رساله تجديد الاسلام (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ)

انڈکس رسالة التجديد

 قرآن کی روشنی میں انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی "رسالة التجديد" ہے- دین ...

قادیانی دلائل کے جوابات


قادیانی نبوت کی دو اقسام کا عقیدہ رکھتے ہیں مشروع، یعنی "شریعت والی نبوت" جو کہ حضرت محمد رسول اللهﷺ پر ختم ہو گی مگر امت محمدیہ میں "ظلی یا بروزی نبوت" جاری ہے ختم نہیں ہوئی-
جب ان سے "قرآن و سنت" سے "نبوت کی ان دو اقسام" کا ثبوت مانگا جاتا ہے تو وہ کوئی ریفرنس پیش نہیں کر سکتے کیونکہ قرآن (33:40) اور احادیث میں یہ واضح ہے کہ نبوت ختم ہو چکی رسول اللہ ﷺ نے واضح کر دیا کہ وہ خود عمارت نبوت میں آخری اینٹ تھے ، وحی ، الہام وغیرہ بھی ختم اب صرف مبشرات یعنی سچے خواب باقی ہیں-
بات غیر تشریعی نبوت تک نہیں رہتی، بلکہ مرزا صاحب مسیح موعود، بروزی مسیح، مہدی اور بالآخر "فنا فی الرسول" ہو کر عین محمد ﷺ بن گئے( معازاللہ) اسی لے کلمہ تبدیل نہیں کرتے اور جو ان کا یہ زندیقہ عقیدہ قبول نہ کرے اسے پکا کافر ، جہنمی ، فا حشہ ماں کی اولاد کی مغلظ گالی دیتے ہیں یہ سب کچھ مرزا کے اپنے بیانات اور تحریروں میں موجود ہے، مرزا کے پوتے مرزا طاہر کا اعتراف قومی اسمبلی کی 1974 کاروائی، ریکارڈ کا حصہ ہے۔
بجایے اس کے کہ قادیانی اپنی غلطی تسلیم کرکہ اللہ تعالی کا قرآن میں ختم نبوت کا حکم قبول کریں وہ حجت بازی میں سوال در سوال کرتے ہیں، کہتے ہیں :
اگر تو لفظوں کے پیچھے پڑ کر کج بحثی ہی کرنی ہے کہ ظل یا بروز کا لفظ قرآن کریم میں موجود نہیں تو پھر تو امتِ مسلمہ میں سب سے زیادہ جس عقیدہ پر زور دیا جاتا ہے وہ "توحید" کا عقیدہ ہے جو لفظی طور پر قرآن میں موجود نہیں۔کیا اس بنا پر اس کا انکار کردیں گے؟ اصل بات یہ ہے کہ لفظِ توحید موجود نہیں لیکن توحید کا مضمون موجود ہے- کلمہ "لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ" قرآن میں اس صورت میں کہاں ہے؟  تو کیا یہ  بھی آپ کو قابل ِ قبول نہیں ہو گا؟ اسی طرح قرآن کریم میں ظل اور بروز کا لفظ موجود نہیں مگر "ظل اور بروز کا مضمون" پایا جاتا ہے (کہاں؟ کوئی حوالہ نہیں دیتے)- یہ کہنا کہ حضرت مرزا صاحب نے ظل اور بروز کی اصطلاح خود ایجاد کی درست نہیں۔ احمدیوں کے مخالفین عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لئے اس قسم کا پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ اور عجیب بات ہے کہ جو علماء احمدیوں کے خلاف یہ پراپیگنڈا کرتے ہیں انہی کے بزرگوں کی کتابوں میں یہ اصطلاح بیان ہوئی ہے-پھرقادیانی ابن عربی سے لے کرشاہ ولی الله محدث دہلوی صاحب تک ان اصطلاحات کی تفصیلات بیان کرتے ہیں ، ان سب کے جوابات (محمدیہ پاکٹ بک (بجواب احمدیہ پاکٹ بک) میں دیے جا چکے ہیں ملاحضہ کر سکتے ہیں، یہ سب توجہ اصل مسلہ سے ہٹانے کو کوششیں پیں۔ بجائے انفرادی طور پر قدیم علماء و صوفیاء کی تحریروں کے تجزیہ و دفاع میں وقت ضائیع کیا جائے مناسب یہ ہے کہ اس موضوع کے موجد ابن عربی کی تحریروں کا تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان اصطلاحات پر بحث کرکہ اولیاء اللہ کو نبوت کے قریب لاتے ہیزن پھر نبوت کے لفظ کے استعمال کو منع کر دیتے ہیں کہ یہ سلسلہ ختم ہے اور اس سے غلطفہمی پیدا ہوتی ہے۔ قادئانی ابن عربی کی طرف سے بحث کے ابتدائی حصہ کو پکڑ کر اپنا مطلب نکالتے ہیں اور ابن عربی کی طرف سے لفظ نبوت کے استعمال کی ممانعت کوقادیانی چھوڑ دیتے ہیں - آدھا سچ !

 شیخ محیی الدین ابن عربی (1165–1240ء) نے اپنے عقیدہ کی جو وضاحت کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیضان ِ نبوت سے اس امت میں کمالات نبوت باقی ہیں، مبشرات (سچے خواب) بھی اجزاء نبوت میں سے ہیں اور محفوظ الہامات بھی کمالات نبوت میں سے ہیں، شریعت کے صافی چشمہ سے اجتہاد واستنباط کے ذریعے نئے نئے مسئلوں کی دریافت بھی کمالات نبوت میں سے ہے،

 لیکن اس کے باوجود "نبی" کا لفظ نہ سچے خواب دیکھنے والوں پربولا جائے گا، نہ صاحب کشف کاملین پر اور نہ ائمہ مجتہدین پر، اس امت سے نبی اور رسول کا لفظ ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا ہے، نیز شیخ ابن عربی کے نزدیک تشریعی نبوت کی اصطلاح اس نبی کے لئے استعمال کی گئی ہے جنہیں شریعت نے نبی کہا، اور یہ لفظ آپ کی عبارات میں اولیاء یا صاحبین مبشرات وغیرہ کے مقابلے میں آیا ہے، اور شیخ کے نزدیک غیر تشریعی نبوت کی ایک خاص اصطلاح ہے جو ولایت کے مترادف ہے اور انہوں نے یہ تصریح متعدد جگہ پر فرمادی ہے کہ کسی ولی کو مقام نبوت حاصل نہیں ہوسکتا، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ شیخ ابن عربی صرف لغوی طور پر اولیاء اﷲ کے الہامات ومبشرات کو نبوت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن-

 نہ کسی ولی کو نبی کی طرح مفترض الطاعۃ کہتے ہیں اور نہ ہی کسی ولی کے انکار کو کفر کہتے ہیں اور نہ ہی کسی ولی کو نبی یا رسول کے لفظ سے یا د کرنا ٹھیک سمجھتے ہیں، 

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی کے نام سے نہیں پکارا جاسکتا

شیخ ابن عربی ایک جگہ صاف طور پر لکھتے ہیں:’’وکذلک اسم النبی زال بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فانہ زال التشریع المنزل من عند اﷲ بالوحی بعدہ صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد "نبی" کسی پر نہیں بولا جاسکتا، کیونکہ آپ کے بعد جو وحی تشریعی صورت میں اﷲ کی طرف سے آتی ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہوچکی[13]۔ (الفتوحات المکیۃ، جلد 2 صفحہ 58 طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر)

ابن عربی کے مندرجہ بالا بیانات کی بنیاد پر ہی دوسرے بزرگان دین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا قادیانی حضرات ان میں تحریف کرکہ ، توڑ مروڑ کرکہ مرزا صاحب کی نبوت کا جواز گھڑتے ہیں یہ کذب کی بدترین مثال ہے کہ کسی پر بہتان تراشی کی جایے اور وہ بھی قرآن و سنت کے حکم کے خلاف (معاز الله )

مزید  تفصیل  >> ابن عربی ختم نبوت اور قادیانیت

*********

الله تعالی کا فرمان ہے:

"وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر گئے جو کچھ انہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے" (قرآن2:134 )

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)

معامله غیر تشریعی نبوت تک نہیں ٹھرتا، بلکہ قادیانی مرزا صاحب کو "فنا فی الرسول" بنا کرعین محمد ﷺ کہتے ہیں اور اسی لے کلمہ تبدیل نہیں کرتے اور جو یہ نہ قبول کرے اسے پکا کافر ، جہنمی ، فا حشہ ماں کی اولاد کی گالی دیتے ہیں یہ سب کچھ مرزا کے اپنے بیانات اور تحریروں میں موجود ہے، مرزا کے پوتے مرزا طاہر کا بیان قومی اسمبلی کی کاروائی، ریکارڈ کا حصہ ہے، ملاحضہ کریں :

قومی اسمبلی میں قادیانیت کا مقدمہ 

قادیانیت اور "فنا فی الرسول" کا غیر قرانی نظریہ


جواب در جواب
یھاں مکالمہ ختم نبوت کے موضوع پر ہو رہا ہے- قرآن نے ختم نبوت کاحکم دیا (33:40).  رسول اللہ ﷺ نے اس کی تشریح فرما کر یہ چیپٹرکلوز کر دیا- نبوت کی دو اقسام ظلی اور بروزی  قرآن یا کسی حدیث میں نہیں یہ صدیوں بعد صوفیاء کی ایجاد ہے مگر ابن عربی بھی آخر میں کسی غلط فہمی سے بچنے کے لیے لفظ نبوت کے استعمال سے منع کرتے ہیں- کسی صوفی بزرگ نے نبوت کا دعوی نہ کیا وہ اپنی ولایت میں خوش تھے- ان صوفیاء بزرگوں کی تاویلیں، تبصرے قرآن و حدیث کو منسوخ نہیں کرسکتے ان کی کوئی حیثیت نہیں- وہ اللہ کے پاس ہیں اور ان کا معامله بھی ہم دعا ہی کر سکتے ہیں- ہم اپنے عقائد کے ذمہ دار ہیں-
کلمہ قرآن و حدیث میں موجود ہے ، غلط بیانی سے پرہیز کرنا چاہیئے:
کلمہ قرآن میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.(الصافات، 37 : 35)،لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. (محمد، 47 : 19) مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ. (الفتح، 48 : 29)] کلمہ حدیث میں امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا : ”أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ ه ﷺ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ“ ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں آیات نازل کیں جن میں ایک سرکش قوم کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا: ﴿یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں تو یہ سرکشی کرنے لگتے﴾ ۔ اللہ تعالی نے مزید فرمایا: ﴿جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ہٹ دھرمی پیدا کرلی تو اللہ نے اپنے رسول اور مؤمنوں پر سکون نازل کیا اور انہیں تقوی کے کلمہ کا پابند کیا جو اس کے سب سے زیادہ حقدار اور لائق تھے﴾ اور یہ کلمہ ”لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ“ ہے جس سے مشرکین نے حدیبیہ کے دن سرکشی کی جب اللہ کے نبی ﷺ مدت کے سلسلے میں ان سے معاہدہ کیا“ [کتاب الاسماء والصفات للبیہقی:ـ ج 1ص263 رقم 195۔ مکتبة السوادی، جدة ،الطبعة الأولی ، وإسناده صحيح وأخرجه ايضا الطبري في تفسره (٢٢/ ٢٥٢)من طريق يحيى بن سعيد ، وأخرجه ايضا الحنائي في فوائده (1/ 154) و ابن منده في الإيمان (١/ ٣٥٩) كلاهما من طريق شعيب بن أبي حمزه كلهم (أسحاق بن يحيي و يحيي بن سعيد و شعيب بن أبي حمزه) عن الزهري به]
توحید اور قرآن و حدیث "توحید" کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینا، ایک (ون) کو عربی زبان میں "واحد" اور "احد" کہا جاتا ہے، واحد ، احد قرآن میں 147 مرتبہ ہیں- سہ حرفی جڑ واؤ حا دال (وح د) قرآن میں 68 بار چار ماخوذ شکلوں میں آتی ہے: 30 مرتبہ برائے نام واحد (وَاحِد), 31 مرتبہ برائے نام واحِدات (وَحِدَة), چھ بار بطور اسم وحد (وَحْد), ایک بار بطور اسم وحید (وَحِيد)
ذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ خَلَقۡتُ وَحِیۡدًا ﴿ۙ۱۱﴾ مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے (قرآن 74:11)
 جڑ (root) و ح د سے احد ، واحد ، وحید ، توحید نکلتے ہیں ، سیاق و سباق (context) پر منحصر ہے کہ کہاں، کس کا استعمال مناسب ہے- اسی لیے قرآن میں احد، واحد ، وحید، اللَّهَ وَحْدَهُ، توحید کے معنی کے طور پراستعمال ہونے اور احادیث میں ضروت کے مطابق توحید ، اہل توحید استعمال ہوا- مشہور عربی - انگریزی لغت میں یہ سب کچھ واضح ہو جاتا ہے:
اَلْوَحْدَۃُ کے معنی یگانگت کے ہیں اور واحدۃ درحقیقت وہ چیز ہے جس کا قطعاً کوئی جزء نہ ہو پھر اس کا اطلاق ہر موجود پر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ہر اسم عدد اس کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے جیسے" عَشْرَۃٌ وَاحِدَۃٌ (ایک عشرہ) مَائَۃٌ وَاحِدَۃٌ (ایک سو) اَلْفٌ وَاحِدٌ ایک ہزار پس وَاحِدٌ کا لفظ مشترک ہے جو چھ طرح پر استعمال ہوتا ہے۔ (۱) واحد بلحاظ جنس یا نوع کے جیسے کہا جاتا ہے کہ انسان اور فرس دونوں ایک ہی ہیں یعنی بلحاظ جنس ایک ہی ہیں یا زید اور عمرو ایک ہیں یعنی بلحاظ نوع کے ایک ہیں۔ (۲) واحد بالاتصال۔ یعنی کئی اجزاء مل کر ایک ہوجائیں عام اس سے کہ وہ اتصال۔خلقی ہو جیسے شخص واحد یا ضاعی ہو جیسے: حِرْفَۃٌ وَاحِدَۃٌ۔ (۳) یکتا اور بے نظیر خواہ وہ یکتائی بلحاظ خلقت کے ہو جیسے اَلشَّمْسُ وَاحِدَۃٌ یا بلحاظ دعوے فضیلت کے ہو جیسے فُلَانٌ وَاحِدُ عَصْرِہ:فلاں یکتائے روزگار ہے۔یا ھُوَ نَسِیْجُ وَحْدِہ) (وہ اپنی طرز کا) ایک ہے یعنی صاحب الرائے ہونے میں اس کا کوئی شبہ نہیں۔ (1) (۴) وہ جس میں تجزی ممتنع ہو خواہ وہ امتناع صغر حجم کی وجہ سے ہو،جیسے ذرہ یا صلابت کی وجہ سے جیسے الماس یعنی ہیرا۔ (۵) بمعنی مبدا آتا ہے خواہ وہ مبدائے اعداد ہو جیسے وَاحِدٌ اِثْنَانِ یا مبدء خط جیسے نقطہ۔ الحاصل:ان سب اقسام کو وحدۃ کے معنی عارض ہوتے ہیں لیکن (۶) جب واحد کا لفظ باری تعالیٰ پر بولا جاتا ہے جیسے اَﷲُ وَاحِدٌ تو اس سے مراد وہ ذات ہوتی ہے جس میں تجزی یا تکثر ناممکن ہو اور اس قسم کی وحدت چونکہ بمشکل ہی سمجھ میں آسکتی ہے۔اس لئے فرمایا:۔ (وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحۡدَہُ اشۡمَاَزَّتۡ قُلُوۡبُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ) (۳۹۔۴۵) اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہوجاتے ہیں۔ اَلْوَحْدُ کے معنی اکیلا کے ہیں اور غیر اﷲ کی صفت بھی واقع ہوتی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے (2) (البسیط) (۴۴۱) عَلٰی مُسْتَأْنِسِ وَحْد لیکن اَحَدٌ کا لفظ صرف اﷲ تعالیٰ پر ہی بولا جاتا ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے اور (ھُوَ نَسِیْجُ وَحْدِہ) کی طرح (فُلَانٌ لَا وَاحِدَ لَہٗ) کا محاورہ بھی مشہور ہے اور ذم کے لئے (ھُوَعُیَیْرُ وَحْدِہ یَا حُجَیْشُ وَحْدِہ) کہا جاتا ہے یعنی وہ کمزور رائے ہے اور جب معمولی سی مذمت کرنا مقصود ہوتی ہے تو (رُجَیْلُ وَحْدِہ) کہہ دیتے ہیں۔
توحید، الله تعالی کی وحدانیت کے نظریہ و عقیدہ (monotheism) کا مختصر عربی علمی نام ہے جو ایک مضمون کے طور پر ریفر کیا جاتا ہے- اللہ واحد ، احد کہنا کافی ہے-
توحید کا لفظ اسلام میں کسی عبادت کا حصہ نہیں، اگر اسے عام بات چیت میں نہ استعمال کریں تو جومتبادل الفاظ قرآن میں موجود ہیں [احد ، واحد ، وحید ، اللَّهُ أَحَدٌ] کافی ہیں- اس سے ثابت ہوتا ہے کہ "توحید" لفظ کا قرآن میں نہ ہونا اسلامی عقائد و ایمان پر کوئی اثرنہیں ڈالتا کیونکہ دوسرے متبادل الفاظ موجود ہیں لیکن احادیث میں لفظ توحید استعمال ہوا ہے- بھر حال یہ نبوت کی اقسام (تشریعی نبوت اور غیرتشریعی ، ضلی ، بزوری نبوت ) کے قرآن میں نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ نبوت کی اقسام کا قرآن میں کسی متبادل لفظ یا الفاظ میں بھی ذکر نہیں- حضرت موسی علیہ السلام کی درخواست پر ان کی مدد کے لیے ان کے برادر حضرت ہارون علیہ السلام  کو نبوت عطا فرمانا الله تعالی کی "منفرد خصوصی صوابدید" کا ایک نمونہ ہے الله نے نبوت کی اقسام بیان نہیں فرمائیں، جس کو بنیاد بنا کرلوگ اپنی طرف سے خود ساختہ اصول نہیں گھڑ سکتے -
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو اُنہوں نے علی بن ابی طالب کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور اُن کی فضیلت مینن یہ الفاظ اداء فرمائے:
 أَنْتَ مِنِّي بمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِن مُوسَى، إِلَّا أنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي (تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے) [ صحيح مسلم: كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب 4 /1870، ح2404 ]
یہ فرمان رسول اللہ ﷺ ختم نبوت کو واضح کر دیتا- جیسا کہ الله تعالی نے صاف صاف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پرسلسلہ نبوت کے اختتام کا حکم قرآن میں جاری فرما دیا (33:40). مزید حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے درجنوں احادیث میں مکمل وضاحت بھی فرما دی- کیونکہ قرآن اور احادیث میں صرف نبی اور رسول کا ذکر ہے ان کی درجہ بندی نہیں اس لیے جب نبوت رسالت کا خاتمہ ہوتا ہے تو خود بخود مکمل سلسلہ ختم نبوت ہو جاتا ہے- یہ بلکل صاف اور سیدھی بات ہے-
فرمان رسول ﷺ: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔
تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطابص، 3 / 1349، الحديث رقم : 3486، و في کتاب الأنبياء، باب أم حسبت أن أصحاب الکهف و الرقيم، 3 / 1279، الحديث رقم : 2382، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 583، الحديث رقم : 1261.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی محدَّث ان میں سے ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہے، ابن وہب نے کہا محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 26 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عمر، 4 / 1864، الحديث رقم : 2398، و الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب، 5 / 622، الحديث رقم : 3693، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 317، الحديث رقم : 6894، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 92، الحديث رقم : 4499، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 39، الحديث رقم : 8119.
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
الحديث رقم 27 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 619، الحديث رقم : 3686، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، و الحاکم في المستدرک، 3 / 92، الحديث رقم : 4495، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 17 / 298، الحديث رقم : 822، و الرویاني في المسند، 1 / 174، الحديث رقم : 223، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 356، الحديث رقم : 519.
سابقہ امتوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے تھے جو نبوت کی سی باتیں کرتے تھے اور اگر میری امت میں ایسا کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 28 : أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31972.
تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘
[الحديث رقم 29 : أخرجه الديلمي في المسند الفردوس، 3 / 278، الحديث رقم : 4839.]
لیکن جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ، وہ فتنے کی تلاش میں حجت بازی کرکہ ، اللہ اور رسول کے احکام کا انکار (کفر) کرتے ہیں- ان سے بحث لا حاصل ہے کیونکہ اللہ ایسے لوگوں کو گمراہی کے راستہ پر چھوڑ دیتا ہے ، ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کی پیروی کرتے ہیں-
توحید تعلیم میں ایک مضمون ہے جو تمام لوگ جو ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں ان کو توحید پرست ، توحیدی کہا جاتا ہے- مسیحی ، یہود ، سکھ اور دوسرے کئی مذہب اپنے آپ کو توحیدی (Monotheist) کہتے ہیں لیکن وہ مسلمان نہیں اورخاص طور پر مسیحت کا توحید کا نظریہ مشرکانہ ہے- اسلام توحید دوسروں کی توحید میں فرق ہے- اسی طرح بہت سے مضامین ہیں جو قرآن اور اسلامی تعلیم میں استعمال ہوتے ہیں ، توحید کی نس (جڑroot) قرآن میں موجود ہے قرآن بھرا پڑا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے لفظ توحید ، اہل توحید کا استعمال بھی کیا جو کہ احادیث میں موجود ہے، تفصیل آگے ہے-
"احد" اور "واحد" اللہ تعالیٰ کے الاسماء الحسنیٰ ہیں۔ یہی توحید ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾... ’’کہیے کہ اللہ ایک ہے۔‘‘ (سورة الإخلاص) اللہ تعالیٰ کے الواحد ہونے کا تذکرہ درج ذیل آیات میں ہے: (1) ﴿ءَأَربابٌ مُتَفَرِّقونَ خَيرٌ أَمِ اللَّهُ الو‌ٰحِدُ القَهّارُ ﴿٣٩﴾... (سورة يوسف) ’’بھلا کئی جدا جدا رب اچھے یا یکتا و بڑا غالب اللہ؟‘‘ (2) ﴿ قُلِ اللَّهُ خـٰلِقُ كُلِّ شَىءٍ وَهُوَ الو‌ٰحِدُ القَهّـٰرُ ﴿١٦﴾... (سورة الرعد) ’’کہہ دو کہ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور وہ یکتا و غالب ہے۔‘‘ (3) ﴿وَبَرَزوا لِلَّهِ الو‌ٰحِدِ القَهّارِ ﴿٤٨﴾... سورة ابراهيم ’’وہ سب یگانہ اور بڑے زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔‘‘ (4) ﴿ وَما مِن إِلـٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الو‌ٰحِدُ القَهّارُ ﴿٦٥﴾... سورة ص ’’اللہ یکتا و بڑے غالب کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (5) ﴿ هُوَ اللَّهُ الو‌ٰحِدُ القَهّارُ ﴿٤﴾... سورة الزمر ’’وہی اللہ یکتا، بڑا غالب ہے۔‘‘ (6) ﴿لِمَنِ المُلكُ اليَومَ لِلَّهِ الو‌ٰحِدِ القَهّارِ ﴿١٦﴾... سورة المؤمن ’’آج کس کی بادشاہت ہے؟ اللہ کی جو اکیلا اور بڑا غالب ہے۔‘‘ بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ کے " اله واحد" ہونے کا تذکرہ ملتا ہے، چند آیات ملاحظہ کریں: ﴿وَإِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ ...﴿١٦٣﴾... سورة البقرة ﴿ إِنَّمَا اللَّهُ إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ...﴿١٧١﴾... سورةالنساء ﴿وَما مِن إِلـٰهٍ إِلّا إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ...﴿٧٣﴾... سورة المائدة ﴿إِنَّما هُوَ إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ ...﴿١٩﴾... سورة الانعام ﴿أَنَّما إِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ...﴿١١٠﴾... سورة الكهف ﴿فَإِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ...﴿٣٤﴾... سورة الحج ﴿إِنَّ إِلـٰهَكُم لَو‌ٰحِدٌ ﴿٤﴾... سورة الصافات ﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدوا إِلـٰهًا و‌ٰحِدًا ... ﴿٣١﴾... سورة التوبة کفار و مشرکین توحید الہٰی سے بدکتے تھے، جبکہ انبیاء و رسل علیہم السلام لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے تھے اور اپنے ماننے والوں کو بھی توحید کا پرچار کرنے کی تلقین کرتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذا ذَكَرتَ رَبَّكَ فِى القُرءانِ وَحدَهُ وَلَّوا عَلىٰ أَدبـٰرِهِ:م نُفورًا ﴿٤٦﴾... سورة الإسراء ’’اور جب تم قرآن میں اپنے رب یکتا کا ذکر کرتے ہو تو وہ بدک جاتے ہیں اور پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں۔‘‘ ﴿وَإِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَحدَهُ اشمَأَزَّت قُلوبُ الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِالءاخِرَةِ ...﴿٤٥﴾... سورة الزمر ’’اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ذ‌ٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذا دُعِىَ اللَّهُ وَحدَهُ كَفَرتُم ...﴿١٢﴾... سورة المؤمن ’’یہ اس لیے کہ جب تنہا اللہ کو پکارا جاتا ہے تو تم انکار کر دیتے ہو۔‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں نے کہا تھا: ﴿وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَد‌ٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ ...﴿٤﴾... سورة الممتحنة ’’اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہو گیا یہاں تک کہ تم اس اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ۔‘‘ مذکورہ بالا آیات کے علاوہ بہت سی احادیث میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کرتے تھے۔ "لا الہ الا اللہ" توحید ہی تو ہے جس کی دعوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو پیش کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "يا أيها الناس قولوا لا إله إلاّ الله تفلحوا" ’’لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو، تم فلاح پا جاؤ گے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مناسک حج ادا کرتے ہوئے کوہ صفا پر چڑھے حتی کہ بیت اللہ نظر آنے لگا فكبر الله و واحده ’’تو آپ نے اللہ اکبر کہا اور اللہ کی توحید بیان کی۔‘‘ آپ نے یہ کلمات پڑھے: "لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيى و يميت وهو على كل شىء قدير لا اله الا الله وحده انجز وعده و نصر عبده وهزم الاحزاب وحده"(مسلم، الحج، حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ح 1218، ابوداؤد، المناسک، صفة حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ح: 1905) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، سلطنت اسی کی ہے، تعریف کا حقدار وہی ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد کی اور تمام گروہوں کو اُس اکیلے ہی نے پسپا کر دیا۔‘‘ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر الحرام (مزدلفہ) پر آئے تو بھی آپ نے اللہ کی توحید بیان کی۔ احادیث میں"التوحید" اور "اھل التوحید" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (يُعَذَّبُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ فِي النَّارِ) اہل توحید میں سے بعض کو آگ میں عذاب دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ کوئلہ ہو جائیں گے، پھر ان تک رحمت نازل ہو گی، انہیں باہر نکال کر جنت کے دروازوں پر پھینک دیا جائے گا۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت والے ان پر پانی ڈالیں گے، اور وہ اس طرح پھوٹیں گے جیسے سیلاب کا ملبہ پھوٹتا ہے، پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔“ (ترمذی 2597) عاص بن وائل سہمی نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی کہ وہ سو اونٹ نحر کرے گا (وہ فوت ہو گیا تو اس نے ایک بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ نحر کر دیے جبکہ (دوسرے بیٹے) عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) نے اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: (أَمَّا أَبُوكَ ، فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ ، فَصُمْتَ ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ ، نَفَعَهُ ذَلِكَ) ’’اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا تو تم اس کی طرف سے روزے رکھ لیتے اور صدقہ ادا کر دیتے تو یہ عمل اسے فائدہ دیتا۔‘‘ [ ابوداؤد (2883)، البیحقی (13013)]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا: (فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ تَعَالَى)’’سب سے پہلے انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا۔‘‘ (بخاري، التوحید، ما جاء فی دعا النبی امته الی توحید اللہ تبارک و تعالیٰ،ح: 7372، بیہقي 7/2) نیز محدثین اور شارحین حدیث نے توحید سے متعلق احادیث بیان کرتے وقت تبویب میں لفظ توحید اکثر استعمال کیا ہے۔ (من شهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له) حدیث پر مسلم (کتاب الایمان) میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے: الدلیل علم من مات علی التوحید دخل الجنة قطعا (ح: 28) ’’اس بات کی دلیل کہ توحید پر فوت ہونے والا شخص قطعی طور پر جنتی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (أَنَّ رَجُلًا لَمْ يَعْمَلْ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا قَطُّ إِلَّا التَّوْحِيدَ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ) (مسند احمد: 398/3، بسند حسن) نیز سیدہ یسیرہ سے مروی ہے: «عليكن بالتسبيح و التهليل والتقديس ولا تغفلن فتنسين التوحيد » (مستدرک حالم 547/1، بسند حسن) رسول اللہﷺنے فرمایا: (مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنَ الْعَمَلِ) (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاءباب قولہ تعالیٰ یا اھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم،ح:۳۴۳۵،صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علیٰ ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعاً،ح:۲۸)
قادیانی حضرات کے پاس اپنے بنیادی عقیدہ ایمان کی قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں، صوفیاء لے اقوال کو توڑ مروڑ کر حجت پکڑنے سے ایمان کو بنیاد ریت پر ہے جس کوئی شرعی حیثیت نہیں بلکہ قرآن اس سنت کے برخلاف ہونے کی وجہ سے دائمی عذاب ہے-

کیا ان لوگوں نے ایسے ( اللہ کے ) شریک ( مقرر کر رکھے ) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ( ابھی ہی ) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا یقیناً (ان ) ظالموں کے لیئے ہی دردناک عذاب ہے ۔(قرآن 42:21)
[وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ] {الأنعام:153} ” اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے ، سو اسی پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ تعالی کی راہ سے جدا کردیں گی ، نیز فرمایا : [ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ] {الجاثية:18} ” پھر ہم نے آپ کو دین کی راہ پر قائم کردیا سو آپ اسی پر جمے رہیں اور نادانوں کی خواہش کی پیروی نہ کریں ”

ز مَن بر صُوفی و مُلاّ سلامے

کہ پیغامِ خُدا گُفتَند ما را 

ولے تاویلِ شاں در حیرت اَنداخت

 خُدا و جبرئیلؑ و مصطفیؐ را 

میری جانب سے صُوفی ومُلاّ کو سلام پہنچے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچائے، لیکن انہوں نے اُن احکامات کی جو شرح، تاویل بیان کی،اُس نے اللہ تعالیٰ، جبرائیل ؑاور محمد مصطفیﷺ کو بھی حیران کر دیا۔(علامہ محمد اقبال)

ختمِ نبوت مضامین :https://bit.ly/KhatmeNabuwat

 قادیانی بے شمار دلائل اور ان کے جوابات 

محمدیہ پاکٹ بک (بجواب احمدیہ پاکٹ بک ) یونیکوڈ ٹیکسٹ 


References

  1. https://trueorators.com/quran-tafseاورer/33/40
  2. https://tanzil.net/#search/quran/احد
  3. https://urdufatwa.com/view/1/23371
  4.  قادنیت پر اکثر پوچھے جانےوالےسوالات اور جوابات (FAQs) 
  5. https://bit.ly/Muhammadiya-PocketBook 
  6. https://bit.ly/KhatmeNabuwat-eBook  
  7. https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Merits-and-Virtues-of-Sayyiduna-Umar-b-al-Khattab-R-A/read/txt/btid/239/
  8. https://ur.wikipedia.org/wiki/حدیث_منزلت
  9. https://sunnah.com/muslim/44/47-51
  10. https://shamilaurdu.com/hadith/ibn-e-maja/115/




☆☆☆ 🌹🌹🌹📖🕋🕌🌹🌹🌹☆☆☆
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
   Our mission is only to convey the message clearly

پوسٹ لسٹ