رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

حضرت علی (رضی الله) اور عبداللہ بن عبّاس (رضی الله) کے اختلافات؛ ابن عبّاس کی بصرہ سے مکّہ روانگی ( تاریخ طبری)

ابن عباس (رض) کو حضرت علی (رض) کی جانب سے بصرہ کا گورنر معین کیا گیا تھا۔ حضرت علی (رض) نے آپ کو خطوط لکھے ہیں جن میں سے دو خطوں کا ذکر نہج البلاغہ کے 18 اور 66 نمبر خطوط میں ہوا ہے۔ بعض نقل قول کے مطابق امام علی (رض) کی حکومت کے اواخر میں آپ پر بیت المال میں خرد برد کا الزام لگا اور آپ نے بصرہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور مکہ روانہ ہو گئے۔ (حوالہ: بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۳۹)
ابن عباس (رض) نے جمل و صفین اور نہروان کی جنگوں میں شرکت کی تھی۔ آپ جنگ صفین میں امام کے لشکر کے سرداروں میں سے تھے۔ حکمیت کے واقعہ میں امام نے آپ کا نام اپنی طرف سے حکم کے طور پر پیش کیا تھا لیکن خوارج نے قبول نہیں کیا۔
ذہبی اور زرکلی کے قول کے مطابق ابن عباس (رض) نے 6601 حدیثٰیں نقل کی ہیں جس میں 120 احادیث بخاری اور 9 حدیث مسلم نے ان سے نقل کی ہیں۔ بنی عباس کی خلافت بننے کے سلسلہ میں بیان کی جانے والی احادیث کا بڑا حصہ ان سے منسوب ہے (محمد تقی شوشتری، قاموس الرجال، جلد ۶، صفحہ ۴۴۱، خویی، معجم الرجال الحدیث، جلد ۱۰، صفحہ ۲۳۸) >>>>
حضرت عبد اللہ بن عباس ( 3 قبل ہجرت تا 68ھ مطابق 618ء تا 687ء) ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔ انہوں نے اپنی کم سنی اور نو عمری کے باوجود حصولِ علم کے ہر طریقے کو اختیار کیا اور اس راہ میں انتہائی جاں فشانی اور ان تھک محنت سے کام لیا۔ فتح مکہ  20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا- عبد اللہ بن عباس 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ صرف تیرہ برس کے تھے کہ حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی-
مکہ میں عزلت نشینی
ایک روایت کے مطابق40ھ یعنی حضرت علی ؓ کی زندگی ہی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بصرہ کے عہد امارت سے مستعفی ہوکر مکہ میں عزلت نشینی اختیار کرلی، وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور ابواسوددئلی قاضیِ بصرہ میں باہم مخالفت تھی، ابو الاسود نے بارگاہ خلافت میں ان کی شکایت لکھی کہ انہوں نے بیت المال میں تصرف بے جا کیا ہے، حضرت علی ؓ نے ان سے جواب طلب کیا تو انہوں نے لکھا:
 ان الذی بلغک وباطل وانی لماتحت یدی ضابط قائم لدولد حافظ فلا تصدق الظنون
 آپ کو جو خبر ملی ہے وہ قطعا غلط ہے، میرے قبضہ میں جو کچھ ہے میں اس کا محافظ ونگہبان ہوں، آپ ان بدگمانیوں کو باورنہ فرمائیں۔ 
حضرت علی ؓ نے اس کے جواب میں ان سے بیت المال کا تمام وکمال حساب طلب کیا،
 عبد اللہ بن عباس ؓ کو یہ ناگوار گزار، انہوں نے برداشتہ خاطر ہوکر لکھا۔
 فهمت تعظيمك مرزأة ما بلغك أني رزأتہ من مال أهل هذا البلد فابعث إلى عملك من أحببت فإني ظاعن عنہ والسلام  
میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس شکایت کو کہ میں نے اس شہروالوں کے مال میں کچھ خورد برد کیا ہے، زیادہ اہمیت دینا چاہتے ہیں، اس لیے آپ اپنے کام پر جس کو چاہے بھیج دیجئے میں اس سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔ 
ایک دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے جب زیادہ باز پرس کی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ ابھی میں نے اپنا پورا حق نہیں لیا ہے اور بیت المال سے ایک بڑی رقم لے کر مکہ چلے گئے۔ 
لیکن صحیح یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ حضرت علی ؓ کی شہادت تک بصرہ کی گورنری پر مامور تھے، البتہ جب حضرت امام حسین ؓ اورامیر معاویہ ؓ میں مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی تو انہوں نے بطور حفظ ما تقدم پہلے ہی امیر معاویہ ؓ کو خط لکھ کر جان و مال کی امان حاصل کی اورمکہ جاکر گوشہ نشین ہو گئے-
حوالہ جات : 
  1. تاریخ طبری:ذکر ماکان فیھامن الاحداث
  2. طبری ذکر بیعت حسن بن علی ؓ، ٢ 
  3.  تاریخ طبری، "تاریخ الامم والملوک"  جلد سوئم  (3) حصہ اول ، (صفحہ 347-349 ) "خلافت راشدہ" (16ھ - 40 ھ) - ترجمہ سید محمد ابراهیم ندوی ایم اے، حبیب الرحمان صدیقی، فاضل دیوبند  -, طبع 2004  نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی (تاریخ طبری: ذکر ماکان فیھا من الاحداث)
  4.  تاریخ طبری، "تاریخ الامم والملوک"  جلد چہا رم (4) حصہ اول ، صفحہ 27 : "امیر معا ویه (رضی الله)  سے شہادت حسسین (رضی الله)  (41ھ - 66 ھ) - ترجمہ سید حیدر علی طبا طبا ئی- ( ذکر بیعت حسن بن علی ؓ), طبع اپریل 2005  نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی -

مزید :

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿التوبہ ۱۰۰﴾

And the first forerunners [in the faith] among the Muhajireen and the Ansar and those who followed them with good conduct - Allah is pleased with them and they are pleased with Him, and He has prepared for them gardens beneath which rivers flow, wherein they will abide forever. That is the great attainment. (Quran 9:100)

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے ۔(قرآن 9:100)

 اور وہ مہاجر اور ترک وطن کرنے والے اور مہاجرین کی مدد کرنے والے انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمانی کے قبول کرنے میں سبقت کی اور جنہوں نے اخلاص کے ساتھ دعوت ایمانی کو قبول کرنے میں مہاجروں و انصار کا اتباع کیا اور مہاجرین و انصار کی پیروی کی اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے ایسے باغ تیارکررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ انعامات کا حصول سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یعنی وہ مہاجرین و انصار جو ایمان لانے میں مقدم اور سابق (سسبقت) ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نما ز پڑھی ہو خواہ وہ ہوں جو جنگِ بدر سے پہلے مسلمان ہوئے ہوں تمام امت میں یہی لوگ سابق اور قدیم ہیں اس کے بعد خواہ وہ صحابہ (رض) ہوں یعنی غیرمہاجرین و انصار یا تابعین اور تبع تابعین ہوں یا ان کے بعد کے لوگ ہوں علی فرقِ مراتب سب ہی کم و بیش اس بشارت میں شریک ہیں اگرچہ مراتب اور درجات کی نوعیت میں فرق ہوگا۔ جنگِ بدرتک جو مسلمان ہوئے وہ قدیم ہیں اور باقی ان کے تابع (Kashf ur Rahman,by Ahmed Saeed Dehlvi)

ابن عبّاس (رض ) نے فتح مکہ 8  حجرہ سے قبل اپنے والد حضرت عبّاس بن عبدالمطلب (رسول اللہ کے چچا) کے ساتھ مدینہ ہجرت کی  اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔  حضرت عبّاس بن عبدالمطلب  جنگ بدر میں کفار کی طرف سے شریک ہوے اور گرفتارہوے، فدیہ دے کر رہا ہوے-


گردن پر سونا ‘ چاندی، مال و اسباب  اور شفاعت؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول (خیانت) کا ذکر فرمایا ‘ اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں تو (اللہ کا پیغام) تم تک پہنچا چکا تھا۔ اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ :میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا  یا (وہ اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ:میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا۔یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہوں جو اسے حرکت دے رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں تو (اللہ کا پیغام) پہلے ہی پہنچا چکا تھا۔ اور ایوب سختیانی نے بھی ابوحیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو۔  (بخاری، 3073)



 تاریخ طبری< ڈونلوڈ لنک >



--------------------

کیا حکومت حاصل کرنے کے لیے، یا حکومت برقرار رکھنے کے لیے رطب و یابس میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا؟

اس ضمن میں ریاست مدینہ کے حکمران امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنے طرزِ عمل سے پتھر پر لکیر کھینچ دی اور بتا دیا کہ حکومت رہے یا نہ رہے، اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ اب جو بھی ریاست مدینہ کی اتباع کا دعویٰ کرے گا، اسے یہی طرزِ عمل اپنانا ہو گا۔ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ سے زیادہ مشکلات کا شکار کون ہوا ہو گا! ایک طرف امیر شام! دوسری طرف خوارج! تیسری طرف اپنے غیر مطمئن حمایتی! اپنے چچا زاد ابن عباسؓ کو آپؓ نے بصرہ کا گورنر مقرر فرمایا کہ فتنوں سے بھرے ہوئے ان نامساعد حالات میں بھروسے کے لوگ چند ہی رہ گئے تھے اور ابن عباسؓ ان میں سے ایک تھے۔ ابن عباسؓ نے بیت المال سے کچھ رقم اپنے استعمال کے لیے لی۔ صوبے کے مالیات کے سربراہ نے کچھ عرصہ بعد رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تو ابن عباسؓ نے سختی سے جواب دیا۔ افسر مالیات نے معاملہ امیرالمومنین کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ شدید مشکلات میں گھرے ہوئے امیرالمومنین کو چشم پوشی سے کام لینا چاہیے تھا؟ ان حالات میں ابن عباسؓ جیسی اہم شخصیت کو ناراض کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتا۔ مگر امیرالمومنین کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنے اقتدار کو استحکام بخشنے کے لیے ریاست مدینہ کے اصولوں کو پسِ پشت ڈالیں۔ آپؓ نے ابن عباسؓ کو لکھا: اما بعد‘ مجھے تمہارے بارے میں ایک بات کا پتا چلا ہے۔ اگر وہ سچ ہے تو تم نے اپنے رب کو خفا کیا، اپنی امانت برباد کی، اپنے امام کی نافرمانی کی اور مسلمانوں کے خائن بنے۔ مجھے معلوم ہوا کہ تم نے زمین کو بنجر کر دیا اور جو رقم تمہارے قبضے میں تھی وہ کھا گئے۔ پس میرے سامنے حساب پیش کرو اور جان لو کہ اللہ کا حساب لوگوں کے حساب سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ رقم واپس کرنے کے بجائے معاملے کو ٹالتے رہے مگر امیرالمومنین کا احتساب سخت تھا! کسی قسم کی لچک کے بغیر! ابن عباسؓ نے مال سمیٹا۔ اپنے ماموئوں کو اپنی حفاظت کے لیے بلا لیا اور مکہ مکرمہ جا کر عیش و آرام کی زندگی گزارنے لگے۔ امیرالمومنین نے انہیں ایک طویل سرزنش نامہ لکھا جس کی آخری سطور یہ تھیں: کیا قیامت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ اور کیا بعد میں بری طرح حساب نہیں ہو گا؟ اور کیا تم جانتے نہیں کہ حرام کھاتے ہو اور حرام پیتے ہو؟ اللہ سے ڈرو۔ قوم کا مال واپس کر دو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو بخدا اگر مجھے موقع ملا تو میں تمہارا انصاف کروں گا اور حق حق دار تک پہنچاؤں گا۔ ظالم کو ماروں گا اور مظلوم کا انصاف کروں گا۔ والسلام

یہ ہے ریاست مدینہ! صاف! آئینے کے مانند شفاف! سورج سے زیادہ روشن! چاند سے زیادہ چمک دار!

https://www.facebook.com/muhammad.izharulhaq.16007/posts/6641657539241732

سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ رقم واپس کرنے کے بجائے معاملے کو ٹالتے رہے مگر امیرالمومنین کا احتساب سخت تھا! کسی قسم کی لچک کے بغیر! ابن عباسؓ نے مال سمیٹا۔ اپنے ماموئوں کو اپنی حفاظت کے لیے بلا لیا اور مکہ مکرمہ جا کر عیش و آرام کی زندگی گزارنے لگے۔ امیرالمومنین نے انہیں ایک طویل سرزنش نامہ لکھا جس کی آخری سطور یہ تھیں: کیا قیامت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ اور کیا بعد میں بری طرح حساب نہیں ہو گا؟ اور کیا تم جانتے نہیں کہ حرام کھاتے ہو اور حرام پیتے ہو؟ اللہ سے ڈرو۔ قوم کا مال واپس کر دو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو بخدا اگر مجھے موقع ملا تو میں تمہارا انصاف کروں گا اور حق حق دار تک پہنچاؤں گا۔ ظالم کو ماروں گا اور مظلوم کا انصاف کروں گا۔ والسلام

یہ ہے ریاست مدینہ! صاف! آئینے کے مانند شفاف! سورج سے زیادہ روشن! چاند سے زیادہ چمک دار!

علماء کو رب بنانا

 

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ سُبۡحٰنَہٗ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿9:31﴾

 

They have taken their scholars and monks as lords besides Allah , and [also] the Messiah, the son of Mary. And they were not commanded except to worship one God; there is no deity except Him. Exalted is He above whatever they associate with Him.(9:31)

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے ﴿9:31﴾

اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کردیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے ' (صحیح ترمذی)  ان کے علماء و مشائخ کا یہ حال تھا کہ تھوڑی سی رقم لے کر بھی فتوے ان کی مرضی کے مطابق دے دیا کرتے تھے جبکہ وہ کتاب اللہ کو دیکھتے تک نہ تھے بس جو کچھ ان کے علماء و مشائخ کہہ دیتے اسے اللہ کا حکم سمجھ لیتے تھے جبکہ یہی حال آج کل کچھ مسلمان علماء کا ہے ... >>>>>


طحہ حسین

کتاب طہٰ حسین علی غذر میں کتاب الغرض 380 فرمان، کتاب الاسلامیۃ۔

ایک مصری مصنف اور نقاد، انہیں عربی ادب کا ڈین کہا جاتا تھا۔

اس نے اپنی کتاب "دی ڈیز" میں جو کہ 1929 میں شائع ہوئی تھی، سوانح عمری کے خالق عربی ناول کو تبدیل کیا۔ انہیں جدید عرب ادبی تحریک کی نمایاں ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ کچھ اسے عرب دنیا میں روشن خیالی کے سب سے نمایاں حامیوں میں سے ایک کے طور پر دیکھتے ہیں، جب کہ دوسرے اسے عرب دنیا میں مغربیت کے علمبرداروں میں سے ایک کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اسلام پسندوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ مغرب ہی نے انہیں عربی ادب کے ڈین کا خطاب دیا۔

1902 میں، طحہٰ مذہبی علوم کے لیے، مزید عربی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے الازہر میں داخل ہوئے، اور جو کچھ ثقافت میں دستیاب تھا، حاصل کیا، اور اپنی ڈگری حاصل کی۔

جو اسے یونیورسٹی میں مہارت حاصل کرنے کا اختیار دیتا ہے، لیکن وہ اس سے تنگ آچکا تھا، چنانچہ اس نے وہاں جو چار سال گزارے، اور اس کا ذکر اس نے خود کیا، گویا یہ چالیس سال تھے، مطالعہ کی یکجہتی، بانجھ پن کے پیش نظر۔ نصاب، سوالات کی نشوونما کا فقدان، پوچھنا، پوچھنا، پوچھنا، ڈوریا اور نصاب کی بانجھ پن۔

جب مصری یونیورسٹی نے 1908 میں اپنے دروازے کھولے تو طحہ حسین اس میں شامل ہونے والے پہلے شخص تھے۔انھوں نے جدید علوم، اسلامی تہذیب، تاریخ اور جغرافیہ اور متعدد مشرقی زبانوں جیسا کہ حبشی، ابا، تحقیقات، الباشیہ، عبادہ کا مطالعہ کیا۔ ، سریانی، الک اور جغرافیہ، اور متعدد مشرقی زبانیں جیسے حبشی، ابا، اور سریانی۔ 1914، جس سال انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اور مقالے کا موضوع ہے: "ابو کی یادداشت۔ "العلا"، جس نے پیوریٹن مذہبی حلقوں میں ہنگامہ برپا کر دیا، اور مصری پارلیمنٹ میں ایک سمپوزیم میں، ان پر ایک مذاہب نے الزام لگایا۔

اسی سال وہ منسلک ہو گیا، یعنی 1914 میں مصری یونیورسٹی نے انہیں علم اور جدید علوم کی شاخوں میں تخصص اور اضافے کے لیے مونٹ پیلیئر، فرانس بھیجا، چنانچہ اس نے اس کی فرانسیسی یونیورسٹی اور ادب، نفسیات اور تاریخ کی تعلیم حاصل کی۔ 1914 کی عمر میں۔ جن مہینوں کے دوران اس نے متعدد لڑائیاں اور تنازعات کو جنم دیا، الازہر کی تدریس اور مغربی یونیورسٹیوں کی تدریس کے درمیان بڑا محور تھا، جس کی وجہ سے حکام نے اسے دی گئی گرانٹ سے محروم کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ اپنی تعلیم کے اخراجات کو ایک نئے بیرون ملک میں پورا کرنے کے لیے، لیکن تعلیمی حصول، لیکن دارالحکومت پیرس میں۔ اس کا عنوان ہے: ((اجتماع فلسفہ))۔

1926 میں طحہ حسین نے اپنی متنازع کتاب "آن پری اسلامک پوئٹری" لکھی اور اس میں ڈیکارٹس کے اصول پر کام کیا، اور اپنے اس نتیجے پر پہنچا اور تجزیہ کیا کہ اسلام سے پہلے کی شاعری انحطاط پذیر ہے، اور یہ کہ یہ اسلام کے بعد لکھی گئی اور منسوب کی گئی۔ قبل از اسلام شاعروں کے لیے، اور طحہ حسین نے مزید کہا کہ یہ انحطاط پذیر ہے۔

فلسفہ اور زبان کے بہت سے اسکالرز نے ان کا سامنا کیا، جن میں: مصطفی صادق الرفاعی، الخضر حسین، محمد لطفی جمعہ، شیخ محمد الخدری اور دیگر شامل ہیں۔

الازہر کے متعدد علماء نے طحہ حسین پر مقدمہ بھی چلایا لیکن عدالت نے انہیں بری کر دیا کیونکہ یہ ثابت نہیں ہوا کہ ان کی رائے جان بوجھ کر مذہب یا قرآن کی توہین کرنا تھی۔

انہوں نے اپنی کتاب کے نام میں ترمیم کرکے "آن پری اسلامک لٹریچر" رکھا اور اس سے لیے گئے چار اقتباسات کو حذف کردیا۔

طحہٰ حسین نے ادبی نشاۃ ثانیہ پر زور دیا، اور زبان کے الفاظ اور قواعد کو محفوظ رکھتے ہوئے آسان اور واضح انداز میں لکھنے پر کام کیا۔اس کے ذریعے اور مفکرین اور مصنفین کے آباؤ اجداد کی طرف سے عربی ادب کی تعلیم کے ان کے روایتی طریقے، اس کی حیثیت۔ صبیعہ سبیشپ کہا جاتا ہے، صبیہہ سبیشپ کہا جاتا ہے، صبیعہ سبیشپ کا درجہ، صبیہ کا درجہ، صبیہ کا حال، صبیہ کا حال، صبیہ نے درستی کی درستی کو اہمیت کی ایسے اساتذہ کو تیار کرنا جو عربی زبان اور ادب کی تعلیم دیتے ہیں اور جدید طرزِ تدریس پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ہنر مند اور تعلیم یافتہ بھی ہیں۔

https://www.noor-book.com/en/ebook-%D8%B7%D9%87-%D8%AD%D8%B3%D9%8A%D9%86-%D8%B9%D9%84%D9%8A-%D9%88%D8%A8%D9%86%D9%88%D9%87-pdf

Taha Hussain Book Arabic: https://www.hindawi.org/contributors/59624258/

 


الفصل الحاديوالثلاثون

 وفي أثناء هذا كله أضاف أقرب الناس إلى علي وآثرهم عنده محنةً إلى محنه الكثرية، وهو ابن عمه وعامله على البصرة عبد الله بن عباس صاحب رأي علي، وأعرف الناس بدخيلة أمره، وأقدرهم على نصحه ونصره، وأجدرهم أن يعينه ويُخلص له حني تتنكر له الدنيا ويَمكر به العدو ويلتوي عليه الصديق. ٍّ ا، ولم يحتجز عنه سرا ولم يقصر علي في ذات ابن عمه، لم يُ ِخف عليه من أمره شيئً ً من أسراره، وإنما كان يراه وزيرا طبيعيٍّ َّ ا له، أقام هو في الكوفة وولى وزيره وابن عمه ً البصرة، وهي أعظم أمصاره وأجلها خطرا، وكان علي ينتظر أن يُ َ متح ً ن في الناس جميعا إلا في ابن عمه هذا وفي بنيه. وكان لابن عباس من العلم بأمور الدين والدنيا، ومن املكانة في بني هاشم خاصة ً وفي قريش عامة وفي نفوس املسلمني جميعا ما كان خليقً ا أن يعصمه من الانحراف عن ُ ابن عمه، مهما تعظم الكوارث ومهما تدلهم الخطوب، ولكنه فيما يظهر عاد من صفني ِ منكسر النفس بعد ما رأى من ظهور معاوية بالكيد واملكر وطاعة أهل الشام، ومن تفرق أصحاب علي على إمامهم، وانحراف كثري منهم عنه إلى الحرب الخفية، وانحراف كثري منهم عنه إلى الحرب الظاهرة، ثم شهد أمر الحكمني فرأى تخاذل أهل العراق وتظاهر أهل الشام، وعاد وقد استيقن أن الدنيا قد أدبرت عن ابن عمه، وأن الأيام قد ٍ تنكرت له، وأن الأمور تريد أن تستقيم ملعاوية، ورأى أن ابن عمه على ذلك كله ماض ً في طريقه املستقيمة لا يعوج ولا يلتوي، ولا يحب اعوجاجا ولا التواء من أحد، وإنما يُجري سياسته سمحة هينة، ويسري سرية عمر بالرفق باملسلمني والعطف عليهم، ولكنه لا يشتد شدة عمر ولا يعنف بالناس، وإنما يحارب من حاربه في غري هوادة، ويسالم الفتنة الكبرى (الجزء الثاني) من سامله في غري احتياط، لا يعاقب على الكيد ولا يأخذ بالظنة، ولا يبادي الناس بالشر حتى يبادوه. وقد رأينا أن ابن عباس لم يقدم على علي حني أراد الشخوص إلى الشام، ولم يشهد معه النهروان، وإنما أقام بالبصرة وسرح الجند إلى علي كأنه قد ضاق بهذه الحرب التي ٍّ لا تغني، فقعد عنها وانتظر عاقبتها، ثم لم يلبث أن رأى عاقبتها شر ً ا وفرقة وتخاذلا، ِ فقد أوقع علي بالخوارج فلم يزد علي أن قتل جماعة من أصحابه، ثم لم يمض إلى الشام بعد ذلك وإنما عاد إلى الكوفة، ثم لم يستطع أن يخرج منها بعد أن عاد إليها. رأى ابن عباس نجم ابن عمه في أفول ونجم معاوية في صعود، فأقام في البصرة يفكر في نفسه أكثر مما يفكر في ابن عمه وفي هذه الخطوب التي كانت تزدحم عليه، وكأنه آثر نفسه بشيء من الخري وسار في بيت املال سريةً تخالف املألوف من أمر علي ومن أمره هو، حني كانت الأيام مقبلة على ابن عمه وعليه، وكأنه آنس من صاحب بيت املال في البصرة، وهو أبو الأسود الدؤلي شيئًا من النكري، فأغلظ له في القول ذات يوم. وضاق أبو الأسود بما رأى وما سمع، فكتب إلى علي: «أما بعد، فإن الله جعلك واليًا مؤتمنًا وراعيً ً ا مسئولا ً ، وقد بلوناك فوجدناك عظيم الأمانة ناصحا للرعية توفر لهم فيئهم، وتظلف نفسك عن دنياهم، فلا تأكل أموالهم ولا ترتشي في أحكامهم، وإن عاملك وابن عمك قد أكل ما تحت يده بغري علمك، ولا يسعني كتمانك ذلك، فانظر — رحمك ِ الله — فيما قبَلنا من أمرك، واكتب إلي برأيك إن شاء الله، والسلام.» َّ وليس من شك أن هذا الكتاب قد روع عليٍّ ٍّ ا وأضاف هم ً ا عظيما إلى همومه العظام، وحزنً ً ا ثقيلا إلى أحزانه اللاذعة املمضة، ولكنه صبر نفسه على ما تكره كما تعود أن ً يفعل دائما، وكتب إلى أبي الأسود: «أما بعد، فقد فهمت كتابك، ومثلك نصح للإمام والأمة، ووالى على الحق وفارق الجور، وقد كتبت إلى صاحبك فيما كتبت إلي فيه من أمره ولم أعلمه بكتابك إلي فيه، فلا تدع إعلامي ما يكون بحضرتك مما النظر فيه للأمة صلاح؛ فإنك بذلك محقوق، وهو عليك واجب، والسلام.» وكتب في الوقت نفسه إلى ابن عباس: «أما بعد، فقد بلغني عنك أمر إن كنت فعلته ُ فقد أسخطت ربك وأخربت أمانتك وعصيت إمامك وخنْ َت املسلمني، بلغني أنك جردت الأرض وأكلت ما تحت يديك، فارفع إلي حسابك واعلم أن حساب الله أشد من حساب الناس.» وليس غريبًا من علي أن يشجع أبا الأسود على أن ينبئه بحقائق ما يكون بحضرته، وأن يرضى منه ما فعل حني كتب إليه من أمر ابن عمه بما كتب، فقد كان علي في أمر

 136 الفصل الحادي والثلاثون ً 

املال والعمال متحرجا أشد التحرج، أمره في ذلك كأمر عمر، وكان أحرص الناس على ألا يخفى عليه شيء من أمر عماله، كما سترى في غري هذا املوضع. وليس غريبً َّ ا كذلك أن يكتب إلى ابن عباس بما كتب، فهو لم يتعود الرفق في أمر املال ولا الإدهان في أمر من أمور املسلمني، ولكن الغريب هو أن يتلقى ابن عباس هذا الكتاب فلا يزيد على أن يكتب إلى علي: «أما بعد، فإن الذي بلغك باطل، وأنا ملا تحت يدي أضبط وأحفظ، فلا تصدق علي الأظنَّاء، رحمك الله، والسلام.» كتاب لا يبرئ صاحبه ولا يرضي قارئه، وإنما يدل على غلو في الثقة بالنفس واستخفاف بغريه من الناس، وابن عباس بعد ذلك قد صحب عمر وعرف سريته وتشدده في حساب العمال، وهو قد صحب ابن عمه وعرف أنه لا يرق في أمر املال ولا يلني، ومن أجل ذلك لم يقنع علي بهذا الكتاب الذي لا يغني عنه ولا عن صاحبه شيئًا، ً فكتب إلى ابن عباس يتشدد في مطالبته برفع حسابه إليه مفصلا ما يريد من ذلك: أما بعد، فإنه لا يسعني تركك حتى تعلمني ما أخذت من الجزية، ومن أين أخذته، وفيما ِ وضعت ما أنفقت منه؟ فاتق الله فيما ائتمنتك عليه واسترعيتك حفظه؛ فإن املتاع بما أنت رازئ منه قليل، وتبعة ذلك شديدة، والسلام. والغريب أن ابن عباس تلقى هذا الكتاب فلم يكد يقرؤه حتى خرج عن طوره، ُ فلم يصنع صنيع العامل الذي يرفع إلى أمري املؤمنني حساب ما كلِّف حفظه وضبطه من أموال املسلمني، ولم يصنع صنيع ابن العم الذي يرعى لابن عمه حق القرابة وإخاء الصديق، ولم يصنع صنيع الراعي الذي يعرف للإمام حقه في أن يستقصي أمر ما اؤتمن عليه من أموال الأمة ومصالحها، فيعينه على ما يريد من ذلك، ويذكره به إن نسيه، ٍّ ويعظه فيه إن قصر في ذاته. لم يصنع صنيع أحد من هؤلاء، وإنما جعل نفسه ندا لإمامه وكفئًا لخليفته، ورأى أنه أكبر من أن يسأله إمامه عن شيء أو يحاسبه في شيء، ً فضلا عن أن يتهمه أو يتظنن فيه، وابن عباس كان أعلم الناس بأن سنة الشيخني قد جرت على أن يكون لكل مسلم الحق في أن يحاسب الإمام ويسأله عما يأتي وما يدع. وجرت كذلك على أن من حق الإمام، بل من الحق عليه أن يحاسب الولاة والعمال عن كل ما يأتون ويدعون، وأن يشتد في ذلك ليعصم عماله وولاته من التقصري، وليجعلهم بمأمن من أن يسوء بهم ظن الرعية ويفسد فيهم رأي الضعفاء الذين لا يستطيعون أن ُ يتقوا ظلمهم أو يأمنوا غوائلهم إذا خِّليَ ِّ بينهم وبني السلطان يصرفونه كما يحبون. وكان ابن عباس يعلم حق العلم أن سنة عمر جرت على أن يسمع من الرعية كل ما يعيبون على ولاتهم وعمالهم بمشهد من هؤلاء الولاة والعمال أو بغيب منهم، وكان

 137 الفتنة الكبرى (الجزء الثاني)

 يحقق كل ما يُرفَع إليه من ذلك تحريًا للعدل وإبراءً لذمته أمام الله والناس، وكان يعلم أن عمر كثريًا ما قاسم الولاة أموالهم بعد اعتزالهم عمله، وأنه كان يحصي عليهم أموالهم حني يوليهم ويحصيها عليهم بعد أن يعزلهم، وكانوا يقبلون منه ذلك في غري إنكار له أو ضيق به أو إكبار لأنفسهم عنه، وكان فيهم نفر من خرية أصحاب النبي، ثم كان ابن عباس يعلم أن كثريًا من املسلمني — وعسى أن يكون منهم — قد أنكروا على عثمان إسرافه في الأموال العامة، وأنكروا على ولاته وعماله ما أظهروا من الأثرة وما تورطوا ِتل في سبيل هذا كله، وأن ابن عمه إنما فيه من العبث بهذه الأموال العامة، وأن عثمان قُ َّ قام ليحي سنة النبي والشيخني، فهو لم يتجاوز حد ُ ه ولم يعد قدره حني طلب إلى أحد عماله — وإن كان ابن عباس — أن يقدم إليه حساب ما عنده من الأموال العامة. وكان ابن عباس بعد هذا كله أعرف الناس بابن عمه وأقدرهم على أن يخاطبه الخطاب الذي يبلغ من نفسه الرضى، دون أن يسوءه أو يُ ِحفظه أو يشق عليه، كان يستطيع أن يكتب إليه في رفق ليبني له أنه لم يأخذ من الجزية لنفسه شيئًا، ولم يضع منها شيئًا في غري حقه، وكان يستطيع أن يُلم به في الكوفة ويظهره على الجلي من أمره، ولكنه أعرض عن هذا كله وأنف أن يسري معه علي سريته مع غريه من العمال، فاعتزل ِ عمله، ولكنه مع ذلك لم يستعف إمامه، ولم ينتظر أن يعفيه، وإنما أعفى نفسه وترك املصر، ثم لم يتركه ليعود إلى الكوفة أو ليقيم في العراق، أو في حيث يستطيع الإمام أن يأخذه بتقديم الحساب ويسأله عن عمله قبل أن يعتزله، وإنما ترك املصر ولحق بمكة حيث لا يبلغه سلطان الإمام، وحيث لا يقدر الإمام على أن يناله بالعقاب، إن تبني استحقاقه للعقاب، وإنما أقام بالحرم آمنًا بأس إمامه علي وبأس خصمه معاوية. ِ ثم لم يكتف بهذا الخطأ كله وإنما صرح لابن عمه عما يؤذي نفسه ويترك في قلبه ا ممضا، فأعلن إليه أنه يؤثر أن يلقى الله وفي ذمته شيء من ً ا لاذع ً ا وأمل ٍّ وضمريه حزنً ُ أموال املسلمني، على أن يلقى الله وفي ذمته تلك الدماء التي سِفكت يوم الجمل، والتي ُسِف ُ كت في صفني، والتي سِفكت في النهروان، ثم يضيف إلى ذلك ما هو أمض منه وأشد إيذاء، فيزعم لابن عمه أنه سفك ما سفك من دماء املسلمني في سبيل امللك؛ فهو إذن لم يكن يعتقد أن عليٍّ ً ا إنما قاتل في سبيل الحق، وقاتل قوما كان يجب عليه أن يقاتلهم. َ كتب هذا كله إلى ابن عمه ولم ينس إلا شيئًا يسريً ٍّ ا جدا خطريً ٍّ ا جدا، وهو أنه شارك ابن عمه في سفك هذه الدماء، فشهد الجمل، وشهد صفني، وقاد جيوش ابن عمه في هاتني املوقعتني، فهو إذن لن يلقى الله بما قد يكون في ذمته من أموال املسلمني فحسب،

 138 الفصل الحادي والثلاثون

 ولكنه سيلقاه بما في ذمته من هذه الدماء التي شارك في سفكها، مع الفرق بينه وبني علي؛ لأن عليٍّا سفكها وهو مؤمن بأنه يقاتل في سبيل الحق، وهو سفكها وهو يعتقد أنه ُملك. يقاتل في سبيل الْ ِّصور الحزن ولذلك قرأ علي كتاب ابن عمه، فلم يزد على أن قال هذه الجملة التي تُ اللاذع واليأس املمض من الصديق والعدو: «وابن عباس لم يشاركنا في سفك هذه الدماء!» واقرأ كتاب ابن عباس إلى ابن عمه وإمامه لترى مقدار ما فيه من الغلظة والقسوة، وجحود ما مضى من إخائه لعلي قبل الخلافة ونصحه له بعد الخلافة: «أما بعد، فقد ْ فهمت تعظيمك علي مرِزئة ما بلغك أني رزأته أهل هذه البلاد، ووالله لأن ألقى الله بما في ِ بطن هذه الأرض من عقيانها ولجينها وب ِط ُّ لاع ما على ظهرها أحب إلي من أن ألقاه وقد سفكت دماء الأمة لأنال بذلك امللك والإمارة، فابعث إلى عملك من أحببت.» وإلى هنا جرت الأمور على نحو من املغاضبة بني الخليفة وبني عامله، ثم بني رجل وابن عمه، على نحو من العنف كان خليقً ا أن يُجتنَب لو ذكر ابن عباس سرية الشيخني ً وسرية علي، ولو نسي ابن عباس نفسه قليلا َ ، ولكنه لم ينس ً نفسه قليلا ولا كثريًا، ولم ِبل أن يكون واليًا لعلي على مصر من يضعها بحيث كان يجب عليه أن يضعها منذ قَ أمصار املسلمني، وبعد أن بايع عليٍّا على العمل بكتاب الله وسنة رسوله والعدل بني الرعية. وأبو الأسود الدؤلي أحد الرعية، فمن حقه أن يخاصم الوالي عند الإمام؛ ثم هو أمني الإمام على بيت مال البصرة، فمن الحق عليه أن يرفع إليه كل ما يريبه من تصرفات ِ الوالي فيما اؤتمن عليه من املال، ولكن ابن عباس لم يكتف بما بلغ من هذه املغاضبة، ٍّ ولا بما انتهى إليه من هذا التصرف الغريب، بل أضاف إليه شر ً ا عظيما، لم يَ ُسؤ به َ الإمام وحده وإنما ساء به الرعية كلها وعامة أهل البصرة خاصة، فهو قد أجمع الخروج ُ إلى مكة، ولكنه لم يخرج منها فارغ اليدين من املال كما دخلها حني وِّلي عليها، وإنما خرج منها وقد ملأ يديه بما كان في بيت املال مما يُنقَ ل، وهو يعلم أن ليس له في هذا ً املال حق إلا مثل ما لأهل البصرة جميعا فيه. ُّوا بينه وبني هذا املال الذي يريد أن يستأثر به من وقد علم أن أهل البصرة لن يُخل دونهم، والذي يُ ِّقدره املؤرخون بستة ملايني من الدراهم، فدعا إليه من كان في البصرة من أخواله بني هلال وطلب إليهم أن يجريوه حتى يبلغ مأمنه، ففعلوا.

139 الفتنة الكبرى (الجزء الثاني) 

وخرج ابن عباس ومعه مال املسلمني يحميه أخواله من بني هلال، وثار أهل البصرة يريدون أن يستنقذوا منه ما أخذ، وكادت الفتنة تقع بني بني هلال الغاضبني ً لابن أختهم، الذين ذكروا عصبية العرب القديمة وأزمعوا أن ينصروا جارهم ظاملا أو ً مظلوما، وبني سائر العرب من أهل مصر الذين غضبوا ملالهم وأبوا أن يُ َ غتصب وهم شهود، لولا أن تناهى حلماء الأزد وآثروا جريانهم في الدار من بني هلال، وتبعتهم في ذلك حلماء ربيعة، وتبعهم الأحنف بن قيس ومن معه من بني تميم، ولكن سائر تميم أزمعوا أن يقاتلوا على هذا املال حتى يستردوه. وبدأت املناوشة بينهم وبني بني هلال، وكادت الدماء تُسفَك بني الفريقني، لولا أن رجع إليهم حلماء أهل البصرة، فما زالوا ببني تميم حتى ردوهم إلى املصر. ومضى ابن عباس آمنًا يحميه أخواله ويحمون ما أخذ من املال حتى بلغ مأمنه في ظل البيت الحرام، ولم يكد يستقر بمكة حتى أقبل على شيء من الترف، واشترى — فيما ُ يروي املؤرخون — ثلاثة جوار مولدات حور بثلاثة آلاف دينار. وعرف علي ذلك، فكتب إليه: أما بعد، فإني كنت أشركتك في أمانتي، ولم يكن في أهل بيتي رجل أوثق منك في نفسي ملواساتي ومؤازرتي وأداء الأمانة إلي، فلما رأيت الزمان على ابن عمك قد كلب، والعدو عليه قد حرب، وأمانة الناس قد خربت، وهذه الأمة قد ِتنت، قلبت له ظهر املجن، ففارقته مع القوم املفارقني، وخذلته أسوأ خذلان فُ الخاذلني، وخنته مع الخائنني، فلا ابن عمك آسيت، ولا الأمانة أديت، كأنك لم تكن هلل تريد بجهادك، أو كأنك لم تكن على بينة من ربك، وكأنك إنما كنت تكيد أمة محمد عن دنياهم أو تطلب غرتهم عن فيئهم، فلما أمكنتك الغرة أسرعت العدوة، وغلظت الوثبة، وانتهزت الفرصة، واختطفت ما قدرت َ عليه من أموالهم اختطاف الذئب الأز ِّل َ دامية املعزى الهزيلة وظالعها الكبري، فحملت أموالهم إلى الحجاز رحيب الصدر، تحملها غري متأثم من أخذها، كأنك ُ — لا أبا لغريك — إنما ح َزت لأهلك تراثك عن أبيك وأمك، سبحان الله! أفما ً تؤمن باملعاد ولا تخاف سوء الحساب؟ أما تعلم أنك تأكل حراما وتشرب ً حراما؟! أو ما يعظم عليك وعندك أنك تستثمن الإماء وتنكح النساء بأموال ِ اليتامى والأرامل واملجاهدين الذين أفاء الله عليهم البلاد؟! فاتق ِّ الله، وأد أموال القوم، فإنك والله إلا تفعل ذلك ثم أمكنني الله منك لأعذرن إلى الله فيك حتى آخذ الحق وأرده، وأقمع الظالم وأنصف املظلوم، والسلام.

 140

ً ولست أعرف كلام ِ ا أبلغ في تصوير الحزن اللاذع، والأسى املمض، والغضب لحق الله وأموال املسلمني في مرارة اليأس من الناس، والشك في وفائهم للصديق، وحفظهم للعهد، وأدائهم للأمانة، وقدرتهم على التزام الجادة ومعصية الهوى من هذا الكلام. ولكن انظر كيف رد ابن عباس على هذا الكتاب املر بهذه الكلمات، التي إن صورت شيئًا فإنما تصور الإمعان في الثقة بالنفس والاستخفاف برأي غريه فيه:

 «أما بعد، فقد بلغني كتابك تعظم علي إصابة املال الذي أصبته من مال البصرة، ولعمري إن حقي في بيت املال لأعظم مما أخذت منه، والسلام.» ا ولست في حاجة إلى أن أطيل الوقوف عند هذا الكتاب الغريب الذي لا يثبت حقٍّ ولا يبرئ من تبعة، وإنما أختم هذه املناقشة املؤملة بني الرجلني برد علي على ابن عمه في هذا الكتاب الرائع: «أما بعد، فإن من أعجب العجب تزيني نفسك لك أن لك في بيت مال املسلمني من الحق أكثر مما لرجل من املسلمني، ولقد أفلحت إن كان ادعاؤك ما لا يكون وتمنيك الباطل ينجيك من الإثم، عمرك الله! إنك لأنت البعيد البعيد إذن، وقد بلغني أنك اتخذت مكة وطنًا وصريتها عطنًا، واشتريت مولدات املدينة والطائف تتخريهن على عينك ً وتعطي فيهن مال غريك، والله ما أحب أن يكون الذي أخذت من أموالهم لي حلالا أدعه ً ا، فكيف لا أتعجب اغتباطك بأكله حرام ً ا؟! فضح رويدا، مكانك قد بلغت املدى، مرياثً حيث يُنادي املغتر بالحسرة، ويتمنى املفرط التوبة، والظالم الرجعة، ولات حني مناص، والسلام.» 

وبعض الرواة يزعمون أن عمر هم أن يولي ابن عباس بعض أعماله، ولكنه خاف منه وخاف عليه، خاف منه أن يتأول في أكل الفيء، وخاف عليه أن يورطه ذلك في الإثم. ويزعم هؤلاء الرواة أن ابن عباس حني ولاه علي البصرة تأول فيما أباح لنفسه ٰى ْربَ ُخُمَسُه َولِ َّلرُس ِول َولِِذي الْقُ َّن هلل ِ ِ

 َ أ ِّ م م َ ن شيْءٍ فَ َم َ ا غِن ْمتُ نَّ َ ُموا أ َ قول الله عز وجل:

 وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ‎ (انفال ٤١)

اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسُولؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے  (انفال ٤١)

"اور سب سے زیادہ" ابن عباس کا راستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہے اور ان کا حق ہے۔

 ﴿و ْ اعلَ ِن َّ السِب ِيل﴾ ومكان ابن عباس من النبي قريب، فله الحق في َمَس ِ اك ِني َوابْ َ ام ٰى َوالْ يَتَ َوالْ ُ بعض هذا الخمس الذي قسمه الله للرسول وأولي القربى واليتامى واملساكني وابن السبيل. ولكن ابن عباس عندي أصح رأيً ً ا وأعقل عقلا وأعلم بدينه من هذا التأول، فهو ُ كان يعلم من غري شك أن حقه في هذا الخمس لن يعدو أن يكون كحق غريه من أولي القربى واليتامى واملساكني وابن السبيل، وكان يعلم أنه لا ينبغي له بل لا يحل له أن ِّصب ليقسم يأخذ حقه من هذا الخمس بنفسه، وإنما ينبغي أن يتلقاه من الإمام الذي نُ 

141

بني املسلمني فيئهم، وينفق منه في مرافقهم، وهو الذي يقسم بني أولي القربى واليتامى واملساكني حقهم من هذا الخمس. ولو أن غري ابن عباس من املسلمني عرف أن له حقٍّ ا في بيت املال فأخذه بنفسه، دون أن يعدوه أو يزيد فيه، لكان بذلك معتديً ً ا على السلطان متجاوزا للحد، ولكان من الحق على الإمام أن ينزل به ما يستحق من العقاب. وكان ابن عباس يعلم بعد هذا كله أن ابن عمه الخليفة هو بحكم قرابته وخلافته أجدر الناس أن يخلف رسول الله في توزيع هذا الخمس على مستحقيه. والغريب أن كثريً ً ا من املحدثني أهملوا هذه القصة ولم يشريوا إليها تحرجا من ذكرها، فمكان ابن عباس من النبي ومكانه من الفقه بالدين أعظم من أن يُ َظن به مثل هذا التجاوز للحق والخلاف على الإمام. على أن رواة آخرين يسرفون في هذه القصة نفسها بعض الإسراف، فيزعمون أن ً ابن عباس رد على الكتاب الأخري لعلي قائلا: «لئن لم تدعني من أساطريك لأحملن هذا املال إلى معاوية يقاتلك به.» وما أحسب أن الأمر قد بلغ بابن عباس هذا الحد من التأليب الصريح على ابن عمه، على أن لهذه القصة نتائجها القريبة املباشرة، التي كانت محنة ً لعلي في أصحابه وفي سلطانه أيضا. 

المراجع

  1. ِكرت في الجزء الأول من هذا الكتاب املراجع الآتية:

  2. يضاف إلى املراجع التي ذُ

  3. الفصول املهمة في معرفة الأئمة: الشيخ نور الدين علي بن صمدين الصباغ.

  4. فرق الشيعة: أبو محمد الحسن بن موسى النوبختي.

  5. تاريخ الإسلام: شمس الدين محمد بن عبد الله الذهبي.

  6. مقالات الإسلاميني واختلاف املصلني: الإمام أبو الحسن علي بن إسماعيل الأشعري.

  7. أعيان الشيعة: السيد محسن الأمري الحسيني العاملي.

  8. الأخبار الطوال: أبو حنيفة أحمد بن داود الدينوري.

  9. تثبيت الإمامة: الإمام القاسم بن إبراهيم بن إسماعيل.

  10. بحار الأنوار: العلامة املجلى محمد بن باقر.

  11. الإمام علي بن أبي طالب: الأستاذ عبد الفتاح عبد املقصود.

  12. ترجمة علي بن أبي طالب: الأستاذ أحمد زكي صفوت.

  13. السياسة عند العرب: الأستاذ عمر أبو النصر.

  14. عبقرية الإمام: الأستاذ عباس محمود العقاد.

  15. دعائم الإسلام: أبو حنيفة النعمان بن محمد

 


 

ترجمہ گوگل عربی سے اردو 

عظیم فتنہ (دوسرا حصہ): علی اور ان کے بیٹے

طحہٰ حسین

https://www.hindawi.org/books/46307961/

 

امام "علی بن ابی طالب" نے غیر معمولی حالات میں خلافت سنبھالی۔ جہاں اسلام کی سرزمین میں فتنہ برپا تھا، اس کے خلیفہ کا خون اس کی سرزمین پر بہایا گیا۔ علی کے پاس بہت سے اہم کام تھے جنہیں ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا، جن میں سے سب سے خطرناک "عثمان" کے قاتلوں کا بدلہ تھا، لیکن امام علی نے اس وقت تک انتظار کرنے کی ضرورت محسوس کی جب تک کہ وہ ریاست کا کنٹرول حاصل نہ کر لیں، جب کہ "معاویہ بن ابی سفیان" اور اس کے پیروکار فوری انتقام چاہتے تھے۔ اور یہی اس جھگڑے کا سرغنہ تھا جس نے بہترین مسلمانوں کا دعویٰ کیا، اور نظام حکومت کو مشاورت سے وراثت میں بدل دیا، اور شیعہ - علی بن ابی طالب کے حامی - اور خوارج - ان کے مخالفین - سیاسی جماعتوں کے طور پر سامنے آئے، انہوں نے سماجی اور مذہبی رنگ اختیار کر لیا، لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ نتیجہ یہ نکلا کہ آج مسلمانوں کو جو تباہی آ رہی ہے، ان میں سے بہت سی تباہی کی جڑیں اسی کشمکش میں ہیں جو آج بھی جل رہی ہے۔

کتاب کی یہ کاپی ہندوی فاؤنڈیشن اور جناب طحہ حسین کے خاندان کے درمیان ایک قانونی معاہدے کے تحت جاری کی گئی ہے اور مفت دستیاب ہے۔

~~~~~~~~~~~~~~~

اکتیسواں باب

اور اس سب کے دوران، علی کے سب سے زیادہ قریب اور ان کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ لوگوں نے ان کے بہت سے لوگوں کے لیے ایک آزمائش کا اضافہ کیا، اور وہ اس کے چچازاد بھائی اور بصرہ میں اس کے ساتھ معاملہ کرنے والا عبداللہ بن عباس علی کی رائے رکھتا تھا اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مانوس تھا جو باہر کے لوگوں سے تھا۔

اس کا حکم، اس کی نصیحت اور مدد کرنے پر سب سے زیادہ قابل، اور ان میں سب سے زیادہ اس قابل ہے کہ اس کی مدد کرے اور اس کے ساتھ مخلص ہو جب دنیا اس کا انکار کرے۔

دشمن اس کے ساتھ سازش کرتا ہے اور دوست اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔

اور اسے خفیہ طور پر نہیں رکھا گیا تھا۔

اور اس نے مجھے اپنے کزن تک محدود نہیں رکھا اور اس سے کوئی چیز چھپی نہیں تھی۔

اس کے رازوں میں سے ایک راز، لیکن اس نے اسے اپنے لیے قدرتی وزیر کے طور پر دیکھا، وہ کوفہ میں رہا اور اس کا وزیر اور اس کا چچازاد بھائی بن گیا۔

بصرہ جو کہ اس کے شہروں میں سب سے بڑا اور خطرناک ہے اور علی تمام لوگوں میں آزمائے جانے کے منتظر تھے۔

سوائے اس کزن کے اور اس کے بیٹوں کے۔

ابن عباس کو دینی اور دنیاوی معاملات کا علم تھا اور بنو ہاشم میں ایک خاص مقام تھا۔

اور قریش میں بالعموم اور تمام مسلمانوں کی روحوں میں وہ انحراف سے محفوظ نہ رہے۔

اس کا کزن خواہ کتنی ہی بڑی آفتیں ہوں اور خطیب کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں لیکن لگتا ہے وہ میری طرف سے لوٹ آیا ہے۔

ٹوٹی ہوئی روح اس کے بعد جو اس نے معاویہ کے ظہور کو بددیانتی اور دھوکہ دہی اور لیونت کے لوگوں کی اطاعت کے ساتھ دیکھا۔

علی کے ساتھی اپنے امام پر منتشر ہو گئے اور ان میں سے بہت سے ان سے ہٹ کر پوشیدہ جنگ میں چلے گئے اور ان سے منحرف ہو گئے۔

ان میں سے بہت سے لوگوں نے اسے ظاہری جنگ میں چھوڑ دیا، پھر اس نے الحکمنی کا معاملہ دیکھا اور عراق کے لوگوں کی کمزوری دیکھی۔

اور لیونٹ کے لوگوں نے مظاہرہ کیا، اور اس یقین کے ساتھ واپس آئے کہ دنیا اس کے کزن سے منہ موڑ چکی ہے، اور دن گزر چکے ہیں۔

اس نے اس سے انکار کر دیا، اور یہ کہ معاویہ کے لیے چیزیں ٹھیک ہونا چاہتی تھیں، اور اس نے دیکھا کہ اس کا کزن اس سب پر چل رہا ہے۔

اپنے صراط مستقیم پر نہ ٹیڑھا ہے اور نہ ٹیڑھا ہے اور نہ اسے کسی کی ٹیڑھی اور کجی پسند ہے۔

وہ اپنی رواداری اور آسان پالیسی پر عمل کرتا ہے، اور عمر کے سیکرٹریٹ کو مسلمانوں کے لیے مہربانی اور ہمدردی کے ساتھ نافذ کرتا ہے، لیکن وہ

عمر رضی اللہ عنہ زیادہ سخت نہیں ہوتے اور لوگوں پر حملہ نہیں کرتے، بلکہ ان سے لڑتے ہیں جو ان سے لڑتے ہیں، اور صلح کرا دیتے ہیں۔

 

جو شخص اس سے بغیر احتیاط کے پوچھ گچھ کرے گا، اسے نہ تدبیر کی سزا دی جائے گی، نہ وہ شک کرے گا اور نہ ہی لوگوں سے برا سلوک کرے گا۔

تو وہ اسے مار ڈالتے ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ابن عباس علی سے پہلے نہیں آئے تھے جب وہ چاہتے تھے کہ لوگ شام جائیں، اور انہوں نے گواہی نہیں دی۔

نہروان اس کے ساتھ تھا لیکن اس نے بصرہ میں قیام کیا اور سپاہیوں کو علی کی طرف روانہ کیا، گویا وہ اس جنگ سے تھک گیا تھا جو اس نے شروع کی تھی۔

یہ گانا نہیں گاتا، اس لیے بیٹھ کر اس کے نتائج کا انتظار کرنے لگا، پھر زیادہ دیر نہیں گزری کہ اس نے اس کے نتائج برائی، تقسیم اور غفلت کے طور پر دیکھے۔

علی نے خارجیوں کو بنایا، اور اس نے علی سے یہ اضافہ نہیں کیا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ایک گروہ کو قتل کیا، پھر وہ شام کی طرف نہیں گئے۔

اس کے بعد وہ کوفہ کی طرف لوٹے اور پھر وہاں سے واپس آنے کے بعد وہاں سے نکلنے کے قابل نہ رہے۔ دیکھا بیٹا

عباس اپنے چچا زاد بھائی کا ستارہ زوال پذیر ہے اور معاویہ کا ستارہ عروج پر ہے تو وہ اپنے بارے میں سوچ کر بصرہ میں جا بسا۔

اس سے زیادہ وہ اپنے کزن اور ان مصروفیات کے بارے میں سوچتا ہے جو اسے ہجوم کر رہی تھیں، جیسے اس نے خود کو ترجیح دی ہو۔

کچھ خیر کے ساتھ، وہ علی کے حکم اور ان کے حکم کے خلاف، خفیہ طور پر خزانے میں چلا گیا، جب

اس کے چچا زاد بھائی اور اس کے لیے ایسے دن آنے والے تھے جیسے وہ بصرہ میں روپیہ کے گھر کے مالک سے زیادہ واقف ہوں اور وہ

ابو الاسود الدعلی ایک منکر تھا، اس لیے اس نے ایک دن اس سے کوئی سخت بات کہی۔

ابو الاسود جو کچھ اس نے دیکھا اور جو کچھ اس نے سنا اس سے تنگ آ گیا تو اس نے علی کو لکھا: "کیا بات ہے، خدا نے تمہیں بنایا ہے۔"

ایک قابل اعتماد ولی اور ذمہ دار چرواہا۔

ان کے ساتھ وفادار رہو اور ان کے دنیاوی معاملات سے اپنے آپ کو بچاؤ، لہٰذا ان کا مال مت کھاؤ اور ان کے احکام میں رشوت نہ لو، خواہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں۔

اور آپ کے کزن نے آپ کے علم کے بغیر اس کے ہاتھ کے نیچے کی چیز کھا لی ہے، اور میں آپ سے اسے چھپا نہیں سکتا، لہذا دیکھو، آپ پر رحم کریں۔

خدا - ہم نے آپ کے حکم کے بارے میں کیا قبول کیا ہے، اور مجھے اپنی رائے لکھیں، خدا کی مرضی، اور سلامتی."

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب نے علی کو خوفزدہ کر دیا اور ان کے شدید خدشات میں ایک بڑا اضافہ کر دیا۔

وہ اپنے ڈنک مارنے اور جلتے ہوئے دکھوں کے لئے بہت غمگین تھا، لیکن وہ ان چیزوں پر صبر کرتا تھا جس سے وہ نفرت کرتا ہے، جیسا کہ آپ کے عادی ہیں۔

وہ ہمیشہ کرتا ہے، اور اس نے میرے والد الاسود کو لکھا: "ابھی تک، میں نے آپ کی کتاب کو سمجھا ہے، اور آپ کی مثال نے امام کو مشورہ دیا ہے۔"

اور قوم، اور حق کے محافظ اور ناانصافی کی جدائی، اور میں نے آپ کے دوست کو اس کے بارے میں لکھا تھا جو آپ نے مجھے لکھا تھا۔

اس کا معاملہ اور میں نے اس کو آپ کے اس خط کی اطلاع نہیں دی تھی، لہٰذا مجھے اجازت نہ دیجیے کہ میں آپ کو اس بات سے آگاہ کروں جو آپ کی موجودگی میں قوم کے لیے غور طلب ہے۔

صلاۃ; تم اس کے حقدار ہو، اور یہ تمہارا فرض ہے، اور تم پر سلامتی ہو۔"

اس کے ساتھ ہی انہوں نے ابن عباس کو لکھا: "ابھی تک مجھے تمہارے بارے میں کچھ خبر ملی ہے کہ اگر تم نے ایسا کیا ہے۔

تم نے اپنے رب کو ناراض کیا، اپنی امانت بتائی، اپنے امام کی نافرمانی کی، اور مسلمانوں سے خیانت کی۔

زمین کھا گئی جو تمہارے ہاتھ کے نیچے ہے لہٰذا اپنا محاسبہ کرو اور جان لو کہ اللہ کا حساب حساب سے زیادہ سخت ہے۔

لوگ."

علی کے لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ وہ ابا الاسود کو ان کی موجودگی کے حقائق سے آگاہ کرنے کی ترغیب دیں۔

اور یہ کہ جب اس نے اسے اپنے چچا زاد بھائی کے حکم کے بارے میں جو کچھ لکھا تو اس نے جو کچھ کیا اس سے وہ مطمئن ہو کیونکہ علی ایک معاملے میں تھا۔

پیسہ اور مزدور بہت شرمندہ تھے، اس میں اس کا حکم عمر کے حکم جیسا تھا، اور وہ سب سے زیادہ بے چین تھا

اس کے کارکنوں کے بارے میں کچھ اس سے پوشیدہ ہے، جیسا کہ آپ کہیں اور دیکھیں گے۔

ابن عباس کو جو کچھ انہوں نے لکھا اسے لکھنا بھی ان کے لیے کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ وہ کسی معاملے میں حسن سلوک کے عادی نہیں ہیں۔

نہ مال و دولت مسلمانوں کے کاموں میں سے ہے اور نہ عیب جوئی، لیکن کیا عجب بات ہے کہ ابن عباس کو یہ ملتا ہے۔

خط اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ علی کو لکھتا ہے: "جو کچھ آپ تک پہنچا ہے، جو آپ تک پہنچا ہے وہ جھوٹا ہے، اور میں حکومت کے ماتحت ہوں۔"

میرا ہاتھ قابو میں ہے اور محفوظ ہے، لہٰذا مجھ پر یقین نہ کرو، خدا تم پر رحم کرے، اور تم پر سلامتی ہو۔"

ایسی کتاب جو اپنے مالک کو معاف نہیں کرتی اور اپنے قاری کو مطمئن نہیں کرتی، بلکہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی نشاندہی کرتی ہے

اور دوسرے لوگوں کو ذلیل کرنا اور اس کے بعد ابن عباس عمر کے ساتھ گئے اور ان کا راز جان لیا۔

اور مزدوروں کا حساب لگانے میں اس کی سختی، اور وہ اپنے کزن کے ساتھ گیا اور جانتا تھا کہ اسے پیسے یا کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔

اور اسی وجہ سے علی اس کتاب کے قائل نہیں تھے، جو ان کے لیے یا اس کے مصنف کے لیے کسی کام کی نہیں ہے۔

چنانچہ اس نے ابن عباس کو اپنے مطالبے میں سختی سے لکھا کہ اس کا حساب ان کے سامنے اٹھایا جائے، اس کی تفصیل کے ساتھ کہ وہ اس سے کیا چاہتے ہیں: یا تو

اس کے بعد میں آپ کو اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا جب تک آپ مجھے یہ نہ بتائیں کہ آپ نے خراج میں سے کیا لیا، کہاں سے لیا اور کیا کیا؟

آپ نے اس پر کیا خرچ کیا؟ اللہ سے ڈرو اس میں جو میں نے تمہیں سونپی ہے اور جس کی حفاظت کا تم نے حکم دیا ہے۔ کس چیز کا لطف آپ نے اسے تھوڑا سا رازی، اور اس کے سنگین نتائج، اور امن.

عجیب بات یہ ہے کہ ابن عباس نے یہ خط  حاصل کی تھی اور مشکل سے پڑھی تھی یہاں تک کہ وہ اپنے راستے سے ہٹ گئے۔

وفاداروں کے کمانڈر کی طرف اٹھائے جانے والے کارکن کا احسان اس بات کا حساب نہیں رکھتا ہے کہ اسے کس چیز کے تحفظ اور کنٹرول کا کام سونپا گیا تھا۔

مسلمانوں کے پیسوں سے اس نے اس چچا زاد بھائی کا نامہ اعمال نہیں کیا جو اپنے چچا زاد بھائی کا خیال رکھتا ہو رشتہ داری اور اخوت کا حق۔

ایک دوست، اور اس چرواہے کا احسان نہیں کیا جو امام کو اس کا حق جانتا ہے کہ اس کے سپرد کیا گیا ہے

اسے قوم کے پیسے اور مفادات سے لینا ہے، اس لیے وہ اس سے جو چاہتا ہے اس میں اس کی مدد کرتا ہے، اور اگر بھول جائے تو اسے یاد دلاتا ہے۔

اور اگر وہ اپنے آپ میں کوتاہی کرے تو اسے اس میں نصیحت کرو۔ اس نے ان میں سے کسی کا احسان نہیں کیا بلکہ اپنا بنایا

ساہ ندا

اس کے امام کے لیے اور اس کے جانشین کے لیے کافی ہے، اور اس نے دیکھا کہ وہ اپنے امام کے لیے اتنا بڑا ہے کہ وہ اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے یا کسی چیز کے لیے اس سے جوابدہ ہو۔

اس پر الزام لگانے یا اس پر شک کرنے کے علاوہ اور ابن عباس لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے کہ شیخی کی سنت گزر چکی ہے۔

یہ قائم کیا گیا کہ ہر مسلمان کو حق حاصل ہے کہ وہ امام کا محاسبہ کرے اور اس سے پوچھے کہ کیا آنے والا ہے اور کیا چھوڑا ہے۔

یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ امام کا حق ہے بلکہ اس کا حق ہے کہ حکمران اور کارکن اپنے اعمال کا جوابدہ ہوں۔

وہ سب کچھ جو وہ آتے ہیں اور دعا کرتے ہیں، اور اس میں سختی کرتے ہیں تاکہ اس کے کارکنوں اور سرپرستوں کو غفلت سے بچا سکیں، اور انہیں وہ رعایا کے غلط فہمی میں مبتلا ہونے اور کمزوروں کی رائے کو خراب کرنے سے محفوظ ہے جو اس سے قاصر ہیں۔

وہ ان کے ظلم سے ڈرتے ہیں یا اپنے ظالموں سے محفوظ رہتے ہیں، اگر یہ ان کے اور سلطان کے بیٹوں کے درمیان رہ جائے تو وہ اسے جیسے چاہیں خرچ کریں۔

ابن عباس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ عمر کی سنت تمام رعایا سے سننی ہے۔

وہ ان حکمرانوں اور کارکنوں کو دیکھ کر یا ان کی غیر موجودگی میں اپنے حکمرانوں اور کارکنوں کو رسوا نہیں کرتے

وہ ہر اس چیز کو حاصل کرتا ہے جو اس کے پاس لایا جاتا ہے تاکہ انصاف حاصل کیا جاسکے اور خدا اور لوگوں کے سامنے اپنی ذمہ داری ادا کی جاسکے۔

یہ کہ عمر اکثر حکمرانوں کے پیسے اپنے کام سے سبکدوش ہونے کے بعد تقسیم کرتے تھے اور ان کے پیسے ان پر شمار کرتے تھے۔

جب وہ ان کو مقرر کرتا اور ان کو برطرف کرنے کے بعد ان پر شمار کرتا تو وہ انکار کیے بغیر اس سے قبول کرتے۔ یا اسے تنگ کر دیا، یا اس کے بارے میں اپنے آپ پر تکبر کیا، اور ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت تھی، پھر وہ

ابن عباس جانتے ہیں کہ بہت سے مسلمان - اور وہ ان میں سے ہو سکتے ہیں - نے عثمان کو رد کیا ہے۔

عوامی فنڈز میں اس کا اسراف، اور انہوں نے اس کے گورنروں اور کارکنوں کی مذمت کی کہ انہوں نے خود غرضی کا مظاہرہ کیا اور جس میں وہ ملوث تھے۔

وہ اس سب کی خاطر مر گیا اور یہ کہ اس کا کزن ہی تھا۔

اس میں ان عوامی فنڈز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے، اور یہ کہ عثمان تھا۔

وہ سنت نبوی اور شیخ کی پیروی کے لیے کھڑا ہوا کیونکہ اس نے اپنی حد سے تجاوز نہیں کیا اور کسی سے مانگنے پر اپنی تقدیر کی طرف نہیں لوٹا۔

اس کے کارکنان - چاہے وہ ابن عباس ہی کیوں نہ ہوں - اس کے پاس عوامی فنڈز کا حساب کتاب پیش کریں۔

ان سب کے بعد ابن عباس اپنے چچا زاد بھائی کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے اور ان سے مخاطب ہونے کے سب سے زیادہ اہل تھے۔

وہ تقریر جو اسے بے چین کیے بغیر، حفظ کرنے یا اسے مشکل بنائے بغیر خود سے اطمینان حاصل کرتی ہے، وہ تھی...

وہ اسے مہربانی سے لکھ سکتا ہے تاکہ اس کے لیے یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے اپنے لیے جزیہ میں سے کچھ نہیں لیا اور نہ ہی اس نے کچھ چھوڑا ہے۔

اس میں سے کچھ اس کے حق میں نہیں تھا اور وہ کوفہ میں اس کے بارے میں جان سکتا تھا اور اسے اپنا معاملہ صاف ظاہر کر سکتا تھا۔

لیکن اس نے ان سب سے منہ موڑ لیا اور اسے دوسرے کارکنوں کے ساتھ اپنے قافلے میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، چنانچہ وہ ریٹائر ہو گئے۔

اس نے اپنا کام کیا، لیکن اس کے ساتھ اس نے اپنے امام کو پرہیز کرنے کو نہیں کہا اور نہ ہی اس کے معاف کرنے کا انتظار کیا، بلکہ اس نے اپنے آپ کو معاف کیا اور چلا گیا۔

مصر، پھر اس نے اسے کوفہ واپس جانے یا عراق میں رہنے کے لیے یا جہاں امام کر سکتے تھے، نہیں چھوڑا۔

حساب جمع کروا کر اسے لے جانا اور ریٹائر ہونے سے پہلے اس سے اس کے کام کے بارے میں پوچھنا، لیکن اس نے اصرار چھوڑ دیا اور اس کی پیروی کی۔

مکہ مکرمہ میں جہاں امام کا اختیار اس تک نہیں پہنچتا اور جہاں امام اس کو سزا دینے پر قادر نہ ہو اگر وہ اختیار کرے

وہ سزا کا مستحق تھا، لیکن وہ اپنے امام علی کی طاقت اور اپنے مخالف معاویہ کی طاقت سے حرم میں محفوظ رہا۔

پھر وہ اس ساری غلطی پر مطمئن نہیں ہوا، بلکہ اپنے کزن کو وہ بات بتائی جو خود کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کے دل میں چھوڑ جاتی ہے۔

وہ آگے بڑھا، اور اسے اعلان کیا گیا کہ وہ خدا سے ملنے کو ترجیح دے گا جب کہ اس پر اس سے کچھ واجب الادا ہے۔

سخت اور امید مند

اور اس کا ضمیر اداس ہے۔

مسلمانوں کا مال اس شرط پر کہ وہ اس خون کے ساتھ خدا سے ملے گا جو اونٹ کے دن بہایا گیا تھا۔

وہ میری طرف گرا تھا، اور وہ نہروان میں گرا تھا، پھر وہ اس میں اضافہ کرتا ہے جو اس سے زیادہ لطیف اور شدید ہے۔

بدسلوکی، تو وہ اپنے کزن سے دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کا خون بہایا جو بادشاہ کی خاطر بہایا گیا تھا۔ تو اس نے نہیں کیا۔

اسے یقین نہیں آیا کہ علی حق کی خاطر لڑے اور اس نے ایسی قوم سے جنگ کی جس سے اسے لڑنا چاہیے تھا۔

اس نے یہ سب اپنے کزن کو لکھا، اور وہ صرف ایک بہت ہی آسان اور خطرناک چیز بھول گیا، جو اس نے شیئر کی

اس کے چچا زاد بھائی نے یہ خون بہایا، چنانچہ اس نے اونٹ کو دیکھا، مجھے دیکھا اور اپنے چچا زاد بھائی کی فوجوں کی قیادت کی۔

ان دونوں عہدوں کے بعد وہ صرف مسلمانوں کے پیسوں سے خدا سے ملاقات نہیں کرے گا۔

لیکن وہ اس سے ملے گا اس خون کا جو اس نے بہایا، اس میں اور میرے بیٹے میں فرق کے ساتھ۔

مجھ پر؛ کیونکہ علی نے اسے بہایا، اس یقین کے ساتھ کہ وہ حق کے لیے لڑ رہا ہے، اور اس نے اسے بہایا، اور اس کا یقین ہے کہ وہ حق کے لیے لڑ رہا ہے۔

بادشاہ کے لیے لڑتا ہے

اداس تصاویر اس لیے اس نے علی کو اپنے کزنکا خط  پڑھ کر سنآیا اور اس نے صرف یہ جملہ کہا کہ:

دوست اور دشمن کی سخت مایوسی: "اور ابن عباس نے اس کو بہانے میں ہمارا ساتھ نہیں دیا۔

خون!"

اور ابن عباسکا خط  اپنے کزن اور امام کو پڑھ کر سنائیں کہ یہ کتنی سخت اور ظالمانہ ہے۔

خلافت سے پہلے علی کے ساتھ ان کی اخوت کا انکار اور خلافت کے بعد ان کے لیے ان کی نصیحت: "جہاں تک یہ ہے،

میں نے آپ کی بے عزتی سمجھی جو آپ تک پہنچی ہے کہ اس ملک کے لوگوں نے اسے قبول کر لیا ہے، اور خدا کی قسم، کیونکہ خدا نے جو کچھ ہے ڈال دیا ہے۔

اس زمین کا پیٹ، اس کے ننگے پاؤں، اس کی ماند، اور جو کچھ اس کی پیٹھ پر ہے، مجھے اس سے زیادہ پیارا ہے،

میں نے قوم کا خون اس لیے بہایا کہ اس سے بادشاہی اور امارت حاصل کروں، لہٰذا جسے تم چاہو اپنے کام پر بھیج دو۔

اور یہاں تک معاملات خلیفہ اور اس کے حاکم کے درمیان غصے کے انداز میں ہوئے، پھر ایک آدمی کے درمیان۔

اور اس کے چچا زاد بھائی نے پرتشدد انداز میں اگر ابن عباس شیخنی کا راز بیان کرتے تو اس سے بچنا بہتر ہوتا۔

علی کا راز، اگر ابن عباس اپنے آپ کو تھوڑا سا بھول گئے، لیکن وہ اپنے آپ کو کم یا زیادہ نہیں بھولے، اور وہ نہیں بھولے۔

بلکہ وہ علی سے مصر پر حاکم ہوگا۔

وہ اسے وہیں رکھتا ہے جہاں اسے پہلے رکھنا چاہیے تھا۔

مسلمانوں کے شہر، اور اس کے بعد انہوں نے علی سے کتاب خدا اور اس کے رسول کی سنت پر عمل کرنے کی بیعت کی، اور عدل و انصاف قائم ہوا۔

پارش

اور ابو الاسود الدعالی مقلدین میں سے ہیں، انہیں امام کے سامنے گورنر سے جھگڑنے کا حق ہے۔ پھر یہ میری خواہش ہے۔

امام بصرہ کے خزانے پر ہے، اس لیے اس کے لیے اپنے تمام مشتبہ رویوں کو اس کے سامنے اٹھانا درست ہے۔

گورنر نے جو رقم اس کے سپرد کی تھی اس کی ذمہ داری اس کے سپرد کر دی گئی لیکن ابن عباس اس غم و غصے کی مقدار سے مطمئن نہ ہوئے۔

اور نہ ہی اس عجیب و غریب طرز عمل سے اس کا انجام کیا ہوا، بلکہ اس نے اس کے ساتھ ایک بڑی برائی کا اضافہ کیا، جس کا اسے کوئی نقصان نہیں ہوا۔

امام اکیلے، بلکہ پورا پارس اور خاص طور پر بصرہ کے عام لوگ آپ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، اس لیے آپ نے متفقہ طور پر ہجرت پر اتفاق کیا۔

مکہ تشریف لے گئے، لیکن جب وہ مکہ پر مقرر ہوئے تو اس میں داخل ہوئے تو اسے پیسے سے خالی ہاتھ نہیں چھوڑا، بلکہ

اس نے وہاں سے نکل کر خزانے میں جو کچھ منتقل کیا تھا اس سے ہاتھ بھر لیا اور اسے معلوم تھا کہ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مال ایک حق ہے سوائے اس کے جو تمام اہل بصرہ کا ہے۔

اس کے اور اس پیسے کے درمیان موازنہ کریں جو وہ اس سے لینا چاہتا ہے۔

معلوم تھا کہ بصرہ کے لوگ پریشان نہیں ہوں گے۔

ان کے بغیر، جس کا مؤرخین چھ ملین درہم کا تخمینہ لگاتے ہیں، تو اس نے اپنے پاس ان لوگوں کو بلایا جو بصرہ میں تھے۔

ان کے چچا بنو ہلال میں سے ایک نے ان سے کہا کہ وہ اس کو اس وقت تک دوڑائیں جب تک کہ وہ اپنی حفاظت میں نہ پہنچ جائیں، چنانچہ انہوں نے ایسا کیا۔

ابن عباس رقم لے کر نکلے۔

مسلمان اس کی حفاظت اس کے چچا کے ذریعے ہلال اور اہل بیت میں سے کرتے ہیں۔

بصرہ اس سے واپس لینا چاہتا ہے جو اس نے لیا، اور بنی ہلال کے درمیان تقریباً جھگڑا ہو گیا، ناراض بنو ہلال

اپنے بھتیجے کے لیے، جس نے پرانے عربوں کی گھبراہٹ کا ذکر کیا اور اپنے پڑوسی ظالم کی مدد کرنے کا عزم کیا۔

مظلوم، اور مصر کے رہنے والے باقی عرب جو اپنی زمینوں سے ناراض تھے اور جب وہ تھے تو غصب کرنے سے انکاری تھے۔

گواہو، اگر ازد کے حکیم نہ ہوتے اور بنو ہلال کے گھر میں ان کے بہاؤ کو پسند نہ کرتے اور میں ان کے پیچھے چلا۔

یہ رابعہ کی عقلمند تھی اور احنف بن قیس اور ان کے ساتھ بنی تمیم والوں نے ان کی پیروی کی لیکن تمیم کے باقی لوگ۔

انہوں نے اس رقم کے لیے اس وقت تک لڑنے کا ارادہ کیا جب تک وہ اسے واپس نہیں کر لیتے۔ ان کے درمیان اور ہلال کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا۔

بنو الفرقانی کا خون تقریباً بہایا جا چکا تھا، اگر بصرہ کے عقلمند ان کے پاس واپس نہ آتے اور وہ پھر بھی باقی رہتے۔

بنی تمیم یہاں تک کہ انہیں مصر واپس کر دیا۔

ابن عباس اپنے چچا کی حفاظت کے ساتھ آگے بڑھے اور انہوں نے اس رقم سے جو کچھ لیا تھا اس کی حفاظت کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اپنی حفاظت میں پہنچ گئے۔

مقدس گھر باقی رہا، اور جیسے ہی وہ مکہ میں آباد ہوا، اس نے کچھ عیش و آرام کو قبول کر لیا، اور خرید لیا۔

مورخین بیان کرتے ہیں کہ حور جنریٹروں کے تین محلوں کی قیمت 3,000 دینار ہے۔ اور وہ جانتا تھا، اس لیے اس نے لکھا

میکانزم:

رہی بات تو یہ ہے کہ میں اپنی امانت آپ کو بتاتا تھا اور میرے گھر میں اس سے زیادہ امانت دار کوئی آدمی نہیں تھا۔

آپ میری روح میں مجھے تسلی دیتے ہیں، میری حمایت کرتے ہیں، اور میرے اعتماد کو پورا کرتے ہیں، لہذا جب میں نے اپنے بیٹے کے لئے وقت دیکھا

تیرا چچا کتا رہا ہے، دشمن نے اس سے جنگ چھیڑ دی ہے، لوگوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے، اور یہ قوم تباہ ہو گئی ہے۔

خیمے، تم نے اس کے لیے دیوانے کی پیٹھ پھیر دی، اس لیے تم نے اسے لوگوں سے جدا کر دیا، اور تم نے اسے بدترین دھوکہ دیا۔

مجھ سے خیانت کرنے والا، اور تم نے غدار کے ساتھ خیانت کی، کیونکہ نہ تمہارے چچا زاد بھائی کو تکلیف ہوئی، نہ امانت دی گئی، گویا تم آپ اپنی جدوجہد میں خدا کو پسند نہیں کر رہے تھے، یا گویا آپ اپنے رب سے واقف نہیں تھے، گویا آپ صرف تھے۔

تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ان کے دنیاوی معاملات کے بارے میں دھوکہ دے رہے تھے، یا ان کے مال سے انہیں دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے تھے، تو جب تم کر سکتے ہو۔

حیرت نے دشمن کو تیز کر دیا، چھلانگ موٹی ہو گئی، اس نے موقع غنیمت جانا، اور جو کچھ وہ کر سکتا تھا ہائی جیک کر لیا۔

ان کے پیسوں سے، اسے بے خون بھیڑیا، معمولی تسلی دینے والے، اور اس کے عظیم شکاری کو اغوا کرنا چاہیے۔

چنانچہ میں نے ان کے پیسے کو وسیع حجاز تک پہنچایا، بغیر کسی گناہ کے اسے لے کر گیا، گویا آپ 

- آپ کا کوئی باپ نہیں ہے - لیکن آپ نے اپنے خاندان کے لیے اپنے والد اور والدہ سے اپنی میراث حاصل کی ہے، خدا کی شان! افما کیا آپ آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور غلط حساب سے نہیں ڈرتے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تم حرام کھاتے پیتے ہو؟

ممنوعہ؟! یا تمہارے لیے کیا شان ہے اور تمہارے پاس یہ ہے کہ تم لونڈیوں سے فائدہ اٹھاتے ہو اور پیسے لے کر عورتوں سے شادی کرتے ہو۔

یتیم، بیوائیں اور مجاہدین جن کو اللہ نے زمین عطا کی؟! خدا کا خوف کرو، اور پیسے ادا کرو

لوگو، تم، خدا کی قسم، کیا تم ایسا نہیں کرو گے، پھر خدا نے مجھے تم سے یہ اختیار دیا کہ میں تمہارے لیے خدا سے عذر کروں جب تک کہ…

میں حق لیتا ہوں اور اسے بحال کرتا ہوں، میں اندھیروں کو دباتا ہوں، میں مظلوموں کے ساتھ انصاف کرتا ہوں اور امن کرتا ہوں۔

اور میں ایسے الفاظ نہیں جانتا جو خدا کی سچائی کے لیے تلخ اداسی، تلخ غم اور غصے کو بیان کرنے میں زیادہ فصیح ہوں۔

مسلمانوں کا پیسہ لوگوں کی مایوسی کی تلخی اور دوست سے ان کی وفاداری اور ان کے عہد کی پاسداری کے بارے میں شکوک و شبہات کی وجہ سے ہے۔

اور ان کے اعتماد کی کارکردگی، اور اس گفتگو سے سنجیدگی اور خواہشات کی نافرمانی پر عمل کرنے کی صلاحیت۔

لیکن دیکھیں کہ ابن عباس نے اس کتاب کا کیا جواب دیا، یہ الفاظ گزرتے ہوئے، جن کی مثال دی جائے۔

یہ صرف اپنے آپ پر حد سے زیادہ اعتماد اور اس کے بارے میں دوسروں کی رائے کو کم کرنے کی عکاسی کرتا ہے: "جہاں تک مندرجہ ذیل ہے، یہ ہے

آپ کے خط  نے مجھے اس مال کے ضائع ہونے کی تسبیح بتائی ہے جو میں نے بصرہ کی رقم سے حاصل کیا تھا اور میری جان تک اس کا حق ہے۔

پیسے کا گھر اس سے بڑا ہے جو تم نے اس سے لیا، اور امن۔"

مجھے اس عجیب خط  پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو حقیقت کو ثابت نہیں کرتی ہے۔

وہ اسے کسی ذمہ داری سے بری نہیں کرتا، لیکن میں ان دونوں آدمیوں کے درمیان اس تکلیف دہ بحث کو علی کے اپنے کزن کے جواب پر ختم کرتا ہوں۔

یہ حیرت انگیز خط : "جہاں تک اس کے بعد کیا آتا ہے، سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو اپنے لئے آراستہ کرتے ہیں جو آپ کے پاس ایک خزانے میں ہے۔

مسلمانوں کا مسلمان آدمی سے زیادہ حق ہے اور میں کامیاب ہو گیا اگر تمہارا دعویٰ ہے جو نہیں ہے۔

اور آپ کی جھوٹی خواہش آپ کو گناہ سے بچائے گی، خدا آپ کو برکت دے! آپ ہی دور ہیں، اور مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ آپ ہیں۔

آپ نے مکہ کو اپنا گھر بنا لیا اور اسے حرم بنا لیا اور آپ نے مدینے اور طائف کے جنریٹر خرید لیے تاکہ انہیں اپنی آنکھوں پر

اور آپ ان کو دوسروں کے پیسے دیتے ہیں اور خدا کی قسم میں یہ پسند نہیں کرتا کہ جو کچھ میں نے ان کے پیسوں سے میرے لیے لیا وہ حلال ہو، وہ اسے چھوڑ دے۔

تو اس کے حرام کھانے میں آپ کی لذت سے میں کیسے حیران نہ ہوں؟ دھیرے دھیرے بے نقاب، تیری جگہ ختم ہو گئی

وراثت

جہاں فریب کرنے والا غم سے پکارتا ہے، اور غافل توبہ کی آرزو کرتا ہے، اور ظالم پلٹنے کو پکارتا ہے، اور کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا جب یہ ناگزیر ہو۔

اور امن۔"

اور بعض راویوں کا دعویٰ ہے کہ عمر نے ابن عباس کو اپنے کچھ کام سونپنے کا ارادہ کیا تھا لیکن وہ ڈر گئے

وہ اس سے ڈرتا تھا، اور وہ اس سے ڈرتا تھا کہ وہ فیہ کھانے کی تاویل کرے گا، اور اسے ڈر تھا کہ اس سے وہ گناہ میں ملوث ہو جائے گا۔

ان راویوں کا دعویٰ ہے کہ ابن عباس ہنی نے اسے علی البصرہ کے سپرد کیا اور اس نے اپنے لیے اس کی اجازت دی

 

«لئن لم تدعني من أساطريك لأحملن هذا املال إلى معاوية يقاتلك به.

 

رب

اس کا پانچواں حصہ رسول کے لیے ہے اور اس کے لیے جس کے پاس ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

 وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ‎ (انفال ٤١)

اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسُولؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے  (انفال ٤١)

"اور سب سے زیادہ" ابن عباس کا راستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہے اور ان کا حق ہے۔

مجھے اور بچے کو چھوان پانچوں میں سے کچھ جو اللہ نے رسول، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور بیٹے کے لیے تقسیم کیے ہیں۔

لیکن میرے ( طة حسين) نزدیک ابن عباس اس تاویل کے اعتبار سے زیادہ صحیح، ذہن میں زیادہ عقلمند اور اپنے مذہب میں زیادہ علم والے ہیں۔ وہ بلا شبہ جانتا تھا کہ اس پانچ میں اس کا حق پہلے سے کسی دوسرے کے حق سے زیادہ نہیں ہوگا۔ رشتہ داروں، یتیموں، بے گھروں اور مسافروں کو، اور وہ جانتا تھا کہ اسے اجازت نہیں دی جانی چاہیے، بلکہ نہیں ہو سکتی۔ قسم کھانے کے لئے ڈالو وہ ان پانچوں سے اپنا حق خود لے لیتا ہے لیکن اس کو چاہیے کہ جس امام کو مقرر کیا گیا ہو اس سے وصول کرے۔

مسلمانوں میں اس کی پناہ گاہ ہے اور وہ اس میں سے ان کی سہولتوں پر خرچ کرتا ہے اور وہی ہے جو رشتہ داروں اور یتیموں میں تقسیم کرتا ہے۔

اور میرے مکین اس پانچ کے حقدار ہیں۔

اور اگر کسی غیر مسلم ابن عباس کو معلوم تھا کہ اس کا خزانہ پر حق ہے تو اس نے خود لے لیا۔

اگر وہ اس پر تجاوز نہ کرتے یا اس میں اضافہ کرتے تو وہ حاکم کے خلاف زیادتی کرتا اور ان میں سے ہوتا۔

امام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کا مستحق ہے اس کو سزا سے نیچے لائے۔

اس سب کے بعد ابن عباس کو معلوم ہوا کہ ان کا چچا زاد بھائی خلیفہ ان کی قرابت داری اور خلافت کی بنا پر ہے۔

اس پانچویں کو مستحقین میں تقسیم کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ لائق لوگ 

یہ عجیب بات ہے کہ بہت سے محدثین نے اس قصے کو نظر انداز کیا اور اس کا حوالہ نہیں دیا، جس کی وجہ سے شرمندگی ہوئی۔ اس کا تذکرہ کریں، کیونکہ ابن عباس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام اور دین میں فقہ میں ان کا مقام اس سے بڑا ہے جس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔

حق کی یہ سرکشی اور امام پر جھگڑا۔

تاہم، اسی کہانی کے دوسرے راوی کچھ اسراف کرتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں۔

ابن عباس نے علی کے دوسرے خط کا  جواب دیتے ہوئے کہا: اگر آپ مجھے اپنے افسانوں میں سے نہ بلائیں تو میں اسے لے جاؤں گا۔ معاویہ کے لیے پیسے اس سے تم سے لڑنے کے لیے۔ اور میں ()  نہیں سمجھتا کہ معاملہ ابن عباس تک اس حد تک الجھا ہوا ہے۔

فرینک

اس کے کزن پر، لیکن اس کہانی کے فوری اور فوری نتائج تھے، جو ایک آزمائش تھی۔

وہ اپنے ساتھیوں میں بھی ہو اور اس کے اختیار میں بھی۔

 

حوالہ جات 

مذکور حوالہ جات میں شامل کیا گیا۔

١علم ائمہ کے اہم ابواب: شیخ نورالدین علی بن صمدین الصباح

٢.شیعوں کے فرقے: ابو محمد الحسن بن موسیٰ النبختی

٣.تاریخ اسلام: شمس الدین محمد بن عبداللہ الذہبی۔

٤.اسلام پسندوں کے مضامین اور عبادت گزاروں کے اختلافات: امام ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری۔

٥.اہل تشیع: سید محسن العامری الحسینی العامیلی۔

٦.طویل خبر: ابو حنیفہ احمد بن داؤد ال دینوری۔

٧امامت کا اثبات: امام القاسم بن ابراہیم بن اسماعیل۔

٨. بحار الانوار: عظیم عالم محمد بن باقر۔

٩امام علی بن ابی طالب: پروفیسر عبدالفتاح عبدالمقصود۔

١٠.ترجمہ: علی بن ابی طالب: پروفیسر احمد ذکی صفوت۔

١١.عربوں میں سیاست: پروفیسر عمر ابو النصر۔

١٢.امام کی ذہانت: پروفیسر عباس محمود العکاد۔

١٣.اسلام کے ستون: ابو حنیفہ النعمان بن محمد

 

عربی سے اریو ترجمہ بزریعہ گوگل .....

اصل عربی کتاب اس لنکس سے داؤن لوڈ کی جاسکتی ہے : https://www.hindawi.org/books/46307961

 تاریخ طبری مکمل 7 جلد سیٹ اردو ڈونلوڈ پی دی ایف یا این لائن پڑھیں :

https://pdfbooksfree.pk/tareekh-e-tabri-urdu-complete-7-volumes/

CRITICIZING SAHABAH 

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿التوبہ ۱۰۰﴾
And the first forerunners [in the faith] among the Muhajireen and the Ansar and those who followed them with good conduct - Allah is pleased with them and they are pleased with Him, and He has prepared for them gardens beneath which rivers flow, wherein they will abide forever. That is the great attainment. (Quran 9:100)
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے ۔(قرآن 9:100)

 اور وہ مہاجر اور ترک وطن کرنے والے اور مہاجرین کی مدد کرنے والے انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمانی کے قبول کرنے میں سبقت کی اور جنہوں نے اخلاص کے ساتھ دعوت ایمانی کو قبول کرنے میں مہاجروں و انصار کا اتباع کیا اور مہاجرین و انصار کی پیروی کی اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے ایسے باغ تیارکررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ انعامات کا حصول سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یعنی وہ مہاجرین و انصار جو ایمان لانے میں مقدم اور سابق ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نما ز پڑھی ہو خواہ وہ ہوں جو جنگِ بدر سے پہلے مسلمان ہوئے ہوں تمام امت میں یہی لوگ سابق اور قدیم ہیں اس کے بعد خواہ وہ صحابہ (رض) ہوں یعنی غیرمہاجرین و انصار یا تابعین اور تبع تابعین ہوں یا ان کے بعد کے لوگ ہوں علی فرقِ مراتب سب ہی کم و بیش اس بشارت میں شریک ہیں اگرچہ مراتب اور درجات کی نوعیت میں فرق ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جنگِ بدرتک جو مسلمان ہوئے وہ قدیم ہیں اور باقی ان کے تابع
ابن عبّاس (رض ) نے فتح مکہ 8  حجرہ کے بعد مدینہ ہجرت کی  اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ 

Chapter Four: Fatwas of Sunni scholars that cursing a Sahabi is not Kufr and is not subject to capital punishment

Imam Hafidh Ibn Taymiyyah al-Damishqi

Imam Ibne Taymiyyah (Sheikul-ul-Islam of Salafies) wrote in his book Al-Sarimul Maslool, page 579 (first pulished by Taba Sa’ada Egypt), while giving arguments against Kufr of person who insulted Sahaba:

ومطلق السب لغير الأنبياء لا يستلزم الكفر لأن بعض من كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم كان ربما سب بعضهم بعضا ولم يكفر أحدا بذلك ولأن أشخاص الصحابة لا يجب الإيمان بهم بأعيانهم فسب الواحد لا يقدح في الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر

 

امام حافظ ابن تیمیہ الدمشقی

امام ابن تیمیہ (سلفیوں کے شیخ الاسلام) نے اپنی کتاب الصارم المسلول صفحہ 579 (پہلے طبا سعدہ مصر کی طرف سے شائع) میں صحابہ کی توہین کرنے والے کے کفر پر دلائل دیتے ہوئے لکھا ہے:

انبیاء کے علاوہ کسی اور کی مطلق توہین کفر کے مرتکب نہیں ہے، اس لیے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے، ان میں سے بعض نے ایک دوسرے کی توہین کی ہو اور اس کے لیے کسی کو کافر قرار نہیں دیا، اور کیونکہ صحابہ کرام کی ہستیوں پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، لہٰذا کسی کی توہین خدا، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان کو کمزور نہیں کرتی۔

Fatwa of Umar Ibn Abdul Aziz

ومن ذلك كتاب عمر بن عبدالعزيز إلى عامله بالكوفة وقد استشاره في قتل رجل سب عمر رضي الله عنه فكتب إليه عمر إنه لا يحل قتل امرئ مسلم بسب أحد من الناس إلا رجلا سب رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن سبه فقد حل دمه

عمر بن عبدالعزیز کا خط کوفہ میں اپنے نمائندے کو ان کے استفسار کے جواب میں کہ کیا وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرے جس نے عمر رضی اللہ عنہ کو گالی دی ہو؟ اس نے (عمر بن عبدالعزیز) نے اسے جواب دیا: "کسی مسلمان کو گالی دینے کی وجہ سے قتل کرنا جائز نہیں ہے، سوائے اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جائے۔ پس اگر کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی تو اس کا خون مباح ہے۔

1. الشفاء با شرح حقوق مصطفٰی، جلد 1۔ 2، صفحہ 325، بریلی میں شائع ہوا۔

2. سلالہ الرسالہ ملا علی قاری، صفحہ 18، اردن میں شائع ہوا۔

3. الطبقات الکبریٰ، جلد 1۔ 5، صفحہ 369، بیروت میں شائع ہوا۔

 

 

Umar bin Abdulaziz’s letter to his representative in Kufa in response to his inquiry as to whether he should kill someone who has abused Umar (ra)? He (Umar bin Abdul Aziz) replied to him: “It is not allowed to kill any Muslim due to abusing any person, except in case of abusing Rasool Allah (s). Thus, if anyone abused him (Allah’s apostle) then his blood is Mubah”.

1. Al-Shifa Ba-Tarif Haqooq Mustafaa, vol. 2, page 325, published in Baraili.

2. Slalah al-Risalah Mulla Ali Qari, page 18, published in Jordan

3. Al-Tabaqaatul Kubraa, vol. 5, page 369, published in Bairut.

 

 

 

Allamah Ibn Hajar al-Makki al-Hathaimi

The famous Muhaddith from Egypt Allama Shahabuddin Ahmad bin Hajar al-Haithami writes:

“And I haven’t found any opinion of any learned Alim that abusing a companion makes it obligatory to kill a person And Ibn Mundhir says that I don’t know even a single person who considers it to kill the one who abuses anyone except Rasool Allah (saww).”

Sawiq-e-Muhariqqah, page 255, Taba Maktaba al-Qahira, Egypt

علامہ ابن حجر المکی الحثیمی۔

مصر کے مشہور محدث علامہ شہاب الدین احمد بن حجر الہیثمی لکھتے ہیں:

اور مجھے کسی عالم کا کوئی قول نہیں ملا کہ کسی صحابی کو گالی دینے سے قتل واجب ہو جاتا ہے اور ابن منذر کہتے ہیں کہ میں کسی ایسے شخص کو بھی نہیں جانتا جو  رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی کو گالی دینے والے کو قتل کرنا سمجھتا ہو۔ اللہ (ص)

صوائق محرقہ، صفحہ 255، طبع مکتبہ القاہرہ، مصر

 

“And merely abusing someone other than the Prophets does not necessarily make the abuser Kafir; because some of those who were in the time of the Prophet (i.e companions) used to abuse one another and none of them was declared kafir because of this (practice); and (also) because it is not Wajib to have faith particularly in any of the companions; therefore abusing any of them does not detract from the faith in Allah and His books and His messengers and the Last day”

 

http://www.shiapen.com/comprehensive/cursing-sahaba-sharii-penalty/fatwas-sunni-scholars.html

 

 

 

Some of the scholars explained in detail what is meant by hating the Sahaabah. They said: If a person hates some of them for some worldly reason, then that is not kufr and hypocrisy, but if it is for a religious reason, because they were the companions of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), then undoubtedly this is hypocrisy. 

 

Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah said: 

 

If a person slanders them in a way that does not impugn their good character or religious commitment, such as describing one of them as being stingy or cowardly or lacking in knowledge or not being an ascetic and so on, then he deserves to be rebuked and disciplined, but we do not rule him to be a kaafir because of that. This is how the words of those who were not regarded as kaafirs by the scholars are to be understood.  

 

If a person curses them and slanders them in general terms, this is an area of scholarly dispute, depending on whether this cursing is motivated by mere feelings or religious doctrines. If a person goes beyond that and claims that they apostatized after the death of the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him), apart from a small group of no more than ten or so individuals, or that most of them rebelled and did evil, then there is no doubt that such a person is a kaafir, because he has denied what is stated in more than one place in the Qur’aan, that Allaah was pleased with them and praised them.

 

Indeed whoever doubts that such a person is a kaafir is himself a kaafir, because this implies that those who transmitted the Qur’aan and Sunnah were kaafirs or evildoers and that the best of this ummah which is described in the verse “You are the best of peoples ever raised up for mankind” [Aal ‘Imraan 3:110 – interpretation of the meaning] – the first generation – were mostly kaafirs and hypocrites. It implies that this ummah is the worst of nations, and that the first generations of this ummah are the most evil. No doubt this is blatant kufr, the evidence for which is quite clear. 

Hence you will find that most of those who proclaim such views will sooner or later be shown to be heretics. Heretics usually conceal their views, but Allaah has punished some of them to make an example of them, and there are many reports that they were turned into pigs in life and in death. The scholars have compiled such reports, such as al-Haafiz al-Saalih Abu ‘Abd-Allaah Muhammad ibn ‘Abd al-Waahid al-Maqdisi, in his book al-Nahi ‘an Sabb al-Ashaab in which he narrated the punishments that befell such heretics. 

 

In conclusion, there are some groups of those who slander the Sahaabah concerning who them is no doubt that they are kaafirs, others who cannot be judged to be kaafirs, and others concerning whom there is some doubt regarding that. 

Al-Saarim al-Maslool ‘ala Shaatim al-Rasool, p. 590-591.   

 The reason for the scholarly dispute on this issue is if a person slanders a specific person it may be for some personal reason, or he may hate someone for a worldly reason etc. This does not imply that he is a kaafir. But undoubtedly if he hates one of the two Shaykhs because he was a companion of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), then this is kufr, and indeed hating any of the Sahaabah who was lower in status than two Shaykhs just because he was a companions of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) is also definitely kufr.  

Fataawa al-Subki, 2/575. 

https://islamqa.info/en/answers/45563/ruling-on-hating-the-sahaabah

 If abusing Sahaba is Kufr, then was Muaviya ibn Abu Sufiya a Kafir, as he made abusing of Sahabi Ali ibn Abu Talib mandatory in 41AH?

https://www.quora.com/If-abusing-Sahaba-is-Kufr-then-was-Muaviya-ibn-Abu-Sufiya-a-Kafir-as-he-made-abusing-of-Sahabi-Ali-ibn-Abu-Talib-mandatory-for-Alhe-Sunnah-wal-Jamaa-in-41AH

 


https://www.facebook.com/IslamiRevival

 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ

 🔰  تجديد الإسلام کی ضرورت و اہمیت 🔰


الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل (perfect) کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)

[1]  اسلام, دین کامل کے بنیادی اصول و ارکان جن کی بنیاد قرآن اور حدیث جبرئیل ہے ان میں قرآن اور تمام پہلی کتب انبیاء پر ایمان ضروری ہے، کسی اور کتاب کا کوئی زکر نہیں یہود کی تلمود اور مسیحیوں کی انجیل کے علاوہ تیئیس کتب کا بھی ذکر نہیں اور "کتب حدیث"  پر بھی ایمان  کا ذکر نہیں.  بلکہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی اور "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع کردیا :  اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے(قرآن 39:23)، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟) ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)،(الأعراف 7:185)

[2]   اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے ان رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو پہلے اتاردی اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا (قرآن :4:136) (2:285)

[3]  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و صاری) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں" [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]

[4]   خلفاء راشدین نے بھی کتب حدیث مدون نہ کیں، صرف قرآن مدون کیا ،  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں سنت خلفا راشدین پر سختی سے کاربند رہنے اور بدعة سے بچنے کا حکم فرمایا (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )

یہ کہنا کہ حدیث کی کتب تو بعد میں لکھی گیئں تو پھر بدعت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ کو مستقبل کا علم نہیں؟ علم ہے، اسی لیے قرآن، سنت و حدیث میں قرآن کے علاوہ کسی کتاب سے منع کر دیا گیا- یہ ہے قرآن کا معجزہ !

[5]  افسوس کہ قرآن ، سنت و حدیث رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے برخلاف پہلی  صدی کے بعد حدیث کی کتب لکھ کر نافرمانی و بدعة سے کامل دین اسلام کو "نا کامل" کرنے (زوال) کی کوششوں کا آغاز ہوا، نفاق ، فرقہ واریت نے مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا - یہ اللہ کی رسی قرآن کو نظر انداز کر انے سے ہوا: "اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا" (سورة الفرقان،25:30﴾

لہذا  تجديد الإسلام: ، بدعة سے پاک اسلام وقت کی اہم، ضرورت ہے تاکہ اسلام اپنی مکمل فکری، روحانی ، اخلاقی طاقت سے امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کر سکے- دعوہ اورمکالمہ کے ذریعہ پہلی صدی حجرہ کے اسلام "احیاء دین کامل" کی جدوجہد کریں-

حدیث  کے بیان و ترسیل  کا مجوزہ طریقہ

کلام الله، قرآن کو اس کی اصل حیثیت کے مطابق ترجیح کی بحالی کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کی اہمیت نہیں- “تجدید الاسلام” کی بنیاد "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" پر ہے-  ایک مسلمان اپنے محبوب اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب الفاظ، اقوال (احادیث) اور عمل (سنت) سے بھی محبت رکھتا ہے لیکن حقیقی محبت کا اظہار اطاعت  رسول اللہ ﷺ  ہے نہ کہ نافرمانی قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم “ کتب حدیث” کی ممانعت کرتے ہیں لیکن وہ احادیث جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیارکے مطابق ہوں ان کی ترسیل بذریعه حفظ و بیان مستحب اور باعث ثواب ہے- "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" کی روشنی میں حکمت اورعقل و شعور کا تقاضا ہے کہ  جب تک "اجماع"  قائم نہیں ہو جاتا، اتحاد امت (وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُو) کی خاطر بحالت مجبوری (اضْطُر) وضع موجود  (statues-que) میں اچانک تبدیلی نامناسب اقدام ہوگا- رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پر انفرادی طور پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور کچھ کو انکار- اس سے احادیث کے انفرادی طور پر ذاتی نوٹس بزریعہ قلم کاغذ یا ڈیجیٹل نوٹس کا جواز ممکن ہے- انتشار سے بچتےہوۓ انفرادی طور پر اصول دین کے مطابق ایمان کو درست رکھتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ معیارکے مطابق علماء اور ماہرین جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ درست احادیث کی ممکنہ ترسیل کا شرعی جائزہ لے سکتے ہیں- جبکہ اجماع کی پرامن فکری جدوجہد (Peaceful intellectual struggle) بزریعہ دعوه و مکالمہ بھی جاری رہے-

https://bit.ly/Tejdeed-Islam

http://SalaamOne.com/Revival

https://Quran1book.blogspot.com

https://Quran1book.wordpress.com

https://twitter.com/SalaamOne

پوسٹ لسٹ