اسلام میں وہ مسلم علماء جنہوں نے اپنی توانائیاں جسم کے لیے معیاری خطوطِ راہنمائی کو سمجھنے پر مرکوز کیں وہ فقہی کہلائے ، اور وہ جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم مہم (task)، درست فہم تک رسائی کے لیےعقل کی تربیت ہے وہ پھر تین مکتبوں میں تقسیم ہوئے ۔ ماہرین الٰہیات، فلاسفہ اور صوفیاء۔ یہاں ہمارے پاس اس انسانی وجود سے متعلق تیسرا ساحہ رہ جاتا ہے، (یعنی) روح؛ متعدد مسلم، جنہوں نے اپنی زیادہ تر کوششیں انسانی شخصیت کی (ان) روحانی ابعاد کی پرورش کے لیےمختص کردیں وہ صوفی کے نام سے جانے گئے- ایک دوسری تعریف کے مطابق تصوف (الصُّوفِيَّة) جسے التَّصَوُّف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،اسلام میں مذہب کا ایک طرز عمل ہے، جو بنیادی طور پر سنی اسلام کے اندر پایا جاتا ہے جس کی خصوصیت اسلامی روحانیت، رسم پرستی، اور باطنیت پر مرکوز ہے۔ اسے "اسلامی تصوف"، "اسلامی عقیدے کا صوفیانہ اظہار"،"اسلام کی باطنی جہت"، "اسلام کے اندر تصوف کا رجحان"، "اہم مظہر اور سب سے اہم اور مرکزی کرسٹلائزیشن" کے طور پر مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ اسلام میں صوفیانہ مشق، اور "اسلامی عقیدے اور عمل کی اندرونی شدت" بھی کہا جا سکتا ہے-
کتاب : شریعت و طریقت : مولانا عبد لرحمان کیلانی (رح)
ڈاکٹر اسرار احمد کے مطابق لیکن اس کے ضمن میں پہلی ہمالیہ جیسی غلطی اس کے لیے خالص ’’غیر قرآنی‘‘ ہی نہیں بلکہ ایک ’’مجہول الاصل‘‘ عنوان کا اختیار کر لیا جانا ہے.
ایک تویہ لفظ ؛تصوف' غیر قرآنی ہے. لفظ تصوف کا کوئی تعلق نہ قرآن سے ہے نہ سنت اور حدیث سے.
دوسرے یہ کہ یہ لفظ مجہول الاصل (of unknown origin) بھی ہے‘ جس کا مادہ ہی متفق علیہ نہیں.
اس کے بارے میں پہلی بات کہ یہ لفظ (تصوف) دوسری صدی ہجری کے اختتام کے قریب استعمال ہونا شروع ہوا. ڈاکٹر میرولی الدین نے تواس کے لیے باقاعدہ سن معین کیا ہے‘ ۸۲۲ عیسوی. حضورﷺ کا انتقال ٦۳۲ء میں ہوا‘ اور ہجرت٦۲۲ء میں ہوئی‘ تو حضورﷺ کے انتقال کے ۱۹۰ برس بعد‘ بلکہ قمری تقویم کے اعتبار سے ۱۹٦ برس بعد‘ یہ لفظ ایجا د ہوا ہے.
دوسری بات یہ کہ اس کے ماخذ کے بارے میں جو چار آراء رہی ہیں کہ یہ لفظ عربی کے کس مادے سے اخذ کیا گیا ہے‘ ان میں سے تین تو بالکل غلط ہیں اور ان کا غلط ہونا صد فی صد ثابت ہے. چنانچہ ایک رائے یہ ہے کہ یہ لفظ ’’صفا‘‘ سے بنا ہے‘ حالانکہ صرف ونحوکے کسی قاعدے کی رو سے ’’صفا‘‘ سے ’’صوفی‘‘ کا لفظ نہیں بن سکتا بلکہ اس سے ’’صفوی‘‘ بنے گا جیسے خاندانِ صفوی. دوسری رائے یہ ہے کہ تصوف کا لفظ ’’صف‘‘ سے بنا ہے‘ لیکن یہ اس سے بھی ہرگز نہیں بن سکتا. ’’صف‘‘ کے ساتھ یائے نسبت کا اضافہ کریں تو ’’صفی‘‘ بنے گا نہ کہ ’’صوفی‘‘.تیسری رائے یہ کہ یہ ’’صفہ‘‘ سے بناہے‘ وہ بھی غلط ہے‘ کیونکہ صفہ سے تو ’’صفی‘‘ بنتا ہے ‘ صوفی نہیں.
ڈاکٹر میر ولی الدین ان لوگوں میں سے ہیں جو قدیم اور جدید دونوں کے عالم ہیں. ان کی فلسفے میں ڈاکٹریٹ تھی اور اسلامی تصوف پر ان کی متعدد کتابیں ہیں. ان کی ایک تصنیف قرآنی تصوف پر ہے جس میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ یہ تینوں باتیں بے بنیاد ہیں.
البتہ ایک رائے یہ ہے کہ اس کا مصدر یا مادہ لفظ ’’صوف‘‘ ہے اور عام طور پر یہی بات مانی جاتی ہے اور اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ یہ ’’صوف‘‘ ہی سے بنا ہے. لیکن یہ بات ایک درجے میں قابل قبول ضرور ہے. گرامر میں صوف سے صوفی بن جاتا ہے. اس اِشتقاق کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ جو اللہ والے حضرات تھے‘ اللہ کے ساتھ خلوص و اخلاص تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ معرفت کے حامل تھے‘ جنہوں نے تہذیب ِنفس‘ تصفیہ ٔقلب اور تجلیہ ٔروح کی منزلیں طے کی تھیں‘جن میں درویشی تھی‘ یہ حضرات اُون کا لباس پہنا کرتے تھے جس کے نیچے کوئی اور لباس نہیں ہوتا تھا‘ تاکہ اس کے ذریعے چبھن اور بے آرامی کا احساس ہوتا رہے. یعنی آرام کی بجائے سختی کی عادت پڑے. چنانچہ یہی لفظ اقبال نے اپنے اس شعر میں استعمال کیا ہے : ؎ صوفی پشمینہ پوش حال مست اَز شراب نغمہ نغمہ قوال مست
تو یہ لوگ اُون کا کھردرا لباس پہنتے تاکہ اندر سے بال کاٹتے رہیں اور اس طرح ان کے نفس کو اِستراحت کے بجائے تکلیف اور کوفت کا احساس ہوتا رہے. اس رائے پر تقریباً اجماع ہے اور یہ لغت کے اعتبار سے بھی صحیح ہے.
اس ضمن میں ڈاکٹر اسرار احمد (رح) کی ذاتی رائے مختلف ہے اور اپنے علم کی حد تک میں اس رائے پر منفرد ہیں - ان کے نزدیک لفظ ’’تصوف‘‘ کا ماخذ یونانی لفظ ’’Sophia‘‘ ہے جو بعض علوم کے ساتھ لاحقے کے طور پر آتا ہے. مثلاً Philosophy . یونانی زبان میں sophia کا معنی ہے wisdom یعنی حکمت و معرفت ، حکمت و دانائی‘ اور sophos حکیم و دانا (wise) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. لفظ تصوف درحقیقت theosophy سے بنا ہے جو عرفان و معرفت خداوندی کا علم ہے. theo کا لفظ یونانی زبان میں مذہبی معاملات کے لیے استعمال ہوتا ہے. چنانچہ اسی سے theocracy کی اصطلاح بنی ہے جو مذہبی لوگوں کی حکومت کے لیے استعمال ہوتی ہے . اورمیں نے بارہا کہا ہے کہ میں اس ضمن میں مولانا مودودی مرحوم کی رائے کو بالکل صحیح سمجھتا ہوں کہ اسلامی ریاست نہ تھیوکریسی ہے اور نہ ڈیموکریسی‘ بلکہ یہ ایک ’’تھیوڈیموکریسی‘‘ ہے‘ کیونکہ اس میں ’’theo‘‘ اور ’’demo‘‘ دونوں عنصر جمع ہیں. بالکل اسی طرح کا معاملہ heosophy کا بھی ہے. چنانچہ یہ لفظ آج بھی استعمال ہوتا ہے‘ اور درحقیقت تصوف کا لفظ یہیں سے آیا ہے. اور یہ بات ہر شخص کے علم میں ہے کہ دوسری صدی ہجری کے دوران یونانی فلسفہ اور نوافلاطونی تصوف کا ایک بہت بڑا سیلاب عالم اسلام پر آ چکا تھا. لفظ تصوف کے اِشتقاق کے بارے میں یہ میری ذاتی رائے ہے‘ کوئی اسے قبول کرنا چاہے تو کرے‘ نہ کرنا چاہے تو ردّ کر دے.بہرحال اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ تصوف کی اصطلاح مجہول الاصل (of unknown origin) ہے.(end quote)
"کائناتی تصوف" کو ایک ایسا شعبۂ فلسفۂ دماغِ انسانی و نفسانی کہا جاسکتا ہے کہ جو مذہب اسلام کی تعلیمات کو انسانی خواہشات و تخیلات کے مطابق ڈھال کر اسلام کو اسلام سے نفرت کرنے والے اذہان کے لیے قابل قبول بنائے اور ظاہر ہے کہ یہ تصور غیر مسلم افراد کے لیے زیادہ کشش رکھتا ہے اور اسلام کے خمیر سے اٹھنے والے اسلام سے متنفر اشخاص (مثال کے طور پر ادریس شاہ وغیرہ جیسے صوفیا اکرام) کے لیے اپنے گرد ایک جم غفیر لگانے کا نہایت آسان طریقہ فراہم کرتا ہے۔ تصوف کی اس عالمی شاخ سے منسلک افراد کے لیے تصوف، اسلام پر تقدمِ زمانی کا حامل ہے اور اسلام سے پہلے سے وجود رکھتا ہے یعنی اسلام کی حیثیت ثانوی ہے اور جب اسلام ثانوی ٹھہرا تو پھر نہ تو تصوف کو قرآن کی ضرورت باقی ہے اور نہ محمد ﷺ کی، لیکن شاید سب صوفیاء اس نظریہ سے اتفاق نہ رکھتے ہوں- غیر مسلم صوفیا اکرام ان صوفیا اکرام کو کہا جاتا ہے کہ جنھوں نے خود کو ناصرف یہ کہ تصوف بلکہ تصوف کے کسی خاص سلسلے سے جوڑنے کے باوجود کبھی قبولیت اسلام کا اعلان نہیں کیا۔ مسلمان، غیر مسلم صوفی کی اصطلاح کو جو بھی نام دیں حقیقت یہ ہے کہ غیر مسلم دنیا میں یہ غیر مسلم صوفی ہی کہلائے جاتے ہیں >>>>
- ابتدا میں صوفیا کا خطاب ان لوگوں کو دیا جاتا تھا کہ جو خود کو اللہ کی عبادت میں مصروف رکھتے تھے اور زاہدوں کی سی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔
- بعد میں صوفیت (عام طور پر تصوف کے متبادل ادا کیا جاتا ہے) میں متدد بدعتیں اور مبالغات حلول کر گئے اور فلسفیوں کے کئی ممنوع تفکرات نے اس میں جگہ بنالی، جیسے وحدت الوجود، باطنیت اور لادینی (ممکن ہے کہ اس فتوی میں atheism دھریت یا انحراف کے معنوں میں آیا ہو) جن کے بعد یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ ان سے گذرنے کے بعد ایک حد وہ آتی ہے کہ جب وہ شخص اسلام کی پیروی سے بھی آزاد ہوجاتا ہے؛ ارشاد الملوک (مولانا عاشق الہی مراٹھی) کے مطابق ذکر کے لیے شرائط میں سے ایک، ذکر کو شیخ سے حاصل کرنا ہے بالکل ایسے ہی جیسے صحابہ اپنا ذکر رسول اللہ (ص) سے لیا کرتے تھے۔