رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

Q-1.حدیث کی کتابت سے حضرت عمر (رضی الله) کا انکار اور 100 سال بعد تنسیخ




حضرت عمر رضي الله عنه كا يه فیصلہ :

أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ السُّنَنَ، فَاسْتَشَارَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي ذَلِكَ، فَأَشَارُوا عَلَيْهِ أَنْ يَكْتُبَهَا، فَطَفِقَ يَسْتَخِيرُ اللَّهَ فِيهَا شَهْرًا، ثُمَّ أَصْبَحَ يَوْمًا وَقَدْ عَزَمَ اللَّهُ لَهُ، فَقَالَ *إِنِّي كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَكْتُبَ السُّنَنَ، وَإِنِّي ذَكَرْتُ قَوْمًا كَانُوا قَبْلَكُمْ كَتَبُوا كُتُبًا، فأَكَبُّوا عَلَيْهَا وَتَرَكُوا كِتَابَ اللَّهِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لا أُلْبِسُ كِتَابَ اللَّهِ بِشَيْءٍ أَبَدًا* (جامع معمر بن راشد (2\258) 

حضرت عمر رضي الله عنه اراده كيا كي سنن لكهی جائين انهون نے اصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سے مشورا ليا انهون نے لكهنے كا مشورا ديا، اس كي بعد حضرت عمر رضي الله عنه ايک ماه تک الله سے استخارا كرتے رہے ايک صبح الله تعالى نے انكا عزم بنا ليا اور آپ نے فرمايا "مين نے اراده كيا تها سنن لكهنے كا پهر تم سے قبل قومون کو ياد كيا انهون نے كتابين لكهي، اور اس مين لگ گئے اور الله كي كتاب كو چهوڑ ديا، الله كي قسم مين ہرگز كتاب الله (قرآن) كو كسي چيز من نہين ملاؤن گا".

  1. پڑھیں :حضرت عمر (رضی الله) کا اہم ترین کارنامہ(1)
  2. حضرت عمر (رضی الله) کا اہم ترین مگر فراموش کردہ کارنامہ (2)
  3. Caliph Umer & Hadith

اس بات سے واضح ہوتا ہے كے حضرت عمر رضي الله عنه كا مشورا لينا اور اصحاب كا لكهنے كا مشورا دينا اس بات كي واضح دليل ہے كے يہ امر جائز ہے اگر قرآن سنت مين منع مطلق ہوتي تو اس بات كي گنجائش ہي نہين رہتي کے مشورے كرين، اور محال ہے كے حضرت عمر جيسا خليفه رضي الله عنه اصحاب كرام قرآن اور حضور كي احكامات كي خلاف كسي كام پر متفق ہو جائين-


باقي رہا تدوين نا كرنے كا سوال تو آپ null بيان سي واضح هي لوگ كتاب الله كو ترک نا كردين، اس خدشہ کی وجه سے آپ كا زمانہ فتوحات كا ہےنئي نئي علاقے فتح هو رہے تهے نئي لوگ اسلام مين داخل هو رہے تهے انكو سب سے پہلے قرآن سے معرفت حاصل كرنا مقصود تها. جمع قرآن کی تدریجا مرحلے کو غور کرین حضور صلی الله علیہ وسلم  نے مختلف سورت لکھوایا تھا حضرت ابو بکر نے ایک کتاب مین جمع کیا حضرت عثمان نے قریشی لغت مین امت کو جمع کیا حضرت علی کے کہنے پے غالبا اسود نے اعراب لگائے، حجاج نے نقاط لگائے کوئی کہے کے یہ بدعت نیا کام ہے تو یہ سطحی بات ہوگی اصل قرآن وہی ہے جو نازل ہوا سطور وصدور مین محفوظ تھا جو بظاہر مراحل نظر ارہے ہین وہ عام انسان کو نظر ہے ورنہ یہ سارے چیزین اللہ تعالی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  پر ازل کی صحابہ جانتے تھی عرب اعراب نقاط متعارف تہے، اسی طرح سنت کی تدوین-……………………….

Response :

جواب در جواب 

اب آپ اصل تھم کی طرف آیے …  حضرت عمر رضی الله نے کتابت حدیث کا انکار کر دیا … مگر حضرت علی (رضی الله) بھی انکار میں شامل ہیں : 

عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]


کتابت ، تدوین  قرآن ہم سب کو معلوم ہے اور یہ ہمارا موضوع نہیں … قرآن پر اعراب لگوانے سے کسی نے منع نہیں فرمایا تھا نہ ہی یہ مسلہ تھا اس وقت .. یہ تو بعد کے مسائل تھے اور ان کا حل  … ٣٠ پارہ ، ترجمہ قرآن خلفاء راشدین کے وقت کے مسائل نہ تھے نہ ڈسکس ہوے نہ کوئی فیصلہ دیا گیا … اس لیے غیر ضروری بات اس جگہ دلیل نہیں بنتی … ان باتوں سے کیا حاصل  …


کیا  آپ یہ تاثر دینے کی کوشش فرما رہے ہیں کہ یہ انکار مستقل نہیں عارضی تھا …


آپ یہ تاثر دینے کی کوشش فرما رہے ہیں کہ بہت دوسرے فیصلے ہوے جن کو کچھ لوگ بدعات کہتے ہیں یہ بھی اسی طرح کا معامله تھا ؟ نہیں بدعات تو نئی بات کو کہتے ہیں … یہ تو ایک سوچا سمجھا فیصلہ تھا , مجاز اتھارٹی کے مجموعی فیصلہ کا انکار ، یہ  کوئی عارضی بات نہیں تھی  …


یہ بلکل غلط تاثر ہے … نہ ہی حضرت عمر رضی الله کی بات میں کوئی ایسا تذکرہ ہے … نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ  کچھ عرصۂ بعد ، ٥٠ یا سو یا دو سال بعد لکھ لیں … ایسی کوئی بات نہیں … نہ ہو باقی خلفاء راشدین نے کوئی ایسی بات کی …. یہ ایک مستقل دور اندیش فیصلہ  تھا ،، جس کا نتیجہ بعد میں نکلا …. 

حضرت  ابو بکر صدیق  اور عمر رضی الله کو رسول الله نے نام لے کر فیصلوں کی اتھارٹی دی تھی اور سرے خلفاء راشدین  کو بھی .. ان کے فالسےفیصلے  وقتی نہیں … اذان فجر میں "الصلوات خیر من النوم" … کس نے کیا …تراویح جماعت کس نے منظم کی ؟ ... جمعہ کی دوسری اذان کس نے شروع کی؟ ، تیسرے خلیفہ نے … ایک مرتبہ ان سب کے فیصلے  پڑہ لیں … آپ کو معلوم ہے اچھی طرح …. یہ عام مجتہد نہیں تھے ، یہ   رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے معتمد خاص ترین حضرات تھے -


They were very special people who are called   الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ … rightly Guided… by whom? Prophet Muhammd  صلی الله علیہ وسلم  ..  Who else has the honour of such a certificate and authority?

How can some one defy their decisions.  It reminds a narrative of people of Sabat in Quran who defied the commands and suffered.  


...   فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ  

 پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔


 فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ 


اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ 


اور ہمارے بزرگان دین .. مذہبی پیشواؤں نے سو سال بعد تبدیل کر دیا  …ما  سوا  امام ابو حنیفہ رح 


مجھے بار باراحادیث کو  دہرانہ پڑ رہا ہے …. مقالہ کا  پیرا (A10) پڑھ لیں: [لنک ]

https://quransubjects.blogspot.com/2020/01/why-quran.html


رسول   صلی الله علیہ وسلم  نے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا حکم دیا  :


سیدنا صدیق اکبر کے بعد امت کی راہنمائی کا فریضہ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔


” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)


” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)


رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧، صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥)


آپ یہاں حضرت حضرت ابو بکر  صدیق رضی الله  کا ٥٠٠ احادیث کو ضا یع کرنا مت بھولیں :


١.کیا ان کو احادیث کی حیثیت اور اہمیت کا علم نہ تھا جو ٢٠٠ سال بعد آشکار ہوا ٦ کتب لکھنے والوں کو ؟

٢.کیا  ٢٠٠ سو سال بعد  کے لوگوں کو  حضرت ابو بکر  صدیق رضی الله سے زیادہ مستند ذرایع سے احادیث کا  علم پہنچا تھا ؟

٣. اگر حضرت ابو بکر  صدیق رضی الله  کو علم نہہن تھا ، اپنی لکھی ٥٠٠ احادیث کی صداقت پر شک تھا کہ غلطی نہ ہو ، تو وہ کون تھا جو حضرت ابو بکر  صدیق رضی الله سے بڑا صادق … بڑا  صدیق ؟


چاروں فقہ اربعہ دوسری صدی میں مکمل ہو گیے  احادیث کی مشہور صحاح  سشه سے پہلے  …


فقہ  کی بنیاد … قرآن ، سنت ، اجماع ، قیاس ہے- ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی ذاتِ گرامی ہے-


جب چہار فقہ بن گئے اس کے بعد تیسری صدی میں مزیداحادیث کی کتب لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ 

کیا ایمرجنسی تھی کہ خلفاء راشدین کے حکم کے منکر ہو گیے ؟


غور فرمائیں کہ امام ابو حنیفہ نے دیث کی کتاب نہیں لکھی وہ متواتر زیادہ زوردیتےتھے .. حالانکہ ان کو حافظ حدیث بھی کہتے ہیں اور امام بخاری سے بڑے محدث بھی .. کچھ مخالفین ان کو حدیث سے نابلد کہتے ہیں  (کیا ایسا ممکن ہے عقل مانتی ہے ؟)..  امام ابو حنیفہ کا خاص امتیاز ہے کہ انہوں نے حضرت عمر اور خلفاء راشدین کے فیصلہ کا مکمل احترم بھی کیا اور فقہ بھی ایسا قائم کیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ تعداد …اگرچہ ان کے اور ہر فقہ  سے اختلاف ممکن ہے  ہر انسانی کوشش میں کمی رہ سکتی ہے - تاریخی حقیقت کو جھٹلا کیسے سکتے ہیں ؟  

یہ ٹائم لائن بہت کچھ واضح کررہی ہے….

1. ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء)

2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء) موطأ امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو آپ نے تصنیف کی۔

3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء)

4. احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء)

مشہور محدثین  - صحاحِ ستہ : ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسا سمجھی جاتی ہیں۔

1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)

2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)

3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)

4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی   275ھ/9-888ء

5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء

6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء


امام احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) فقہ اربعہ کی ٹائم لائن کے آخر میں ہیں … وہ  احادیث  سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے …. اس سے ظاہر ہوتا ہے  کہ کتابت کی بجایے  حفاظ  حدیث ہوتےتھے تیسری صدی حجرہ کےوسط تک-

تعلیم و سماعت حدیث: 16 برس کی عمر میں انہوں نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ ابو یوسف کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ 180ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھر حجاز آمد و رفت رہی اور علما حجاز سے علم سیکھتے رہے۔  196ھ میں یمن جاکر عبد الرزاق الصنعانی سے احادیث سنیں۔ یہاں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ وہ کوفہ بھی گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پزیر رہے سر کے نیچے سونے کے لیے اینٹ رکھا کرتے۔ 

کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لیے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔ 

مزید تفصیل ، سوال نمبر 10 کے جواب میں ملاحضہ فرمائیں -

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
قرآن آخری کتاب یا کتب؟ تحقیق و تجزیہ 🔰
 🔰 ?The Last Book Quran or Books

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی, "قرآن" کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ... احادیث کی کتب  کے زریعہ قرآن کو پس پشت ڈال کر کہ مشرکوں کی طرح فرقہ واریت سے دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بزریعہ قرآن بحالی میں ہے  ..تفصیل  >>>>>>

پوسٹ لسٹ