رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

اصول دین (بنیادی عقائد) اور فروع دین ( ارکان اسلام )

.

"اصول دین" اور "فرو فروع دین 

"اصول دین " سے مراد دین کی وہ تعلیمات جن کا تعلق فکر وتفکر سے ہے اس کے مقابلے میں "فروع دین" ہے، فروع دین، دین کا وہ حصہ جس کا تعلق "عمل" سے ہے۔ اصول دین کو عقائد بھی کہا جاتا ہے۔

اصول دین اور فروع دین کی طبقہ بندی، جس صورت میں ہمارے درمیان عام اور رائج ہے، وہ  دینی علوم کے دانشوورں نے دینی معارف کی اس صورت میں طبقہ بندی کی ہے- اس بحث کی تاریخ پہلی صدی ھجری کے دوسرے نصف حصہ سے متعلق ہے- لیکن واضح طور پر مشخص نہیں ہے، کس نے اسے " اصول دین" کا نام دیا ہے- بلکہ بنیادی طور پر اس قسم کے علمی مباحث دانشوروں اور علماءکے مباحث اور تفکرات کے نتیجہ میں وجود میں آئے ہیں اور یہ علمائے دین کی ایک ھمہ جہت علمی تحریک کا نتیجہ تھا اور اس سلسلہ میں کسی خاص واضع کا فرض کرنا، صحیح فرض نہیں ہے- 

ہر چیز کی اصل، وہی اس کی جڑ اور بنیاد ہے جس کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے-

 اس بنا پر، اصول دین ایک ایسی چیز ہے، جس کی بنیاد پر دین کی عمارت تعمیر کی گئی ہے-

" اصول دین" کو اگر اس کے خاص معنی [یعنی بنیادی ترین عقائد] میں استعمال کیا جائے، جیسے علم اعتقاد میں استعمال کیا گیا ہے، تو یہ ہر دین کے بنیاد ی عقائد پر مشتمل ھوگا، کہ ان  عقائد کے بغیر دین متحقق نہیں ھوتا ہے-

تمام توحیدی ادیان تین بنیادی اور مشترک اصولوں پرمبنی ھوتے ہیں: خدائے واحد کا اعتقاد، ہر انسان کے لئے آخرت میں ابدی زندگی اور اس دنیا میں انجام دئے اعمال کی پاداش اور سزا کا اعتقاد [ یعنی معاد ] اور    انبیاء علیہ السلام کی بعثت کا اعتقاد، جنھیں الله تعالی  نے انسان کے آخری کمال اور دنیا و آخرت کی سعادت کی طرف ہدایت کرنے کے لئے بھیجا ہے- 

لیکن اس قسم کے بنیادی عقائد کے بارے میں لفظ"اصل" کا استعمال، اصطلاحات اور قراردادوں کے تابع ہے-

اور اس قسم کی کوئی آیت یا روایت نہیں پائی جاتی ہے، جو براہ راست اس مطلب کی دلالت پیش کرتی ھو، بلکہ اسلامی دانشوروں نے بعض مسائل کی اہمیت کے پیش نظر انھیں اصول دین کا جزو شمار کیا ہے-

تمام توحیدی ادیان کے درمیان مشترک مذکورہ تین اصول اور[اسلام میں ٹوٹل چھ  ]، کی بنیاد پر ان ادیان کی عمارت تعمیر کی گئی ہے[ شیعہ علماء نے دو مزید "اصل" یعنی امامت و عدالت کا اضافہ کیا ہے]

اصول دین

بنیادی اعتقادات کو "اصول دین" یعنی مذہب کی جڑیں کہا جاتا ہے۔اصول دین  چھ  ہیں جن  کو اسلام کی جڑ کہا جاتا ہے۔ اسلام کے  چھ بنیادی عقائد اور پانچ ارکان ہیں-

 چھ بنیادی عقائد، ان عقائد کا ماخذ قرآن سے ہے :

1).اللہ تعالیٰ پر ایمان

2) فرشتوں پر ایمان 

3) رسولوں پر ایمان

4) الله کی  نازل کردہ کتب پر ایمان 

5).یوم آخرت پر ایمان 

6).تقدیر پر ایمان

تفصیل: https://quransubjects.blogspot.com/2019/10/faith.html

فروع دین:

فروع دین [ اصول دین کے مقابلے میں] ایک اصطلاح ہے، جو اسلام کے عملی احکام سے متعلق ہے، چونکہ اصول دین کا رتبہ [ یقین کے ساتھ ] علم کے باپ سے متعلق ہے، اس لئے فروع دین پر مقدم ہے جو عمل کے باپ سے تعلق رکھتا ہے، یعنی جب تک علم و اعتقاد نہ ھو عمل کے کوئی معنی نہیں ہیں، اس لئے اس قسم کے اسلام کے عملی احکام کو " فروع دین" کہا جاتا ہے کہ جو اصول کی بنیاد پرمبنی ھوتے ہیں- اصول دین ایک درخت کے مانند ہے اور فروع دین اس کے میوے ہیں، ان دو[ علم و عمل] میں سے برتر علم ہے، علم درخت کے مانند ہے اور عبادت اس کے میوہ کے مانند ہے"- فروع دین کی تعداد پانچ ، آٹھ یا دس ھونا ان کی عبادت میں اہمیت کے پیش نظر ہے، ورنہ واجبات اور محرمات کی تعداد فروع دین کے حصہ شمار ھونے والے معاملات کے احکام کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں-

فروغ دین ، ارکان اسلام پانچ ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوز ہیں:

1) شہادہ: ایمان

2) صلوٰۃ: نماز

3) زکوٰۃ

4) صوم: روزہ

5) حج

ان کے علاوہ کچھ فرقوں (شیعہ ) نے ان میں اضافہ کر رکھا  ہے: خمس, جہاد , امر بالمعروف ( نیکیوں کا حکم) , نہی عن المنکر(برائیوں سے روکنا) , تولی (خدا کے دوستوں سے دوستی) , تبری(خدا کے دشمنوں سے دشمنی) -

اب اگر کوئی نیا فرقہ بن جائے تو وہ اپنے اصول دین اور فروغ دین بنا لیتا ہے مگر اس کو روایتی اسلام کے لوگ مسترد کرتے ہیں-

اسلام کے چھ بنیادی عقائد ،اور  پانچ فروغ دین ، یا ارکان اسلام  پر کوئی اختلاف نہیں..


اہم نقطہ یہ ہے کہ یہاں  ڈسکشن میں روایتی "اصول دین" (چھ )  اور" فروغ دین " (پانچ ) کا کوئی جزو زیر بحث نہیں ہے -   

کتاب الله پر ایمان ہے …اسلام [ کے  چھ اصول دین میں بھی  ] پرانی انبیاء کی کتب اور  قرآن کے علاوہ کوئی اور "کتاب الله"  نہیں جس پر ایمان لازم ہو  .. 

1)جہاں تک "حدیث " کا تعلق ہے  .. قرآن توصرف قرآن کو " اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ " کہتاہے (قرآن 39:23) اور الله تعالی  قرآن کے علاوہ کسی اور حدیث پرایمان لانےسے  منع فرماتاہے [.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ] ( المرسلات 77:50) ، (الأعراف 7:185) اور(الجاثية45:6)  تین مرتبہ کسی کلمہ یا آیت کودہرانا اس حکم کی اہمیت کو کھل کرواضح اور  خبردار کرتاہے…

2) حدیث ، کلام ، کتاب ، بات ہے جبکہ "سنت" متواتر عمل، پریکٹس ہے- یہ متبادل اصطلاحات نہیں جیسا کہ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے -  اس پر تفصیل پڑھ سکتے ہیں .. [.......] 

3)  یہی مضمون ہے  جس پر "ڈسکشن" ممکن ہے، کہ یہ کسی مروجہ  "اصول دین" یا "فروغ دین" کو زیر بحث نہیں لاتا - 

مزید مطالعہ یھاں کرسکتے  ہیں....[.......]

  1. یہاں ہم اس مسئلے کو زیربحث نہیں لائیں گے ، ہم اسلامی شریعت کے ماہر نہیں ہیں تاکہ کوئی حکم جاری کرنا  ہے -

  2. یہاں ایک مسئلہ ڈسکس ہو رہا ہے  جو ایک ایسے عظیم تضاد کی نشان دہی کرتا ہے ، کہ جس  نے اسلام کے ثانوی وسائل (کتب احادیث) کو مشکوک بنا دیا ہے-

  3. نہ تو قرآن نے اس مواد [کتب احادیث ] کی تحریر کی منظوری دی گئی ہے  اور نہ ہی مجازاتھارٹی ، ہدایت یافتہ خلفاء راشدین  نے یہ طریقہ اختیار کیا بلکہ بہت سوچ بچار اور استخارات کے بعد اس کام [کتابت احادیث ] سے سختی سے منع  کر دیا- 

  4. اگر احادیث کتب لکھنے پر پابندی کو اجتہاد (یا جوکچھ بھی کہا جایے) ، " ہدایت یافتہ ، خلفاء راشدین"  کو     رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے خصوصی طور پراہم اختلافی معاملات میں فیصلوں کا اختیار دیا تھا اور نامزد کیا تھا - وہ لوگ کوئی عام علماء یا مجتہد نہیں تھے۔ کتنے لوگ ہیں ہیں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم    نے "ہدایت یافتہ"  اور  "خلفاء راشدین" کا  خطاب دیا؟ ان کے فیصلہ کو صدی کے بعد منسوخ کون کر سکتا ہے؟  جو ان سے زیادہ " ہدایت یافتہ" ہو؟

  5. یہ مسئلہ مجھے عرصہ دراز سے پریشان کررہا ہے ، میں نے اسکالرز سے پوچھا  لیکن کوئی بھی معقول حد تک اطمینان بخش جواب نہیں دے سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ معامله زیادہ مشکوک بن جاتا ہے… کہیں غلطی ہے؟ 

  6. کہتے ہیں کہ کسی دینی سکالر سے بحث مت کرو وہ علمی اصطلاحات , مشکل الفاظ ،  تھیوریوں، قدیم  کتب کے ریفرنسز، قدیم علماء کے فرامین میں الجھا کرآپ کنفیوز کرکہ اصل موضوع سے بہت  دور، اپنے خاص موضوع کی طرف لےجائے گا وہاں آپ کو مزید الجھا دے گا کہ آپ اپنا اصل سوال بھول چکے ہوں گے - آپ کو دین کے معاملات میں عقل کے استعمال کے مضراثرات سے ڈرایا جائے گا، بزرگان دین کا اعلی علمی و روحانی مقام ، کارنامے،  کرامات کو بطور دلیل پیش  کیا جا سکتا ہے-  لیکن اگر آپ بہت مستقل مزاج (determined) اور اپنے نقطہ پیر مرکوز (focused) ہیں اور قرآن و سنت سے دلائل مانگیں، آیات کا ریفرنس دیں  توپھر آخری ہتھیار گمراہی کا فتویٰ ہے مزید ممکن ہے کہ آپ کو دائرہ اسلام سے ہی خارج قرار دیا جائے-   

  7.  وحی متلو (قرآن ) اور غیر متلو (حدیث ) کی اصطلاحات ایجاد کی گئیں جوقرآن و سنت میں نہیں سارا بیانیہ  ظن  ,  گمان ,استدلال اور استنباط , مفروضوں [deductions، assumptions and inferences ] پرکھڑا کیا گیا ہے نہ کہ قرآن کے واضح احکام پر (قرآن 3:7)..اتنا اہم ترین معامله کہ  اللہ کی آخری ایک کتاب کی حثیت تبدیل کی جارہی ہو وہ کسی کی تاویلوں کی بنیاد پرنہیں ہو سکتا-  جب مرزا قادیانی نے ایک آیت  پرتاویل گھڑی تو گمراہ ہوگیا- اسلام کی بنیاد ، ایمان اور ہدایت قرآن و سنت کے واضح احکام پر کھڑی ہے نہ کہ کسی مذہبی پیشوا کی  تاویلوں پر ... 

  8. قرآن کی "محکم آیات" 

قرآن کی "محکم آیات" کےعلاوہ آیات سے ماخوز, ظن, گمان ,اندازے,آراء (speculations, inferences, decuctions، guess work, inference) ,نتیجه گیری, کی بُنیادووں پر دین کی نہ عمارت کھڑی کی جاسکتی نہ "اصول دین " "بنیادی احکام'  [ Fundamentals of Faith] نکالے جاسکتے ہیں, یہ چور دروازہ جو یہود و نصاری استعمال کرتے تھے اللہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے[(قرآن 3:7)] جبکہ قرآن کی واضح محکم آیات موجود ہوں جو سنت سے بھی ثابت ہوں توقیاس آرائیاں ,اندازے,آراء (speculations, inferences, decuctions، guess work, inference) ,نتیجه گیری کی کوئی  گنجائش نہیں:

  •  قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)

  •  قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)

  • اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)

  • ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے (-جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویا کہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو  (الجاثية45:7,8)

  • “یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11)

اجتہاد ، قیاس صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی معاملہ میں قرآن و سنت سے واضح ہدایت نہ مل سکتے، مگر پھر بھی قرآن و سنت کے دائرہ کے اندر رہنا ہوتا ہے- اسلام کے  چھ بنیادی عقائد اور پانچ ارکان ہیں- ان عقائد کا ماخذ قرآن سے ہے, پیغمبروں اور الہامی کتابوں پر ایمان ان میں شامل ہے اس کی بنیاد قرآن سے  ہے [سورة البقرة 2  آیت: 136] - اس میں کسی اور کتاب کا تذکرہ نہیں- اب احادیث کو  وحی قرار دے کر احادیث کی کتب پر ایمان نہ لانے والے پر فتوے لگانا قرآن کی آیات کی نفی (کفر) نہیں تو کیا ہے  اور یہ سب کچھ  ظن,گمان, مفروضوں اور خود ساختہ تاویلوں  قیاس آرائیاں ,اندازے,آراء (speculations, inferences, decuctions، guess work, inference) ,نتیجه گیری, کی بُنیاد پر کیا جارہا ہے جس کی قرآن نے واضح محکم آیات سے تین مرتنہ تردید کی ہےاور خلفاء راشین کی سنت سے ممنوع قرار دیا گیا ثابت ہے-

غور کریں کہ اصول دین کدھر گئے، کہ صرف الہامی کتب پر ایمان , تو حدیث کتب کو الہامی ، وحی غیر متلو قرار دے کر اس پر ایمان کی شرائط لاگو کرنا بہت چالاکی مکاری اور عیاری سے مذہبی پیشوا ہی کر سکتے ہیں- جبکہ قرآن حدیث، کسی کتاب  کا انکار کر رہا ہے صرف ایک کتاب ہے اسلام کی اور بنی نوع انسان کی ابدی ہدایت کے لیے قرآن-

  1. چنانچہ ایک اسلامی اسکالر جو اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے مل جاتا ہے،  معلوم ہوتا ہے کہ وہ مناسب شخص ہے۔ طلبا میں جوش و جذبہ ہوتا  ہے اور وہ حصول علم کے خواہشمند  ہوتے ہیں۔  وہ اپنے تحقیقی کام کے لئے علم کے حصول کے لئے دن رات انتھک  کام کرسکتے ہیں۔  یہ محض ایک چھان بین (exploratory) پر مبنی (discussion ) بات چیت ہے جو فی الحال  (unsettled) غیر حتمی، بظاھر بےنتیجہ (inconclusive) معلوم ہو گی مگر ایسا نہیں، مناسب سطح / فورم پر مزید گفتگو کی بنیاد بن سکتی ہے۔ 

  2. تیرہ صدی پرمحیط اسلامی تاریخ  کے سب سے  بڑے سکینڈل کا قرآن اور ناقابل تردید تاریخی حقائق کی مدد سے انکشاف کرنا اور یہ توقع رکھنا کہ حقیقت  کو وہ لوگ بآسانی قبول کر لیں گے جن  کا وجود،  بقا اور مفادات اس سے جڑے ہوے ہوں،اسے مہذب الفاظ میں سادگی ہی کہہ سکتے ہیں- ایک طویل جدوجہد سے ہی مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا - یہ ایک فرد نہیں ہر باشعور مسلمان کا فرض ہے جو اسے قرآن کے وارث کی حیثیت سے ادا کرنا ہو گا-   

  3. قرآن کو چھوڑنے والے بدترین علماء 

وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)

یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔

مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔

اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)

افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:

”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” 

دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)

--------------------

سوال

پیارے بھائی!


اللہ کریم ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے۔ آپ کسی مشکل کام کی طرف گامزن ہیں۔

1.اسلامی ریاست کے لئے ایک آئینی ڈھانچہ شائد اسلامی تعلیمات (جس میں قرآن ، سنت بھی شامل ہے ، اس سے پہلے اجتہاد کا انعقاد کیا گیا تھا اور اس نے" اصول دین"  کی شکل میں قرآن و سنت سے اخذ کیا ہوا علم) کی تفہیم سے عین ممکن ہے۔


2." اصول دین" آپ کا سب سے قطعی ستون ہوگا ، کیوں کہ وہاں آپ فیصلہ کریں گے کہ جب آیات قرآنی کے مابین بظاہر (جو حقیقت میں ایسا نہیں ہوسکتا) تنازعہ موجود ہے ، یا جب عملی طور پر (جو حقیقت میں ایسا نہیں ہوسکتا) تنازعہ موجود ہے تو اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر ، اور بہت سارے اور بھی حالات ہو سکتے ہیں۔


3." اصول دین" احکام شرعیہ کی مختلف سطحوں کے درمیان فرق کرنے میں بھی  آپ کی مدد کریں گے۔ یہ وہ جگہ ہے جب آپ یہ بیان کریں گے کہ آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (جس میں تقریر ، عمل ، اور خاموشی بھی شامل ہیں) کو متعارف کرتے ہیں۔ ...(. ترجمہ )

Dr. Professor GA wrote: [Original]

Dear Brother                                   

May Allah Karim be with you always. You are on to a difficult task. A constitutional framework for an Islamic State is perhaps the pinnacle of understanding of Islamic teachings (including Quran, Sunnah, previously held Ijtehadat and derived knowledge from Quran and Sunnah in the shape of Usool-ud-Din). Usool will be your most definite pillar, because there you will decide how to manage when there is apparently (which may not be actually so) conflict between verses of Quran, or when there is apparently (which may not be actually so) conflict between practice and speech of our beloved Prophet SAW, and there are many other situations. 

Usool will help you in differentiating between various levels of ahkam-e-shariah too. It is there when you will explain how you define Sunnah (including Speech, practice, and silence) of the Holy Messenger SAW. Undoubtedly this work needs to be done and Bravo Dear Brother for all this but you need to team up. 

And WhatsApp group isn't the forum for this. Even those who  have capability to be part of this effort will not be helpful. Select your team. May Allah Karim be with you.

-----------------------------


…………………...

AAK’s Response :


Thanks Dr/Professor Sahib, 


آپ کا اس علمی مکالمہ / ڈسکشن میں حصہ لینے پر شکریہ … آپ نے ایسےاختلافی مسلائل کےحل کے لیے  "اصول دین" کی مدد حاصل کرنے کی اہمیت اور ضرورت پرزور دیا ہے-

جو  قارئین "اصول دین " کی  شرعی اسطلا ح  سے واقف نہ ہوں ان کی معلومات کے لئے اس کا مختصر تعرف پیش ہے :

------ جواب شروع میں ملاحضہ فرمائیں -----

اپ کی دلچسپی اور پر خلوص قیمتی مشورے قابل احترام و ستائش ہیں - جزاک اللہ 

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

~~~~~~~~~

🌹🌹🌹
 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

پوسٹ لسٹ