وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾
"اور خود کہا (انہوں نے ) کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا (157) بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے (4:158)
"منکرین ختم نبوت" یعنی "تثلیث نبوت" کے نظریہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے زندہ بچ گئے اور پھر غار سے کشمیر چلے گۓ جہاں طبعی وفات پا کر مدفون ہونے- اور مردے قیامت سے پہلے زندہ نہیں ہوتے لہٰذا یہ نظریہ کہ قیامت سے قبل وہ واپس آئیں گے قرآن کی ان کی تشریح کے مطابق درست نہیں- احادیث میں جو ان کی واپسی ، نزول کا ذکر ہے وہ روحانی ہے، اور یہ کہ اب مرزا مسیح موعود، "مثیل عیسیٰ" ہیں-
اس آیت کو نزول مسیح ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے:
وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿٤٣:٦١﴾
اور وہ در اصل قیامت کی ایک نشانی ہے، پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو ، یہی سیدھا راستہ ہے (قرآن: 43:61)
اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ " وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے ؟
حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے، یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کرسکتا ہے کہ قیامت آئے گی۔ لیکن یہ تفسیر سیاق وسباق سے بالکل غیر متعلق ہے۔ سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے۔ دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم ہیں اور یہی سیاق وسباق کے لحاظ سے درست ہے۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے؟ ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، قتادہ، سدی، ضحاک، ابوا العالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ قیامت اب قریب ہے۔ لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے۔ ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پاسکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ " پس تم اس میں شک نہ کرو "۔ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بےباپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے، اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کرسکتا ہے، اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کرسکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔(تفہیم القرآن)
بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ انہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے اور مراد یہ ہے کہ قرآن مجید قرب قیامت کی نشانی ہے کیونکہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تشریف لانا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اب قیامت قریب ہے کما قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعثت انا والساعة کھاتین (میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جیسے یہ دونوں انگلیاں قریب قریب ہیں۔)(انوار البیان)
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١١٦﴾ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿١١٧﴾
"جب اللہ فرمائے گا کہ "اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ الله کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی الله بنا لو؟" تو وہ (عیسیٰ ابن مریم) جواب میں عرض کرے گا کہ "سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں (116) میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں (5:117)
یہ گفتگو قیامت کے میدان میں ہو رہی ہے، اور اس وقت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نزول فرما کر زمین میں رہ کرگمراہوں کو ھدایت سے مستفیض کر کہ طبعی موت پا کر دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں گے۔ لہٰذا اگر یھاں "تَوَفَّیتَنِیْ" کو موت کے معنی میں بھی لیا جائے تب بھی ان ملحدوں کا استدلال صحیح نہیں۔ جو اپنے تراشیدہ عقیدہ کے مطابق قرآن مجید کے مفاہیم تجویز کرتے ہیں-
اس سے یہ حجت پکڑنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر نزول نہ ہونا ثابت ہے درست نہیں- یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اکیلے نہیں بلکہ تمام انبیاء اپنی اقوام کے حالات سے لاعلمی کا اظھار کرتے ہیں جس کی وجوہ یہ ہیں کہ،
- انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم یقینا انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی کی ہولناکی اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بعد کے حالات سے ہوگا۔
- علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو ہی ہے نہ کہ ہم۔- اس لئے (انبیاء) عرض کریں گے کہ (ظاہری جواب تو ہم کو معلوم ہے اور اس کو بیان بھی کردیں گے، لیکن ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کی) ہم کو کچھ خبر نہیں (اس کو آپ ہی جانتے ہیں کیونکہ) آپ بیشک پوشیدہ باتوں کے پورے جاننے والے ہیں-
- حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد موجود گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لا چکے مگر پہلے والوں کے متعلق کچھ نہیں کر سکتے، تو وہ نہایت عاجزی سے الله تعالی سے درخواست کرتے ہیں:
إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨﴾
اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو (تیری مہربانی ہے) بےشک تو غالب اور حکمت والا ہے (5:118)
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
"وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے"۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر: 28)
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشن گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ مسیح کے ذریعہ ظہور میں آئے گا- مسیح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے اسلام دنیا میں پھیل جائے گا، غالب ہو گا-
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ﴿٢﴾ لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اُسی کی لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار ، دین خالص اللہ کا حق ہے (قران 39:2) اس کے بنیادی نکات دو ہیں، ایک یہ کہ مطالبہ اللہ کی عبادت کرنے کا ہے۔دوسرے یہ کہ ایسی عبادت کا مطالبہ ہے جو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے کی جائے۔ ان مفہومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کے معنی اِس آیت میں اُس ’’ طرز عمل اور اس رویّے کے ہیں جو کسی کی بالاتری تسلیم اور کسی کی اطاعت قبول کر کے انسان اختیار کرے۔‘‘ اور دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’ آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے ، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کاس اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے ‘‘۔
مرزا صاحب جو نبوویت کے دعوی دار ہیں ان کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ سکی ؟ وہ دوسرے دلائل تو دیتے ہیں مگر اس سب سے مظبوط دلیل کو بھول گۓ، کہتے ہیں کہ مجھے الله نے قرآن کا علم دیا ہے - کیسا علم دیا ہے؟ غلط بیانی کے رہے ہیں - ان آیات کی مرزا صاحب کی تفسیر پڑھانے سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب یہ یقین کر بیٹھے کہ یہ الله سے حضرت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مکالمہ ان کی وفات (بقول مرزا) کے بعد عالم برزخ میں ہوا ، جبکہ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ مکالمہ بروز قیامت ہو گا- یھاں بھی جھوٹا نبی ثابت ہوا-
مسیح اور مہدی
اہل "تثلیث نبوت" (اہل ثلاثةٌ/ قادیانیت) کے بانی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور،امام مہدی کو ایک شخصیت سمجھتے ہیں مگر اس کی قرآن ومستند احادیث سے کوئی دلیل نہیں( ضعیف و منکر احادیث عقائد کی بنیاد نہیں بن سکتیں)-لیکن قادیانی نہیں تسلیم کرتے اور 34 حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ یہ مستند بات ہے. اگر دونوں طرف سے مستند احادیث پر زور ہے تو فیصلہ صرف قرآن ، الفرقان کر سکتا ہے- اور قرآن میں کسی مہدی یا امام یا مجدد کا ذکر نہیں پایا جاتا- اس طرح سے دونوں بیان مسترد قرار پاتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہدی ایک داستان (myth) ہے جیسا کہ ممتاز محققین علماء کا نظریہ ہے- اور رسول اللہ ﷺ سے ماخوز اصول حدیث کے مطابق بھی قرآن سے مطابقت نہ رکھنے والی احادیث ضعیف قرار پا تی ہیں- اس طرح سے مرزا غلام احمد قددیانی کے دعووں کو مسترد قرار دیا جا سکتا ہے- اور ان کی وحی اور نبوت بھی کذب ہے جو کمزور دلائل کی بنیادوں پر کھڑی ہے-
اس صورت میں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام رہ جاتے ہیں، جس کا ذکر قرآن و احادیث میں موجود ہے جس پر بحث کی گنجائش ہے- ان کا زندہ رفع بھی قرآن سے ثابت ہے، جو قادنیت کی جڑھ کو اکھاڑ دیتا ہے.
- تفصیل ملاحضہ فرمائیں :
الله تعالی کا پلان یہود کے پلان کو ناکام کرنا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو مار کر یہود کے پلان کو کامیاب کرنا؟ جیسا کہ منکرین ختم نبوت آیات قرآن کے برخلاف دعوی کرتے ہیں - الله تعالی ۓ اپنا پلان ظاہر کر دیا:-
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵﴾
"جب اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں( مُتَوَفِّيْکَ ) اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں (رَافِعُکَ) اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک ، پھر تم سب کا لوٹنا (مَرۡجِعُکُمۡ ) میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا (قرآن 3:55) [تین اہم الفاظ میں سارے مسئلہ کا حل پوشیدہ ہے: مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ، مَرۡجِعُکُمۡ]
1.موت میں انسان کی روح اور جان (زندگی) چلی جاتی ہے جسم یہیں دنیا میں رہ جاتا ہے-
2. عربی لفظ "متوفی" کا ایک یہ مطلب یہ کہ: مکمل پوا کا پورا لے لینا - انسان مرکب ہے تین چیزوں کا : i) جسم ii)روح ، iii)جان(زندگی)- جب یہ تینوں مکمل ہیں اکٹھے ہیں تو انسان زندہ حالت میں ہے ، جیسے نیند میں- رَافِعُکَ ، بلند کرنے، اونچا کرنے جسمانی طور پر-
3.اگر جسم دنیا میں رہ جاۓ صرف روح اور جان (زندگی) الله تعالی لیتا ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہے، تو اسے 'موت' کہا جاتا ہے- مگر یہ تاریخی شہادت، ایک حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا جسم دنیا میں نہیں رہا جوکسی کو نہیں ملا اس پر داستانیں مشہورہیں- لہذا ان پر یہ لفظ مُتَوَفِّیْکَ یعنی 'مکمل طور پر پورا کا پورا حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح علیہ السلام کو الله تعالی نے لے لیا' درست طور پر بعین لاگو ہوتا ہے- منکرین نبوت (مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ) کے غلط معنی نکال کر یہود یہود کا پلان کامیاب کرتے ہیں اور اللہ کو ناکام (استغفراللہ )-
4. اسی آیات میں الله تعالی فرماتا ہے: ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ [پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (قرآن 3:55)] تو حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو تو الله تعالی نے مکمل اٹھا لیا- توالله کے پاس واپس لوٹ کر وہ اسی صورت میں آسکتے ہیں جب ان کی دنیا میں (واپسی (نزول) ہو پھر موت (مَرۡجِعُکُمۡ ) (یہ دنیا میں دوبارہ واپسی یا نزول عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بالواسطہ/ indirect اشارہ ہے -
لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی 'موت' جو منکرین ختم نبوت عقیده کی جڑھ ہے قطعی طور پر قرآن سے ثابت نہیں بلکہ مکمل طور پر جسم سمیت زندہ اوپر اٹھایا جانا ثابت ہے-
پس منکرین ختم نبوت کی بنیاد اور جڑھ کا ختمہ ہو گیا- ان کو اسلام کی طرف رجوع، واپسی کی دعوت ہے-
مزید ٹفصل درج ذیل ......