توہین رسول اللہ ﷺ کی 1200 سالہ مہم
تدوین حدیث میں محدثین کی طرف سے متن کے بجایے "سلسلہ اسناد" پر زور دینے کی وجہ سے علم کے ہیروں،موتیوں، جواہرات کے ساتھ کنکر بھی شامل ہو گۓ- ایسی لایعنی محیر العقول[1] احادیث بھی شامل کر دی گیئں جوکہ نہ صرف قرآن ، سنت اور عقل[2] کے خلاف ہیں بلکہ توہین و گستاخی رسول اللہ ﷺ کے زمرے میں بھی شمار ہوتی ہیں- رسول اللہ ﷺ ںے جب صرف ایک کتاب، قرآن لکھنے اور احادیث کو حفظ و بیان تک محدود[3] کیا تو حضرت ابو حریرہ (رضی الله ) نے ذخیرہ احادیث کو آگ لگا دی[4] اور پھر مرتے دم تک احادیث نہ لکھیں ان کے ساتھ اور جید علماء ، محدث صحابہ بھی شامل تھے[5]- صرف کچھ کو حفظ کمزوری پر ذاتی نوٹس کی اجازت ملی[6]- خلفاء راشدین ںے بھی اس پابندی کی سنت پر سختی سے عمل کیا [7] حضرت عمر (رضی الله) نے توپابندی کا فرمان جاری کرکہ معامله ختم کر دیا[8]- رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیغمبرانہ حکمت و فراست سے ایسا طریقہ بھی بتلا دیا کہ ایک عام مسلمان بھی اصل اور نقل میں فرق کر سکتا ہے جن کو "اصول علم حدیث" کی شکل میں احقر نے اکٹھا کیا ہے[9]، سب سے اہم , حدیث کے متن ( text, contents) کو بمطابق قرآن ، سنہ اور عقل و فہم قابل قبول ہونا ہے،پھر سلسلہ اسناد وغیرہ- مگر بدعة نے سنت رسول اللہ ﷺ پر غلبہ پا لیا اور گمراہی و ضلاله کا راستہ کھل گیا[10]-
غلطی کی اصلاح کی بجایے بعد کے علماء عجیب و غریب تاویلات سے مشکوک احادیث کے حق میں دلائل دے کر درست ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے رہتے ہیں جو کہ فضول اختلافات اور فرقہ واریت کے علاوہ کوئی مقصد حاصل نہیں کر سکتیں- کیونکہ صحاح ستہ کی تدوین سے قبل اہل سنّه کے چاروں مشہورفقہی مکاتب وجود پزیر ہو چکے تھے اور پہلی دوسری صدی کے فقہا اور جید علماء پہلے ہی اس قسم کی متنازعہ احادیث کو نظر انداز کرچکے تھے- ان میں سے ایک ام المومنین حضرت عائشہ (رضی الله) کی رسول اللہ ﷺ سے شادی کے وقت عمر کا معامله ہے[11]- اس حدیث کی بنیاد پراسلام دشمن رسول اللہ ﷺ اور ام المومنین کی ذات مقدس پر توہین آمیز پراپیگنڈا کرکہ مسلمانوں کی دل آزاری کرتے رہتے ہیں- اس حدیث کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں مگر علماء اس قسم کی احادیث کو منسوخ کرنے سے منکر ہیں جبکہ وہ راویوں کی متنازعہ روایات ہیں جو تحقیق سے بھی نادرست قرار پاتی ہیں- جب کوئی اسلام دشمن ان احادیث کو بیان کرتا ہے تو مسلمان احتجاج کرتے ہیں-
جون 2022 میں انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کی کم عمر حضرت عائشہ (رضی الله) سے شادی کے متعلق متنازع بیان کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھ رہا ہے- تمام دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے- مگر گستاخ رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کی مقدس کتاب البخاری ، المسلم سے حدیث دھرا رہے ہیں!
قرآن میں "بَلَغُوا النِّکَاحَ" نکاح کی عمر کا بیان ہے[12]۔ فقہا اور علماء نے قرآن، سنت اور مستند احادیث کی روشنی میں لڑکے کے لئےسن بلوغت اٹھارہ اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے، بعض نے پندرہ - امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں لڑکا اور لڑکی پندرہ سال کی عمر پر شرعاً بالغ قرار ہیں
اگر سنت محمد رسول اللهﷺ الرسول اللہ ﷺ میں کسی زوجہ کی عمر نو سال ہوتی تو پھر اس سنت پر تواتر سےعمل بھی ہوتا۔ مگر نہ عمل صحابہ سے یہ سنت ثابت ہے نہ ہی اس کے قائل اپنی بیٹیوں پر لاگو کرتے ہیں۔
جو بات قرآن، سنت، مستند احادیث، عقل و فہم سے ثابت نہیں وہ متروک، مسترد ہے، اس پر اصرار، ملحدین وکفار کو رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی میں مدد کرنا ہے جو گناہ کبیرہ فتنہ و فساد ہے۔ کتب احادیث کو رسول اللہﷺ کے احکام کی روشنی میں خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے[13]۔
تمام لوگ ہندو، مسلم، یہود و نصاری، ملحدین جو اس گستاخ رسول اللہ ﷺ مہم میں کسی طریقہ سے بھی شامل ہیں ملعون جہنمی ہیں۔
Myth Exposed: Ayesha, 9 Year-Old Bride of Prophet ﷺ ....
https://bit.ly/AyeshaMyth ( تفصیل اردو ترجمہ )
[2] علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
~~~~~~~~~~~
اسلام میں نکاح کی عمر
وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا ﴿٦﴾
اور یتیموں کی پرورش ان کے بالغ ہونے تک کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر [بَلَغُوا النِّکَاحَ] کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو(قرآن 4:6)
قرآن کے مطابق بلاغت ، جوانی ، نکاح کی عمر
1.احتلام :
الله تعالی کا فرمان ہے کہ یتیموں کیر یتیموں کی پرورش ان کے بالغ ہونے تک کرتے رہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں [بَلَغُوا النِّکَاحَ] یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے ، حضرت علی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے ۔“ [أبو داوٗد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ٢٨٧٣]
دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے . بچے سے جب تک بالغ نہ ہو ، سوتے سے جب جاگ نہ جائے ، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے ، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے
2.زیر ناف کے بال:
تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے ، کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں ، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے ، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا[ أبو داوٗد، الحدود، باب فی الغلام یصیب الحد : ٤٤٠٤ ] سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ، حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی ۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں ۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی کے مطابق بلوغت کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ گرم ممالک میں لڑکے لڑکیاں جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سرد ممالک میں دیر سے ہوتے ہیں۔ البتہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کچھ ایسی علامات ضرور ہیں جو ان کے بالغ ہونے کا پتہ دیتی ہیں مثلاً لڑکوں کو احتلام ہونا اور عورتوں کو حیض آنا۔ اور چھاتیوں کا ابھر آنا خاص علامات ہیں۔ پھر کچھ علامات ایسی بھی ہیں جو ان دونوں نوعوں میں یکساں پائی جاتی ہیں۔ جیسے عقل داڑھ کا اگنا۔ آواز کا نسبتاً بھاری ہونا جسے گھنڈی پھوٹنا بھی کہتے ہیں اور بغلوں کے نیچے اور زیر ناف بال اگنا اور صرف مردوں کے لیے داڑھی اور مونچھ کے بال اگنا ہے اور ان سب میں سے پکی علامتیں وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں یعنی لڑکوں کو احتلام اور عورتوں کو حیض آنا-
3. پندرہ سال کی عمر بلاغت
ایک علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے “ [ بخاری، الشہادات، باب بلوغ الصبیان۔۔ : ٢٦٦٤ ]
عمر پر فقہا کا اختلاف ہے بعض نے لڑکے کے لئے اٹھارہ سال اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے ہیں اور بعض نے دونوں کے لئے پندرہ سال قرار دیئے، امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں فتوی اس قول پر ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر شرعاً بالغ قرار دیئے جائیں گے، خواہ آثار بلوغ پائے جائیں یا نہیں- (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع)
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے "بدر" کے حالات پر و واقعات بیان فرمایے ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال سے زیادہ ہی ہوگی ورنہ ان کوساتھ جانے کی اجازت نہ ملتی-
[ملاحضہ صحیح مسلم حدیث نمبر: 4700، مسند احمد حدیث نمبر: 25201، مسند احمد حدیث نمبر: 24055، مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 3971، جامع ترمذی حدیث نمبر: 1558، سنن کبریٰ للبیہقی ، حدیث نمبر: 13056]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی ۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال تک رہیں - (ماخوز صحیح البخاری حدیث 5134)
جب خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں تو خولہ بنت حکیم یعنی عثمان بن مظعون کی اہلیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! آپ شادی نہیں کرو گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کس سے کروں؟ ) تو انہوں نے کہا آپ چاہیں تو کسی بکر (کنواری) سے یا کسی بیوہ سے کر لیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کنواری کون ہے؟) اس پر انہوں نے کہا: آپ کے ہاں سب سے عزیز ترین شخصیت کی بیٹی عائشہ بنت ابو بکر۔۔۔۔” اس کے بعد انہوں نے شادی کی دیگر تفصیلات بھی ذکر کیں، اور اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال رخصتی پر عمر نو سال تھی۔( ماخوز مسند احمد)
کیا کسی زی شعور انسان کا زہن یہ قبول کر سکتا ہے کہ دوسری شادی کے لئیے کنواری (بکر) لڑکی جس کی عمر 6 سال ہو تجویز کی جائیے؟ یہ روایت درست کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عائشہ (رض) شادی کی عمر کی کنواری (بکر) لڑکی تھی نہ کہ 6 سالہ بچی۔ کیا عربی میں 6 سالہ بچی کو "بکر" کہا جاتا ہے؟ عربی میں نو کو "تسع" اور انیس کو "تسعة عشر" کہا جاتا ہے ممکن ہے کہیں کسی سے عشر کہنے یا لکھنے میں رہ گیا ہو-
تجزیہ
1۔ رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل فرماتے:
اما بعد کہ بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (صحیح مسلم:2005)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کا عملی نمونہ تھی وہ قرآن( 4:6) کے خلاف خود کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ ایسا کہنا بھی رسول اللہ ﷺ پر بہتان، گستاخی ہے- نہ ہی معاشرہ نہ ہی قرآن یہ اجازت دیتا ہے کہ سات یا نو سالہ بےشعورنابالغ بچی سے شادی کی جائے-
2. اگر یہ بات درست ہوتی تو صحابہ اکرام بھی سیرت رسول اللہ ﷺ (سنت) پر عمل کرتے ہوے 9 سالہ بچیوں سے شادی کرتے، ایسا کوئی رواج مسلمانوں میں موجود نہیں - فقہا و علماء نے بھی اس قسم کی روایات کو قبول نہ کیا اور 15 سے 17 یا 18 سال کی عمر کو نکاح بلوغت کی عمر قرار دیا ، چودہ صدیوں سے اسی پر عمل ہو رہا ہے-
3.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو حدیث قرآن و سنت اور دل (یعنی عقل سے دور ہو وہ مجھ سے بھی دور ہے)-
3۔ جس طرح یہود و نصاری نے اپنے علماء کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے کہ ان ہر بات مانتے ہیں (قرآن 9:31) اسی طرح علماء اسلام صرف اپنے محدثین (جن کو خداووں کا درجہ دے رکھا ہے ) کی تحریر کردہ کتب احادیث کو درست ثابت کرنے کے لئیے کتاب اللہ (قرآن) کو پس پشت دال کر رسول اللہ ﷺ کے دوسرے احکام کو بھی نظر انداز کرکہ اخلاقی بہتان لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح کی احدیث کو کفار 1200 سال سے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
5. ضرورت ہے کہ اس قسم کی احدیث کا از سر نو جائزہ کیا جایے اورتحقیق کے بعد مسترد و منسوخ کیا جایے-
ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟
علماء کو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح تمام کتب احادیث کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے (ہو جایے) اور قرآن کی اپنی کلیدی حیثیت بحال ہو جانے سے فرقہ بازی کے کاروبار اور ان لوگوں کی حیثیت بھی مشکوک ٹھرتی ہے ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اصلیت کھل جاتی ہے-
6.ان لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی توہین ، قرآن کے احکام کا انکار کرنا گوارا ہے مگر اپنے خداووں کی انسانی تحریروں کی فرامین رسول اللہ ﷺ اور قرآن کی روشنی میں درستگی کرنا گوارا نہیں-
7. جو بات قرآن، سنت، مستند احادیث، عقل و فہم سے ثابت نہیں وہ متروک، مسترد ہے، اس پر اصرار، ملحدین وکفار کو رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی میں مدد کرنا ہے جو گناہ کبیرہ فتنہ و فساد ہے۔ کتب احادیث کو رسول اللہ ﷺ کے احکام کی روشنی میں خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے۔
8. تمام لوگ ہندو، مسلم، یہود و نصاری، ملحدین جو اس گستاخ رسول اللہ ﷺ مہم میں کسی طریقہ سے بھی شامل ہیں ملعون جہنمی ہیں۔
- مزید تفصیل اردو <ترجمہ>
- علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
- توہین رسول اللہ ﷺ کی 1200 سال سے جاری مہم اَورگونگے شیطان
- https://bit.ly/Gustakh-Rasool
- Myth Exposed: Ayesha, 9 Year-Old Bride of Prophet ﷺ ....
- https://bit.ly/AyeshaMyth ( تفصیل اردو ترجمہ )
Status of Hadith on Marriage of Hazrat Ayesha (R.A)
باب تَزْوِيجِ الأَبِ ابْنَتَهُ مِنَ الإِمَامِ
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم تَزَوَّجَهَا وَهْىَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَبَنَى بِهَا وَهْىَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ. قَالَ هِشَامٌ وَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَهُ تِسْعَ سِنِينَ.(صحیح البخاری حدیث ٥١٣٤)
ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ (تفصیل آخر میں) نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی ۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال تک رہیں ۔(البخاری حدیث 5134)
Narrated `Aisha: that the Prophet (ﷺ) married her when she was six years old and he consummated his marriage when she was nine years old. Hisham said: I have been informed that `Aisha remained with the Prophet (ﷺ) for nine years (i.e. till his death). [Sahih al-Bukhari 5134]
This Hadith is against Quran 4:6, also contradicted by many other Hadiths, hence rejected/ abrogated by Quran 4:6 not considered by jurists and scholars. Imam Abu Hanifah fixed the minimum marriageable age for boy and girls a 15 years. [others saying 17-18, see details <here>] Thus quoting this unreliable/ abrogated Hadiths is blasphemy, derogatory, taken as offensive by Muslims. Its high time that the Muslim scholars wakeup and don't behave as "Deaf Devil" they publicly denounce / abrogation of this Hadith and many other such Hadiths. More >>>
Now listen to Non Muslims and Muslims Scholar repeating contents of same Hadith ... blasephemy ....
https://platform.twitter.com/widgets.jsWhy don't we file a complaint or call for an arrest for Zakir Naik for stating the same facts like Nupur Sharma. No difference. But he goes further to be hailed as a spiritual Islamic leader and scholar and a torch bearer to so many radical Muslim youth. pic.twitter.com/8v3cXOisVU
— Ravi Rai (@Raviravirai) May 28, 2022