رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

توہین رسالت ﷺ - حضرت عائشہؓ کی نو سال عمر میں شادی کا افسانہ

توہین رسول اللہ ﷺ کی 1200 سالہ مہم



تدوین حدیث میں محدثین کی طرف سے متن کے بجایے "سلسلہ اسناد" پر زور دینے کی وجہ سے علم کے ہیروں،موتیوں، جواہرات کے ساتھ کنکر بھی شامل ہو گۓ-  ایسی لایعنی محیر العقول[1] احادیث بھی شامل کر دی گیئں جوکہ نہ صرف قرآن ، سنت اور عقل[2] کے خلاف ہیں بلکہ توہین و گستاخی  رسول اللہ ﷺ کے زمرے میں بھی شمار ہوتی ہیں- رسول اللہ ﷺ  ںے جب صرف ایک کتاب، قرآن  لکھنے اور احادیث کو حفظ و بیان تک محدود[3] کیا تو حضرت ابو حریرہ (رضی الله )  نے ذخیرہ احادیث کو آگ لگا دی[4] اور پھر مرتے دم تک احادیث نہ لکھیں ان کے ساتھ اور جید علماء ، محدث صحابہ بھی شامل تھے[5]- صرف کچھ کو حفظ کمزوری پر ذاتی نوٹس کی اجازت ملی[6]- خلفاء راشدین ںے بھی اس پابندی کی سنت پر سختی سے عمل کیا [7] حضرت عمر (رضی الله)  نے توپابندی کا فرمان جاری کرکہ معامله ختم کر دیا[8]-  رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیغمبرانہ حکمت و فراست سے ایسا طریقہ بھی بتلا دیا کہ ایک عام مسلمان بھی اصل اور نقل میں فرق کر سکتا ہے جن کو "اصول علم حدیث" کی شکل میں احقر نے اکٹھا کیا ہے[9]، سب سے اہم , حدیث  کے متن ( text, contents) کو بمطابق قرآن ، سنہ اور عقل و فہم قابل قبول ہونا ہے،پھر سلسلہ اسناد وغیرہ-  مگر بدعة نے سنت  رسول اللہ ﷺ پر غلبہ پا لیا اور گمراہی و ضلاله کا راستہ کھل  گیا[10]-

غلطی کی اصلاح کی  بجایے بعد کے علماء عجیب و غریب تاویلات سے  مشکوک احادیث کے حق میں دلائل دے کر درست ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے رہتے ہیں جو کہ فضول اختلافات اور فرقہ واریت کے علاوہ کوئی مقصد حاصل نہیں کر سکتیں- کیونکہ  صحاح ستہ کی تدوین سے قبل اہل سنّه کے چاروں مشہورفقہی مکاتب وجود پزیر ہو چکے تھے اور پہلی دوسری صدی کے فقہا اور جید علماء پہلے ہی اس قسم کی متنازعہ احادیث کو نظر انداز کرچکے تھے-  ان میں سے ایک ام المومنین  حضرت عائشہ (رضی الله)  کی  رسول اللہ ﷺ سے شادی کے وقت عمر کا معامله ہے[11]- اس حدیث کی بنیاد پراسلام دشمن رسول اللہ ﷺ اور ام المومنین کی ذات مقدس پر توہین آمیز پراپیگنڈا کرکہ مسلمانوں کی دل آزاری کرتے رہتے ہیں- اس حدیث کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں مگر علماء اس قسم کی احادیث کو منسوخ کرنے سے منکر ہیں جبکہ وہ راویوں کی متنازعہ روایات ہیں جو تحقیق سے بھی نادرست قرار پاتی ہیں- جب کوئی اسلام دشمن ان احادیث کو بیان کرتا ہے تو مسلمان احتجاج کرتے ہیں-

جون 2022 میں انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کی کم عمر  حضرت عائشہ (رضی الله)  سے شادی کے متعلق متنازع بیان کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھ رہا ہے- تمام دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے- مگر  گستاخ رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کی مقدس کتاب البخاری ، المسلم سے حدیث دھرا رہے ہیں!

قرآن میں "بَلَغُوا النِّکَاحَ" نکاح کی عمر کا بیان ہے[12]۔ فقہا اور علماء نے قرآن، سنت اور مستند احادیث کی روشنی میں لڑکے کے لئےسن بلوغت  اٹھارہ اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے، بعض نے پندرہ - امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں لڑکا اور لڑکی پندرہ سال کی عمر پر شرعاً بالغ قرار ہیں

اگر سنت  محمد رسول اللهﷺ الرسول اللہ ﷺ میں کسی زوجہ کی عمر نو سال ہوتی تو پھر اس سنت پر تواتر سےعمل بھی ہوتا۔ مگر نہ عمل صحابہ سے یہ سنت ثابت ہے نہ ہی اس کے قائل اپنی بیٹیوں پر لاگو کرتے ہیں۔

جو بات قرآن، سنت، مستند احادیث، عقل و فہم سے ثابت نہیں وہ متروک، مسترد ہے، اس پر اصرار، ملحدین وکفار کو رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی میں مدد کرنا ہے جو گناہ کبیرہ فتنہ و فساد ہے۔ کتب احادیث کو رسول اللہﷺ کے احکام کی روشنی میں خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے[13]۔

تمام لوگ ہندو، مسلم، یہود و نصاری، ملحدین جو اس گستاخ رسول اللہ ﷺ مہم میں کسی طریقہ سے بھی شامل ہیں ملعون جہنمی ہیں۔


Myth Exposed: Ayesha, 9 Year-Old Bride of Prophet ﷺ ....
https://bit.ly/AyeshaMyth ( تفصیل اردو ترجمہ )

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا ‎﴿٦﴾‏

اور یتیموں کی پرورش  ان کے بالغ ہونے تک کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر [بَلَغُوا النِّکَاحَ] کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو(قرآن 4:6)

قرآن کے مطابق بلاغت ، جوانی ، نکاح کی عمر

1.احتلام

الله تعالی کا فرمان ہے کہ یتیموں کیر یتیموں کی پرورش  ان کے بالغ ہونے تک کرتے رہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں [بَلَغُوا النِّکَاحَ] یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے ، حضرت علی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے ۔“ [أبو داوٗد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ٢٨٧٣]  

دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے . بچے سے جب تک بالغ نہ ہو ، سوتے سے جب جاگ نہ جائے ، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے ، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے

2.زیر ناف کے بال: 

تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے ، کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں ، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے ، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا[ أبو داوٗد، الحدود، باب فی الغلام یصیب الحد : ٤٤٠٤ ] سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ، حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی ۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں ۔ 

مولانا عبدالرحمن کیلانی کے مطابق بلوغت کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ گرم ممالک میں لڑکے لڑکیاں جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سرد ممالک میں دیر سے ہوتے ہیں۔ البتہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کچھ ایسی علامات ضرور ہیں جو ان کے بالغ ہونے کا پتہ دیتی ہیں مثلاً لڑکوں کو احتلام ہونا اور عورتوں کو حیض آنا۔ اور چھاتیوں کا ابھر آنا خاص علامات ہیں۔ پھر کچھ علامات ایسی بھی ہیں جو ان دونوں نوعوں میں یکساں پائی جاتی ہیں۔ جیسے عقل داڑھ کا اگنا۔ آواز کا نسبتاً بھاری ہونا جسے گھنڈی پھوٹنا بھی کہتے ہیں اور بغلوں کے نیچے اور زیر ناف بال اگنا اور صرف مردوں کے لیے داڑھی اور مونچھ کے بال اگنا ہے اور ان سب میں سے پکی علامتیں وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں یعنی لڑکوں کو احتلام اور عورتوں کو حیض آنا-

3. پندرہ سال کی عمر بلاغت  

ایک علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے “ [ بخاری، الشہادات، باب بلوغ الصبیان۔۔ : ٢٦٦٤ ] 

عمر پر فقہا کا اختلاف ہے بعض نے لڑکے کے لئے اٹھارہ سال اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے ہیں اور بعض نے دونوں کے لئے پندرہ سال قرار دیئے، امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں فتوی اس قول پر ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر شرعاً بالغ قرار دیئے جائیں گے، خواہ آثار بلوغ پائے جائیں یا نہیں- (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع)

حضرت عائشہ صدیقہؓ نے "بدر" کے حالات پر و واقعات بیان فرمایے ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال سے زیادہ ہی ہوگی ورنہ ان کوساتھ جانے کی اجازت نہ ملتی-

[ملاحضہ صحیح مسلم حدیث نمبر: 4700، مسند احمد حدیث نمبر: 25201، مسند احمد حدیث نمبر: 24055، مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 3971، جامع ترمذی حدیث نمبر: 1558، سنن کبریٰ للبیہقی ، حدیث نمبر: 13056]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی ۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال تک رہیں - (ماخوز صحیح البخاری حدیث 5134)

جب خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں تو خولہ بنت حکیم یعنی عثمان بن مظعون کی اہلیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! آپ شادی نہیں کرو گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کس سے  کروں؟ ) تو انہوں نے کہا آپ چاہیں تو کسی  بکر (کنواری) سے یا کسی بیوہ سے کر لیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کنواری کون ہے؟) اس پر انہوں نے کہا: آپ کے ہاں سب سے عزیز ترین شخصیت  کی بیٹی عائشہ بنت ابو بکر۔۔۔۔” اس کے بعد انہوں نے شادی کی دیگر تفصیلات بھی ذکر کیں، اور اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال رخصتی پر عمر نو سال تھی۔( ماخوز مسند احمد)

کیا کسی زی شعور انسان کا زہن یہ قبول کر سکتا ہے کہ دوسری شادی کے لئیے کنواری (بکر) لڑکی جس کی عمر 6 سال ہو تجویز کی جائیے؟  یہ روایت درست کیسے ہو سکتی ہے؟   اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عائشہ (رض) شادی کی عمر کی کنواری (بکر)  لڑکی تھی نہ کہ 6 سالہ بچی۔ کیا عربی میں 6 سالہ بچی کو "بکر" کہا جاتا ہے؟  عربی میں نو  کو "تسع"  اور انیس کو "تسعة عشر" کہا جاتا ہے ممکن ہے کہیں کسی سے عشر کہنے یا لکھنے میں رہ گیا ہو-

تجزیہ 

1۔  رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل فرماتے: 

اما بعد کہ بہترین حدیث  اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (صحیح مسلم:2005)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کا عملی نمونہ تھی وہ قرآن( 4:6) کے خلاف خود کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ ایسا کہنا بھی رسول اللہ ﷺ پر بہتان، گستاخی ہے-  نہ ہی معاشرہ نہ ہی قرآن یہ اجازت دیتا ہے کہ سات یا نو سالہ بےشعورنابالغ بچی سے شادی کی جائے-

2. اگر یہ بات درست ہوتی تو صحابہ اکرام بھی سیرت  رسول اللہ ﷺ  (سنت)  پر عمل کرتے ہوے 9 سالہ بچیوں سے شادی کرتے، ایسا کوئی رواج مسلمانوں میں موجود نہیں - فقہا و علماء  نے بھی اس قسم کی روایات کو قبول نہ کیا اور 15 سے 17 یا 18 سال کی عمر کو نکاح بلوغت کی عمر قرار دیا ، چودہ صدیوں سے اسی پر عمل ہو رہا ہے-

3.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو حدیث  قرآن و سنت اور دل (یعنی عقل سے دور ہو وہ مجھ سے بھی دور ہے)-

3۔ جس طرح یہود و نصاری نے اپنے علماء کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے کہ ان ہر بات مانتے ہیں (قرآن 9:31) اسی طرح علماء اسلام صرف اپنے محدثین (جن کو خداووں کا درجہ دے رکھا ہے ) کی تحریر کردہ کتب احادیث  کو درست ثابت کرنے کے لئیے کتاب اللہ  (قرآن) کو پس پشت دال کر  رسول اللہ ﷺ کے دوسرے احکام کو بھی نظر انداز کرکہ اخلاقی بہتان لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح کی احدیث کو کفار 1200 سال سے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

5. ضرورت ہے کہ اس قسم کی احدیث کا از سر نو جائزہ کیا جایے اورتحقیق کے بعد مسترد و منسوخ کیا جایے-

ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟ 

علماء کو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح تمام کتب احادیث کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے (ہو جایے) اور قرآن کی اپنی کلیدی حیثیت بحال ہو جانے سے فرقہ بازی کے کاروبار اور ان لوگوں کی حیثیت بھی مشکوک ٹھرتی ہے ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے  اصلیت کھل جاتی ہے- 

6.ان لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی توہین ، قرآن کے احکام کا انکار کرنا گوارا ہے مگر اپنے خداووں کی انسانی تحریروں کی فرامین  رسول اللہ ﷺ اور قرآن کی روشنی میں درستگی کرنا گوارا نہیں-

7. جو بات قرآن، سنت، مستند احادیث، عقل و فہم سے ثابت نہیں وہ متروک، مسترد ہے، اس پر اصرار، ملحدین وکفار کو رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی میں مدد کرنا ہے جو گناہ کبیرہ فتنہ و فساد ہے۔ کتب احادیث کو رسول اللہ ﷺ کے احکام کی روشنی میں خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے۔

8. تمام لوگ ہندو، مسلم، یہود و نصاری، ملحدین جو اس گستاخ رسول اللہ ﷺ مہم میں کسی طریقہ سے بھی شامل ہیں ملعون جہنمی ہیں۔

~~~~~~~~~

Status of Hadith on Marriage of Hazrat Ayesha (R.A)

درج ذیل حدیث (البخاری حدیث 5134  کو  جب البخاری اپنی کتاب میں شامل کرتے ہیں تو مقدس ہے توہین رسالت نہیں؟ مگر جب اس کو اسلام دشمن کا فر، ہندو، ملحد ، یہود ، نصاری  رسول اللہ ﷺ  کی شان میں گستاخی اور توہین کے لئے استعمال کرتے ہیں تو گستاخی بن جاتی ہے- یہ حدیث نہیں گستاخی ہے توہین رسول اللہ ﷺ  ہے ، قرآن ، سنت ،  تہذیب ، عقل کے خلاف ہے یہ جھوٹ ہے ، تہمت ، بہتان ، مسترد ہے منسوخ ہے  ناسخ قرآن: (6:4)ہے- اس کو اور اس طرح کی دوسری احادیث کو کتب احادیث سے خارج کرنا چاہینے، علماء کو  گونگے شیطان نہیں بننا چاہیے-

باب تَزْوِيجِ الأَبِ ابْنَتَهُ مِنَ الإِمَامِ

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم تَزَوَّجَهَا وَهْىَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَبَنَى بِهَا وَهْىَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ‏.‏ قَالَ هِشَامٌ وَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَهُ تِسْعَ سِنِينَ‏.‏(صحیح البخاری حدیث ٥١٣٤) 

ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ (تفصیل آخر میں) نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی ۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال تک رہیں ۔(البخاری حدیث 5134) 

Narrated `Aisha: that the Prophet (ﷺ) married her when she was six years old and he consummated his marriage when she was nine years old. Hisham said: I have been informed that `Aisha remained with the Prophet (ﷺ) for nine years (i.e. till his death). [Sahih al-Bukhari 5134]

This Hadith is against Quran 4:6, also contradicted by many other Hadiths, hence rejected/ abrogated by Quran 4:6 not considered by jurists and scholars. Imam Abu Hanifah fixed the minimum marriageable age for boy and girls a 15 years. [others saying 17-18, see details <here>] Thus quoting this unreliable/ abrogated Hadiths is blasphemy, derogatory, taken as offensive by Muslims. Its high time that the Muslim scholars wakeup and don't behave as "Deaf Devil" they publicly denounce / abrogation of this Hadith and many other such Hadiths. More >>>

Now listen to Non Muslims and Muslims Scholar repeating  contents of same Hadith ...  blasephemy ....


https://platform.twitter.com/widgets.js

~~~~~~~~~~~~~~~
ہشام بن عروہ (راوی البخاری حدیث  5134) 
ہشام ابن عروہ ابن زبیر  مشہور تابعی ہیں، بڑے محدث، علما سے ہیں۔ آپ  61ھ مدینہ میں پیدا ہوئے، بغداد میں  146ھ میں 85  سال کی عمر میں وفات پائی  (680-763ء) ۔امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699 -767ء)  اورامام مالک بن انس (93-179ھ/ 712-795ء) آپ کے ہم عصر تھے- ہشام ابن عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ (وفات 58ھ مطابق 678ء ) سے نہیں ملےنہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے چشم دید گواہ ہیں -  
ھشام بن عروہ کی زندگی کے دو دورہیں ایک عراق جانے سے قبل اوردوسرا عراق جانے کے بعدکا ہے ، ان کی عراق جانے سے قبل کی مروی احادیث مقبول ہیں اورعراق جانے کے بعد کی روایات یاداشت میں کمزوری اور فتنہ سبائیت کی سازش کے زیر اثر ہیں-
حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے اکثرراوی عراقی اورکوفی ہیں اور دوسرے بھی ان سے متاثر ہیں- انہیں اورامام مالک ؒنے ہشام بن عروہ پرتنقید کی ہے اورکہاہے کہ ان کی عراقی احادیث مردود ہیں اور اہل مدینہ میں سے کوئی بھی راوی اس حدیث کوروایت نہیں کرتااورہشام پر تنقید والی بات حافظ ذہبیؒ نے بھی لکھی ہے ہم نے اپنی طرف سے نہیں کی -
درحقیقت محدثین کرام نے ہشام بن عروہ کے بارے میں یہ لکھاہے کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ ٹھیک نہیں رہاتھا- اس ضمن میں  حافظ ذہبی ؒ لکھتے ہیں کہ :
یعنی’’ہشام بن عروہ کا  بڑھا پے میں حافظہ پہلے سے کم ہو گیا تھا 
انکے بارے میں امام ابن القطان ؒ نے کہاکہ وہ مختلط ہوگئے تھے توان کی بات کا کوئی اعتبارنہیں ہے ہاں  ان کے حافظے میں تبدیلی ضرور ہوئی تھی اوران کاحافظہ جوانی والانہیں رہا تھا اس لئے بعض احادیث ان کو بھول گئیں تھیں اوربعض میں ان سے وہم بھی ہوااس سے کیا ہوگیا کیا وہ غلطی سے معصوم تھے ‘‘جب وہ عراق گئے تو وہاں بعض احادیث جاکر بیان کیں ان میں سے بعض کووہ اچھی طرح بیان نہیں کرسکے-
امام ابن حجر نے اپنی کتاب تہذیب میں یعقوب بن ابی شیبہ کابیان نقل کیاہے کہ: 
 "ہشام کی عراقی روایات کو اہل مدینہ نے برا تصورکیاہے ،مدینہ میں رہتے ہوئے ہشام صرف وہی روایات بیان کرتے جوانھوں نے اپنے والد سے سنی تھیں لیکن عراق جانے کے بعد اپنے والد سے منسوب کرکے وہ روایات بھی مرسلاً بیان کرناشروع کردیں جو انھوں نے دوسروں سے سنی تھیں"
لہذا ہشام کی وہ روایات جو اہل عراق ان سے بیان کرتے ہیں ان کاکوئی بھروسہ نہیں ہے
تہذیب میں یحیٰ بن سعید ؒ کاقول مذکورہے کہ:
"میں نے امام مالک ؒکو خواب میں دیکھا اورہشام کی روایات کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایاکہ جب وہ ہمارے پاس مدینہ میں تھا تواسکی روایات وہی ہیں یعنی درست ہیں اورجب وہ عراق گیاتو اسکی روایات درست نہیں"
ابن حجرؒ نے تہذیب میں یعقوب بن ابی شیبہ ؒ کا یہ قول نقل کیاہے کہ:
’’یعقوب بن ابی شیبہ ؒ نے کہا کہ ہشام بن عروہ ثقہ ہے اورحدیث و محدثین کاامام ہے اس پراس کی کسی حدیث کی وجہ سے اعتراض نہیں کیا گیا مگر جب وہ عراق گیا تووہاں اس نے اپنے والد کی حدیثیں کھل کربیان کرنا شروع کردیں تواسکے شہر والوں نے اس پرانکاریعنی اعتراض کیا کہ اس نے اپنے والد کی سنی اوران سنی روایات کو’’عن‘‘ سے بیان کرناشروع کردیاہے جبکہ چاہیے یہ تھاکہ اپنے والد کی جو روایات اس نے بالواسطہ سنی ہیں ان کوبالواسطہ ہی بیان کرتامگرایسی روایات کوبھی اس نے بلاواسطہ بیان کیا‘‘
 ہشام کے ذہن پر یہ نو(۹) سال کچھ اس طرح بھوت بن کرسوارہوگئے تھے کہ انھوں نے اپنی بیوی کوبھی شادی کے وقت نوسال بنا ڈالا جبکہ امام ذہبی ؒ اس واقعہ کواس طرح بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت المنذر اپنے خاوند ہشام سے تقریباً تیرہ (۱۳)سال بڑی تھیں اورجب فاطمہ کی رخصتی عمل میں آئی توان کی عمرانتیس(۲۹) سال تھی یعنی ہشام نے صرف اتنی کرامت کی کہ انتیس میں سے دہائی گراکر نو(۹) رہنے دیا
ان کی سندات جمع کرنے کے بعد ایک نئے عقدہ کا انکشاف ہوتاہے کہ کچھ راوی تواسے حضرت عائشہؓ کا قول قرار دیتے ہیں اورکچھ اسے حضرت عروہ کا قول بتاتے ہیں- 
چونکہ حضرت عائشہؓ کی حدیث شان نبوی کے خلاف ہے اس لئے وہ ضعیف و غیر مقبول ہے- حافظ سخاوی کے قواعد سے اتفاق ہے
یہ دعوی کرنا کہ  کہ صحیح بخاری و مسلم میں باتفاق علماء و محدثین و بااجماع امت مسلمہ ایسی کوئی حدیث نہیں جو رسول اﷲ ﷺ کی شان کے خلاف ہو لا یعنی ہے - مذکورہ حدیث رسول اﷲ ﷺ کی شان کے خلاف ہے اور بخاری میں موجود ہے-
ہشام والی روایت کویہ کہہ کررد کیا کہ اس کے راوی صرف کوفی ہیں اورتمام راویوں نے یہ روایت ہشام سے لی ہے نیزہشام بن عروہ کے علاوہ کوئی دوسراراوی اس حدیث کوبیان نہیں کرتا اورہشام بن عروہ کا حافظہ عراق جانے کے بعد خراب ہوگیاتھا اسلئے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے - ایک ہی قول الگ الگ راویوں کے ذریعہ بیان کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا-
 ہشام بن عروہ امام مالک ؒکے استادوں میں تھے اسکے باوجود امام مالک نے اپنے استاد کے قول ’’عمر عائشہؓ ‘‘‘ کواپنی کتاب میں جگہ دینا مناسب ہی نہیں سمجھا اس کی وجہ کیایہ نہیں کہ اس قول کی صحت کاامام مالکؒ کو یقین نہیں تھا (واللہ اعلم بالصواب ) [ماخوز از  کتاب ’’آؤ ناموس رسالت کی حفاظت کریں‘‘  قرشی صاحب ، اس کتاب کے جواب میں محدث فورم  سے اقتباس]
 راوی ہشام بن عروہ  کی آخری عمر میں حافظہ کمزوری اتنی اہم ہے کہ ایک ایسی روایت جو  رسول اﷲ ﷺ کی شان میں گستاخی ، بہتان اور توہین کے لیے استعمال ہوتی ہے اس کو کوئی عقل مند مسلمان کیسے قبول کر سکتا ہے؟ 

 البخاری حدیث  5134 : مسترد، منسوخ کی وجوہات  کا خلاصہ:

1.اس حدیث کا قرآن 4:6 سے متصادم ہونا [  آیت  قرآن کا انکار کفر ہے]
2.  رسول الله کی شان کے خلاف ہونا [ گستاخ رسول سلمان رشدی  کی سزا موت ہے]
3. احد حدیث ہونا ، متواتر نہ ہونا [ احد حدیث کی قبولیت شرعی طور پرلازم نہیں لیکن متواتر حدیث کا انکار کفر ہے]
4. سنت کے خلاف ہونا ، سنت صحابہ سے ثبوت نہ ہونا [قرآن کے بعد سنت ثابتہ مصدراسلام ہے حدیث نہیں] 
5. مروجہ تہذیب ، اخلاق ، طبی طور پربھی درست نہ ہونا 
6.  ائمہ  فقہ اربعہ اور امام ابو حنیفہ کا اس حدیث کوقبول نہ کرنا؛ قرآن( 4:6)، سنت و احادیث کے مطابق  شادی کی عمر پندرہ سال مقرر کرنا - جبکہ وہ اور امام ملک ہشام بن عروہ  کے ہم عصر بھی تھے  امام ملک  تو  ہشام بن عروہ کے شاگرد بھی تھے-
7. علمی ، تاریخی تحقیق و حقائق سے غلط ثابت  https://bit.ly/AyeshaMyth )
حب رسول اللہ ﷺ  کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر حکومت اور علماء سے مطالبہ کریں کہ "البخاری حدیث  5134" کو فوری طور پر منسوِِخ قرار دیا جائیے اور اس طرح کی دل آزار احادیث کا رسول اللہ ﷺ کے مقررکردہ اصول "پہچان حديث" کی بنیاد پر تحقیقی تجزیہ کرکہ زخیرہ حدیث کی تشکیل نو کی جائیے۔  

پوسٹ لسٹ