2.مصادر الإسلام
3.شاه کلید قرآن: محکم اور متشابھات (قرآن : 3:7)
4.اسنت , حدیث اور متواتر حدیث
5.علم الحديث کے (7) سات سنہری اصول
6.علماء کو رب بنانا
7.کتمان حق : آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم
8.قرآن ترک العمل ( مھجور)
9.قرآن اور عقل و شعور
10.صرف مسلمان بنو اور مسلمان کہلاؤ
11.بدعة، گمراہی (ضَلَالَۃٌ)
12احکام القرآن
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ
جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے (قرآن : (8:42دعوی : مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ میں ؛ "نبی بغیر شریعت" ہوں
ختم نبوت پر چودہ سو سال سے قرآن سنت کی بنیاد پر اجماع صحابہ و امت ہے کہ : "شریعت محمدی" کے مطابق اسلام میں محمد رسول اللهﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد نہیں ہو سکتی- جب کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ "بغیر شریعت کے نبی" ہے تو وہ "شریعت محمدی" میں بنیادی تبدیلی کر رہا ہے - "بغیر شریعت کے نبی" کا عقیده قرآن و سنت کے مطابق ایمان اور شریعت محمدی کا حصہ نہیں اسے شریعت محمدی میں شامل کرنا شریعت محمدی کو تبدیل کرنا ہے- تثلیث نبوت مرزا صاحب کا نقطۂ آغاز ہی تضاد [Self Contradiction] کا شکار ہے، غلط ہے باطل ہے ان کے اپنے بیانیہ کے مطابق-
کوئی شخص شریعت محمدی کو تبدیل کیئے بغیر اسلام میں کسی قسم کا "نبی" نہیں قرار پا سکتا- جیسے ہی وہ اپنے آپ کو مثیل مسیح ، مہدی، 'نبی بغیر شریعت' (/Three in One-Triune Prophet/Trinity) کہتا ہے وہ 'شریعت محمدی' میں تبدیلی کر رہا ہے تو شریعت میں تبدیلی کرنے والا اپنے آپ کو 'نبی بغیر شریعت' نہیں کہہ سکتا وہ عملی طور پر شریعت والا نبی بن بیٹھا ہے- لیکن یا تو اسے سمجھ نہیں کہ وہ کیا کہ رہا ہے یا پھر جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے کہ وہ بغیر شریعت کے نبی ہے!
اگر کسی گھر کے دروازہ پر قفل لگا ہے اور کوئی شخص قفل توڑ کر گھر میں بلا اجازت گھس جایے اور کہے کہ میں مہمان ہوں، گھر کا ملک تسلیم نہ کرے بلکہ اسے بغیر اجازت گھرداخل ہونے پر قانونی کاروائی کرے تو کون حق بجانب ہے؟ غیر کا ملک یا زبردستی کا مہمان ؟
مرزا صاحب فرماتے ہیں : "میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی" [ص ٧٠٦، رسله اربعین ٤،خزائین صفحہ٤٣٥،ج ١٧] - تو شریعت اور کیا ہوتی ہے؟ اس طرح سے تو شریعت مرزا صاحب خود توڑتے ہیں- (مزید ..)
دوسرا نقطۂ جو مرزا صاحب نظر انداز کر رہے ہیں کہ یہ پیشین گوئی تو حضرت محمد رسول اللهﷺ فرما رہے ہیں، اس لئے یہ کوئی نیا حکم ، نئی شریعت نہیں بلکہ محمد رسول اللهﷺ کی پشیئن گوئی پر عمل ہو رہا ہے، نبوت کی مہر کیسے ٹوٹ جا ئے گی؟ کون سی نئی شریعت لاگو ہو گئی؟ یہ شریعت محمدی کا حصہ ہے کہ عیسی بن مریم صلیب توڑ کر جزیہ ختم کریں گے- شریعت محمدی بھی قائم ہے اور قرآن کا حکم بھی قائم ہے کوئی نئی وحی بھی نہیں آرہی۔ جبکہ مرزا صاحب کو اپنے لیے وحی حاصل کرکہ مجازیم بروزی نبوت کا شوق پورا کرنا ہے جو شریعت محمدی اور ختم نبوت کی مہر توڑنے کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ قرآن اور شریعت محمدی میں کسی بھی قسم کی نبوت یا رسالت (حقیقی ، مجازی ، بروزی ، ظلی، مثیل وغیرہ وغیرہ ) کی کوئی گنجائش نہیں- جس طرح سے اللہ اور رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا وحی حق ہے اور اسی پر عمل ہو گا اس کو نظر انداز کرنا دھوکہ، بدعة ، ضلالہ ، گمراہی ہے-
صوفیانہ متنازعہ اصطلاحات فنا فی الرسول وغیرہ بدعة ہیں قرآن و سنت پر قائم رہنا چاہیے- الله تعالی سے رابطہ کوئی مشکل نہیں وہ شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے- حضرت علی (رضی الله ) سے منصوب روایت کہ جب الله تعالی سے کلام کرنا ہو تو صَلَاة ادا کرو اور جب اللہ کی بات سننا ہو تو قرآن تلاوت کرو- قرآن رسول اللہ ﷺ کا زندہ معجزہ ہے جس میں ہربات موجود ہے- جس کو اس میں شک ہے وہ اپنے ایمان کی خبر لے- (مزید ..)
دعوی : قادیانی مذھب کا خلاصہ مرزا صاحب کے الفاظ میں :
"ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لبابیہ ہے کہ لاالٰہ الّا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شُعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور مُلحد اور کافر ہے۔[حضرت مرزا غلام احمد، مسیح موعودؑ۔ ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3۔ صفحہ169تا170]
الجواب
محمد رسول اللهﷺ خاتم النبیّین و خاتم المرسلین ہیں ( پھر "خیر المرسلین" اور رحمت اللعالمین بھی ہیں, مرزا صاحب کے پیروکار اب تصحیح فرما لیں)- قرآن مکمل، محفوظ آخری کتاب الله تعالی ہے جس کے احکام میں ترمیم نہیں ہو سکتی تو مرزا صاحب نے 'نبی بغیر شریعت ' کی اصطلاح قرآن میں کہاں سے حاصل کی؟ اگر یہ مرزا صاحب کی "خاتم النبیّین" کی ذاتی تشریح ہے تو برخلاف قرآن و احادیث کی وجہ سے مسترد ہے- لیکن اگر مرزا صاحب الہام و وحی کی بنیاد پریہ کہہ رہے ہیں تو، بقول مرزا صاحب ، اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ جماعت مومنین سے خارج اور مُلحد اور کافر ہے-مرزا صاحب بظاھر قرآن کی برتری (Supremacy) کا دعوی کرتے ہیں:
مرزا صاحب لکھتے ہیں :
"الغرض حاصل کالم یہ ہے ہر بات جو قرآن کے مخالف ہو اور اس کے قصوں کے مخالف ہو تو وہ باطل ، جھوٹ اور افتراء کرنے والوں کی من گھڑت باتیں ہیں(حمامة البشری، روحانی خزائین جلد ٧ صفہ ٢٢٠/ تفسیرصفحہ ٢٦٥)
لیکن یہ صرف تحریر تک محدود ہے عملی طور پی ان کے عقائد و نظریات قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے-
مرزا صاحب کا انکار ، ایمان نہ لانا کفر نہیں
(ا) ابتدا سے سے میرا یہی مذہب ہے ہے کہ میرے دعوی کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہو سکتا (تریاق القلوب ص ١٣٠،ط ارض، ص٣٢٥،٢، خ ص٤٣٢،ج١٥ )،
(ب) مسیح کے نزول کا عقیده کوئی ایسا نہیں جو ہماری ایمانیات کی جڑ یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے ہو بلکہ صد ہا پیشن گوئیوں میں سے ایک پیشنگوئی ہے جس کو اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں نہیں جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی اسلام کچھ ناقص نہیں تھا تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کامل نہیں ہو گیا- (ازالہ اوہام صفحه ١٤٠،ط،٦٠-١، ط ٣، خزائین صفحہ ، ١٧١ج، 3)
(ج) اس جگہ توانقلاب کا دعویٰ نہیں وہی اسلام ہے جو پہلے تھا وہی نمازیں ہیں جو پہلے تھیں، دین میں سے کوئی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو- مسیح موعود کا دعوی اس حالت میں گراں اور قابل احتیاط ہوتا جبکہ اس کے ساتھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی-(آینہ کمالات صفحہ ٣٣٥، ط١،خزائین صفحہ ٣٣٩،ج٥)
مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ، میں وہ مسیح ہوں جس کے متعلق رسول اللہ نے واضح کیا کہ وہ آئے گا مرزا صاحب عبارات بالا میں صاف صاف مانتے ہیں کہ مسیح موعود کا اقرار و انکار ایمانیات میں داخل نہیں کوئی میرے انکار کی وجہ سے کافر نہیں ہو سکتا-
[نوٹ : صرف نبی اور رسول جن کا من جانب الله تعالی سے بھیجنا ثابت ہو ان کا انکار کفر ہے ، مجدد ، علیم اور محدثین کا مرتبہ جتن بھی بڑا ہو ان کا انکار کفر نہیں]
اب اس کے خلاف ملاحظه فرمائیں کہ مرزا صاحب کیسے پینترا بلتے ہیں:
میرا (مرزا کا ) منکر جہنمی، کافر ، غیر ناجی ہے:
مرزا صاحب فرماتے ہیں :
(ا) " ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے (مکتوب مرزا بنام ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب ، مندرجہ الذکر الحکیم نمبر ٤ ص ٢٣مصدقہ مرزا در حقیقت وحی ص ١٦٣ )
(ب) جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا رسول کو بھی نہیں مانتا چونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشنگوئی موجود ہے(ص١٦٣حقیقتہ الوحی)
(ج) (اے مرزا)ہے جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور بیعت میں داخل نہ ہوگا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے (ص٨، رسامعیار الاخبار- الہام مرزا )
(ر) اب دیکھو خدا نے میری وحی میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا کیا اور تمام انسانوں کے لیے اس کو مدارنجات ٹھرایا (ص٧، اربعین نمبر ٤)
مرزا کا دعوی تھا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے پیشن گوئی کی ہے- بایں ہمہ پہلی تحریرات میں صاف لکھا کہ مسیح موعود کا انکار و اقرار ایمانیات میں داخل نہیں - میرے دعوے کے سے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوتا میری تعلیم میں کوئی انقلاب نہیں، ہماری عملی حالت دیگر مسلمانوں جیسی ہے اس کے بخلاف دوسری تحریرات میں مسیح موعود یعنی بزعم خود بدولت کے انکار کو خدا اور رسول کی پیشین گوئی کا منکر کافر بیعت نہ کرنے والے کو اور پیروی سے بھر رہنے والے کو جہنمی، اپنی تعلیم کو راہ نجات ٹھہرایا ہے:
بعض اہل تثلیث (مرزا صاحب کے پیروکار) جواب دیا کرتے ہیں کہ یہ کوئی اختلاف نہیں جب تک الله تعالی کی طرف سے آپ پر ظاہر نہ فرمایا گیا آپ انکار فرماتے رہے - جب تک الله تعالی ۓ تصریح آپ ۓ بھی اعلان فرما دیا- (ص٢٢٣ تفہیمات )
الجواب :
اب یہاں اختلاف دعوی کے متعلق ہے ہے اور ہم پہلے مرزا صاحب کی تحریرات سے ثابت کر آئے ہیں کہ براہین احمدیہ کے زمانے سے ہی مرزا صاحب بقول خود خدا کے نزدیک نبی و رسول تھے اور اور یہ بھی کہ انبیاء کو ان کے دعوے میں غلطی نہیں ہو سکتی (ملاحضہ ص١٢٦، اعجاز احمدی)
بس مرزا صاحب کا باوجود نبی اللہ ہونے کے یہ کہنا کہ "میرے دعوی کے انکار کی وجہ سے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا" اور پھر کافر کہنا دلیل ہے اس بات کی کہ مرزا صاحب ہرگزنبی نہ تھے بلکہ ایک مراقی یا حسب موقع و ضرورت خود گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے تھے- (بجواب احمدیہ پاکٹ بک، محمدیہ پاکٹ بک ، صفحہ ١٦٩، ١٧٠)
مسیح ابن مریم دوبارہ نازل ہوگا
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
"وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے"۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر: 28)
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشن گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ مسیح کے ذریعہ ظہور میں آئے گا- مسیح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا"(ملاحظ براہین احمدیہ ص ٤٩٨،٤٩٩)
اس کے خلاف
"قرآن شریف قطعی طور پر اپنی آیات بینات میں میں مسیح کے فوت ہو جانے کا قائل ہے" (ص، ١٤٣،ط١، ٦٠، ط٣)
" قرآن شریف مسیح مریم کے کے دوبارہ آنے کا کہیں بھی ذکر نہیں"( ص، ١٤٦، ایام الصلح اردو)
مقدم الذکر تحریر میں میں از رونے قرآن قرآن مسیح کی دوبارہ آمد بتائ اورموخرالذکر عبارت میں از رونے قرآن انکار کیا اس سے نہ صرف اختلاف ثابت ہوا بلکہ مرزا صاحب کی قرآن کی سمجھ بوجھ بھی آشکار ہوئی-
اعتراض
پہلے مرزا صاحب ۓ رسمی عقیده کی وجہ سے حیات مسیح تسلیم کی بعد میں بوحی اس عقیده کو چھوڑ دیا-
الجواب
مرزا صاحب کا بقول خود کہ براہین احمدیہ کے زمانہ میں وہ "نبی اللہ" تھے سے اور "مامور الہی" اور خاص کر مامور بھی اس لیے کیے گئے کہ قرآن کی اصل تعلیم بیان کریں- لہذا مرزا کا ایک ایسے عقیده کو رسما نہیں بلکہ تمسک قرآن لکھنا جو آئندہ ان کے "اصلی دعوی" کے مخالف بننے والا تھا صاف ثابت کر رہا ہے کہ وہ مفتری علی اللہ تھے- انبیاء کو کو ان کے دعوی میں غلطی نہیں ہو سکتی ماسوا اس کے کہ مرزا صاحب کا یہ بھی مذھب ہے کہ:-
"انبیاء اپنے نے کل اقوال و افعال میں خدا کے ترجمان ہوتے ہیں انکی اپنی ہستی کچھ نہیں ہوتی ایک کٹھ پتلی کی طرح کی مانند خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں (بجواب احمدیہ پاکٹ بک، محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ١٧١)
پس براہیں احمدیہ والا عقیده کبھی غلط نہیں جانا جا سکتا تا وقتیکہ انہیں مفتری علی اللہ نہ سمجھا جائے- پھر مرزا صاحب کا یہ قول ہے "روح القدس کی قدسیت ہر وقت، ہر دم، ہر لحظہ ملہم کے تم قوی میں کم کرتی رہتی ہے(یہ میرا ذاتی تجربہ ہے) (ص،٩٣حاشیہ آیینہ کمالات، خزائین ص ٩٣، ج٥)
خاص کر براہین احمدیہ تو وہ کتاب ہے جو بقول مرزا، رسول اللہ ﷺ کے دربار میں رجسٹری ہو چکی ہے- چنانچہ لکھتے ہیں "خواب میں رسول اللہ ﷺ نے اس اس کا نام قطبی رکھا (مفھوم ص، ٢٤٨،٢٤٩ براہین احمدیہ، خزائین ص ٢٧٥ج)
"ہاں ہاں- براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول مرزا مولف نے ملہم اور مامور ہو کر بغرض اصلاح تجدید دین تالیف کیا" (اشتہار براہین ملحقه آخر رسالہ سرمہ چشم آریہ ، خزائین صفحہ ٣١٩ ج ٢)
پس اس میں اصلاح کی بجایے مرزا صاحب کے کاذب ہونے کی واضح دلیل ہے-
اور جہاں تک مسلمانوں کاتعلق ہے حیات و و فات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے مابین ایک فیصلہ کن اور بنیادی اہمیت کا عقیدہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہوجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیلِ مسیح ہونے کے دعوی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ246)
’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسٰی در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگروہ درحقیقت قرآن کے روسے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں ‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 264حاشیہ)
الجواب
ایک شدید غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ تمام نفس ںے موت کا مزه چکھنا ہے- کب؟ کہاں؟ کیسے؟ اس کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے-
موت اور "وفات رفع" دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ موت میں انسانی جسم باقی رہتا ہے روح اور زندگی اللہ کے پاس چلی جاتی ہے-روح سے مراد روح حیوانی نہیں ہے جو ہر ذی حیات کو متحرک کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں روح سے مراد روح انسانی ہے۔ جس کی بنا پر انسان دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز ہوا۔ اسے عقل و شعور بخشا گیا اور ارادہ و اختیار دے کر خلافت ارضی کا حامل بنایا گیا۔ لیکن 'وفات رفع' میں روح زندگی اور جسم تینوں مکمل طور پر الله تعالی کی طرف اٹھا لیے جاتے ہیں جیسا کہ حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق معلوم ہے-
’’یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّيْلِ‘‘ میں وفات تو ہے مگر موت نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نیند کی حالت میں روح کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں۔ مگر پھر بیداری کے وقت لوٹا دیتے ہیں جبکہ موت میں روح قبضے میں تو لے لی جاتی ہے مگر اسے لوٹایا نہیں جاتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ موت کا وقت آنا الگ چیز ہے اور روح کا قبضہ میں آنا اور وفات پانا ایک الگ چیز ہے۔ پس معلوم ہوا کہ عمر کا پورا ہونا، روح کا قبضے میں لے لینا، قبضے سے واپس لوٹا دینا اور موت کا وقت آنا یا نہ آنا یہ سب جدا جدا حقیقتیں ہیں۔ اپنے قبضہ میں لے لینا یہ بھی وفات کا معنی ہے اور عرصۂ حیات پورا کرنا یہ بھی وفات کا معنی ہے۔
روح سے مراد روح حیوانی نہیں ہے جو ہر ذی حیات کو متحرک کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں روح سے مراد روح انسانی ہے۔ جس کی بنا پر انسان دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز ہوا۔ اسے عقل و شعور بخشا گیا اور ارادہ و اختیار دے کر خلافت ارضی کا حامل بنایا گیا۔
اور اگر کوئی مر جایے تو اس کو دنیا میں واپس لانا بھی الله تعالی کے لئے کوئی مشکل نہیں- ہم لوگ اللہ پر پابندیاں نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا کرے یا نہ کرے- قرآن میں مردوں کو زندگی دینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں-