کر ان کے کآموں ، نظریات اور تحریروں کا قرآن و سنت کے مطابق تجزیہ نہ کیا اور ان کی ہر بات کواندھا دھند قبول کر لیا اور ان کی غلطیوں، گمراہیوں میں حصہ دار بن گۓ-
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (4:85)
اگر کسی بزرگ، عالم دین نے بظاھر کوئی بہت نیک اور اعلی عمل کیا تو اللہ بروز قیامت سب کے نیک اور برے اعمال کا وزن کرکہ پورا انصاف کرے گا:
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾
قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا جس کا رائی کے دانے کے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں (21:47)
اس لیے کسی مسلمان کو کسی بزرگ کی غلطیوں کا وکیل بننے کی بجایے، ان کا معامله اللہ پر چھوڑنا ہے ,اللہ نے فرمایا :
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)
^ مسلمان بھی یہود و نصاری کے نقش قدم پر>>>
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا
رسول اللہ ﷺ نے خوابوں کی بنیاد میں دین کامل اسلام میں تبدیلی ، بدعة کا دروازہ بند کر دیا جب آپ نے فرمایا :
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں زہری نے، کہا مجھ سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو کسی دن مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ ابن سیرین نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شخص آپ کی صورت میں دیکھے۔ (صحيح البخاري,حدیث نمبر: 6993 ; كِتَاب التَّعْبِيرِ, کتاب: خوابوں کی تعبیر کے بیان میں, 10. بَابُ مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ:10. باب: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔)
بیداری میں دیکھنے کا مطلب ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو وہ پھر بیداری میں بھی ضرور دیکھے گا لہذا یہ حدیث صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ خاص ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد دنیا میں بیداری کی حالت میں جو شخص آپ کی زیارت کا دعویٰ کرتا ہے اس کے خلاف بہت بڑا رد اور جواب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ـ
وَمِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْن (المؤمنون:100) ’
’اور ان کے پیچھے اس دن تک پردہ ہے جب لوگ اٹھائے جائیں گے‘‘۔
برزخ کا قانون یہ ہے کہ برزخ سے لوٹ کر کوئی دنیا میں نہیں آتا اور قیامت اور بعث و نشر سے پہلے دوسری زندگی نہیں ملتی [مفتی محمد شفیع]
اسلام میں خوابوں کی بنیاد پر دین کامل میں تبدیلی و بدعات کا چور دروازہ بند کردیا - قرآن وسنت میں مکمل راہنمائی موجود ہے- خواب دوسروں کےلیےحجت نہیں نہ ہی شریعت ، قرآن ع رسول اللہ( صلعم ) کے احکام کو تبدیل کر سکتے ہیں-
نبی ﷺ کو خواب میں دیکھاجاسکتاہے مگر یہ بات واضح رہے کہ آپ کو دیکھنے والا اصلی صورت پہ دیکھاہوجیساکہ ایک حدیث (بخاری 110) سے اشارہ ملتاہے کہ شیطان میری صورت اختیارنہیں کرسکتاہے ۔اس کا مطلب یہ ہواکہ شیطان دوسری صورت اختیارکرکے انسان کو خواب کے ذریعہ یہ تصوردے سکتاہے کہ میں ہی نبی ہوں۔ ممکن ہے شیطان بزرگ کی صورت اختیارکرکے آئے ۔ اس لئے خواب دیکھنے والے کو نبی ﷺ کا حلیہ مبارک صحیح سے معلوم ہونا چاہئے, جو کہ صرف صحابہ اکرام کے لیے ہی ممکن ہے کہ وہ یہ شرط پوری کر سکیں: "جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو کسی دن مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا"-
واضح رہے کہ قرآن ، رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین کے واضح احکام اور سنت کو خوابوں کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا- اس طرح روز کوئی نہ کوئی "اسلام - دین کامل" (قرآن5:3) میں یہود و نصاری کی طرح نئ نئ ترامیم (amendments) جاری کرتا پھرے گا - اور احکام، شریعت کو تبدیل کرے گا جو کہ ناممکن ہے-
ذیل میں امام بخاری (رح) کے خواب اور تدوین کتاب حدیث کو ڈسکس کیا گیا ہے ، یہ ایک مثال ہے جو کہ تمام کتب حدیث لکھنے والوں پر لاگو ہو سکتی ہے،چاہے کسی نے خواب یا کسی اور وجہ سے یہ کام کیا ہو!
~~~~~~
وجہ تالیف الجامع الصحیح البخاری-1
البخاری کتاب کی جلد اول میں دیباچہ / تعارف میں امام بخاری (الله تعالی ان پر رحم فرماے) اور دوسروں کے خواب کا ذکر ہے- ان خواب کی بنیاد پر اس کتاب کو رسول اللہ ﷺ کی خواہش یا اجازت کی بنیاد پر ایک طرح کی سند کا درجہ حاصل ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے- اس طرح سے اس کتاب کی مسمانوں میں ایک مستند کتاب حدیث کے طور پر قبولیت آسان ہو جاتی ہے- اس کتاب کی تحریرکے باوجود علماء اور عوام میں اس کو فوری طور پر قبول نہ کیا ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین کی طرف سے احدیث کی کتب لکھنے پر پابندی کے حکم کے برخلاف کوئی کام، عمل درست نہیں ہو سکتا چاہے بظاھر اس میں بہت فائدے نظر آیئں. امام بخاری کی وفات 256ھ/ 870ء میں ہوئی ،دو صدی کے بعد 464 حجرہ /1072عیسوی میں پہلی بار نیشاپور کے دارالعلوم میں اس کو پڑھا گیا-
1. امام بخاری کا مبارک خواب:
حدیث رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ (امام بخاری رح ) کے قلب مبارک میں ایک خاص الخاص جذبہ تھا۔ ایک رات آپ خواب دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں اور آپ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہو کر پنکھا جھل رہے ہیں اور مکھی وغیرہ موذی جانوروں کو آپ سے دور کر رہے ہیں۔ بیدار ہو کر معبرین سے تعبیر پوچھی گئی تو انہوں نے بتلایا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پاک کی عظیم خدمت انجام دیں گے۔ اور جھوٹے لوگوں نے جو احادیث خود وضع کر لی ہیں، صحیح احادیث کو آپ ان سے بالکل علیحدہ چھانٹ دیں گے۔
2.دوسرا مبارک خواب:
اسی سلسلہ میں نجم بن فضیل اور وراق بخاری کا خواب بھی قابل لحاظ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر شریف سے باہر تشریف لائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدم مبارک اٹھاتے ہیں، امام بخاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کی جگہ پر اپنا قدم رکھ دیتے ہیں۔
3.تیسرا مبارک خواب:
ابو زید مروزی کا خواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ میں رکن اور مقام کے درمیان بیت اللہ کے قریب سو رہا تھا۔ خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ابوزید! کب تک شافعی کی کتاب کا درس دیتے رہو گے اور ہماری کتاب کا درس نہ دو گے۔ عرض کیا حضور «فداك ابي وامي» آپ کی کتاب کونسی ہے؟ فرمایا جسے محمد بن اسماعیل بخاری نے جمع کیا ہے۔
خواب میں رسول اللہ ﷺ کو کون دیکھ سکتا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو کسی دن مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ ابن سیرین نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شخص آپ کی صورت میں دیکھے۔ (صحيح البخاري,حدیث نمبر: 6993)
اس حدیث کے مطابق امام بخاری ( رح ) کا خواب اور دوسرے خوابوں کی بنیاد پر "کتاب احادیث " لکھنا کا جواز پیدا کرنا درست نہیں:
1. اس حدیث کے مطابق صرف صحابہ اکرام ہی رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ان کو ویسے بھی دیکھتے- ایام بخاری صحابی نہیں دوصدی بعد وہ رسول اللہ ﷺ کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جنکہ وہ عالم برزخ ، جنت میں ہیں-
2. رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر احدیث کی کتب لکھنے پر پا بندی لگائی, وصیت فرمائی (ابی داوود 4607,ترمزی 266)
کہ اختلاف میں خلفاء راشدین مہدین کی سنت کو دانتوں سے پکڑو، رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کے انکارکو بدعت کہنا بھی درست نہی یہ کھلم کھلا رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہے-
3. خلیفہ راشد دوئم حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) کا استخارہ
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُعَدِّلُ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، هُوَ الرَّمَادِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ، فَاسْتَشَارَ فِي ذَلِكَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , فَأَشَارُوا عَلَيْهِ أَنْ يَكْتُبَهَا فَطَفِقَ عُمَرُ يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِيهَا شَهْرًا , ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا وَقَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ , فَقَالَ: «إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَكْتُبَ السُّنَنَ وَإِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كُتُبًا فَأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا»( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ، جلد:1 صفحه : 49)
ہمیں علی بن محمد بن عبد اللہ معدل ، ہمیں اسماعیل بن محمد الصفر نے بتایا ، ہمیں احمد بن منصور نے بتایا ، رمادی ہے ، ہمیں عبدالرزاق نے بتایا ، ہم نے معمر کو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ، عروہ ابن الزبیر سے کہا کہ:
"عمر بن الخطاب سنن لکھنا چاہتنے تھے ، اصحاب رسول اللہ ﷺ سےمشورہ کیا تو انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اسے لکھیں، لیکن عمر نے اس کا انتظار کیا کہ وہ ایک مہینہ اللہ سے استخارہ کریں، پھر ایک دن آیا ،عَزَمَ اللَّهُ (اللہ کی مرضی) (God's will) سے کہا: "میں نے ارادہ کیا کہ سنن لکھوں گا ، مگر پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا، اللہ کی قسم میں کتاب اللہ کو کبھی بھی کسی بھی چیز کا لبادہ (لباس) نہیں پہناوں گا"( تقييد العلم ، الخطيب البغدادي ، جلد:1 صفحه : 49)
حضرت عمر بن الخطاب نے "عَزَمَ اللَّهُ" (اللہ کی مرضی God's will) سے احادیث کی کتابت کا ارادہ مسنوخ کر دیا اور ساتھ ہی وہی وجہ بیان کی جو رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ ، پہلی اقوام نے کتابیں لکھیں اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا- اگر رسول اللہ ﷺ کو اپنا حکم تبدیل کرنا ہوتا تو یہ بہترین موقع تھا کہ وہ حضرت عمر بن الخطاب کی رہنمائی فرماتے، اور اگر وہ خواب میں تشریف لاتے تو حضرت عمر بن الخطاب ان کو پیچاں بھی لیتے- مگر اللہ نے حضرت عمر بن الخطاب کی رہنمائی فرما دی اور یہ معامله ختم ہو گیا- استخارہ ایک مسنون طریقه ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا اور اس کے بعد عَزَمَ اللَّهُ" (اللہ کی مرضی God's will) سے حضرت عمر بن الخطاب کا کتابت حدیث نہ کرنے کا فیصلہ بہت اہم ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بلند روحانی مقام ان کے مناقب اور رسول اللہﷺ کے فرامین سب کو معلوم ہیں، جس پرمزید بات کی ضرورت نہیں- مزید:-
- حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اجتہاد
- عظیم فاتح: اﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ یا ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ؟
- حضرت عمر (رضی الله) کا اہم ترین کارنامہ
- سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث
~~~~~~~
اب سینٹ پال یا سینٹ پطرس کی طرح اسلام : دین کامل میں بدعة . احکام قرآن اوفرامین رسول اللہ ﷺ کی منسوخی کی کوئی گنجائش نہیں. مگر افسوس کے دین کامل اسلام کے محافظ بھی یہود و نصاری کے گمراہی کے راستہ پر چل پڑے اور مزید افسوس کہ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ سچ کو تلاش کر کہ غلطیوں کا ازالہ کرے اور الله تعالی ، رسول اللہﷺ کے احکامات پی عمل درآمد کریں-
نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَفَّانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ فَقَالَ عَنْ أَبِيهِ لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ مُسْلِم يَقُولُ يَجْرِي الْکَذِبُ عَلَی لِسَانِهِمْ وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْکَذِبَ (صحیح مسلم, حدیث نمبر: 40)
ترجمہ: محمد بن ابی عتاب، عفان، حضرت سعید بن قطان اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ابن ابی عتاب نے کہا کہ میری ملاقات سعید بن قطان کے بیٹے سے ہوئی میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ کہتے تھے کہ ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے۔ [صحیح مسلم, حدیث نمبر: 40]
~~~~~~~~
"کتب حدیث" اور احادیث
"کتب" حدیث اور "حدیث " دو الگ چیزیں ہیں، "کتب حدیث" رسول اللہ ﷺ نے ممنوع قرار دی اور حدیث کے بیان کی اجازت دی- کچھ صحابہ اکرام کو کمزور حافظہ کی وجہ سے لکھنے کی خاص طور پرانفرادی اجازت دی اور کچھ کو اجازت نہ دی- لیکن اس اجازت کے باوجود کتاب صرف ایک ، کتاب اللہ قرآن ، اور حدیث کے حفظ و بیان کی اجازت عطا فرمائی-
ایک مثال؛ انگور حلال ہے، اس سے کشمش بنتی ہے، جوس بھی جو حلال ہے اور اس سے شراب بنتی ہے جو حرام ہے- اگر کوئی انگور کے باغ سے کچھ انگور چوری کرکہ شراب بناتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو کیا انگورکے پھل کو دنیا سے ختم کر دیں؟ یا یہ کہ شراب کو تلف کر دیںاور آیندہ انگور چوری کرکہ شراب بنانا بند کریں- حلال پھل، انگور سے جو فوائد ہیں وہ حاصل کرنا ہی عقلمندی ہے-
بھیڑ الله تعالی کا نام کے کر شرعی طریقہ سے ذبح کریں تو حلال ہے اور جھٹکے سے یا گلا گھونٹ کر ما ر دیں تو حرام- اللہ کے احکام اوررسول اللہ ﷺ کی سنت، شریعت کی بنیاد ہیں جس کو کوئی شخص اپنی عقل کے دلائل یا "نظریہ ضرورت" کی بنیاد پر تبدیل نہیں کر سکتا-
جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟
کیا تم کتاب الله کے علاوہ اور کتابیں چاہتے ہو؟ پہلی اقوام, کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھ کر گمراہ ہوگئیں [تقید]
تو حیلوں بہانوں سے اصحاب سبت کی طرح اس حکم پر عمل نہ کرنا جبکہ خلفاء راشدین کو رسول اللہ ﷺ نے اختلافات میں فیصلوں کا اختیار دیا اور ان پر سختی سے عمل کا حکم دیا تو اس کے خلاف کوئی وجہ ، بہانہ ، حجت ، دلیل مسترد ہے-
لیکن احادیث میں اقوال اورسنت رسول اللہ ﷺ بھی ہیں ان سے فائدہ حاصل کرتے رہنا ہے مگرممنوع طریقہ کی بجایے حلال طریقہ سے، رسول اللہ ﷺ نے حدیث کی درستگی اور پہچان کا جو طریقہ فرمایا اس کے مطابق- اوراق پر حدیث کی کتب ممنوع ہیں،اب ڈیجیٹل دور ہے، علماء اس پر غور فرمائیں اور اجتہاد سے کوئی حل ڈھونڈیں-
قرآن کی تدوین کا اہم کام خلفاء راشدین نے خاص اہتمام سے کیا اور کاتب وحی زید بن ثابت کی ذمہ داری میں حفاظ اور صحابہ اکرام نے مل کر ہر آیت پر دوعینی شہادت پر قبول کیا حالانکہ وہ لوگ خود بھی حافظ تھے -
1. واضح رہے کہ احددیث کی ہرایک کتاب ایک فرد واحد کا کارنامہ ہے، وہ بھی سو، ڈھائی سو سال بعد جو کہ نہ صحابی تھا ، نہ ہی اس کو رسول اللہﷺ یا خلفاء راشدین کی طرف سے یہ ذمہ داری دی گی تھی - بلکہ رسول اللہ ﷺ اور خلفا راشدین کی طرف سے اس کا م سے منع فرمایا گیا تھا-
2.رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ حدیث کی درستگی اور پہچان کے میعار کو مسترد کرکہ اپنی طرف سے اسناد کی بنیاد پر صحیح، حسن . ضعیف اورمختلف اقسام کے درجات بنایے گۓ یہ بھی بدعة ہے -
3. حدیث یا درست ہو گی یا نہیں ، کیونکہ اس کی بنیاد پرقرآن کی تفسیر ، اہم شرعی اور فقہی مسائل کا حل نکلنا ہے جس میں غلطی کی گنجائش نہیں- ایسا مواد تاریخ کا حصہ تو ہو سکتا ہے لیکن مقدس کلام رسول اللہ ﷺ کیسے کہ سکتے ہیں جس پر جھوٹ کا شبہ ہو؟ کیا محدثین کو یہ حدیث یاد نہیں:
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَکْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَکْذِبْ عَلَيَّ يَلِجْ النَّارَ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)
ترجمہ:
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ اس نے سنا حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)
یہ اہم ترین حدیث ، متواتر ہے ، جسے 62 را ویوں نے رپورٹ کیا ہے-
4. اس لیے "کتب حدیث"، جس کام کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی وصیت (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) اورسنت خلفاء راشدین (رضی الله) کی نافرمانی پر ہو وہ بظاھر کتنا بھی فائدہ مند معلوم ہو وہ کیسے پر درست ہو سکتا ہے؟
5. لیکن اس بدعة یا نافرمانی کے باوجود حدیث کی اپنی اہمیت و مرتبہ کم نہیں ہوتا- حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے منسوب کلام اور سنت ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک حدیث کو رسول اللہ ﷺ ہی کے مقرر کردہ حدیث کی درستگی اور پہچان کے میعار پر پرکھا جایے اور پھر قبول کیا جایے-
اب بھی احادیث سے استفادہ کرنا چاہیے جو کہ ممکن ہے >>>>
~~~~~~
وجہ تالیف الجامع الصحیح البخاری-2
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری میں تفصیلا لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے پاکیزہ زمانوں میں احادیث کی جمع و ترتیب کا سلسلہ کماحقہ نہ تھا:
" ایک تو اس لئے کہ شروع زمانہ میں اس کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں قرآن مجید اور احادیث کے متون باہمی طور پر گڈمڈ نہ ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے حافظے وسیع تھے۔ ذہن صاف تھے۔ کتابت سے زیادہ ان کو اپنے حافظہ پر اعتماد تھا اور اکثر لوگ فن کتابت سے واقف نہ تھے"۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کتابت احادیث کا سلسلہ زمانہ رسالت میں بالکل نہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وجوہ بالا کی بنا پر کما حقہ نہ تھا۔ پھر تابعین کے آخر زمانہ میں احادیث کی ترتیب وتبویب شروع ہوئی۔ بعد میں بہت سے لوگوں نے جمع احادیث کی خدمت انجام دی اور دوسری صدی کے آخر میں بہت سی مسندات وجود پذیز ہو گئیں جیسے مسند امام احمد بن حنبل، مسند امام اسحق بن راہویہ، مسند امام عثمان بن ابی شیبہ، مسند امام ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں سید المحدثین امام الائمہ امام بخاری رحمہ اللہ کا دور آیا۔ آپ نے ان جملہ تصانیف کو دیکھا، ان کو روایت کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کتابوں میں صحیح اور حسن ضعیف سب قسم کی احادیث موجود ہیں۔ پھر ایک خواب ....(پہلے بیان کیا جا چکا ہے) ماخوز از "سوانح حیات امام بخاری رحمہ اللہ")
تجزیہ :
یہ ایک مشہور داستان کہ : "شروع میں حدیث لکھنے پر پابندی تھی کہ کہیں قرآن مجید اور احادیث کے متون باہمی طور پر گڈمڈ نہ ہوجائیں۔" یہ داستان صدیوں سے گردش میں ہے کسی حدیث نہ قرآن سے یہ ثابت ہے، لگتا ہے کہ یہ داستان صرف حدیث کی کتب لکھنے کے جواز کو مضبوط کرنے کے لیے بہت بعد میں گھڑا گیا- اب یہ داستان بہت مشھور ہے یہ ہے دین اسلام کا المیہ:
تفصیل ملاحضہ فرمائیں : من گھڑت داستانوں سے حقائق مسخ ، رسول اللہﷺ کی حکم عدولی
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حادیث لکھنے کی ممانعت کے دائمی حکم کی وجہ پہلی امتوں کا دوسری کتب لکھ کر کتاب اللہ کو ترک کرنا - اس حکم کو خلفاء راشدین نے بھی نافذ کرکہ شک وشبہات کا ہمیشہ کےلیتے خاتمہ کر دیا: مزید آخر میں لنکس پر-
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّرَّاجُ، بِنَيْسَابُورَ,حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ , حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَنَحْنُ نَكْتُبُ الْأَحَادِيثَ , فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي تَكْتُبُونَ؟» , قُلْنَا: أَحَادِيثَ سَمِعْنَاهَا مِنْكَ. قَالَ: «أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟ مَا أَضَلَّ الْأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَّا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ» . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ , تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . كَذَا رَوَى لَنَا السَّرَّاجُ هَذَا الْحَدِيثَ , وَرَوَاهُ غَيْرُ الْأَصَمِّ , عَنِ الْعَبَّاسِ الدُّورِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ , فَاللَّهُ أَعْلَمُ
مفھوم :
ہمیں ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبد اللہ السراج ، بِنَيْسَابُورَ نے ، ہمیں ابو عباس محمد بن یعقوب الْأَصَمُّ نے ، عباس الدوری کو بتایا ، ہمیں عبد اللہ بن عمرو نے بتایا ، کہا: ہمیں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اپنے والد سے ، عطا بن یاسر سے ، ابوہریرہ کے اختیار پر، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ (ص ) نے کہا: یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:
کیا آپ کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہیں؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔
ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: "ہاں ، میرے بارے میں بات کرو ، کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔" اسی طرح ، سراج نے ہم سے یہ حدیث بیان کی ، اور اسےالْأَصَمِّ کے علاوہ کسی اور نے عباس الدوری، عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ کے ذریعہ ، عبد اللہ ابن الرحمٰن کے اختیار سے روایت کیا۔ فَاللَّهُ أَعْلَمُ ["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33]
اس حدیث (الحديث : ٣٣, تقييد العلم) میں بیان کردہ واقعہ میں جضرت ابوهریره (رضی الله) موجود اور شامل تھے جنہوں نے 7 یا 8 حجرہ کو اسلام قبول کیا اورتقریبا تین سے چار سال تک رسول اللہ ﷺ کی قربت میں رہے- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یھاں حدیث لکھنے کی ممانعت کا واقعه نزول قرآن کے آخری 3 یا 4 سالوں میں پیش آیا- رسول اللہ ﷺ کا وصال 10 حجرہ میں ہوا، تو اس حدیث کا زمانہ کم از کم نزول قرآن سے انیس (19) یا بیس (20) سال بعد کا بنتا ہے اوراگر زیادہ سے زیادہ شمار کریں تو 23 سال (حجرہ 10)- اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یھاں حدیث لکھنے کی ممانعت کا زمانہ نزول قرآن کے شروع کا زمانہ نہیں تھا کہ کسی کو قرآن اور حدیث کا فرق معلوم نہ ہوتا یا ایک ہی صفحہ پر دونوں کولکھتے- نزول قرآن کے بیس سال بعد سب کو بخوبی حدیث اور قرآن کے فرق کا علم تھا- اس لیے یہ افسانہ کہ حدیث لکھنے کی ممانعت کی وجہ حدیث اور قرآن کے فرق سے لاعلمی تھا ، فضول ، بے بنیاد اور من گھڑت فریب ہے جس کا مقصد علمی دھوکہ ہے تاکہ (disinformation) غلط معلومات کی بنیاد پر کتب احادیث مدون کرنے کا جواز گھڑا جا سکے (استغفر اللہ) واللہ اعلم"
"شروع زمانہ" میں (احدیث لکھنے ) کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے"
"شروع زمانہ" : صحیح مسلم ، حدیث نمبر: 7510 جو کہ حضرت ابي سعيد الخدري سے رواہ ہے وہ اسلام کا شروع کا زمانہ نہ تھا- حضرت ابي سعيد الخدري مدینہ کے رہائشی تھے- آپ 3حجرہ / 625 میں بہت کم عمرصرف 13سال کے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو غزوہ احد میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی- اس لحاظ سے آپ رسول اللہ ﷺ کے قریب بلوغت میں چھ یا سات سال رہے- جب احدیث لکھنے سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو منع فرمایا تو یہ زمانہ وہ تھا جب قرآن کو نازل ہوتے ہوے 16سے 17 سال گزر چکے تھے- سب کو قرآن اور حدیث کے فرق کا بخوبی علم تھا- اس لیے قرآن اور حدیث کو اکٹھا لکھنے والی بات نا قابل فہم ہے جو کہ من گھڑت ہے-
دوبارہ اس فقرہ کو ملاحضہ فرمائیں :
" شروع زمانہ میں (احادیث لکھنے ) کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے"
یہ دعوی کہ " شروع زمانہ میں (احدیث لکھنے ) کی ممانعت" صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے" جھوٹ ہےغلط ہے - صحیح مسلم کی روایت ، حدیث نمبر: 7510 میں شروع کے زمانہ کا کوئی ذکر نہیں- یہ بھی تحریف ہے اور بہت پلاننگ سے تحریف ہےاحادیث کی ویب سائٹس پر اردو ترجمہ میں اس کمال سے تحریف کی گی کہ عام قاری کو غلط فہمی کا شکار کر دیں، دواہم نقاط :
دھوکہ #1: شروع کا زمانہ ، نزول قرآن کے شروع کا زمانہ
دھوکہ #2: قرآن اور احادیث ایک صفحہ یا مواد پر لکھا جا رہا تھا جس کی ممانعت کی گی-
دھوکہ #3: صحیح مسلم ( حدیث نمبر: 7510) کا ریفرنس نہ دیا اور دونوں جھوٹ کو اس حدیث سے ثبوت کا دعوی -
دھوکہ #4: دوسری حدیث، جس میں حضرت ابو ھریرہ (رضی الله) کو بھی رسول اللہ ﷺ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا اور ابوھریرہ 7 حجرہ کو مسلمان ہوے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف 2 سال 4 ماہ ، یا تین سال رہے، یہ بھی نزول قرآن کا آخری زمانہ ہے نہ کہ شروع کا-
یہ ایک بہت منظم سازش معلوم ہوتی ہے جس میں لگاتا ہے سبھی علماء اور محدثین شامل ہیں جو صدیوں پر محیط ہے
صحیح مسلم ، حدیث نمبر: 7510
صحیح مسلم کی جس حدیث کا ذکرکیا وہ یہ ہے، اس کے اردو ترجمہ میں تحریف کی گیی ہے دو(2) اردو حدیث کی ویب سیٹس پر, لیکن عربی متن اورانگلش ترجمہ درست ہے :
حدثنا هداب بن خالد الازدي ، حدثنا همام ، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد الخدري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تكتبوا عني، ومن كتب عني غير القرآن، فليمحه وحدثوا عني، ولا حرج ومن كذب علي "، قال همام: احسبه، قال: متعمدا فليتبوا مقعده من النار.
Abu Sa'id Khudri reported that Allah's Messenger (ﷺ) said: Do not take down anything from me, and he who took down anything from me except the Qur'an, he should efface that and narrate from me, for there is no harm in it and he who attributed any falsehood to me-and Hammam said: I think he also said:" deliberately" -he should in fact find his abode in the Hell-Fire.[Saheeh Muslim:7510]
[Note: The honest English translator does not try to give an impression as if they were written Quran and Hadith on the same material/page, as done by the Urdu translators below. Even if you take Arabic text and translate with google, word by word or sentence by sentence you will get same as this English translation]
یہ تم تراجم متعلقہ ویب سائٹس سے 24 جولائی2021 حاصل کیے گئے-
ترجمہ #1: سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت لکھو میرا کلام اور جس نے لکھا کچھ مجھ سے سن کر تو وہ اس کو مٹا دے مگر قرآن کو نہ مٹائے(تحریف ترجمہ)۔ البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کچھ حرج نہیں اور جو شخص قصداً میرے اوپر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“
ترجمہ #2: ہداب بن خالد ازدی نے کہا : ہمیں ہمام نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" مجھ سے ( سنی ہوئی باتیں ) مت لکھو ، جس نے قرآن مجید [ کے ساتھ اس(یہ تحریف ترجمہ) ] کے علاوہ میری کوئی بات ( حدیث ) لکھی وہ اس کو مٹا دے ، البتہ میری حدیث ( یاد رکھ کرآگے ) بیان کرو ، اس میں کوئی حرج نہیں ، اور جس نے مجھ پر ۔ ہمام نے کہا : میرا خیال ہے کہ انھوں ( زید بن اسلم ) نے کہا : جان بوجھ کر جھوٹ باندھاوہ ا پنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۔ "
اہم نقطۂ : ان دونوں اردو تراجم میں مترجم حضرات نے کمال ہوشیاری سے یہ تاثردینے کی کوشش کی ہے جیسے کہ صحابہ قرآن اور حدیث ایک صفحہ پر اکٹھا لکھ رہے تھے- جبکہ انگلش ترجمہ بلکل واضح اور درست ہے-
ذیل میں گوگل سے ترجمہ بھی درست ہے :
رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ [اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اسے سلامت رکھے ]
لاَ تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ [میری طرف سے مت لکھو ، اور جس نے میری طرف سے قرآن کے علاوہ کوئی بھی لکھا ہے]
فَلْيَمحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلاَ حَرَجَ [ تو وہ اسے مٹا دے اور میرے بارے میں بات کرے ، اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔]
وَمَنْ كَذَبَ عَلَىَّ [اور کس نے مجھ سے جھوٹ بولا]
قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ [ ہمام نے کہا ، "مجھے لگتا ہے۔]
مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ [ جان بوجھ کر ، پھر وہ آگ میں اپنی نشست اختیار کرے۔]
یہ گوگل ترجمہ آپ چیک کر سکتے ہیں-
علم دین سے متعلق سوال کرنے والے کو دین کی صحیح بات نہ بتلانا یا دین کی معلومات حاصل کرنے سے متعلق و سائل (مثلاً کتابوں وغیرہ) کا انکار کردینا سخت وعید اور گناہ کا باعث ہے، اسی طرح دین کے صحیح مسائل کو اس کی جانکاری کے باوجود چھپانا اور لوگوں کے سامنے واضح نہ کرنا باعث گناہ ہے۔ الله کے احکام اور ہدایت کو چھپانا ممنوع ہے- (قرآن 2:159), (2:174), (3:187)
اختتامیہ
احادیث کو پہلی امتوں کی طرح کتاب الله کی طرح کتاب بنانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا اس موضوع پر تقریبا 30 سے زیادہ احادیث، موجود ہیں، جو بہت مظبوط اور واضح ہیں، اسی طرح کسی کوعذر، حفظ کی کمزوری پرانفرادی اجازت، اور کسی کو نہ اجازت، سرکاری خطوط ، حساب کتاب لکھنے کے ثبوت موجود ہیں جن کو غلط طور پر "کتب حدیث" کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے- صحیح مسلم نے ایک حدیث میں کتابت حدیث کی ممانعت کا ذکر کیا (صحیح مسلم ، حدیث نمبر: 7510) اسی طرح ابی دوود نے بھی کچھ شامل کیں مگر امام بخاری (الله تعالی ان پر رحم فرمایے) نے ایک حدیث بھی اپنی کتاب میں شامل نہیں کی جس میں حدیث لکھنے کی ممانعت ہے- یہ ناممکن ہے کہ وہ ان درجنوں احادیث سے لا علم تھے-
اسی طرح رسول صلی الله علیہ وسلم نے الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کی سنت پر عمل کا حکم دیا، اس کو جبڑوں سے پکڑنے اور بدعة سے دور رہنے کا حکم (سنن ابی داود 4607 ، الألباني: صحيح، جامع الترمذي: 2676، سنن ابن ماجه: 42، 43 ، مشكوة المصابيح: 165) یہ اہم صحیح حدیث بھی البخاری میں شامل نہیں- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "البخاری" کسی ایک مخصوس نظریہ فکر، یا عقائد کو فروغ دینے کی کوشش ہے، جس میں بہت کچھ عام عقائد کی اعلی معلومات بھی شامل ہیں جس سے اس کتاب کی ساکھ (credibility) بن لیکن کچھ اہم احادیث کو نظر انداز کیا گیا- جب دین کامل، رسول اللہ ﷺ یا ان کی وصیت کے مطابق ذمہ داران خلفاء راشدین کے علاوہ کسی ایک فرد کے ہاتھ میں چلا جایے تو انسانی کمزوریاں غالب آجاتی ہیں - جو کام وہ کر رہے تھے جن احادیث سے اس کا رد ہوتا تھا یا موقف کمزور ہوتا ان کو انہوں نے شامل نہ کیا- اگر ان کو یقین تھا کہ وہ درست کام کے رہے ہیں تو کس بات کا خوف تھا ، وہ ان احادیث کو شامل کر تے اور جو ان کنے خیال میں ان کے موقف کے مطابق ان کو بھی. اس اقدام کو معزرت کے ساتھ، علمی خیانت نہ کہیں تو کیا کہیں؟
علماء یہود و نصاری کا شیوہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام میں جو بات ان کے نظریات کے برخلاف ہو اس کو چھپاتے ہیں، جیسے کہ تورات و انجیل میں رسول اللہ ﷺ کی واضح خوش خبری اور صفات بیان ہیں مگر وہ اسے چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں اس لئیے ان پر لعنت ہے۔ اب بہت سے مسلمان علماء بھی ان کی روش پر چل پڑے ہیں-
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ ۞ (القرآن 2:159)
بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔
اس آیت (2:159) کے الفاظ عام ہیں، اس میں وہ مسلم علماء بھی شامل ہیں جو قرآن و سنت کی بات جانتے ہوئے اسے چھپا جاتے ہیں اور اپنے فرقے کی بات کو دین ظاہر کرکے بیان کردیتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَن سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ
”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“
[ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی] >>> آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (9:31)
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَفَّانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ فَقَالَ عَنْ أَبِيهِ لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ مُسْلِم يَقُولُ يَجْرِي الْکَذِبُ عَلَی لِسَانِهِمْ وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْکَذِبَ (صحیح مسلم, حدیث نمبر: 40)
ترجمہ: محمد بن ابی عتاب، عفان، حضرت سعید بن قطان اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ابن ابی عتاب نے کہا کہ میری ملاقات سعید بن قطان کے بیٹے سے ہوئی میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ کہتے تھے کہ ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے۔ [صحیح مسلم, حدیث نمبر: 40]
" اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے جو ایک دوسرے کو دھوکہ و فریب دینے کے لیے بناوٹی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں اور اگر آپ کا پروردگار (زبردستی) چاہتا، تو یہ ایسا نہ کرتے پس آپ انہیں اور جو کچھ وہ افترا کر رہے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ (قرآن 6:112)
افسوس ہے کہ صدیوں سے علماء نے کچھ حضرات کو مسیحی پوپ (Pope) کی طرح معصوم بلخطاء (infallable) کا درجہ دے کر ان کآموں ، نظریات ، تحریروں کا قرآن و سنت کے مطابق تجزیہ نہ کیا اور ان کی غلطیوں، گمراہیوں میں حصہ دار بن گۓ- اب ضرورت ہے کہ معصوم بلخطاء (infallable) کا لبادہ اتر کر تمام دینی علوم کا قرآن و سنت کی روشنی میں از سر نو جائزہ لیا جا ینے جس کے لئے حکومتی اور دارلعلوم لیول پر تحقیقی فورمز / ادارے قائم کیے جائیں جو تسلسل سے کام جاری رکھیں اور اسلام - دین کامل کو بدعات سے پاک کرکہ دین کامل کے احیاء میں اپنا کرادر ادا کریں- جزاک اللہ
مزید :
حادیث لکھنے کی ممانعت ( فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ )
مسلمان بھی یہود و نصاری کے نقش قدم پر
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
~~~~~~~~~
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-