سیدنا عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) جو کہ صحابی رسول الله (صلعم)، مفسر قرآن، محدث تھے، انہوں نے قرآن کے علاوہ دوسری کتب، صحیفہ کو فتنہ، گمراہی اوربدعت ( فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ ) قرار دیا - ان کو سینکڑوں احادیث یاد تھیں - وہ احادیث کو حفظ کرکہ زبانی بیان فرماتے تھے، وہ بھی قرآن ، سنت رسول الله (صلعم) اور سنت خلفاء راشدین کے مطابق کتاب صرف ایک ، کتاب الله قرآن پر ایمان رکھتے تھے - مزید تفصیلات اس پیج کے آخر میں ملاحضہ فرمائیں-
سیدنا عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی حیات کا مختصر جائزہ :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جن کا شمار "السابقون الاولون" میں ہوتا ہے - آپ نے غزوہ بدر سمیت ہر بڑے غزوہ میں شرکت کی۔[1] ان کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ آپ ان چھ لوگوں میں سے ایک ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے ایمان لا چکے تھے-
Abdullah bin Masood (R.A) ....[.....]
یہ سعادت ابھی بھی ان ہی کو حاصل ہے کہ آپ کا شمار"عباداربعہ" میں ہوتا ہے جن کا قرآن کریم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات کے حوالے سے ایک خاص مقام ہے کہ وہ جلیل القدر صحابی ہے جن کو "افقه الصحابہ" کے نام سے تاریخ اسلام کے اندر رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا-[2]
علم و فضل کی گہرائی اور فکر کا یہ عالم تھا کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے فقہی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کی ایک مختصر فہرست بنائی جائے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا-
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "آپ میں جو لوگ کسی کی تابعداری کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان لوگوں کی تابعداری کریں جو فوت ہوچکے ہیں اس لئے کہ زندہ لوگ فتنوں سے محفوظ نہیں ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے یہ لوگ گہراعلم رکھنے والے تھے ان کے دل صاف تھے اور وہ تکلف کم کرتے تھے ان کو اللہ تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے اور اقامت دین کے لئے چنا تھا آپ ان لوگوں کی فضیلت کو سمجھ لیں اور ان کے نقشے قدم پر چلیں اور جس قدر ہو سکے تو ان کی سیرت اور اخلاق کو مضبوطی سے تھام لیں کیونکہ وہ لوگ ہدایت یافتہ اور صراط مستقیم پر پر تھے"
اگر فقہ حنفی کی بات کی جائے تو ان کے لئے بھی ایک اعزاز ہے کہ فقہ حنفی کی تعلیمات اور روایات کا مرجع ومنبع سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے اور ان کی علمی خدمات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کوفہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ کچھ عورتوں کو مسائل پر گفتگو کرتے سنا تو فرمایا" "اللہ تعالی ابن مسعود پر رحم فرمائے انہوں نے کوفہ کو علم سے بھر دیا ہے"- یہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اللہ ان کی فقہی بصیرت تھی جو ان کے شاگردوں علقمہ اور ابراہیم نخعی کے ذریعے امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچتی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی اور مسلم دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد فقہ حنفی سے وابستہ ہے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ رحمہ اللہ کی یہ عظیم الشان اور شاہکار فقہی بصیرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرہون منت ہے-[3]
آپ کا نام عبد اللہ کنیت ابو عبد الرحمن والد کا نام مسعود اور والدہ کا نام "ام عبد" تھا- آپ ایام جاہلیت میں جب آپ ابھی بچے تھے عموماً بکریاں چرا کر گزر بسر کرتے تھے یہ کام کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے اس وقت امراء اور شرفاء کےبچے بھی یہ کام کرتے تھے گویا اس زمانے میں سادگی جفاکشی محنت اور راستبازی کا عملی درس دیا جاتا تھا- مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کئی خداؤں کو ماننے والوں کو ایک خدا کو ماننے کی دعوت دی اس وقت یہ ایک کم سن اور قریب البلوغ لڑکے تھے روزانہ مکہ کے ایک رئیس عقبہ بن معیط کی بکریوں کو لے کر انہیں چرانے کے لیے انسانی آبادی سے دور مکہ کی پہاڑیوں اور وادیوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے- دلچسپ بات یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بکریاں چرانا ان کو نور اسلام سے مشرف ہونے کا ذریعہ بنا اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علوم قرآن کا درس لیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سب سے بڑے قاری اور اس کے معنی کے سب سے بڑے رمزشناس اور شریعت کے سب سے بڑے نقطہ دان تھے ایک بار جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ میدان عرفات میں وقوف تھے ایک شخص نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا امیر المومنین میں کوفہ سے آیا ہوں میں نے وہاں ایک شخص کو دیکھا جو قرآن میں دیکھے بغیر زبانی اس کی املا کراتا ہے یہ سن کر انہوں نے خشمگیں لہجے میں پوچھا تیرا برا ہو کون ہے وہ شخص؟ "عبداللہ بن مسعود" اس نے ڈرتے ہوئے کہا- یہ سن کر بتدریج ان کا غصے کا اثر زائل ہونے لگا یہاں تک کہ وہ اپنی معمول کی حالت پر آگے پھر انہوں نے فرمایا بخدا میں نہیں جانتا کہ ان سے سے زیادہ کوئی دوسرا شخص بھی اس کا حقدار ہے- اس کے متعلق میں تم سے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ایک رات کا ذکر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے یہاں تشریف فرما تھے دونوں حضرات مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے اس مجلس میں میں بھی موجود تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاں سے نکلے ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے- اچانک ہم نے دیکھا کہ کوئی شخص مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے ہم اسے پہچان نہ سکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے ہو کر اس کی قرآن سنتے رہے ہے، پھر ہماری طرف مڑتے ہوئے بولے جو شخص قرآن کو اس طرح پڑھنا چاہے جیسے کہ وہ نازل ہوا ہے اسے چاہئے کہ ابن عبد رضی اللہ تعالی ان کی مغفرت کے مطابق اسے پڑھے- پھر جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیٹھ کر دعا مانگنے لگے تو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے جاتے "مانگو دیا جائے گا"، "مانگو دیا جائے گا" میں نے اپنے دل میں کہا بخدا ہم صبح سویرے ان کے پاس جا کر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی دعا پر آمین کہنا اس کی خوشخبری سناؤں گا- ان کو خوشخبری دینے کے ارادے سے ان کے یہاں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اس سے پہلے ہی ان کو یہ خوشخبری دے چکے ہیں- خدا کی قسم میں نے جب بھی کبھی خیر میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے مسابقت کی کوشش کی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیشہ مجھے پیچھےچھوڑدیا-
کتاب اللہ کے علم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام اتنا بلند تھا کہ خود فرماتے ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں قرآن کریم کی جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ اس کے متعلق کوئی شخص مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور اس کے پاس پہنچنا ممکن ہو تو میں وہاں پہنچ کر اس کے علم سے ضرور اس استفادہ حاصل کروں گا-
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو قرآنِ پاک سے عشق تھا اور اپنا زیادہ تر وقت اسی کی تعلیم حاصل کرنے میں خرچ کرتے۔ اُنھوں نے رسول اللہﷺ کی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے70 سے زاید سورتیں نہ صرف یاد کیں، بلکہ اُنہیں اس طرح پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا، جس طرح جبرائیلؑ نے اللہ کے محبوبؐ پر نازل فرمائیں۔ ابنِ مسعودؓ نے مسجدِ نبویؐ سے متصل، ’’صفّہ‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ آنحضرتﷺ کے گھر اُمّ المومنین، حضرت خدیجہؓ کے زیرِ سایہ تربیت حاصل کی اور رسول اللہﷺ کی سرپرستی میں پروان چڑھے۔ آپؓ نہایت پُرسوز آواز کے مالک اور خوش الحان قاری تھے۔ جب قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے، تو درو دیوار وجد میں آجاتے۔[4]
قرآنِ کریم کی تفسیر و تفہیم اُن کا خاص میدان تھا، جس میں اُنہیں اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ رسول اللہﷺ نے اُن کی قرآن فہمی کی خود گواہی دی۔ آپﷺ نے فرمایا’’ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو، عبداللہ بن مسعودؓ، سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ ، معاذ بن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ ‘‘ (بخاری)۔
آپ صرف عالم اور قاری اور عابد وزاہد ہی نہیں تھے بلکہ وہ بڑے عالی ہمت نہایت دوراندیش زبردست مجاہد اور میدان کارزار میں پیکر جرات و شجاعت بھی تھے- وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے دن کے مجمع میں بآواز بلند قرآن پڑھ کر سنایا- ایک روز مسلمان جب وہ قلیل تعداد اور کمزور تھے مکہ مکرمہ میں اکٹھے ہو گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ بخدا ابھی تک قریش نے با آواز بلند کسی سے قرآن نہیں سنا کون ہے جو ان کو سنا دے؟ عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں انھیں قرآن سناؤں گا- صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ اس کے لئے مناسب نہیں ہیں ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام ایسا شخص انجام دے جس کی پشت پر اس کے قبیلے کی طاقت ہوں کہ اگر قریش اس کے ساتھ بری نیت سے پیش ہیں اس کا قبیلہ اس کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہو- لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا نہیں یہ کام مجھے ہی کرنے دو اللہ تعالی مجھے ان کے شر سے محفوظ رکھے گا اور ان کے مقابلے میں میری حمایت کرے گا- پھر وہ چاشت کے وقت مسجد حرام میں داخل ہوئے اورمقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچ گئے اس وقت سرداران قریش بیٹھے ہوئے تھے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مقام ابراہیم علیہ السلام پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے قرآن کی تلاوت شروع کی تو کتاب الہی کی آیات پڑھتے چلے گئے آواز سن کر سرداران قریش ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے یہ ابن عبد کیا پڑھ رہا ہے یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور تیزی سے ان کی طرف لپکے اور ان کے چہرے پر مارنے لگے لیکن انہوں نے تلاوت کا سلسلہ منقطع نہیں کیا اوبر پڑھتے رہے اور وہاں جاکے رکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے- پھر وہ لوٹ کر اپنے ساتھیوں میں آئے اس وقت ان کے جسم سے خون بہ رہا تھا لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا آپ کے متعلق ہمیں اسی بات کا اندیشہ تھا یہ سن کر انہوں نے کھا کہ دشمنان خدا اس سے پہلے میری نظر میں اتنے ذلیل اور بے وقعت نہ تھے، اگر آپ لوگ چاہیں تو میں کل بھی ان کو اس طرح قرآن سنا سکتا ہوں لیکن ساتھیوں نے کہا نہیں ابھی اتنا کافی ہے تم ان کو وہ چیز سنا دیں جس کا سننا ان کو گوارا نہیں-[5]
جب مکّے میں مشرکین کے جوروستم اپنی انتہا کو پہنچ گئے، تو آپﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کی اجازت دے دی، چناں چہ 5 نبوی میں حضرت عثمانؓ کی امارت میں 12 مَردوں اور چار عورتوں نے حبشہ ہجرت کی، جن میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی شامل تھے۔ کچھ عرصہ وہاں رہ کر قریش کے قبولِ اسلام کی غلط اطلاع پر واپس آئے، لیکن پہلے سے ابتر حالات دیکھ کر واپس حبشہ چلے گئے اور پھر تیسری بار ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے، جہاں رسول اللہﷺ نے آپؓ کی مواخات ،حضرت معاذ بن جبلؓ سے کروادی۔[6]
آپ سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت تک حیات رہے جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ان کے عیادت کے لئے تشریف لے گئے مزاج پرسی کے بعد انہوں نے دریافت کیا آپ کو کس چیز کی شکایت ہے؟ بولے اپنے گناہوں کی- پوچھا کیا خواہش ہے؟ بولے اپنے رب کی رحمت کی- پوچھا کیوں نہ آپ کے وظیفے کی ادائیگی کا حکم جاری کر دوں جس کو لینے سے آپ نے پچھلے کئی سالوں سے انکار کیا ہے؟ بولے مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے- کہنے لگے آپ کے پاس آپ کی بچیوں کے کام آئے گا- کہا کیا آپ کو میری بیٹیوں کے متعلق محتاجی کا اندیشہ ہے؟ میں نے انہیں ہر رات سورہ واقعہ پڑھنے کی ہدایت کر دی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ہر رات کو سورہ واقعہ پڑھ لیا کرے گا وہ فقر و فاقہ سے دوچار نہ ہوگا-
حضرت عُمر فاروقؓ نے ایک روز حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بیٹھے دیکھا، تو فرمایا’’ یہ شخص علم و معرفت سے بھری چھاگل ہے۔‘‘ حضرت علی مرتضیٰؓ فرماتے تھے کہ’’ قرآن وسنّت کا علم عبداللہ بن مسعودؓ پر ختم ہوجاتا ہے۔‘‘حضرت حذیفہؓ فرماتے تھے کہ’’ مَیں کسی کو نہیں جانتا، جو طور و طریق میں ابنِ مسعودؓ سے زیادہ رسول اللہﷺ سے مشابہ ہو‘‘ (بخاری)۔ حضرت ابو مسعودؓ نے کہا’’ مَیں نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے اپنے بعد عبداللہ بن مسعودؓ سے زیادہ وحی کا جاننے والا چھوڑا ہو‘‘ (صحیح مسلم)۔[7]
ابوالاحوص فرماتے ہیں ایک روزہم اور عبداللہ بن مسعود کے چند احباب کے ساتھ ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کے مکان میں تھے حضرت عبداللہ چلنے کے راستے سے کھڑے ہوئے ابومسعود نے ان کی طرف اشارہ کرکے کہا میں نہیں چاہتا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان سے زیادہ کوئی شخص قرآن کا علم ہے، ابو موسی نے کہا کیوں نہیں یہ اس وقت بارگاہ رسول میں حاضر رہتے تھے جب کہ ہم لوگ غائب ہو جاتے تھے-
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ- میں نے عرض کیا : "میں آپ کو قرآن سناؤں جو آپ پر نازل ہوا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے قرآن سنوں- میں نے سورت نساء پڑھنی شروع کی جب میں آیت نمبر 41 پر پہنچا تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمان اکرم سے آنسو بہہ رہے تھے-
آپ کو رازدان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز بھی حاصل ہے جب آپ بکریوں کی گلہ بانی سے نکل کر سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں منتقل ہوئے تو آپ ہر وقت، سفر میں، گھر کے اندر اور گھر سے باہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل کا ارادہ کرتے ہیں تو آپ پردے کا انتظام کرنے کی سعادت، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے کا ارادہ کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعلین پہنانے کی سعادت، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تو وہ لین کو مبارک سے نکالنے کی سعادت، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عصا اور مسواک کی حفاظت کرتے اور جب آپ صلی اللہ وسلم کمرے میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو اس سے پہلے اس میں داخل ہونے کی سعادت آپ کا خاصہ ہے-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے قلب و تعلق کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر وقت اپنے گھر اور آپ نے تمام رازوں سے واقف رہنے کی اجازت دے رکھی تھی اس وجہ سے وہ "رازدان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کہے جاتے تھے-
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آنحضرتﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی۔ غزوۂ بدر میں ابوجہل کو دو انصار بچّوں نے شدید زخمی کردیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، آنحضرتﷺ کے حکم پر ابوجہل کو تلاش کرتے ہوئے جب اُس تک پہنچے، تو اُس کی سانس چل رہی تھی۔حضرت ابنِ مسعودؓ اُس کے سینے پر سوار ہوئے، ایک پائوں اُس کی گردن پر رکھا اور کہا’’ اے اللہ کے دشمن! تو ہی ابوجہل ہے، آج اللہ نے تجھے خُوب ذلیل وخوار کیا ہے۔‘‘ ابوجہل نے پوچھا،’’ یہ بتا، فتح کس کی ہوئی ہے؟‘‘، حضرت ابنِ مسعودؓ نے جواب دیا’’ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی۔‘‘ پھر آپؓ نے اس کا سَرتن سے جدا کیا اور رسول اللہﷺ کے قدموں میں لاکر ڈال دیا۔ آپﷺ نے تین بار فرمایا ’’ واقعی، اُس ربّ کی قسم، جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔ اُس کے بعد آپﷺ نے اللہ کی حمد وثناء بیان کی۔ پھر فرمایا’’ چلو، مجھے اس کی لاش دِکھائو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آپﷺ کو لے جاکر لاش دِکھائی، تو آپﷺ نے فرمایا ’’یہ اس امّت کا فرعون ہے‘‘ (الرحیق المختوم)۔[8]
گیارہ ہجری میں آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابنِ مسعودؓ گوشہ نشین ہوگئے تھے۔15ہجری میں جنگِ تبوک کے موقعے پر حضرت عُمر فاروقؓ نے اُنہیں گوشۂ تنہائی سے نکال کر محاذ پر بھیجا اور جب محاذ سے واپس آئے، تو اُنہیں کوفے کا قاضی مقرّر کردیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ 10 سال تک کوفے کے قاضی، بیت المال کے امیر اور شعبۂ تعلیم کے سربراہ رہے۔ اس عرصے میں آپؓ نے کوفے کو علم کی دولت سے مالا مال کردیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے قلب و تعلق کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر وقت اپنے گھر اور
آپ نے تمام رازوں سے واقف رہنے کی اجازت دے رکھی تھی اس وجہ سے وہ "رازدان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کہے جاتے تھے-
آپؓ کا 32ہجری میں 63سال کی عُمر میں انتقال ہوا اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔بعض روایات کوفے میں تدفین سے متعلق بھی ہیں۔ یہ عظیم اور سعادت مند صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سےرات کو جا ملے اس وقت ان کی زبان مبارک اللہ تعالی کے ذکر اور اس کے آیات بینات سے تر تھی-
(صحیح بخاری، صحیح مسلم، مشکوۃ اسد الغابه، رجال حول الرسول، الاصابہ ،الاستیعاب طبقات ابن سعد) تحریر ابو حیدر ( روزنامہ 92 نیوز 17 فروری 20 21 صفحہ نمبر 10)-
Link: آپ نے تمام رازوں سے واقف رہنے کی اجازت دے رکھی تھی اس وجہ سے وہ "رازدان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کہے جاتے
تھے-
آپؓ کا 32ہجری میں 63سال کی عُمر میں انتقال ہوا اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔بعض روایات کوفے میں تدفین سے متعلق بھی
ہیں۔ یہ عظیم اور سعادت مند صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سےرات کو جا ملے اس وقت ان کی زبان مبارک
اللہ تعالی کے ذکر اور اس کے آیات بینات سے تر تھی-
( ماخوز، ترمیم - تحریر ابو حیدر(صحیح بخاری، صحیح مسلم، مشکوۃ اسد الغابه، رجال حول الرسول، الاصابہ ،الاستیعاب طبقات ابن سعد) ( روزنامہ 92 نیوز 17 فروری 20 21 صفحہ نمبر 10)-
**************
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور "کتابت غیر قرآن
حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ)کے مطابق "فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ" ہے-
أَخْبَرَنِي أَبُو الْفَضْلِ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْفَزَارِيُّ الصَّيْرَفِيُّ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا جَدِّي، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ أُجَالِسُ أُنَاسًا فِي الْمَسْجِدِ , فَأَتَيْتُهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا عِنْدَهُمْ صَحِيفَةٌ يَقْرَءُونَهَا فِيهَا ذِكْرٌ وَحَمْدٌ وَثَنَاءٌ عَلَى اللَّهِ , فَأَعْجَبَتْنِي , فَقُلْتُ لِصَاحِبِهَا أَعْطِنِيهَا فَأَنْسَخُهَا , قَالَ: فَإِنِّي وَعَدْتُ بِهَا رَجُلًا , فَأَعِدَّ صُحُفَكَ , فَإِذَا فَرَغَ مِنْهَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكَ , فَأَعْدَدْتُ صُحُفِي , فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ذَاتَ يَوْمٍ , فَإِذَا غُلَامٌ يَتَخَطَّى الْخَلْقَ يَقُولُ: أَجِيبُوا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فِي دَارِهِ , فَانْطَلَقَ النَّاسُ , فَذَهَبْتُ مَعَهُمْ , فَإِذَا تِلْكَ الصَّحِيفَةُ بِيَدِهِ وَقَالَ: أَلَا إِنَّ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ , وَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكُتُبِ بِاتِّبَاعِهِمُ الْكُتُبَ وَتَرْكِهِمْ كِتَابَ اللَّهِ , وَإِنِّي أُحَرِّجُ عَلَى رَجُلٍ يَعْلَمُ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا دَلَّنِي عَلَيْهِ فَوَالَّذِي نَفْسُ عَبْدِ اللَّهِ بِيَدِهِ لَوْ أَعْلَمُ مِنْهَا صَحِيفَةً بِدَيْرِ هِنْدَ لَأَتَيْتُهَا وَلَوْ مَشْيًا عَلَى رِجْلَيَّ , فَدَعَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ تِلْكَ الصَّحِيفَةَ (تقييد العلم ص 55)
أَجِيبُوا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فِي دَارِهِ , فَانْطَلَقَ النَّاسُ , فَذَهَبْتُ مَعَهُمْ , فَإِذَا تِلْكَ الصَّحِيفَةُ بِيَدِهِ وَقَالَ: أَلَا إِنَّ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ , وَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكُتُبِ بِاتِّبَاعِهِمُ الْكُتُبَ وَتَرْكِهِمْ كِتَابَ اللَّهِ , وَإِنِّي أُحَرِّجُ عَلَى رَجُلٍ يَعْلَمُ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا دَلَّنِي عَلَيْهِ فَوَالَّذِي نَفْسُ عَبْدِ اللَّهِ بِيَدِهِ لَوْ أَعْلَمُ مِنْهَا صَحِيفَةً بِدَيْرِ هِنْدَ لَأَتَيْتُهَا وَلَوْ مَشْيًا عَلَى رِجْلَيَّ , فَدَعَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ تِلْكَ الصَّحِيفَةَ
عبد اللہ بن مسعود کے گھر لوگ گئے ، میں ان کے ساتھ گیا ، اس کے ہاتھ میں کاغذ تھا اور انہون نے کہا: اس صحیفہ میں فتنہ، گمراہی اوربدعت ہے ( فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فِتْنَةٌ وَضَلَالَةٌ وَبِدْعَةٌ ) تم سے قبل اہل کتاب ہلاک (برباد، گمراہ) ہوئے کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ چھوڑ کر دوسری کتب کی اتباع کی ۔ یا اللہ ، میں شرمندہ ہوں ان کو کچھ نہیں جانتا لیکن مجھے دکھاؤ اگر وہ مجھے جانتا ہے، اگر ہند کے مندر (بت خانہ ) میں بھی صحیفہ ہو تو میں جا کر لاتا پھر اس نے پانی کا منگوایا اور تو اس نے وہ صحیفہ دھودیا (تقييد العلم ص 55)
http://lib.efatwa.ir/43553/1/55
أَوَ حَدِيثًا أَحْسَنَ مِنْ حَدِيثِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟ (اللہ کی حدیث سے کوئی حدیث بہتر ہے؟)
وَأَخْبَرَنَا النَّاقِدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءَ سُلَيْمِ بْنِ أَسْوَدَ , قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مِرْدَاسٍ، فَرَأَيْنَا صَحِيفَةً فِيهَا قَصَصٌ وَقُرْآنٌ مَعَ رَجُلٍ مِنَ النَّخَعِ , قَالَ: فَوَاعَدْنَا الْمَسْجِدَ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مِرْدَاسٍ، اشْتَرِي صُحُفًا بِدِرْهَمٍ , إِنَّا لَقُعُودٌ فِي الْمَسْجِدِ نَنْتَظِرُ صَاحِبَنَا , إِذَا رَجُلٌ فَقَالَ: أَجِيبُوا عَبْدَ اللَّهِ يَدْعُوكُمْ , قَالَ: فَتَقَوَّضْتُ الْحَلْقَةَ , فَانْتَهَيْنَا إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , فَإِذَا الصَّحِيفَةُ فِي يَدِهِ , فَقَالَ: «إِنَّ أَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْي مُحَمَّدٍ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَإِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ , وَإِنَّ شَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا , وَإِنَّكُمْ تُحْدِثُونَ وَيُحْدَثُ لَكُمْ , فَإِذَا رَأَيْتُمْ مُحْدَثَةً فَعَلَيْكُمْ بِالْهُدَى الْأَوَّلِ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ أَهْلَ الْكِتَابَيْنِ قَبْلَكُمْ , مِثْلُ هَذِهِ الصَّحِيفَةِ وَأَشْبَاهُهَا تَوَارَثُوهَا قَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ , حَتَّى جَعَلُوا كِتَابَ اللَّهِ خَلْفَ ظُهُوَرِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ , فَأَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا عَلِمَ مَكَانَ صَحِيفَةٍ إِلَّا أَتَانِي , فَوَاللَّهِ لَوْ عَلِمْتُهَا بِدَيْرِ هِنْدَ لَانْتَقَلْتُ إِلَيْهَا» http://lib.efatwa.ir/43553/1/55
[تقييد العلم للخطيب ذكر الرواية عن زيد بن ثابت عن النبي صلى الله عليه في ذلك رقم الحديث : 12]
ہمیں نعیم ابو احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحاق الحفیظ ، اصغن نے ، ہمیں عبد اللہ بن جعفر بن احمد بن فارس نے ، ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ بن مسعود عبدی نے ، ہمیں محمد بن سلیمان نے بتایا ، بیٹے نے یویانہ سے ، ابن زید ابن اسلم نے بیان کیا اس کے والد ، عطا بن یسار ، ابو سعید کے اختیار پر ، انہوں نے کہا: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث لکھنے کو کہا ، تو انہوں نے مجھے اجازت دینے سے انکار کردیا۔"
[تقييد العلم للخطيب ذكر الرواية عن زيد بن ثابت عن النبي صلى الله عليه في ذلك رقم الحديث : 12]
ابن مسعود (رضی الله) نے اپنے بیٹے کی لکھی حدیث کو مٹا دیا
احَدَّثَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِحَدِيثٍ فَقَالَ ابْنُهُ: لَيْسَ كَمَا حُدِّثْتُ , قَالَ: وَمَا عِلْمُكَ؟ قَالَ: كَتَبْتُهُ , قَالَ: فَهَلُمَّ الصَّحِيفَةَ , فَجَاءَ بِهَا , فَمَحَاهَا
ابن مسعود کی ایک حدیث ہے ، تو اس کے بیٹے نے کہا: ایسا نہیں ہے جیسا کہ تھا ، اس نے کہا: تمہارا کیا علم ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے یہ لکھا ، انہوں نے کہا: تو وہ صحیفہ کو لے آیا ، اور اس نے اسے مٹا دیا [[ تقييد العلم ص 39]
http://lib.efatwa.ir/43553/1/39
Links:
- https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vRHEOpcHaH0XPNT_K7FrKYxXiEiZruUz075ndX7_kx94mIfNOiFHvtnlQN7tI9Ef-ODJ1HvMqVdd0EI/pub
- https://forum.mohaddis.com/threads/.27945/
- 4عبد اللہ بن مسعود - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا (wikipedia.org)
- قرآن اور فِقہ کے امام حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (jang.com.pk)
2عبد اللہ بن مسعود - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا (wikipedia.org) - https://forum.mohaddis.com/threads/.27945/
[2] (صحیح بخاری، صحیح مسلم، مشکوۃ اسد الغابه، رجال حول الرسول، الاصابہ ،الاستیعاب طبقات ابن سعد) تحریر ابو حیدر ( روزنامہ 92 نیوز 17 فروری 20 21 صفحہ نمبر 10) https://www.roznama92news.com/backend/web/uploads/epaper/0/2021/02/17022021/p10-002.jpg
[6] 2عبد اللہ بن مسعود - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا (wikipedia.org)
قرآن اور فِقہ کے امام حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (jang.com.pk)
[7] قرآن اور فِقہ کے امام حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (jang.com.pk)
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
حدیث کے بیان و ترسیل کا مجوزہ طریقہ
کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے- ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83] رسول اللہ ﷺ ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89] اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ جب تک "اجماع" قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]
~~~~~~~~~
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
[1] اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث" پر بھی ایمان کا ذکر نہیں. بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا : اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)
[2] اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)
[3] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]
[4] خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ، رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )
یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !
[5] افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾
لہذا تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-