رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

متضاد عقائد و نظریات

مسلمانوں  میں یہ عقیدہ بہت مقبول و مشہور ہے کہ جس  کسی نے بھی کلمہ "لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ " کا اقرار کر لیا تو دوزخ  اس پر حرام وہ سیدھا جنت میں چلا جائے گا- اس سلسلہ میں قرآن سے تو کچھ نہیں ملتا مگر کچھ احادیث[1],[2] اس عقیدہ کو مدد فراہم کرتی ہیں، جبکہ بہت سی احادیث اس نظریہ کی تردید[3] بھی کرتی ہیں- اس اختلاف اور تمام اختلافات کا حل الفرقان (قرآن)[4] دیتا ہے، اور  رسول اللہ ﷺ نے بھی حل دیا[5] مگر اس طرف جانے سے نفس[6] و شیطان روکتا ہے- مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی بہت گناہگار مسلمان دوزخ میں چلا  بھی جاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ  یا کوئی  شیخ، پیر. مرشد، بزرگ، ولی اللہ، عارف باللہ وغیرہ یوم حشر کو، اللہ کے عذاب سے شفاعت (سفارش) کرکہ چھڑوا لیں گے کیونکہ اللہ اپنے نیک بندوں کی بات مانتا ہے- 

(تفصیل : https://bit.ly/Shfaat)

یہ بہت آسان بات ہے مسیحت اور دوسرے انسانی مذاھب میں صرف ایمان (ان کے نظریات پر) اور شفاعت کو راہ نجات سمجھا جاتا ہے مگر اسلام میں عمل صالح بھی ایمان کے ساتھ ضروری ہیں-

کلمہ گو پر دوزخ حرام ، جنت لازم اور اسی کے متضاد دوزخ سے شفاعت[7] کے زریعہ سے نجات -  یہ دونوں نظریات و عقائد آپس میں ایک دوسرے کے متضاد (mutually contradictory) ہیں- اگر کلمہ گو پر دوزخ حرام ہے تو پھر شفاعت کس کی؟ مزید یہ نظریات و عقائد اسلام کی بنیادی تعلیمات، "ایمان و عمل صالح" جس پر قران تسلسل سے زور دیتا ہے متضاد ہیں-


اس مضمون اور ای بک میں  قرآن و سنت اور احادیث کی بنیاد پر اس تضاد کو ڈسکس کیا گیا ہے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور مسلمان درست عقائد پر کاربند ہو کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں >>>>

یھاں پڑھتے جائیں یا پی ڈی ایف - ای بک ڈونلوڈ کریں : https://bit.ly/WrongBeliefs-Pdf 


"ایمان و عمل صالح" لازم و ملزوم میں- یہ ایک اہم  بنیادی نظریہ ہے جو اسلام کو مسیحیت اور دوسرےانسانی مذاھب سے الگ کرتا ہے جو صرف ایمان کو نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں- اسلام میں یہ تضادات (contradictions) الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے نہیں پیدا کیں بلکہ یہ قرآن کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کے فرامین[8] کو نظراندازکرنے کی وجہ سے خود ساختہ (self created) ہیں جیسا کہ اس تحقیق کے  مکمل مطالعہ سے واضح ہو جا یے گا-

رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا احادیث میں تذکرہ ہے قرآن[9] واحادیث کی روشنی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شفاعت "اذن الله تعالی" یعنی اللہ کی مرضی سے مشروط ہے[10]-  تو گویا حقیقۃ، اللہ تعالیٰ ہی شفیع ہوگا-[11] شفاعت رسول اللہﷺ کا ایک اعزاز ہے- الله تعالی کے قانون کے مطابق یوم حساب کے دن ہرمومن کی نیکی اور گناہوں کو پلڑے میں تولا جائے گا جس کے گناہ کے پلڑے بھاری ہوئے، اپنی سزا بھگتیں گے- شفاعت شروع ہو گی جب گناہگار مسلمان جل کر کوئلہ[12] بن چکے ہوں گے پھر رسول اللہ ﷺ کو الله تعالی جن گناہگار مومنین کی شفاعت کرنے کی  اجازت دیں گے  ( مسلم حدیث: 459) اسے قبول کرکہ ان کو جنت کی طرف بھیج دے گا- لیکن  رسول اللہ ﷺ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کر سکیں گے جس کی الله تعالی اجازت دیں اور وہ اس کے اہل ہوں- یہ نہیں کہ کوئی اپنی مرضی سے کسی کی شفاعت کرے

جیسا کہ دنیا میں لوگ جائز و نا جائز کاموں کے لیے سفارش کرواتے ایسا الله تعالی کے روبرو نہیں ہوگا- رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ بددیانت، خیانت کے مجرم جنہوں نے دوسروں کا حق مارا یعنی کسی پر سونے چاندی ، مال ، مویشی کا بوجھ ہو گا (حقوق العباد میں زیادتی کی) تو  رسول اللہ ﷺ اس کی شفاعت کرنے سے انکار کر دیں گے[13] (البخاری، 3073) کفار اور مشرک ابدی طور پر جہنم میں رہیں گے، جب تک الله تعالی چاہے- دنیا میں موت تک توبہ و استغفار(معافی) کا راستہ کھلا ہے ، الله تعالی شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کرتا ہے- معافی کا مطلب گناہوں کا اقرار، توبہ اور آیندہ گناہ نہ کرنے کا عہد ہے-

شفاعت: مزید تفصیل : [ https://bit.ly/Shfaat]

شریعت،  عَمِلَ صَالِحً سزا اور جزا

عام طور پر اسلامی قوانین و حدود کے نفاذ کو شریعت سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ صرف شریعت کا ایک جزو ہے جس پر اسلامی حکومت عمل کرتی ہے- شریعت کا دوسرا اہم حصہ وہ ہے جو ہر ایک مسلمان مرد وعورت اپنے آپ پرخود نافذ کرتے ہیں جس میں عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں اخلاقی اقداراور عمل صالح پر عمل کرنا، حق کی تبلیغ کرنا اوربہت کچھ شامل ہے- شرع اور شریعت سے مراد دین کے وہ معاملات و احکامات ہیں جو اللہ نے بندوں کے لئے بیان فرما دیے اور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ضابطہ حیات سے ثابت ہیں۔ شریعت سے اوامر و نواہی، حلال و حرام، فرض، واجب، مستحب، مکروہ، جائز و ناجائز اور سزا و جزا کا ایک جامع نظام استوار ہوتا ہے۔ شریعت ثواب و عذاب، حساب و کتاب کا علم ہے۔ شریعت کے اعمال دین کے اندر ظاہری ڈھانچے اور جسم کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 ایمان اور عمل صالح مل کر نظام  سزا و جزا  کے ساتھ شریعت کی تکمیل کرتے ہیں جرم کی سزا دنیا میں عدالت دیتی ہے اور گناہوں کی سزا، عَمِلَ صَالِحً (نیک  کام) کی جزا کا فیصلہ یوم حشر الله تعالی کی عدالت میں ہو گا-

نفاذ شریعت ایک سیاسی نعرہ بن چکا ہے جو دینی سیاسی رہنما گاہے بگاہے بلند کرتے رہتے ہیں- مگر شریعت کا دوسری حصہ جس پر مسلمانوں نے عمل کرکہ ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہے اس کا ذکر ناپید ہے، اس دوسرے حصہ میں بھی عبادات پر زور ہے اور معاشرتی زمہ داریوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جومسلمانوں کے انحطاط کی اہم وجہ ہے۔ شریعت پر مکمل طور پر عمل کے بغیر صرف ریاست سے قانوں شریعت کے نفاذ کی توقع کرنا ایک سراب ہے۔  

پیو ریسرچ سنٹر(Pew Research Center) نے 39 مسلمان ممالک کے  کے سروے میں مسلمانوں سے پوچھا کہ کیا وہ شرعی قانون ، قرآن اور دیگر اسلامی کتب  پر مبنی قانونی ضابطہ چاہتے ہیں ، تاکہ ان کے ملک  کا سرکاری قانون ہو۔ افغانستان میں تقریبا تمام مسلمان (%99) اور عراق میں زیادہ تر (%91) اور پاکستان ( %84) سرکاری قانون کے طور پر شریعت کے قانون کی حمایت کرتے ہیں[14]۔ مگر جب کرپشن انڈکس پر نظر ڈالتے ہیں تو مسلم ممالک آگے نظر آتے ہیں[15]- افغانستان کرپشن میں دنیا میں (سکور 16) ساتویں نمبر پر ہے  اور پاکستان (سکور32) جبکہ ٹاپ دس کرپشن فری ممالک میں مغربی ممالک ہیں کوئی مسلمان ملک نہیں- یہ ہے مسلمانوں کا شریعت (حصہ دوئم کے جزو 2) پر عمل نہ کرنے کی وجہ سےاخلاقی میعار! (تضاد Paradox)

نظریاتی تضادات

مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ، ان کی بربادی، تنزلی، معاشرتی بدعنوانی ، کریپشن، بےراہروی، فحاشی، ظلم اور انحطاط کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی معاشرہ میں قانون کی حکمرانی نہ ہو، سزا، جزا، انصاف کا نظام نہ ہو، سفارش، اقربا پروری، کسی خاص  طاقتور سیاسی، مذہبی، مالدار شخصیت سے تعلقات کی بنا پر احتساب (accountability) کا خوف نہ ہو توپھرمعاشرہ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے- آج پاکستان اور مسلم ممالک میں کرپشن کی یہی وجہ ہے جس کے خلاف عوام اور دانشور(intelligentsia) طبقہ شور مچاتا رہتا ہے-

ایک طرف ہم اپنے ملک، معاشرہ میں ظلم و نا انصافی کا خاتمہ بزریعہ احتساب و انصاف کا تقاضا کرتے ہیں مگر اللہ کی طرف سے دی گیئی رعایت یعنی گناہوں سے توبہ کرنے کو تیار نہیں اور آخری دم تک اپنے نفس پر ظلم کرنا چاہتے ہیں اور اس نافرمانی کے بعد احتساب سے گلوخلاصی بذریعه  شفاعت عام کی توقع بھی رکھتے ہیں-  ہم سے بڑا احمق شاید ہی دنیا میں کوئی ہو! (تضاد Paradox)

"یقیناً الله  کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے" (قرآن:8:22)[79]

 


 إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎

ایمان, عمل صالح, حساب ، سزا جزا

اسلام  کے بنیادی نظریه کی عملی تنسیخ

ذات مبارک رسول اللہ ﷺ پر سنگین  حملہ

اسلام کی بنیاد قرآن پرہے  رسول اللہ ﷺ قرآن کا عملی نمونہ تھے اور اللہ کا فرمان: أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ ہے-  قرآن کی تعلیمات کی بنیاد؛ "ایمان اور عمل صالح" پر ہے، "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" (ایمان اور نیک اعمال)  قرآن میں 51 مرتبہ[16] دہرایا گیا ہے اور "عمل صالح" (نیک اعمال) 88 آیات میں 194 مرتبہ[17]دہرایا گیا ہے- "ایمان اور عمل صالح" بخسش ، نجات، جنت میں داخلہ اور دوزخ سے بچاو کی چابی ہے اور یہ قرآن کا سب سے اہم ترین بنیادی موضوع موضوع (Theme) ہے[18]- "ایمان اور عمل صالح" لازم و ملزوم ہیں کیونکہ "عمل صالح" ایمان (مرکز توحید) کا مظهر, اظہار ہے، ثبوت ہے- ورنہ زبانی ایمان صرف ایک بیان ہے بغیر کسی ثبوت، کوشش کے-  ایمان کی ستر شاخیں[19] ہیں اوراعمال بھی ایمان کی ایک شاخ ہے کہ جو عمل کیا جائے خواہ وہ بدنی ہو یا مالی، قولی ہو یا فعلی اور یا اخلاقی وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو، نام و نمود یا کسی دنیاوی غرض سے نہ ہوجہاں تک ہو سکے اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ نفاق اور ریا کا اثر عمل کے حسن و کمال اور تاثیر کو ختم کر دے گا۔

 کیا انسان الله تعالی کو صرف زبانی بیان سے مطمئن کر سکتا ہے؟ اورکیا "عمل صالح"  کی بجایے "عمل الشیطان" پر عمل پیرا ہو کر جنت کا حق دار اور دوزخ سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے؟ کیا یہ بات کسی کی عقل قبول کر سکتی ہے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو پھر قرآن میں بار بار  "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" کی تکرار کس لیے؟

کچھ احادیث کے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس نے کلمہ پڑھ لیا اس پر دوزخ کی آگ حرام، یا یہ کہ وہ سیدھا جنت میں چلا جایے گا - اور ساتھ  رسول اللہ ﷺ کی طرف سے راوی کو یہ تاکید بھی کہ یہ بات مسلمانوں کو نہ بتلایئں کہ وہ عمل (عمل صالح) نہ چھوڑ دیں- (مفھوم و خلاصہ احادیث,مسلم 147)

1.ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اکرم  ﷺ نے فرمایا:  میرے دونوں جوتوں کو لے کر جاؤ، اور اس باغ کے پرے جو لا الہ إلا اللہ کہنے، اور اس پر دل سے یقین رکھنے والا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔[20]

2. جابر ؓ کی حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کئے بغیر مرگیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔

3. معاذ ؓ کی حدیث ہے کہ جس نے خلوص دل سے لا إلہ الا اللہ کی گواہی دی، یا یقین قلب کے ساتھ گواہی دی وہ جہنم میں نہیں جائے گا، یا جنت میں جائے گا، نیز فرمایا:  وہ جنت میں داخل ہوگا، اور اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔

یہ بات قرآن کے ایک عام قاری کوعجیب اور ناقابل یقین، ایک دھوکہ معلوم ہوتا ہے،  رسول اللہ ﷺ کے ذمہ الله تعالی کا پیغام ھدایت انسانوں تک پہنچانا تھا:

يٰۤـاَيُّهَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ‌ ؕ وَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسٰلَـتَهٗ‌ ؕ

اے پیغمبر ﷺ ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ (القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة, آیت نمبر 67)[21]

اور  رسول اللہ ﷺ نے بغیر کسی ڈر یا خوف کے مکمل پیغام ھدایت پہنچا دیا اس میں کوئی کوتاہی نہ کی اور خطبہ حج آلوداع میں اعلان بھی کیا اور لوگوں سے گواہی بھی لی کہ الله تعالی کا پیغام پہنچا دیا اور لوگوں نے بلند آواز سے اس کا اقرار کیا- اگر کسی کوکسی قسم کا شک تھا تو وہ کھڑا ہو جاتا اور کہتا کہ:

" یا رسول اللہ ﷺ آپ نے مجھے بتلایا تھا کہ "جس نے کلمہ پڑھ لیا اس پر دوزخ کی آگ حرام ہے اور وہ سیدھا جنت میں جایے گا" لیکن ساتھ ہی مجھے منع فرما دیا تھا، کہ یہ بات عام مسلمانوں کو مت بتلاو، لوگ عمل چھوڑ دیں گے، اب آپ یہ کام خود کریں اور لوگوں کو بتلا دیں، تب میں گواہی دوں گا کہ آپ نے اپنا مشن مکمل کر دیا".

مگر ایسا کسی نے نہیں کہا- اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ احادیث موضوع ، من گھڑت ہیں، بہتان ہے  رسول اللہ ﷺ پر جو الله تعالی کے سچے نبی صادق و امین تھے-

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا[22] کہ (مفھوم) جو حدیث قرآن و سنت اور عقل کے خلاف ہو وہ میری طرف سے نہیں، مجھ سے دور ہے-[23] اور یہ کہ حدیث (آیات) قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی، قرآن احادیث کو منسوخ کر سکتا ہے-  [(قرآن 10:15)[24] (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: ، 189) ( (سنن دارقطنی:۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 190)]

اگر سارے کلمہ گو جنت میں جا رہے ہیں تو جو احادیث  رسول اللہ ﷺ کی شفاعت[25]  کے متعلق ہیں ان احادیث کی کیا حیثیت ہے؟ شفاعت کی تو پھر ضرورت ہی ختم ہو جاتی ہے جب تمام لوگ جو زبان اور دل [26]سے کلمہ ادا کرتے ہیں جنت میں جائیں گے-

قرآن تو بلکل واضح ہے مگر احادیث میں تضاد ہے جو احادیث قرآن کے مطابق، حساب کتاب، رحمت، شفاعت بیان کرتی ہیں  (ضمیمه: 1 ) وہ غلط نہیں ہو سکتیں مگر جو قرآن کے برخلاف صرف کلمہ پر جنت کی بشارت اور دوزخ حرام قرار دیتی ہیں (ضمیمه: 2)  ایسی متضاد احادیث درست کیسے ہو سکتی ہیں؟

صرف عقیدہ توحید (لا الہ الله ) پر جنت کا وعدہ
1.  لا الہ الا اللہ پر جہنم حرام

حضرت سہیل بن بیضاء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے میں نبی ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا نبی ﷺ نے دو تین مرتبہ بلند آواز سے پکار کر فرمایا اے سہیل بن بیضاء میں ہر مرتبہ لبیک کہتارہا یہ آواز لوگوں نے بھی سنی اور وہ یہ سمجھے کہ نبی ﷺ انہیں بھی یہ بات سنانا چاہتے ہیں چناچہ آگے والے اپنی جگہ پر رک گئے اور پیچھے والے قریب آگئے جب سب لوگ جمع ہوگئے تو نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو اللہ اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیدے گا اور اس کے لئے جنت واجب کردے گا۔(مسند احمد، حدیث نمبر: 15181)[27]

2. لا الہ الا اللہ پرجنت

حضرت شداد بن اوس ؓ سے مروی ہے کہ جس کی تصدیق مجلس میں موجود حضرت عبادہ بن صامت ؓ نے بھی فرمائی، کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے نبی ﷺ نے پوچھا کیا تم میں سے کوئی اجنبی اہل کتاب میں سے کوئی شخص ہے ہم نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! نبی ﷺ نے دروازے بند کرنے کا حکم دیا اور فرمایا ہاتھ اٹھا کر لا الہ الا اللہ کہو، چناچہ ہم نے اپنے ہاتھ بلند کر لئے، تھوڑی دیر بعد نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ نیچے کر کے فرمایا الحمدللہ! اے اللہ! تو نے مجھے یہ کلمہ دے کر بھیجا تھا، مجھے اسی کا حکم دیا تھا، اس پر مجھ سے جنت کا وعدہ کیا تھا اور تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا، پھر فرمایا خوش ہوجاؤ کہ اللہ نے تمہاری مغفرت فرما دی۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 16501)[28]

3. وضو، کلمہ اور جنت

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح کرے، پھر تین مرتبہ یہ کلمات کہے، اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ، لاشریک لہ، وان محمداً عبدہ، و رسولہ، تو جنت کے آٹھوں دروازے اس کے لئے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے(مسند احمد،حدیث: 13292)[29]

4. لا الہ الا اللہ پرجنت اور حضرت عمر (رضی الله) کا مشورہ

حضرت ابوموسیٰ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا میرے ساتھ میری قوم کے کچھ لوگ بھی تھے نبی کریم ﷺ نے فرمایا خوشخبری قبول کرو اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو سنا دو کہ جو شخص صدق دل کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا ہم نبی کریم ﷺ کے یہاں سے نکل کر حضرت عمر ؓ سے ملاقات ہونے پر ان کو یہ خوشخبری سنانے لگے وہ ہمیں لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اس طرح تو لوگ اسی بات پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے (مسند احمد، حدیث نمبر: 18862)

5. صرف عقیدہ توحید (لا الہ الا اللہ) پر جنت کا وعدہ (مسلم، حدیث نمبر: 147) 

زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، ابوکثیر، ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ بھی شامل تھے اچانک رسول اللہ ﷺ ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ہم ڈر گئے کہ کہیں (اللہ نہ کرے) آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا ہرچند باغ کے چاروں طرف گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا میں اسی نالہ میں سمٹ کر گھر کے اندر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔

 آپ ﷺ نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ گزرا ہو اس لئے ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی (تلاش کرتے کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔

 آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا ابوہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں (بطور نشانی) کے لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔

(میں نے حکم کی تعمیل کی) سب سے پہلے مجھے حضرت عمر ؓ ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ ؓ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول ﷺ کی جوتیاں ہیں۔ آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔

حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گرپڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ؓ! لوٹ جا۔

میں لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر ؓ بھی آپہنچے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر ؓ سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گرپڑا اور کہنے لگے لوٹ جا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا؟

حضرت عمر ؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا آپ نے ابوہریرہ ؓ کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں!

حضرت عمر ؓ نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ (عمل کرنا چھوڑ دیں گے) اور اسی فرمان پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اچھا ان کو عمل کرنے دو۔“ (مسلم، حدیث 147)[30],[31]

 سنگین مضمرات  (Serious Implications)

ایک طرف قرآن و سنت میں "ایمان او عمل صالح"  کی مسلسل تاکید ہے اور دوسری طرف صرف کلمہ "لا الہ الا اللہ" دل سے ادا کرکہ جنت کی بشارت، یہ ایک بہت بڑا، گہرا تضاد (Paradox) ہے جس کے  سنگین مضمرات (Serious implications) ہیں:

1.قرآن کی بنیادی تعلیمات "عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ"  کا انکار یا نسخ ؟

الله تعالی سے کچھ مخفی نہیں (58:7)][32] صرف کلمہ پربغیرعَمِلُ الصَّالِحَاتِ  جنت کی بشارت، اتنی سنگین بات ہے جو کہ قرآن کے اصل تھیم کو ہی تبدیل کردیتی ہے، اسے الله تعالی اسے قرآن میں ضرور نازل فرماتے، اور رسول اللہ ﷺ کھلم کھلا اعلان کرتےکہ شریعت پر عمل فرض نہیں نفلی، رضاکارانہ ہے، اللہ کے دین میں کچھ خفیہ نہیں- قرآن تسسلسل سے  "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" پر زور دیتا ہے اور  رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجج الوداع میں جب اسلام کی اہم تعلیمات کا خلاصہ بیان فرمایا تو بھی ایسی کوئی بات نہ کی، نہ ہی کسی نے اس کی  یاد دہانی کرائی نہ ہی اشارہ کیا اور تکمیل اسلام کی آیت  بھی نازل ہو گئی-

2.  رسول اللہ ﷺ پر "کتمان حق" [33](حق کو چھپانے) کا بہتان

اگر کلمہ پر جنت ملتی ہے اور اس بات کو اس خوف سے مسلمانوں کو بتلانے سے منع کرنا کہ وہ (شریعت پر) عمل کرنا چھوڑ دیں گے، حق کو چھپانے کے مترادف ہے جو کہ گناہ کبیرہ ہے[(قرآن 2:159)(2:174),  (3:187)الله تعالی کا فرمان ہے: "بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں" (قران 2:159)[34] 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَن سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ (”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“) [ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی] رسول اللہ ﷺ  اورکتمان حق؟ استغفر اللہ یہ بہتان ہے وہ قرآن کا نمونہ تھے-

3. حق رسالت نہ ادا کرنے کا الزام؟

 حق کو چھپانا، رسول اللہ ﷺ پر الله تعالی کے احکام مکمل طور پر نہ پہنچانے، حق رسالت نہ ادا کرنے کا الزام ، بہتان ہے- (استغفر الله ) ((القرآن67: 5)[35]) [ابی داوود 1905,  صحیح مسلم 2950][36] 

4. صحابہ اکرام کی گواہی پر شک؟

رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حج پر حق رسالت ادا کرنے کا  اعلان فرمایا اور لوگوں سے گواہی بھی لی[صحیح مسلم 2950مگر کسی نے نہ نہ کہا کہ ایک بات آپ بھول رہے ہیں، کملہ پر جنت، پھر بعد میں احادیث میں اس کا ذکر کرنا  رسول اللہ ﷺ  کو غلط قرار دینا ایک بہتان نہیں تو اور کیا ہے؟ (استغفر الله)

5.الله تعالی کی رحمت و اذن شفاعت؟  

کلمہ پر جنت کی بشارت کے بعد، الله تعالی کی رحمت اور رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کی احادیث توبظاھر مسنوخ ہو جاتی ہیں ، کیونکہ جب تمام کلمہ گو جنت میں جائیں اور دوزخ ان پر حرام ہو تو پھر رحمت اور شفاعت کی کیسے ضرورت؟  صرف کفار اور مشرک ہی جہنم میں رہ جائیں  گۓ جن کا یہ ابدی ٹھکانہ ہے-

6. کیا صرف کلمہ توحید کافی ہے؟

 کلمہ (لا الہ الا اللہ) پر جنت کی بشارت جس میں اقرار رسالت  "محمد رسول اللهﷺ" شامل نہیں- اس طرح توحید پرست مسیحی (Unitarian)[37] (منکر تثلیث ) ، یہود ، سکھ اور دوسرے لوگ جو ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ بھی سیدھے جنت کے مستحق ٹھرتے ہیں جبکہ قرآن میں فرمان ہے :

"اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور جو کچھ محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لائے، اور وہی ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے، اللہ نے ان کی برائیاں دور کردیں اور ان کا حال درست کردیا" (قرآن 47:2)[38]

"وعدہ" کی احادیث کو منسوخ قرار دینا

علماء  کی اکثریت جو کہ احادیث کو "وحی غیر متلو، خفی" سمجھتے ہیں، تاویلوں، تشریحات کے زور پران کا مطلب تبدیل کرکہ قرآن سے ہم آہنگ کرنے کی ناکام کوشش میں صفحات کالے کرتے ہیں (ضمیمہ2)  مگر قرآن کی واضح 88 آیات پر ان کی نظر نہیں پڑتی، کیونکہ بدعة[39] کی تقلید میں نفس شیطان عقل پر حاوی ہو جاتا ہے-

ان سنگین مضمرات کا احساس کرتے ہونے بعض اہل علم کے نزدیک "وعدہ" سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اوراوامرو نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہوگئی ہیں، اور واجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔' (الفریوائی)

احقر کی نظر میں یہ تاویل درست نہیں کیونکہ حضرت ابو ھریرہ (رضی الله) جو کہ مسلم، حدیث 147[40] کے راوی ہیں، 7 حجرہ کو اسلام میں داخل ہوے جو کہ رسول اللہ ﷺ کے آخری تین سال کا زمانہ ہے ان احادیث (لا الہ الا اللہ پر جنت) کو فرائض اوراوامرو نواہی سے پہلے قرار دے کر مسنوخ کیسے کر سکتے ہیں؟ مگر "لا الہ اللہ " پر جنت کی بشارت والی احادیث  قرآن کی "عمل صالح" (نیک اعمال) پر 88آیات[41] سے منسوخ  قرارپاتی ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے فرامین کے مطابق "میعارقبولیت حدیث[42]" میں ان کو قرآن، سنت اور عقل کے مطابق ہونا ضروری قرار دیا ہے- اس کے علاوہ مزید احادیث  بھی موجود ہیں جو ان احدیث کی منسوخی کا جواز مہیا کرتی ہیں (تفصیل: ضمیمه: 1)-

تجزیہ

مذکور پانچ احادیث کا موضوع ایک ہے، نمبر پانچ (مسلم، حدیث نمبر: 147) مفصل اور واضح ہے اس لیے اس کا تجزیہ جامع ہو گا: 

  1. یہ حدیث واضح ہے کہ صرف ایمان ہی بخشش کے لیے کافی ہے اوراعمال ضروری نہیں- جب حضرت عمر (رضی الله)  رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیتے ہیں کہ اس طرح لوگ عمل چھوڑ دیں گے، اس پر  رسول اللہ ﷺ نے ان کے مشورہ کو قبول فرمایا مگر اس پر اصرار نہ کیا نہ ہی زور دیا، نہ ہی واضح کیا کہ, عمل صالح تو لازم ہیں کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ اس  حدیث میں مکالمہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ "اعمال" کی فرضیت نہیں بلکہ ایک اضافی یا نفلی، مستحب چیز ہے- یہ حدیث ایک داستان کی طرح معلوم ہوتی ہے- قرآن کی بنیادی تعلیمات  "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" (ایمان اور نیک اعمال)  قرآن کی 51 آیات [43] میں تاکید ہے اور "عمل صالح" (نیک اعمال) کی مخلتف صورت میں 88 مرتبہ[44] تاکید کی گئی "عمل صالح" اصل کامیابی اور مقصد حیات[45] میں بھی شامل بھی ہے- ان دو چیزوں "ایمان اور نیک اعمال" پر جنت دوزخ میں داخلہ کی شرط کی منسوخی کا اعلان ہور رہا ہے، چھپ کر خاموشی سے صرف ایک شخص کے زریعہ جس کو اسلام قبول کیئے ھوئے صرف چند مہینے ھوئے (7ھ ) ان کو جوتیوں کی نشانی دے کر اہم ترین اعلان؟  کیا  رسول اللہ ﷺ کسی سفر پر جا رہے تھے، یا کوئی اور اہم مہم درپیش تھی؟ (واللہ اعلم)- مسیحت میں شریعت موسوی پر کاربند رہنے کا عہد حضرت عیسی علیہ السلام  نے کیا اور سینٹ پال نے بعد میں شریعت کو منسوخ کرکہ صرف ایمان ( تغییر شکل یافته) کو کافی قرار دیا[46] - اسلام بھی مسیحیت کے نقش قدم پر؟ کہ کلمہ پڑھ کراگلے پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا ہوگیا بس اب صرف ایمان (ترمیم شدہ، صرف توحید "لا اله الااللہ" ) کافی ہے نجات و بخشش کے لیے!
  2. ایمان کے چھ عقائد  ہیں ان عقائد کا ماخذ قرآن و سنت  سے ہے، حدیث جبرائیل میں بھی بیان ہے، ان عقائد میں: 1).اللہ تعالیٰ پر ایمان 2) فرشتوں پر ایمان 3) رسولوں پر ایمان 4) الله کی  نازل کردہ کتب پر ایمان 5).یوم آخرت پر ایمان 6) تقدیر پر ایمان-[14] .لیکن ایمان کے بنیادی اراکین میں کسی حدیث  پر یا حدیث کی کتاب پر ایمان شامل نہیں- اور اب کچھ  مزکوراحادیث، کتاب الله تعالی (قرآن) کے احکامات "عمل صالح"  اورآخرت میں "حساب کتاب، جزا و سزا" کے عقیدہ میں ترمیم (تبدیلی) کر رہی ہیں- یہ  ترمیم  قرآن ، سنت اور دوسری بہت سی احادیث سے بھی متصادم ہے، جن میں گناہگارمسلمان جہنم میں سزا بھگتیں گے اور الله تعالی اپنی رحمت سے  رسول اللہ ﷺ کو ان کی مرحلہ وار شفاعت کی اجازت دیں  گۓ (تفصیل آگے) اس ترمیم پر عمل درآمد  رسول اللہ ﷺ  صحابہ اور جید علماء دین سے بھی ثابت نہیں- کچھ صوفیاء، ملنگ ، درویش، مجنون لوگ مزاروں، قبرستانوں، جنگلوں میں نشہ وخرافات میں مشغول ملتے ہیں جو اپنے آپ کو شریعت سے ماورا اور آزاد سمجھتے ہیں- یا وہ حضرات جو فسق و فجور، بددیانتی ، ظلم میں مشغول رہتے ہیں  مگر ان کو انکے پیرومرشد، نذرانوں، نذر نیاز اور چڑھاوں کےعوض جنت کی گارنٹی دیتے ہیں کہ کلمہ گو دوزخ میں نہیں جا سکتا، اگر کوئی گیا بھی تھوڑی دیر کے لیے تو رسول اللہ ﷺ یا امام، نیک بزرگ، پیر شیخ ، مرشد ان کی شفاعت کر کہ جنت میں داخل کروا دیں گے، اور یہ لوگ مسلمانوں میں اکثریت میں ہیں-
  3. یہ کتنی دلچسپ اور آسان بات ہے۔ صرف دو لفظ (لآ الٰہ) منہ سے نکالو، اور جنت لے لو۔ نہ صوم نہ صلوۃ کی ضرورت ، نہ میدان جہاد  میں لہو بہانے کی حاجت، نہ صدقہ و زکوٰۃ کے جھمیلے اور نہ جہاد اکبر و اصغر کے جھگڑے، نہ گناہ کبیرہ و صغیرہ پر پکڑ کا خوف!
  4. دوسری اہم بات یہ کہ حضرت فاروق (رضی الله) بارگاہ رسالت ﷺ کو حکم دیتے ہیں ( ولا تفعل فخلھم یعملون) "آپ  لوگوں کو ایسی احادیث نہ سنایا کیجئے"۔ مطلب یہ کہ ایسی احادیث سنا کر انھیں خراب نہ کیجئے۔ اور لوگوں کو کام کرنے دیجئے۔ یعنی مذہب کے معاملے میں حضرت فاروق سرور کائنات کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ اور لطف یہ کہ حضور ﷺ اس حکم سے سرتابی کی جرات نہیں کر سکتے (استغفراللہ) اور فرماتے ہیں (فخلھم) "بہت اچھا لوگوں کو کام کرنے دو" بدیگر الفاظ رسول اکرم صلعم نے اعتراف فرما لیا کہ ان کی حدیث (من قال لا الہ) سے لوگ بے عمل ہو سکتے ہیں۔
  5. غور فرمائیے کہ اس حدیث نے حضور ﷺ  پر نور کی منزلت کو کتنا کم کر دیا۔ کہ ان کا ایک طفل مکتب انھیں سیدھا راستہ دکھا رہا ہے۔ مقصد یہ نہیں کہ حضرت ابو ہریرہ (رضی الله)  اس قسم کی احادیث تراشا کرتے تھے۔ بلکہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ گھڑ کر ان کا نام جڑ دیتے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ خود ابو ہریرہ بھی روایت میں قدرے غیر محتاط ہوں(و  اللہ اعلم )
  6. جب حضرت عمر فاروق (رضی الله) کا مشورہ  رسول اللہ ﷺ نے قبول فرمایا کہ: " عمل کرنے دو" یعنی کہ یہ حدیث مت پھیلاو، یہ اس حدیث کے بیان کی ممانعت تھی  رسول اللہ ﷺ کی طرف سے- تو پھر اس حدیث کو کیوں تسلسل سے بیان کیا جا رہا ہے؟ یہ تو کھلم کھلا رسول اللہ ﷺ کے  فرمان کی حکم عدولی، نافرمانی ہے او جس نے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی اس نے الله تعالی کی نافرمانی کی: (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-) (النساء : ۸۰)  ترجمہ : جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠) (مزید آیات اور احادیث[47])-
  7. اس حدیث پر عمل درآمد نہ رسول اللہ ﷺ  کی سنت نہ صحابہ اکرام سے ثابت ہے- سب قرآن اور شریعت پر ایمان کے ساتھ  "عمل صالح" (نیک اعمال) خود کرتے اور تلقین بھی کرتے رہے- حتی کہ جن حضرات نے یہ حدیث اور اس قسم کی دوسری احادیث اپنی کتب میں شامل کیں انہوں نے خود بھی اس حدیث پر عمل نہ کیا- بلکہ اس کے مضراثرات کو ختم کرنے کے لیے طویل دلائل و تاویلیں پیش کی ہیں جن کی تفصیل آگے آیئے گی (ملاحضہ : وعدوں وعید کی احادیث )-
  8.  یہ ناقابل قبول بات ہے کہ مندرجہ بالا مظبوط ، ٹھوس وجوہات کے با وجود قرآن اور  رسول اللہ ﷺ کے میعارحدیث[48] کی بنیاد پر اس حدیث (اور اس مضمون کی دوسری احادیث) کو مسترد، منسوخ قرار کیوں نہ دیا جا سکا؟  
  9. اس پر بہت سوالات کھڑے ہوتے ہیں- کیا اس لیتے کہ یہ مسئلہ زندہ رہے لوگ شش و پنچ میں کنفیوز رہیں اور مفاد پرست، کاروباری مذہبی پیشوا مسلمانوں کوگناہوں سے روکنے کی بجایے ان احادیث کی بنیاد پرجنت میں داخلہ اور جہنم سے بچاو کی آسان بشارت دیتے رہیں-
  10. "عمل صالح" (نیک اعمال) نہ کرنا ہی اہم ترین وجہ ہے مسلمانوں کے اخلاقی زوال اور تنزلی کی- پستی کا شکار ہو کرمسلمان  دوسری اقوام کا نوالہ تر ہیں اور آخرت میں جہنم میں سزا بھگتیں گے گمراہ کرنے والے اپنے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ-
  11. علامہ ذہبی نے ان کا یہ فقرہ نقل کیا ہے: (قال ابو ھریرۃ لمقد حدثنکم باحادیث لوحدثت بھا فی زمن عمر بن الخطاب لضر بنی بالدرۃ) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسی ایسی احادیث بیان کی ہیں کہ اگرحضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) کے زمانے میں روایت کرتا تو وہ مجھے دُرے سے پیٹ ڈالتے[49]۔ (تذکرۃ الحفاظ ص 8)
  12. حضرت عمر بن الخطاب سرور کائناتﷺ کا اسوہ بیان کرنے پر کیوں پیٹ ڈالتے؟ کیا کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے؟  مشتبہ احادیث کی روایت پرحضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) سختی کرتے تھے اسی لئے انہوں نے احادیث کو جلا دیا تھا۔ اور بڑے بڑے صحابہ کو اس جرم میں قید و بند کی سزا دیتے تھے۔ جس عمر (رضی الله)  نے ابوہریرہ (رضی الله) کو حضور ﷺ پر نور کی کی زندگی میں پیٹ ڈالا تھا ، اور جس نے رسول اکرم ﷺ کے وقت آخر کہہ دیا تھا (حسبنا کتاب اللہ) وہ اپنےعہد خلافت میں ابوہریرہ (رضی الله) یا کسی اور  بزرگ کو روایت احادیث  کی اجازت  کیسے دے سکتے تھے؟[50]
رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے پر جہنم کی آگ
  1. حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث 2)[51] یہ اہم ترین حدیث ، متواتر[52] ہے ، جسے 62 راویوں نے رپورٹ کیا ہے-
  2. حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔"(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)   (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حج میں فرمایا: "اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب (قرآن) " (صحیح مسلم 2950)
  4. حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم  نے ارشاد فرمایا:  ’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)
 رسول اللہ ﷺ کا معیار حدیث : قرآن، سنت اور عقل
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ، نبی ﷺ سے مروی ہیں کہ: میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو "کتاب الله" اور "میری-سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی [الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303][53]
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل شناسا ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم ہوجائے اور تم اس سے قرب محسوس کرو تو میں اس بات کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور اگر کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل نامانوس ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم نہ ہو اور تم اس سے دوری محسوس کرو تو میں تمہاری نسبت اس سے بہت زیادہ دور ہوں۔ [مسند احمد حدیث نمبر: 22505][54]
حدیث کی سند ضعیف بھی ہو  مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے ( تفہیم القرآن)[55]

قرآن حدیث کو منسوخ کرتا ہے حدیث قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی
"---- آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں(قرآن 10:15)[56]
وَعَنْہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضُہ، بِعْضًا (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 189)
اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا  میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: ، 189)(سنن دارقطنی:۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190)
[اس حدیث سے بعد امن ایجاد کردہ  "وحی  خفی / غیر متلو" تھیوری کی بھی نفی ہوتی ہے ]

 شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں: "میں نے صحاح میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر دیتی ہیں۔ ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام خدا کو منسوخ کر سکتا ہے" (نظام القرآن)

"وعدہ اور وعید" سے متعلق مسئلہ کو اہل علم نے عقیدے کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ابتداء ہی میں ان احادیث کے سمجھنے میں اوراس سے مستفاد مسائل عقیدہ میں امت اسلامیہ اختلافات کا شکار ہوئی۔  احادیث میں ہے کہ جس شخص نے "لا الہ إلا اللہ" کہا وہ جنت میں داخل ہوا، اور جہنم کو اللہ نے اس پر حرام کردیا، یا جس نے ایسا کیا جنت میں داخل ہوا وغیرہ وغیرہ- علماء اپنے علم و تحقیق اور احادیث کے مطالعہ و تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ:

"جنت کا یہ دخول اس صورت میں ہوگا جب کلمہ توحید کی شرائط اور عملی تقاضے پورے کئے ہوں گے، اور دخول جنت کی راہ کے موانع (رکاوٹیں) دور کی ہوں گی-"

علماء کا یہ نتیجہ اگرچہ درست ہے مگر اس سے اختلاف بھی ممکن ہے، کلمہ توحید کی شرائط اور عملی تقاضوں پر بحث کی جا سکتی ہے اوراختلافی نظریہ / عقیدہ کے حامل  علماء کے لیے  مختلف طرح کی احادیث سے مختلف تاویلیں نکالنا مشکل نہیں-

 بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اوراوامرو نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہوگئی ہیں، اور واجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی)

ثابت ہوا کہ کچھ اہل علم ان احادیث کو منسوخ کرنے کو تیار ہیں مگر حضرت ابو ھریرہ (رضی الله) 7 حجرہ کو اسلام میں داخل ہوے جو کہ  رسول اللہ ﷺ کے آخری تین سال کا زمانہ ہے ان احادیث کو فرائض اوراوامرو نواہی سے پہلے قرار دے کر مسنوخ نہیں کر سکتے- اس لیے یہ احقر کی راے کے مطابق یہ  تاویل درست نہیں- 

قرآن سے رہنمائی کیوں نہیں؟

بہت تعجب اور حیرانگی ہے کہ اس اہم ترین مسئلہ پر  قرآن سے رہنمائی حاصل نہیں کی گئی، قران کی تعلیمات کی بنیاد؛ "ایمان اور عمل صالح" پر ہے، "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" ( ایمان اور نیک اعمال)  قرآن میں 51 مرتبہ[57] دہرایا گیا ہے اور "عمل صالح" (نیک اعمال) مخلتف صورت میں 88 مرتبہ[58]دہرایا گیا ہے- "ایمان اور عمل صالح" بخسش ، نجات، جنت میں داخلہ اور دوزخ سے بچاو کی چابی ہے اور یہ قرآن کا سب سے اہم ترین بنیادی موضوع، تھیم ہے[59]- "ایمان اور عمل صالح" لازم و ملزوم ہیں کیونکہ "عمل صالح" ایمان (مرکز توحید) کا مظهر, اظہار ہے، ثبوت ہے- ورنہ زبانی ایمان صرف ایک بیان ہے بغیر کسی ثبوت، دل کی باتیں صرف الله تعالی کو معلوم، اعمال نہ صرف یہ کہ دل سے ایمان کی قبولیت کا مظھر ہیں بلکہ "عمل صالح" (نیک اعمال) معاشرہ میں امن، انصاف، ظلم کے خاتمہ، اخلاقی و روحانی اقدار کی ترویج اور انسانیت کی بلندی میں مددگار ہیں-  ایمان کی ستر شاخیں[60] ہیں اوراعمال بھی ایمان کی ایک شاخ ہے کہ جو عمل کیا جائے خواہ وہ بدنی ہو یا مالی، قولی ہو یا فعلی اور یا اخلاقی وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو، نام و نمود یا کسی دنیاوی غرض سے نہ ہوجہاں تک ہو سکے اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ نفاق اور ریا کا اثر عمل کے حسن و کمال اور تاثیر کو ختم کر دے گا۔

قرآن سے رہنمائی کی سپورٹ میں احادیث بھی موجود ہیں جن کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے- علماء کی تاویلوں کی بجایے اگر قرآن اور احادیث سے   براہ راست نتائج حاصل کییے جائیں تو کسی کی مجال ہے کہ اختلاف کرے؟

سیدھی سی بات یہ ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے جب "احادیث کتب" بنانے پر پابندی لگائی: "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔[رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم]  تو ان کو پیغمبرانہ بصیرت، علم اور حکمت و فراست سے معلوم تھا کہ احادیث میں تحریف ہو گی تو انہوں نے اس کا آسان حل بھی دے دیا کہ جو حدیث قرآن ، سنت اور عقل کے خلاف ہو وہ ان کی طرف سے نہیں ہو گی [61]اور یہ بھی کہ احادیث قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی، قرآن احادیث کو مسوخ کر سکتا ہے- یہ بھی فرمایا کہ: ’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے[62] … یہ سب کچھ پہلے بیان کر دیا گیا ہے-

صرف کلمہ پر جنت ملنے کی بشارت کی احادیث، رسول اللہ ﷺ کے دیۓ گۓ میعار: قرآن ، سنت اور عقل  پر پوری نہیں اترتیں لہٰذا یہ  منسوخ ہیں-  نہ کہ تاویلوں کے زورنتائج حاصل کریں جو کچھ علماء کو قبول ہوں اور کچھ علماء کو نہ قبول ہوں جس کے نتیجہ میں تنازعہ، تضاد، نفاق اور فرقہ بازی کو فروغ ملتا رہے گا-

قرآن اوررسول اللہ ﷺ کے میعار حدیث کو مسترد کرکہ اپنا میعار قائم کرنا تو رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی اور بدعة ہے، گمراہی کا راستہ ہے صدیوں پرانی اس بدعة کو ختم کرنا ہو گا تاکہ قرآن کا اولین مرتبہ بحال ہو اور  رسول اللہ ﷺ  کے وقار میں کس قسم کی کمی نہیں ہونا  چاہۓ -

قرآن : راہ ہدایت و نجات 

اِنَّ هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ يَهۡدِىۡ لِلَّتِىۡ هِىَ اَقۡوَمُ وَ يُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ الَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ اَجۡرًا كَبِيۡرًا ۙ‏ ۞

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، اور جو لوگ (اس پر) ایمان لاکر نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ (القرآن - سورۃ نمبر 34 سبإ آیت 4)

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جو شخص غیرقرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی[63] ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے (رواہ حضرت علی (رضی الله) …‘‘(ترمذی 2906)[64].

یہ قرآن لوگوں کے لیے بصیرت اورہدایت ہے اور یقین کرنے والو ں کے لیے رحمت ہے (قرآن20 :45)[65]

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا ‎﴿١٧:٩﴾

بے شک یہ قرآن وہ راہ بتاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور ایمان والوں کو جو نیک کام کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتاہے ان کے لیے بڑا ثواب ہے (9) اور یہ بھی بتاتا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کیا ہے (10) اور ہم نے ہر آدمی کا نامہ اعمال اس کی گردن کےساتھ لگادیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کا نامہ اعمال نکال کر سامنے کردیں گے (13) اپنا نامہ اعمال پڑھ لے آج اپنا حساب لینے کے لیے تو ہی کافی ہے (14) جو سیدھے راستے پر چلا تو اپنے ہی لیے چلا اور جو بھٹک گیا تو بھٹکنے کا نقصان بھی وہی اٹھائے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم سزا نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو نہیں بھیج لیتے (قرآن : 17:15)[66]

 مقصد  تخلیق کائنات و حیات و موت

"اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے (قرآن 67:2)[67]

وَنُفِخَ فِى الصُّوۡرِ فَاِذَا هُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمۡ يَنۡسِلُوۡنَ ۞ قَالُوۡا يٰوَيۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَاۘؔ  هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَصَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ ۞ اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ ۞ فَالۡيَوۡمَ لَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَيۡــئًا وَّلَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ۞

وَ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ وَلِتُجۡزٰى كُلُّ نَفۡسٍۢ بِمَا كَسَبَتۡ وَهُمۡ لَا يُظۡلَمُوۡنَ ۞

اللہ نے سارے آسمانوں اور زمین کو برحق مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، اور اس لیے کیا ہے کہ ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے کاموں کا بدلہ دیا جائے، اور دیتے وقت ان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے۔ (القرآن - سورۃ نمبر 64 التغابن. آیت 9)

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ’’(اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘(سورۃ الذاریات (آیت: 56)

بندگی و اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے، خواہ اس کی علت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، بے چُوں چرا سر جھکا دینے کا نام عبادت ہے۔ امام رازی ؒ نے ’’ تفسیر کبیر ‘‘ میں فرمایا ہے: ’’ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں۔ ایک امرالٰہی کی تعظیم ، دوسرے خلق اللہ پر شفقت، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ۔‘‘

سورہ العصر کو قرآن کا خلاصہ بھی کہتے ہیں،مزید تفصیل [لنک][68]

یوم حشر و آخرت کا مقصد

يَوۡمَ يَجۡمَعُكُمۡ لِيَوۡمِ الۡجَمۡعِ‌ ذٰ لِكَ يَوۡمُ التَّغَابُنِ‌ ؕ وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ وَيَعۡمَلۡ صَالِحًـا يُّكَفِّرۡ عَنۡهُ سَيِّاٰتِهٖ وَيُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیْمُ ۞

(یہ دوسری زندگی) اس دن (ہوگی) جب اللہ تمہیں روز حشر میں اکٹھا کرے گا۔ وہ ایسا دن ہوگا جس میں کچھ لوگ دوسروں کو حسرت میں ڈال دیں گے۔ اور جو شخص اللہ پر ایمان لایا ہوگا، اور اس نے نیک عمل کیے ہوں گے، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ (القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة, آیت 9)

اور صور پھونکا جائے گا تو وہ اچانک قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے ۞ وہ کہیں گے ہائے ہماری بدبختی، یہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھا کھڑا کیا۔۔ یہ تو وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا ۞ بس وہ ایک ڈانٹ ہوگی پھر وہ اچانک سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کردیے جائیں گے ۞ پس آج کسی نفس پر ذرہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا، اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے رہے ہو۞ (القرآن 51-54 :36)[69]

لِّيَجۡزِىَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ ۞

(اور قیامت اس لیے آئے گی) تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ ان کو انعام دے۔ ایسے لوگوں کے لیے مغفرت ہے اور باعزت رزق۔ (القرآن - سورۃ نمبر 35 فاطر، آیت 10)

وَهُمۡ يَصۡطَرِخُوۡنَ فِيۡهَا ‌ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَـعۡمَلۡ صَالِحًـا غَيۡرَ الَّذِىۡ كُـنَّا نَـعۡمَلُؕ اَوَلَمۡ نُعَمِّرۡكُمۡ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيۡهِ مَنۡ تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ النَّذِيۡرُؕ فَذُوۡقُوۡا فَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ نَّصِيۡرٍ  ۞

اور وہ اس دوزخ میں چیخ پکار مچائیں گے کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں باہر نکال دے تاکہ ہم جو کام پہلے کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ کر نیک عمل [عۡمَلۡ صَالِحًـا] کریں۔ (ان سے جواب میں کہا جائے گا کہ) بھلا کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اس میں سوچنا سمجھنا ہوتا، وہ سمجھ لیتا ؟ اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔ اب مزا چکھو، کیونکہ کوئی نہیں ہے جو ایسے ظالموں کا مددگار بنے۔  (قرآن :35:37)[70]

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‌ ۙ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ۞

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ (آخرت میں) ان کو مغفرت اور زبردست ثواب حاصل ہوگا (القرآن - سورۃ نمبر 6 الأنعام, آیت 158


نیک اور بد اعمال لوگ برابر نہیں ھو سکتے

مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الۡعِزَّةُ جَمِيۡعًا ؕ اِلَيۡهِ يَصۡعَدُ الۡـكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالۡعَمَلُ الصَّالِحُ يَرۡفَعُهٗ ؕ وَ الَّذِيۡنَ يَمۡكُرُوۡنَ السَّيِّاٰتِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ  ؕ وَمَكۡرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ يَبُوۡرُ ۞

جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو، تو تمام تر عزت اللہ کے قبضے میں ہے۔ پاکیزہ کلمہ اسی کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل اس کو اوپر اٹھاتا ہے۔ اور جو لوگ بری بری مکاریاں کر رہے ہیں، ان کو سخت عذاب ہوگا، اور ان کی مکاری ہی ہے جو ملیا میٹ ہوجائے گی۔ (القرآن - سورۃ نمبر 35 فاطر 10)

وَمَا يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ  وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الۡمُسِىۡٓءُ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَتَذَكَّرُوۡنَ ۞

اور اندھا اور بینائی رکھنے والا دونوں برابر نہیں ہوتے، اور نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، وہ اور بدکار برابر ہیں، (لیکن) تم لوگ بہت کم دھیان دیتے ہو(القرآن - سورۃ نمبر 40 غافر، آیت 58)

جن لوگوں نے برے برے کاموں کا ارتکاب کیا ہے، کیا وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ انہیں ہم ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں جس کے نتیجے میں ان کا جینا اور مرنا ایک ہی جیسا ہوجائے ؟ کتنی بری بات ہے جو یہ طے کیے ہوئے ہیں۔  (القرآن - سورۃ نمبر 45 الجاثية، آیت 21)

اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالۡمُفۡسِدِيۡنَ فِى الۡاَرۡضِ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِيۡنَ كَالۡفُجَّارِ ۞

جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں کیا ہم ان کو ایسے لوگوں کے برابر کردیں جو زمین میں فساد مچاتے ہیں ؟ یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے؟ (القرآن - سورۃ نمبر 38 ص، آیت 28)

مزید "جھنم اور أَصْحَابُ النَّارِ" >>>>


 نتیجہ

انتہائی افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ صدیوں سے علماء نے قرآن کو اس طرح نظراندازکر رکھا ہے جیسے اس کی کوئی اہمیت نہیں- صرف احادیث اہم ہیں چاہے کچھ احادیث میں غلط بیانی، بہتان تراشی، تحریف صاف نظرآرہی ہو، ان کا عقل و دانش بلکہ  کامن سینس (commonsense) سے بھی کوئی تعلق نہ ہو، رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر بہتان اور تہمت لگا رہی ہوں، قرآن کی بنیادی تعلیمات کی  نفی کر رہی ہوں اور دوسری احادیث  کو بھی مسترد کر رہی ہوں- ایسی احادیث کو تو رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی قبول کرنے سے منع فرما[71] دیا تھا مگر آفرین ہے مسلمان علماء کے کہ وہ ان توہین آمیز، گستاخانہ احادیث کو سینوں سے لگایے  پھرتے ہیں، تاویلوں، تشریحات سے صفحے کالے کرتے ہیں (ملاحظہ: ضمیمہ2) مگر ان کو منسوخ قرار نہیں دیتے جبکہ قرآن کی (88 آیات) اور احادیث (ضمیمہ1) کے مطابق وہ منسوخ قرار ہیں- علماء حضرت ان کومنسوخ قرار اس لینے نہیں کرتے کہ اس طرح سے ان کے بدعة پر قائم نظریات و عقائد و اعمال  پر ضرب لگتی ہے، جیسے "وحی خفی/غیر متلو"، "تدوین کتب حدیث" جبکہ قرآن،[72] رسول[73] اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین[74] نے اس کام سے منع فرمایا اور اس پر صدیوں تک عمل ہوا- ان بدعات نے مزید بدعات اور تفرقہ کو فروغ دیا او "دین کامل"[75] اسلام کا حلیہ بگاڑ کر اسے ایک انسانی ساختہ مذھب (man made religion) بنا دیا- "رساله تجديد الاسلام"[76] (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ) "دین کامل" کی بحالی کی کوشش ہے جس کا محور قرآن کی مرکزی حثیت کی بحالی اوراحادیث کو رسول اللہ ﷺ کے فرامین[77] کی روشنی میں قرآن سے ہم آہنگ کرنا ہے- اور جب بروز قیامت  جب 


"اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کومتروک العمل کررکھا تھا" (قرآن 25:30)

 تو ہم ان لوگوں میں شامل نہ ہوں:

علامہ اقبال کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے : ع

” خوار از مہجورئ قرآں شدی “ [ کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے]

’’مہجورا‘‘  ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کے گلے میں رسی ڈال کر اس کا دوسرا سرا پیر سے باندھ دیا گیا ہو، اس طرح جانور چلنے پھرنے کے قابل ہونے کے باوجود مکمل طور سے آزاد نہیں ہوتا۔ وہ چلتا پھرتا ہے لیکن اتنا ہی جتنا اس کے گلے کی رسی اجازت دے۔

"ایمان اور عمل صالح" کے موضوع (بشمول شریعت، گناه، توبه ، شفاعت، حقوق العباد اور مغفرت) پر قرآن، سنت  رسول اللہ ﷺ و سنت صحابہ اکرام اور احادیث کے مطالعہ اور تجزیہ سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:

1).ایمان اور عَمِلَ صَالِحً (شریعت پر عمل) دونوں جنت میں داخلہ کے لیے ضروری ہیں-

2) تخلیق کائنات، آخرت، حساب کتاب، جزا سزا کا مقصد ایمان اور عَمِلَ صَالِحً (شریعت پر عمل) پر جنت اور گناہوں پر انصاف کے مطابق سزا ملے گی-

3) نیک اور بد عمل لوگ برابر نہیں ہو سکتے-

4) ایمان (توحید) کی وجہ سے بلآخر سزا کی تکمیل یا الله تعالی کی رحمت پر رسول اللہ ﷺ کو شفاعت کی اجازت ملنے پر گناہگار مومنین دوذخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دیے جائیں گے-

5) بد دیانت اورحقوق العباد کے مجرموں کی شفاعت سے  رسول اللہ ﷺ انکار کر دیں گے-

6) صرف کلمہ (ایمان توحید) پڑھنے پر براہ راست جنت نہیں ملتی بلکہ دل سے اقرار کرکہ کلمہ کی تمام شرائط عَمِلَ صَالِحً (شریعت) پر عمل کرنا ضروری ہے-

7) الله تعالی کے منکر،مشرکین،  کافروں کا ابدی ٹھکانہ جہنم ہے-

توحید پر بہت سے دوسرے لوگ بھی ایمان رکھتے ہیں اگر ان تک اسلام کا پیغام مکمل طور پر نہیں پہنچا[78] تو عقیدہ توحید پر قائم اور شرک سے مبرا[79] لوگ بد اعمال کی سزا کے بعد جنت کے مستحق[80] بنتے ہیں، اس پر اختلاف[81] ہے، حقیقت صرف اللہ کے علم میں ہے- مگر قرآن نے ان کو بھی "عَمِلَ صَالِحً" سے مشروط کر دیا:

"جو کوئی مسلمان اور یہودی اور نصرانی اورصابئی الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھے کام (عَمِلَ صَالِحً) بھی کرے تو ان کا اجر ان کے رب کے ہاں موجود ہے اور ان پر نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے" (قرآن 2:62،[82] المائدة: ٦٩،البقرة: ٦٢﴾‏ اس آیت کی مختلف تفاسیر ، تاویلیں ہیں تفصیل اس لنک[83] پر-

 إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

  1. ضمیمہ1حصول جنت: ایمان اور عَمِلَ صَالِحً (نیک  کام)
  2.  ملاحظہ: ضمیمہ2 وعدوں وعید کی احادیث اور روایتی تشریح
  3. ضمیمہ 3:  "جھنم اور أَصْحَابُ النَّارِ"
  4. ای بک پڑھیں : https://bit.ly/WrongBeliefs-Pdf 
  5. گوگل ڈوکومنٹ ..... 
  6. Web: https://bit.ly/Wrong-Beliefs

   

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کلام الله، قرآن کو اس کی اصل حیثیت کے مطابق ترجیح کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کی اہمیت نہیں- “تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) سے بھی محبت رکھتا ہے لیکن حقیقی محبت کا اظہار اطاعت  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث” کی ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیارکے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُو) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر) وضع موجود  (statues-que) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیارکے مطابق علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ درست احادیث کی ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں- جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے-

https://bit.ly/Tejdeed-Islam

http://SalaamOne.com/Revival

https://Quran1book.blogspot.com

https://Quran1book.wordpress.com

https://twitter.com/SalaamOne

پوسٹ لسٹ