"کتب" حدیث کی شرعی حثیت؟
"کتب" حدیث اور "حدیث " دو الگ چیزیں ہیں، "کتب حدیث" رسول اللہ ﷺ نے ممنوع قرار دی اور حدیث کے بیان کی اجازت دی- کچھ صحابہ اکرام کو کمزور حافظہ کی وجہ سے لکھنے کی خاص طور پرانفرادی اجازت دی اور کچھ کو اجازت نہ دی- لیکن اس اجازت کے باوجود کتاب صرف ایک ، کتاب اللہ قرآن ، اور حدیث کے حفظ و بیان کی اجازت عطا فرمائی-
ایک مثال؛ انگور حلال ہے، اس سے کشمش بنتی ہے وہ حلال ہے اور اس سے شراب بنتی ہے جو حرام ہے- اگر کوئی انگور کے باغ سے کچھ انگور چوری کرکہ شراب بناتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو کیا انگور کے باغ کو ختم کر دیں؟ یا یہ کہ انگور چوری کرکہ شراب بنانا بند کریں- حلال انگور سے جو فوائد ہیں وہ حاصل کرنا ہی عقلمندی ہے-
بھیڑ الله تعالی کا نام کے کر شرعی طریقہ سے ذبح کریں تو حلال ہے اور جھٹکے سے یا گلا گھونٹ کر ما ر دیں تو حرام- اللہ کے احکام اوررسول اللہ ﷺ کی سنت، شریعت کی بنیاد ہیں جس کو کوئی شخص اپنی عقل کے دلائل یا نظریہ ضرورت کی بنیاد پر تبدیل نہیں کر سکتا-
احادیث میں اقوال اورسنت رسول اللہ ﷺ بھی ہیں ان سے فائدہ حاصل کرتے رہنا ہے مگرممنوع طریقہ کی بجایے حلال طریقہ سے، رسول اللہ ﷺ نے حدیث کی درستگی اور پہچان کا جو طریقہ فرمایا اس کے مطابق- اوراق پر حدیث کی کتب ممنوع ہیں،اب ڈیجیٹل دور ہے، علماء اس پر غور فرمائیں اور اجتہاد سے کوئی حل ڈھونڈیں-
قرآن کی تدوین کا اہم کام خلفاء راشدین نے خاص اہتمام سے کیا اور کاتب وحی زید بن ثابت کی ذمہ داری میں حفاظ اور صحابہ اکرام نے مل کر ہر آیت پر دوعینی شہادت پر قبول کیا حالانکہ وہ لوگ خود بھی حافظ تھے -
1. واضح رہے کہ احددیث کی ہرایک کتاب ایک فرد واحد کا کارنامہ ہے، وہ بھی سو، ڈھائی سو سال بعد جو کہ نہ صحابی تھا ، نہ ہی اس کو رسول اللہﷺ یا خلفاء راشدین کی طرف سے یہ ذمہ داری دی گی تھی - بلکہ رسول اللہ ﷺ اور خلفا راشدین کی طرف سے اس کا م سے منع فرمایا گیا تھا-
2.رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ حدیث کی درستگی اور پہچان کے میعار کو مسترد کرکہ اپنی طرف سے اسناد کی بنیاد پر صحیح، حسن . ضعیف اورمختلف اقسام کے درجات بنایے گۓ یہ بھی بدعة ہے -
3. حدیث یا درست ہو گی یا نہیں ، کیونکہ اس کی بنیاد پرقرآن کی تفسیر ، اہم شرعی اور فقہی مسائل کا حل نکلنا ہے جس میں غلطی کی گنجائش نہیں- ایسا مواد تاریخ کا حصہ تو ہو سکتا ہے لیکن مقدس کلام رسول اللہ ﷺ کیسے کہ سکتے ہیں جس پر جھوٹ کا شبہ ہو؟ کیا محدثین کو یہ حدیث یاد نہیں:
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَکْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَکْذِبْ عَلَيَّ يَلِجْ النَّارَ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)
ترجمہ:
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ اس نے سنا حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)
یہ اہم ترین حدیث ، متواتر ہے ، جسے 62 را ویوں نے رپورٹ کیا ہے-
4. اس لیے "کتب حدیث" کی شرعی حثیت کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟ جس کام کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی وصیت (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) اورسنت خلفاء راشدین (رضی الله) کی نافرمانی پر ہو وہ بظاھر کتنا بھی فائدہ مند معلوم ہو وہ کیسے شرعی طور پر درست ہو سکتا ہے؟
5. لیکن اس بدعة یا نافرمانی کے باوجود حدیث کی اپنی اہمیت و مرتبہ کم نہیں ہوتا- اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک حدیث کو رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ حدیث کی درستگی اور پہچان کے میعار پر پرکھا جایے اور پھر قبول یا مسترد کیا جایے-
مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر غور و فکر کیا جاسکتا ہے
مزید :
حادیث لکھنے کی ممانعت ( فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ )
رسول اللہ ﷺ وصیت (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) کا انکار اور بدعت
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3439
~~~~~~~~~
"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے" (قرآن :5:3)- یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع پر نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺ بہترین نمونہ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی سنت اوراحادیث موجود ہیں- حدیث کا میعار اورطریقه بیان رسول الله ﷺ نے مقرر فرمایا- قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله ہی راہ هدایت ہے- آیئں ہم دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں >>>>>>