رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حدیث کی قبولیت ، قرآن سے مشروط ( مودودی )


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  حدیث کی درستگی اور پہچان کا میعار مقرر فرمایا جو کہ احادیث  میں موجود ہے ، اس کے مطابق حدیث کو قرآن و سنت کے مطابق اور عقل کو قابل قبول ہونا چاہیئے 

تفسیر میں  مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ایک ضعیف حدیث کو، دوسری روایات جن کی  سنداً قوی تر ہیں لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت پر ان کو ضعیف قرار دیا- 
قیامت کے زلزلہ کا بیان (قرآن 22:2)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ‌ۚ اِنَّ زَلۡزَلَةَ السَّاعَةِ شَىۡءٌ عَظِيۡمٌ ۞ يَوۡمَ تَرَوۡنَهَا تَذۡهَلُ كُلُّ مُرۡضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرۡضَعَتۡ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمۡلٍ حَمۡلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَمَا هُمۡ بِسُكٰرٰى وَلٰـكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيۡدٌ‏ ۞
ترجمہ:
لوگو، اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے ۞ جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچّے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 22 الحج، آیت نمبر 1-2)
مختصر تفسیر
یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے ، اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مردے زندہ ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور اس کی تائید میں متعدد احادیث بھی نقل کی ہیں،
*لیکن قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے*
 قرآن اس کا وقت وہ بتارہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں کے۔
 اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوگی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہوگا، کیونکہ *قرآن کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہوچکے ہوں گے اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہوگا۔*
لہٰذا قابل ترجیح وہی روایات ہے  اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر "قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔"
اور یہ دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے۔
(ماخوز تفہیم القرآن، مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

 زلزلہ قیامت کی کیفیت کا قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ مثلاً : 
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً فَیَوْمَئِذٍ وَّ قَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۔ (الحاقہ)
 " پس جب صور میں ایک پھونک ماردی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ عظیم پیش آجائے گا "۔ 
اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا۔ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا۔ (الزلزال) 
" جب کہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی، اور انسان کہے گا یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔ 
" یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ۔ قُلُوْ بٌ یُّوْمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ اَبْصَارُھَا خَاشِعَۃٌ۔ (النٰزعات 1) 
" جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی "۔ 
اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا۔ (الواقعہ 1) 
" جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اڑنے لگیں گے "

اطاعت رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَاِ السَّمَآءُ مُنْفَطِرٌ بِہ۔ (المزمل۔ 1) 
" اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
 تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (ابی داود، حدیث: 4607، ترمزی 266 )
سنت خلفا راشدین  میں قرآن کی تدوین ہوئی مگر حدیث کی تدوین سے حضرت عمر رضی الله نے سوچ بچار اور استخارہ کے بعد منع فرمایا جیسا کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  منع فرمایا کہ پہلی امتیں کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب لکھ کر گمراہ ہو گیئں .... کتابت حدیث نہ کرنے کی سنت  پر تمام خلفاء راشدین کا کا اجماع ہے .  پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف دوسری ، تیسری صدی حجرہ میں کتب حدیث مدون کی گیئں جو حکم عدولی ہے بدعت ہے .. 
اس کا ازالہ کرنا ضروری ہے ....

~~~~~~~~~

🌹🌹🌹
 🔰اسلام : احیاء دین کامل کی جدوجہد 🔰
 اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ

"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام کو پسند کیا ہے" (قرآن :5:3)یہ "آیت کمال دین " حجتہ آلودا ع پر نازل ہوئی، کمال کے بعد زوال شروع ہوا- بدعات اور فرقہ واریت اسلام میں داخل ہوتی گیئں- دین اسلام کی بنیاد اللہ کی آخری کتاب، قرآن پر ہے جورسول اللہ ﷺ بہترین نمونہ  کی اطاعت کا حکم دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ کی سنت اوراحادیث موجود ہیں- حدیث کا میعار اورطریقه بیان رسول الله  ﷺ نے مقرر فرمایا- قرآن مستند ترین محفوظ کتاب الله ہی راہ هدایت ہے- آیئں ہم دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں  >>>>>>

"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ “تجدید الاسلام” حدیث کے خلاف ہے۔“تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا، حقیقی محبت کا اظہار اطاعت[83]  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی[84]- قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث”[85] کا انکار، ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار[86]کے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار[87]- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[88] کے ذریعہ ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں-"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت[89 اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت[90] (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا[91]) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر)[92] وضع موجود  (statuesque) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیار[93] کے مطابق احادیث کا بیان و ترسیل بزریعہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی[94] ممکن ہو سکتا ہے(و اللہ اعلم ) جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے- [مزید تفصیل: سنت، حدیث اور متواتر حدیث][95]

پوسٹ لسٹ