10 Q حضرت عمر (رضي الله عنه) كا كتابت حديث نہ كرنے كا فيصله
10.. ASJsaid:
كهل كر بات ہو كہ كيا حضرت عمر رضي الله عنه كا كتابت حديث نا كرنے كا فيصله ... اس كا جواب مفصل مين ني نقطة نمبر 1 مين ديا ہے، مزید الحافظ الخطيب بغدادي اس مسئلے پر احاديث النبي صلى الله عليه وآله وسلم، أقوال صحابي رضي الله عنه، أقوال التابعين، والعلماء جمع كئے ہين اور آپ فرماتين ہين "فقد ثبت أن كراهة من كره الكتاب من الصدر الأول إنما هي لئلا يضاهى بكتاب الله تعالى غيره، أو يشتغل عن القرآن بسواه ونهي عن الكتب القديمة أن تتخذ لأنه لا يعرف حقها من باطلها وصحيحها من فاسدها مع أن القرآن كفى منها وصار مهيمنا عليها، ونهي عن كتب العلم في صدر الإسلام وجدته لقلة الفقهاء في ذلك الوقت، والمميزين بين الوحي وغيره، لأن أكثر الأعراب لم يكونوا فقهوا في الدين ولا جالسوا العلماء العارفين، فلم يؤمن أن يلحقوا ما يجدون من الصحف بالقرآن، ويعتقدوا أن ما اشتملت عليه كلام الرحمن، وأمر الناس بحفظ السنن إذ الإسناد قريب، والعهد غير بعيد، ونهي عن الاتكال على الكتاب، لأن ذلك يؤدي إلى اضطراب الحفظ حتى يكاد يبطل وإذا عدم الكتاب قوي لذلك الحفظ الذي يصحب الإنسان في كل مكان" تقييد العلم للخطيب البغدادي ص: 57-58)
يه ثابت ہے كے شروع مين الكتاب (قرآن) كے ساتھ لكهنا مكروه تها تاكه كتاب الله تعالى مين كوئي اور شي داخل نا هو، كسي اور شي اس مين مشغول نا هو، كتب قديم (يعنى اهل الكتاب) سے لينے سے بهي منع كيا كيا كيون كه حق اور باطل صحيح اور غلط نہين جانتے تهے، اور القرآن كافي ہے وه محفوظ بنے كسے اور شي سے، اور اسلام كي شروع والے دور من كتاب (کتب) لكهنا سے منع كيا گيا تها مين نے كم فقهاء ديكهے ہين اس دور كے اور الوحي اور غير من فرق كرنے مين، كيون كے أكثر بدوي (دیہاتی) ہوتي تهے دين كے فقيه نہين تهے اور نا ہي عالمون عارفون مين بيٹ نے والے تهے، ان كے لے خدشه تها اگر قرآن كے ساتھ كچھ پاتے تو اس كو بهي كلام الرحمن سمجھ ليتے، اور ان لوگ پر لازمي تها كه وه سنت كو حفظ كرين كيونكے سند (واسطه) قريب تها زمانہ (نبي صلى الله عليه وآله وسلم) كا ان سے دور نا تها، اس لئے منع كيا گيا كے كتاب (كتابت) پر اعتماد نا كرين، كيونكه يه چيز انكو حفظ كرنے مين اضطراب پيدا كرسكتي تهي يہان تک كے وه ان سے ضياع بهي هو سكتي تهي، اگر كتاب نا هو تو حفظ قوي ہوتا ہے اور ہر جگھ انسان كے ساتھ ہوتا ہے. انتہی
(قرآن كے مصحف مين حديث قول اور شي لكھ لی جاتي تو اس دور کے حالات كے حساب سے مسئلا بنتا حديث كا صحيح ضعيف كا معيار اور ہے جو محدثين نے بيان كيا ہے مسلم ہين اور وه قرآن سنت كي روشني من بنائے گئے ہين).
………………
Response”
سوال 1 کے جواب میں تفصیلا جواب دے دیا ہے .. بھر حال مزید …..
حدیث کی کتابت نہ کرنے کے فیصلے کے پیچھے ایک بہت بڑی مصلحت تو حضرت عمر (رضی الله) نے بتلا دی تھی کہ صرف ایک کتاب ہو گی کتاب الله … کہ پہلی امتیں برباد ہوئیں کتاب الله کو چھوڑ کر دوسری کتب میں مشغول ہو گیئں-
حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل ہیں : عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]
حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلہ پر خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور یہ پہلی صدی حجرہ تک یہی سنت رہی-
اب چودہ سو سال بعد معلوم ہوتا ہے کہ بہت اور بھی مسائل کھڑے ہو گیے ، احادیث کی بنیاد پر نئے نیے فرقے بن گئے ، قرآن کی تاویلیں جھوٹی منٹ گھڑت ، ضعیف ، کمزور احادیث سے اور صحیح کو ملا جلا کر ایسا کام کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے - قرآن کو اگر غیر مصدقہ ، نامکمل مواد سے تفسیر کریں گے توکمی رہ جایے گی … سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم تواتر سے موجود ہے جس کا انکار ناممکن ہے اور کسی کے لیے ممکن نہیں کہ جھوٹی" سنت" گھڑ لے … سنت تو نام ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عمل کا ہے جو قرآن نے کہا کہ :
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ( موجود ) ہے ، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالٰی کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالٰی کی یاد کرتا ہے ۔(قرآن ٣٣:٢١)
١. قرآن کے مطابق، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت، اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے- اس کو محفوظ کرنے کے مختف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ، سنت عمل ، حفظ ، تحریر -
٢. رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے احادیث لکھنے کی اجازت دی پھر منع فرما دیا -
٣.قرآن نے " حدیث" سے منع کیا [ (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)]
٤.، حضرت عمر (رضی الله) نے سوچ بچار کے بعد حکم دیا کہ حدیث کی کتابت نہیں ہوگی، اس فیصلہ پر خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور یہ پہلی صدی حجرہ تک عمل ہوا -
٥.حدیث کی کتابیں لکھنے والوں نے کتب کا نام "سنن " رکھ لیا ; سنن أبو داود , سنن الصغرى والكبرى النسائي, سنن الترمذي, سنن ابن ماجة, سنن الدارمي, سنن الدارقطني, سنن سعيد بن منصور , سنن أبي بكر الأثرم, معالم السنن للخطابي, الأوسط في السنن والإجماع والإختلاف لابن المنذر, السنن الصغير , معرفة السنن والآثار, السنن الكبير للبيهقي,وغيره وغيره-
٥. حضرت عمر بن عبد العزیز نے ١٠٠ ھ میں احادیث کی کتابت کا سرکاری سطح پر اہتمام کیا -ک پہنچ گئی -
٦ . امام ابو حنیفہ (80-150ھ )) نے فقہ کی بنیاد ڈالی ،مگر حدیث کی کوئی کتاب نہ لکھی حالانکہ وہ بہت بڑے محدث بھی تھے
٧. مختلف افراد نے اپنے اپنے احادیث کے ذخیرہ اکتھے کرنے شروع دیے - اگلی صدی تک احادیث کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گی-صرف امام بخاری 6 لاکھ احادیث کے دعوے دار ہیں -
کچھ قابل غور باتیں ہیں :
کیا ایک الله ، ایک کتاب ، ایک دین اسلام - یا - ایک الله ،76 کتب ،کئی فرقے (٧٣) والا دین اسلام؟
تاریخ نے ثابت کیا کہ خلفاء راشدین کا فیصلہ درست تھا-
کتب احادیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نامزد کردہ مجاز اتھارٹی سے منظور، تصدیق شدہ نہیں
پرائیویٹ اشخاص کی زاتی، انفرادی تحقیق، تخلیق و انتخاب
اصل راوی (گواہان) وفات شدہ -
احادیث کی اکثریت خبر احاد (جبکہ قرآن کی کتابت میں دو زندہ افراد کی شہادت لازم ، کتابت کرنے والی کمیٹی کاانچارج حافظ قرآن ، کاتب وحی حضرت زید بن ثابت ، ممبران میں عبد اللہ بن زبیر سعید ابن عاص اور عبد الرحمٰن بن ہشام رضی للہ عنہ بھی شامل تھے)
کتابت احادیث ممنوع قراردی گئی [قرآن، رسول الله صلی الله علیہ وسلم ، خلفاء راشدین ]
کیا قرآن کےمضامین اور منتخب آیات کامجموعہ قرآن کانعم البدل ہوسکتا ہےیا قرآن کہلا سکتا ہے؟
کوئی نامکمل کتاب، کچھ فائدہ تو دے سکتی ہے مگر نقصان کا احتمال زیادہ ہے [ دنیا بھر میں پھیلی لاکھوں احادیث, شامل کرنا ناممکن]
احادیث کی نامکمل کتب جن کی کتابت انفرادی طور پر دوسری اور تیسری صدی حجرہ میں ہوئی فائدہ زیادہ دے سکتی ہیں یا نقصان ؟
ہم کو پہلی صدی حجرہ کے اصل دین اسلام کی طرف واپس جانا ہوگا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کا دین اسلام جو حج الواداع پر اپنے عروج اور کمال پر تھا …
تاریخی حقائق
ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں، تاریخ کو کتب بھی موجود ہیں .. ہر ایک کی اپنی پسسند کی تاریخ ہے … جو میں کہوں آپ مسترد کریں گے اور جو آپ کہیں اس کو میں … ہم دائرۂ میں گھوم رہے ہیں … circular argument
یہ عام بات ہے کہ جب تمام دلانل ختم ہو جاتے ہیں تو دوسرے کے مواد کو رد کر دیں .. اگر حدیث ہے تو اسے کم درجہ کی یا من گھڑت قرار دیں .. معاملہ ختم …
ایسے معامله میں سنت اہم ہے کہ وہ بہت زیادہ افراد سے منتقل ہوتی ہے .. ایک تو شرعی سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہے اور دوسرا سنت کا حصہ تاریخ بھی ہے .. اب تاریخ کی طرف آتے ہیں …
سادہ تاریخی سوالات ہیں جن کے جواب ہاں یا نہ میں … ہم اپنے آپ سے پوچھیں … مجھے صرف سوال نمبر١٤ کے جواب اور تفصیل میں دلچسپی ہے .. اگر کچھ مل سکے تو …
١، کیا خلفاء راشدین نے قرآن کی تدوین مکمل کر دی تھی ؟ ہان/ نہیں
٢. کیا انہوں نے قرآن کے بعد حدیث کی تدوین کی ؟ ہان/ نہیں
٣. اگر کی تو کتب ہیں ؟ ہ ہان/ نہیں
٤. دفتری، سرکاری ، معاملات یا خط و کتابت احکام کو حدیث کتابت کا ثبوت کہنا درست ہے ؟ ہان/ نہیں
٥. کیا خلفاء راشدین کے بعد حکمرانوں نے پہلی صدی حجرہ کے آخر تک احادیث کی کتا بت کا اہتمام کیا ؟ ہان/ نہیں
٦. کیا خلفاء راشدین کا حدیث کی کتابت نہ کرنا سنگین غلطی تھی ؟ ہان/ نہیں
٧. اگر سنگین غلطی نہیں تھی تو کوئی خاص اہم وجہ ہو گی ؟ ہان/ نہیں
٨. اگر سنگین غلطی تھی تو ان کے باقی اقدام پر سوالات اٹھ سکتے ہیں؟ ہان/ نہیں
٩. قرآن ، فرقان ہے … اس پر بعد میں ڈیسکسس کریں گے سوال نمر ١٦ میں .
١٠. کیا ا مام ابو حنیفہ (رح ) نے احادیث کے بغیر فقہ قائم کر دیا ؟ ہان/ نہیں
١١.امام ابو حنیفہ (رح ) نے زیادہ تر سنت تواتر سے مدد لی مگر کیا احادیث لکھیں؟ ہان/ نہیں
١٢. کیا قرآن مکمل کتاب ہے ؟ ہان/ نہیں
١٣ کیا احادیث کی کتب مکمل ہیں ؟ ہان/ نہیں
١٤ "سنت متواتر" امام سیوطی کی ١١٣ متواتر احادیث، کتابت احادیث پرکیا کہتی ہیں ؟ ہان/ نہیں
Q-11, 12 ، 13 ، 14
11.Q حضرت عمر رضی اللہ کا فیصلہ اگر درست تھا ، جو کہ وقت نے بھی ثابت کیا کہ درست تھا . تو بحث کیسی؟
12.Q جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدین کے فیصلہ کے بر خلاف سو یا دو سو سال بعد کتابت حدیث کی کیا انہوں نے درست کیا؟
13.Q اگر درست کیا تو کیا انکار قرآن ، انکار سنت , انکار حدیث رسول صلعم ، انکار سنت خلفاء راشدین.. کسی اجماع سے جائز ہو سکتے ہیں؟ [عربی میں انکار کو "کفر" کہتے ہیں ، یہ شرعی اصطلاح بھی ہے، یھاں یہ مطلب نہیں . یہ مفتی صاحبان کا کام ہے ]
14۔Q کیا رسول اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق ، عمر رضی الله اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا نہیں فرمایا تھا
11-Q. حدیث کی کتابت ، ذاتی نوٹس کی دلیل
11.. ASJsaid:
11. حضرت عمر رضي الله عنه كا فصيله درست تها جی بلكل درست تها اس كي حكمت خطيب البغدادي نے بيان كي ہے جو مين نقطه 10 نقل کیا، ہر فيصله كا وقت حالات ظرف اشخاص ہوتے ہين حضرت عمر رضي الله عنه كا فيصلہ نبي صلى الله عليه وآله وسلم كي احاديث كي روشني مين ديكهين اول دور مین منع كيا گيا بعد مین اجازت دی يہان تک اصحاب كو حكم بهي ديا، تو يه تعارض نهين حالات اشخاص ضروريات كي مد نظر دیکہا جائے گا، يہ حلال حرام كا مسئلا نهين بلكل كے ضروريات حالات كا ہے دونون موقف اپني جگھ پر وزن ركهتين ہین.
ڈاكٹر محمد حميد الله نے "الوثايق السياسية للعهد النبويه والخلافة الراشدة" 281 خطوط اور وثائق كا تعلق نبي صلى الله عليه وآله وسلم سے ہے ذکر کیا ہے، صحيفة علي كرم الله وجه، وصحيفه صادقة لعبد الله بن عمرو، صحيفه همام بن منبه.
ڈاكٹر مصطفى الاعظمي نے studies in early Hadith literature مين 52 صحابه كرام رضي الله عنهم، اور 252 تابعين عظام رحمة الله عليهم صحائف كا ذكر كيا ہے يہ قرن اول (پہلے سو سال) كتابت حديث کی یہ واضح دليل ہے.
13.خلفاء راشدين مين حضرت علي كرم الله وجه بهي شامل ہين آپکے پاس ايک صحيفة تها صحيح مسلم (9\143) 1372،
عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، قَالَ: وَصَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ، فَقَدْ كَذَبَ فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ، وَأَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ، وَفِيهَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم: "الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا"،
حضرت علي بن أبي طالب رضي الله عنه نے خطبة ديا آپ نے فرمايا جو گمان كرتا ہے كے ہم كچه پڑهتے ہين علاوه كتاب الله کے اور يہ صحيفة -صحيفة آپ كي تلوار مین لٹكا هوا - تها، اس نه جهوت بولا .....
14- يه نقطه آپكا تكراري هي.
Q -11.12 13 14 . …..
Response :
احادیث لکھنا اور ذاتی نوٹس … ڈسکسس نہیں رہا ، ہم احادیث کی "تدوین کتابت" ، قرآن کی کتابت کی طرح نہ کرنے کی بات ڈیسکسس رہے ہیں جیسے بخاری ، مسلم وغیرہ تیسری صدی حجرہ میں افراد کی ذاتی کوشش سے مدون ہوئیں -
حضرت عمر (رضی الله) کے ساتھ ساتھ حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل ہیں : عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]
صحیح فرما لیں.. حضرت علی بن ابی طالب (رضی الله) کے پاس حدیث نہیں تھی …. مسترف بن ظریف کا بیان ہے ہے کہ میں نے شعبی کو یہ کہتے سنا کہ مجھ سے ابوجحیفہ نے بیان کیا یا میں میں ابو جحیفہ نے علی بن ابی طالب (رضی الله) سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی لکھی چیز ہے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو کیا اور جاندار کو پیدا کیا ہمارے پاس کچھ نہیں ہے …. ہاں پھر یہ کتابچہ ہے جس میں دیت کے کچھ مسائل اور قیدیوں کی رہائی سے متعلق اچھا کام ہے اور یہ کہ مسلم کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے آئے کتاب چمی دو اور بات روایت کی گئی ہیں ایک تو تحریم مدینہ سے متعلق اور دوسری یہ کہ جو شخص غلام اپنے نے مولا (آزاد کرنے والے ) کے علاوہ کسی اور کی طرف صرف اپنا انتساب کرے اس پر لعنت ہے… مسلمان قصاص میں باہمی مساوی ہوں گے [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]
…………………
ASJ Sahib ....
اس گروپ کے دوسرے ممبران کی اسٹڈی کے لیے کچھ پوسٹ اور لنک دے ..یہ آپ کے جوابات نہیں …
آپ کو پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جو آپ کو جواب ہو گا آپ کا نام اوپر ہو گا ....
صبر کریں ... آپ کے سوالات کے جوابات دوں گا …
اور پلیز یہ فتوی بازی سے پرہیز فرمائیں اور غصہ بدگمانی سے بھی …
اپنے ذہن میں تصورات مت قائم کریں کہ ..دوسرا آپ سے متفق نہی … یا آپ کی مرضی کے مطابق سوالات کیوں نہیں کر تا-
اگر متفق نہیں تو اس پر تکفیریوں کی طرح خود ہی الزام ،، خود ہی جج بن کر فیصلے کرانہ شووع کر دیں … قرآن ہم نے بھی کچھ پڑھا ہے ،،،
آپ کو شاید یہ یاد نہیں … دوبارہ پیش ہے … ایک عالم جو دعوه (مبلغ ) بھی کرتا ہے وہ نرم رویہ رکھتا ہے .. لٹھ لے کر دوسروں کے سر نہیں پھاڑتا پھرتا .. شدت پسندی … انتہا پسندی نے ہم کو تباہ کر دیا ہے اختلاف رایے برداشت نہیں … ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ہم ہدایت یافتہ ہیں باقی بے وقوف ، کم عقل ہیں... …… سنت رسول پر نظر ڈالیں …
لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾
تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہار ی مضر ت نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہارے منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمان والوں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں ۔ (9:128)
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے(16:125)
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (4:85)
جوابات ملیں گے … بھاگنے نہیں دوں گا …… بیٹا ... غیر مسلم سے کیسے تبلیغ مکلمہ کرو گے اس غصہ کے ساتھ .. یہ آپ کی تربیت کا حصہ سمجھو .. آپ نے اسلام کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے … ہم تو قبر میں جانے والے ہیں .. ٹھنڈا پانی پیو … آپ … میں 70 سال کے قریب ہوں…آپ کے والد شاید مجھ سے چھوٹے ہوں عمر میں .. ....جوابات آ رہے ہیں ,
ان شاالله
-----------------
17 Q
کیا انکار قرآن ، انکار سنت رسول صلی الله علیہ وسلم , انکار حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم ، انکار سنت خلفاء راشدین.. کسی اجماع سے چاہے وہ کروڑوں علماء (مذہبی پیشوا ) کریں جائز ہو سکتے ہیں؟
[عربی میں انکار کو "کفر" کہتے ہیں ، یہ شرعی اصطلاح بھی ہے]
17- كتابت حديث قرآن وسنت وخلفاء راشدين - اجماع
……………………..
ASJ said:
17- كتابت حديث قرآن وسنت وخلفاء راشدين وتعامل اصحابہ وعلماء امت سے ثابت ہے قرن ثلاث رابع مين اجماع ثابت ہے تو اختلاف كيسا؟؟؟، مين نے مزيد پہلے بيان كرديا مزید تكرار ہوگا .
……………………………
Response by AAK
کتابت حدیث … وخلفاء راشدين نے نہ کی … اس کاجواب پہلے دے دیا ہے …
صرف یہ عرض ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ اصطلاحِ شرعیت میں اجماع اسے کہتےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلہ کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا اتفاق کرلینا، تو جب کسی زمانہ میں کوئی مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں-
اہم بات …..جب مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں-
١.قرآن کے علاوہ کس کتاب کی قرآن نے ممانعت کر دی .. ٤ آیات پہلے ڈسکس کر چکا …
٢. رسول اللہ نے خلفاء راشدین کو اختیار دیا اور انہوں نے کتابت حدیث نہ کرنے کا حکم دیا .. اور وجوہ بھی بتلا دیں
٣. بعد کے حکمرانوں نے اس پر ١٠٠ سال عمل کیا
٤. فقہہ میں امام ابو حنیفہ نے بھی عمل کیا
٥. بعد میں یہ تبدیل کر دیا
٦.یہ اختیار خود ہی بنا لیا … جو قرآن اور سنت رسول کے خلاف ہے … قرآن مین حدیث کے معنی بدل دیے ..
٧ اس کا مطلب ہوا کہ کل کو ربا ، شراب ، زنا … LGBT، شادیان … اجماع سے جو مرضی کریں … واہ … یہ تو پوپ بن گیے .. یہود و نصاریٰ والے پیشوا ..
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٩:٣١﴾
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-
سخت حیرت اورافسوس ہوا کہ آپ کواس آیت کاعلم نہیں … کہ اگلےسوال آپکا یہی ہے.. اوریہ قرآن سے لا علمی ہی ہماری بربادی کیوجہ ہے
ہمارادھیان بٹ چکا ہے.. مہربانی فرمائیں واپس قرآن کیطرف … آپ نےآخر میں میرے مقالہ کےدرست ہونے کاثبوت دےدیا..
جزاک الله
قرآن کی طرف واپسی - تحقیقی مقالہ
Comeback to Quran- A Research
https://quransubjects.blogspot.com/2020/01/why-quran.html
فرقہ واریت
"جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے"ا۔(قرآن 6:159)
حدیث اور فرقہ واریت
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حج الوداع میں فرمایا :
""میں نے تمہارے لئے کتاب الله اور سنت کو چھوڑ ا، ان کو پکڑ کر رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے "۔ [موتہ 46/3]
1.قرآن:
وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ
"میں نےتمہارے پاس اللہ کی کتاب چھوڑی ہے، اور اگر تم اس پر قائم رہو گے تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے" [صحیح مسلم 1218 , ابن ماجہ 25/84 , ابو داوود 11/56]
2.قرآن اور سنت
ایک دوسری حدیث میں قرآن سنت کا ذکر ہے :
""میں نے تمہارے لئے کتاب الله اور سنت کو چھوڑ ا، ان کو پکڑ کر رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے "۔ [موتہ 46/3]
"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ"۔(مشکوٰۃ شریف:29)
” :میں تمہارے درمیان میں دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “
3.تیسری حدیث میں قرآن اور اہل بیت کا ذکر ہے
قرآن اوراہل بیت
"میں نے تمہارے لئے کتاب الله اور اپنے گھر والوں کو چھوڑ ا، ان کو پکڑ کر رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے [مسلم 44/4 ، نمبر 2408؛ ابن حنبل. 4/366؛ داریمی 23/1 ، نمبر 3319]
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُم مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهٖ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ : کِتَابُ ﷲِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِّنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي : أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِيْهِمَا.[ رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.]
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اﷲتعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘ [ رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.]
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي اللہ عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَا أَيُّهَاالنَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا : کِتَابُ ﷲِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي. [رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِیُّ]
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔‘‘ [رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِیُّ]
تجزیہ :
تینوں احادیث میں "قرآن" کا تذکرہ شامل ہے، مگر فرقے اپنی پسندیدہ حدیث کو قبول کرکہ دوسری احادیث پر اعتراضات لگا کر مسترد کرتے ہیں.
قابل غور بات ہے کہ حج الوداع آخری خطبہ ہزاروں صحابہ نے توجہ سےسنا مگر ایک اہم ترین حکم پراختلاف، تین مختلف احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ:
1. قرآن نے احادیث کاانکار کیوں کیا؟
2. رسول اللهﷺ نے احادیث لکھنے سےکیوں منع فرمایا ؟
3. خلفاء راشدین نے احادیث کواکٹھا کرکہ کتابت کابندوبست کیوں نہ کیا بلکہ اس کو منع فرمایا ؟
4.اور ایک صدی تک اس فیصلہ پرعمل ہوا جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گے تو الله تعالی رسول اللهﷺ خلفاء راشدین اورصحابہ اکرام کے احکام کو مسترد کرکہ اسلام کو مسخ کرنے ابتدا ہوئی جو اب تک جاری ہے قرآن کو چھوڑدیا
خلفائے راشدین کا احادیث کی کتابت نہ رنے کا فیصلہ , حکم , قرآن اورسنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق تھا ، جس پر پہلی صدی ہجری کے اختتام تک سختی سے عملدرآمد ہوتا رہا- جب تمام صحابہ اکرام وفات چکے توخلفاء راشدین , قرآن ، اور سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ، احادیث کی مشہور کتابیں تیسری صدی میں مرتب کی گئیں ، تاریخی اہمیت کےعلاوہ لہذا ان کی شرعی , قانونی حیثیت پرسوالیہ نشان ہے۔