رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

ڈیجیٹل حدیث AI

"کتب" حدیث کی شرعی حثیت؟

"کتب" حدیث اور "حدیث " دو الگ چیزیں ہیں، "کتب حدیث" رسول اللہ ﷺ نے ممنوع قرار دی اور حدیث کے بیان کی اجازت دی- کچھ صحابہ اکرام کو کمزور حافظہ کی وجہ سے لکھنے کی  خاص طور پرانفرادی  اجازت دی اور کچھ کو اجازت نہ دی- لیکن اس اجازت کے باوجود کتاب صرف ایک ، کتاب اللہ قرآن ، اور حدیث کے حفظ و بیان کی اجازت عطا فرمائی-

ایک مثال؛ انگور حلال ہے، اس سے کشمش بنتی ہے وہ حلال ہے اور اس سے شراب بنتی ہے جو حرام ہے- اگر کوئی انگور کے باغ سے کچھ انگور چوری کرکہ شراب بناتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو کیا انگور کے باغ کو ختم کر دیں؟ یا یہ کہ انگور چوری کرکہ شراب بنانا بند کریں- حلال انگور سے جو فوائد ہیں وہ حاصل کرنا ہی عقلمندی ہے-

بھیڑ الله تعالی کا نام کے کر شرعی طریقہ سے ذبح کریں تو حلال ہے اور جھٹکے سے یا گلا گھونٹ کر ما ر دیں تو حرام- اللہ کے احکام اوررسول اللہ ﷺ کی سنت، شریعت کی بنیاد ہیں جس کو کوئی شخص اپنی عقل کے دلائل یا نظریہ ضرورت کی بنیاد پر تبدیل نہیں کر سکتا- 

احادیث میں اقوال اورسنت رسول اللہ ﷺ بھی ہیں ان سے فائدہ حاصل کرتے رہنا ہے مگرممنوع طریقہ کی بجایے حلال طریقہ سے،   رسول اللہ ﷺ نے حدیث کی درستگی اور پہچان  کا جو طریقہ فرمایا اس کے مطابق- اوراق پر حدیث کی کتب ممنوع ہیں،اب ڈیجیٹل دور ہے، علماء اس پر غور فرمائیں اور اجتہاد سے کوئی حل ڈھونڈیں-

قرآن کی تدوین کا اہم کام خلفاء راشدین نے خاص اہتمام سے کیا اور کاتب وحی زید بن ثابت کی ذمہ داری میں حفاظ اور صحابہ اکرام نے مل کر ہر آیت پر دوعینی شہادت پر قبول کیا حالانکہ وہ لوگ خود بھی حافظ تھے -

1. واضح رہے کہ احددیث کی ہرایک کتاب ایک فرد واحد کا کارنامہ ہے، وہ بھی سو، ڈھائی سو سال بعد  جو کہ نہ صحابی تھا ، نہ ہی اس کو  رسول اللہﷺ یا خلفاء راشدین کی طرف سے یہ ذمہ داری دی گی تھی - بلکہ  رسول اللہ ﷺ اور خلفا راشدین کی طرف سے اس کا م سے منع فرمایا گیا تھا- 

2.رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ حدیث کی درستگی اور پہچان کے  میعار کو مسترد کرکہ اپنی طرف سے اسناد کی بنیاد پر صحیح، حسن . ضعیف اورمختلف اقسام کے درجات بنایے گۓ یہ بھی بدعة ہے - 

3. حدیث یا درست ہو گی یا نہیں ، کیونکہ اس کی بنیاد پرقرآن کی تفسیر ، اہم شرعی اور فقہی مسائل کا حل نکلنا ہے جس میں غلطی کی گنجائش نہیں- ایسا مواد تاریخ کا حصہ تو ہو سکتا ہے لیکن مقدس کلام  رسول اللہ ﷺ کیسے کہ سکتے ہیں جس پر جھوٹ کا شبہ ہو؟ کیا محدثین کو یہ حدیث یاد نہیں: 

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَکْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَکْذِبْ عَلَيَّ يَلِجْ النَّارَ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)

ترجمہ:

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ اس نے سنا حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)

یہ اہم ترین حدیث ، متواتر ہے ، جسے 62 را ویوں نے رپورٹ کیا ہے-

4. اس لیے "کتب حدیث" کی شرعی حثیت کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟  جس کام کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی  وصیت  (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) اورسنت  خلفاء راشدین (رضی الله) کی نافرمانی پر ہو وہ بظاھر کتنا بھی فائدہ مند معلوم ہو وہ کیسے  شرعی طور پر درست ہو سکتا ہے؟ 

5. لیکن اس بدعة یا نافرمانی کے باوجود حدیث کی اپنی اہمیت و مرتبہ کم نہیں ہوتا- اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک حدیث کو  رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ حدیث کی درستگی اور پہچان کے میعار پر پرکھا جایے اور پھر قبول یا مسترد کیا جایے-

مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر غور و فکر کیا جاسکتا ہے

~~~~~~~~
احادیث سے استفادہ

اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جایے کہ قرآن و سنت رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے مطابق احادیث کی کتب ممنوع ہیں تو پھر آج کے دور میں علماء و محدثین تو حدیث کو حفظ کر لیں گے مگر عام مسلمان ان سے کیسے استفادہ کر سکتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ سے منسوب کلام کا کوئی مسلمان کیسے مخالف ہو سکتا ہے؟ اہم نقطۂ ہے کہ حدیث کی کتب لکھنے (تدوین ) سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا جو کہ قرآن کی آیات (القرآن،77:50، 45:6،7:185)، 4:87) کی تفسیر لگتی ہے (واللہ اعلم ). کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی نوٹسس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار- جن صحابہ کو احادیث لکھنے کی اجازت ، ملی کچھ نے حفظ کے بعد مٹا دیا کچھ نے بطور یادگار محفوظ کر لیا- لیکن کسی نے کتاب لکھ کر پالیسی کی خلاف درزی نہ کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ "پہلی اقوام کتاب اللہ کے علاوہ کتب لکھ کر گمراہ ہو گیئں تھیں"- مشہور علماء اور صحابہ عبدالله بن مسعود، ابوهریره، کاتب قرآن زيد بن ثابت ، ابو سعید خضری، عبدللہ بن عمر اور بہت مزید صحابہ ساری عمر احادیث لکھنے سے منع فرماتے رہے اور خود حفظ سے سینکڑوں احدیث بیان فرمائیں.... اگر قرآن، سنت رسول اللہ ﷺ ، سنت خلفاء راشدین پردو صدی کے بعد بھی عمل جاری رہتا تو آج اس بحث کی ضرورت نہ ہوتی .. ہم قرآن کی آیات پر غور ، تفکر کرکہ ڈسکس کر رہے ہوتے- احادیث محدثین ، علماء کے پاس حفظ محفوظ رہتیں اور حدیث کے بیان و سماع کی محافل سے ہم رسول اللہ ﷺ کے فرمودات سے آگاہی حاصل کرتے جیسے پہلی چار صدیوں میں ہوتا تھا- ابھی تو ایک تاریخی غلطی ، بدعة کی نشان دہی کی ہے، مکالمہ جاری ہے ، جب علماء اکرام کو یہ بات سمجھ آجایے گی تومزید تحقیق کے بعد اس کے حق یا مخالف فتوے جاری ہوں گے جن پرعمل شروع ہو گا- ایک فرد کی نشاندہی پر سب کچھ تبدیل نہیں ہو سکتا نہ ہی ایسا مقصد ہے- نفاق اور فرقہ بازی مقصد نہیں اتحاد اور یگانگت مقصود ہے قرآن و سنت کے مطابق- کتابت حدیث کی ممانعت اس دور میں پہلا آپشن تو کرہ کا ہے ، بہت صحابہ اکرام حدیث لکھنا مکروہ سمجہتے تھے- لیکن عزر ، مجبوری میں نرمی کی گنجائش ہوتی ہے جیسے بیمار کا بیٹھ کر یا لیٹ کر نما پڑھنا- قدیم دور میں لکھنا قلم ، کاغذ یا کسی لکھنے والے مٹیریل، ہڈی ، کھال، کپڑا وغیرہ سے متعلق تھا ، جو کہ اب بھی لاگو ہونا چایے لیکن جدید ٹیکنولوجی، ڈیجیٹل دور میں اجتہاد کی ضرورت ہے جو کہ علماء کریں گے ، جیسے کاغذ پر پرنٹڈ قرآن اور موبائل میں ڈیجیٹل قرآن میں فرق رکھا جاتا ہے ہے- قرآن کے اوراق یا مجلد قرآن باتھ روم جو کہ ناپاک جگہ ہے نہیں لے جا سکتے مگر موبائل میں قرآن سیو (save) ہوتا ہے اسے باتھ روم لے جانے پر پابندی نہیں- اس پر مختلف آراء اور فتوے ہیں ، اسی طرح آڈیو(podcast) ، ویڈیو ، ڈیجیٹل احادیث پر بھی مختلف فتوے ہوں گے ، کچھ حق میں کچھ مخالف، تو جس کی عقل کو جو قبول ہو اس پر عمل کرے - فی الحال اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا کاغذ پی کتب سے پرہیز کرتے ہوے ڈیجیٹل، میڈیا پرکرہ سے احادیث شئیرکریں (واللہ اعلم ) موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو بلا وضو یا حالتِ جنابت میں چُھونا جائز ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین جو آیات نظر آتی ہیں، وہ ’’سافٹ وئیر‘‘ ہیں۔ یعنی وہ ایسے نقوش ہیں جنہیں چُھوا نہیں جاسکتا۔ یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ ’’ریم‘‘ پر بنتے ہیں اور شیشے سے نظر آتے ہیں، لہٰذا اسے مصحفِ قرآنی کے ’’غلافِ منفصل‘‘ پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ غلافِ منفصل سے مراد ایسا غلاف ہے جو قرآنِ کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو بلکہ اس سے جُدا ہو۔ ایسے غلاف میں موجود قرآنِ کریم کو بلا وضو چُھونے کی فقہائے کرام نے اجازت دی ہے۔ مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنه کالخريطة والجلد الغير المشرز لابما هو متصل به حیض ونفاس والی عورت، جنبی اور بےوضو کے لئے مصحف کو ایسے غلاف کے ساتھ چھونا جائز ہے جو اس سے الگ ہو، جیسے جزدان اور وہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو۔ جو غلاف مصحف سے جُڑا ہوا ہو،اس کے ساتھ چھُونا جائز نہیں۔ لہٰذا موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو حالتِ جنابت میں یا بلا وضو چُھونا اور پکڑنا جائز ہے۔ بے وضو شخص کے لیے اس سے تلاوت کرنا بھی جائز ہے، تاہم جنبی کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت ناجائز ہے، اس سے احتراز لازم ہے ۔

 مزید :

  1. حادیث لکھنے کی ممانعت ( فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ )

  2. رسول اللہ ﷺ وصیت  (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )  کا انکار اور بدعت 

  3. خلفاء راشدین نے  کتابت  حدیث کیوں نہ کی؟ 

  4. سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث 

  5.  من گھڑت داستانوں سے حقائق  مسخ ، رسول اللہﷺ کی حکم عدولی

  6. رسول اللہ ﷺ کا حدیث کی درستگی اور پہچان کا میعار

  7. احادیث سے استفادہ ممکن

  8. احادیث پر احادیث - تقييد العلم للخطيب البغدادي


 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3439


~~~~~~~~~

🌹🌹🌹
 🔰اسلام : احیاء دین کامل کی جدوجہد 🔰
 اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ

"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے" (قرآن :5:3)یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع پر نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺ بہترین نمونہ  کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی سنت اوراحادیث موجود ہیں- حدیث کا میعار اورطریقه بیان رسول الله  ﷺ نے مقرر فرمایا- قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله ہی راہ هدایت ہے- آیئں ہم دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں  >>>>>>

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

پوسٹ لسٹ