اور فرانسس فوکویاما کی" پولیٹکس آف ریزنٹمنٹ"
شناخت - Identity
اگر غورو فکرکریں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ قادنیت کا اسلام سے اختلاف صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے، مسئلہ “شناخت” (Identity) کا ہے- دینی اور سیاسی شناخت کیونکہ اسلام مکمل نظام حیات ہے ، دین ہے محض مذھب نہیں کہ کچھ بنیادی عقائد پر ایمان لاو، عبادات کرو، اور ختم – معامله ایمان اور عبادات پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ان پر دین اسلام کی بنیاد کھڑی ہے- اسلام کا اپنا معاشی ، سیاسی ، قانونی، معاشرتی نظام ہے جس کے مقابل دنیا میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام کھڑا ہے- اسلام اپنی “شناخت” (Identity) سے نہ دستبردار ہو سکتا ہے نہ اپنی شناخت (identity) کسی سے شئیر کر سکتا ہے- اس کو سمجھنے کے لئے ایک کتاب پر نظر ڈالنا ہو گی- مسلمانوں کو ” فوکویاما” یا کسی مغربی مفکر سے کچھ سیکھنے کی بجایے ان کی فکر کا تجزیہ کرنا ہے تاکہ ان سے اچھے طریقہ سے (coexist) کر سکیں اور ان کی شاطرانہ چالوں کو سمجھ کر سدباب کیا جا سکے-
Identity: Demand for Dignity and the Politics of Resentment by Francis Fukuyama
“شناخت: وقار کا مطالبہ اور ناراضگی کی سیاست” فرانسس فوکویاما (Francis Fukuyama) کی کتاب ہے– “فرانسس فوکویاما” ایک امریکی سیاسی سائنس دان، ماہر معاشیات، اور مصنف ہیں۔ فوکویاما کو اس کی کتاب The End of History and the Last Man کے لیے جانا جاتا ہے، جس میں یہ دلیل دی گئی کہ دنیا بھر میں لبرل جمہوریتوں کا پھیلاؤ اور مغرب کی آزاد منڈی کی سرمایہ داری اور اس کا طرز زندگی انسانیت کے سماجی ثقافتی ارتقاء اور سیاسی جدوجہد کے اختتامی نقطہ کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔ انسانی حکومت کی آخری شکل- اس پر اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا-
“شناخت”(Identity) وضاحت کرتی ہے “شناخت کی سیاست کے ارتقاء” کی اور یہ کہ وہ کس طرح گہری سیاسی تقسیم کی طرف لے جاتی ہے، اس بارے مصنف تجاویز دیتا ہے کہ ہم اس بڑھتے ہوئے مسئلے کو ختم کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
انسانوں کے طور پر، بہت گہرائیوں میں قابل قبول (fit) ہونے کی ضرورت ہے. پوری انسانی تاریخ میں، گروہوں میں اکٹھا ہونا بقا کے لیے ضروری تھا۔ آج، ہم اب بھی اپنے آپ کو ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ گروپوں میں اکٹھا ہونا پسند کرتے ہیں۔ جب یہ گروہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو ہمارے ساتھ جنس، جنسی رجحان، سیاسی جماعت، یا مذہب جیسی خصلتوں کا اشتراک کرتے ہیں، تو اسے شناختی سیاست (identity politics) کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے گروہوں میں حالیہ دنوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، اور اگرچہ ہمیں اپنی شناخت پر فخر ہونا چاہیے، لیکن ان کا رجحان ہمیں لوگوں کے طور پر تقسیم کرنے کا ہے۔
کتاب “شناخت: وقار کا مطالبہ اور ناراضگی کی سیاست” میں فرانسس فوکویاما نے شناخت کے ارتقاء کی تلاش کی اور صرف اپنی طرح کے لوگوں کے ساتھ شناخت کے مسائل کی وضاحت کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہم قومی عقائد کو بانٹنے کی اہمیت کو بھول چکے ہیں، اور اب ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ ایک ایسی شناخت حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو ہماری جمہوریت کو کمزور کرنے کے بجائے اس کی حمایت کرے۔
اس کتاب سے تین اہم نتائج اخذ کر سکتے ہیں:
ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر وقار ہوں اور لوگ ہماری قدر کو پہچاننے کے خواہاں ہیں۔
شناختی سیاست کے عروج سے سیاسی بایاں بازو (left) ٹوٹ چکا ہے جو قوم پرستی کو راستہ دے رہے ہیں۔
ہم مزید جامع شناختی گروپ بنا کر تقسیم کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
[نوٹ : وہ جماعتیں بایاں بازو کہلاتی ہیں جو روایتی نظام اور قدامت پسندی کے مخالف ہوں. معاشرتی نفع و نقصان کو ایک طرف رکھ کر تیز رفتاری سے تبدیلیوں کے حامی ہوں. پہلے سے موجود نظام میں بنیادی تغیر کے خواہاں ہوں. اور اسکے عین برعکس وہ جماعتیں دایاں بازو کہلاتی ہیں جو کہ روایتی نظام کے حق میں ہوں. وقت کے لحاظ تبدیلی کے خواہاں تو ہوں مگر آہستہ آہستہ. پہلے سے موحود بنیادی روایات اور قوانین کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ رکھتی ہوں. جبکہ وسطی جماعتیں اقتدار کی ہوس میں ہونے والی جنگوں اور بگڑتی ہوئی اخلاقی صورتحال کی بدولت اپنا نظریاتی وجود کھو چکی ہیں البتہ علامتی اعتبار سے آج بھی ان جماعتوں کو وسطی جماعتیں کہا جاتا ہے جو معتدل مزاج کی حامل ہوں. روایات اور قدامت کی جھلک بھی برقرار رکھنا چاہتی ہوں اور جدت کی خواہاں بھی ہوں.]
کیا آپ یہ جاننے کے لیے تیار ہیں کہ ہماری سیاست اتنی تقسیم کیوں ہو گئی ہے، اور جانیں کہ ہم اس کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟
اسلام - جامع شناختی گروپ
اسلام کو کسی اور گروپ کی ضرورت نہیں اسلام خود ہی ایک جامع شناختی گروپ ہے جس کے اتحاد کو ہر صورت برقرار رکھنا ہے جو تمام مسلمانوں کو بین الالقوامی شناخت مہیا کرتا ہے جس کا ایک مظاھرہ روزانہ باجماعت صَلَاة ، صَلَاة جمعہ ، صَلَاة عید اور حجج میں دیکھا جا سکتا ہے- قرآن الله کی رسی سے جو سب مسلمانوں کو متحد رکھ سکتا ہے- قادیانیت اور اس طرح کے گروہ اسلام کی شناخت کو کمزور کرنے کے لئے وجود میں آتے ہیں مگر قرآن و سنت ثابتہ کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات محفوظ اور موثر ہیں کہ ان پر عمل کسی بھی مخالف شیطانی سٹرٹیجی کو ناکام کر سکتا ہے- اسلام کی شناخت ہر حدیث جبرائیل (جس کی بنیاد قرآن پر ہے) کی مہر ہے اب نہ کوئی نبی، نہ نیا رسول نہ ہی قرآن کے بعد نئی وحی، کتاب پر ایمان کا حکم ہے۔ اسلام دین کامل ہے۔ نہ دلیلوں سے نیا دین بنایا جا سکتا ہے (3:7)
نتیجہ – 1: بحیثیت انسان، ہم دوسروں سے وقار اور پہچان چاہتے ہیں۔
ہم انسان تسلیم کیے جانے کے لیے ترستے ہیں۔ یہ انسان کی نیچرکا ایک قدرتی حصہ ہے، قدیم یونان میں، سقراط نے اس کا نام (thymos) رکھا – اگر ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں سے اپنی قدر کے بارے میں مثبت فیصلے حاصل کرتے ہیں، تو اس سے ہمیں خوشی اور قدر کا احساس ہوتا ہے۔ جب ہم ایسا نہیں کرتے ہیں، تو یہ ہمیں کم قدر یا شرمندہ محسوس کر سکتا ہے۔ تھاموس (Thymos) ہماری روح کا ایک الگ حصہ ہے جو ہماری عزت اور قدر کے بارے میں دوسروں سے مثبت فیصلوں کی خواہش رکھتا ہے۔ جب آپ کو کسی کامیابی پر انعام ملتا تھا تو آپ کس قدر خوشی محسوس کر تے تھے- تھیموس (Thymos) شناخت کی سیاست کو سمجھنے میں اہم ہے کیونکہ اس کا تعلق شناخت کے لیے لڑنے والے مخصوص گروہوں سے ہے۔
تجزیہ-1
اسلام اپنی شناخت میں کوئی ملاوٹ قبول نہیں کرتا وہ خالص حالت میں دین کامل (Perfected Faith) ہے، اس کو حاصل کرنا ایک مسلمان کے لئے بہت خوشی کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ یہ راستہ مہیا کرتا ہے آخری منزل کی طرف جو الله تعالی کی خوشنودی کا راستہ ہے- انسانوں کی بھلائی اور خدمت اور انسانی حقوق کی ادائیگی کو حقوق الله تعالی پر ترجیح سے مختصر وقت میں بہترین تہذیب اور معاشرہ معرض وجود میں آیا جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی- یہ اب بھی ممکن ہے اور یہ انفرادی اور مشترکہ شناخت کو تسلیم کرنے کا تھاموس (Thymos) ہے جس کا اگلی زندگی میں بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے-
نتیجہ 2: قوم پرستی میں اضافہ
تقسیم کرو اور فتح حاصل کرو (Dividing and conquering) ایک موثر فوجی حکمت عملی تھی جسے برطانوی استعمار نے استعمال کیا جب وہ نوآبادیات بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ مزاحمت کو دبانے کے لیے کالونی کے اندر تقسیم کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ آج کی دنیا میں شناخت کی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بھی ایسا ہی اثر ملتا ہے۔ اس نے حالیہ دنوں میں سیاسی لیفٹ کو توڑا ہے۔ معاشی مساوات سے متعلق بائیں بازو کا زوال دولت کی عدم مساوات کے عروج کے ساتھ ہی ہوا۔ اور یہ عدم مساوات آج پہلے سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ فوکویاما کا استدلال ہے کہ ان کی شناخت کی سیاست انہیں عدم مساوات کی وسیع وجوہات میں مدد کرنے کے قابل ہونے سے روکتی ہے۔
تجزیہ - 2
تقسیم کرو اور فتح حاصل کرو (Dividing and conquering) کی ایک واضح شکل “قادنیت” ہے یہ دین اسلام جو کہ ایک نظام ہے اس کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرنے کے لئے برطانوی استعمار نے میں لانچ کیا- ایران والوں نےباب شیرازی کو 1850پھانسی دے کر قصہ ختم کر دیا جبکہ ادھر انگریز کی سرپرستی اپ بھی جاری ہے- مرزا قادیانی کا مقصد اگر کوئی فرقہ بنانا ہوتا تو وہ امام ، خلیفه ، ولی الله ، پیر، مجدد، مہدی کچھ بھی بن کر حاصل کر سکتا تھا مگر اس صورت میں “قادیانت” دائرہ اسلام میں رہ کرپھر بھی ایک ذیلی فرقہ ہی رہتا- بارہ صدیوں کے بعد بھی شیعہ ایک فرقہ ہے- اسلام پر مکمل طور پر قابض ہونے کے لئے شیطان کو ایک نقلی نبی کی ضرورت ہے جو کہ کچھ مزید صدیوں کے بعد جب قادنیت پاوں جما لے تو پھر خاتم النبیین محمد رسول اللهﷺ کے مقابل متبادل کے طور پر پیش کیا جا سکے- حالات کے مطابق خفیہ جعلی وحی کے صحائف ، کاغذ یا کتب یا کوئی مہر شدہ کسی اورنقلی نبی یا نبیوں کی آمد کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے- یہ تو علماء حق کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں کوئی کسرنہ چھوڑی اور قادنیت کو آیین پاکستان میں غیر مسلم قراردلوایا اور تسلسل سے اس موضوع پر آیینی ترامیم کو ناکارہ کرنے کی تمام پے در پے کوششوں کوناکام کرتے چلے آرہے ہیں- سلام ہے علماء حق پر، جزاک الله –
نتیجہ 3: مزید شامل گروپ (Inclusive Groups)
اگر ہم مزید شامل گروپ (inclusive groups) بنائیں تو آج سیاست کی پولرائزڈ صورتحال کو بہتر کر سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے، تو ہر کوئی اپنی انفرادی شناخت کے لیے لڑ رہا ہے ہم سب کو مزید پولرائز کر رہا ہے۔ لیکن ہم سے اپنی شناخت ترک کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی، ٹھیک ہے؟
فوکویاما دلیل دیتے ہیں کہ یہ آپ کی شناخت کو ترک کرنے کے بارے میں نہیں ہے، یہ آپ کی شناخت کو مزید جامع بنانے کے بارے میں ہے۔ اس کے لیے وہ ایک نظریہ دیتا ہے وہ ہے قومی شناخت کو تقویت دینا۔ نسل، جنس یا مذہب کی شناخت کرنے کے بجائے، ہمیں کسی ملک کے اخلاق، سیاسی نظام، اور انسانی حقوق سے وابستگی پر مشترکہ یقین کی ضرورت ہے۔ یہ حفاظتی فوائد فراہم کرتا ہے کیونکہ ملک اندرونی تنازعات کا کم شکار ہو گا، زیادہ موثر حکومتیں بناتا ہے، اور اعتماد کو آسان بناتا ہے، جو کہ اتحاد کے لیے ضروری ہے۔
وہ ایسے طریقے پیش کرتا ہے جن سے ہم قومی تشخص کو تشکیل اور تقویت دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلے امتیازی سلوک کو ختم کرنے سے شروع ہوتا ہے، جو شناخت کی سیاست کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ تارکین وطن کو زبان سیکھ کر اور اقدار کے بارے میں جان کر ایک نئے ملک میں انضمام کے لیے زیادہ پرعزم ہونا چاہیے۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ تارکین وطن کا خیرمقدم کریں اور مواقع تلاش کرنے میں ان کی مدد کریں۔ دیگر سفارشات میں اسکولوں کی سیکولرائزیشن اور ایک یا دو سال درکار قومی خدمات شامل ہیں۔
تجزیہ -3
اسلام ایک بہت بڑا ” شامل گروپ” (inclusive groups) مہیا کرتا ہے جس میں مختلف فقہ پر عمل پیرا گروپس اختلافات کے باوجود اکٹھے ہو کر شریک موجود (coexist) رہ سکتے ہیں جیسا کہ سنی فقہ اربعہ ایک زندہ مثال ہے- اس میں دوسروں کے لئے بہت وسیع مواقعہ ہیں- قرآن ایک نام اسلام ، مسلم بہت بڑی شناخت مہیا کرتا ہے- مسلمانوں کو کسی اور اخلاق، سیاسی نظام، اور انسانی حقوق سے وابستگی کی ضرورت نہیں قرآن سب کچھ مہیا کر تا ہے- اسلام دین کامل میں قادیانیت یا کس اور نا خالص نظریہ کی ملاوٹ کی نہ ضرورت ہے نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے اس پر اصرار صرف مزاحمت کو پڑھا سکتا ہے جس کے نتائج بہت خوفناک ہو سکتے ہیں- قادیانیت کو بہایت کی طرح اپنا راستہ الگ کرنا ھوگا اپنی شناخت (identity) پر کام کرنا ہو گا یا تائب ہو کر اسلام میں شامل ہو کر دنیا اور آخرت میں فلاح حاصل کریں- یہ ان کا اپنا چوائس ہے!
اس کتاب پر نظر ڈالننے کا مقصد ” فوکویاما” یا کسی مغربی مفکر سے کچھ سیکھنے کی بجایے ان کی فکر کا تجزیہ کرنا ہے تاکہ دنیا سے اچھے طریقہ سے (coexist) کر سکیں اور ان کی شاطرانہ چالوں کو سمجھ کر سدباب کیا جا سکے- اس پر مزید تفکر اور تحقیق کی ضرورت ہے-